• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاعری میں آداب شریعت کے واقفین کا افسوس ناک طرز عمل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ادھر شعرائے بے توفیق نے سب کچھ بدل ڈالا
شریعت کی نزاکت میں، نفاست میں خلل ڈالا

قبائے حرمت دین، شریعت چاک ہوتی ہے
زبان بادہ و ساغر بہت ناپاک ہوتی ہے

شریعت کے 'جیالوں' نے بھی کی ہے اس کی پابندی
سمجھ میں آسکی اب تک نہیں، اُس کی برومندی

مدارس میں وہ آداب شریعت خود پڑھاتے ہیں
مگر اشعار میں وہ خود ہی اُن کا منہ چڑھاتے ہیں

یہ طلباء بھی مجالس میں بہت پرجوش ہوتے ہیں
کبھی وہ داد دیتے ہیں، کبھی خاموش ہوتے ہیں

کسی بے راہ رو شاعر کی ایسی ہمت افزائی
کسی عالم کو ہے یہ باعث ذلت و رسوائی

یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر ہیں، محدث ہیں، فقیہ آہ و زاری ہیں

یہ ہیں قرآن وسنت، دین و دنیا کے نمائندہ
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ

فرشتے ان کی راہوں میں ہمیشہ پر بچھاتے ہیں
پرندے، ماہی وحشرات ان کا گیت گاتے ہیں

جو یہ حضرات تشبیب و تغزل پہ اتر آئیں
تو پھر فرہاد ومجنوں ان سے بھی کمتر نظر آئیں

کبھی وہ منتظر ہوتے ہیں محبوبہ کی راہوں میں
کبھی وہ معترف کہ، سوگئے ہیں اُس کی باہوں میں

کبھی وہ پاس ان کے نرم آتی، گرم آتی ہے
کہ اس کو سن کے، بے شرمی کو بھی خو شرم آتی ہے

وہ کر دیتے ہیں اپنے شعر میں جو ذکر عیاشی
تو پل میں لوٹ لیتے ہیں بھری محفل کی شاباشی

پہنچ جاتے ہیں وہ اک جست میں مسجد سے میخانہ
جھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ

انہیں اقرار ہے، ان سارے ناکردہ گناہوں کا
حسینہ کی نگاہوں، اُسکی راہوں، اور باہوں کا

یہ کیا غیرت کہ شر کا خود بخود اقرار کرتے ہیں
خلافِ شرع وہ اس کام کو سو بار کرتے ہیں

یہ اخلاقی جرائم، جن کے مجرم جیل جاتے ہیں
کبھی کوڑے برستے، یا وہ جان سے کھیل جاتے ہیں

شریعت کے حریمِ پاک کو ناپاک کر ڈالا
قبائے عفت و عصمت کو بھی یوں چاک کر ڈالا

تباہی پیش خیمہ ہے، اسی عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا

یہ ہے وہ شاعری، دل جس سے خود مایوس ہوتا ہے
بہت افسوس ہوتا ہے، بہت محسوس ہوتا ہے

مرا مقصد کہ تشبیب وتغزل سے وہ شرمائیں
وہ ذکرِ مے و شرب مے سے بھی پرہیز فرمائیں

مرا مقصد فقط تنبیہِ حضرات "ملالی" ہے
نوا سنجی مری اپنی، وہی طرز بلالی ہے

مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں

نہیں یہ مسئلہ، میری نظر میں، غیر معمولی
ہوا کرتی تھی اس جیسے میں کارندوں کی معزولی

صلاح ا لدین مقبول احمد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، خوب۔ شیخ صلاح الدین مقبول صاحب ، جید عالم دین و محقق ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دیوان شاعر بھی ہیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں
شاعر مشرق کا ھند کے
ادباء و شعراء کے متعلق کہنا ہے :

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
ماشاءاللہ ، خوب۔ شیخ صلاح الدین مقبول صاحب ، جید عالم دین و محقق ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دیوان شاعر بھی ہیں ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ حفظہ اللہ کی کتاب "مسدس شاہراہ دعوت" دو تین روز قبل محدث لائبریری میں اپلوڈ کی گئی ہے، تاہم پچھلے سال اس کتاب کا تعارف محترم @عمر اثری بھائی فورم پر کروا چکے ہیں۔ان شاء اللہ حتی الامکان سارے اشعاریونیکوڈ کرنےکا ارادہ ہے میرا۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ حفظہ اللہ کی کتاب "مسدس شاہراہ دعوت" دو تین روز قبل محدث لائبریری میں اپلوڈ کی گئی ہے، تاہم پچھلے سال اس کتاب کا تعارف محترم @عمر اثری بھائی فورم پر کروا چکے ہیں۔ان شاء اللہ حتی الامکان سارے اشعاریونیکوڈ کرنےکا ارادہ ہے میرا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ حفظہ اللہ کی کئی اور کتب بھی ہیں. انکو بھی لائبریری پر اپلوڈ کرنا چاہئے. الحمد للہ شیخ حفظہ اللہ کی کتب میرے پاس آجاتی. کیونکہ شیخ محترم والد محترم کے بہت اچھے دوست ہیں.
 

عبدالعزيز

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 24، 2017
پیغامات
169
ری ایکشن اسکور
78
پوائنٹ
29
شاعر مشرق کا ھند کے
ادباء و شعراء کے متعلق کہنا ہے :

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!
زبردست جناب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ حفظہ اللہ کی کتاب "مسدس شاہراہ دعوت" دو تین روز قبل محدث لائبریری میں اپلوڈ کی گئی ہے، تاہم پچھلے سال اس کتاب کا تعارف محترم @عمر اثری بھائی فورم پر کروا چکے ہیں۔ان شاء اللہ حتی الامکان سارے اشعاریونیکوڈ کرنےکا ارادہ ہے میرا۔
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’شیخ صلاح الدین ایک اچھے مصنف و محقق ہونے کے ساتھ ساتھ زمانہ طالب علمی میں شعر بھی کہتے رہے ہیں ، لیکن جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کے بعد یہ سلسلہ ترک کردیا ، لیکن اسحاق بھٹی صاحب کے ایک برادرانہ تبصرے پر 2011 ء سے دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہوا اور اب شیخ کا ایک دیوان چھپ کر منظر عام پر آچکا ہے ، مسدس حالی کی زرخیز زمین میں فکر اقبال کا بیج بویا اور تقریبا پندرہ سو سے زائد اشعار کی لڑی پرو دی ۔‘‘
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
صلاح الدین مقبول صاحب نے جس طرح سے عموم برتاہے ایسالگتاہے کہ ہردوسرا عالم شاعر ہے اور حسینہ اورمحبوبہ کی باہوں اورراہوں کا انتظارکررہاہے،جب کہ حقیقت اس سے کوسوں بعید ہے،آج تو حالت یہ ہے کہ اچھی اردو لکھنے اوربولنے سے علماء کی صف خالی ہوتی جارہی ہے،آزادی سے پہلے اوربعد کے اساطین اردو حضرات علماء ہواکرتے تھے،لیکن اب دیکھ لیجئے کہ کہ ادیبوں میں دور دور تک کسی عالم کا نام نہیں ہے اورنہ ہی شاعروں میں۔اگر ہم ہندوپاک کے پچاس مشہور شعراء کی فہرست تیار کریں تواس میں کتنے عالم ہوں گے، خود اندازہ لگالیں،بیشتر علماء حضرات شعروشاعری سے شغف بھی رکھتے ہیں اور جواشعار بھی موزوں کرسکتے ہیں،ان میں سے بیشتر اخلاقی اوراصلاحی مضامین پر زورطبع صرف کرتے ہیں،میرے علم اوردانستن کی حد تک تو کوئی عالم ابھی ایساموجود نہین جو بے محابا محبوبہ کی راہوں اورباہوں کا ذکر کرتاہواوراگرہوں گے بھی توایک دو جوالشاذ کالمعدوم کے درجہ میں ہے،اس کو عمومی رنگ دے دینایہ وہی شعراوالی مبالغہ آرائی کی غلطی ہے جس کی مذمت میں یہ اشعار صلاح الدین مقبول نے موزوں کئے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعرمیں رمزوایمائیت ہوتی ہے، اشاروں میں کسی چیز کاذکر ہوتاہے،اب یہ توسمجھنے والے کاکام ہے،غالب نے بھی کہاہے :
ہرچند ہومشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر
اردو شاعری فارسی شاعری سے مستعار ہے،فارسی شاعری میں تصوفانہ مضامین کیلئے بادہ وساغر کا استعارہ ہے، وہی استعارہ اردو میں بھی ہے،اس پر اس حیثیت سے اعتراض کرنا کہ بادہ وساغر کا لفظ کیوں استعمال کیاگیا،یہ نہایت بھونڈا اعتراض ہے،اس پر پھروہی مصرعہ صادق ہوگا،’’شعرامرا بمدرسہ کے برد‘‘،کہ میرا شعر مدرسہ کے علماء تک لے کر کون گیا،خواجہ حالی سے بڑھ کر مصلحانہ شاعری کادعویدار کون ہوگا،لیکن کیاان کی شاعری جام وسبوسے خالی ہے ؟ان کا دیوان اٹھاکر دیکھ لیجئے۔
کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیری
سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں
علامہ اقبال سے مصلحانہ اوربامقصدی شاعری کس کی ہوگی؟ لیکن ان کے بھی یہاں اس قسم کے اشعار ہیں،
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیاتھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عارکیاتھی
فارسی میں آئیے تو سعدی کی گلستاں اوربوستاں اخلاقی مضامین کا گلدستہ ہے لیکن ان کے بھی یہاں شاعرانہ خصوصیات پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
مولاناروم کی مثنوی مذہبی رنگ لیے ہوئے ہے، لیکن ان کی غزلیں دیکھیے تو وہی جام وسبو ہے۔
امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیاکے شاگرد تھے لیکن شعر گوئی میں جام وسبواوربادہ وساغرکے ذکرسے وہ کسی فارسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جام وسبو دیکھتے ہی بھڑک جانامناسب نہیں ہے،نہ ہی یہ مناسب ہے کہ خود کوہی شریعت کا کوتوال سمجھ لیاجائے اور بقیہ تمام کے بارے میں یہ سمجھ لیاجائے کہ ان کو شریعت کا پتہ نہیں تھا اور یہ لوگ اس چیز میں مداہنت کرتے رہے، ایک دو فرد کے بارے میں مداہنت کا تصور رواہوسکتاہے لیکن صدیوں کے بزرگوں اوراہل علم کے تعلق سے دین سے یہ بے خبری اور مداہنت کا تصور قطعاجائز نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعر کو سننے اورپڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ شعرکے خیال سے متاثر ہوجائے، شعر وادب کامطالعہ زبان کے علم کیلئے ہوتاہے، امرئوالقیس جسے الملک الضلیل کہاگیاہے لیکن وہی عرب کا سب سے بڑا شاعر بھی ہے،آج بھی مدارس میں سبعہ معلقہ پڑھائی جاتی ہے کیاس میں حدیث اورقرآن کی تعلیم ہے ؟وہی خرافات ہیں عربوں کے ،اپنے اوپر فخر ،گھمنڈ اور زبانی زورآزمائی ،لیکن اس کو مدارس میں زبان وبیان کی تعلیم کیلئے رکھاگیاہے،ایسے ہی اردو شعرا میں سے کسی کو پسند کرنا یااس کو پڑھنا زبان وبیان کی تعلیم کیلئے ہوتاہے۔
اگرآپ غالب کو نہیں پڑھیں گے، میر کو نہیں پڑھیں گے ،سودا کو نہیں پڑھیں گے تواردو کیاخاک جانیں گے؟پھر وہی مولویانہ اردو لکھیں گے جس کے نمونے آئے دن سامنےا ٓتے رہتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ شعروادب سے اسی بیزاری کا نتیجہ ہے کہ ان کے ذیل کے اشعار میں زبان وبیان کی غلطی ہے۔
یہ علامہ ہیں، مولانا ہیں، مفتی اور قاری ہیں
مفسر ہیں، محدث ہیں، فقیہ آہ و زاری ہیں
فقیہ آہ وزاری کوئی چیز نہیں ہوتی ،خود سے اصطلاح گھڑ لینا درست نہیں ہے۔
یہ ہیں قرآن وسنت، دین و دنیا کے نمائندہ
ہے ان کے دست میں ملت کا ماضی اور آئندہ
نمائندہ واحد ہے،اس سے قبل جمع کا ’’کے‘‘استعمال کرنا مناسب نہیں ہے،یاتو ’’نمائندے‘‘ کیجئے یاپھر ’’کا‘‘لکھئے۔
پہنچ جاتے ہیں وہ اک جست میں مسجد سے میخانہ
جھلکتے ہیں پھر ان کے سامنے بھی جام و پیمانہ
جھلکتے نہیں چھلکتے ہوناچاہئے،جام وسبو عموماشیشہ کے ہی ہوتے ہیں اوریہ جھلکتے ہی ہیں، اس کا چھلکنا قابل بیان ہے نہ کہ جھلکنا
تباہی پیش خیمہ ہے، اسی عشق مجازی کا
کرشمہ ہے ہوائے نفس کی ذرہ نوازی کا
ذرہ نوازی کابالکل بے محل استعمال ہے۔
مرا مقصد فقط تنبیہِ حضرات "ملالی" ہے
نوا سنجی مری اپنی، وہی طرز بلالی ہے
حضرات ملالی سے کیامراد ہے،واللہ اعلم المعنی فی بطن الشاعر
مری ملت کے دانشور، ذرا اب غور فرمائیں
سنیں وہ التجا میری، تو پھر کچھ اور فرمائیں
اپنی بات کیلئے ’’فرمانا‘‘مزاحیہ اورمضحکہ خیز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
صلاح الدین مقبول صاحب نے جس طرح سے عموم برتاہے ایسالگتاہے کہ ہردوسرا عالم شاعر ہے اور حسینہ اورمحبوبہ کی باہوں اورراہوں کا انتظارکررہاہے،جب کہ حقیقت اس سے کوسوں بعید ہے،آج تو حالت یہ ہے کہ اچھی اردو لکھنے اوربولنے سے علماء کی صف خالی ہوتی جارہی ہے،آزادی سے پہلے اوربعد کے اساطین اردو حضرات علماء ہواکرتے تھے،لیکن اب دیکھ لیجئے کہ کہ ادیبوں میں دور دور تک کسی عالم کا نام نہیں ہے اورنہ ہی شاعروں میں۔اگر ہم ہندوپاک کے پچاس مشہور شعراء کی فہرست تیار کریں تواس میں کتنے عالم ہوں گے، خود اندازہ لگالیں،بیشتر علماء حضرات شعروشاعری سے شغف بھی رکھتے ہیں اور جواشعار بھی موزوں کرسکتے ہیں،ان میں سے بیشتر اخلاقی اوراصلاحی مضامین پر زورطبع صرف کرتے ہیں،میرے علم اوردانستن کی حد تک تو کوئی عالم ابھی ایساموجود نہین جو بے محابا محبوبہ کی راہوں اورباہوں کا ذکر کرتاہواوراگرہوں گے بھی توایک دو جوالشاذ کالمعدوم کے درجہ میں ہے،اس کو عمومی رنگ دے دینایہ وہی شعراوالی مبالغہ آرائی کی غلطی ہے جس کی مذمت میں یہ اشعار صلاح الدین مقبول نے موزوں کئے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعرمیں رمزوایمائیت ہوتی ہے، اشاروں میں کسی چیز کاذکر ہوتاہے،اب یہ توسمجھنے والے کاکام ہے،غالب نے بھی کہاہے :
ہرچند ہومشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر
اردو شاعری فارسی شاعری سے مستعار ہے،فارسی شاعری میں تصوفانہ مضامین کیلئے بادہ وساغر کا استعارہ ہے، وہی استعارہ اردو میں بھی ہے،اس پر اس حیثیت سے اعتراض کرنا کہ بادہ وساغر کا لفظ کیوں استعمال کیاگیا،یہ نہایت بھونڈا اعتراض ہے،اس پر پھروہی مصرعہ صادق ہوگا،’’شعرامرا بمدرسہ کے برد‘‘،کہ میرا شعر مدرسہ کے علماء تک لے کر کون گیا،خواجہ حالی سے بڑھ کر مصلحانہ شاعری کادعویدار کون ہوگا،لیکن کیاان کی شاعری جام وسبوسے خالی ہے ؟ان کا دیوان اٹھاکر دیکھ لیجئے۔
کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیری
سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں
علامہ اقبال سے مصلحانہ اوربامقصدی شاعری کس کی ہوگی؟ لیکن ان کے بھی یہاں اس قسم کے اشعار ہیں،
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیاتھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عارکیاتھی
فارسی میں آئیے تو سعدی کی گلستاں اوربوستاں اخلاقی مضامین کا گلدستہ ہے لیکن ان کے بھی یہاں شاعرانہ خصوصیات پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
مولاناروم کی مثنوی مذہبی رنگ لیے ہوئے ہے، لیکن ان کی غزلیں دیکھیے تو وہی جام وسبو ہے۔
امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیاکے شاگرد تھے لیکن شعر گوئی میں جام وسبواوربادہ وساغرکے ذکرسے وہ کسی فارسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جام وسبو دیکھتے ہی بھڑک جانامناسب نہیں ہے،نہ ہی یہ مناسب ہے کہ خود کوہی شریعت کا کوتوال سمجھ لیاجائے اور بقیہ تمام کے بارے میں یہ سمجھ لیاجائے کہ ان کو شریعت کا پتہ نہیں تھا اور یہ لوگ اس چیز میں مداہنت کرتے رہے، ایک دو فرد کے بارے میں مداہنت کا تصور رواہوسکتاہے لیکن صدیوں کے بزرگوں اوراہل علم کے تعلق سے دین سے یہ بے خبری اور مداہنت کا تصور قطعاجائز نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعر کو سننے اورپڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ شعرکے خیال سے متاثر ہوجائے، شعر وادب کامطالعہ زبان کے علم کیلئے ہوتاہے، امرئوالقیس جسے الملک الضلیل کہاگیاہے لیکن وہی عرب کا سب سے بڑا شاعر بھی ہے،آج بھی مدارس میں سبعہ معلقہ پڑھائی جاتی ہے کیاس میں حدیث اورقرآن کی تعلیم ہے ؟وہی خرافات ہیں عربوں کے ،اپنے اوپر فخر ،گھمنڈ اور زبانی زورآزمائی ،لیکن اس کو مدارس میں زبان وبیان کی تعلیم کیلئے رکھاگیاہے،ایسے ہی اردو شعرا میں سے کسی کو پسند کرنا یااس کو پڑھنا زبان وبیان کی تعلیم کیلئے ہوتاہے۔
اگرآپ غالب کو نہیں پڑھیں گے، میر کو نہیں پڑھیں گے ،سودا کو نہیں پڑھیں گے تواردو کیاخاک جانیں گے؟پھر وہی مولویانہ اردو لکھیں گے جس کے نمونے آئے دن سامنےا ٓتے رہتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ شعروادب سے اسی بیزاری کا نتیجہ ہے کہ ان کے ذیل کے اشعار میں زبان وبیان کی غلطی ہے۔

فقیہ آہ وزاری کوئی چیز نہیں ہوتی ،خود سے اصطلاح گھڑ لینا درست نہیں ہے۔

نمائندہ واحد ہے،اس سے قبل جمع کا ’’کے‘‘استعمال کرنا مناسب نہیں ہے،یاتو ’’نمائندے‘‘ کیجئے یاپھر ’’کا‘‘لکھئے۔

جھلکتے نہیں چھلکتے ہوناچاہئے،جام وسبو عموماشیشہ کے ہی ہوتے ہیں اوریہ جھلکتے ہی ہیں، اس کا چھلکنا قابل بیان ہے نہ کہ جھلکنا

ذرہ نوازی کابالکل بے محل استعمال ہے۔

حضرات ملالی سے کیامراد ہے،واللہ اعلم المعنی فی بطن الشاعر

اپنی بات کیلئے ’’فرمانا‘‘مزاحیہ اورمضحکہ خیز ہے۔
رحمانی بھائی!
صبر کیجیئے اور حوصلہ رکھیئے!
آپ کے اُٹھائے گئے بعض اعتراضات کا جواب ماقبل ہی دیا جاچکا ہے، جنہیں آپ یہاں اور یہاں بغور ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
باقی رہی متصوفانہ شاعری کی بات، تو وہ مجھے ذاتی طور پر ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چاہے شاعر کوئی بھی ہو۔۔۔ خیر۔۔مسدس ھذا کی وجہ تالیف، طریقہ بحث اور اس کے مشمولات بھی ملاحظہ فرمائیں!!

علم و دانش کی بہر سو جو یہ ارزانی ہے
رحمت رب دو عالم کی فراوانی ہے

دین و دنیا میں جو اسلاف کی قربانی ہے
یہ "مسدس" اسی دعوت کی ثنا خوانی ہے

جادہ دین پہ ہر شخص کو ہمراہ کروں
جانتا ہوں جو میں، اوروں کو بھی آگاہ کروں

وجہ تالیف ہے، حالی کے مسدس کا کمال
راس ہے شعر کو، شکوہ کی زمینِ اقبال

"جہد ناقص" میں یہ مصلح کو رہا پورا خیال
دینِ خالص کی وہی سرمدی دعوت ہو بحال

رب کی توفیق سے دعوت میں توانائی ہے
شاعر کی یہ نہیں، روح کی رعنائی ہے

اپنے اسلاف کے پاکیزہ رقائق اس میں
دین محفوظ رہے، سلفی طرائق اس میں

نشاۃ عظمت رفتہ کے وقائق اس میں
اپنی تاریخ کے ہیں سارے حقائق اس میں

لے تو اپنی ہے، وہی قصہ پارینہ ہے
دینِ خالص کے حقائق کا یہ آئینہ ہے


صلاح الدین مقبول احمد
 
Top