• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز استخارہ کا بیان
جب کسی کو کوئی جائز امر در پیش ہو اور وہ اس میں متردد ہو کہ اسے کروں یا نہ کروں، یا جب کسی کام کا ارادہ کرے تو اس موقع پر استخارہ کرنا سنت ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام کاموں کے لیے اسی طرح استخارہ کی دعا سکھاتے تھے جس طرح قرآن حکیم کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’جب کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل ادا کرے پھر فارغ ہو کر یہ دعا پڑھے:
’’اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِیْ بِہِ.‘‘
’’اے اللہ! تحقیق میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصول خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں۔ تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں
(کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مہیا کر جہاں (کہیں بھی) ہو۔ پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنی حاجت بیان کرو۔‘‘
(بخاری: التہجد، باب: ما جاء فی التطوع مثنی مثنی: ۲۶۱۱.)
جب آپ یہ مسنون استخارہ کر کے کوئی کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور اس میں بہتری کی صورت پیدا کرے گا اور برائی سے بچائے گا۔
استخارہ رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں، سوائے اوقات مکروہہ کے۔
بعض لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے استخارہ کرواتے ہیں یہ روش ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے جس نے جگہ جگہ دوسروں کے لیے استخارہ کرنے والے سپیشلسٹ پیدا کر دیئے ہیں حالانکہ اپنے لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے کسی اور سے استخارہ کروانا صرف خلاف سنت ہی نہیں بلکہ کاہن اور نجومی کی تصدیق کرنے کے مترادف ہے خصوصاً جبکہ استخارہ کروانے والا اس نیت سے استخارہ کرواتا ہے کہ مجھے ان ’’بزرگوں‘‘ سے کوئی پکی خبر یا واضح مشاہدہ ملے گا جسے بعد میں وہ من و عن سچا جان کر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ حالانکہ استخارے کے لیے نہ تو یہ لازمی ہے کہ یہ سونے سے پہلے کیا جائے اور نہ یہ لازمی ہے کہ خواب میں کوئی واضح اشارہ ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ ضرورت مند خود استخارہ کرے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے گا مزید تسلی چاہتا ہے تو کسی اچھے شخص سے مشورہ کر لے پھر وہ جو کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس میں بہتری پیدا کرے گا ان شاء اللہ ۔ (محمد عبدالجبار)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز کسوف : (سورج اور چاند گرہن کی نماز)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو قدرت الٰہی کی دو نشانیاں ہیں، جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو حتیٰ کہ گرہن ختم ہو جائے۔‘‘ (بخاری، الکسوف، باب الصلاۃ فی کسوف الشمس، حدیث ۱۴۰۱، مسلم ۱۱۹.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’چاند اور سورج کا گرہن اللہ کی قدرت کے آثار ہیں۔ کسی کے مرنے، جینے (یا کسی اور وجہ) سے نمودار نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ (اپنے) بندوں کو عبرت دلانے کے لیے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفار اور یاد الٰہی کی طرف رجوع کرو۔‘‘
(بخاری، الکسوف، باب الذکر فی الکسوف ۹۵۰۱، ومسلم:۲۱۹.)
اہل جاہلیت کا عقیدہ تھا کہ سورج یا چاند اسی وقت گرہن ہوتے ہیں جب کوئی اہم شخصیت پیدا ہو یا وفات پائے یا دنیا میں کوئی اہم واقعہ رونما ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی باطل عقیدے کی نفی فرمائی۔ یعنی سورج یا چاند کے گرھن ہونے کا تعلق کائنات کے واقعات سے نہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت سے ہے اور وہ اللہ جو تمہارے سامنے انہیں بے نور کر سکتا ہے وہ قیامت کے قریب بھی انہیں بے نور کر کے لپیٹ دینے پر قادر ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرتے رہو۔ واللہ اعلم (ع، ر)
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا: ((الصلاۃ جامعۃ)) ’’نماز جمع کرنے والی ہے۔ (تمہیں بلا رہی ہے) (بخاری، الکسوف، باب النداء ب’’الصلاۃ جامعۃ‘‘ فی الکسوف، ۵۴۰۱، ومسلم، ۰۱۹.)

سورج گرہن کی نماز کا طریقہ :
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا۔ آپ نے باجماعت دو رکعات نماز پڑھائی۔ آپ نے سورۃ البقرۃ تلاوت کرنے کی مقدار کے قریب لمبا قیام کیا پھر لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھا کر لمبا قیام کیا۔
*پھر پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا۔ پھر (قومہ کر کے) دو سجدے کئے۔ پھر کھڑے ہو کر لمبا قیام کیا، پھر دو رکوع کئے پھر دو سجدے کر کے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا، پھر خطبہ دیا جس میں اللہ کی تعریف اور ثنا بیان کی اور فرمایا :
’’سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے ان کو گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو۔ (دوران نماز) میں نے جنت دیکھی، اگر میں اس میں سے ایک انگور کا خوشہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے رہتے اور میں نے دوزخ (بھی) دیکھی، اس سے بڑھ کر ہولناک منظر میں نے (کبھی) نہیں دیکھا۔ (اور) میں نے جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی عرض کیا گیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے (عورتیں زیادہ جہنم میں کیوں ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کفر کرتی ہیں عرض کیا گیا کیا اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں، اگر تو ایک مدت تک ان کے ساتھ اچھائی کرتا رہے پھر ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرے تو کہتی ہیں کہ میں نے تجھ سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘ (بخاری، الکسوف، باب صلاۃ الکسوف جماعۃ ۲۵۰۱۔ مسلم، ۷۰۹.)
اس سے معلوم ہوا کہ کسی محسن کی احسان فراموشی گناہ کبیرہ ہے۔ جب کسی بندے کی احسان فراموشی کبیرہ گناہ ہے تو جو خالق کی احسان فراموشی کرتا ہے اس کا گناہ کس قدر خطرناک ہو گا؟ اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین۔ (ع،ر)
*رکوع کے بعد قومہ کرنے کی بجائے دوبارہ قراءت شروع کر دینا ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے لہٰذا اس موقع پر نئے سرے سے فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی، واللہ اعلم [ع، ر]
سورج اور چاند کے گہنائے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ کے زمانے میں (ایک دفعہ) سورج گرہن ہوا تو آپ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں اہل خانہ میں سے کسی کا کرتہ لے لیا۔ بعد میں چادر مبارک آپ کو پہنچائی گئی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بھی مسجد میں گئیں اور عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ ان کی نیت بیٹھنے کی ہو گئی لیکن انہوں نے ادھر ادھر اپنے سے کمزور عورتوں کو کھڑے دیکھا تو وہ بھی کھڑی رہیں۔ (مسلم، الکسوف، باب ما عرض علی النبی V فی صلاۃ الکسوف من امرالجنۃ والنار: ۶۰۹.)
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سخت گرمی کے دن سورج گرہن ہوا، آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر نماز پڑھی۔ آپ نے اتنا طویل قیام کیا کہ لوگ گرنے لگے۔ (مسلم: ۴۰۹.)
آپ کا گھبرانا اللہ کے ڈر کی وجہ سے تھا۔ جب آپ اللہ کے پیارے نبی ہو کر گھبرا اٹھتے تھے تو افسوس ہے ان امتیوں پر جو بارہا گناہوں کے باوجود ایسے مواقع پر اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ (ع،ر)
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ مجھے (عورتوں کی صف میں کھڑے کھڑے) غش آ گیا۔ میں نے برابر میں اپنی مشک سے پانی لے کر سر پر ڈالا۔ (بخاری، الجمعۃ، باب من قال فی الخطبۃ بعد الثناء: (اما بعد) ۲۲۹، ومسلم: ۵۰۔۹.)
قارئین کرام غور فرمایا آپ نے! کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر انہماک اور اہتمام سے سورج گرہن کی نماز پڑھتے تھے، لیکن ہم نے کبھی اس نماز کی طرف توجہ نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے عورتیں بھی سورج گرہن کی نماز پڑھتی تھیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسجد میں سورج گرہن کی نماز باجماعت کا اہتمام کریں اور ہماری عورتیں بھی ضرور مساجد میں جا کر نماز میں شامل ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز استسقاء
اگر قحط سالی ہو جائے، مینہ نہ برسے تو اس وقت مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک دن تجویز کر کے سورج نکلتے ہی پرانے کپڑے پہن کر عاجزی اور گریہ زاری کرتے ہوئے آبادی سے باہر کسی کھلی جگہ میں نکلیں اور منبر بھی رکھا جائے۔
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرانے کپڑے پہنے، خشوع اور آہستگی سے چلتے ہوئے، عاجزی اور گریہ زاری کرتے ہوئے نکلے اور نماز (استسقاء) کی جگہ پہنچے۔"
(ابو داؤد، صلاۃ الاستسقاء، ۵۶۱۱۔ ترمذی،ابواب السفر، باب ماجاء فی صلاۃ الاستسقاء، ۷۵۵۔ امام ترمذی، امام ابن خزیمہ ،امام ابن حبان، امام حاکم اور امام نووی نے اسے صحیح کہا۔)
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قحط سالی کی شکایت کی تو آپ نے عید گاہ میں منبر رکھنے کا حکم دیا۔
جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا تو آپ نکلے اور منبر پر بیٹھے، اللہ کی بڑائی اور حمد بیان کی، پھر فرمایا:
’’تم نے اپنے علاقوں میں قحط سالی اور بر وقت بارش نہ ہونے کی شکایت کی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو حکم ہے کہ تم اس کو پکارو اور اس نے تمہاری دعا قبول کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘پھر فرمایا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ۔ اَللّٰہُمَّ أَنْتَ اللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِیُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ أَنْزِلْ عَلَیْنَا الْغَیْثَ وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّۃً وَّبَلَاغًا إِلٰی حِیْنٍ.‘‘
’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، بہت رحم کرنے نہایت مہربان ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ اے اللہ تو سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ تو سخی اور بے پرواہ ہے اور ہم تیرے محتاج اور فقیر (بندے) ہیں ہم پر بارش برسا اور جو بارش تو نازل فرمائے اسے ہمارے لیے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے کا ذریعہ بنا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو آہستہ آہستہ بتدریج اٹھاتے گئے حتیٰ کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جانب پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو پلٹا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور منبر سے نیچے تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھائی اسی لمحہ اللہ کے حکم سے آسمان پر بادل آیا اور برسا۔
(ابوداود، الاستسقاء، باب رفع الیدین فی الاستسقاء، ۳۷۱۱۔ امام حاکم ابن حبان اور حافظ ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے پہلے خطبہ دیا۔
(ابن خزیمۃ، جماع ابواب صلوٰۃ الاستسقاء باب الخطبۃ قبل صلوٰۃ الاستسقاء حدیث ۷۰۴۱.)

بارش کے لیے دعامیں ہاتھ اٹھانا:
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں اپنے دونوں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے، ہاتھوں کو دراز کیا، حتیٰ کہ بغلیں دکھائی دیں۔
(بخاری، الاستسقاء، باب رفع الامام یدہ فی الاستسقاء، ۱۳۰۱۔ مسلم۷( ۵۹۸).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے لیے دعا کر رہے تھے آپ کھڑے ہوئے تھے اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو چہرہ کے سامنے کیا ہوا تھا اور ہاتھ سر سے اونچے نہیں تھے۔
(ابوداود، الاستسقاء باب رفع الیدین فی الاستسقاء، ۸۶۱۱۔ امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
اس سے معلوم ہوا کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پاک باز صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اپنا سخی اور داتا صرف اللہ ہی کو سمجھتے تھے، وہ اسی کے در کے محتاج، اسی سے ڈرنے والے براہ راست اسی سے دعائیں مانگتے رہے۔ قرآن مجید نے بھی اسی عقیدے کی تعلیم دی ہے (فاطر ۵۳/۴۱ و ۵۱) لہٰذا ہم گناہ گاروں کو بھی چاہیے کہ کتاب و سنت کے مطابق صرف اللہ ہی کو اپنا سخی اور داتا مانیں اور اس سے براہ راست دعائیں مانگیں۔ یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور ان کی اطاعت کا تقاضا ہے۔ (ع، ر)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی۔
(مسلم صلاۃ الاستسقاء، باب رفع الیدین بالدعاء فی الاستسقاء: ۶۹۸.)

استسقاء کی دعائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:
’’اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا، اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا، اَللّٰہُمَّ أسْقِنَا.‘‘
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔‘‘
(بخاری، الاستسقاء: ۳۱۰۱.)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا کی:
" اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ آجِلٍ"
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، ہم پر ایسی بارش نازل فرما جو ہماری تشنگی بجھا دے۔ ہلکی پھواریں بن کر غلہ اگانے والی، نفع دینے والی ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والی، جلد آنے والی ہو نہ کہ دیر لگانے والی۔‘‘
(ابو داود: ۹۶۱۱۔ امام ابن خزیمہ امام حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش کے لیے دعا کرتے تو یوں فرماتے:
’’اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ‘‘
’’اے اللہ ! اپنے بندوں اور جانوروں کو سیراب کر، اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کر دے۔‘‘
(ابو داود: ۶۷۱۱) اس کی سند حسن ہے۔)

چادر کا پلٹنا:
صلوٰۃ استسقاء میں ایک اہم مسئلہ چادر کا پلٹنا ہے۔ سیّدنا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے عید گاہ کی طرف نکلے، آپ نے اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف کی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کرنے لگے پھر اپنی چادر کو پلٹا پھر ان کو دو رکعتیں نماز پڑھائی اور اس میں بلند آواز سے قراءت کی۔
(بخاری، الاستسقاء، باب کیف حول النبی V ظھرہ الی الناس، ۵۲۰۱ ومسلم ۴۹۸.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ چادر تھی آپ نے اس کا نچلا حصہ اوپر لانا چاہا مگر مشکل پیش آئی تو آپ نے اسے اپنے کندھوں پر ہی الٹ دیا۔
(ابو داود، صلاۃ الاستسقاء، حدیث ۴۶۱۱۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اسے صحیح کہا۔)
یعنی چادر پلٹتے وقت چادر کا دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر ڈال دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر چادر کو پلٹا، اس کے اندر کا حصہ باہر کی طرف کیا اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ چادروں کو پلٹا۔ (مسند احمد ۴/۱۴، ۹۷۵۶۱) ابن دقیق العید نے اسے صحیح کہا۔)

نماز استسقاء:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کی طرح لوگوں کو دو رکعتیں نماز استسقاء پڑھائی۔
(ترمذی، ابواب السفر، باب ماجاء فی صلوٰۃ الاستسقاء، ۸۵۵۔ ابو داؤد:۵۶۱۱ اسے امام ترمذی، امام ابن خزیمہ اور امام نووی نے صحیح کہا۔)
سیّدنا عبد اللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں (استسقاء) کی پڑھائیں اور ان میں تلاوت بلند آواز سے کی اور نماز استسقاء بغیر اذان اور اقامت کے پڑھائی۔
(بخاری، الاستسقاء، باب الدعاء فی الاستسقاء قائمًا: ۲۲۰۱.)
ابن بطال نے کہا کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز استسقاء میں اذان اور اقامت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز اشراق، چاشت، ضحی، صلاۃ الاوابین
ضحی کے معنی ہیں دن کا چڑھنا اور اشراق کے معنی ہیں طلوع آفتاب۔ پس جب آفتاب طلوع ہو کر ایک نیزے کے برابر بلند ہو جائے تو اس وقت نوافل کا پڑھنا نماز اشراق کہلاتا ہے۔ اسی کو چاشت کی نماز، نماز ضحی، اور صلاۃ الاوابین (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔
سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل قبا کے پاس آئے وہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اوابین کی نماز کا وقت وہ ہے جس وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں گرم ہوں۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ الاوابین حین ترمض الفصال:۴۴۱۔(۸۴۷)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والا ہی اشراق کی نماز کی حفاظت کرتا ہے اور یہی صلاۃ الاوابین ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۳۰۷. صحیح ابن خزیمہ:۷۵۱۱.)
مغرب اور عشا کے درمیان پڑھی جانے والی نماز کو جس روایت میں صلاۃ الأوابین کہا گیا ہے وہ روایت مرسل یعنی ضعیف ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’نماز ضحٰی کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزہ کے برابر بلند ہو جائے اور ظہر سے قبل زوال سے تھوڑی دیر یعنی تقریبا نصف گھنٹہ پہلے تک رہتا ہے۔ اور افضل وقت ضحٰی کا وہ وقت ہے جس وقت (گرمی کی شدت میں اضافہ کی وجہ سے) اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ (فتاویٰ اسلامیہ اول ص ۲۵۴.)

نماز اشراق کی فضیلت:
سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر آدمی پر لازم ہے کہ اپنے (جسم کے) ہر بند (جوڑ) کے بدلے صدقہ خیرات کرے۔ پس سبحان اللّٰہ کہنا صدقہ ہے، الحمد للّٰہ کہنا صدقہ ہے، لا الہ الا اللّٰہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور بری بات سے روک دینا بھی صدقہ ہے۔ اور ان سب چیزوں سے ضحی کی دو رکعتیں کفایت کرتی ہیں۔‘‘
(مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب صلاۃ الضحی و ان اقلھا رکعتان: ۰۲۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! اے آدم کے بیٹے خالص میرے لیے چار رکعتیں اول دن میں پڑھ (یعنی اشراق کی) میں تجھ کو اس دن کی شام تک کفایت کروں گا۔‘‘
(ابو داود، التطوع، باب صلاۃ الضحی، حدیث ۹۸۲۱ وترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی صلاۃ الضحی: ۵۷۴) حافظ ذہبی نے اسے حسن اور قوی الاسناد جبکہ امام ابن حبان نے صحیح کہا۔)
کفایت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تیرے کام سنواروں گا۔ واللہ اعلم (ع، ر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’جو شخص گھر سے باوضو نماز ضحی کے لیے نکلتا ہے تو اسے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے جانے والے کی مانند ثواب ملتا ہے ۔‘‘
(ابو داؤد الصلاۃ باب ما جا فی الفضل المشی الی الصلاۃ:۸۵۵.)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے حالانکہ آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا تھا، آپ اس بات سے ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کام کو کرنے لگ جائیں پھر وہ ان پر فرض ہو جائے۔‘‘
(بخاری: أبواب التہجد، باب: تحریض النبی علی صلاۃ اللیل: ۸۲۱۱، مسلم: ۸۱۷.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نماز چاشت کے فرض ہونے کا خوف ختم ہو گیا، جس خوف کی بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی چاشت کی نماز ادا کرتے اور کبھی نہ کرتے، اب یہ نماز ہمارے لیے مستحب ہے۔

نماز اشراق کی رکعتیں:
سیدہ معاذہ نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ضحی کی کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
"چار رکعتیں اور جس قدر اللہ تعالیٰ چاہتا آپ (اس سے) زیادہ (بھی) پڑھتے۔‘‘ (مسلم: ۹۱۷.)
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن غسل کیا اور آٹھ رکعات نماز ضحی پڑھیں۔
(بخاری، التھجد، باب صلاۃ الضحی فی السفر: ۶۷۱۱، و مسلم: الحیض، باب: تستر المغتسل بثوب: ۶۳۳.)
معلوم ہوا کہ چاشت (ضحی) کی رکعتیں دو، چار یا آٹھ ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"مجھے میرے پیارے دوست نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی، جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو نہیں چھوڑوں گا: ہر (عربی) مہینہ (میں 13، 14، اور 15) کے تین روزے، چاشت کی دو رکعتیں اور سونے سے پہلے وتر پڑھنا۔"
(بخاری، التھجد، باب صلاۃ الضحی فی الحضر، ۸۷۱۱، ومسلم: ۱۲۷.)

فجر کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور سورج نکلنے کے بعد دو رکعت پڑھنا:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی پھر سورج نکلنے تک بیٹھا اور اللہ کا ذکر کرتا رہا (سورج نکلنے کے بعد) دو رکعت نماز پڑھی اس کے لیے حج اور عمرہ کے برابر ثواب ہے‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پورے حج اور عمرہ کا، پورے حج اور عمرہ کا، پورے حج اور عمرہ کا۔‘‘
(ترمذی: ابواب السفر، باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس: ۶۸۵.)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی نماز ادا کرتے تو سورج کے طلوع ہونے تک مسجد میں بیٹھتے، جب سورج طلوع ہوتا تو آپ جانے کے لیے کھڑے ہوتے۔‘‘
(مسلم، المساجد باب فضل الجلوس فی مصلاہ بعد الصبح: ۰۷۶.)
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا۔ انھوں نے بہت زیادہ غنیمت حاصل کی اور پلٹ آئے۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ہم نے کوئی ایسا لشکر نہیں دیکھا جو اتنی جلدی پلٹنے والا اور اتنی بڑی غنیمت لانے والا ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’کیا میں تمہیں اس لشکر سے بھی زیادہ بڑی غنیمت لانے والے اور جلدی پلٹنے والے لشکر کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ آدمی جس نے اپنے گھر میں وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا پھر سکون کے ساتھ مسجد کی طرف گیا اور نماز فجر ادا کی پھر چاشت کی نماز پڑھی یہ جلدی واپس پلٹنے والا اور بڑی غنیمت لانے والا ہے۔‘‘
(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۱۳۵۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نماز تسبیح
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’اے چچا عباس! کیا میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا آپ کو کچھ عنایت نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کوئی تحفہ پیش نہ کروں؟ کیا میں آپ کو (درج ذیل عمل کی وجہ سے) دس اچھی خصلتوں والا نہ بنا دوں؟ کہ جب آپ یہ عمل کریں تو اللہ ذوالجلال آپ کے اگلے پچھلے، پرانے نئے، انجانے میں اور جان بوجھ کر کیے گئے تمام چھوٹے بڑے، پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے؟ (وہ یہ) کہ :
آپ چار رکعات نفل اس طرح ادا کریں کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں۔ جب آپ اس قرأت سے فارغ ہو جائیں تو قیام کی حالت میں ہی یہ کلمات پندرہ بار پڑھیں:
’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ.‘‘
پھر آپ رکوع میں جائیں (تسبیحات رکوع سے فارغ ہو کر) رکوع میں انہی کلمات کو دس بار دہرائیں۔ پھر آپ رکوع سے اٹھ جائیں اور (سمع اللہ لمن حمدہ سے فارغ ہو کر) دس بار یہی کلمات پڑھیں۔ پھر سجدہ میں جائیں (سجدہ کی تسبیحات اور دعائیں پڑھنے کے بعد) یہی کلمات دس بار پڑھیں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں (اور اس جلسہ میں جو دعائیں ہیں وہ پڑھ کے) دس بار انہی کلمات کو دہرائیں اور پھر (دوسرے) سجدے میں چلے جائیں۔ (پہلے سجدے کی طرح) دس بار پھر اس تسبیح کو ادا کریں۔ پھر سجدہ سے سر اٹھائیں (اور جلسۂ استراحت میں کچھ اور پڑھے بغیر) دس بار اس تسبیح کو دہرائیں۔ ایک رکعت میں کل 75 تسبیحات ہوئیں اسی طرح چاروں رکعات میں یہ عمل دہرائیں۔
اگر آپ طاقت رکھتے ہوں تو نماز تسبیح روزانہ ایک بار پڑھیں، اگر آپ ایسا نہ کر سکتے ہوں تو ہفتہ میں ایک بار پڑھیں۔ یہ بھی نہ کر سکتے ہوں تو مہینے میں ایک بار پڑھیں۔ یہ بھی نہ کر سکیں تو سال میں ایک بار، اگر آپ سال میں بھی ایک بار ایسا نہ کر سکتے ہوں تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھیں۔‘‘
(ابو داود، ابواب التطوع، باب صلاۃ التسبیح، ۷۹۲۱۔ ابن ماجۃ، اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی صلاۃ التسبیح، ۶۸۳۱، امام ابن خزیمۃ اور حاکم نے اسے صحیح کہا۔)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کثرت طرق کی بنا پر حسن درجہ کی ہے، شیخ البانی فرماتے ہیں کہ امام حاکم اور حافظ ذہبی نے اس حدیث کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ حق ہے کیونکہ اس کے بہت سے طرق ہیں۔ علامہ مبارک پوری اور شیخ احمد شاکر نے بھی اسے حسن کہا ہے۔ جبکہ خطیب بغدادی، امام نووی اور ابن صلاح نے اسے صحیح کہا ہے۔
نوٹ : نماز تسبیح میں تسبیحات، تشہد میں التحیات سے پہلے پڑھیں۔ بخلاف دوسرے ارکان کے۔
نماز تسبیح کے بعد پڑھی جانے والی دعا کی سند سخت ضعیف ہے اس کے راوی عبدالقدوس بن حبیب کو حافظ ہیثمی نے متروک اور عبد اللہ بن مبارک نے کذاب کہا ہے۔
یاد رہے کہ اس حدیث شریف میں نماز تسبیح کو باجماعت ادا کرنے کا ذکر نہیں ہے صرف انفرادی عمل کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا جان کو اس کی ترغیب دی ہے لہٰذا جو مسلمان نماز تسبیح ادا کرنا چاہے اسے چاہیے کہ پہلے نماز تسبیح کا طریقہ سیکھے، پھر اسے تنہائی میں اکیلا پڑھے۔ اور یہ رویہ بھی انتہائی مہلک ہے کہ بندہ فرض نمازوں پر تو توجہ نہ دے مگر نماز تسبیح (باجماعت) ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت بے تاب رہے، لہٰذا فرض نمازوں کے تارک کو پہلے سچی توبہ کرنی چاہیے پھر وہ نماز تسبیح پڑھے تو اسے یقیناً فائدہ ہو گا۔ ان شاء اللہ العزیز (ع، ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الصلاۃ التوبہ
سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب آدمی کوئی گناہ کرتا ہے، پھر وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے بخشش کا طالب ہوتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘
(أبو داود: الوتر، باب: فی الاستغفار: ۱۲۵۱، ترمذی: ۶۰۴، ترمذی نے حسن کہا۔)

لیلۃ القدر کے نوافل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے لیلۃ القدر میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کیا اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
(بخاری: الإیمان، باب: قیام لیلۃ القدر من الإیمان: ۵۳، مسلم: الصلاۃ المسافرین، باب: الترغیب فی قیام رمضان: ۰۶۷.)

پندرھویں شعبان کے نوافل:
پندرھویں شعبان کی رات (شب برأت) کے نوافل کے لیے قیام کرنے اور جاگنے کا اہتمام کرنا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں۔ اسی طرح صرف پندرہ شعبان کو روزہ رکھنے والی روایت سخت ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احکام الجنائز
بیمار پرسی کی فضیلت :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں (۱) (جب ملے تو اسے سلام کہے یا اس کے) سلام کا جواب دے۔ (۲) جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے۔ (۳) جب مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھے۔ (۴) جب دعوت دے تو اسے قبول کرے۔ (۵) اگر وہ چھینک پر (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) کہے، تو جواب میں ((یَرْحَمُکَ اللّٰہُ)) کہے۔
(بخاری، الجنائز باب الامر باتباع الجنائز: ۰۴۲۱۔ مسلم، السلام، باب من حق المسلم للمسلم رد السلام: ۲۶۱۲.)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو مسلمان دوسرے مسلمان کی دن کے اول حصے میں (دوپہر سے پہلے) عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے شام تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو مسلمان دن کے آخری حصے میں (دوپہر کے بعد) عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے صبح تک رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں نیز اس کے لیے بہشت میں باغ ہے۔‘‘
(ترمذی، الجنائز، باب ماجاء فی عیادۃ المریض : ۹۶۹، وابوداود، الجنائز، باب فی فضل العیادۃ علی وضوء: ۹۹۰۳۔ اسے ابن حبان امام حاکم اور حافظ ذہبی نے صحیح کہا۔) قال الشيخ زبير على زئي: (969) إسناده ضعيف
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کے لیے جاتا ہے تو وہ واپس لوٹنے تک جنت کے میوے چنتا ہے۔‘‘
(مسلم، البروالصلۃ، باب فضل عیادۃ المریض: ۸۶۵۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بیماری سے گناہ دور ہوتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘
(بخاری، المرضی، باب ماجاء فی کفارۃ المرض: ۵۴۶۵.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مسلمان کو رنج، دکھ، فکر اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کانٹا (بھی) لگتا ہے تو وہ تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔‘‘
(بخاری: ۰۴۶۵، مسلم، : ۲۷۵۲.)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالٰی اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جس طرح درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔‘‘
(بخاری، المرضی، باب شدۃ المرض: ۷۴۶۵ ومسلم: ۱۷۵۲.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’بخار (ہو جائے تو اس) کو برا نہ کہو کیونکہ بخار آدمی کے گناہ اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کو دور کرتی ہے۔‘‘
(مسلم البر والصلۃ، باب ثواب المومن فیما یصبہ من مرض أو حزن۔۔۔: ۵۷۵۲.)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ مسافر اور مریض کو ان اعمال کے برابر اجر دیتا ہے جو وہ گھر میں اور تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا۔‘‘
(بخاری، الجھاد والسیر، باب یکتب للمسافر مثل ماکان یعمل فی الاقامۃ: ۶۹۹۲.)

بیماری میں صبر کی فضیلت:
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جب میں کسی بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں (آنکھوں) میں آزماتا ہوں (اسے بینائی سے محروم کرتا ہوں) پھر اگر وہ صبر کرے تو اس کے بدلے میں اسے جنت دوں گا۔‘‘
(بخاری، المرضی، باب فضل من ذھب بصرہ: ۳۵۶۵.)
سیّدنا عطاء رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کیا میں تجھے جنتی عورت دکھلاؤں۔ میں نے کہا دکھلاؤ تو ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ کالی عورت آئی اور عرض کیا کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’اگر تو صبر کرے گی تو تیرے لیے جنت ہے اور اگر چاہے تو دعا کئے دیتا ہوں‘‘ وہ کہنے لگی ’’میں صبر کروں گی‘‘ پھر کہا ’’میرا ستر کھل جاتا ہے اللہ سے دعا کریں کہ وہ نہ کھلے۔ (تاکہ میں بے پردہ نہ ہوؤں)‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
(بخاری، المرضی، باب فضل من یصرع من الریح: ۲۵۶۵۔ مسلم: ۶۷۵۲.)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عیادت کی دعائیں :
جب مریض کی عیادت کے لیے جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی مندرجہ ذیل دعائیں اس کے حق میں کریں ۔
۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی تیمار داری کے لیے جاتا ہے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر سات مرتبہ یہ کلمات پڑھتا ہے تو وہ شفایاب ہو جاتا ہے سوائے یہ کہ اس کی موت کا وقت ہی آ چکا ہو۔‘‘
((أَسْأَلُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ أَنْ یَّشْفِیَکَ.))
’’میں عظیم و برتر اللہ، عرش عظیم کے رب سے سوال کرتا ہوں کہ تجھے شفا سے نوازے۔‘‘
(ابوداود، الجنائز، باب الدعاء للمریض عندالعیادۃ: ۶۰۱۳۔ اسے ابن حبان، امام حاکم اور امام نووی نے صحیح کہا۔)
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس سے یہ کلمات کہے :
’’لَا بَأْسَ طَہُوْرٌ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔‘‘
’’ڈر نہیں (غم نہ کر) اگر اللہ نے چاہا تو (یہی بیماری تجھے گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے۔‘‘
(بخاری: المرضیٰ، باب: عیادۃ الأعراب:۶۵۶۵.)
۳۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مریض (کے جسم ) پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے تھے :
’’اَذْہِبِ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِی لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُ کَ شِفَاءً لَا یُغَادِرُ سَقَما۔‘‘
’’اے انسانوں کے رب ! بیماری کو دور کر اور شفا دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں ایسی شفا (دے) جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔‘‘
(بخاری: الطب، باب: مسح الراقی الوجع بیدہ الیمنیٰ: ۰۵۷۵، ومسلم: السلام، باب: استحباب رقیۃ المریض: ۱۹۱۲.)
۴۔ ’’ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جو شخص مصیبت کے وقت یہ کہے اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت پر اجرو ثواب عطا فرماتا ہے اور اس سے چھن جانے والی نعمت سے بہتر چیز عطا فرماتا ہے :
’’إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اللّٰہُمَّ أَجُرْنِی فِی مُصِیْبَتِی وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا۔‘‘
’’ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اے اللہ مجھے میری مصیبت میں اجر اور نعم البدل (دونوں) عطا فرما‘‘
(مسلم، الجنائز، باب مایقال عند المصیبۃ: ۸۱۹.)
۵۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات (قرآن کی آخری تین سورتیں) سے دم کرتے اور اپنے جسم پر اپنا ہاتھ پھیرتے۔ جب آپ بہت بیمار ہوئے تو میں معوذات پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی حالت میں پھونکتی اور آپ ہی کا ہاتھ آپ پر پھیرتی کیونکہ آپ کے ہاتھ مبارک میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔
(بخاری، فضائل القرآن، باب فضل المعوذات: ۶۱۰۵، ومسلم، السلام، باب رقیۃ المریض: ۲۹۱۲)
۶۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جسم کے درد کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا :
اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو پھر بسم اللّٰہ تین دفعہ کہو اور سات دفعہ یہ کلمات پڑھو:
’’أَعُوْذُ بِاللّٰہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ.‘‘
’’میں اللہ اور اس کی قدرت کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس چیز کی برائی سے جو میں پاتا (محسوس کرتا) ہوں اور اس سے ڈرتا ہوں۔‘‘
(سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کر دی۔
(مسلم، السلام، باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم مع الدعاء: ۲۰۲۲.)
۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ کے ساتھ دم کیا کرتے تھے :
’’أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّامَّۃٍ.‘‘
’’میں تم دونوں کو اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور اور ہر نظر بد کی برائی سے (اس کی) پناہ میں دیتا ہوں ۔‘‘
پھر فرمایا : ’’تمہارے باپ سیدناابراہیم علیہ السلام (بھی) ان کلمات کے ساتھ سیدنا اسماعیل علییہ السلام اور سیدنا اسحاق علیہ السلام کے لیے (اللہ کی) پناہ طلب کیا کرتے تھے (انہیں دم کرتے تھے)۔‘‘
(بخاری: کتاب أحادیث الأنبیاء: ۱۷۳۳.)
۸۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں تو جبریل علیہ السلام نے (یہ) پڑھ کر (آپ پر دم کیا) :
’’بسم اللّٰہِ أَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ اَللّٰہُ یَشْفِیْکَ بسم اللّٰہ أَرْقِیْکَ۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ کا نام لے کر میں آپ پر دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے۔ میں اللہ کا نام لے کر آپ پر دم کرتا ہوں۔‘‘
(مسلم، السلام، باب الطب و المرض و الرقی: ۶۸۱۲)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ (۱) اپنے آپ پر خود دم کرنا (۲) جو دم کروانے آئے اسے دم سکھانا کہ وہ خود ہی اپنے آپ پر دم کرے۔ (۳) مریض کے مطالبے کے بغیر اسے دم کرنا (۴) یا مریض کا کسی سے دم کروانا سب جائز ہے، لیکن افسوس کہ مسلمان صرف آخری جائز (دم کروانا) پر ہی عمل کرتے ہیں اپنے آپ کو دم کرنے کی سنت تقریباً مفقود ہو چکی ہے کیونکہ اس میں ایک آدھ دعا یاد کرنی پڑتی ہے۔ یاد رکھئے، براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا انتہائی سعادت کی بات ہے، یہ عین عبادت ہے اور مریض کی دعا تو ویسے بھی بہت قبول ہوتی ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ نہ صرف خود دم کرے بلکہ استغفار کو معمول بنائے اس سے تکلیف سے جلد نجات ملے گی یا درجات بڑھیں گے نیز خوب دعائیں کرے اللہ قبول کرے گا ان شاء اللہ۔ (ع، ر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وصیت کرنا:
جس شخص نے کسی کا قرض دینا ہو یا اس کے پاس کسی کی اما نت ہو تو اسے چاہیے کہ اگر وہ ادا نہیں کر سکتا تو اس کی وصیت کرے اور مرنے کے بعد اس کے ورثہ میں سے وہ واپس کی جائے اگر ترکہ میں مال نہیں ہے تو اس کے وارث وغیرہ اس کی ادائیگی کریں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کسی مسلمان کے پاس کوئی مال قابل وصیت ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ دو راتیں بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزارے۔‘‘
(بخاری، کتاب الوصایا باب الوصایا:۸۳۷۲، مسلم۷۲۶۱.)
البتہ اسے قرضہ ادا کرنے کے بعد باقی مال میں سے ایک تہائی حصے کی وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ وہ ایک تہائی حصہ کسی غریب یا کسی ادارے کو دینے کی وصیت کر سکتا ہے مگر کسی وارث کو وصیت کے ذریعے اس کے حصہ سے زیادہ مال نہیں دے سکتا ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ایک تہائی حصے کی وصیت کرو اور تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔
(بخاری۲۴۷۲، مسلم،الوصیۃ باب الوصیۃ بالثلث:۸۲۶۱.)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔"
(ابو داؤد، الوصایا باب ما جاء فی الوصیۃ للوارث ۰۷۸۲.)

کسی کے انجام کے متعلق اظہار کرنا :
حتمی طور پر کسی اچھے انسان کو بھی اپنے گمان کی بنیاد پر بخشا ہوا یا اللہ کا ولی کہنا درست نہیں ہے البتہ اس کے بارے میں اچھائی کی امید ظاہر کرنا جائز ہے۔
ام العلاء انصاری صحابیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیّدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے انہیں غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے کہا اے ابو سائب آپ پر اللہ کی رحمت ہو میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تجھے عزت بخشی ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کیسے پتا کہ اللہ نے اسے عزت بخشی ہے۔میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،اللہ کس کو عزت دے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اسے موت آچکی ہے۔ اللہ کی قسم مجھے بھی امید ہے کہ اللہ اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا لیکن اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو نے والا ہے حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
میں نے کہا آج کے بعد میں کبھی کسی کے متعلق ایسی گواہی نہیں دوں گی۔
(بخاری، الجنائز، الدخول علی المیت بعد الموت اذا ادرج فی کفنہ، ۳۴۲۱.)
 
Top