- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
ادھر شعرائے بے توفیق نے سب کچھ بدل ڈالا
شریعت کی نزاکت میں، نفاست میں خلل ڈالا
قبائے حرمت دین، شریعت چاک ہوتی ہے
زبان بادہ و ساغر بہت ناپاک ہوتی ہے
شریعت کے 'جیالوں' نے بھی کی ہے اس کی پابندی
سمجھ میں آسکی اب تک نہیں، اُس کی برومندی
مدارس میں وہ آداب شریعت خود پڑھاتے ہیں
مگر اشعار میں وہ خود ہی اُن کا منہ چڑھاتے ہیں
یہ طلباء بھی مجالس میں بہت پرجوش ہوتے ہیں
کبھی وہ داد دیتے ہیں، کبھی خاموش ہوتے ہیں
کسی بے راہ رو شاعر کی ایسی ہمت افزائی
کسی عالم کو ہے یہ باعث ذلت و رسوائی
یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر ہیں، محدث ہیں، فقیہ آہ و زاری ہیں
یہ ہیں قرآن وسنت، دین و دنیا کے نمائندہ
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ
فرشتے ان کی راہوں میں ہمیشہ پر بچھاتے ہیں
پرندے، ماہی وحشرات ان کا گیت گاتے ہیں
جو یہ حضرات تشبیب و تغزل پہ اتر آئیں
تو پھر فرہاد ومجنوں ان سے بھی کمتر نظر آئیں
کبھی وہ منتظر ہوتے ہیں محبوبہ کی راہوں میں
کبھی وہ معترف کہ، سوگئے ہیں اُس کی باہوں میں
کبھی وہ پاس ان کے نرم آتی، گرم آتی ہے
کہ اس کو سن کے، بے شرمی کو بھی خو شرم آتی ہے
وہ کر دیتے ہیں اپنے شعر میں جو ذکر عیاشی
تو پل میں لوٹ لیتے ہیں بھری محفل کی شاباشی
پہنچ جاتے ہیں وہ اک جست میں مسجد سے میخانہ
جھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ
انہیں اقرار ہے، ان سارے ناکردہ گناہوں کا
حسینہ کی نگاہوں، اُسکی راہوں، اور باہوں کا
یہ کیا غیرت کہ شر کا خود بخود اقرار کرتے ہیں
خلافِ شرع وہ اس کام کو سو بار کرتے ہیں
یہ اخلاقی جرائم، جن کے مجرم جیل جاتے ہیں
کبھی کوڑے برستے، یا وہ جان سے کھیل جاتے ہیں
شریعت کے حریمِ پاک کو ناپاک کر ڈالا
قبائے عفت و عصمت کو بھی یوں چاک کر ڈالا
تباہی پیش خیمہ ہے، اسی عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا
یہ ہے وہ شاعری، دل جس سے خود مایوس ہوتا ہے
بہت افسوس ہوتا ہے، بہت محسوس ہوتا ہے
مرا مقصد کہ تشبیب وتغزل سے وہ شرمائیں
وہ ذکرِ مے و شرب مے سے بھی پرہیز فرمائیں
مرا مقصد فقط تنبیہِ حضرات "ملالی" ہے
نوا سنجی مری اپنی، وہی طرز بلالی ہے
مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں
نہیں یہ مسئلہ، میری نظر میں، غیر معمولی
ہوا کرتی تھی اس جیسے میں کارندوں کی معزولی
شریعت کی نزاکت میں، نفاست میں خلل ڈالا
قبائے حرمت دین، شریعت چاک ہوتی ہے
زبان بادہ و ساغر بہت ناپاک ہوتی ہے
شریعت کے 'جیالوں' نے بھی کی ہے اس کی پابندی
سمجھ میں آسکی اب تک نہیں، اُس کی برومندی
مدارس میں وہ آداب شریعت خود پڑھاتے ہیں
مگر اشعار میں وہ خود ہی اُن کا منہ چڑھاتے ہیں
یہ طلباء بھی مجالس میں بہت پرجوش ہوتے ہیں
کبھی وہ داد دیتے ہیں، کبھی خاموش ہوتے ہیں
کسی بے راہ رو شاعر کی ایسی ہمت افزائی
کسی عالم کو ہے یہ باعث ذلت و رسوائی
یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر ہیں، محدث ہیں، فقیہ آہ و زاری ہیں
یہ ہیں قرآن وسنت، دین و دنیا کے نمائندہ
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ
فرشتے ان کی راہوں میں ہمیشہ پر بچھاتے ہیں
پرندے، ماہی وحشرات ان کا گیت گاتے ہیں
جو یہ حضرات تشبیب و تغزل پہ اتر آئیں
تو پھر فرہاد ومجنوں ان سے بھی کمتر نظر آئیں
کبھی وہ منتظر ہوتے ہیں محبوبہ کی راہوں میں
کبھی وہ معترف کہ، سوگئے ہیں اُس کی باہوں میں
کبھی وہ پاس ان کے نرم آتی، گرم آتی ہے
کہ اس کو سن کے، بے شرمی کو بھی خو شرم آتی ہے
وہ کر دیتے ہیں اپنے شعر میں جو ذکر عیاشی
تو پل میں لوٹ لیتے ہیں بھری محفل کی شاباشی
پہنچ جاتے ہیں وہ اک جست میں مسجد سے میخانہ
جھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ
انہیں اقرار ہے، ان سارے ناکردہ گناہوں کا
حسینہ کی نگاہوں، اُسکی راہوں، اور باہوں کا
یہ کیا غیرت کہ شر کا خود بخود اقرار کرتے ہیں
خلافِ شرع وہ اس کام کو سو بار کرتے ہیں
یہ اخلاقی جرائم، جن کے مجرم جیل جاتے ہیں
کبھی کوڑے برستے، یا وہ جان سے کھیل جاتے ہیں
شریعت کے حریمِ پاک کو ناپاک کر ڈالا
قبائے عفت و عصمت کو بھی یوں چاک کر ڈالا
تباہی پیش خیمہ ہے، اسی عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا
یہ ہے وہ شاعری، دل جس سے خود مایوس ہوتا ہے
بہت افسوس ہوتا ہے، بہت محسوس ہوتا ہے
مرا مقصد کہ تشبیب وتغزل سے وہ شرمائیں
وہ ذکرِ مے و شرب مے سے بھی پرہیز فرمائیں
مرا مقصد فقط تنبیہِ حضرات "ملالی" ہے
نوا سنجی مری اپنی، وہی طرز بلالی ہے
مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں
نہیں یہ مسئلہ، میری نظر میں، غیر معمولی
ہوا کرتی تھی اس جیسے میں کارندوں کی معزولی
صلاح ا لدین مقبول احمد