• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کا جوتا، آپ کا سر - مکالمہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
آپ کا جوتا، آپ کا سر


نماز میں رفع الیدین کرنا، نہ کرنا اہل حدیث اور احناف کے مابین انتہائی معرکتہ الآراء مسئلہ ہے جس پر جانبین کی جانب سے متعدددھواں دھار تصانیف منصہ شہو د پر جلوہ گر ہوچکیں ہیں۔رفع الیدین کے اثبات میں دلائل کی مضبوطی نے حنفیوں کو اس قدر مخبوط الحواس کر دیا ہے کہ آج تک یہ لوگ رفع الیدین کے حکم سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے بلکہ دفع الوقتی کے تحت مختلف اور متصادم حیلوں، بہانوں اور بودی تاویلوں کے سہارے اس سنت متواترہ سے انکار کرکے جان چھڑانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

1۔ کبھی کہتے ہیں کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین دونوں سنت ہیں۔



مکمل تحریر یہاں :

آپ کا جوتا، آپ کا سر
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شاہد نذیر بھائی جزاکم اللہ ۔
بس ہاتھ تھوڑاسا نرم رکھا کریں ۔
گزارش :
مقلدین حضرات کو اس بات کی وضاحت کرنا چاہیےکہ وہ اتنے سارے متناقض اقوال میں سے کس کس کومانتے اور اس کی تقلید کرتے ہیں ۔ ؟
اور یہ بھی بتائیں کہ اگر ان کے نزدیک قول امام کی تقلید واجب ہے تو پھر اتنے سارے اقوال کہاں سے آ گئے ہیں ؟
کیا یہ سب اقوال امام صاحب سے مروی ہیں ؟
یہ بھی وضاحت کریں کہ یہ اختلاف اتباع کا نتیجہ ہے یا تقلید کا ثمرہ ہیں ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا شاہد نزیر بھائی

مفتی عبداللہ صاحب!شاہد نزیر بھائی کا یہ تھریڈ اس دیوبندی کا جواب ہے جس نے کہا ہے کہ فع الیدین کی تمام احادیث صحیح نہیں ہیں (نعوذباللہ)
ایک طرف صحیح بخاری کو قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتاب ماننا اور پھر صحیح بخاری میں موجود رفع الیدین کی احادیث کو غلط کہنا کتنا گھناؤنا کام ہے۔استغفراللہ
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی میں فرماتے ہیں

کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141

نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی
کتاب روضہ الندیہ (صفحہ 148)
نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔"
اور
اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔

مسٹر شاہد نذیر ،آپ کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں عمل حدیث میں ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حضرات دونوں طرح کی احادیث پر عامل ہوتے مگر آپ کا عمل یہ ہے کہ ایک طرح کی حدیث پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

اہم سوال
رفع الیدین جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے اور اٹھتے وقت۔ ۔۔۔ اگر اس عمل کو سنت مانتے ہیں تو بتادیں کہ
١:رفع الیدین فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟
٢:یا عصر کی سنتوں کی طرح؟
٣:اگر فجر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
٤:اگر عصر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)

شکریہ
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی میں فرماتے ہیں

کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141

نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی
کتاب روضہ الندیہ (صفحہ 148)
نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔"
اور
اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔

مسٹر شاہد نذیر ،آپ کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں عمل حدیث میں ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حضرات دونوں طرح کی احادیث پر عامل ہوتے مگر آپ کا عمل یہ ہے کہ ایک طرح کی حدیث پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

اہم سوال
رفع الیدین جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے اور اٹھتے وقت۔ ۔۔۔ اگر اس عمل کو سنت مانتے ہیں تو بتادیں کہ
١:رفع الیدین فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟
٢:یا عصر کی سنتوں کی طرح؟
٣:اگر فجر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
٤:اگر عصر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)

شکریہ
سبحان اللہ !
محترم اہل حدیث کا سب پر عیاں ہے کہ تقلید کو حرام سمجھتے ہیں !
غلط کو غلط کہتے ہیں خواہ اس میں کسی اپنے کا شمار ہوتا ہو!
قرآن و حدیث کے سامنے کسی کی بات معتبر نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
بڑوں کی غلط کو بھی سینے سے لگانا سلفی منھج نہیں ہے بلکہ تقلیدی منھج ہے جس کے تم تو قائل ہو ہم نہیں
اصول اہلحديث۔
1:شيخ العرب والعجم امام بديع الدين شاہ راشدي ( ہمارا اصول ) سرخي کے تحت لکھتے ہيں کہ ہم سوائے قرآن و حديث کے کسي دوسرے کے قول ( غير نبي چاہے کو ئي بھي ہو)کو نہ سند سمجھتے ہيں اور حق مانتے ہيں اور نہ واجب الاتباع جانتے ہيں اور نہ ہي اس کو اس وقت تک اس کو قبول کرتے ہيں جب تک قرآن و حديث سے موا فق نہ ہو ہم ہر ايک قول کو چاہے وہ مقلد کا ہو يا غير مقلد کا قرآن و حديث پر پيش کرتے
ہيں پھر قبول کرتے ھيں۔ہم کسي بھي فقيہ کو دين کے ليئے سند نہيں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ يہ فلاں کا قول ہے يا فلاں نے اس طرح لکھا ہے يہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے
کسي بھي اہلحديث نے يہ نہيں کہا کہ فلاں امام يا مجتھد يا اہلحديث عالم کي کتاب علي الاطلاق معتبر ہے قرآن و سنّت ديکھے بغيراس پرعمل بھي کريں اور فتوي بھي ديں اگر کوئي اس طرح کريگا تو وہ اہلحديث نہيں۔(مروّجہ فقہ کي حقيقت صفحہ 58)
اسي کتاب کے صفحہ 59 پر لکھتے ہيں خبر دار اہلحديثوں کا دوسرا کوئي امام نہيں فقط ايک ہي امام قائد اعظم جناب محمّدمصطفي ہيں۔
براۃ اہلحديث صفحہ 36 ميں لکھتے ہيں کہ مذھب اہل حديث کے ليئے يہ شرط ہے کہ خواہ چھوٹا مسئلہ ہو يا بڑا مسئلہ اس کے ليئے قرآن وحديث سے حوالہ ضروري ہے۔
2: حافظ عبداللّہ محدّث غازي پوري لکھتے ہيں کہ واضح رہے کہ ہمارے مذھب کا اصل الاصول اتباع کتاب و سنّت ہے اس سے کوئي يہ نہ سمجھے کہ اہلحديث کو اجماع امّت اور قياس شرعي سے انکار ہے کيونکہ جب يہ دونوں کتاب وسنّت سے ثابت ہيں۔تو کتاب و سنّت کے ماننے ميں ان کا ماننا بھيّ گيا۔(براۃ اہلحديث صفحہ 32)
3:استاد محترم حافظ زبير زئي حفظہ اللّہ نے تو الحديث رسالے کي پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حديث اور اجماع کي برتر ي سلف صالحين کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کي طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حديث کے ذريعے اتّحاد امّت کي طرف دعوت ۔

مزيد تفصيل کے ليئے ديکھيں (فتاوي اہل حديث 1/69ماہنامہ الحديث 1/4)
4:مولانا محمد ادريس فاروقي رحمہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم برملا کھتے ہيں کہ ہم ہر اس قول کو تسليم نہيں کرتے جو نصوص قر آن و سنت کے خلاف ہو اسي طرح ہم ہر اس کرامت کو نہيں مانتے جو نصوص قرآن و سنت کے متصادم ہو۔
(پيش گفتار ،کرامات اہل حديث ص 28)
5:شيخ الحديث محمد علي جانباز لکھتے ہيں کہ ہم قول رسول کي اطاعت کے مکلّف ہيں ہر بزرگ اور ہر شيخ يا امام کي اطاعت و پيروي کے مکلف نہيں
(احکام طلاق پرص 136)
6:امام ابراہيم سيالکوٹي اہل حديثوں کے متعلق لکھتے ہيں کہ ان سب کے مقابلے ميں ايک گروہ ايسا بھي تھا جو سلف امت صحابہ و خيار تابعين کي روش پر قائم تھا ۔يہ لوگ عبادات ومعاملات کي طرح عقائد ميں بھي اسي طرز قديم يعني اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کي طرف التفات کي اور نہ عقلي طريق پر ان کي ترويد کي بلکہ صرف قرآن شريف اور سيرت نبوي کو کافي جان کر انہي پر قناعت کي
(تاريخ اہل حديث ص103)
7:ميرے شيخ محدث العصر ارشادالحق اثري حفظہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم واشگاف الفاظ ميں اظہار کرتے ہيں کہ ہم مسائل اور اپنے عمل کي بنياد کسي امام کے قول کو نہيں سمجھتے بلکہ امام الانبياء حضرت محمدﷺ کے قول و عمل کو سمجھتے ہيں
(مقالات ج1ص 149)
8:استاد محترم مولانا مشر احمد رباني لکھتے ہيں کہ اہل حديث کا منہج کتاب و سنت ہي ہے ۔ جو بات کتاب و سنت سے واضح ہو جا تي ہے وہي ہمارا ايمان و عقيدہ، منہج وراستہ ہے اور جو اس سے ٹکرا جا تي ہے وہ ھمارے نزديک قابل قبول نہيں خواہ وہ بات کسي امام ، مجتھد مفسّر ،مفتي،محدث کي ہي کيو ں نہ ہو
( پيش لفظ، آپ کے مسئل ان کا حل 1/28)
ايک جگہ لکھتے ہيں کہ اہل حديث خوش نصيب افراد ہيں جن کے تمام مسائل کي بنياد کتاب اللہ اور سنت رسول پر ہے ان کے اصول و فروع اور قواعد وضوابط کي اساس و بنياد محض قرآن و حديث پر استوار ہے۔
(تفہيم دين صفحہ 25)
9: راقم الحروف نے اپنے شيو خ (شيخ ارشاد الحق اثري ، شيخ حافظ محمد شريف ،شيخ حافظ مسعود عالم حفظھم اللہ) سے کلاس ميں دوران سبق بار بار فرماتے ہوئے يہ سنا کہ قرآن و حديث کو محدثين کے فہم کے بطابق سمجھنا چاہيئے کوئي نئي راہ نکالے سے ضرور بچنا چاہيئے اسي ميں خير اور بھلائي ہے جس کسي کي بات غلط ہو خواہ وہ کوئي بھي ہو اس کي بات نہ مانو۔

اعلان:1
علماء اہل حديث ميں جس کسي کا فتوي يا قول قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف ہے اس کو اہل حديث حجت نہيں مانتے
اعلان :2
عدم واقفيت کي بنا پر اگر کسي اہلحديث عالم نے کسي کتاب يا کسي عالم کے متعلق تعريفي کلمات کہے ہوں ا ور اس کي کتاب ميں قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف بات موجود ہو ،ہم اہل حديث اس کي اس بات سے بري ہيں۔اور اس کے متعلق تعريفي کلمات اس کي کتاب يا اس عالم کي ہر بات کو حجت ماننے پر کوئي دليل نہ سمجھے ۔
اعلان 3: جو بات بہي اہلحديث عالم سے غلط ہوئي ہے اس کو ہم مردود و باطل قرار ديتے ہيں
اصول اہلحديث ميں آپ نے بار بار پڑہا کہ قرآن و حديث کا وہي مفہوم ہم اہلحديث ليتے ہيں جو سلف صالحين نے سمجھاہے ۔
اب فتاوي دارالعلوم ديو بند( 3/191) کہولئے وھاں لکھا ہے کہ،، اس زمانہ ميں چونکہ اس عمل (فاتحہ خلف المام وآمين بلجہر ازنا قل) کرنے والے اکثر وہ لوگ ہيں جو ائمہ دين کے مقلد نہيں ہيں اور محض اپني خواہشات کے موافق احاديث کے معني سمجھ کر ان پر عمل کرتے ہيں،،
اب آپ اس کے متعلق جو مرضي کہيں ميں کچھ نہيں کہنا چاھتا اسي کتاب کے (2/9) لکہا ہے کہ ،، کيونکہ حنفيوں کے دلائل يہ روائتيں نہيں ان کي دليل صرف امام کا قول ہے۔
 

sahj

مشہور رکن
شمولیت
مئی 13، 2011
پیغامات
458
ری ایکشن اسکور
657
پوائنٹ
110
سبحان اللہ !
محترم اہل حدیث کا سب پر عیاں ہے کہ تقلید کو حرام سمجھتے ہیں !
غلط کو غلط کہتے ہیں خواہ اس میں کسی اپنے کا شمار ہوتا ہو!
قرآن و حدیث کے سامنے کسی کی بات معتبر نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
بڑوں کی غلط کو بھی سینے سے لگانا سلفی منھج نہیں ہے بلکہ تقلیدی منھج ہے جس کے تم تو قائل ہو ہم نہیں

اصول اہلحديث۔
1:شيخ العرب والعجم امام بديع الدين شاہ راشدي ( ہمارا اصول ) سرخي کے تحت لکھتے ہيں کہ ہم سوائے قرآن و حديث کے کسي دوسرے کے قول ( غير نبي چاہے کو ئي بھي ہو)کو نہ سند سمجھتے ہيں اور حق مانتے ہيں اور نہ واجب الاتباع جانتے ہيں اور نہ ہي اس کو اس وقت تک اس کو قبول کرتے ہيں جب تک قرآن و حديث سے موا فق نہ ہو ہم ہر ايک قول کو چاہے وہ مقلد کا ہو يا غير مقلد کا قرآن و حديث پر پيش کرتے
ہيں پھر قبول کرتے ھيں۔ہم کسي بھي فقيہ کو دين کے ليئے سند نہيں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ يہ فلاں کا قول ہے يا فلاں نے اس طرح لکھا ہے يہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے
کسي بھي اہلحديث نے يہ نہيں کہا کہ فلاں امام يا مجتھد يا اہلحديث عالم کي کتاب علي الاطلاق معتبر ہے قرآن و سنّت ديکھے بغيراس پرعمل بھي کريں اور فتوي بھي ديں اگر کوئي اس طرح کريگا تو وہ اہلحديث نہيں۔(مروّجہ فقہ کي حقيقت صفحہ 58)
اسي کتاب کے صفحہ 59 پر لکھتے ہيں خبر دار اہلحديثوں کا دوسرا کوئي امام نہيں فقط ايک ہي امام قائد اعظم جناب محمّدمصطفي ہيں۔
براۃ اہلحديث صفحہ 36 ميں لکھتے ہيں کہ مذھب اہل حديث کے ليئے يہ شرط ہے کہ خواہ چھوٹا مسئلہ ہو يا بڑا مسئلہ اس کے ليئے قرآن وحديث سے حوالہ ضروري ہے۔
2: حافظ عبداللّہ محدّث غازي پوري لکھتے ہيں کہ واضح رہے کہ ہمارے مذھب کا اصل الاصول اتباع کتاب و سنّت ہے اس سے کوئي يہ نہ سمجھے کہ اہلحديث کو اجماع امّت اور قياس شرعي سے انکار ہے کيونکہ جب يہ دونوں کتاب وسنّت سے ثابت ہيں۔تو کتاب و سنّت کے ماننے ميں ان کا ماننا بھيّ گيا۔(براۃ اہلحديث صفحہ 32)
3:استاد محترم حافظ زبير زئي حفظہ اللّہ نے تو الحديث رسالے کي پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حديث اور اجماع کي برتر ي سلف صالحين کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کي طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حديث کے ذريعے اتّحاد امّت کي طرف دعوت ۔

مزيد تفصيل کے ليئے ديکھيں (فتاوي اہل حديث 1/69ماہنامہ الحديث 1/4)
4:مولانا محمد ادريس فاروقي رحمہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم برملا کھتے ہيں کہ ہم ہر اس قول کو تسليم نہيں کرتے جو نصوص قر آن و سنت کے خلاف ہو اسي طرح ہم ہر اس کرامت کو نہيں مانتے جو نصوص قرآن و سنت کے متصادم ہو۔
(پيش گفتار ،کرامات اہل حديث ص 28)
5:شيخ الحديث محمد علي جانباز لکھتے ہيں کہ ہم قول رسول کي اطاعت کے مکلّف ہيں ہر بزرگ اور ہر شيخ يا امام کي اطاعت و پيروي کے مکلف نہيں
(احکام طلاق پرص 136)
6:امام ابراہيم سيالکوٹي اہل حديثوں کے متعلق لکھتے ہيں کہ ان سب کے مقابلے ميں ايک گروہ ايسا بھي تھا جو سلف امت صحابہ و خيار تابعين کي روش پر قائم تھا ۔يہ لوگ عبادات ومعاملات کي طرح عقائد ميں بھي اسي طرز قديم يعني اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کي طرف التفات کي اور نہ عقلي طريق پر ان کي ترويد کي بلکہ صرف قرآن شريف اور سيرت نبوي کو کافي جان کر انہي پر قناعت کي
(تاريخ اہل حديث ص103)
7:ميرے شيخ محدث العصر ارشادالحق اثري حفظہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم واشگاف الفاظ ميں اظہار کرتے ہيں کہ ہم مسائل اور اپنے عمل کي بنياد کسي امام کے قول کو نہيں سمجھتے بلکہ امام الانبياء حضرت محمدﷺ کے قول و عمل کو سمجھتے ہيں
(مقالات ج1ص 149)
8:استاد محترم مولانا مشر احمد رباني لکھتے ہيں کہ اہل حديث کا منہج کتاب و سنت ہي ہے ۔ جو بات کتاب و سنت سے واضح ہو جا تي ہے وہي ہمارا ايمان و عقيدہ، منہج وراستہ ہے اور جو اس سے ٹکرا جا تي ہے وہ ھمارے نزديک قابل قبول نہيں خواہ وہ بات کسي امام ، مجتھد مفسّر ،مفتي،محدث کي ہي کيو ں نہ ہو
( پيش لفظ، آپ کے مسئل ان کا حل 1/28)
ايک جگہ لکھتے ہيں کہ اہل حديث خوش نصيب افراد ہيں جن کے تمام مسائل کي بنياد کتاب اللہ اور سنت رسول پر ہے ان کے اصول و فروع اور قواعد وضوابط کي اساس و بنياد محض قرآن و حديث پر استوار ہے۔
(تفہيم دين صفحہ 25)
9: راقم الحروف نے اپنے شيو خ (شيخ ارشاد الحق اثري ، شيخ حافظ محمد شريف ،شيخ حافظ مسعود عالم حفظھم اللہ) سے کلاس ميں دوران سبق بار بار فرماتے ہوئے يہ سنا کہ قرآن و حديث کو محدثين کے فہم کے بطابق سمجھنا چاہيئے کوئي نئي راہ نکالے سے ضرور بچنا چاہيئے اسي ميں خير اور بھلائي ہے جس کسي کي بات غلط ہو خواہ وہ کوئي بھي ہو اس کي بات نہ مانو۔
۔
السلام علیکم
ابن بشیر الحسینوی صاحب آپ بتانا پسند کریں گے کہ السلام علیکم کہے بغیر کس حدیث میں آتا ہے کہ بات شروع کردو؟
میں تو جب بھی بات کرتا ہوں بحمدللہ السلام علیکم کہتا ہوں پھر بات کرتا ہوں جسے مسلمان سمجھتا ہوں جیسے کہ آپ کو بھی مسلمان ہی سمجھا ہے ۔اور السلام علیکم کہہ دیا ہے ۔ یہ آپ غیر مقلدین نام نہاد اہلحدیثوں کی انتہائی غلط روش ہے کہ کسی سے بھی بات کریں السلام علیکم نہیں لکھتے ، شاید اپنے سوا باقی سب کو کافر سمجھتے ہیں ؟
اب آتا ہوں اس مراسلے کی جانب جو آپ نے لکھا ہے کہ اصول اہلحديث۔ اور اس کے تحت ناکوئی آیت پیش کی ہے اور ناہی کوئی حدیث ؟ اور صرف امتیوں کے اقوال اور ذاتی رائے کا انبار لگادیا ہے ؟ یہ ہے آپ کا منھج؟؟؟؟ جس بندے کی بات اچھی لگی وہ منھج بن گیا اور جس بندے کی بات سے ناک نیچے ہوگئی اس سے جان چھڑانے کو کہہ دیا "ہم کسي بھي فقيہ کو دين کے ليئے سند نہيں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ يہ فلاں کا قول ہے يا فلاں نے اس طرح لکھا ہے يہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے" ۔۔۔۔اگر میں یہ پوچھ لوں کہ کس حدیث کی بنیاد پر ایسا فرمان جاری کیا ؟ یا کس حدیث کی بنیاد پر آپ نے اوپر کے اقتباس میں موجود سرخ رنگ میں لکھے ہوئے امتیوں کے نام اور ان کے اقوالات کو حجت مانا ؟ یعنی صاف طور پر ظاہر ہے کہ آپ صرف اپنے نفس کی پرستش کرتے ہیں (یعنی فرقہ اہل حدیث) ۔



اعلان:1
علماء اہل حديث ميں جس کسي کا فتوي يا قول قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف ہے اس کو اہل حديث حجت نہيں مانتے
یعنی آپ کا اقرار ہے کہ نام نہاد اہلحدیث قرآن اور سنت اور اجماع امت کے خلاف فتوے دیتے ہیں ۔ تو جناب صرف اسی فتوے ہی کا انکار کیوں ؟
اعلان :2
عدم واقفيت کي بنا پر اگر کسي اہلحديث عالم نے کسي کتاب يا کسي عالم کے متعلق تعريفي کلمات کہے ہوں ا ور اس کي کتاب ميں قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف بات موجود ہو ،ہم اہل حديث اس کي اس بات سے بري ہيں۔اور اس کے متعلق تعريفي کلمات اس کي کتاب يا اس عالم کي ہر بات کو حجت ماننے پر کوئي دليل نہ سمجھے ۔
یعنی آپ کے نام نہاد علماء اس قدر لاعلم تھے کہ وہ مقلدین کی اور انکی کتابوں کی تعریفیں کرتے رہتے تھے ؟ اور یہی اعلان تو ابن بشیر صاحب آپ کے گلے بھی پڑ ا ہوا ہے یعنی جس کتاب میں کسی مقلد یا مقلدین کے عمل کا اثبات ہو وہ کتاب اور اسکا لکھنے والا آپ کی رائے میں اہل حدیثوں پر حجت نہیں ؟ کیوں یہی مطلب ہوا؟ اب آپ ایک اور اعلان نامہ شامل دفتر کیجئے کہ تمام اکابرین غیر مقلدین کی چھانٹی کردیں ایک ہی بار ،اور ان کی کتابوں کی بھی جن میں اگر ایک بھی بات قرآن اور حدیث کے خلاف درج ہے، اور آپ کے نزدیک سب سے بڑی قرآن اور حدیث کی مخالفت یہ ہے کہ کسی حنفی کی تعریف کردی جائے یا ان کے عمل کا اثبات آجائے ۔ تو تیار کیجئے اعلان ابن بشیر صاحب ۔
اعلان 3: جو بات بہي اہلحديث عالم سے غلط ہوئي ہے اس کو ہم مردود و باطل قرار ديتے ہيں
جو بات بھی ہی نہیں جناب وہ عالم بھی مردود قرار پاتا ہے آپ کے اعلان نمبر ایک اور اس قول قرآن و حدیث کے سامنے کسی کی بات معتبر نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو کے مطابق۔ اب اس کی زد میں کون کون آتا ہے اس کا اعلانیہ فیصلہ تو آپ کا ہوگا ، میں صرف یہ بتادیتا ہوں کہ آپ کے ہاں تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل بھی "حجت نیست "۔
باقی آپ سمجھدار ہیں جناب ابن بشیر الحسینوی صاحب ، کہ آپ ایک حدیث بھی امتی کی رائے کے بغیر ثابت نہیں کرسکتے، اور اس سے بھی بڑھ کر آپ نام نہاد اہل حدیث قرآن پڑھنے پڑھانے میں بھی تقلید شخصی کے "کفر" میں ڈوبے ہوئے ہو۔ سمجھ نہیں آیا ؟ بھئی سیدھی سی بات ہے آپ قرآن پڑھتے ہیں قاری عاصم کوفی کی قرائت پر ۔یعنی سات قراءتوں میں سے صرف ایک پر عمل ہے، ان سات مختلف فیہ قاریوں میں مکی، مدنی، بصری قاری بھی تھے آپ نے ان سب کو چھوڑ کر قاری عاصم کوفی کی قرات کو ہی اختیار کیوں کیا؟ مکہ، مدینہ سے تعلق توڑ کر ان عراقیوں سے تعلق کیوں جوڑا؟ جن کے بارے میں جناب کے بڑوں کا کہنا یہ ہے کہ ”عراقی برائے نام مسلم تھے۔ نہ انہیں قرآن سے محبت تھی نہ حدیث سے وہ تو فتنہ پرور اور دین کے دشمن تھے“ (تفہیم الاسلام ص ۴ ۱ ۱) یا یہ قول ببھی ابن بشیر کے مزہب میں باطل ہے ؟ جو کوفی قرائت کو اپنایا ہوا ہے ۔
اسلئیے جناب بشیر صاحب یہ جھوٹ بولنا اب آپ لوگ بند کردیں کہ آپ لوگ تقلید اور تقلید شخصی کو حرام،شرک،کفر وغیرہ مانتے ہو۔ بلکہ آپ نے اگر چھوڑنا ہے تو پہلے کوفی قرائت کو چھوڑیں اور باقی چھ قرائتوں پر عمل کریں ۔کیونکہ آپ تقلید کو شرک جو مانتے ہیں ۔ اب فیصلہ آپ کو بژیر الحسینوی صاحب کہ قرآن کو عاصم کوفی کی قرائت پر پڑھنے سے ثواب ہوتا ہے یا بندہ کافر ہوجاتا ہے ؟
یہ تو ہوگئی آپ کی قرآن پڑھنے میں کوفیوں کی تقلید اور اب مختصراً حدیث کے بارے میں بھی بتادوں۔
فرقہ اہل حدیث تقلید شخصی کو شرک سے تعبیر کرتے ہیں لیکن خود ایک حدیث بھی تقلید شخصی کئیے بغیر صحیح ثابت نہیں کرسکتے ۔ محتاج ہیں بے چارے اشخاص کے کہ وہ کسی حدیث کو بیان کریں ،کتاب میں لکھیں ، پھر کوئی شخص اس حدیث کو زاتی رائے سے صحیح یا ضعیف قرار دے ، اور آخر میں کوئی شخص جو کہ اپنے آپ کو اہلحدیث قرار دیتا ہو ،وہ اپنی زاتی رائے سے کہے کہ "ہمارے منھج کے عین مطابق ہے یہ اور یہ حدیث" ۔۔۔۔ جبکہ ہونا تو یہ چاھئیے کہ آپ میں سے یعنی نام نہاد اہل حدیث افراد کو چاھئے کہ وہ تمام کتابیں احادیث کی حنفیوں کو دے دیں اور خود ٹائم مشینیں خرید لیں اور واپس دور صحابہ بلکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم (اسلئے کہ آپکے مزہب میں "صحابی حجت نیست") میں پہنچیں اور خود دیکھیں اور سنیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ کیا عمل سنت ہے اور کیا عمل فرض واجب وغیرہ پھر واپس آکر اس پر عمل کریں ۔ تب تو ہم آپ کو اہلحدیث مان سکتے ہیں کہ یہ اپنے" اصول اہلحدیثیت " کے عین مطابق عمل کرتے ہیں ۔ ایسے نہیں کہ ایک حدیث کو بھی ثابت کرنے میں آپ کو کئی کئی امتیوں کی زاتی رائے پر ایمان قائم کرکے مشرک اور کافر بننا پڑے اور پھر آپ اپنے آپ کو کہیں کہ ہم منھج اہلحدیث پر قائم ہیں ۔


یہ تو ہوئی وہ باتیں جو آپ کو جواباً کہیں جوکہ موضوع کے عین مطابق نہیں تھیں لیکن چونکہ آپ نے کیں چنانچہ میں نے جواب دے دیا۔

اب وہ باتیں جو میں نے سوالاً کیں تھیں ۔ برائے مہربانی کوئی پکا اہل حدیث جو بغیر امتیوں کی تقلید کئیے بتاسکے کہ رفع یدین سنت کے کس درجہ میں ہے یعنی فجر کی سنت کی طرح یا عصر کی سنتوں کی طرح؟ تاکہ فیصلہ ہوسکے کہ بغیر رفع یدین کے نماز باطل ہے۔یا نہیں۔
اہم سوال
رفع الیدین جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے اور اٹھتے وقت۔ ۔۔۔ اگر اس عمل کو سنت مانتے ہیں تو بتادیں کہ
١:رفع الیدین فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟
٢:یا عصر کی سنتوں کی طرح؟
٣:اگر فجر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
٤:اگر عصر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)

شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی میں فرماتے ہیں

کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141

نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی
کتاب روضہ الندیہ (صفحہ 148)
نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔"
اور
اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔

مسٹر شاہد نذیر ،آپ کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں عمل حدیث میں ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حضرات دونوں طرح کی احادیث پر عامل ہوتے مگر آپ کا عمل یہ ہے کہ ایک طرح کی حدیث پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
ہم اہل حدیث الحمداللہ شخصیت پرست نہیں بلکہ دلیل پرست ہیں۔ ہم آپ کی بھی ہر اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں جو صحیح دلیل سے ثابت ہو۔اسی طرح ہم اپنے عالم یا اکابر کی بھی وہ بات تسلیم نہیں کرتے جو دلائل کے خلاف ہو۔مطلب یہ کہ ہم اپنے اصولوں کے پکے ہیں۔والحمداللہ

ترک رفع الیدین سنت ہے اس کی کوئی دلیل نہیں اس لئے ہم اس سلسلے میں کسی بھی شخص کی بات چاہے وہ غیر ہو یا اپنا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اگر سہج صاحب کے پاس صرف ایک ایسی صحیح حدیث ہو جس سے واضح طور پر ترک رفع الیدین ثابت ہوتا ہو تو پیش کردیں ہم تسلیم کرلینگے۔ ان شاء اللہ

اہم سوال
رفع الیدین جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے اور اٹھتے وقت۔ ۔۔۔ اگر اس عمل کو سنت مانتے ہیں تو بتادیں کہ
١:رفع الیدین فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟
٢:یا عصر کی سنتوں کی طرح؟
٣:اگر فجر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
٤:اگر عصر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)

شکریہ
کیا امین اوکاڑوی نے اپنے شاگردوں کو صرف سوال کرنا ہی سکھایا ہے یا ان کو کوئی جواب بھی آتا ہے؟؟؟
آپ سوال کریں اور شوق سے کریں کیونکہ آپ کے پاس صرف سوالات ہی ہیں۔ لیکن پہلے اس موضوع کی مناسبت سے یہ بتادیں کہ آپ لوگوں کے نزدیک رفع الیدین کا اصل حکم کیا ہے۔ سنت ہے؟ مکروہ ہے؟ بدعت ہے؟ حرام ہے؟ کفر ہے؟ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب دینے کے بعد ہی آپ کے کسی سوال کا جواب دیا جائے گا۔ اس لئے کہ آپ نے جہاں یہ سوال کیا ہے وہاں پہلے ہی آپ سے ایک سوال کیا گیا ہے۔ شریفوں کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سائل کا جواب دیا جائے اس کے بعد اپنا سوال سامنے رکھا جائے۔ سوال کے جواب میں سوال کرنا باغیرت لوگوں کا کام نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم
ابن بشیر الحسینوی صاحب آپ بتانا پسند کریں گے کہ السلام علیکم کہے بغیر کس حدیث میں آتا ہے کہ بات شروع کردو؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کو گرانے میں مدد کی۔(الشریعہ للآجری،صفحہ ٩٦٢، حاشیہ ٢٠٤٠)
سہج صاحب آپ وہ بدعتی ہیں جس کی بدعت کفر تک پہنچ گئی ہے۔ بار بار بحث کے ذریعے آپ پر حجت بھی تمام ہو گئی ہے اور قرآن وحدیث کے متعلق آپ کا رویہ بھی کھل کرسامنے آگیا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ جیسے شخص کو سلام کرکے کون اللہ کا ناراضگی مول لے گا؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top