مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی میں فرماتے ہیں
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی
کتاب روضہ الندیہ (صفحہ 148)
نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔"
اور
اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
مسٹر شاہد نذیر ،آپ کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دونوں عمل حدیث میں ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ آپ حضرات دونوں طرح کی احادیث پر عامل ہوتے مگر آپ کا عمل یہ ہے کہ ایک طرح کی حدیث پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
اہم سوال
رفع الیدین جہاں جہاں آپ کرتے ہیں یعنی رکوع جاتے اور اٹھتے وقت۔ ۔۔۔ اگر اس عمل کو سنت مانتے ہیں تو بتادیں کہ
١:رفع الیدین فجر کی سنتوں کی طرح ہے؟
٢:یا عصر کی سنتوں کی طرح؟
٣:اگر فجر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
٤:اگر عصر کی سنتوں کی طرح ہے تو کس دلیل سے؟۔(کیونکہ آپ ماشاء اللہ اہلحدیث جو ہیں بغیر دلیل کچھ نہیں بتاتے،مانتے،کرتے)
شکریہ
سبحان اللہ !
محترم اہل حدیث کا سب پر عیاں ہے کہ تقلید کو حرام سمجھتے ہیں !
غلط کو غلط کہتے ہیں خواہ اس میں کسی اپنے کا شمار ہوتا ہو!
قرآن و حدیث کے سامنے کسی کی بات معتبر نہیں خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔
بڑوں کی غلط کو بھی سینے سے لگانا سلفی منھج نہیں ہے بلکہ تقلیدی منھج ہے جس کے تم تو قائل ہو ہم نہیں
اصول اہلحديث۔
1:شيخ العرب والعجم امام بديع الدين شاہ راشدي ( ہمارا اصول ) سرخي کے تحت لکھتے ہيں کہ ہم سوائے قرآن و حديث کے کسي دوسرے کے قول ( غير نبي چاہے کو ئي بھي ہو)کو نہ سند سمجھتے ہيں اور حق مانتے ہيں اور نہ واجب الاتباع جانتے ہيں اور نہ ہي اس کو اس وقت تک اس کو قبول کرتے ہيں جب تک قرآن و حديث سے موا فق نہ ہو ہم ہر ايک قول کو چاہے وہ مقلد کا ہو يا غير مقلد کا قرآن و حديث پر پيش کرتے
ہيں پھر قبول کرتے ھيں۔ہم کسي بھي فقيہ کو دين کے ليئے سند نہيں مانتے پھرہم پراعتراض کرنا کہ يہ فلاں کا قول ہے يا فلاں نے اس طرح لکھا ہے يہ اوٹ پٹانگ مارنا ہے
کسي بھي اہلحديث نے يہ نہيں کہا کہ فلاں امام يا مجتھد يا اہلحديث عالم کي کتاب علي الاطلاق معتبر ہے قرآن و سنّت ديکھے بغيراس پرعمل بھي کريں اور فتوي بھي ديں اگر کوئي اس طرح کريگا تو وہ اہلحديث نہيں۔(مروّجہ فقہ کي حقيقت صفحہ 58)
اسي کتاب کے صفحہ 59 پر لکھتے ہيں خبر دار اہلحديثوں کا دوسرا کوئي امام نہيں فقط ايک ہي امام قائد اعظم جناب محمّدمصطفي ہيں۔
براۃ اہلحديث صفحہ 36 ميں لکھتے ہيں کہ مذھب اہل حديث کے ليئے يہ شرط ہے کہ خواہ چھوٹا مسئلہ ہو يا بڑا مسئلہ اس کے ليئے قرآن وحديث سے حوالہ ضروري ہے۔
2: حافظ عبداللّہ محدّث غازي پوري لکھتے ہيں کہ واضح رہے کہ ہمارے مذھب کا اصل الاصول اتباع کتاب و سنّت ہے اس سے کوئي يہ نہ سمجھے کہ اہلحديث کو اجماع امّت اور قياس شرعي سے انکار ہے کيونکہ جب يہ دونوں کتاب وسنّت سے ثابت ہيں۔تو کتاب و سنّت کے ماننے ميں ان کا ماننا بھيّ گيا۔(براۃ اہلحديث صفحہ 32)
3:استاد محترم حافظ زبير زئي حفظہ اللّہ نے تو الحديث رسالے کي پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حديث اور اجماع کي برتر ي سلف صالحين کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کي طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حديث کے ذريعے اتّحاد امّت کي طرف دعوت ۔
مزيد تفصيل کے ليئے ديکھيں (فتاوي اہل حديث 1/69ماہنامہ الحديث 1/4)
4:مولانا محمد ادريس فاروقي رحمہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم برملا کھتے ہيں کہ ہم ہر اس قول کو تسليم نہيں کرتے جو نصوص قر آن و سنت کے خلاف ہو اسي طرح ہم ہر اس کرامت کو نہيں مانتے جو نصوص قرآن و سنت کے متصادم ہو۔
(پيش گفتار ،کرامات اہل حديث ص 28)
5:شيخ الحديث محمد علي جانباز لکھتے ہيں کہ ہم قول رسول کي اطاعت کے مکلّف ہيں ہر بزرگ اور ہر شيخ يا امام کي اطاعت و پيروي کے مکلف نہيں
(احکام طلاق پرص 136)
6:امام ابراہيم سيالکوٹي اہل حديثوں کے متعلق لکھتے ہيں کہ ان سب کے مقابلے ميں ايک گروہ ايسا بھي تھا جو سلف امت صحابہ و خيار تابعين کي روش پر قائم تھا ۔يہ لوگ عبادات ومعاملات کي طرح عقائد ميں بھي اسي طرز قديم يعني اتباع نصوص پر جمے رہے ور ان سے سرمو نہ سرکے نہ تو نئے علوم کي طرف التفات کي اور نہ عقلي طريق پر ان کي ترويد کي بلکہ صرف قرآن شريف اور سيرت نبوي کو کافي جان کر انہي پر قناعت کي
(تاريخ اہل حديث ص103)
7:ميرے شيخ محدث العصر ارشادالحق اثري حفظہ اللہ لکھتے ہيں کہ ہم واشگاف الفاظ ميں اظہار کرتے ہيں کہ ہم مسائل اور اپنے عمل کي بنياد کسي امام کے قول کو نہيں سمجھتے بلکہ امام الانبياء حضرت محمدﷺ کے قول و عمل کو سمجھتے ہيں
(مقالات ج1ص 149)
8:استاد محترم مولانا مشر احمد رباني لکھتے ہيں کہ اہل حديث کا منہج کتاب و سنت ہي ہے ۔ جو بات کتاب و سنت سے واضح ہو جا تي ہے وہي ہمارا ايمان و عقيدہ، منہج وراستہ ہے اور جو اس سے ٹکرا جا تي ہے وہ ھمارے نزديک قابل قبول نہيں خواہ وہ بات کسي امام ، مجتھد مفسّر ،مفتي،محدث کي ہي کيو ں نہ ہو
( پيش لفظ، آپ کے مسئل ان کا حل 1/28)
ايک جگہ لکھتے ہيں کہ اہل حديث خوش نصيب افراد ہيں جن کے تمام مسائل کي بنياد کتاب اللہ اور سنت رسول پر ہے ان کے اصول و فروع اور قواعد وضوابط کي اساس و بنياد محض قرآن و حديث پر استوار ہے۔
(تفہيم دين صفحہ 25)
9: راقم الحروف نے اپنے شيو خ (شيخ ارشاد الحق اثري ، شيخ حافظ محمد شريف ،شيخ حافظ مسعود عالم حفظھم اللہ) سے کلاس ميں دوران سبق بار بار فرماتے ہوئے يہ سنا کہ قرآن و حديث کو محدثين کے فہم کے بطابق سمجھنا چاہيئے کوئي نئي راہ نکالے سے ضرور بچنا چاہيئے اسي ميں خير اور بھلائي ہے جس کسي کي بات غلط ہو خواہ وہ کوئي بھي ہو اس کي بات نہ مانو۔
اعلان:1
علماء اہل حديث ميں جس کسي کا فتوي يا قول قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف ہے اس کو اہل حديث حجت نہيں مانتے
اعلان :2
عدم واقفيت کي بنا پر اگر کسي اہلحديث عالم نے کسي کتاب يا کسي عالم کے متعلق تعريفي کلمات کہے ہوں ا ور اس کي کتاب ميں قرآن و حديث يا اجماع کے خلاف بات موجود ہو ،ہم اہل حديث اس کي اس بات سے بري ہيں۔اور اس کے متعلق تعريفي کلمات اس کي کتاب يا اس عالم کي ہر بات کو حجت ماننے پر کوئي دليل نہ سمجھے ۔
اعلان 3: جو بات بہي اہلحديث عالم سے غلط ہوئي ہے اس کو ہم مردود و باطل قرار ديتے ہيں
اصول اہلحديث ميں آپ نے بار بار پڑہا کہ قرآن و حديث کا وہي مفہوم ہم اہلحديث ليتے ہيں جو سلف صالحين نے سمجھاہے ۔
اب فتاوي دارالعلوم ديو بند( 3/191) کہولئے وھاں لکھا ہے کہ،، اس زمانہ ميں چونکہ اس عمل (فاتحہ خلف المام وآمين بلجہر ازنا قل) کرنے والے اکثر وہ لوگ ہيں جو ائمہ دين کے مقلد نہيں ہيں اور محض اپني خواہشات کے موافق احاديث کے معني سمجھ کر ان پر عمل کرتے ہيں،،
اب آپ اس کے متعلق جو مرضي کہيں ميں کچھ نہيں کہنا چاھتا اسي کتاب کے (2/9) لکہا ہے کہ ،، کيونکہ حنفيوں کے دلائل يہ روائتيں نہيں ان کي دليل صرف امام کا قول ہے۔