• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
نماز میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے شوافع اور حنابلہ قائل ہیں۔
یہ دونوں تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین کے قائل نا تھے۔
ان دونوں کا تعلق شام و یمن سے ہے جو مدینہ منورہ اور کوفہ (جسے عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے دور خلافت میں آباد کیا) سے بہت دوری پر ہیں۔
ان کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں کوئی حدیث قابل اعتبار ذرائع کے ساتھ نا ملی ہو۔
مالکی اور حنفی دونوں نماز میں سوائے تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین کے قائل نہیں ہیں۔
ان دونوں کا تعلق مدینہ منورہ اور کوفہ (جو کہ آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دار الخلافہ تھا) سے ہے ۔
یہ دونوں شہر ایسے ہیں کہ جن کے بارے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں کوئی حدیث پہنچنے سے رہ گئی ہو۔
کیونکہ یہاں رہنے والے صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر دم تک رہے۔
محترم ہم احادیث پر یہ دیکھ کر عمل نہیں کرتے کہ کس نے ان پر عمل کیا ہے اور کس نے نہیں کیا؟ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اگر آپ اس کو مضبوط دلائل سے ثابت کر دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنابلہ ، شوافع والے رفع یدین اور رکوع سے اٹھتے وقت والے رفع یدین کو ترک کر دیا تھا تو ہم آپ کے ساتھ ہیں.
احادیث کا ملنا شہر کے قریب ہونے یا دور ہونے سے معلوم نہیں ہوتا، ذخیرہ احادیث میں کتنی ایسی احادیث ہیں کہ صحابہ کے ہر دم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے باوجود ان کو نہیں مل سکیں یا وہ ان احادیث کو بھول گئے، یہ تو انسانی فطرت ہے اس میں کسی کی شان ہیٹی نہیں ہوتی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یار غار ہونے کے باوجود دادی کی میراث سے انجان رہ گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسئلہ استئذان کا علم نہیں تھا باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام محاورہ تھا" ذهبت انا و ابو بكر وعمر، خرجت انا و ابو بكر وعمر رضي الله عنهما" اس لئے ائمہ اربعہ سے کسی حدیث کا چھوٹ جانا اور اس کا إمام بخاری رحمہ اللہ کا اپنی صحیح میں ذکر کر دینا نا تو حیرت انگیز ہے اور نا ہی اس سے ان حضرات کی شان میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے جن کو یہ حدیث نہیں ملی. لہٰذا مدینہ ہی نہیں کسی بھی شہر کے کسی بھی فرد کا کسی حدیث سے انجان رہ جانا قابل حیرت نہیں.

دنیائے اسلام میں انگریز دور سے پہلے ان چار (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کے سوا کوئی اہلسنت مسلک نا تھا۔
دنیائے اسلام میں مقلدین احناف کا بولا ہوا بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے آپ کا یہ قول! جس کی تردید خود مقلدین یہ کہہ کر اور بتاکر کرتے رہے ہیں کہ اہل حدیث کہہ لائے جانے والے حضرات ابن تیمیہ ابن قیم اور شوکانی رحمہم اللہ کے مقلد ہیں، حقیقت یہ ہے یہ مقلدین کے دلوں میں جما ہوا حقد و کینہ ہے عاملین حدیث کے خلاف جو وقتا فوقتاً ظاہر ہوتا رہتا ہے.

ان چاروں کا متفقہ عمل تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین نا کرنے کا ہے۔
یہ اجماع ہے۔
یا تو ثابت کیا جائے کہ یہ اجماع نہیں۔
یا اجماع کی مخالفت سے باز آجانا چاہیئے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ضد عناد سے بچائے اور آخرت کی فکر کے ساتھ صحیح راہ چلا دے۔ آمین برحمتک یا ارحم الراحمین
یہ حنفیوں کا وہ اجماع ہے جو مقلدین کو عمل بالحديث سے روکنے کے لئے گھٹی کی طرح پلایا جاتا ہے اور ہر وہ اجماع جو نص کے مقابلے میں ہو مردود ہے، اگر آپ اجماع کی معتبر تعریف نقل فرما دیں تو ہم بھی ثابت کر دیں گے کہ یہ مقلدین کا اپنے گھر میں گھڑا ہوا اجماع ہے اور ظاہر سی بات ہے مقلدین کا اجماع نا حجت ہے اور نا دلیل.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
احادیث کو تو آپ لوگ ضعیف کا ٹھپہ لگا کر ٹھکراتے ہو ۔
فقہاء احادیث کی تفہیم دیا کرتے ہیں۔
کیا اس حدیث کو مانتے ہو؟
صحيح مسلم :
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»

اور اس کو بھی مانتے ہو؟
سنن الترمذي:
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».
وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ.

حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
اوپر مذکور احادیث کو اقوال کے بل بوتے پر ٹھکراؤ گے یا کہ سر تسلیم خم کرو گے؟
اس کو آپ کی جہالت کہا جائے یا عاملین حدیث کے خلاف بھرا ہوا دلوں کا کینہ و کپٹ؟ اس پوسٹ سے پہلے والی پوسٹ میں اہل حدیث کو آپ اشارۃ انگریزوں کے زمانہ کی پیداوار ثابت کرنے کی کوشش کر چکے ہو اور اس پوسٹ میں ضعیف کا ٹھپہ لگا کر ٹھکرانے کا الزام ہمارے اوپر لگا رہے ہو جبکہ ضعیف اور صحیح کا ٹھپہ تو خود مقلدین کے یہاں بھی چلتا ہے، یہ فقہاء کی تفہیم آپ ہی کو مبارک ہو جس سے قرآن و حدیث کی بجائے فقہاء کی بالا دستی ثابت ہو رہی ہو، اس میں بھلا کون سی تفہیم ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت والا اور تیسری رکعت کے وقت والا رفع یدین تو سکون کے خلاف ٹھہرا اور تکبیر تحریمہ والا اور عیدین میں تکبیر زواید والا اور اپنے گھر میں گھڑا ہوا وتر والا رفع یدین عین سکون؟ محترم ہم ہر صحیح حدیث کو مانتے اور قابل عمل حدیث پر عمل کرتے ہیں، البتہ آپ اپنی پیش کردہ ان حدیثوں میں سے صرف اپنے مطلب والی کو مانتے اور اصول کرخی کی روشنی میں جو مطلب والی نہیں اس کو مطلب کے مطابق کرتے ہو.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محدثین ہی ضعیف حدیث کے متن کو صحیح بتلاتے ہیں۔
انہیں اس حدیث کو ٹھکرانے کے لئے ضعیف کا جواز نا سوجھا۔
مجمل حدیث کو لے کر مفصل مفسر احادیث کو چھوڑنے والا وہی طبقہ ہے جو خود کو اہلحدیث کہلاتا ہے۔
مثال کے طور پر یہی تیسری رکعت کو کھڑے ہوتے وقت کی رفع الیدین والی حدیث ہے۔
اس میں چند جگہوں کا اثبات ہے نفی کسی جگہ کی نہیں لہٰذا مجمل ہوئی۔
مفسر وہ احادیث ہیں جو نفی اثبات پر مشتمل ہیں جنہیں آپ لوگ ٹھکراتے ہو۔
دنیا میں چار مذاہب نے رواج پایا۔
اس کے علاوہ اگر کسی کا مذہب تھا تو وہ دنیا مین کہیں بھی رواج نا پاسکا۔
آپ شاذ مذاہب بیان کرکے اس عمل کو اپنائے ہوئے ہیں جسے بالکلیہ چاروں اہلسنت نے چھوڑ دیا۔
انگریز دور سے پہلے آپ کے مذکورہ شاذ مذاہب دنیا میں کہاں مروج تھے؟ اس کی نشاندہی ضرور کیجئے گا۔ غلط بیانی اور جھوٹ سے پرہیز کیجئے گا۔
یہ تو محدثین کی کمال دیانت اور ان کے فقہ کی دلیل ہے کہ اگر کوئی حدیث مختلف اسناد سے وارد ہے اور اس کی ایک سند ضعیف ہے دوسری صحیح تو انہوں نے سند کے ضعیف ہونے کے باوجود دوسری صحیح سند سے آنے کی وجہ سے اس کے معنی کو صحیح بتایا، آپ کوئی ایسی حدیث بتائیں جس کا معنی محدثین کی نظر میں غلط ہو اور سند بھی ضعیف ہو اس کے بعد بھی محدثین نے اس کے معنی کو صحیح بتایا ہو؟
مجمل اور مفصل طے کرنا آپ جیسے مقلدوں کا کام نہیں کسی امام مجتہد یا قرآن و حدیث جس کی دہائی دیکر اس سے قبل آپ بلا رہے تھے، سے ثابت کریں کہ یہ حدیث جس کو آپ مجمل فرما رہے ہیں وہ مجمل ہے؟
اور یہ چار مذاہب کی دھونس اپنے ہی جیسے کسی مقلد کو دو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے چار نہیں صرف ایک مذہب چھوڑا ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت پر ہے، چوتھی صدی تک اسی پر تمام مسلمان تھے اس کے بعد ڈنڈے کے زور پر کچھ مذاہب کو رواج مل گیا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اہل حق نا رہے ہوں بلکہ ان کا وجود ہر زمانے میں رہا ہے اور اس حدیث پر عامل بھی رہے ہیں جن کی فہرست اس سے پہلے بیان کی جا چکی ہے اس کے بعد بھی اس کو شاذ کہنا حنفی مقلدین کی شاذ رأی ہے جو قابل رد ہے
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
کچھ احادیث سے انکار کے لئے دور ازکار تأویلات کرتے ہو کچھ کو ضعیف کہہ کر ٹھکراتے ہو۔
جیسے درج ذیل حدیث کو رد کرنے کے لئے آپ لوگ؛

صحيح مسلم :
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے؛
سنن الترمذي
:
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».
یہ رویہ اختیار کرتے ہو۔
جناب نے کہا؟

س میں بھلا کون سی تفہیم ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور اٹھتے وقت والا اور تیسری رکعت کے وقت والا رفع یدین تو سکون کے خلاف ٹھہرا اور تکبیر تحریمہ والا اور عیدین میں تکبیر زواید والا اور اپنے گھر میں گھڑا ہوا وتر والا رفع یدین عین سکون؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ نماز میں سکون اختیار کرو تو تم لوگوں کو رکوع و تیسری رکعت کی تفصیل کیوں درکار ہے؟
کیا رکوع اور تیسری رکعت نماز میں نہیں؟

صحیح مسلم کی حدیث میں جس رفع الیدین سے منع کیا گیا وہ نا تو عیدین کی نماز تھی اور نا ہی وتر کی۔
سنن الترمذی کی روایت صحیح مسلم کی روایت کی وضاحت کر رہی ہے کہ نماز میں رفع الیدین نہیں کیا جائے گا۔
رہی یہ بات کہ کونسی رفع الیدین سکون کے خلاف ہے کونسی نہیں تو یہ پوری نصوص کی تفہیم سے حاصل ہوگا۔
نصوص کا مطالعہ کریں اور خود بھی سوچیں اور ہمیں بھی سمجھائیں۔
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
محدثین نے تو کمال دیابنت سے کام لیتے ہوئے مجروح راوی کی نشاندہی کر دی۔
اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔
آپ کے علم کا اندازہ اس عبارت سے ہورہا ہے ۔
یا تو آپ خود ساختہ قواعد بنا کر اگلے کو زچ کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر آپ کو پتہ ہی نہیں اور بلا علم گفتگو فرمارہے ہیں۔

اس تھریڈ میں دسیوں سوالات ایسے پڑے ہیں جو آپ کے جوابات کے انتظار میں ہیں مگر آپ ہر سوال کو گول کرکے اگلے پر حملے شروع کردیتے ہیں
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یا تو آپ خود ساختہ قواعد بنا کر اگلے کو زچ کرنا چاہ رہے ہیں یا پھر آپ کو پتہ ہی نہیں اور بلا علم گفتگو فرمارہے ہیں۔
کونسا قاعدہ میرا خود ساختہ ہے؟
کونسی بات میں نے لاعلمی والی کی؟
میں تو قرآن کی اس آیت کو لے کر چل رہا ہوں؛
{وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} [النساء: 115]
خود کو اہلحدیث کہلانے والے جن امور میں اس آیت کی مخالفت کر رہے ہیں اس پر متنبہ کر رہا ہوں۔
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
کچھ احادیث سے انکار کے لئے دور ازکار تأویلات کرتے ہو کچھ کو ضعیف کہہ کر ٹھکراتے ہو۔
]
احادیث کا انکار کرنا اور اس کی دور از کار تاویلیں کرنا امام کرخی کا سکھایا ہوا گر ہے جس کو آپ جیسے مقلد بخوبی ادا کر رہے ہیں اب آپ کی پیش کی گئی ان دونوں حدیثوں کو ہی دیکھ لو حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی وضاحت آپ کو ترمذی میں تو نظر آ گئی لیکن مسلم شریف میں نظر نہیں آئی جو اسی حدیث کے فوراً بعد انہیں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،جس سے آپ کی دور از کار تاویلات کی پول کھل رہی ہے، مندرجہ ذیل حدیث کو تقلید اعمی کا چشمہ اتار کر حب سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے سے پڑھو گے تو کچھ فائدے کی امید ہے جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُنَّا إِذَا سَلَّمْنَا قُلْنَا : بِأَيْدِينَا السَّلَامُ عَلَيْكُمُ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " مَا شَأْنُكُمْ تُشِيرُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ إِذَا سَلَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَلْتَفِتْ إِلَى صَاحِبِهِ، وَلَا يُومِئْ بِيَدِهِ ".
اور ہاں محترم ایک بات کی طرف رہنمائی ضرور کر دیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا ان کے شاگردان رشید نے حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو عدم رفع الیدین عند مواضع ثلاثہ کی دلیل میں کہاں پیش کیا؟ کتاب کا نام اور حوالہ درکار ہے؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا کہ نماز میں سکون اختیار کرو تو تم لوگوں کو رکوع و تیسری رکعت کی تفصیل کیوں درکار ہے؟
کیا رکوع اور تیسری رکعت نماز میں نہیں؟
مقلدین احناف کے مطابق اگر رکوع اور تیسری رکعت والا رفع یدین بلا دلیل سکون کے منافی ہے تو تکبیر تحریمہ والا اور تکبیر زواید اور وتر والا کیوں نہیں؟ کیا یہ رفع الیدین نماز کے باہر ہیں؟
صحیح مسلم کی حدیث میں جس رفع الیدین سے منع کیا گیا وہ نا تو عیدین کی نماز تھی اور نا ہی وتر کی۔/H2]
بڑے عجیب آدمی ہو یار! عیدین اور وتر کی نماز نہیں تھی تو کیا ہوا؟ نماز تو تھی نا؟ ابھی تو آپ ہمیں بڑے طمطراق کے ساتھ طعنہ دے رہے تھے کہ ہم حدیث کی تاویلات اور انکار کرتے ہیں آپ کا یہ عمل آپ کے قول کی سچی تعبیر ہے، لیکن ہم بھی آپ کو کیفرکردار تک ضرور پہنچائیں گے ان شاء اللہ
محترم یقیناً وہ وتر اور عیدین کی نماز نہیں تھی لیکن وہ فرض اور جمعہ کی نماز بھی نہیں تھی تو کیا آپ اپنی اس بودی دلیل کی بنیاد پر فرض اور جمعہ کی نماز میں رفع یدین کروگے؟ اگر نہیں کروگے تو اپنی اس دور از کار تاویلات پر نظرثانی کر لیجیے!
سنن الترمذی کی روایت صحیح مسلم کی روایت کی وضاحت کر رہی ہے کہ نماز میں رفع الیدین نہیں کیا جائے گا۔
رہی یہ بات کہ کونسی رفع الیدین سکون کے خلاف ہے کونسی نہیں تو یہ پوری نصوص کی تفہیم سے حاصل ہوگا۔
نصوص کا مطالعہ کریں اور خود بھی سوچیں اور ہمیں بھی سمجھائیں۔
سنن ترمذی کی روایت وضاحت کر رہی ہے اس کے باوجود آپ فاسد تاویلات میں مگن ہو کہ یہ عیدین کی نماز نہیں تھی وتر کی نماز نہیں؟ محترم جب تقلیدی تعصب کی پٹی آنکھوں پر پڑی ہو تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے اور ہر مقلد کا تقریباً یہی حال ہوتا إلا یہ کہ رب کی رحمت کا ساتھ ہو،
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
محدثین نے تو کمال دیابنت سے کام لیتے ہوئے مجروح راوی کی نشاندہی کر دی۔
اس مجروح راوی کے ضعف کا اثر کس حدیث میں ہے کس مین نہیں یہ فقہاء بتاتے ہیں اور انہی کی وضاحت معتبر ہوتی ہے۔
بناوٹی فقہاء کا یہ کام نہیں ہے جو آپ ارشاد فرما رہے ہیں وہ تو صرف اپنے مخالف نصوص کی دور از کار تاویلات ہی کرتے ہیں اور بس! اور ظاہر سی بات ہے کہ جس کے اندر اس قدر تعصب ہو اس کی وضاحت معتبر نہیں ہوتی ہے.
 
Top