• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آثار صالحین سے تبرک کی شرعی حیثیت

شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
5۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَزَالُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُوْنَ، بِهِمْ تَقُوْمُ الْأرْضُ، وَبِهِمْ تُمْطَرُوْنَ وَبِهِمْ تُنْصَرُوْنَ.
وَقَالَ قَتَادَةَ : إِنِّي أَرْجُوْ أَنْ يَکُوْنَ الْحَسَنُ مِنْهُمْ.

’’میری امت میں ہمیشہ تیس آدمی (ابدال) رہیں گے جن کے صدقے یہ زمین قائم و دائم رہے گی اور جن کے تصدق سے تم پر بارش برسائی جائے گی اور جن کے ذریعے تمہاری مدد کی جائے گی۔
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 63
(امام ھيثمي کي تحقيق کے مطابق اس حديث کے رجال صحيح ہیں۔)
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 304
3. عظيم آبادي، عون المعبود، 8 : 151
اس روایت کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
اس کے دو راویوں عمرو البزار اور عنبسه الخواص کے بارے میں حافظ ھیثمی رحمه الله (٧٣٥۔٨٠٧ھ) خود فرماتے ہیں : وکلاهما لم أعرفه۔
''ان دونوں کو میں نہیں جانتا۔ ''[مجمع الزوائد : ١٠/٦٣]
اور اس روایت میں امام قتادہ کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے کہ آپ کے پاس اہلِ شام کا ذکر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا : امیر المؤمنین! آپ اہلِ شام پر لعنت بھیجیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، میں لعنت نہیں بھیجتا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
الأبْدَالُ يَکُوْنُوْنَ بِالشَّامِ وَ هُمْ أرْبَعُوْنَ رَجُلاً، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ، أبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ رَجُلًا يُسْقَي بِهِم الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَي الْأعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِم الْعَذَابُ.
’’شام میں (ہمیشہ) چالیس ابدال موجود رہیں گے، ان میں سے جب بھی کوئی مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال بنا دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اہلِ شام بارش سے سیراب کیے جاتے ہیں۔ دشمنوں پر ان کو ابدال کے وسیلے سے فتح عطا کی جاتی ہے اور ان کی برکت سے اہلِ شام سے عذاب کو ٹال دیا جاتاہے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 112
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 63، رقم : 10390
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوئد، 14 : 211

اس کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ شریح بن عبید کا سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنه سے سماع نہیں ہے۔ حافظ ابن عساکر رحمه الله اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : هذا منقطع بین شریح وعلی ، فإنّه لم یلقه ۔
''یہ روایت شریح اور سیدنا علی رضی الله عنه کے درمیان منقطع ہے کیونکہ شریح نے سیدنا علی رضی الله عنه سے لقاء وسماع نہیں کیا۔ ''
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَنْ تَخْلُوً الْأرْضُ مِنْ أَرْبَعِيْنَ رَجُلًا مِثْلَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلِ الرَّحْمٰنِ، فَبِهِمْ يُسْقَوْنَ، وَبِهِمْ يُنْصَرُوْنَ، مَا مَاتَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ آخَرَ. وَقَالَ قَتَادَةُ : لَسْنَا نَشُکُّ أَنَّ الْحَسَن مِنْهُمْ.
’’زمین کبھی بھی (ایسے) چالیس آدمیوں سے خالی نہیں ہو گی جو خلیل اﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مانند ہوں گے۔ انہی کے تصدق سے لوگوں کو سیراب کیا جائے گا اور انہی کے صدقے ان کی مدد کی جائے گی۔ ان میں سے کوئی آدمی اس دنیا سے پردہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور آدمی کو لے آتا ہے۔
1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 247، رقم : 4101

اس کی سند بهى ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
اس میں عبد الوهاب بن عطاء الخفاف ، اور اس کا استاذ سعید بن ابی عروبه اور اس کا استاذ قتادہ تینوں ہی ''مدلس'' ہیں اور وہ ''عن'' سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا روایت سخت ''ضعیف'' ہے۔
اور اسحاق بن زریق کی توثیق بھی معلوم نہیں ہو سکی۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت ابوقلابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَزَالُ فِي أُمَّتِي شِيْعَةٌ (وفي رواية : سَبْعَةٌ) لَا يَدْعُوْنَ اﷲَ بِشَيءٍ إِلَّا اسْتَجَابَ لَهُمْ، بِهِمْ تُنْصَرُوْنَ وَبِهِمْ تُمْطَرُوْنَ، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ : وَبِهِمْ يُدْفَعُ عَنْکُمْ.
’’میری امت میں ہمیشہ کچھ لوگ (ایک روایت میں ہے کہ سات اشخاص) ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے جب بھی کوئی چیز مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرما دیتا ہے۔ انہی کے ذریعے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور انہی کے ذریعے تم پر بارش برسائی جاتی ہے۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں) میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اور انہی کے ذریعے تم سے مصیبتوں کو ٹالا جاتا ہے۔‘‘
1. أبوداود، مراسيل، 1 : 236، رقم : 309
2. ابن مبارک، الجهاد، 1 : 153، رقم : 195
3. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 250
أبو قلابه المتوفی 104ھ صحابی نہیں تابعی ہیں۔ ابن حجر کہتے ہیں ثقة فاضل كثير الإرسال. یہ اکثر سے مرسل بیان کرتے ہیں۔
اور یہ روایت بھی مرسل ہے۔ لہذا منقطع مردود ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن ﷲ خلقًا خلقهم لحوائج الناس، تفزع الناس إليهم في حوائجهم أولئک الامنون من عذاب اﷲ.
’’بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق کی حاجت روائی کیلئے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لے آتے ہیں۔ یہی وہ بندے ہیں جو عذابِ اِلٰہی سے مامون ہیں۔‘‘
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوئد، 8 : 192
امام ھیثمی نے کہا:
رواه الطبراني، وفيه عبد الرحمن بن أيوب وضعفه وحسن حديثه الترمذي، وأحمد بن طارق الراوي عنه لم أعرفه، وبقية رجاله رجال الصحيح.

٣٦٠ - عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف مدني [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ج1، ص66]

اس روایت کا راوی عبد الرحمن بن زيد بن أسلم كذاب ہے ملاحظہ ہو
اور احمد بن طارق مجھول ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت عبد الرحمن بن رزین روایت کرتے ہیں کہ ہم ربذۃ کے مقام سے گزرے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں، تو میں اُن کے پاس آیا اور ہم نے ان کو سلام کیا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ باہر نکال کر کہا :
بايعت بهاتين نبيّ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخرج کفاله ضخمة کأنها کف بعير فقمنا إليها
عبد الرحمن بن رزين بن عبد الله (مجھول) المتوفی 155ھ کی سلمة بن أكوع رضی الله عنه سے یہ روایت منقطع ہے۔
اس روایت میں عطاف بن خالد بھی صدوق یھم ہے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
رأيت عليًا يقبّل يد العباس ورجليه.
’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 339، باب تقبيل اليد، رقم : 976
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر افضلیت حاصل ہے مگر چچا اور صالح ہونے کی وجہ سے آپ نے اُن کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا۔

وهذا إسناد ضعيف ، صهيب هو مولى العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه ، قيل اسمه صُهبان ، وهو مجهول لم يرو عنه إلا أبو صالح السمان ، انظر "التهذيب" (4/385) ، "الجرح والتعديل" (4/444) .
یہ سند بھی ضعیف ھے۔ اس میں صھیب جو عباس رضی الله عنه کے مولی ہیں۔ مجھول ہیں۔ ابو صالح السمان کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی۔


وقال الذهبي في "السير" (3/ 400):
" صُهَيْبٌ لاَ أَعْرِفُهُ " .
صھیب کو میں نہیں جانتا۔
۔
وقد اضطرب في هذا الحديث ، فتارة يقول : " رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَيْهِ "

روایت میں اضطراب بھی ھے۔ یہی صھیب کبھی کہتا ھے ہاتھ اور پیر کا بوسہ لیا۔ کبھی صرف ہاتھ کا زکر کرتا ھے۔ اور کبھی کہتا ھے ۔ شائد ہاتھ یا ہیر کا بوسہ لیا۔ یعنی شک ھے راوی کو۔

كما في رواية الأدب المفرد ، وتارة يقول : " رَأَيْتُ عَلِيًّا يُقَبِّلُ يَدَ الْعَبَّاسِ وَيَقُولُ: يَا عَمِّ ارْضَ عَنِّي " فلا يذكر الرجل ، رواه الفسوي في "المعرفة" (1/514) ، وتارة يقول : " رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَبِّلُ يَدَيِ الْعَبَّاسِ أَوْ رِجْلَهُ " فيذكر الرجل على الشك ، كما رواه ابن المقرئ في "الرخصة في تقبيل اليد" (ص 73) .
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
امام ابو نعیم اصبہانی نے بھی حضرت یونس بن مَيْسَرَہ سے مروی اسی طرح کا ایک واقعہ درج کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک روز یزید بن اسود عائدین کے پاس گئے۔ اُن کے پاس حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ تشریف لائے :
فلما نظر إليه مدّ يده فأخذ يده فمسح بها وجهه وصدره لأنه بايع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’پس جب حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا ہاتھ آگے کیا، انہوں نے ہاتھ لے کر (حصولِ برکت کے لئے) اپنے چہرے اور سینے پر مَلا کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اسی ہاتھ سے) بیعت کی تھی۔‘‘
أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 9 :

اس روایت میں عمرو بن واقد متروك ہے
موسى بن عيسى بن المنذر بھی ضعیف ہے
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
تابعیء کبیر حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
أمسست النبي صلي الله عليه وآله وسلم بيدک؟ قال : نعم! فقبّلها.
’’کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا ہے تو آپ نے کہا کہ ہاں، پھر ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو چوما۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، باب تقبيل اليد، رقم : 974
اس روایت میں ابن جدعان متروک سئ الحفظ ضعیف ھے۔ اور سفیان بن عینیہ نے خود اسے ترک کردیا تھا۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
علامہ ابن العماد حنبلی، زاہد ابوبکر بن عبدالکریم حنبلی (متوفی635ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
کان شيخاً صالحاً متديناً ورعاً، منقطعاً عَن النَّاسِ في قريته يقصده الناس لزيارته والتبرک به.
’’آپ بزرگ، صالح، دیندار اور زاہد شخص تھے، اپنی بستی میں لوگوں سے تنہا رہتے تھے، لوگ اُن کی زیارت کے لئے اور اُن سے برکت حاصل کرنے کی غرض سے اُن کے پاس حاضر ہوتے۔‘‘
ابن العماد، شذرات الذهب، 3 : 171

یہاں تبرک بمعنی علم لینا ھے۔ کہ اُن سے علم حاصل کرکے، علم کی برکتیں سمیٹتیں۔ علم والی محفلوں پر ویسے ہی اللہ کی رحمت وبرکت نازل ھوتی ہے۔۔

دوسرا جواب اس کا یہ ہے۔ کہ وہ کون لوگ تھے جو تبرک لیتے تھے؟ لوگوں کا عمل دلیل نہیں بن جایا کرتا۔
اب آپ سوال کریں گے۔ کہ الشیخ نے خود اُن لوگوں کو اپنی ذات سے تبرک لینے سے منع کیوں نہ کیا؟
جواب یہ کہ جیسے آپ ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن خود ائمہ اربعہ کے علم میں بھی نہیں تھا کہ ہمارے بعد کچھ ناہنجار لوگ ہمارے ہی نام سے فرقے بناکر ہمارے اقوال کو دین کا جزء قرار دیے دیں گے۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہوگا۔ کہ الشیخ کو علم ہی نہیں ھوگا کہ اُن کے بارے عوام یہ عقیدہ رکھتی ہے۔

تیسرا جواب اس کا یہ ھے کہ۔
نیک صالح شخص سے دعا کروانا سنت سے ثابت ھے۔ نیک صالح شخص کی دعا سے اللہ برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتا ھے۔
لہذا لوگ الشیخ کی ذات سے برکت نہیں لیتے تھے۔ بلکہ شیخ کی دعا کے وسیلے سے اللہ سے برکت حاصل کرتے تھے۔
 
Last edited:
Top