الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
یہ نظری پہلو کی مثال تھی اب عملی پہلو سے متعلق ایک مثال لیجئے – اسلام نے معاشرتی زندگی کا جو قانون بنایا ہے اس میں ایک مرد کو اجازت دی ہے کہ وہ چار عورتوں تک شادی کرسکتا ہے – اسلام کے بعد جب مغربی تہذیب اٹھی تو اس نے اس قانون کا بہت مذاق اڑایا اور اس کو جاہلیت کے زمانہ کا وحشی قانون قرار دیا –...
کسی کلام کا تضاد سے پاک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حقیقت سے کلی مطابقت رکھتا ہے – جو شخص حقیقتوں کا علم نہ رکھتا ہو یا صرف جزوی علم اسے حاصل ہو وہ جب بھی حقیقت کو بیان کرنے بیٹھے گا لازمی طور پرتضادات کا شکار ہوجائے گا - وہ ایک پہلو کی تشریح کرتے ہوئے دوسرے پہلو کی رعایت نہ کرسکے گا و ہ ایک...
2 – اس شخص کے دعوے کہ برحق ہونے کا تیسرا ثبوت وہ کلام ہے جس کو وہ کلام الٰہی کہ کر پیش کر تا ہے – اس کلام کے اوپر کتنی ہی صدیاں گذر چکی ہیں مگر اس کی عظمت ، اس کی سچائی اور حقیقت کے بارے میں اس بیان کا ایک حروف بھی غلط ثابت نہ ہوسکا جبکہ کوئی بھی انسانی کتاب ایسی نہیں ہے جو ان نقائص سے پاک ہو –...
پھر وہ کونسی بنیادیں ہیں جن کی روشنی میں دیکھ کر ہم یہ فیصلہ کریں کہ یہ دعوت صحیح ہے یا غلط ، اور ہم کو اسے قبول کرنا چاہئے یا نہیں - میرے نزدیک اس دعوت کو جانچنے کے تین خاص پہلو ہیں- اول یہ کہ اس کی توجیہ حقیقت سے کتنی خاص مطابقت رکھتی ہے دوسرے یہ کہ زندگی کے انجام کے بارے میں اس کا دعوی محض...
اس موقع پر ایک شخص ہمارے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ جس حقیقت کو تم معلوم کرنا چاہتے ہو اس کا علم مجھے دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ :
" اس کائنات کا ایک خدا ہے – جس نے سارے عالم کو بنایا ہے اور اپنے غیر معمولی قوتوں کے ذریعہ اس کا انتظام کر رہا ہے – جو چیزیں تمہیں حاصل ہیں وہ سب اسی...
یہ ہے وہ چند سوالات جو کائنات کو دیکھتے ہی نہایت شدت کے ساتھ ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں – اس کائنات کا ایک خالق ہونا چاہئے مگر اس کے متعلق ہمیں کچھ نہیں معلوم – اس کو چلانے والا اور اس کو سنبھالنے والا ہونا چاہئے، مگر ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے – ہم کسی کے احسانات سے ڈھکے ہوئے ہیں اور مجسم شکر...
یہی وہ سوالات ہیں جن کے مجموعہ کو میں نے اوپر " انسانیت کے انجام کی تلاش " کہا ہے – ایک شخص جب ان حالات کو دیکھتا ہے تو وہ سخت بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے – اس کے اندر نہایت شدت سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ زندگی اگر یہی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے ، تو یہ کس قدر لغو زندگی ہے ! وہ ایک طرف دیکھتا ہے...
اسی طرح جب ہم سماجی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو ایک خلاء کا زبردست احساس ہوتا ہے ایک طرف مادی دنیا ہے جو اپنی جگہ پر مکمل نظر آتی ہے- وہ ایک متعین قانون میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کی ہر چیز اپنے مقرر راستے پر چلی جارہی ہے – دوسرے لفظوں میں مادی دنیا ویسی ہی ہے جیسی کہ اسے ہونا چاہئے مگر...
ساری کائنات میں انسان ایک ایسا وجود ہے جو کل Tomorrow کا تصور رکھتا ہے یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سونچتا ہے اور اپنے آئندہ حالات کو بہتر بنانا چاہتا ہے - اسمیں شک نہیں کہ بعض جانور مثلا چیونٹیاں خوراک جمع کرتی ہیں یابئیاں گھونسلے بناتا ہے مگر ان کا یہ عمل غیر شعوری...
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ ایک ارب 23 کروڑ سال ہوئے جب پہلی بار زمین پر زندگی پیدا ہوئی یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے جو پانی کے کنارے وجود میں آئے - اس کے بعدمختلف قسم کے جانور پیدا ہوتے اور مرتے رہے – کئی ہزار سال تک زمین پر صرف جانور رہے - اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی پر بھی...
حقیقت کی تلاش کا تیسرا جزو اپنے انجام کی تلاش ہے آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا وہ اپنے اندر بہت سے حوصلے اور تمنائیں پاتا ہے - وہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ ان کی تسکین کس طرح ہوگی وہ موجودہ محدود زندگی کے مقابلے میں ایک طویل تر زندگی چاہتا ہے مگر نہیں جانتا کہ وہ کس...
یہ وہ دو جذبے ہیں جن کو میں نے " معبود کی تلاش " کا عنوان دیا ہے معبود کی تلاش دراصل ایک فطری جذبہ ہے جس کا مطلب ایک ایسی ہستی کی تلاش ہے جو آدمی کی محبت اور اس کے اعتماد کا مرکز بن سکے موجودہ زمانے میں قوم ، وطن اور ریاست کو انسان کی اس طلب کا جواب بناکر پیش کیا گیا ہے – جدید تہذیب یہ کہتی...