تبصرہ سے پہلے کچھ وضاحتیں
1-پہلی وضاحت
اگر کسی کو ابلیس نے تلبیس کی گھٹی دی ہو تو پتا نہیں ورنہ ہر کوئی اس بات کا اقرار کرے گا کہ جب کسی سے مشابہت دی جاتی ہے تو اس سے مراد ہر طرح کی مشابہت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کسی ایک پہلو کی مشابہت کی بات ہوتی ہے مثلا کسی کو جب شیر کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد صرف جسمانی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو لومٹری کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد جسمانی پھرتی کی بجائے ذہنی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو کہا جاتا ہے کہ تم تو جانور ہو تو وہاں اسکا غیر تہذیب یافتہ ہونا مراد ہوتا ہے کسی جسمانی پھرتی یا ذہنی پھرتی کا پہلو نہیں ہوتا
پس کوئی اگر آپ ساجد نقوی کو کہیں کہ وہ شیر کی طرح ہے اور دوسری جگہ کہیں تہذیب کی بات چلے تو آپ کہیں کہ ساجد نقوی جانور نہیں تو آپ ککی دوسری بات سے اگرچہ جانور ہونے کا انکار ہے مگر آپ کی پہلی بات جھوٹ نہیں ہو جائے گی کہ جی شیر بھی تو جانور ہوتا ہے کیونکہ شیر سے نسبت کسی اور پہلو سے دی گئی ہے
2- دوسری وضاحت
کسی بھی انسان کی ذاتی نام کے علاوہ کچھ صفات بھی ہوتی ہیں عموما انسان کو اسکے ذاتی نام سے پکارا جاتا ہے مگر جب اسکی کسی صفت کے تناظر میں کوئی خاص بات بتانی ہو تو پھر وہاں اسکی صفاتی نام سے پکارا جاتا ہے مثلا اللہ سے جو چیز مانگنی ہو اسی مناسبت سے صفاتی نام استعمال کرنا- اسی طرح انسان کے بھی صفاتی ناموں کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے
مثلا عدالت میں جب جج کسی سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے تو ملزم کہتا ہے کہ میں ملزم ہوں اسکا وکیل کہتا ہے کہ میں اسکا وکیل ہوں یعنی جج ان سے وہاں مقدمہ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوتا ہے اور انکا جواب بھی اسی تناظر میں ہوتا ہے اب وہی وکیل اگر پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہو تو جب اجلاس میں جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں تو وہاں وہ اپنی شناخت کرواتے ہوئے حسب ضرورت کہے گا کہ میں MNA ہوں-پس ثابت ہوا کہ ایک شخص کے ایک سے زیادہ بھی صفات ہو سکتی ہیں اور وہ خود یا مخاطب ان صفات میں سے کسی ایک کا استعمال حسب ضرورت کرے گا یعنی جب پارلیمنٹ میں سیکورٹی والا جھگڑے گا تو وہ وہاں اسکو وہ کہے گا کہ میں MNA ہوں تو کوئی مومن اسکو یہ کہے کہ وہاں عدالت میں تو تم نے کہا تھا کہ تم وکیل ہو اب منافقت سے یہاں کہ رہے ہو کہ تم MNA ہوتو بتائیں
ایسے مومن نے گھٹی کس سے لی ہو گی
3-تیسری وضاحت
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
1-بشر ہونا، 2-وحی کیے گئے، 3-اللہ کے رسول، 4-اللہ کا بندہ
میرا دعوی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر چار صفات میں سے کوئی بھی صفت دوسری صفت کی ناقض نہیں یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا
اب دیکھتے ہیں بہرام صاحب کیا کہتے ہیں
﷽
رسول اللہ ﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی فرماتا ہے لیکن منافق کی سوئی صر ف أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پر آکر رک جاتی ہے وہ آگے بڑھتی ہی نہیں يُوحَىٰ یعنی رسول کی جانب
منافق کی جو سوئی کسی مومن کو چبھ رہی ہے تو ایسا مومن اوپر میری وضاحت نمبر دو پڑھ لے کہ جب کسی مومن کو ہم نے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ کے بنی بشر ہیں یا نور تو پھر ہمیں بشر کی ہی بات کرنی ہو گی ورنہ جب قبر میں فرشتہ کو بتانا ہو گا تو وہاں ہم اسکے مطابق ہی بات کریں گے پس سوئی بشر تک روکنے سے فساد لازم نہیں آتا کیونکہ وضاحت نمبر تین میں بتایا گیا ہے کہ کوئی صفت دوسری کی ناقض نہیں
﷽
قبر میں بھی جب منافق سے رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھا جائے گا تو ان کے بارے میں دنیا میں کیا کہتا تھا تو چونکہ دنیا میںمنافق یہ کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ میری مثل ہیں اور اس کا یہ کہنا اس کی مولویوں کی وجہ سے ہے جنکی یہ پیروی کرتا ہے تو وہ قبر میں اس سوال کے جواب میں کہے گا
ترجمہ داؤد راز (مجھے معلوم نہیں ' میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔)
لیکن اس کے برعکس جب مومن سے یہی سوال کیا جائے گا تو وہ جواب میں یہ بات کہے گا
أشهدُ أنهُ عبدُ اللهِ ورسوله صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1338 صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2870
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے( یعنی بشر) اور رسول ہیں( یعنی جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے )
یعنی مومن اس آیت مبارکہ کی تصدیق قبر میں بھی کرے گا لیکن جو کافر اور منافق ہوگا وہ چونکہ دنیا میں رسول اللہﷺ کے لئے بشر بشر کی رٹ لگائے ہوئے ہے تو قبر میں بھی بشر سے آگے کچھ نہیں کہے گا اور سزا کا مستحق ٹہرے گا
اسکا جواب بھی وضاحت نمبر دو کے آخر پر پڑھ لیں کہ وکیل نے اگرچہ عدالت میں اپنے آپ کو وکیل کہا تھا مگر پارلیمنٹ جاتے ہوئے سیکورٹی والے کو MNA کیوں کہا تھا کیا اس سے وہ منافق ہو گا یا اعتراض کرنے والا تلبیس کا مرتکب ہو گا فیصلہ قارئین پر
دوسری بات کہ آج کا منافق اس آیت سے جو معنی لے رہا ہے وہ معنی صحابہ نے نہیں لیا کیونکہ صحابہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے ایسی لئے جب ایک بار رسول اللہ ﷺ صحابہ سے پوچھا کہ
أيُّكم مثلي؟ تم میں کون میری مثل ہے صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6851
اس سوال پر کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ آپ ہماری مثل تو ہیں اللہ قرآن میں یہی فرماتا بلکہ خاموش ہوگئے کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہیں جن کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں یہ فرق ہے صحابہ کی فہم اور ایک منافق کی سوچ میں
جی وضاحت نمبر ایک میں بتایا ہے کہ جب ساجد نقوی کو آپ نے ایک دفعہ بہادری کی وجہ سے شیر کہا اور پھر دوسری جگہ تہذیب یافتہ ہونے کی وجہ سے اسکے جانور نہ ہونے کا کہا تو کیا
پھر ساجد نقوی بزدل ہو گئے
نوٹ: محترم
کنعان بھائی آپ ہی ذرا میری اوپر باتوں پر انصاف سے فیصلہ کر دیں اگر اب بھی کچھ معلومات میں اضافہ ہوا ہو کیونکہ آپ کو انصاف کرتے دیکھا ہے باقی محترم
محمد علی جواد بھائی اور محترم ارسلان بھائی کی پوسٹ بھی کافی معلوماتی ہیں اگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے اللہ جزائے خیر دے امین