• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تحقیق البانی رحمۃ اللہ علیہ۔۔

شمولیت
ستمبر 08، 2015
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
53
السلامُ علیکم

میرا سوال ہے کہ کیا امام البانی اہل الحدیث تهے؟؟

کیا انہوں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی کچھ روایات کو ضعیف کہا ہے؟

ایسا میں نے سنا ہے؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
کیا ان کی تحقیقات صحیح ہیں؟۔
سلسلہ احادیث الصحیحہ اور صحیح الجامع الصغیر کی صحت
شروع از بتاریخ : 07 December 2011 09:08 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سلسلہ احادیث الصحیحہ اور صحیح الجامع الصغیر میں تمام احادیث صحیح ہیں؟ جزاكم الله خيرا

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ اور صحیح الجامع الصغیر حسان وصحاح احادیث کا عظیم مجموعہ ہے اور یہ دونوں کتب علامہ البانی مرحوم رحمہ اللہ کی محنت شاقہ کا ثمر اوراحایث کی تحقیق وتخریج کا حسین مرقع ہیں۔ان کتب میں اغلب احایث حسن یا صحیح درجہ ہی کی ہیں ۔البتہ کچھ روایات کمزور ضعیف بھی ہیں،چنانچہ ان میں سے بعض روایات کی صحت سےعلامہ موصوف رحمہ اللہ کااپنا رجوع بھی ثابت ہے،جس کی وضاحت تراجعات البانی میں دیکھی جاسکتی ہے اور کچھ روایات پر دیگر محققین کے تحفظات ہیں۔ المختصر ان کتب میں ضعیف روایات کا وجود نہایت کم ہے اور حسن وصحیح روایات کی بہتات ہے،اس لیے مجموعی اعتبار سے یہ دونوں کتب نہایت مفید اورذخیرہ احادیث میں بیش قیمت اضافہ ہیں۔

وباللہ التوفیق
فتویٰ کمیٹی
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/280/0/
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلامُ علیکم

میرا سوال ہے کہ کیا امام البانی اہل الحدیث تهے؟؟

کیا انہوں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی کچھ روایات کو ضعیف کہا ہے؟

ایسا میں نے سنا ہے؟

افسوس ہے کہ ۲؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اُردن میں علم و تحقیق کا وہ آفتاب غروب ہوگیا، جس سے پورا عالم اسلام روشنی حاصل کر رہا تھا، یعنی شیخ الاسلام والمسلمین محمدناصر الدین الالبانی رہگرائے عالم بقا ہوگئے۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون!

شیخ البانی اپنے وقت کے عظیم محقق، محدث اور داعی ٔ کبیر تھے، انہوں نے بیک وقت کئی محاذوں پر اتنے عظیم کارنامے سرانجام دیئے ہیں جو کئی ادارے اور بڑی بڑی اکیڈیمیاں بھی مل کر نہیں کرسکتیں تھیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ احادیث کی تحقیق و تخریج اور اس کے ذوق کاعام کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی عظیم الشان خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ جس کی تفصیل اہل علم و تحقیق ہی صحیح معنوں میں بیان کرسکتے ہیں اور کریں گے۔ تاہم ایک اِجمالی سا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے:

ان کی ایک عظیم خدمت ِحدیث یہ ہے کہ انہوں نے سنن اربعہ (ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) چاروں کتابوں کی احادیث کی تحقیق او رچھان پھٹک کرکے ضعیف اور صحیح دونوں قسم کی روایات کو الگ الگ کردیا۔ یہ چاروں کتابیں صحیحین (بخاری و مسلم) کے ساتھ مل کر صحاحِ ستہ کہلاتی تھیں۔ جس سے عام تاثر یہ ملتا تھا کہ مذکورہ چاروں کتابوں کی روایات بھی ، صحیح بخاری و مسلم کی روایات کی طرح صحیح ہیں۔ چنانچہ کسی روایت کا ان کتابوں میں ہونا ہی، ا س کے مستند ہونے کے لئے کافی سمجھا جاتا تھا اور اس کی تحقیق کی جاتی تھی نہ اس کی ضرورت ہی سمجھی جاتی تھی۔ حالانکہ صحیحین کی روایات کو تو یقینا یہ مقام حاصل تھا اور ہے لیکن سنن اربعہ کی روایات کا یہ مقام نہیں تھا۔ صحاحِ ستہ کی اصطلاح اور علماء کے تساہل یا فن تخریج حدیث سے ناواقفیت کی وجہ سے سنن اربعہ کو بھی عملاً صحیحین کا درجہ غیر شعوری طور پر حاصل تھا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے پہلی مرتبہ سنن اربعہ کو دو دو حصوں میں تقسیم کرکے، علماء کو آسانی مہیا فرما دی۔ اب ہر عالم، جو تحقیق حدیث کے فن سے آشنائی یا اس میں درک اور تجربہ نہیں رکھتا، وہ بھی ان میں موجود روایات سے آگاہی حاصل کرسکتا ہے کہ کون سی روایت صحیح ہے او رکون سی روایت ضعیف ؟ علاوہ ازیں ان کا یہ موقف بھی تھا کہ صحاحِ ستہ کی اصطلاح، قابل اصلاح ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ بخاری و مسلم کو صحیحین (حدیث کے دو صحیح مجموعے) اور باقی چار کتابوں کو سنن اربعہ کہا جائے اور صحاحِ ستہ کی ا صطلاح ترک کردی جائے، تاکہ لوگ سنن اربعہ کو بھی صحیحین کی طرح احادیث کا صحیح مجموعہ نہ سمجھیں۔

شیخ البانی کے اس عظیم کارنامے کوبعض لوگ تحسین کی نظر سے نہیں دیکھتے، بلکہ اس پر تنقید کرتے ہیں کہ ائمہ محدثینکی یہ کتابیں صدیوں سے متداول چلی آرہی تھیں، ان میں بنیادی تبدیلی کرکے، ان کی اصل حیثیت کو مجروح کردیا گیا ہے لیکن اس اعتراض میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ جب شیخ مرحوم نے محدثانہ اصولِ نقد و جرح ہی کی روشنی میں ایک ایسا کام کیاہے جس کی فی الواقع شدید ضرورت تھی، اور جس کی اہلیت و صلاحیت سے بعض علماء عاری ہوتے ہیں، تو علماء کے لئے یہ آسانی بہم پہنچا دینا کہ وہ صحیح اور ضعیف روایات کو پہچان سکیں، تحسین و آفرین کے قابل ہے نہ کہ تقبیح و تہجین کے۔

دوسرا اعتراض وہ یہ کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ شیخ البانی نے جسے صحیح میں یا ضعیف میں درج کیا ہے، وہ روایت واقعی صحیح یا ضعیف ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ جس حدیث کو انہوں نے صحیح سمجھا ہو، وہ ضعیف ہو اور جس ضعیف قرار دیا ہو، وہ صحیح ہو۔ اس لئے ایسے کام کا کیا فائدہ؟ لیکن ہم عرض کریں گے کہ جہاں تک خطا کا تعلق ہے، تو وہ مسلم ہے، کوئی بھی انسانی محنت و کاوش، امکانِ خطا سے پاک نہیں۔ لیکن محض امکانِ خطا یا چند روایات میںخطا سے اس سارے کام کی قدروقیمت ختم ہوجائے گی جو شیخ مرحوم نے کیا ہے؟ ایسا کہنا یا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے صحت و ضعف کے حکم سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، علم و تحقیق کا یہ دروازہ تو ہمیشہ سے کھلا رہا ہے اور کھلا رہے گا اور جب تک یہ دروازہ کھلا ہے، شیخ البانی مرحوم کی تحقیقات سے بھی دلائل کی رو سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہے گا، لیکن محض چند روایات میں اختلاف یا خطا کے اِمکان سے شیخ مرحوم کی اس عظیم الشان خدمت کی تحقیر نہیں کی جاسکتی جس کی توفیق صدیوں بعد اللہ نے ان کو عطا فرمائی۔ یہ ان کی جلیل ُالقدر خدمت ہے، جس سے علماء کی ایک بہت بڑی اکثریت سنن اربعہ میں موجود ضعیف روایات سے آگاہ ہوئی۔

مشکوٰۃ المصابیح بھی مدارسِ دینیہ اور علمی و دینی حلقوں میں متداول کتاب ہے، اسے بھی اللہ نے قبولیت ِعامہ سے نوازا ہے۔ مگر اس میں بھی بہت سی ضعیف روایات موجود ہیں، لیکن چونکہ علماء کی اکثریت تحقیق حدیث کے ذوق اور فن کی عادینہیں ہے، ا س لئے اس کی ضعیف روایات بھی زبان زدِ عوام و خواص ہیں۔ اس کتاب کو بھی شیخ البانی نے اپنی تعلیقات کے ساتھ شائع کیا، تو اکثر مقامات پر انہوں نے صحیح و ضعیف روایات کی وضاحت کردی ہے، جس سے پہلی مرتبہ اکثر لوگوں کو اس کی بہت سی ضعیف روایات کا علم ہوا، ورنہ اس سے پیشتر اس کی روایات کو تقریبا ً صحیح ہی سمجھا جاتا تھا، یا کم از کم ہر صاحب ِعلم بالخصوص واعظانِ منبر و محراب اور مسند نشینانِ دعوت و ارشاد روایات کی تحقیق اور جانچ پڑتال سے غفلت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے شیخ البانی کو، انہوں نے اس پر بھی مختصر سا کام کرکے عام علماء کے لئے ایک بہت بڑی سہولت عطا فرما دی،جس سے بہت سی روایات کی حقیقت سامنے آئی، اور ان کا ضعف واضح ہوا۔

منار السبیل فقہ حنبلی کی ایک کتاب ہے، ا س کی روایات کی بھی مفصل تخریج و تحقیق شیخ مرحوم نے کی۔ یہ بھی شیخ کی ایک نہایت اہم کتاب ہے جو ۸ جلدوں میں ہے، اس میں ۲۷۰۷ احادیث اور ان کے ضمن میں دیگر سینکڑوں احادیث کی تحقیق ہے۔ یہ إرواء الغلیل کے نام سے مطبوع اور معروف ہے۔

شیخ مرحوم نے صحیح و ضعیف احادیث کا ایک اور سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ ایک سلسلے کا نام ’’الأحادیث الصحیحة وشيء من فقھھا وفوائدھا‘‘ اور دوسرے کا نام ’’الأحادیث الضعیفةو أثرھا السیی ٔ في الأمة‘‘ ہے۔ ان دونوں سلسلوں کے ۵،۵؍۶،۶ حصے شائع ہوچکے ہیں، لیکن سننے میں آیا ہے کہ جتنے حصے ان کے شائع ہوئے ہیں، اتنا ہی مواد یا اس سے کچھ کم و بیش ابھی تک غیر مطبوعہ ہے جس پر شیخ مرحوم اپنی تحقیقات مکمل کرچکے ہیں۔ ان کی کتابوں کے ناشر شیخ زہیر الشاویش سے امید ہے کہ وہ شیخ کے مسودات ہر صورت میںحاصل کرکے انہیں جلد از جلد زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے منصہ شہود پر لائیں گے، تاکہ اہل علم ان سے استفادہ کرسکیں اور حضرت شیخ کے لئے وہ صدقہ ٔ جاریہ بنے۔

ا س قسم کی اور متعدد کتابیں ہیں جو شیخ مرحوم کی علمی یادگار ہیںاور ان میں درج احادیث کی صحت و ضعف کی صراحت سے اہل علم و تحقیق کو بہت فائدہ پہنچا اور پہنچ رہا ہے اور اب تاقیامت پہنچتا رہے گا۔ جیسے فقہ السنۃ(جو سید سابق مصری کی نہایت بلند پایہ اور بڑی مقبول کتاب ہے) اس کی احادیث کی تخریج و تحقیق ’’تمام المنة‘‘ کے نام سے اور علامہ یوسف قرضاوی کی کتاب ’’الحلال والحرام‘‘ کی احادیث کی تخریج و تحقیق توضیح المرام کے نام سے۔اس وقت ان تمام کتابوں کا شمار یا شیخ کی تالیفات کی مکمل تفصیل پیش کرنا مقصود نہیں۔ یہ تو بہت بڑا کام ہے جو کوئی صاحب ِعلم و تحقیق اور کوئی دیدہ وَر سوانح نگار ہی کرسکتا ہے، راقم کا مقصود تو ان عظیم خدمات کی طرف صرف اشارہ کرنا ہے جو اس دور میں شیخ مرحوم نے اللہ کی توفیق سے سرانجام دی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صدیوں بعد یہ عظیم محدث پیدا ہوا تھا، جس نے محدثین عظام کے دور کو بھی تازہ کردیا اور انہی کے چھوڑے ہوئے کام کی ایک گونہ تکمیل بھی کی۔ ذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء

ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

شیخ کی اس محنت و کاوش اور تالیفات و تحقیقات کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ عام علماء کے لئے آسانی پیدا ہوگئی، بلکہ ایک دوسرا بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ اس ایک چراغ سے بہت سے چراغ روشن ہوئے، تحقیق حدیث کا ذوق عام ہوا ، اور اب دسیوں، بیسیوں نہیں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے علماء ہیں جو شیخ کے منہاج پر، جو دراصل محدثین ہی کا منہاج ہے، حدیث کی تحقیق و تخریج کا کام کر رہے ہیں۔ اور مشرق سے لے کر مغرب تک، جنوب سے لے کر شمال تک، عرب و عجم میں ہر جگہ احادیث کے مجموعوں کو تحقیق و تدقیق کے مراحل سے گزارا جارہا ہے، تاکہ صحیح احادیث، ضعیف احادیث سے الگ اور ممتاز ہوجائیں۔یہ شیخ مرحوم کا وہ فیضان عام ہے جو ان کے مختصر سے تدریسی دور سے، جو انہوں نے مدینہ یونیورسٹی میں گزارا، اور ان کی تالیفات سے، جو عرب و عجم میں یکساں مقبول ہیں، علماء تک پہنچا او راب وہ اسے مزید عام کر رہے ہیں۔ فجزا ہ اللہ عن الإسلام والمسلمین خیرالجزاء

دوسری عظیم خدمت جو شیخ البانی نے سرانجام دی، وہ ہے حدیث کی حجیت و استناد کا اِثبات اور عمل بالحدیث کے جذبے کا اِحیا اور فروغ ، جس سے جدید و قدیم منکرین حدیث کے شبہات کا ازالہ ہوا، فقہی جمود ٹوٹا اور تقلید کی جکڑ بندیاں ڈھیلی ہوئیں۔ یہ دونوں کام اگرچہ تقریباً ایک صدی سے سلفی تحریک کے ذریعے سے ہو رہے تھے، لیکن شیخ نے اپنے اَفکار، دعوت و تبلیغ اور تالیفات کے ذریعے سے اس تحریک ِسلفیّت میں ایک نئی روح پھونکی اور اسے عالمی جہتوں سے ہمکنار کرکے پورے عالم اسلام میں اس کے اثرات پھیلا دیئے۔ اس سلفی ذہن و جذبے کے احیاء و فروغ میں شیخ ابن باز مرحوم کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ اس دور میں ان دونوں شخصیات نے دین کی تجدید اور اس کے احیاء کا کام جس شدت اور قوت سے کیا ہے، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا، تو اس میں قطعا ً مبالغہ نہ ہوگا۔ اس اعتبار سے یہ دونوں شخصیات اس حدیث «إن اللہ لیبعث لھٰذا الأمة علی رأس کل مائة سنة من یجدّد لھا دینھا» (رواہ ابوداود، مشکوٰۃ، کتاب العلم، الفصل الثانی) کا مصداق ہیں۔ واللہ اعلم!

باقی ہر صاحب ِعلم کی طرح شیخ البانی کے بھی کچھ شذوذ و تفردات تھے، جیسے داڑھی ، مسئلہ حجاب اور سونے کے زیورات کا استعمال، وغیرہ کے مسائل ہیں۔ ان میں ان کی رائے سلفی علماء کی رائے سے مختلف تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے اور ان کو دوسروں کی لغزش کا ذریعہ نہ بنائے۔ بہرحال ان کی وفات عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑا سانحہ ہے، وہ اپنے وقت کے عظیم محدث بھی تھے اور بے مثال محقق بھی، ایک مبلغ و داعی ٔ کبیر بھی تھے اور شفیق استاذ و معلم بھی، صاحب ِحال صوفی، صافی بھی تھے اور صاحب ِقال عظیم واعظ بھی ؎ ولیس للہ بمستنکر أن یجمع العالم في واحد
غفراللہ له ورحمه و برد مضجعه وجعل الجنة مثواہ !!
http://magazine.mohaddis.com/shumara/136-nov-1999/1890-sheikh-albani-azeem-khidmat-tazkara
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
البانی صاحب نے مزید ایک نیاطریقہ بھی شروع کیاتھا کہ وہ اپنی ہر تصنیف وتحقیق کے مقدمہ میں مخالفین کانام لے کر ان پر سب وشتم اردو میں کہیں توبرابھلاکہنایاپھر دل کے پھپھولے پھوڑتے تھے، ان کی کسی بھی کتاب کو اٹھاکر دیکھ لیجئے، یہ روایت پوری آن بان کے ساتھ ملے گی،یہ کہناپڑتاہے کہ وہ اپنے اس فن کے بانی اورخاتم تھے،اس میں کوئی انکا شریک وسہیم نہیں۔
احادیث کی تصحیح وتضعیف کا جہاں تک معاملہ ہے تو یقینادرمیانی صدیوں میں کئی ایسے عظیم الشان محدث گزرے ہیں جواس کام کے پورے طورپر اہل تھے اورکرسکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔
جس طرح ہم کسی چیز کے بدعت ہونے کا فیصلہ اس بناء پر کرتے ہیں کہ اگرصحابہ کرام کے زمانہ میں اس کا داعی وتقاضاموجود تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے نہیں کیاجیسے میلاد وغیرہ تو وہ عمل بدعت ہے،اسی طرح ہمیں سوچناچاہئےکہ اگراکابر محدثین علماء نے کوئی کام دواعی اورتقاضوں کے باوجود نہیں کیا،مثلاصحاح ستہ کی تقسیم اور تصحیح وتضعیف حالانکہ اس دور کے عوام کو بھی صحیح حدیث اورضعیف حدیث کے جاننے کی ضرورت تھی؟تواس پر ذراسنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے، یہ عمل یقینابدعت نہیں ہے لیکن؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ایک سوالیہ نشان ضرور قائم کرتاہے۔
البانی صاحب نے یقینااحادیث کی تضعیف وتصحیح کاکام اچھاخاصا انجام دیاہے،جہاں تک ان کے حامیوں کا سوال ہے تو وہ خدمت حدیث میں اس دور کے مجدد تھے اورگزشتہ کئی صدیوں میں ان کے پائے کا محدث پیدانہیں ہوا،جہاں تک ان کے مخالفین کا سوال ہے تو وہ انہیں ایک خود ساختہ محدث ،بے استاداوریہ مانتاہے کہ ان کیلئے بہتر تھاکہ وہ گھڑی کی کارگری کا کام ہی ٹھیک سے انجام دیتے رہتے، خواہ مخواہ اپنی لیاقت وصلاحیت سے بڑھ کر دوسرے میدان میں داخل نہ ہوتے ،جہاں تک معتدل رائے رکھنے والوں کا سوال ہے توان کی رائے یہ ہے کہ ان کو علم حدیث اورخصوصاجرح وتعدیل میں درک ضرور تھالیکن بہرحال حدیث کی تصحیح وتضعیف بایں امر کہ سند کے بجائے ڈائریکٹ حدیث پر حکم لگانے کی لیاقت سے بہرہ ور نہیں تھےبالخصوص یہ کہ کسی حدیث پر صحت اورحسن کاحکم لگانے کیلئے محض ایک صحیح سند بھی کافی ہوتی ہے لیکن ضعف وموضوع ہونے کا حکم لگانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے پورے ذخیرہ احادیث پر وسیع نگاہ ہونی چاہئے۔
البانی صاحب کا قول بلیغ وذیشان یہ تھاکہ محدث بالطبع فقیہہ ہوتاہے لہذا اس کو الگ سے فقاہت کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں، اسی لئے انہوں نے بھی خود کو محدث العصر سمجھ کر فقہ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ ان کے خیال میں جب وہ محدث العصر تھے تو فقیہ العصر وہ خود بخود بن گئے جیسے کسی کا بڑھاپااس کو مقتضی ہے کہ اس پرجوانی بھی آئی ہوگی ،لہذا خود کو فقیہہ العصرسمجھ کر انہوں نے فقہی مسائل ومعاملات میں بھی دخل دراندازی کی،لیکن جن لوگوں نے حدیث میں ان کو اتھارتی مانا،انہوں نے فقہ کے باب میں ان کی آراء کو قابل اعتناء نہیں سمجھا۔
آج کیلئے اتناکافی ہے
اللہ بس باقی ہوس
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
البانی صاحب نے مزید ایک نیاطریقہ بھی شروع کیاتھا کہ وہ اپنی ہر تصنیف وتحقیق کے مقدمہ میں مخالفین کانام لے کر ان پر سب وشتم اردو میں کہیں توبرابھلاکہنایاپھر دل کے پھپھولے پھوڑتے تھے، ان کی کسی بھی کتاب کو اٹھاکر دیکھ لیجئے، یہ روایت پوری آن بان کے ساتھ ملے گی،یہ کہناپڑتاہے کہ وہ اپنے اس فن کے بانی اورخاتم تھے،اس میں کوئی انکا شریک وسہیم نہیں۔
آپ کے بارے میں ہماری یہ رائے پختہ ہورہی ہے کہ آپ کسی عالم یا اس کی کتابوں پر ’’ شوق تبصرہ ‘‘ پورا کرنے کے لیے ان کو پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ، خیرفی الوقت یہ تین کتابیں ہیں ان میں سے وہ کچھ نکال کر دکھائیں جس کا آپ نے دعوی کیا ہے :
مختصر الشمائل المحمدیہ
تحقیق فضل الصلاۃ علی النبی
تخریج الکلم الطیب
احادیث کی تصحیح وتضعیف کا جہاں تک معاملہ ہے تو یقینادرمیانی صدیوں میں کئی ایسے عظیم الشان محدث گزرے ہیں جواس کام کے پورے طورپر اہل تھے اورکرسکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔
جی بوصیری و ہیثمی و ابن حجر سے پہلے بھی بہت سارے اہل علم گزرے ہوں گے ، جو ’’ فن زوائد ‘‘ سے واقفیت رکھتے ہوں گے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ اسی طرح ساتھویں آٹھویں صدی ہجری سے پہلے بہت سے علماء گزرے ہوں گے جو علم تخریج سے واقف ہوں گے ، لیکن انہوں نے اس کا اہتمام نہیں کیا ۔
جہاں تک معتدل رائے رکھنے والوں کا سوال ہے توان کی رائے یہ ہے کہ ان کو علم حدیث اورخصوصاجرح وتعدیل میں درک ضرور تھالیکن بہرحال حدیث کی تصحیح وتضعیف بایں امر کہ سند کے بجائے ڈائریکٹ حدیث پر حکم لگانے کی لیاقت سے بہرہ ور نہیں تھےبالخصوص یہ کہ کسی حدیث پر صحت اورحسن کاحکم لگانے کیلئے محض ایک صحیح سند بھی کافی ہوتی ہے لیکن ضعف وموضوع ہونے کا حکم لگانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس کیلئے پورے ذخیرہ احادیث پر وسیع نگاہ ہونی چاہئے۔
یہ معتدل رائے جناب کی خانہ ساز ہے ، یا کسی معتدل صاحب علم کی ہے ؟
البانی صاحب کا قول بلیغ وذیشان یہ تھاکہ محدث بالطبع فقیہہ ہوتاہے لہذا اس کو الگ سے فقاہت کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں،
اس قول سے آپ کی حیرانی و پریشانی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جناب لفظ ’’ محدث ‘‘ کے معنی و مفہوم سے ہی ناواقف ہوں ۔ یا ممکن ہے فقیہ کے لیے جو لوازمات آپ دل میں بٹھائے بیٹھے ہوں ، البانی ان پر پورے نہ اترتے ہوں ۔
ورنہ تو عبادات و معاملات میں ان کی لکھی ہوئی کتابوں سے ایک عالَم استفادہ کر رہا ہے ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
حالانکہ صحیحین کی روایات کو تو یقینا یہ مقام حاصل تھا اور ہے لیکن سنن اربعہ کی روایات کا یہ مقام نہیں تھا۔
جب ”صحیحین “ میں بھی کچھ ضعیف احادیث کی موجودگی کا عندیہ دیا جارہا ہے تو یہ ”یقین“ کہاں سے پیدا ہو گیا؟

جب شیخ مرحوم نے محدثانہ اصولِ نقد و جرح ہی کی روشنی میں ایک ایسا کام کیاہے جس کی فی الواقع شدید ضرورت تھی، اور جس کی اہلیت و صلاحیت سے بعض علماء عاری ہوتے ہیں، تو علماء کے لئے یہ آسانی بہم پہنچا دینا کہ وہ صحیح اور ضعیف روایات کو پہچان سکیں، تحسین و آفرین کے قابل ہے نہ کہ تقبیح و تہجین کے۔
مرحوم البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کو ”صحیح“ یا ”ضعیف“ روات کے صحت و ضعف کی روشنی میں کیا ہے (کسی اور طریقہ سے کیا ہے تو وہ بتادیں)۔ روات کی صحت و ضعف وہ چودہ سو سال بعد براہِ راست تو معلوم نہیں کر سکتے تھے یہ ”یقینی“ بات ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ انہوں نے ان محدثینِ کرام کی تحقیق پر ہی اعتماد کیا ہوگا (کوئی اور طریقہ اختیار کیا ہے تو وہ بتادیں)۔
محدثین کرام ہی بعض اوقات کہتے ہیں کہ یہ حدیث ”ضعیف“ ہے مگر عمل اس پر ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راوی اس میں ضعیف موجود ہے مگر اس حدیث کا متن صحیح ہے اسی لئے تو اس پر عمل ہے وگرنہ خیر القرون ہی بدعتی ثابت ہوگا اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ”صحیح“ حدیث کے خلاف ہے لہٰذا یہ کہنا صحیح نہ ہوگا۔

دوسرا اعتراض وہ یہ کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ شیخ البانی نے جسے صحیح میں یا ضعیف میں درج کیا ہے، وہ روایت واقعی صحیح یا ضعیف ہو، بلکہ عین ممکن ہے کہ جس حدیث کو انہوں نے صحیح سمجھا ہو، وہ ضعیف ہو اور جس ضعیف قرار دیا ہو، وہ صحیح ہو۔ اس لئے ایسے کام کا کیا فائدہ؟ لیکن ہم عرض کریں گے کہ جہاں تک خطا کا تعلق ہے، تو وہ مسلم ہے، کوئی بھی انسانی محنت و کاوش، امکانِ خطا سے پاک نہیں۔ لیکن محض امکانِ خطا یا چند روایات میںخطا سے اس سارے کام کی قدروقیمت ختم ہوجائے گی جو شیخ مرحوم نے کیا ہے؟ ایسا کہنا یا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے صحت و ضعف کے حکم سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، علم و تحقیق کا یہ دروازہ تو ہمیشہ سے کھلا رہا ہے اور کھلا رہے گا اور جب تک یہ دروازہ کھلا ہے، شیخ البانی مرحوم کی تحقیقات سے بھی دلائل کی رو سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہے گا، لیکن محض چند روایات میں اختلاف یا خطا کے اِمکان سے شیخ مرحوم کی اس عظیم الشان خدمت کی تحقیر نہیں کی جاسکتی جس کی توفیق صدیوں بعد اللہ نے ان کو عطا فرمائی۔ یہ ان کی جلیل ُالقدر خدمت ہے، جس سے علماء کی ایک بہت بڑی اکثریت سنن اربعہ میں موجود ضعیف روایات سے آگاہ ہوئی۔
کیا البانی کی تحقیق سے پہلے کسی کو اس کی خبر نہ تھی اور انہیں اس کا چودہ سو سال بعد ”الہام“ ہؤا کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط۔

البانی صاحب کا قول بلیغ وذیشان یہ تھاکہ محدث بالطبع فقیہہ ہوتاہے لہذا اس کو الگ سے فقاہت کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں، اسی لئے انہوں نے بھی خود کو محدث العصر سمجھ کر فقہ کی جانب کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ ان کے خیال میں جب وہ محدث العصر تھے تو فقیہ العصر وہ خود بخود بن گئے
البانی کا یہ خیال خود ”صحیح“ حدیث کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ؛
المستدرك على الصحيحين للحاكم - (ج 1 / ص 284)
قال : قام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخيف ، فقال : « نضر (1) الله عبدا سمع مقالتي فوعاها ، ثم أداها إلى من لم يسمعها ، فرب حامل فقه لا فقه (2) له ، ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ، ثلاث لا يغل (3) عليهن قلب مؤمن : إخلاص العمل لله ، والطاعة لذوي الأمر ، ولزوم جماعة المسلمين ، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم » . « هذا حديث صحيح على شرط الشيخين

خلاصہ کلام یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لازم نہیں کہ جس نے مجھ سے کوئی فقہی حدیث سنی وہ کماحقہ اس کو سمجھ جائے بلکہ ممکن ہے کہ وہ جس تک یہ پہنچائے وہ اس میں موجود فقہ کو کما حقہ سمجھ لے۔
 
Top