عبداللہ شاکر
رکن
- شمولیت
- دسمبر 01، 2013
- پیغامات
- 63
- ری ایکشن اسکور
- 36
- پوائنٹ
- 43
@قادری رانا صاحب قبروں سے تبرک کے لیئے انہیں چھونا اور بوسہ دینا یہ سارے کام پہلے دیکھ لینے چاہئے کہ فقہ حنفی "شریف" میں اس کا کیا حکم ہے اور اس کے علاوہ کیا آپ کے رضاخانی مذہب میں بھی اس کی اجازت ہے یا نہیں؟علامہ سلیمان بن عمر بن محمد البجیرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1221ھ) قبورِ صالحین سے تبرک پر لکھتے ہیں :
إن قصد بتقبيل أضرحتهم أي وأعتابهم التبرک لم يکره.
’’اگر اولیاء کی قبور یا اُن کے دروازوں کی چوکھٹ کو بطور تبرک چوما جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘
بجيرمي، حاشية البجيرمي علي شرح منهج الطلاب، 1 : 495 - 496
(7)۔ علامہ عبدالحمید شروانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول
علامہ عبدالحمید شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1301ھ) نے قبورِ اولیاء سے تبرک پر تحریر کیا ہے :
إن قصد بتقبيل أضرحتهم التبرک لم يکره.
’’اولیاء کی قبور کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مکروہ نہیں۔‘‘
شرواني، حواشي الشرواني علي تحفة المنهاج بشرح المنهاج، 3 : 175
کیمیا پیدا کن اَز مشتِ گلے
بوسہ زن بر آستانِ کاملے
احناف کی معتبر ترین کتاب فتاویٰ ہندیہ یعنی عالمگیری میں لکھا ہے:
ولا یمسح القبر ولا يقبله فان ذلك من عادة النصاري
یعنی اور (زیارت کرنے والا) قبر کو ہاتھ نہ لگائے اور نہ ہی اسے بوسہ دے کہ یہ نصرانیوں کی عادت ہے۔(فتاویٰ عالمگیری ج5 ص 430، دارلکتب العلمیہ)
طاھر القادری صاحب جن کی کتاب سے آپ نے یہ چیزیں نقل کی ہیں وہ قبروں اور آستانوں کی چوکھٹون کو چومنے پر ادھر ادھر سے شوافع کے اقوال لا رہے ہیں جبکہ اپنے گھر میں اس کا کیا حکم ہے وہ نہیں بتاتے۔ فتاویٰ عالمگیری کے اس فتویٰ سے طاھر القادری سمیت وہ سب رضاخانی نصارنی ثابت ہو گئے ہیں جو قبروں کے ساتھ یہ معاملات کرتے ہیں۔
سکین ملاحظہ ہو!