• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں ہیں ؟

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بدعتی و مشرک لوگوں کی ہمیشہ یہ خصلت رہی ہے کہ وہ تقیہ کرتے ہوے انبیاء کرام علیہ سلام خوصوصا نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم اور اپنے علماء و اکابرین کی محبّت کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں -لیکن حقیقت میں یہ ان کی تعلیمات کے منکر اور سخت دشمن ہوتے ہیں- اور جو بھی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے اور ان تعلیمات کا پرچار کرتا ہے یہ اس کے بھی جانی دشمن بن جاتے ہیں -

یہ ان انبیاء کرام علیہ سلام خوصوصا نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم اور اپنے علماءہ اکابرین کو غیر مرئی مخلوق ثابت کرنے کی کوشش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ باور کراسکیں کہ یہ الله کی کوئی عام مخلوق نہیں -اور ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی ان کے بغیر ممکن نہیں -کبھی ان کو نوری مخلوق کہتے ہیں تو کبھی عالم و الغیب کہتے ہیں اورسمجھتے ہیں - تو کبھی ان کو زندہ حاضر و ناظر کہتے اور سمجھتے ہیں -جب کہ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ پاک ہستیاں زندہ ہیں تو کیا صرف ان کے ذاتی مسائل حل کرنے کے لئے زندہ ہیں؟؟؟ - دنیا میں اس وقت لاتعداد دینی اور مسلکی مسائل موجود ہیں - شرک و بدعات نے ہر جگہ اپنا ڈیرا جمایا ہوا ہے -آخر یہ انبیاء کرام علیہ سلام براہ راست مسلمانوں کے مسائل کو حل کیوں نہیں کرواتے -کیا ایک نبی کو اپنی امّت کی فکر نہیں- وہ زندہ حاضر اور ناظر ہیں اور اپنی امّت کو گناہوں کے بوجھ سے بچا نہ سکیں؟؟؟

لیکن یہ بدعتی و مشرک لوگ اس حقیقت کو کیا جانیں - یہ لوگ اس لئے ہی تو انبیاء کرام علیہ سلام اور نبی کریم صل علیہ و آ لہ وسلم کو بشر ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ کہ وہ بشر تھے تو بشر کو موت بھی آتی ہے اور بشر اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد حاجت روائی کے قابل بھی نہیں رہتا -لہٰذا اس کو کسی طرح غیر بشر اور نوری مخلوق ثابت کرنا ان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے- ورنہ ان کا شرک و بدعات کا کاروبار کیسے چلے اور چمکے - بات یہاں رکتی نہیں بلکہ انبیاء کرام سے بڑھ کر اپنے نام نہاد پیروں و اماموں اور اکابرین تک پہنچ جاتی ہے - اور پھر ان کو بھی انبیاء کرام علیہ سلام کے برابر لا کھڑا کیا جاتا ہے - جب کہ ان عقل کے اندھوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اول تو حاجت روائی کے لئے صرف الله ہی کی ذات کافی ہے - لیکن اگر تمہاری مت ماری گئی ہے اور تم نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو اپنا حاجت روا مان ہی لیا ہے ( جو کہ اگرچہ قرانی رو سے کفر ہے) - تو اپنے اماموں و پیروں اور اکابرین کو اپنا حاجت روا ماننے کی کیا ضرورت باقی رہ گئی ہے ؟؟

یہی بات حضرت یوسف علیہ سلام نے اپنے جیل خانے کے رفیقوں کو سمجھائی تھی -

يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ سوره یوسف ٣٩
اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے
-

لیکن یہ حقیقت ہے کہ مشرک اور بدعتی کی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور سب کچھ واضح ہونے کے باوجود اسے کو کچھ نظر نہیں آتا - اور وہ اپنے اکابرین اور انبیاء کرام علیہ سلام کی نام نہاد محبّت کی دلدل میں پھنسا رہتا ہے اور اپنے بارے میں یہی گمان لئے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرلیتا ہے کہ صرف میں راہ راست پر ہوں اور باقی سب گمراہ اور ہمارے اکابرین اور انبیاءءعلیہ سلام کے گستاخ ہیں-

الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آمین )-

والسلام -
یہ ہوئی نہ بات کہ آپ رسول اللہﷺ کی بشریت کے ساتھ ساتھ ان کی رسالت پر بھی ایمان لے ہی آئے اور یہی مقصد ہے کلمہ شہادت کا کہ جب کلمہ شہادت میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں تو اس کلمہ میں رسول اللہ کی عبدیت وبشریت کے ساتھ ہی فورا ان کی رسالت کی گواہی بھی دینے سے ہی آدمی مسلمان ہوتا ہے اور اگر زبان صرف عبدیت کی گواہی پر رک جائے تو مسلمان نہیں ہوتا جس طرح بعض منافقین رسول اللہﷺ کی صرف بشریت کا اقرار ہی کرتے ہیں اللہ ان سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین
والسلام
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تبصرہ سے پہلے کچھ وضاحتیں


1-پہلی وضاحت
اگر کسی کو ابلیس نے تلبیس کی گھٹی دی ہو تو پتا نہیں ورنہ ہر کوئی اس بات کا اقرار کرے گا کہ جب کسی سے مشابہت دی جاتی ہے تو اس سے مراد ہر طرح کی مشابہت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کسی ایک پہلو کی مشابہت کی بات ہوتی ہے مثلا کسی کو جب شیر کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد صرف جسمانی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو لومٹری کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد جسمانی پھرتی کی بجائے ذہنی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو کہا جاتا ہے کہ تم تو جانور ہو تو وہاں اسکا غیر تہذیب یافتہ ہونا مراد ہوتا ہے کسی جسمانی پھرتی یا ذہنی پھرتی کا پہلو نہیں ہوتا
پس کوئی اگر آپ ساجد نقوی کو کہیں کہ وہ شیر کی طرح ہے اور دوسری جگہ کہیں تہذیب کی بات چلے تو آپ کہیں کہ ساجد نقوی جانور نہیں تو آپ ککی دوسری بات سے اگرچہ جانور ہونے کا انکار ہے مگر آپ کی پہلی بات جھوٹ نہیں ہو جائے گی کہ جی شیر بھی تو جانور ہوتا ہے کیونکہ شیر سے نسبت کسی اور پہلو سے دی گئی ہے

2- دوسری وضاحت
کسی بھی انسان کی ذاتی نام کے علاوہ کچھ صفات بھی ہوتی ہیں عموما انسان کو اسکے ذاتی نام سے پکارا جاتا ہے مگر جب اسکی کسی صفت کے تناظر میں کوئی خاص بات بتانی ہو تو پھر وہاں اسکی صفاتی نام سے پکارا جاتا ہے مثلا اللہ سے جو چیز مانگنی ہو اسی مناسبت سے صفاتی نام استعمال کرنا- اسی طرح انسان کے بھی صفاتی ناموں کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے
مثلا عدالت میں جب جج کسی سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے تو ملزم کہتا ہے کہ میں ملزم ہوں اسکا وکیل کہتا ہے کہ میں اسکا وکیل ہوں یعنی جج ان سے وہاں مقدمہ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوتا ہے اور انکا جواب بھی اسی تناظر میں ہوتا ہے اب وہی وکیل اگر پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہو تو جب اجلاس میں جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں تو وہاں وہ اپنی شناخت کرواتے ہوئے حسب ضرورت کہے گا کہ میں MNA ہوں-پس ثابت ہوا کہ ایک شخص کے ایک سے زیادہ بھی صفات ہو سکتی ہیں اور وہ خود یا مخاطب ان صفات میں سے کسی ایک کا استعمال حسب ضرورت کرے گا یعنی جب پارلیمنٹ میں سیکورٹی والا جھگڑے گا تو وہ وہاں اسکو وہ کہے گا کہ میں MNA ہوں تو کوئی مومن اسکو یہ کہے کہ وہاں عدالت میں تو تم نے کہا تھا کہ تم وکیل ہو اب منافقت سے یہاں کہ رہے ہو کہ تم MNA ہوتو بتائیں ایسے مومن نے گھٹی کس سے لی ہو گی

3-تیسری وضاحت
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
1-بشر ہونا، 2-وحی کیے گئے، 3-اللہ کے رسول، 4-اللہ کا بندہ

میرا دعوی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر چار صفات میں سے کوئی بھی صفت دوسری صفت کی ناقض نہیں یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا

اب دیکھتے ہیں بہرام صاحب کیا کہتے ہیں



رسول اللہ ﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی فرماتا ہے لیکن منافق کی سوئی صر ف أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پر آکر رک جاتی ہے وہ آگے بڑھتی ہی نہیں يُوحَىٰ یعنی رسول کی جانب
منافق کی جو سوئی کسی مومن کو چبھ رہی ہے تو ایسا مومن اوپر میری وضاحت نمبر دو پڑھ لے کہ جب کسی مومن کو ہم نے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ کے بنی بشر ہیں یا نور تو پھر ہمیں بشر کی ہی بات کرنی ہو گی ورنہ جب قبر میں فرشتہ کو بتانا ہو گا تو وہاں ہم اسکے مطابق ہی بات کریں گے پس سوئی بشر تک روکنے سے فساد لازم نہیں آتا کیونکہ وضاحت نمبر تین میں بتایا گیا ہے کہ کوئی صفت دوسری کی ناقض نہیں


قبر میں بھی جب منافق سے رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھا جائے گا تو ان کے بارے میں دنیا میں کیا کہتا تھا تو چونکہ دنیا میںمنافق یہ کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ میری مثل ہیں اور اس کا یہ کہنا اس کی مولویوں کی وجہ سے ہے جنکی یہ پیروی کرتا ہے تو وہ قبر میں اس سوال کے جواب میں کہے گا
ترجمہ داؤد راز (مجھے معلوم نہیں ' میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔)
لیکن اس کے برعکس جب مومن سے یہی سوال کیا جائے گا تو وہ جواب میں یہ بات کہے گا
أشهدُ أنهُ عبدُ اللهِ ورسوله صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1338 صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2870
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے( یعنی بشر) اور رسول ہیں( یعنی جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے )
یعنی مومن اس آیت مبارکہ کی تصدیق قبر میں بھی کرے گا لیکن جو کافر اور منافق ہوگا وہ چونکہ دنیا میں رسول اللہﷺ کے لئے بشر بشر کی رٹ لگائے ہوئے ہے تو قبر میں بھی بشر سے آگے کچھ نہیں کہے گا اور سزا کا مستحق ٹہرے گا
اسکا جواب بھی وضاحت نمبر دو کے آخر پر پڑھ لیں کہ وکیل نے اگرچہ عدالت میں اپنے آپ کو وکیل کہا تھا مگر پارلیمنٹ جاتے ہوئے سیکورٹی والے کو MNA کیوں کہا تھا کیا اس سے وہ منافق ہو گا یا اعتراض کرنے والا تلبیس کا مرتکب ہو گا فیصلہ قارئین پر

دوسری بات کہ آج کا منافق اس آیت سے جو معنی لے رہا ہے وہ معنی صحابہ نے نہیں لیا کیونکہ صحابہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے ایسی لئے جب ایک بار رسول اللہ ﷺ صحابہ سے پوچھا کہ
أيُّكم مثلي؟ تم میں کون میری مثل ہے صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6851
اس سوال پر کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ آپ ہماری مثل تو ہیں اللہ قرآن میں یہی فرماتا بلکہ خاموش ہوگئے کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہیں جن کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں یہ فرق ہے صحابہ کی فہم اور ایک منافق کی سوچ میں
جی وضاحت نمبر ایک میں بتایا ہے کہ جب ساجد نقوی کو آپ نے ایک دفعہ بہادری کی وجہ سے شیر کہا اور پھر دوسری جگہ تہذیب یافتہ ہونے کی وجہ سے اسکے جانور نہ ہونے کا کہا تو کیا پھر ساجد نقوی بزدل ہو گئے

نوٹ: محترم کنعان بھائی آپ ہی ذرا میری اوپر باتوں پر انصاف سے فیصلہ کر دیں اگر اب بھی کچھ معلومات میں اضافہ ہوا ہو کیونکہ آپ کو انصاف کرتے دیکھا ہے باقی محترم محمد علی جواد بھائی اور محترم ارسلان بھائی کی پوسٹ بھی کافی معلوماتی ہیں اگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے اللہ جزائے خیر دے امین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
تبصرہ سے پہلے کچھ وضاحتیں


1-پہلی وضاحت
اگر کسی کو ابلیس نے تلبیس کی گھٹی دی ہو تو پتا نہیں ورنہ ہر کوئی اس بات کا اقرار کرے گا کہ جب کسی سے مشابہت دی جاتی ہے تو اس سے مراد ہر طرح کی مشابہت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کسی ایک پہلو کی مشابہت کی بات ہوتی ہے مثلا کسی کو جب شیر کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد صرف جسمانی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو لومٹری کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد جسمانی پھرتی کی بجائے ذہنی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو کہا جاتا ہے کہ تم تو جانور ہو تو وہاں اسکا غیر تہذیب یافتہ ہونا مراد ہوتا ہے کسی جسمانی پھرتی یا ذہنی پھرتی کا پہلو نہیں ہوتا
پس کوئی اگر آپ ساجد نقوی کو کہیں کہ وہ شیر کی طرح ہے اور دوسری جگہ کہیں تہذیب کی بات چلے تو آپ کہیں کہ ساجد نقوی جانور نہیں تو آپ ککی دوسری بات سے اگرچہ جانور ہونے کا انکار ہے مگر آپ کی پہلی بات جھوٹ نہیں ہو جائے گی کہ جی شیر بھی تو جانور ہوتا ہے کیونکہ شیر سے نسبت کسی اور پہلو سے دی گئی ہے
جب رسول اللہﷺ نے صحابہ سے سوال کیا کہ أيُّكم مثلي؟ تو کیا کسی صحابی نے رسول اللہﷺ کو یہ جواب دیا کہ آپﷺ ہماری طرح بشر ہیں ؟ جبکہ آپٌ نے جو فلسفہ بھگارہ ہے اس کے مطابق تو صحابہ کا اس طرح کہنا جھوٹ نہ ہوتا پھر کیوں صحابہ پر اس سوال پر سکوت چھاگیا شاید صحابہ آپ کے فلسفے کے ان نکات سے واقف نہ ہونگے
بیوہ عورتوں کی طرح کوسنے دینے سے دلیل میں کوئی وزن نہیں پڑتا


2- دوسری وضاحت
کسی بھی انسان کی ذاتی نام کے علاوہ کچھ صفات بھی ہوتی ہیں عموما انسان کو اسکے ذاتی نام سے پکارا جاتا ہے مگر جب اسکی کسی صفت کے تناظر میں کوئی خاص بات بتانی ہو تو پھر وہاں اسکی صفاتی نام سے پکارا جاتا ہے مثلا اللہ سے جو چیز مانگنی ہو اسی مناسبت سے صفاتی نام استعمال کرنا- اسی طرح انسان کے بھی صفاتی ناموں کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے
مثلا عدالت میں جب جج کسی سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے تو ملزم کہتا ہے کہ میں ملزم ہوں اسکا وکیل کہتا ہے کہ میں اسکا وکیل ہوں یعنی جج ان سے وہاں مقدمہ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوتا ہے اور انکا جواب بھی اسی تناظر میں ہوتا ہے اب وہی وکیل اگر پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہو تو جب اجلاس میں جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں تو وہاں وہ اپنی شناخت کرواتے ہوئے حسب ضرورت کہے گا کہ میں MNA ہوں-پس ثابت ہوا کہ ایک شخص کے ایک سے زیادہ بھی صفات ہو سکتی ہیں اور وہ خود یا مخاطب ان صفات میں سے کسی ایک کا استعمال حسب ضرورت کرے گا یعنی جب پارلیمنٹ میں سیکورٹی والا جھگڑے گا تو وہ وہاں اسکو وہ کہے گا کہ میں MNA ہوں تو کوئی مومن اسکو یہ کہے کہ وہاں عدالت میں تو تم نے کہا تھا کہ تم وکیل ہو اب منافقت سے یہاں کہ رہے ہو کہ تم MNA ہوتو بتائیں ایسے مومن نے گھٹی کس سے لی ہو گی

لیکن اگر کلمہ شہادت میں رسول اللہﷺ کے لئے اللہ کا بندہ اور رسول ہونے میں صرف کسی ایک صفت کی گواہی دی جائے تو بات نہیں بنے گی وہاں رسول اللہﷺ کو بشر یعنی بندہ اور رسول یعنی ایسا بندہ جس کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے دونوں صفات کی گواہی دی جائے تو بات بن سکتی ہے
۔۔۔


3-تیسری وضاحت
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
1-بشر ہونا، 2-وحی کیے گئے، 3-اللہ کے رسول، 4-اللہ کا بندہ

میرا دعوی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر چار صفات میں سے کوئی بھی صفت دوسری صفت کی ناقض نہیں یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا
بلکل ٹھیک بات لیکن ایک بات کا اضافہ کردوں کہ اگر رسول اللہﷺ کو نور کہا جائے تو یہ 5 صفات ہوجائیں گی اور ان 5 صفات میں سے کوئی بھی صفت ایک دوسرے کو ناقص نہیں کرتی یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا ۔
لہذا یہ مسئلہ تو حل ہوا

اب آپ کی تمام وضاحتیں اور فلسفے سب بیکار ہوگئے کیا خیال ہے آپ کا ؟؟؟


نوٹ: محترم کنعان بھائی آپ ہی ذرا میری اوپر باتوں پر انصاف سے فیصلہ کر دیں اگر اب بھی کچھ معلومات میں اضافہ ہوا ہو کیونکہ آپ کو انصاف کرتے دیکھا ہے باقی محترم محمد علی جواد بھائی اور محترم ارسلان بھائی کی پوسٹ بھی کافی معلوماتی ہیں اگر کوئی سمجھنے کی کوشش کرے اللہ جزائے خیر دے امین
اب جو انصاف پسند ہیں وہ خود ہی فیصلہ کر لیں گے ان شاء اللہ بشرط یہ کہ پوسٹ غائب نہ ہو تو !
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اب آپ کی تمام وضاحتیں اور فلسفے سب بیکار ہوگئے کیا خیال ہے آپ کا ؟؟؟اب جو انصاف پسند ہیں وہ خود ہی فیصلہ کر لیں گے ان شاء اللہ بشرط یہ کہ پوسٹ غائب نہ ہو تو !
علی بہرام کے تین اعتراضات تھے پس پر تین وضاحتوں کے ساتھ تین تبصرے میں نے کیے مگر علی بہرام نے سب کچھ گڈ مڈ کر دیا اب میں دوبارہ تینوں اعتراضوں کو تین علیحدہ پوسٹوں میں شروع سے آخر تک لکھتا ہوں تاکہ انصاف پسندوں کو آسانی ہو کہ کیا واقعی علی بہرام نے جواب ٹھیک دئے ہیں یا مکس کر دیا ہے

علی بہرام کا اعتراض نمبر 1

رسول اللہ ﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی فرماتا ہے لیکن منافق کی سوئی صر ف أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ پر آکر رک جاتی ہے وہ آگے بڑھتی ہی نہیں يُوحَىٰ یعنی رسول کی جانب
میری اعتراض نمبر ایک پر وضاحت نمبر 2
2- دوسری وضاحت
کسی بھی انسان کی ذاتی نام کے علاوہ کچھ صفات بھی ہوتی ہیں عموما انسان کو اسکے ذاتی نام سے پکارا جاتا ہے مگر جب اسکی کسی صفت کے تناظر میں کوئی خاص بات بتانی ہو تو پھر وہاں اسکی صفاتی نام سے پکارا جاتا ہے مثلا اللہ سے جو چیز مانگنی ہو اسی مناسبت سے صفاتی نام استعمال کرنا- اسی طرح انسان کے بھی صفاتی ناموں کو حسب ضرورت استعمال کیا جاتا ہے
مثلا عدالت میں جب جج کسی سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے تو ملزم کہتا ہے کہ میں ملزم ہوں اسکا وکیل کہتا ہے کہ میں اسکا وکیل ہوں یعنی جج ان سے وہاں مقدمہ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوتا ہے اور انکا جواب بھی اسی تناظر میں ہوتا ہے اب وہی وکیل اگر پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہو تو جب اجلاس میں جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں تو وہاں وہ اپنی شناخت کرواتے ہوئے حسب ضرورت کہے گا کہ میں MNA ہوں-پس ثابت ہوا کہ ایک شخص کے ایک سے زیادہ بھی صفات ہو سکتی ہیں اور وہ خود یا مخاطب ان صفات میں سے کسی ایک کا استعمال حسب ضرورت کرے گا یعنی جب پارلیمنٹ میں سیکورٹی والا جھگڑے گا تو وہ وہاں اسکو وہ کہے گا کہ میں MNA ہوں تو کوئی مومن اسکو یہ کہے کہ وہاں عدالت میں تو تم نے کہا تھا کہ تم وکیل ہو اب منافقت سے یہاں کہ رہے ہو کہ تم MNA ہوتو بتائیں ایسے مومن نے گھٹی کس سے لی ہو گی
وضاحت نمبر 2 کے ساتھ میرا تبصرہ
اسکا جواب بھی وضاحت نمبر دو کے آخر پر پڑھ لیں کہ وکیل نے اگرچہ عدالت میں اپنے آپ کو وکیل کہا تھا مگر پارلیمنٹ جاتے ہوئے سیکورٹی والے کو MNA کیوں کہا تھا کیا اس سے وہ منافق ہو گا یا اعتراض کرنے والا تلبیس کا مرتکب ہو گا فیصلہ قارئین پر
وضاحت نمبر 2 کے جواب میں علی بہرام کی واضح تلبیس
لیکن اگر کلمہ شہادت میں رسول اللہﷺ کے لئے اللہ کا بندہ اور رسول ہونے میں صرف کسی ایک صفت کی گواہی دی جائے تو بات نہیں بنے گی وہاں رسول اللہﷺ کو بشر یعنی بندہ اور رسول یعنی ایسا بندہ جس کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے دونوں صفات کی گواہی دی جائے تو بات بن سکتی ہے
عبدہ کی پھر وضاحت
میں نے اوپر تبصرہ میں لکھا ہوا تھا کہ جہاں وکیل کو MNA کی پہچان کروانی ہو گی وہاں وہ اپنے آپ کو وکیل نہیں کہ سکتا مگر عدالت میں تو وکیل ہی کہنا پڑے گا لیکن اس سے MNA کا انکار نہیں ہو گا پس یہی لکھا تھا کہ بہرام جیسے لوگوں کو بشریت کا مسئلہ سمجھانے کے لیے لامحالہ بشریت کا نام لینا پڑے گا پس میں نے کہیں نہیں کہا کہ قبر میں صرف ایک صفت کی گواہی دیں گے بلکہ یہ کہا ہے کہ قبر میں وہی گواہی دیں گے جو بخاری میں لکھی ہے مگر دنیا میں کسی مومن کو بشریت سمجھانے کے لئے مجبورا بشریت والی آیت بتانا پڑے گی
پس میں نے جو اوپر لکھا ہے کہ بہرام کی واضح تلبیس تو وہ یہی ہے کہ میں نے یا میرے کسی ساتھی نے یہ نہیں کہا کہ ہم قبر میں بھی ایک گواہی دیں گے لیکن بیچارے جواب نہ ہونے پر کیا کرتے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
علی بہرام کے تین اعتراضات تھے پس پر تین وضاحتوں کے ساتھ تین تبصرے میں نے کیے مگر علی بہرام نے سب کچھ گڈ مڈ کر دیا اب میں دوبارہ تینوں اعتراضوں کو تین علیحدہ پوسٹوں میں شروع سے آخر تک لکھتا ہوں تاکہ انصاف پسندوں کو آسانی ہو کہ کیا واقعی علی بہرام نے جواب ٹھیک دئے ہیں یا مکس کر دیا ہے
علی بہرام کا اعتراض نمبر 2

قبر میں بھی جب منافق سے رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھا جائے گا تو ان کے بارے میں دنیا میں کیا کہتا تھا تو چونکہ دنیا میںمنافق یہ کہتا ہے کہ رسول اللہﷺ میری مثل ہیں اور اس کا یہ کہنا اس کی مولویوں کی وجہ سے ہے جنکی یہ پیروی کرتا ہے تو وہ قبر میں اس سوال کے جواب میں کہے گا - ترجمہ داؤد راز مجھے معلوم نہیں ' میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس جب مومن سے یہی سوال کیا جائے گا تو وہ جواب میں یہ بات کہے گا
أشهدُ أنهُ عبدُ اللهِ ورسوله صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1338 صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2870
یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے( یعنی بشر) اور رسول ہیں( یعنی جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے )
یعنی مومن اس آیت مبارکہ کی تصدیق قبر میں بھی کرے گا لیکن جو کافر اور منافق ہوگا وہ چونکہ دنیا میں رسول اللہﷺ کے لئے بشر بشر کی رٹ لگائے ہوئے ہے تو قبر میں بھی بشر سے آگے کچھ نہین کہے گا اور سزا کا مستحق ٹہرے گا
اعتراض نمبر 2 پر میری وضاحت نمبر 3
3-تیسری وضاحت
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف صفات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں
1-بشر ہونا، 2-وحی کیے گئے، 3-اللہ کے رسول، 4-اللہ کا بندہ
میرا دعوی
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوپر چار صفات میں سے کوئی بھی صفت دوسری صفت کی ناقض نہیں یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا
منافق کی جو سوئی کسی مومن کو چبھ رہی ہے تو ایسا مومن اوپر میری وضاحت نمبر دو پڑھ لے کہ جب کسی مومن کو ہم نے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ کے بنی بشر ہیں یا نور تو پھر ہمیں بشر کی ہی بات کرنی ہو گی ورنہ جب قبر میں فرشتہ کو بتانا ہو گا تو وہاں ہم اسکے مطابق ہی بات کریں گے پس سوئی بشر تک روکنے سے فساد لازم نہیں آتا کیونکہ وضاحت نمبر تین میں بتایا گیا ہے کہ کوئی صفت دوسری کی ناقض نہیں
اسکا جواب بھی وضاحت نمبر دو کے آخر پر پڑھ لیں کہ وکیل نے اگرچہ عدالت میں اپنے آپ کو وکیل کہا تھا مگر پارلیمنٹ جاتے ہوئے سیکورٹی والے کو MNA کیوں کہا تھا کیا اس سے وہ منافق ہو گا یا اعتراض کرنے والا تلبیس کا مرتکب ہو گا فیصلہ قارئین پر
جی وضاحت نمبر ایک میں بتایا ہے کہ جب ساجد نقوی کو آپ نے ایک دفعہ بہادری کی وجہ سے شیر کہا اور پھر دوسری جگہ تہذیب یافتہ ہونے کی وجہ سے اسکے جانور نہ ہونے کا کہا تو کیا پھر ساجد نقوی بزدل ہو گئے
وضاحت نمبر 3 کے ساتھ میرا تبصرہ
منافق کی جو سوئی کسی مومن کو چبھ رہی ہے تو ایسا مومن اوپر میری وضاحت نمبر دو پڑھ لے کہ جب کسی مومن کو ہم نے یہ بتانا ہوتا ہے کہ اللہ کے بنی بشر ہیں یا نور تو پھر ہمیں بشر کی ہی بات کرنی ہو گی ورنہ جب قبر میں فرشتہ کو بتانا ہو گا تو وہاں ہم اسکے مطابق ہی بات کریں گے پس سوئی بشر تک روکنے سے فساد لازم نہیں آتا کیونکہ وضاحت نمبر تین میں بتایا گیا ہے کہ کوئی صفت دوسری کی ناقض نہیں
وضاحت نمبر 3 کے جواب میں بشریت مانتے ہوئےعلی بہرام نیا دعوی
بلکل ٹھیک بات لیکن ایک بات کا اضافہ کردوں کہ اگر رسول اللہﷺ کو نور کہا جائے تو یہ 5 صفات ہوجائیں گی اور ان 5 صفات میں سے کوئی بھی صفت ایک دوسرے کو ناقص نہیں کرتی یعنی ان میں ایک صفت کے ہونے سے دوسری صفت کے باطل ہونا لازمی نہیں آتا ۔
عبدہ کی پھر وضاحت
پہلے آپ بشر کا اقرار کریں پھر نور کی وضاحت کریں تو اس پر بھی بات کر لیتے ہیں کہ یہ دونوں صفتیں آپس میں متضاد ہیں کہ نہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
علی بہرام کے تین اعتراضات تھے پس پر تین وضاحتوں کے ساتھ تین تبصرے میں نے کیے مگر علی بہرام نے سب کچھ گڈ مڈ کر دیا اب میں دوبارہ تینوں اعتراضوں کو تین علیحدہ پوسٹوں میں شروع سے آخر تک لکھتا ہوں تاکہ انصاف پسندوں کو آسانی ہو کہ کیا واقعی علی بہرام نے جواب ٹھیک دئے ہیں یا مکس کر دیا ہے
علی بہرام کا اعتراض نمبر 3

دوسری بات کہ آج کا منافق اس آیت سے جو معنی لے رہا ہے وہ معنی صحابہ نے نہیں لیا کیونکہ صحابہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے ایسی لئے جب ایک بار رسول اللہ ﷺ صحابہ سے پوچھا کہ
أيُّكم مثلي؟ تم میں کون میری مثل ہے صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6851
اس سوال پر کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ آپ ہماری مثل تو ہیں اللہ قرآن میں یہی فرماتا بلکہ خاموش ہوگئے کیونکہ صحابہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہیں جن کی جانب اللہ وحی نازل فرماتا ہے اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں یہ فرق ہے صحابہ کی فہم اور ایک منافق کی سوچ میں
اعتراض نمبر 3 پر میری وضاحت نمبر 1
1-پہلی وضاحت
جب کسی سے مشابہت دی جاتی ہے تو اس سے مراد ہر طرح کی مشابہت نہیں ہوتی بلکہ اس میں کسی ایک پہلو کی مشابہت کی بات ہوتی ہے مثلا کسی کو جب شیر کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد صرف جسمانی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو لومٹری کی طرح کہا جاتا ہے تو مراد جسمانی پھرتی کی بجائے ذہنی پھرتی کا پہلو ہوتا ہے اسی طرح کسی کو کہا جاتا ہے کہ تم تو جانور ہو تو وہاں اسکا غیر تہذیب یافتہ ہونا مراد ہوتا ہے کسی جسمانی پھرتی یا ذہنی پھرتی کا پہلو نہیں ہوتا
پس کوئی اگر آپ ساجد نقوی کو کہیں کہ وہ شیر کی طرح ہے اور دوسری جگہ کہیں تہذیب کی بات چلے تو آپ کہیں کہ ساجد نقوی جانور نہیں تو آپ ککی دوسری بات سے اگرچہ جانور ہونے کا انکار ہے مگر آپ کی پہلی بات جھوٹ نہیں ہو جائے گی کہ جی شیر بھی تو جانور ہوتا ہے کیونکہ شیر سے نسبت کسی اور پہلو سے دی گئی ہے
وضاحت کے ساتھ میرا تبصرہ
جی وضاحت نمبر ایک میں بتایا ہے کہ جب ساجد نقوی کو آپ نے ایک دفعہ بہادری کی وجہ سے شیر کہا اور پھر دوسری جگہ تہذیب یافتہ ہونے کی وجہ سے اسکے جانور نہ ہونے کا کہا تو کیا پھر ساجد نقوی بزدل ہو گئے
میری وضاحت اور تبصرہ پر علی بہرام کی واضح تلبیس
جب رسول اللہﷺ نے صحابہ سے سوال کیا کہ أيُّكم مثلي؟ تو کیا کسی صحابی نے رسول اللہﷺ کو یہ جواب دیا کہ آپﷺ ہماری طرح بشر ہیں ؟ جبکہ آپٌ نے جو فلسفہ بھگارہ ہے اس کے مطابق تو صحابہ کا اس طرح کہنا جھوٹ نہ ہوتا پھر کیوں صحابہ پر اس سوال پر سکوت چھاگیا شاید صحابہ آپ کے فلسفے کے ان نکات سے واقف نہ ہونگے
عبدہ کی پھر وضاحت
میں نے پھر لکھا ہے کہ علی بہرام نے واضح تلبیس سے کام لیا ہے پس میں نے اس اعتراض پر شروع سے آخر تک بحث ترتیب وار لکھ دی ہے انصاف پسند جان لیں گے
البتہ علی بہرام کے منہ سے سسنے کے لئے میں اسی طرح کا سوال علی بہرام سے کرتا ہوں
آپ سے میں دو سوال کرتا ہوں
1-میں علی بہرام کو کہتا ہوں کہ وہ جانوار نہیں ہے تو علی بہرام خاموش رہتا ہے
2-پھر میں علی بہرام کو کہتا ہوں کہ علی بہرام شیر ہے تو پھر بھی وہ خاموش رہتا ہے

اب اگر اس پر ہمارے لولی بھائی پہلے سوال کو چھوڑ کر دوسرے سوال پر منطق لڑائیں کہ چونکہ علی بہرام نے اپنے آپ کو شیر کہنے پر خاموشی اختیار کی ہے اور شیر سے مشابہت سے مراد اسکے جانور ہونے میں مشابہت بھی ہو سکتی ہے تو علی بہرام جانور ہے تو آپ مانیں گے
جی محترم lovelyalltime بھائی کیا آپ کو اس طرح کی منطق لڑانا آتا ہے
 
Top