کبھی بھی ہمارے حکمران اپنے عقائد کا اعلان نہیں کرتے کیوں کہ ان کو سب کو خوش رکھنا ہوتا ہے ۔ ایک معنی میں منافقت سے کام لیتے ہیں یہ لنک دیکھیں۔
https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Pakistani_Shia_Muslims
پھر ان کو مسلمان ہی سمجھاجائے ۔
السلام علیکم
محترم
اس بات کو میں نہیں سمجھ سکا کہ ہوسکتا ہے لیکن لازم نہیں آتی ۔ یعنی یہاں پر گمان ہے کنفرم نہیں ہے کفر۔ یا کچھ اور مطلب ہے۔
بلکہ تکفیر کس کس کی جاسکتی ہے اس کا ضابط بیان کردیں تو بات واضح ہوجائیگی۔
ایک اور سوال ذہن میں آیا ہے کہ عباسیوں نے اموی خلفاء سے حکومت چھینی وہ بھی غلط اقدام تھا ۔ تو پھر ان کی اطاعت کیوں کر جائز ہوئی۔
پیارے ناصم بھائی جان میری ہمیشہ فورم پہ یہ کوشش رہی ہے کہ بغیر دلیل کے کوئی بات نہ کی جائے اور ہمیشہ وہ دلیل لی جائے کہ جس پہ آپ کے لاجواب ہونے کا مسئلہ نہ ہو اور اگر کسی وقت آپ کو مخالف کی دلیل درست معلوم ہوتی ہو تو مکمل تحقیق کے بعد آپ اپنا موقف تبدیل کر لیں
میں نے اوپر تھوڑی بہت بحث پڑھی ہے اس سلسلے میں اپنا موقف لکھ دیتا ہوں اور ابھی تک کے علم اور تجربے کی روشنی اور علماء کے فتاوی کی روشنی میں الحمد للہ سمجھتا ہوں کہ یہی درست منہج ہے
۱۔مسلمان حاکم کی اطاعت کرنا واقعی لازم ہے چاہے وہ تمھارا سارا مال چھین لے اسکی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچ سکتے
۲۔مسلمان حاکم کی اطاعت صرف معروف کاموں میں ہو گی یعنی اگر حکمران مسلمان بھی ہوں مگر شرکیہ معاملات کا حکم دیں یا اللہ کی کسی اور نافرمانی کا حکم دیں تو اسکی اطاعت کسی بھی صورت لازم نہیں بلکہ الٹا گناہ ہو گی
۳۔اب جہاں تک آج کے حکمرانوں (یعنی پوری دنیا کے مسلمان حکمران) کا سوال پوچھا گیا ہے تو اس میں پہلے و یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ مسلمان ہیں یا نہیں
۴۔کچھ مسلمان ممالک کے حکمران جمہور اہل السنہ علماء کے ہاں مسلمان نہیں انکی اطاعت کرنا بھی واجب نہیں مثلا کشمیر ،افغانستان، عراق، شام وغیرہ
۵۔کچھ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں اہل السنہ کے مخلص علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ مسلمان ہیں یا کافر۔ کیونکہ دونوں طرف دلائل موجود ہیں چاہے ایک طرف کے دلائل زیادہ قوی اور دوسری طرف کے دلائل کمزور ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسے حکمرانوں کے بارے عام مسلمان کو جن اہل السنہ کے علماء کی دلیل قرآن و حدیث کے مطابق لگے اسکے مطابق وہ اطاعت میں عمل کرے گا یعنی اگر اسکے ہاں وہ مسلمان ہیں تو اطاعت لازم ہو گی اور اگر اسکے ہاں وہ مسلمان نہیں تو اطاعت لازم نہیں ہو گی
۶۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ خالی مسلمان حکمران کی اطاعت ہی لازم نہیں ہوتی بلکہ کافر حکمران کی اطاعت بھی لازم ہوتی ہے البتہ طاعت لازم ہونے کی علت میں فرق ہوتا ہے مثلا امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو وہاں کے کافر حکمران کی اطاعت کرنا لازم ہے مگر اسکی علت یا وجہ اطاعت امیر کا شرعی حکم نہیں بلکہ مصلحت ہو سکتی ہے یا کفار سے معاہدہ کی وفاداری کرنا وغیرہ
۷۔ریاست کے کافر ہونے اور کسی خاص حکمران کے کفر معین میں میں فرق ہوتا ہے
۸۔کسی مسلمان حکمران کے کفر معین کے بارے اگر کچھ واضح دلائل پائے جاتے ہوں اور کچھ اہل السنہ کے علماء نے انکو کافر قرار دے دیا ہو اور کوئی مسلمان ان علماء کے فتوی کے مطابق ان حکمرانوں کو کافر سمجھتا ہو تو وہ موول کہلائے گا اور درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے البتہ اسکو تکفیری یا خارجی نہیں کہا جائے گا
نوٹ: یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ جب کوئی کافر ہی ہو گیا ہے تو اسکو قتل کر سکتے ہیں پھر یہ دھماکے والے کیسے خارجی ہو گئے تو بھائی یاد رکھیں کہ کسی کو کافر سمجھنا اور بات ہے اور کسی کو قتل کرنا بالکل اور بات ہے پس خارجی اصل میں وہی ہوتے ہیں جو کسی کو کافر کہنے کے بعد اسکو قتل کے درپے ہو جاتے ہیں جیسا کہ را کے ایجنٹ کرتے ہیں جو معصوم لوگوں (قتل ہونے کے لحاظ سے معصوم ہیں چاہے شرک کرتے ہوں) کو سہون کے مزار پہ یا لاہور میں مال روڈ جلسے پہ یا کسی اور جگہ کافر کہ کر مارنا شروع کر دیتے ہیں انکے خارجی ہونے میں شک نہیں مگر کسی معقول دلیل کی بنیاد پہ کسی کی معین تکفیر کرنے والے کو خارجی کہنا جہالت ہو گی اسکی وجہ یہ ہے کہ خارجی کو قتل کرنا جائز ہوتا ہے پھر اگر خالی تکفیر کرنے سے کوئی خارجی ہو جاتا ہے تو شیعہ تو صحابہ کی تکفیر کی وجہ سے خارجی ہو گئے پھر وہ جہنم کے کتے ہو گئے اور پھر انکی امام بارگاہوں پہ دھماکے جائز ہو گئے کیونکہ اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث کے مطابق جہنم کے کتوں کو مارنا تو ثواب کا کام ہے حالانکہ یہ تمام لوگوں کے ہاں غلط ہے پس ایک چیز کو دوسری سے جوڑنا درست نہیں واللہ اعلم
مزید کوئی وضاحت چاہئے ہو یا میری کسی غلطی کی اصلاح کرنا چاہئیں تو میں مشکور ہوں گا شکریہ