• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جو امور نماز میں کرنے جائز ہیں ان کا بیان

۱۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نماز میں دو کالوں یعنی سانپ اور بچھو کو مار ڈالو۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ، باب العمل فی الصلاۃ، ۱۲۹.)

۲۔ نماز میں بچے کو اٹھانا:
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ سیدہ زینب کی بیٹی سیدہ امامہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی) آپ کے کندھوں پر تھی۔ آپ سجدہ فرماتے تو امامہ کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اسے اٹھا لیتے۔
(بخاری، الصلاۃ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلوۃ، ۶۱۵۔ مسلم، المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلوۃ ۳۴۵.)

۳۔ سلام کا اشارے سے جواب دینا:
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے سلام کیا آپ نے (زبان سے کچھ کہے بغیر) دائیں ہاتھ کی انگلی کے اشارے سے سلام کا جواب دیا۔
(ابو داؤد، الصلوۃ، باب رد السلام فی الصلوۃ، ۵۲۹ و۷۲۹.)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے جواب دیا اور سلام پھیرنے کے بعد فرمایا
"ہم پہلے نماز میں سلام کا جواب (زبان سے) دیا کرتے تھے پھر ہمیں اس سے منع کر دیا گیا۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۷۱۹۲.)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں اس کو سلام کہوں جو نماز پڑھ رہا ہو اور اگر مجھے کوئی سلام کہے تو میں اس کو جواب دوں گا۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۱۲۲)

۴۔ چھینک آنے پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا:
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، دوران نماز میں چھینکا اور میں نے کہا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْداً کَثِیْراً طَیِّباً مُّبَارَکاً فِیْہِ مُبَارَکاً عَلَیہِ کَماَ یُحِبُّ رَبَّنَا وَیَرْضَی.‘‘
جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا:
’’نماز میں کلام کرنے والا کون تھا؟‘‘ تین بار آپ نے پوچھا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تھا، آپ نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تیس فرشتے اس کلمہ کو لے جانے کے لیے جلدی کر رہے تھے۔‘‘
(ترمذی: الصلاۃ، باب: ما جاء فی الرجل یعطس فی الصلاۃ: ۴۰۴، امام ترمذی نے حسن کہا۔)

۵۔ نماز میں چلنا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ کھڑے ہو کر نفل پڑھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ دروازہ بند تھا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے چل کر دروازہ کھولا پھر اپنی جگہ واپس آکر (نماز میں ) مشغول رہے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۱۳.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز کی مکروہات کا بیان

۱۔ کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب الخصر فی الصلاۃ، ۰۲۲۱۔ ومسلم، المساجد، باب کراھۃ الاختصار فی الصلاۃ، ۵۴۵.)

۲۔ جمائی لینا:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے حتی المقدور روکے کیونکہ اس وقت شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
(مسلم، الزھد، باب تشمیت العاطس و کراھیۃ التثاؤب، ۵۹۹۲.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’(جمائی کے وقت) ہا ہا (نہ کہو کیونکہ اس) سے شیطان خوش ہوتا ہے۔‘‘
(بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، ۹۸۲۳.)

۳۔ فرض اور سنت کے درمیان کلام نہ کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ایک صحابی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا بیٹھ جاؤ۔ اہل کتاب اس لیے برباد ہوئے کہ ان کی نماز میں فاصلہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب نے صحیح کہا۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۹۲۵۲.)
سیّدنا سائب بن یزید نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقصورہ میں جمعہ پڑھا۔ جب امام نے سلام پھیرا تو سیّدنا سائب نے کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: آئندہ ایسا نہ کرنا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملاؤ۔ ان (فرض اور سنت) کے درمیان کلام کرو یا جگہ تبدیل کرو۔‘‘
(مسلم، الجمعۃ، باب الصلاۃ بعد الجمعۃ، حدیث ۳۸۸.)
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’امام جس جگہ نماز پڑھ چکا ہے وہاں نماز نہ پڑھے بلکہ وہاں سے سرک جائے (یعنی جگہ تبدیل کر لے) ۔‘‘
(ابو داؤد: الصلاۃ، باب: الإمام یتطوع فی مکانہ: ۶۱۶.)

۴۔ نماز میں باتیں کرنا:
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نماز میں باتیں کیا کرتے تھے، پھر: (حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰتِ) (البقرہ ۸۳۲) نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ہوا اور بات کرنا منع ہو گیا۔
(بخاری، العمل فی الصلاۃ، باب ما ینھی من الکلام فی الصلاۃ، ۰۰۲۱۔ مسلم: ۹۳۵.)
لیکن اگر کوئی مسئلہ کی لا علمی کی وجہ سے گفتگو کر لے تو نماز باطل نہ ہو گی۔
سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے نماز میں کہہ دیا یر حمک اللہ۔ اس پر لوگوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میں نے کہا ہائے میری ماں مجھے گم پائے تم مجھے (غصے سے) کیوں دیکھ رہے ہو۔ اس پر انہوں نے اپنی رانوں کو اپنے ہاتھوں پر مارا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں۔ میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میں نے آپ جیسا معلم نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو۔ اللہ کی قسم نہ آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ سخت گفتگو کی بلکہ فرمایا بلا شبہ نماز میں گفتگو جائز نہیں ۔ نماز میں صرف اللہ کی تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہو نی چاہیے۔
(مسلم، المساجد، تحریم الکلام فی الصلاۃ،۷۳۵.)
اگر مسئلہ سے لا علمی کی بنا پر گفتگو سے نماز ٹوٹ جاتی تو آپ صحابی کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سجدۂ سہو کا بیان

سجدہ سہو سے وہ دو سجدے مراد ہیں جو نمازی نماز میں بھول کی وجہ سے سلام سے پہلے یا بعد میں کرتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم نماز پڑھتے ہو تو شیطان نماز میں شبہ ڈالتا ہے اور یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں اگر ایسا ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرو۔‘‘
(بخاری: السہو، باب: السہو فی الفرض والتطوع: ۲۳۲۱، مسلم: المساجد، باب: السہو فی الصلاۃ والسجود لہ: ۹۸۳.)
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ہر سہو کے لیے سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے ہیں ۔‘‘
(ابو داؤد، من نسی ان یتشھد وھو جالس۸۳۰۱.)

تین یا چار رکعات کے شک پر سجدہ :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تم میں سے کسی کو رکعات کی تعداد کے بارے میں شک پڑ جائے کہ تین پڑھی ہیں یا چار؟ تو شک کو چھوڑ دے اور یقین پر اعتماد کرے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ رکعات نماز پڑھی تھی تو یہ سجدے اس کی نماز (کی رکعات) کو جفت کر دیں گے اور اگر اس نے پوری چار رکعات نماز پڑھی تھی تو یہ سجدے شیطان کے لیے ذلت کا سبب ہوں گے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب السھو فی الصلاۃ والسجود لہ، ۱۷۵.)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص کو نماز میں یہ شک پڑ جائے کہ آیا اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو تو وہ اس کو ایک رکعت یقین کرے اور بقیہ نماز پوری کرے، اور جس کو یہ شک ہو کہ اس نے دو پڑھی ہیں یا تین تو وہ اس کو دو رکعت یقین کرے۔ اور پھر (آخری قعدے میں) سلام پھیرنے سے پہلے (سہو کے) دو سجدے کرے۔"
(ترمذی، الصلاۃ، باب: ما فیمن یشک فی الزیادۃ والنقصان، ۸۹۳۔ وابن ماجہ ، اقامۃ الصلاۃ، باب ما جاء فیمن شک فی صلاتہ فرجع الی الیقین، ۹۰۲۱۔ امام ترمذی، امام حاکم اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)

قعدہ اولیٰ کے ترک پر سجدہ:
سیدنا عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ظہر کی نماز پڑھائی۔ پس پہلی دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے۔ (قعدے میں) سہواً نہ بیٹھے پس لوگ بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ جب نماز پڑھ چکے (اور آخری قعدے میں سلام پھیرنے کا وقت آیا) اور لوگ سلام پھیرنے کے منتظر ہوئے (تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا۔
(بخاری، الاذان باب: من لم یر التشھد الاول واجبا، ۹۲۸، ومسلم:۰۷۵.)

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب کوئی آدمی دو رکعتوں کے بعد (تشہد پڑھے بغیر) کھڑا ہونے لگے اور ابھی پوری طرح کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے لیکن اگر پوری طرح کھڑا ہو گیا تو پھر نہ بیٹھے البتہ سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دو سجدے ادا کرے۔‘‘
(أبو داود: الصلاۃ، باب: من نسی أن یتشہد وہو جالس: ۶۳۰۱.)

نماز سے فارغ ہو کر باتیں کر چکنے کے بعد سجدہ:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا اور گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی سیّدنا خرباق رضی اللہ عنہ آپ کے پاس گئے اور آپ کے سہو کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے لوگوں کے پاس پہنچے۔ اور سیّدنا خرباق رضی اللہ عنہ کے قول کی تصدیق چاہی لوگوں نے کہا خرباق سچ کہتا ہے۔ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت اور پڑھائی۔ پھر سلام پھیرا اور دو سجدے کئے۔ پھر سلام پھیرا۔
(مسلم، المساجد، باب السھو فی الصلاۃ، ۴۷۵.)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا، بعض صحابہ (نماز پڑھ کر) مسجد سے باہر آگئے اور کہنے لگے کہ نماز کم ہو گئی، ایک صحابی سیّدنا ذو الیدین رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کیا آپ بھول گئے یا نماز کم ہو گئی، آپ نے فرمایا:
"نہ میں بھولا ہوں اور نہ ہی نماز کم ہوئی ہے، پھر آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کیا ذو الیدین سچ کہتا ہے۔ انہوں نے کہا ہاں! پھر آپ آگے بڑھے اور چھوٹی ہوئی نماز پڑھی پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا۔"
(بخاری، الصلاۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد: ۲۸۴، مسلم: ۳۷۵.)

جو شخص چار رکعت کی جگہ تین پڑھ کر سلام پھیر دے پھر جب اس کو معلوم ہو جائے کہ میں نے تین رکعت پڑھی ہیں تو خواہ وہ گھر بھی چلا جائے اور باتیں بھی کر لے تو پھر بھی وہ ایک رکعت جو رہ گئی تھی پڑھے گا اس کو ساری نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔

چار کی جگہ پانچ رکعات پڑھنے پر سجدہ:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز (سہواً) پانچ رکعات پڑھائی آپ سے پوچھا گیا :
کیا نماز میں زیادتی ہو گئی ہے؟ آپ نے فرمایا کیوں؟
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا
’’آپ نے ظہر کی پانچ رکعات پڑھائی ہیں‘‘
آپ قبلہ رخ ہوئے اور دو سجدے کئے پھر سلام پھیرا اور ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا:
’’میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں، میں بھی بھولتا ہوں جیسے تم بھولتے ہو، پس جب بھول جاؤں تو مجھے یاد دلایا کرو ۔‘‘
(بخاری، الصلوۃ، باب التوجہ نحو القبلۃ حیث کان، ۱۰۴، مسلم: ۲۷۵.)

سجدۂ سہو کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدے میں تشہد (درود) اور دعا پڑھنے کے بعد اللّٰہ أکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ پھر اٹھ کر جلسے میں بیٹھ کر دوسرا سجدہ کریں اور پھر اٹھ کر سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوں۔
سجدۂ سہو سلام سے قبل یا بعد کرنے کا ذکر تو احادیث میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ لیکن صرف ایک ہی طرف سلام پھیر کر سجدے کرنا اور پھر التحیات پڑھ کر سلام پھیرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، کیونکہ ترمذی (۵۹۳) کی روایت کو علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے شاذ کہا۔
محمد ابن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا سہو کے سجدوں کے بعد تشہد ہے انہوں نے جواب میں فرمایا کہ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تشہد کا ذکر نہیں ہے۔(بخاری: ۸۲۲۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز کے بعد مسنون اذکار

۱۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ختم ہونا تکبیر (اللہ اکبر کی آواز) سے پہچان لیتا تھا۔ (بخاری، الاذان باب الذکر بعد الصلاۃ، ۲۴۸ ومسلم:۳۸۵.)
یعنی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کا سلام پھیر کر اونچی آواز سے اللّٰہ اکبر کہتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ امام اور مقتدیوں کو نماز سے فارغ ہوتے ہی ایک بار بلند آواز سے (اللّٰہ اَکبر) کہنا چاہیے۔
۲۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز ختم کرتے تو فرماتے:
’’أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ۔‘‘
’’میں اللہ سے (گناہوں کی) بخشش چاہتا ہوں۔‘‘ (تین مرتبہ)۔
’’اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔‘‘
’’یا اللہ تو ہی سلامتی والا ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہے اے بزرگی اور عزت والے تو بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، ۱۹۵.)
تنبیہ۔ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اضافہ:
جس طرح دعائے اذان میں لوگوں نے اضافہ کر رکھا ہے اسی طرح اس دعا میں بھی لوگوں نے زیادتی کی ہوئی ہے۔ وہ زیادتی ملاحظہ ہو
اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں۔ آگے وَاِلَیْکَ یَرْجِعُ السَّلاَمُ حَیِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَاَدْخِلْنَا دَارَالسَّلاَمِکا اضافہ کر رکھا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ شروع اور اخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اور درمیان میں خود اپنی طرف سے دعائیہ جملے بڑھا کر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادتی کی ہوئی ہے۔ معاذ اللہ! کیا آپ یہ جملے بھول گئے تھے یا دعا ناقص چھوڑ گئے تھے جس کی تکمیل امتیوں نے کی ہے؟ اگر کوئی کہے کہ ان بڑھائے ہوئے جملوں میں کیا خرابی ہے ان کا ترجمہ بہت اچھا ہے، آخر دعا ہی ہے اور اللہ ہی کے آگے ہے؟ گزارش ہے کہ انسان اپنی مادری یا عربی زبان وغیرہ میں جو دعا چاہے اپنے مالک سے کرے، جو جملے چاہے دعا میں استعمال کرے، کوئی حرج نہیں۔ مگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی طرف سے الفاظ یا جملے زیادہ کرنے صحیح نہیں ایسا کرنے سے دین کی اصل صورت قائم نہیں رہتی۔
۳۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر (فرض) نماز کے بعد یہ ذکر پڑھنا نہ چھوڑنا:
’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلیٰ ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ.‘‘
’’اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔‘‘
(ابوداود، الوتر، باب فی الاستغفار: ۲۲۵۱، اسے امام حاکم، امام ذہبی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور امام نووی نے صحیح کہا۔ )
۴۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہتے تھے:
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ.
’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کوئی عطا کرنے والا نہیں اور دولت مند کو (اس کی) دولت تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘
(بخاری:۴۴۸ ومسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، ۳۹۵.)
۵۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد پڑھتے تھے:
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِﷲِ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَلاَ نَعْبُدُ اِلاَّ اِیَّاہُ لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وَلَہُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکافِرُوْنَ.‘‘
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ گناہوں سے رکنا اور عبادت پر قدرت پانا صرف اللہ کی توفیق سے ہے۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں ہر نعمت کا مالک وہی ہے اور سارا فضل اسی کی ملکیت ہے (یعنی فضل اور نعمتیں صرف اسی کی طرف سے ہیں)، اسی کے لیے اچھی تعریف ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اگرچہ کافر برا منائیں۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ، ۴۹۵)
۶۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آخر میں ان چیزوں سے اللہ کی پناہ چاہتے تھے:
’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِِ وَاَعُوْذُ بِکَْ اَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ عَذَابِ الْقَبْرِ.‘‘
’’اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اور اس بات سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے رذیل عمر کی طرف پھیر دیا جائے اور میں دنیا کے فتنوں اور عذاب قبر سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
(بخاری، الجھاد والسیر باب ما یتعوذ من الجبن ۲۲۸۲.)
۷۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس کے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں جو ہر (فرض) نماز کے بعد پڑھے:
’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘
’’اللہ (ہر عیب سے) پاک ہے‘‘۳۳ بار
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘
’’ساری تعریف اللہ کی ہے‘‘ ۳۳ بار
’’اللّٰہُ أَکْبَرُ‘‘
’’اللہ سب سے بڑا ہے‘‘ ۳۳ بار اور ایک بار پڑھے:
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ.‘‘
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اسی کے لیے ساری بادشاہت اور اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ،۷۹۵)
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص فرض نماز کے بعد (سُبْحَانَ اللّٰہِ) ۳۳ بار (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) ۳۳ بار اور (اَللّٰہُ اَکْبَرُ) ۳۴ بار کہے گا و ہ (ثواب یا بلند درجات سے) محروم نہیں ہو گا۔
(مسلم، ۶۹۵.)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (مسکین مسلمانوں نے) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول مال و دولت والے اجر لے گئے جو اعمال ہم کرتے ہیں ویسے ہی اعمال وہ کرتے ہیں ۔جبکہ وہ (اللہ کے راستے میں اپنا مال) خرچ کرتے ہیں لیکن ہم خرچ نہیں کر سکتے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں ایسا عمل نہ بتا دوں جس کے کرنے سے تم اپنے ان ساتھیوں کے برابر پہنچ جاؤ گے۔ تم ہر نماز کے بعد الحمد للہ ۳۳ بار، سبحان اللہ ۳۳ بار اور اللہ اکبر ۴۳ مرتبہ کہا کرو۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ،ما یقال بعد التسلیم، ۷۲۹.)
سیدنا یسیرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ اکبر، سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ پڑھنے کا حکم دیا اور یہ حکم دیا کہ انہیں انگلیوں کے پوروں پر گنیں کیونکہ ان سے پوچھا جائے گا اور یہ گواہی دیں گے ۔‘‘
(ابو داؤد، التسبیح بالحصی،۱۰۵۱.)
۸۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ہر (فرض) نماز کے بعد معوذات پڑھا کروں۔
(ابو داود: ۳۲۵۱ اسے امام حاکم، ذہبی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے صحیح کہا۔)
معوذات (اللہ کی پناہ میں دینے والی سورتیں) قرآن پاک کی آخری تین سورتوں (الاخلاص، الفلق، الناس) کو کہتے ہیں۔
(فتح الباری۹۸۷)
۹۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز کا سلام پھیرتے تو کہتے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعاً وَّرِزْقاً طَیِّبًا وَّعَمَلاً مُتَقبَّلًا.‘‘
(ابن ماجہ: إقامۃ الصلاۃ، باب: ما یقال بعد التسلیم: ۵۲۹)
’’اے اللہ! میں تجھ سے نفع دینے والے علم اور پاکیزہ رزق اور قبول کیے گئے عمل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
۰۱۔ سیدنا عمارہ بن شبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مغرب کی نماز کے بعد دس بار یہ الفاظ کہے:
’’لاَ إِلٰہَ إلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.‘‘
’’اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے فرشتے بھیجتا ہے جو صبح تک شیطان مردود سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھتا ہے، اور دس ہلاک کرنے والے گناہ اس سے دور کرتا ہے اس کے لیے دس مومن غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ہے۔‘‘
(ترمذی: الدعوات: ۴۳۵۳.)
۱۱۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کو بہشت میں داخل ہونے سے سوائے موت کے کوئی چیز نہیں روکتی۔‘‘
(السنن الکبری للنسائی عمل الیوم واللیلۃ ۸۲۹۹۔ اسے ابن حبان اور منذری نے صحیح کہا۔)
مطلب یہ ہے کہ آیۃ الکرسی پڑھنے والا موت کے بعد سیدھا جنت میں جائے گا۔
آیۃ الکرسی:
’’اَللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ وَلاَ یَؤُدُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.‘‘
(اللہ جو ساری کائنات کی حفاظت کر سکتا ہے کیا وہ ایک انسان یا اس کی کار کی حفاظت نہیں کرسکتا؟ یقیناً کر سکتا ہے پھر وہ اپنی حفاظت کے لیے جائز اسباب کے بجائے شرکیہ اسباب کیوں اختیار کرتا ہے؟ اس مقصد کے لیے مختلف کڑے اور انگوٹھیاں کیوں پہنتا ہے؟ دھاگے کیوں باندھتا ہے؟ اپنی گاڑی پر جوتے یا چیتھڑے کیوں لٹکاتا ہے؟ اے اللہ کے بندو! آیت الکرسی پڑھو، حفاظت میں رہوگے، یقیناً اللہ کی حفاظت ہی بہترین حفاظت ہے جس کا کوئی توڑ نہیں۔ (ع،ر)
’’اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے۔ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ وہ اونگھتا ہے نہ سوتا ہے۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کون اس کے پاس کسی کی سفارش کر سکتا ہے؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان سے پہلے گزرا اور جو کچھ ان کے بعد ہو گا۔ اور لوگ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے (معلوم نہیں کر سکتے) مگر وہ جتنا چاہتا ہے۔ (اتنا علم جسے چاہے دے دیتا ہے) اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے اور ان دونوں کی حفاظت اس کو تھکاتی نہیں ٗ وہ بلند و بالا ٗ بڑی عظمتوں والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص رات کو سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ لیتا ہے تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے محافظ مقرر کر دیا جاتا ہے اور طلوع فجر تک شیطان اس کے قریب نہیں آتا۔
(بخاری، الوکالہ باب اذا وکل رجلا:۱۱۳۲.)

دعا میں اپنی ہتھیلیاں منہ پر پھیرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر اور سیّدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم د عا کرتے تھے اور آخر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے منہ پر پھیرتے۔
(الادب المفرد للبخاری باب رفع الایدی فی الدعا:۱/۵۱۳ اسکی سند بخاری کی شرط پر صحیح ہے۔)

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا:
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے ثبوت میں کوئی مقبول حدیث نہیں ہے۔ نہایت تعجب کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال رہے، پانچوں وقت نمازیں پڑھائیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد نے آپ کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہ کرے۔ تو یہ اس کے بطلان کی واضح دلیل ہے۔
مولانا عبد الرحمن مبارکپوری کہتے ہیں اگر کوئی انفرادی طور پر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ لیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارا رب بڑا حیا کرنے والا اور سخی ہے، جب بندہ اس کے حضور ہاتھ اٹھاتا ہے تو انہیں خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔‘‘
(ابن ماجہ: الدعاء، باب: رفع الیدین فی الدعاء: ۵۶۸۳.)
امام ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن حجر رحمھم اللہ اور بہت سے علماء نے فرض نماز کے بعد مروجہ اجتماعی دعا کا انکار کیا ہے اور اسے بدعت کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو پانی کے استعمال میں اور دعا کرنے میں حد سے تجاوز کر یں گے۔‘‘
(ابو داود، الوتر، باب الدعاء، حدیث: ۶۹،۰۸۴۱، ابن ماجہ، الدعاء: ۴۶۸۳، اسے حاکم اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔)
دارلاافتاء الجنۃ الدائمۃ سعودی عرب ایک سوال کا جواب یوں دیتی ہے ’’نماز پنجگانہ اور سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر باقاعدگی کے ساتھ بلند آواز میں دعا کرنا بدعت منکرہ ہے۔ کیونکہ اس طرح دعا کرنا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام سے۔ جو شخص فرض نمازوں یا سنتوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا کرے وہ اہل سنت والجماعت کا مخالف ہے اور اس اجتماعی دعا کی مخالفت کرنے والے کو کافر کہنا یا یہ کہنا کہ وہ اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے جہالت، ضلالت اور حقائق کو مسخ کرنا ہے ۔‘‘ (فتاوی اسلامیہ، اول۷۱۴.)

اجتماعی دعا کی دلیل میں بیان کی جانے والی تمام روایات ضعیف ہیں تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو بندہ ہر نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا
کرے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں کو نامراد نہیں لوٹاتا۔(ابن السنی ۸۳۱.)
اس کی سند میں :
(الف) اسحاق بن خالد ہے جو منکر احادیث روایت کرتا ہے۔
(ب) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہفرماتے ہیں کہ (اس کا ایک اور راوی) عبدالعزیز بن عبدالرحمن کی خصیف سے بیان کردہ روایات جھوٹی اور من گھڑت ہوتی ہیں۔
(ج) خصیف کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سننا معلوم نہیں۔
(د) علاوہ ازیں اس روایت میں اجتماعی دعا کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
۲۔ سیدنا یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کا سلام پھیرا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ (فتاویٰ نذیریہ)
اس حدیث کی سند حسن ہے مگر مولانا عبید اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
’’کتب احادیث کے اندر اصل حدیث میں (وَرَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا) دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی۔ کے الفاظ موجود نہیں ‘‘علاوہ ازیں اس میں بھی اجتماعی دعا کا ذکر نہیں ہے۔
* کیا فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے؟ اس سلسلہ میں درج ذیل امور قابل غور ہیں:
۱: ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا مستقل عبادت ہے جو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے البتہ جن مواقع پر اسکا اہتمام کرنا سنت سے ثابت ہے ان کو ترجیح دی جائے گی۔
۲: جو عبادت ہر وقت جائز ہو اگر آپ اپنی سہولت کے لیے اسے کسی خاص وقت میں روزانہ کرنا چاہتے ہیں تو اصولی طور پر یہ بھی جائز ہے ارشاد نبوی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کو وہ عمل زیادہ محبوب ہے جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔‘‘ (مسلم: صلوۃ المسافرین، باب: فضیلۃ العمل الدائم من قیام اللیل وغیرہ/ حدیث ۲۸۷)
لیکن کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ تمام اوقات کو چھوڑ کر صرف ایک وقت کو عملاً فرض کا درجہ دے کر دوسرے مسلمانوں کو اس کا پابند بنائے کیونکہ جب شریعت نے اس وقت کو مسلمانوں پر مقرر نہیں کیا تو یہ کیوں کرے؟ مثلا اگر مختلف افراد روزانہ مختلف اوقات میں قرآن پاک کی مختلف سورتیں پڑھتے ہیں تو یہ جائز عمل ہو گا۔ لیکن اگر کوئی مولوی صاحب یہ دعوت دینا شروع کر دے ’’کہ تمام اہل اسلام روزانہ نماز فجر کے بعد بیس مرتبہ سورۃ القمر پڑھا کریں، اس کا یہ یہ ثواب ہے‘‘ پھر اس کے حلقۂ اثر میں آنے والے مسلمان واقعتا اس کی پابندی شروع کر دیں تو ان کا یہ عمل محتاج دلیل بن جائے گا، اگر شرعی دلیل میں اس کی صراحت آجائے تو سنت ہو گا ورنہ بدعت۔
۳: جو عبادت ہر وقت جائز ہو اگر آپ اسے کسی خاص موقع پر کرنا چاہتے ہیں تو احتیاطاً یہ معلوم کر لیں کہ کہیں اس موقع کے لیے شریعت نے کوئی فرض عائد کیا ہے تو پھر فرض ترک کر کے جائز کام میں لگے رہنا قطعاً جائز نہیں مثلا نماز با جماعت کھڑی ہو اور جس نے یہی نماز جماعت کے ساتھ پہلے نہیں پڑھی اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جماعت میں شامل ہونے کی بجائے سنتیں یا نوافل پڑھتا رہے۔ کوئی ورد، وظیفہ، دعا یا تلاوت کرتا رہے کیونکہ ان جائز نیکیوں کو مؤخر کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن موقع کے فرض کو بلاوجہ مؤخر کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۴: اگر اس خاص موقع کے لیے شریعت نے کوئی سنت مقرر کر رکھی ہے تو بھی جائز کام کو چھوڑ کر سنت کو ترجیح دی جائے گی۔ اگرچہ سنت فرض نہیں، اسے کیا جائے تو بہت زیادہ ثواب ہے اور اگر کسی وجہ سے کبھی چھوٹ جائے تو کوئی گناہ نہیں لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سنت چھوڑنے کے لیے نہیں بلکہ اپنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اسے اپنانا ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میری سنت کو ناپسند کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (بخاری، النکاح باب الترغیب فی النکاح، ۳۶۰۵، مسلم: ۱۰۴۱.)
اس کی مثال فرض نماز کے بعد (لا الہ الا اللہ) کا اجتماعی ورد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ (لا الہ الا اللہ) سب سے افضل ذکر ہے لیکن اسے کسی بھی وقت کرنا جائز ہے اور چونکہ فرض نماز کے بعد والا وقت بھی اوقات میں سے ایک وقت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص کسی فرض نماز کے بعد اپنے طور پر (لا الہ الا اللہ) کہہ دیتا ہے تو بالکل جائز ہے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرض نماز کے فورا بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور سنت کچھ اور ہے تو پھر ہر فرض نماز کے بعد ہمیشہ (لا الہ الا اللہ) کا ورد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس موقع کی سنت کو ختم کر دیا جائے کیونکہ (لا الہ الا اللہ) کا ورد مؤخر ہو سکتا ہے لیکن نماز کے بعد والے مسنون اذکار اور دعاؤں کو ہمیشہ مؤخر کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے، ویسے بھی کورس کی شکل میں بلند آواز سے (لا الہ الا اللہ) کے اجتماعی ورد کی پورے عہد نبوت میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
۵: یاد رکھئے! ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا یہ نہ تو فرض نماز کا حصہ ہے اور نہ ہی بعد والے مسنون اذکار کا حصہ ہے۔ اس لیے اس کا دائمی اہتمام کرنا درست نہیں ہے کیونکہ فرض نماز ایک الگ عبادت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا ایک الگ عبادت ہے اور جب کسی شرعی دلیل کے بغیر دو الگ الگ عبادتوں کو ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ ہمیشہ ایک ساتھ ادا کیا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ معلوم ہوں حتیٰ کہ ایک کے بغیر دوسری کو نامکمل سمجھا جانے لگے۔ نیز ایک شرعی مسئلے کی طرح لوگوں کو اس کی دعوت، ترغیب اور تعلیم دی جائے۔ جو شخص ان عبادات کو اس طریقے کے مطابق ادا نہ کرے اسے منکر اور گستاخ کے القابات سے نوازا جائے تو آپ راہ سنت سے بھٹک جائیں گے کیونکہ جب مختلف عبادات کو اپنی مرضی سے یکجا کرکے ایک نیا طریقہ رائج کیا جائے گاتو وہ سنت نہیں رہتا، بدعت بن جاتا ہے۔
۶: بات اصول کی ہے جو کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ضروری بھی ہو اور اسے کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو پھر بھی پورے عہد نبوت میں اسے کوئی نہ کرے مگر ہم نہ صرف خود اسے ہمیشہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں تو وہ بلا شبہ بدعت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عہد نبوت میں فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کا اہتمام کرنے میں کوئی رکاوٹ تھی؟ یقیناً نہیں تھی ، پھر بھی اگر کسی فرض نماز کے بعد اس کا کبھی اہتمام نہیں کیا گیا تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کا اہتمام نہ کرنا سنت ہے کیونکہ ناممکن ہے کہ ایک چیز دین بھی ہو اور عہد نبوت میں کر سکنے کے باوجود اسے کوئی نہ کرے یا اسے کیا گیا ہو مگر مقبول احادیث کے وسیع ذخیرے میں وہ کسی کو کہیں نظر نہ آئے۔
۷: انسان فطرتا سہولت پسند ہے، اسے مسنون دعائیں یاد کرنا ’’گراں‘‘ گزرتا ہے اور چونکہ اس کی ’’مصروفیات‘‘ بھی بہت زیادہ ہیں لہٰذا وہ فرض نمازوں کے بعد یکسوئی کے ساتھ پانچ، چھ منٹ نہیں نکال سکتا لہٰذا اس سنت سے پہلو بچانے کے لیے اس کا متبادل ایجاد کر لیا گیا یعنی ’’مولوی صاحب سلام پھیرتے ہی ہاتھ اٹھائیں چند مسنون و غیر مسنون الفاظ پر مشتمل چھوٹے چھوٹے جملے بولیں اور منہ پر ہاتھ پھیر کر تمام نمازیوں کو ’’فارغ‘‘ کر دیں جس کے بعد وہ سب (مسنون اذکار پڑھے بغیر) اٹھ کھڑے ہوں۔‘‘
درحقیقت یہ دعا نہیں، رسم ہے جو انتہائی نیک نیتی سے ہر فرض نماز کے بعد ادا کی جاتی ہے اور اس طرح غیر شعوری طور پر ایک سنت کو مٹانے کا گناہ کیا جا رہا ہے۔ افسوس کہ لوگوں کو بدعتوں پر عمل کرنے کے لیے تو بڑا وقت مل جاتا ہے مگر سنت کو اپنانے کے لیے وقت نہیں ملتا، جو شخص بدعت کی تردید کرے اسے سرے سے دعا ہی کا منکر بنا دیا جاتا ہے جبکہ سنت کا تارک، اھل السنۃ والجماعۃ !!!
۸: فرض نمازوں کے بعد مسنون اذکار اور دعاؤں کو چھوڑ کر ان کے متبادل کے طور پر (لا الہ الا اللہ) کے اجتماعی ورد اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کو اس لیے بھی رواج دیا گیا ہے کہ یہ ہمارے مسلک کی علامت اور پہچان بن جائیں۔ کیا کسی مسلک کے تحفظ کے لیے شرعی مسائل و احکام کے ساتھ اس طرح کھیلنا جائز ہے! اسلام کا حکم کیا ہے! فرقہ واریت کو مٹایا جائے یا اسے فروغ دیا جائے؟
خلاصہ یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا فی نفسہ جائز ہے لیکن اس کا ٹکراؤ ایک سنت سے ہو رہا ہے لہٰذا اسے اپنا معمول نہیں بنانا چاہیے کیونکہ سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس بات کا زیادہ حق رکھتی ہے کہ وہ ہر کلمہ گو مسلمان کا معمول ، مسلک اور پہچان بنے۔
لہٰذا ہمیں عموما انہی اذکار اور دعاؤں پر اکتفا کرنا چاہیے جن پر ہمارے پیارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ اکتفا کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے، آمین۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز با جماعت

فضیلت:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
"جو شخص اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن مسلمان ہو کر ملاقات کرنا چاہتا ہے تو اسے نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے، ان ہدایت کے طریقوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس مسجد میں نماز ادا کی جائے جس میں اذان دی جاتی ہے۔ اور اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھو گے جیسے (جماعت سے) پیچھے رہنے والا شخص اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے تو تم اپنے نبی کریم کی سنت چھوڑ دو گے اور اگر نبی کریم کی سنت چھوڑو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور جب کوئی شخص اچھا وضو کر کے مسجد جائے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے، ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک برائی مٹا دیتا ہے۔ جماعت سے، سوائے کھلے منافق کے کوئی پیچھے نہیں رہتا۔ بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیے آتا تھا۔‘‘
(مسلم، المساجد، باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدی، ۴۵۶.)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اکیلے شخص کی نماز سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ستائیس (27) درجے زیادہ (ثواب) رکھتا ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان بابفضل صلاۃ الجماعۃ، ۵۴۶، مسلم المساجد باب فضل صلاۃ الجماعۃ، ۰۵۶.)
سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کا باعث ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ مل کر پڑھنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے اسی طرح جتنے افراد زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔"
(ابو داؤد، الصلاۃ باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ، ۴۵۵.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقیناً اللہ تعالیٰ جماعت کی نماز سے بہت خوش ہوتا ہے ۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۲۵۶۱.)
سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے ابو درداء رضی اللہ عنہ کو خط لکھاکہ اے میرے بھائی مسجد کو لازم کر لو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"مسجد ہر متقی کا گھر ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۶۱۷. )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تکبیر اولیٰ کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے اللہ کے لیے چالیس دن جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، تکبیر اولیٰ کے ساتھ شامل ہوا اس کے لیے دو برائتیں لکھ دی جاتی ہیں آگ سے برات اور نفاق سے براءت۔‘‘
(ترمذی، الصلاۃ باب فی فضل التکبیر الاولی۱۴۲. )

جمعہ کے دن فجر کی نماز با جماعت کی فضیلت:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک جمعہ کے دن فجر کی نماز با جماعت افضل ہے۔
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۶۶۵۱. )

پہلی صف کا ثواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر لوگوں کو نماز کے لیے جلدی آنے کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں اگر انہیں عشاء اور صبح کی نماز (باجماعت) کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے بھی (مسجد میں) آئیں اور اگر انہیں پہلی صف کا ثواب معلوم ہو جائے تو وہ اس کے لیے قرعہ ڈالیں (کہ کون پہلی صف میں کھڑا ہو)‘‘
(بخاری: الأذان، باب: الصف الأول: ۱۲۷، مسلم: ۷۳۴. )
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف کے لیے تین مرتبہ استغفار کرتے اور دوسری صف کے لیے ایک مرتبہ۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ،فضل الصف المقدم،۶۹۹.)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پہلے اول صف کو پورا کرو۔ پھر اس کو جو پہلی کے نزدیک ہے، اگر کوئی کمی ہو تو آخری صف میں ہونی چاہیے۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف، ۱۷۶ اسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مردوں کی صفوں میں (ثواب کے لحاظ سے) سب سے بہتر اول صف ہے۔ اور سب سے بری آخری صف ہے اور عورتوں کی صفوں میں سے سب سے بری پہلی صف ہے اور سب سے بہتر آخری صف ہے۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ،باب تسویۃ الصفوف، حدیث ۰۴۴.)
امام نووی فرماتے ہیں:
’’یہ تب ہے جب خواتین بھی مردوں کے ساتھ نماز میں حاضر ہوں، کیونکہ اگر مرد آخری صف میں کھڑے ہوں اور ان کے متصل بعد خواتین کھڑی ہوں تو ان کا خیال ایک دوسرے کی طرف جا سکتا ہے۔ لیکن اگر مرد پہلی صفوں میں ہوں اور خواتین آخری صفوں میں ہوں جبکہ درمیان میں بچے ہوں تو پھر ایسا امکان نہیں رہے گا‘‘(ع،ر)
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نصیحت کی مجالس میں حاضر ہوا کرو امام کے قریب بیٹھا کرو۔ کیونکہ جو امام سے دور ہوتا رہتا ہے وہ جنت میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ اگرچہ اس میں داخل ہو جائے۔"
(ابو داؤد، الصلاۃ باب الدنو من الامام عند الموعظۃ :۸۰۱۱.)
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میرے قریب آؤ اور پہلی صف کو پورا کرو پھر دوسری صف والے تمہاری پیروی کریں جب لوگ پہلی صف سے پیچھے ہٹتے رہیں گے تو اللہ انہیں بھی پیچھے کر دے گا۔"
(مسلم، الصلاۃ، تسویۃ الصفوف،۸۳۴.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نابینا کو مسجد میں آنے کا حکم:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں ایک نابینا شخص (سیدنا عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ) آئے، انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا عذر پیش کر کے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت چاہی کیونکہ انہیں کوئی مسجد میں لیکر آنے والا نہیں تھا، تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی جب وہ واپس چلے تو آپ نے بلا کر پوچھا: اذان سنتے ہو؟ عبد اللہ نے کہا۔ جی ہاں! آپ نے فرمایا: ’’تو پھر نماز میں حاضر ہو۔‘‘
(مسلم، المساجد باب یجب اتیان المسجد علی من سمع النداء: ۳۵۶)
آنکھوں والے جو اذان سن کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں جاتے انہیں غور کرنا چاہیے کہ نابینا کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ مل سکی ۔

نماز باجماعت نہ پڑھنے پر وعید:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اذان سن کر مسجد میں جماعت کے لیے بغیر کسی عذر کے نہ پہنچے (اور گھر میں نماز پڑھ لے) تو اس سے نماز قبول نہیں کی جاتی۔‘‘
(ابن ماجہ المساجد، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ: ۳۹۷.)
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے پس جماعت کو لازم پکڑو۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ، ۷۴۵ اسے امام حاکم ۱/ ۶۴۲ ابن خزیمہ، ابن حبان، ذہبی اور امام نووی نے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیے کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دوں جو نماز (جماعت) میں حاضر نہیں ہوتے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب وجوب صلاۃ الجماعۃ، ۴۴۶، ومسلم ۱۵۶.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہاری عورت مسجد جانے کی اجازت مانگے تو اسے ہرگز منع نہ کرو۔‘‘
(بخاری، الاذان باب استئذان المراۃ زوجھا بالخروج الی المسجد، ۳۷۸ ومسلم: ۲۴۴.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اپنی عورتوں کو (نماز پڑھنے کے لیے) مسجد آنے سے منع نہ کرو، اگرچہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد، ۷۶۵ امام حاکم، امام ابن خزیمہ اور امام ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسجد میں خواتین کے لیے نماز پڑھنے کا ہر ممکن انتظام ہونا چاہیے، و اللہ اعلم (ع،ر)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورتوں کی بہترین مسجد ان کے گھر ہیں۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۶۹۳۱.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عورت کا کمرے میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ اور اس کا کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کھلے مکان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
(ابوداود، الصلاۃ، باب التشدید فی ذلک، ۰۷۵ اسے امام حاکم ۹۰۲ ابن خزیمہ ۸۸۶۱، اور امام ذہبی نے صحیح کہا۔ )

مسجد آنے والی عورت کے لیے احکام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت مسجد میں آنا چاہے وہ خوشبو نہ لگائے۔
(مسلم، الصلاۃ، باب خروج النساء الی المساجد حدیث۳۴۴.)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ خروج النساء الی المساجد۴۴۴.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی وہ کیفیت دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھی ہے تو وہ یقیناً انہیں مسجدوں سے اسی طرح روک دیتے جیسے بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روکا تھا۔
(بخاری، الاذان، انتظار الناس قیام الامام العالم۹۶۸، مسلم، المساجد،۵۴۴.)
مقصد یہ ہے کہ مسجد جانے والی خاتون ہر اس کام سے پرہیز کرے جس سے وہ لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن سکتی ہو۔ (ع،ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صفوں میں مل کر کھڑا ہونے کا حکم:
قرآن حکیم میں ہے:
(وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ) (البقرۃ: ۳۴)
’’اور نماز قائم کرو‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی صفوں کو برابر کرو، بلاشبہ صفوں کا برابر کرنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔ ‘‘
(بخاری: ۳۲۷ ومسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف، ۳۳۴.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صفوں کو سیدھا کرو کیونکہ صف کو سیدھا کرنا نماز کے حسن میں سے ہے۔‘‘
(بخاری، الاذان باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ ، ۲۲۷، مسلم: ۵۳۴.)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اس طرح صف بندی کیوں نہیں کرتے جس طرح فرشتے کرتے ہیں۔‘‘
ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول فرشتے اپنے رب کے پاس کس طرح صف بندی کرتے ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وہ پہلی صف کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑا ہوتے ہیں ۔‘‘
(مسلم، الصلاۃ، الامر بالسکون فی الصلاۃ،۰۳۴.)
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو ایسا برابر کرتے گویا ان کے ساتھ تیروں کو برابر کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ ہم نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے صفوں کا سیدھا کرنا سمجھ لیا۔ ایک دن آپ (جماعت کے لیے) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہنے کو تھے کہ ایک شخص کو دیکھا اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا۔ پس فرمایا:
’’اپنی صفوں کو برابر اور سیدھا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تم میں اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
(بخاری: الأذان، باب: تسویۃ الصفوف عند الإقامۃ: ۷۱۷، مسلم: ۶۳۴.)
مذکورہ حدیث کی رو سے صفوں کا سیدھا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اقامت ہو چکنے کے بعد جب صفیں سیدھی درست اور برابر ہو جائیں تو پھر امام کو تکبیر اولیٰ کہنی چاہیے۔ خبردار! صفیں ٹیڑھی نہ ہوں کہ صفوں کا ٹیڑھا پن باہمی پھوٹ، دلوں کے اختلاف اور باطنی کدورت کا موجب ہے۔
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو اور صفوں کے درمیان نزدیکی کرو، (یعنی دو صفوں کے درمیان فاصلہ نہ چھوڑو) اور گردنیں برابر رکھو۔ (یعنی سب برابر جگہ پر کھڑے ہوؤ کہ گردنیں برابر ہوں)۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تحقیق میں شیطان دیکھتا ہوں جو صفوں کے شگافوں میں داخل ہوتا ہے گویا کہ وہ بکری کا سیاہ بچہ ہے۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف، ۷۶۶۔ اسے امام ابن حبان اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا۔)
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کرکے فرمایا:
’’لوگو! اپنی صفیں سیدھی کرو۔ لوگو! اپنی صفیں درست کرو۔ لوگو! اپنی صفیں برابر کرو۔ سنو! اللہ کی قسم اگر تم نے صفیں سیدھی نہ کیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف اور پھوٹ ڈال دے گا۔ پھر تو یہ حالت ہو گئی کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنا، گھٹنے سے گھٹنا اور کندھے سے کندھا چپکا دیتا تھا۔‘‘
(ابو داود، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف، ۲۶۶۔ ابن حبان(۶۹۳) نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صفوں کو سیدھا کرو اور آپس میں نزدیک نزدیک کھڑے ہو تحقیق میں تمہیں پس پشت بھی دیکھتا ہوں‘‘ (یہ آپ کا معجزہ تھا)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص (صفوں میں) اپنا کندھا دوسرے کے کندھے سے اور اپنا قدم دوسرے کے قدم سے ملا دیتا تھا۔
(بخاری، الاذان باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف ۵۲۷، مسلم: ۴۳۴)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف کے اندر آتے، ہمارے سینوں اور کندھوں کو برابر کرتے اور فرماتے تھے:
’’آگے پیچھے مت ہوؤ۔ (ورنہ) تمہارے دل بھی مختلف ہو جائیں گے‘‘
اور فرماتے تھے:
ان اللہ عزوجل و ملائکتہ یصلون علی الصفوف الاول
’’تحقیق اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے (رحمت کی) دعا کرتے ہیں۔‘‘
(ابو داود، ۴۶۶۔ مستدرک حاکم، امام ابن حبان، امام ابن خزیمہ اور امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو برابر کرتے تھے جب صفیں برابر ہو جاتیں تو (پھر) آپ اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کرتے۔
(ابو داود، ۵۶۶.)

صفوں کو ملا نے کا اجر:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر رحمت و برکت بھیجتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں اور جس شخص نے خالی جگہ کو پر کیا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک درجہ بلند کرے گا۔
(ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ،اقامۃ الصفوف،۵۹۹.)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جس کے کندھے نماز میں نرم رہتے ہیں۔ کوئی قدم اجر کے لحاظ سے اس قدم سے بڑھ کر نہیں جو صف کی خالی جگہ پر کرنے کے لیے بڑھا۔"
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۳۳۵۲.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص نے خالی جگہ کو پر کیا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا اور اس کے درجات بلند کرے گا۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی۲۹۸۱.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صف کو کاٹنے کی سزا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صفوں کو قائم کرو، کندھے برابر کرو، (صفوں کے اندر) ان جگہوں کو پر کرو جو خالی رہ جائیں، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ، صفوں کے اندر شیطان کے لیے جگہ نہ چھوڑو۔ اور جو شخص صف ملائے گا اللہ بھی اسے (اپنی رحمت سے) ملائے گا، اور جو صف کو کاٹے گا اللہ بھی اپنی رحمت سے اس کو کاٹ دے گا۔‘‘
(ابوداود ۶۶۶۔ اسے امام حاکم، امام ابن خزیمہ، امام ذہبی او رنووی نے صحیح کہا۔)
اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جانے کا یہ مطلب ہے کہ اگر صف درست کرنے کے لیے کوئی تم کو آگے یا پیچھے کرے تو بڑی نرمی اور محبت سے آگے یا پیچھے ہو جاؤ۔ اگر صف سے کوئی نکل کر چلا جائے تو اس کی جگہ لے کر صف کو ملاو، اللہ تم پر رحمت کرے گا۔ صف کے اندر (جان بوجھ کر) ایک دوسرے سے دور دور کھڑے ہونا صف کو کاٹنا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ اپنی رحمت سے دور کرے گا۔ مقتدی کو امام کی طرف ملنا چاہیے اگر دوسرا ساتھی نہیں ملتا تو وہی گناہ گار ہو گا دونوں طرف ملنے کی کوشش میں ٹانگیں بہت زیادہ کھولنا درست نہیں، صرف امام کی طرف ملنا چاہے۔

صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا:
صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم دیا۔
(ابو داود، الصلاۃ باب الرجل یصلی وحدہ خلف الصف حدیث ۲۸۶۔ امام ابن حبان، امام احمد، اسحاق اور ابن حزم نے اسے صحیح کہا۔)
علامہ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص اس وقت پہنچے جب امام نماز کی حالت میں ہو اور صف میں اسے کہیں کوئی جگہ نہ ملے تو وہ انتظار کرے یہاں تک کہ کوئی دوسرا شخص آ جائے چاہے وہ سات سال یا اس سے زیادہ عمر کا بچہ ہی کیوں نہ ہو پھر اس کے ساتھ صف بنا لے ورنہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو جائے۔ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ صف میں کسی کو پیچھے کھینچے کیونکہ اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف ہے۔ صف سے آدمی کو پیچھے کھینچنے کی صورت میں خلاء پیدا ہو جائے گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہ ہے کہ صف کے خلاء کو پر کیا جائے۔
(فتاوی اسلامیہ، اول۴۵۳.)

ستونوں کے درمیان صفیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (ستونوں کے درمیان صفیں بنانے) سے بچتے تھے۔
(ابو داود، الصلاۃ باب الصفوف بین السواری، ۳۷۶۔ اسے امام ترمذی نے حسن جبکہ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔)
 
Top