2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے کہ آپ کے پاس اہلِ شام کا ذکر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا : امیر المؤمنین! آپ اہلِ شام پر لعنت بھیجیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، میں لعنت نہیں بھیجتا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
الأبْدَالُ يَکُوْنُوْنَ بِالشَّامِ وَ هُمْ أرْبَعُوْنَ رَجُلاً، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ، أبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ رَجُلًا يُسْقَي بِهِم الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَي الْأعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِم الْعَذَابُ.
’’شام میں (ہمیشہ) چالیس ابدال موجود رہیں گے، ان میں سے جب بھی کوئی مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال بنا دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اہلِ شام بارش سے سیراب کیے جاتے ہیں۔ دشمنوں پر ان کو ابدال کے وسیلے سے فتح عطا کی جاتی ہے اور ان کی برکت سے اہلِ شام سے عذاب کو ٹال دیا جاتاہے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 112
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 63، رقم : 10390
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوئد، 14 : 211
سب سے پہلے مسند احمد کا آپ نے حوالہ پیش کیا ، مسند احمد کے حاشیہ میں اس کے ضعف کی وضاحت ہے :
إسناده ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يدرك عليا، وصفوان بن عمرو السكسكي- وإن كان ثقة من رجال مسلم- ذكر له النسائي حديثا منكرا في عمار بن ياسر، وحديث الباب باطل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انظر "المنار المنيف" ص 136 للشيخ ابن قيم الجوزية. أبو المغيرة: هو عبد القدوس بن حجاج الخولاني.
قلنا: وأحاديث الأبدال التي رويت عن غير واحد من الصحابة، أسانيدها كلها ضعيفة لا ينتهض بها الاستدلال في مثل هذا المطلب.
مسند أحمد ط الرسالة (2/ 231)
خلاصہ : یہ حدیث منقطع اور باطل ہے ، اس سے ہٹ کر ابدال والی تمام روایات بھی ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں ۔
1۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فًيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ.
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے : ہاں (ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے)۔ تو انہیں (اس صحابی رسول کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے : ہاں۔ پھر انہیں (اس تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے : ہاں، تو انہیں (تبع تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 3 : 1335، رقم : 3449
2. مسلم، الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 : 1962، رقم : 2532
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
قال بن بطال هو كقوله في الحديث الآخر خيركم قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم لأنه يفتح للصحابة لفضلهم ثم للتابعين لفضلهم ثم لتابعيهم لفضلهم قال ولذلك كان الصلاح والفضل والنصر للطبقة الرابعة أقل فكيف بمن بعدهم والله المستعانفتح الباري لابن حجر (6/ 89)
یہ حدیث خیر القرونی قرنی کے مثل ہے ، چونکہ صحابہ پھر تابعین پھر تبع تابعین میں خیر و صلاح بدرجہ اتم موجود تھی ، اس لیے اللہ تعالی انہیں فتح عطا کرتے تھے ۔
اس میں صالحین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا کہاں ہے ؟ یا زندہ بزرگوں کے تلوے چاٹنے کی تلقین کہاں ہے ؟
تاریخ میں ایسے واقعات بے شمار ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ امتِ مسلمہ کے ہر دور میں اکابر اولیاء اور عامۃ الناس اپنے زمانہ کی متبرک اور مقدس شخصیات کے ہاتھ، پاؤں اور سَر چوم کر اُن کے فیوض وبرکات کو سمیٹتے رہے ہیں۔ ذیل میں اسی حوالے سے چند واقعات درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ حضرت عبد الرحمن بن رزین روایت کرتے ہیں کہ ہم ربذۃ کے مقام سے گزرے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں، تو میں اُن کے پاس آیا اور ہم نے ان کو سلام کیا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ باہر نکال کر کہا :
بايعت بهاتين نبيّ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخرج کفاله ضخمة کأنها کف بعير فقمنا إليها فقبّلناها.
’’ میں نے ان دونوں ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے تو انہوں نے اپنی بھاری بھر کم ہتھیلی نکالی گویا کہ وہ اونٹنی کی ہتھیلی کی مانند تھی پس ہم اس کی طرف بڑھے او ر ان کی ہتھیلی کو بوسہ دیا۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، باب تقبيل اليد، رقم : 973
2۔ امام ابو نعیم اصبہانی نے بھی حضرت یونس بن مَيْسَرَہ سے مروی اسی طرح کا ایک واقعہ درج کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک روز یزید بن اسود عائدین کے پاس گئے۔ اُن کے پاس حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ تشریف لائے :
فلما نظر إليه مدّ يده فأخذ يده فمسح بها وجهه وصدره لأنه بايع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’پس جب حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا ہاتھ آگے کیا، انہوں نے ہاتھ لے کر (حصولِ برکت کے لئے) اپنے چہرے اور سینے پر مَلا کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اسی ہاتھ سے) بیعت کی تھی۔‘‘
أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 9 : 306
3۔ تابعیء کبیر حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
أمسست النبي صلي الله عليه وآله وسلم بيدک؟ قال : نعم! فقبّلها.
’’کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا ہے تو آپ نے کہا کہ ہاں، پھر ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو چوما۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، باب تقبيل اليد، رقم : 974
4۔ یحییٰ بن ذماری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مل کر کہا :
بايعت بيدک هذه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال : نعم، قلت : أعطني يدک أقبّلها فأعطانيها فقبّلتها.
’’آپ نے اس ہاتھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں! تو میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ میری طرف کریں کہ میں اسے بوسہ دوں تو انہوں نے اس کو میری طرف کیا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 94، رقم : 226
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 42
5۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
رأيت عليًا يقبّل يد العباس ورجليه.
’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 339، باب تقبيل اليد، رقم : 976
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر افضلیت حاصل ہے مگر چچا اور صالح ہونے کی وجہ سے آپ نے اُن کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا۔
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم سے ملاقات کی اور اُن سے عرض کیا :
أرني الموضع الذي قبّله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فرفع الحسن ثوبه، فقبّل سرّته.
’’آپ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے بوسہ لیا ہے، امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم سے کپڑا سرِکا دیا تو انہوں نے آپ کی ناف کا بوسہ لیا۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 9 : 94، رقم : 4677
ذہن نشین رہے کہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں، اسقدر عظیم البرکت شخصیت ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اہلِ بیتِ اطہار سے فیض اور برکت حاصل کرنا ضروری سمجھا۔
7۔ صاحب الصحيح امام مسلم نے برکت حاصل کرنے کے لئے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر عرض کیا :
دعني حتي أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
’’اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔‘‘
ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 33
8۔ عظیم نقاد محدّث امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ جب ابو مسہر عبدالاعلیٰ دمشقی غسانی (متوفی218ھ) مسجد میں تشریف لاتے تو
اصطفّ الناس يسلّمون عليه ويقبّلون يده.
’’لوگ صف در صف اُن کو سلام کرتے اور اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 11 : 73
9۔ علامہ ابنِ جوزی اور امام ذہبی، امام ابوقاسم سعد بن علی بن محمد الزنجانی رحمۃ اللہ علیہ (م 471ھ) کے متعلق لکھتے ہیں :
کان إذا خرج إلي الحرم، يخلون المطاف ويقبّلون يده أکثر من تقبيل الحجر.
’’جب وہ حرم میں تشریف لاتے تو لوگ طواف کو چھوڑ دیتے اور حجرِ اسود کو چومنے سے بھی بڑھ کر اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے۔‘‘
1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 266، رقم : 224
2. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 3 : 1175، رقم : 1026
10۔ حافظ ابنِ کثیر، فقیہ زاہد ابوجعفر شریف حنبلی کے بارے میں درج کرتے ہیں :
يدخل عليه الفقهاء وغيرهم، ويقبلون يده ورأسه.
’’فقہاء اور دیگر حضرات اُن کے پاس آتے تو (برکت کی غرض سے) اُن کے ہاتھ اور سر کا بوسہ لیتے۔‘‘
ابن کثير، البداية والنهاية، 12 : 119
یہ جتنے حوالے ہیں ، ان میں پہلی بات یہ ہے کہ نیک لوگوں کے حوالے ہیں ، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بھی نہیں کہ جس کو بطور دلیل پیش کیا جائے ۔
پھر یہ دو طرح کے حوالے ہیں :
1۔ جن میں کسی کے ہاتھ کو اس لیے چوما گیا ہے کیونکہ وہ ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہوا تھا۔ نہ کہ اس بزرگ کی اپنی کسی خوبی کی بنا پر ۔
2۔ کچھ حوالے ایسے ہیں ، جن میں مطلقا ہاتھ وغیرہ چومنے کا ذکر ہے ، تبرک کا ذکر ہے ہی نہیں ، جس طرح ہمارے ہاں ادب و احترام کی بعض علامات ہیں ، اسی طرح عربوں ( یا دیگر لوگوں کے ہاں بھی ہوگی ) کے نزدیک کسی بزرگ کا ہاتھ یا ماتھا چومنا اس کے ادب و احترام کی علامت ہے ۔ جس میں کوئی حرج نہیں ۔