محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
محترم بھائی یہ المیہ تو ہر جگہ ہی ہے تقریبا۔اس سے مدینہ کو منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔جب تک لوگوں کے افکار نہیں بدلیں گے ، تو مدینہ جیسے اسلامی شہر کا کیا ہو گا۔بات سمجھا نہیں ۔
میرا خیال ہے ، جن بچوں کی میں نے بات کی ہے ، ان کی روز مرہ سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے ، تو بچوں کی حد تک وہ ایک روایت پرست ، اور دین پسند بچے کہلائیں گے ، اور اس دور میں ’ ہلکا پھلکا روایت پرست اور تھوڑا بہت دیندار ‘ ہونے کا مطلب ہے کہ آپ زمانے کی دوڑ میں بہت سارے لوگوں سے پیچھے ہیں ۔
کوئی بیس پچیس فیصد لوگ اس سے بہتر حالت میں بھی ہوں گے ، لیکن ساٹھ ستر فیصد اس سے بھی بد تر ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
اور پھر میں نے صرف ایک دو بچوں کی ہی نہیں ، بلکہ بچوں کے بقول ایک پورے سکول کی بات کی ہے ، جو شہر میں نمایاں سکولوں میں سے ہے ، یہ کیسا پاکستانی سکول ہے ، جس میں بچوں کو ’ دس ‘ تک گنتی سکھائی جاتی ہے ؟ ٹیچروں پر تقریبا پابندی ہے کہ وہ انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں گفتگو نہ کریں !
میں نے ان میں سے ایک بچے کا انٹرویو ریکارڈ کیا ہوا ہے ( جو افسوس کسی تکنیکی خرابی کی بنا پر مکمل محفوظ نہیں ہوسکا ) اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بات صرف گنتی یا اب پ کی ہی نہیں ، بہت آگے جاچکی ہے ، پانچویں کلاس کے بچے کو طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، صلاح الدین ، ٹیپو سلطان بلکہ صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تک کا پتہ نہیں ہے ، پتہ نہ ہونے یہ مراد نہیں کہ اسے ان کے بارے میں کوئی لمبی چوری تاریخی باتیں نہیں آتیں ، بلکہ اس کا کہنا ہے یہ نام میں پہلی مرتبہ سن رہا ہوں ۔
اب میں اسے دین سے نہ جوڑوں تو اور کیا کروں ؟
میں پاکستان کے شہر بے اماں کراچی کا باسی ہوں اور ایک طویل عرصے سے سکولز کے ساتھ وابستہ ہوں دعا بہن بات اس سے بھی کہیں آگے جا چکی ہےبھائی کسی ایک فعل پر آپ دوسروں کے لیے گواہ کیوں بن رہے ہیں؟
کیوں کہ ضروری نہیں سب ایسے ہوں۔
اور پھر ایک بچے کی بات پر اتنا بڑا المیہ کہ گنتی کو زبان کی بنیاد پر دین سے جوڑ دیا آپ نے۔
بھائی مجھے آپ کی بات سے پورا اتفاق ہے۔مگر میرا مدہ اور ہے۔میں پاکستان کے شہر بے اماں کراچی کا باسی ہوں اور ایک طویل عرصے سے سکولز کے ساتھ وابستہ ہوں دعا بہن بات اس سے بھی کہیں آگے جا چکی ہے
اور اگر بات محض انگریزی زبان کی ذہنی غلامی تک ہوتی تو شاید ایک زبا ن کی حیثیت سے برداشت کر لیا جاتا لیکن زبان کے ساتھ پوری ثقافت و تہذیب کو مسلط کیا جا رہا ہے اور اس ثقافت کے مظاہر جو میں کراچی میں دیکھ رہا ہوں انتہائی خوفناک ناقابل بیان کم از کم میری حیا تو مجھے اجازت نہیں دے رہی الامان و الحفیظ
واضح کریں پلیز اسےبھائی مجھے آپ کی بات سے پورا اتفاق ہے۔مگر میرا مدہ اور ہے۔
فیض الابرار بھائی ، مجھے کسی بحث میں نہیں الجھنا ہے، میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خضر بھائی نے گنتی کا حوالہ دے کر جو واقعہ بتایا ہے وہ قطعا مدینہ جیسی امن وآمان والی جگہ سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیئے، ہاں سکولز کالجز میں دیگر بہت سی "برائیاں" موجود ہیں مگر تذکرہ پھر ان کا ہوتا۔گنتی کا مسئلہ ہرگز نہیں۔واضح کریں پلیز اسے
متفق @خضر حیات بھائی نوٹ کریں اچھا نکتہ ہےفیض الابرار بھائی ، مجھے کسی بحث میں نہیں الجھنا ہے، میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خضر بھائی نے گنتی کا حوالہ دے کر جو واقعہ بتایا ہے وہ قطعا مدینہ جیسی امن وآمان والی جگہ سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیئے، ہاں سکولز کالجز میں دیگر بہت سی "برائیاں" موجود ہیں مگر تذکرہ پھر ان کا ہوتا۔گنتی کا مسئلہ ہرگز نہیں۔
میرے بھائی کیونکہ مدینہ خیر ہے ، ایمان سمٹ کر مدینہ کی طرف آ جائے گا۔یہ مفہوم حدیث ہیں۔
کم از کم اس پاک جگہ کو تو "خیر" سے ذکر کریں، اور کرنا ہے تو عملی طور پر کچھ کریں، حکومت کوآگاہ کریں یا انتظامیہ کو توجہ دلائیں۔مگر خدارا لوگوں کو آگے سے آگے پوسٹ نہ دیں کیونکہ آج کثیر تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ حیلہ کر دیتے ہیں کہ اب تو مدینہ مکہ میں بھی ایسا ہو رہا ہے تو ہم کیا ہیں۔
بجا فرمایا آپ نے
عید پر ایک اندازے کے مطابق 4 کھرب روپے سے زیاده کا مویشیوں کا کاروبار هوا,
تقریبأ 23 ارب روپے قسائیوں نے مزدوری کے طور پر کماۓ,
3 ارب روپے سے زیاده چارے کے کاروبار نے کماۓ.
پاکستانی کاروبار کی دنیا میں سب سے بڑا کاروبار عید پر هوا......
نتیجه: غریبوں کو مزدوری ملی کسانوں کا چاره فروخت هوا.
دیهاتیوں کو مویشیوں کی اچھی قیمت ملی
گاڑیوں میں جانور لانے لے جانے والوں نے اربوں روپے کا کام کیا
بعد ازاں غریبوں کو کھانے کے لیۓ مهنگا گوشت مفت میں ملا,
کھالیں کئی سو ارب روپے میں فروخت هونی هیں,
چمڑے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کو مزید کام ملا,
یه سب پیسه جس جس نے کمایا هے وه اپنی ضروریات پر جب خرچ کرے گا تو نه جانے کتنے کھرب کا کاروبار دوباره هو گا...........
یه قربانی غریب کو صرف گوشت نهیں کھلاتی, بلکه آئنده سارا سال غریبوں کے روزگار اور مزدوری کا بھی بندوبست هوتا هے,
دنیا کا کوئ ملک کروڑوں اربوں روپے امیروں پر ٹیکس لگا کر پیسه غریوں میں بانٹنا شروع کر دے تب بھی غریبوں اور ملک کو اتنا فائده نهیں هونا جتنا الله کے اس ایک حکم کو ماننے سے ایک مسلمان ملک کو فائده هوتا هے,
اکنامکس کی زبان میں سرکولیشن آف ویلتھ کا ایک ایسا چکر شروع هوتا هے که جس کا حساب لگانے پر عقل دنگ ره جاتی هے..