• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
لولاک لما خلقت الافلاک کی تحقیق

سوال : لولاک لما خلقت الافلاک (ترجمہ): اے محمد اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہانوں کو ہی پیدا نہ کرتا۔ یہ روایت عام طور پر کئی علماء حضرات بیان کرتے ہیں ۔ اس کی تحقیق درکار ہے۔

ج: یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ امام صنعانی نے اپنی کتاب الاحادیث الموضوعۃ ص۵۲ رقم ۷۸ میں اور علامہ عجلونی نے کشف الخفائ۲/۱۶۴ میں اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ ۳۲۶ میں ذکر کیا ہے۔
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)

گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے لولاک لما خلقت الافلاک ۔
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے

سوال: کیا اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عھنا سے ہوا تھا ؟ ائمہ اہل سنت اور اہل تشیح کی کتاب سے با دلائل ثابت کریں ؟

جواب : سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدہ فاطمہ الزہراء بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں، بلا شبہ اُن کا نکاح حضرت عُمر بن خطاب رضی اللہ عنھا سے ہوا اور یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف فیریقین محدثین و مؤرخین کو بغیر کسی تردد کے ہے اور ہر دو مکتب فکر کی معرکہ آراء کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ پہلے اہل سنت کے محدثین و مؤ رخین کی تصریحات نقل کی جاتی ہیں، پھر شیعی محدثین و مؤ رخین کے حوالہ جات درج کیے جاتے ہیں ۔
’’ ثعلبہ بن ابی مالک کہتے ہیں کہ سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی عورتوں میں چادریں تقسیم کیں تو ایک عمدہ چادر بچ گئی ۔ اُن کے پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا‘ امیر المومنین ! یہ چادر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کو دیجئے اُ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھا نے کہا اُم سلیط زیادہ حقدار ہے وہ انصاری عورت تھیں۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی ۔ سیدنا عمر رضی للہ عنہ نے کہا اُم سلیط جنگ اُحد کے دن ہمارے لئے مشکیں لاد لاد کر لاتی تھیں ۔‘‘(صحیح بخاری باب حمل النساء القرب الی الناس فی الغزو / کتاب الجھاد (۲۸۸۱) وباب ذکرام سلیط کتاب المغازی ۲/۵۸۶)

شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں ؛
کہ سیدہ اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہھا سیدنا عُمر رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں اور اُن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ اس لئے لوگوں نے ان کو بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا۔ اُم کلثوم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی پیدا ہوئی تھیں اور یہ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔

امیر المؤ منین فی الحدیث امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ و شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی اس تصریح سے واضح ہوا کہ سیدہ اُم بنت علی رضی اللہ عنھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنھا کی بیوی تھیں۔ ان کا اور ان کے بیٹے زید کا جناہ اکٹھا رکھا گیا اور اس دن امام سعید بن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔
امام ابنِ حزم حمھرۃ النساب العرب ۳۷‘ ۱۵۲ پر رقمطراز ہیں۔
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں انِ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھا نے نکاح کیا اور سید نا عمر رضی اللہ عنھا کا ان سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی رُقیہ پیدا ہوئی ۔

امام طبریٰ نے اپنی کتاب تاریخ الامم والملوک ۲ /۵۶۴ پر لکھا ہے کہ:
اُم کلثوم بنت علی رضی اللہ عھنا جن کی ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا ا س سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔
امام ابن عبدالبر نے الاستعیاب علی ھامش اصابہ ۴/۴۹۰ پر مذکورہ بالا عبارت کی طرح ہی لکھا ہے ۔ ائمہ اہل سنت کی ان تصریحات سے واضح ہوا کہ ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا سیدنا عمر رضی اللہ عنھا سے نکاح ہوا اور اس سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے۔ اب شیعہ ائمہ کی تصریھات ملاحظہ کریں۔
سب سے پہلے ہم شیعہ کی معتبر کتاب کافی کی عبارت پیش کرتے ہیں جو ان کے ہاں بخاری شریف کے پایہ کی کتاب سمجھی جاتی ہے اور بعض شیعی محدثین کی تصریح کے مطابق یہ وہ کتاب ہے جو محمد بن یعقوب کلینی ’’ صاحب کافی ‘‘ نے لکھنے کے بعد امام مہدی کے پاس غار میں پیش کی تو انہوں نے کہا :
یہ کتاب ہمارے شیعوں کیلئے کافی ہے۔

شیعہ کا ثقہ الاسلام محمد بن یعقون کلینی فروع کافی باب تزویج ام کلثوم کتاب النکاح ۵ /۳۴۶ پر لکھتا ہے:
امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ آپ سے اُم کلثوم کے نکاح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا یہ ایک رشتہ تھا جو ہم سے چھین لیا گیا ۔

یہی مؤلف فروع کافی ۲ /۱۱۵ کتاب الطلاق میں راقم ہے۔
عبداللہ بن سنان امام صادق سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے مسئلہ دریافت کیا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے وہ عدت کہاں گزارے؟ اپنے شوہر کے گھر بیٹھے یا جہاں مناسب خیال کرے وہاں بیٹھے؟ تو آپ نے جواب دیا جہاں چاہے عدت گزار لے کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنھا جب فوت ہوئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنھا اپنی بیٹی اُم کلثوم ( بیوی عمر رضی اللہ عنھا)کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے گھر لے گئے ۔

فروع کافی ۶ /۱۱۶ میں یہی روایت امام جعفر صادق سے روایت سلیمان بن خالد بھی رموعی ہے۔
شیعوں کے شٰک الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں فروع کافی سے اِن دونوں روایتوں کو اِ سی طرح نقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب شیعوں کے ہاں صحیح مسلم کے پائے کی ہے۔
اسی طرح ابو جعفر محمد بن حسن طوسی نے اپنی دوسری کتاب الاستبصار ۳ /۳۵۲ (جو کہ شیعوں کی صحاب اربعہ میں شمار ہوتی ہے ) میں بھی اس روایت کو درج کیا ہے۔

امام جعفر صادق اپنے والد محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ اُم کلثوم بنت علی اور اس کا بیٹا زید بن عمر بن خطاب دونوں ماں بیٹا ایک ہی وقت میں فوت ہوئے اور یہ علم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون فوت ہوا اور ان دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کا وارث نہ بن سکا اور ان دونوں کی نمازِ جنازہ بھی اکھٹی پڑھی گئی ۔
شعیہ فقہ کی معتبر کتاب شرائع السلام کی شرح ایک شیعی عالم سلاک نے لکھی ہے وہ صاب شرائع کے اس قول یجوز نکاح العربیۃ بالعجمی والھاشمیۃ وبالعکس کے تحت لکھتا ہے:
عربی عورت کا عجمی مدر سے نکاح جائز ہے اور اسی طرح ہاشمیہ عورت ا غیر ہاشمی سے مرد ہے اور اِ س کے بالعکس بھی جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی بیٹی اُم کلثوم کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنھا سے کیا تھا ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ تھے؟

سوال: فقہ حنفی کی وہ کونسی کتاب ہے جس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھا کو نا سمجھ لکھا گیا اور کیوں لکھا گیا ہے؟ لکھنے والے کا نام اور کتاب کا نام لکھئے؟

جواب : فقہ حنفی کو ماننے والے حوص و عوام کی حالت یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا فتوٰ ی یا قول امام ابو حنیفۃ ؒ کے قول کے مواقف ہو تو اُ س کی تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلبے ملا دیتے ہیں اور اگر مخلاف ہو تو غیر فقیہ و غیر مجتہد اور اعرابی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریر رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ اِ س لیے کہا گیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ او نٹنی اور بکری کا دود روک کر نہ بیچو اور جو آدمی ایسا جانور خر ید لے تو وہ دودھ دوہنے کے بعد اس کی اپنی مرضی ہے اگر چاہے تو رکھ لے اور اگر چاہے تواُس کو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور کا بھی ساتھ دے ‘‘۔

حنفی کہتے ہیں کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے۔ ملا جیون حنفی نے نور الا نوار ۱۷۹ میں لکھا ہے فان ھذ الحدیث مخالف للقیاس من کل وجہ کہ اگر یہ روای عدالت اور ضبط کے ساتھ معروف ہو فقیہ نہ ہو جیسا کہ انس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھا ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو گی تو اِ س پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو ضرورت کے تحت چھوڑ دیا جائے گا وگرنہ ہر لحاظ سے رائے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
بے شک یہ حدیث ہر لحاظ سے قیاس کے خلاف ہے کیونکہ یہ ایک صاع کھجور کے دودھ کے عوض دے رہا ہے۔ قیاس کا تقاضا ہے کہ دودھ کا تاوان دودھ سے ہی ادا کیا جائے یا اس کی قیمت سے اور اگر کھجور بدلہ ہو تو قیاس یہ چاہتا ہے کہ دودھ کی کمی بیشی کے لحاظ سے کھجور میں بھی کمی بیشی ہو، نہ یہ کہ کمی اور بیشی کے ہر حال میں ایک صاع کھجور ضروری ہو ۔
اِ س لئے حنفیوں نے کہا کہ اب ہم دیکھیں گے اس حدیث کا راوی کون ہے؟ اگر راوی فقیہ ہو ا تو حدیث لی جائے گی اور قیاس کو ترک کیا جائے گا اور اگر راوی غیر فقیہ و غیر مجتہد ہوا تو قیاس کو مانا جائیگا اور حدیث کو چھوڑ اجائیگا ۔
احناف کا یہ قانون نور الا نوار ۱۷۹، اصول شاشی ۷۵، الحسامی مع شرح النظامی ۷۵، اصول بزودی ۱۵۹‘التوضیح و التویح ۴۷۳‘ اصول سرخی ۱ /۳۴ اور مراۃ الاصوال و غیرہ میں موجود ہے۔
احناف نے کہا اس حدیث کے روای سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ فقیہ نہیں اس لئے یہ حدیث متروک ہوئی ۔ نور الانوار کی عبارت یہ ہے :
یہ حدیث صرف سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں بلکہ اس حدیث کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری نے اسی روایت کے بعد ان کا یہ فتویٰ درج کیا ہے اور مذکورہ بالا روایت کی وجہ سے سیدنا ابو ہریرہ رضٰ اللہ عنہ غیر فقیہ ہیں تو حنفیوں کو چاہئے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی غیر فقیہ کہہ دیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مسند ابو یعلیٰ موصلی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے سنن ابو داؤد اور طبرانی میں سیدنا عمر بن عوف المزنی سے خلافیات بیہقی میں اور رجل من اصحاب النبی سے تحفۃ الاحوذی ۲/ ۲۴۴ میں مروی ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری ۴ /۳۶۵ پر رقمطراز ہیں کہ:
مجھے یقین ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث اس لئے نقل کی تاکہ معلوم ہو کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔ اگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ثابت نہ ہوتی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ قیاسِ جلی کی مخالفت نہ کرتے ۔
یہاں وقت قوی یہ ہے کہ یہی روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بخاری میں مروی ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ و اجتہاد میں مصروف ہیں
اسلئے بعض حنفیوں نے اس اصول سے جان چھڑانے کیلئے کہا کہ یہ قاضی ابو یوسف کے شاگرد عیسی بن ابا ن کا قاعدہ ہے۔ مگر ان کی جان خلاصی اس قانون سے کبھی نہیں ہو سکتی۔ اورلاً اس لئے کہ ان کے اصول کی معتبر کتابوں میں یہ قانون موجود ہے۔ جس کی بناء پر یہ حدیث مصراۃ کو رد کرتے ہیں اور یہ قانون جہاں جہاں موجود ہے اس کے حوالے میں نے اُوپر درج کر دئیے ہیں۔
ثانیا: مولوی خلیل احمد سہارنپوری نے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے حنفی علماء کا ہی یہ عقائدہ وکلیہ ہے چنانچہ بخاری شریف کے حاشیہ ۱/ ۲۸۸ پر لکھتے ہیں :
ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو مصروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی دولت سے محروم ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتاب میں موجود ہے۔
حنفی علماء کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا سر اسر باطل ہے۔ امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ نے سیر اعلام النباء ۲ / ۶۱۹ پر لکھا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ حدیث اور اداءِ حدیث میں سب سے فائق تھے۔ انہوں نے حدیث مصراۃ بھی آپؐ سے روایت کی ہے ۔ ہم پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔
یہاں یہ بات ضرور یاد رہے کہ اصل صرف کتاب و سنت ہے اس کے بر عکس قیاس و فرع ہے۔ اصل کو فرع کے ساتھ رد کرنا مر دود و باطل ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت قیاس کے بھی مطابق ہے۔ تفصیل کیلئے امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کی اعلام الموقعین کا مطالعہ کیجئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جنات میں توالد و تناسل کا بیان

س: کیا جنات میں شادی ، بیا ا ور توالد و تناسل کا سلسلہ موجود ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کیجئے۔

ج: شیاطین و جنات میں انسانوں کی طرح شادی و بیا اور مناکحت و توالد کا سلسلہ موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’ان ( نعمتوں ) کے درمیان نیچی نگاہوں والیاں ( حوریں ) ہوں گی۔ جنہیں جنتیوں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہو گا‘‘۔

امام بغوی نے معالم النتزیل /۴ ۲۷۵ پر لم یطمثھن کا معنی لکھا ہے کہ : لم یجامعھن کہ ان سے جنوں اور انسانوں نے کبھی بھی جماع نہیں کیا ۔
امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر انوار التنزیل و اسرار التاویل ۲ / ۴۵۶ پر لکھا ہے کہ :
اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ جن بھی جامع کرتے ہیں ۔
پس معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنوں نے بھی نکاح و جماع کا سلسلہ موجود ہے اور شیطان کی اولاد و ذریت کا تذکرہ بھی ا للہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
’’ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کیلئے سجدہ کر و تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا وہ جنات میں سے تھا اس نے اپنے رب کے حکم کی نا فرمانی کی ۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے اور ظالموں کیلئے برا ہے بدلہ‘‘۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلا میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے :
اس حدیث میں خبث ، خبیث کی جمع ہے اور خبائث خبیثۃ کی جمعت ہے۔

امام محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں کہ:
کہ پہلے ( خبث ) سے مراد مرد شیاطین اور دوسرے (خبائث) سے مراد شیاطین کی عورتیں ہیں ۔
اس حدیث اور مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت کا سلسلہ جنات میں بھی موجود ہے اور وہ ایک دوسرے سے مباشرت و مناکحت بھی رکتے ہیں جن سے ان کا سلسلہ توالد قائم ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عہد نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں کونسا فرقہ تھا ؟

س: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کونسا مسلک تھا اور لوگ کس مسلک کے پابند تھے؟ اس کی وضاحت کریں ۔

ج: دورِ حاضر میں امت مسلمہ میں جو کھینچا تانی اور تفرقہ بازی، ضد و ہٹ دھرمی اور شخصی نسبتیں اور تصوف کے مختلف سلسلے جسے قادری، سہرورد، نقشبندی، سیفی، مجدی و غیرہ دھڑے بندیاں اور فقہی مسالک جیسے حنفی، شافعی، مالکی ، حنبلی ، ظاہری و غیرہ موجود ہیں ۔ یہ سلسلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک اور عہدِ مسعود میں نہیں تھے۔ ان کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آج امت میں دو طرح کی گروپ بندیاں ہیں۔ ایک وہ فرقے جن میں الحاد گھسا ہوا ہے۔ یہ زیادہ تر منکرین حدیث ہیں اور قرآنی آیات کی بھی اپنی من پسند تاویل کرتے ہیں ۔ دوسسرے وہ جو اپنے اپنے امام کی تقلید پر قائم ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کی رہنمائی کیلئے مبعوث کیے گئے تھے اور لوگوں کو صرف کتاب و سنت کی تعلیم دیتے تھے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔" (الجمعۃ : ۲)

اس طرح کی کئی ایک آیات قرآن مجید میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کیلئے راہبر اور امام اعظم بنا کر بھیجے گے تاکہ انسانیت کو ضلالت و گمراہی اور کفر و شرکت سے نکال کر نورانیت اور رشد و ہدایت کی طرف لائیں۔ بد عات اور رسوم و رواج سے ان کا تزکیہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے نصاب تعلیم کتاب و سنت رکھا۔ حکمت سے مراد تقریباً تمام مفسرین نے سنت نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ( ہے۔ صحابہ کرام رضٰ اللہ عنہم کا طریقہ کار اور منہج دو چیزیں ہی تھیں۔ وہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو مدرسہ عمل سمجھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ترک کرنا گمراہی و ضلالات سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کا مقلد نہیں تھا ۔ بلکہ وہ براہ راست کتاب و سنت پر عمل پیرا تھے اور تقلید سے منع کیا کرتے تھے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
عالم اگر راہِ راست پر بھی ہو تو اس کی اپنی دین میں (ذاتی آراء کی ) تقلید نہ کرو ۔ ملاحظہ ہو ( جامع البیان العلم ۲/ ۱۱۱(

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں !
اور نہ ہی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہوں، میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوں۔ (حلیۃ الاولیاء۱۱/۳۲۹)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقلد نہ تھے بلکہ وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور محدثین تقیلد سے منع کیا کرتے تھے اور کتاب و سنت کی پیروی کا حکم دیا کرتے تھے۔ تفصیل کے لئے ملا حظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ۲۰ /۱۰‘ ۲۱۱ وغیرہ ۔

شا ہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی خاص مذہب کے مقلد نہ تھے۔ فرماتے ہیں:
واضح رہے کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے کسی خاص مذہب کی تقلید پر لوگوں کا اجماع نہیں تھا۔

معلوم ہوا کہ فرقہ بندیاں، شخصی نسبتیں اور مختلف مکاتب فکر جس طرح آج امت مسلمہ میں پائے جاتے ہیں ، عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحابہ میں اس کا وجود نہیں تھا ۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئیے کہ وہ اپنے تمام مسائل میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرے اور کسی بھی فرقے کا پابند نہ ہو ۔ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کو ہی اپنے لئے کامیابی کی راہ تصور کرے۔
ہا ں ! البتہ کوئی گروہ اگر اسی بیان کرد ہ مسلک یعنی صرف کتاب و سنت پر چل رہا ہے اور امتیاز کیلئے کوئی بھی اچھا نام اس کا مشہور ہو گیا ہے، چاہے و اہلسنت کہلاتے ہوں، اہلحدیث، سلفی یا انصار السنۃ تو ایسے لوگوں کو نہ فرقہ کہا جائے گا اور نہ ان کے ساتھ وابستگی غلط ہو گی کیونکہ فرقہ وہ ہوتا ہے جو اپنے اصل سے ہٹ جائے اور جو اصل پر قائم ہو، وہ فرقہ نہیں ہوتا اور اگر کسی فرقہ کی نسبت ہی غلط ہو ، وہ کسی شخصیت اور امام کی طرف منسوب ہو جیسے حنفی، شافعی ، مالکی ، قادری ، چشتی وغیرہ تو یہ شخصی نسبتیں اسلام میں جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی گروہ علاقے کی طرف منسوب ہو تو علاقائی نسبت اختار کرنا بھی اسلام میں جاز نہیں جیسے بریلوی ، دیوبندی وغیرہ۔ امتیازی نسبت بھی صرف وہی ہونی چاہئے جو اسلام کے صحیح مسلک کو ظاہر کرتی ہو ۔ اول تو بات یہ ہے کہ ہماری بڑی نسبت مسلمان کہلانا ہے اور یہ امتیازی نسبتیں اختار کرنے کی مجبوری ہوتی ہے جہاں اسلام کا نام لینے والے بہت سے فرقے موجود ہوں یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ سب فرقے صرف مسلمان کہلائیں اور ان کی کوئی اضافی نسبت نہ ہو۔ اگر کوئی گروہ اپنی اضافی نصبت نہیں اختیار کرے گا تو لوگ خود ہی پہچان کے لئے الگ الگ عقائد و نظریات کے لوگوں کو کوئی نہ کوئی نام دے لیں گے اور عملاً بھی یہی صورت حال ہے کہ جو لوگ صرف مسلمان کہلانے کے عادی تھے ، لوگوں کی پہنچان کیلئے ان کے نام رکھ دئیے ۔ کوئی پرویزی کہلاتا اور کوئی مسعودی۔ اسلام کا نام لینے والی دنیا میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں جس کا مخصوص امتیازی نام نہ ہو۔ اس لئے ہمارا حق یہ ہے کہ صرف کتاب و سنت پر چلیں اور ایسے گروہ کے ساتھ چلیں جو اسی مسلک کا حامل ہو ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ترجمہ پڑھنے کا اجر

س: کیا ترجمہ پڑھنے کا ثواب ملتا ہے یا صرف ثواب تلاوت کا ہی ملتا ہے؟

ج : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کا حکم دیا ہے؟
’’ پس ! کیا وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن میں یاد لوں پر اُن کے قفل لگ رہے ہیں ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ دے دیتا ہے‘‘۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ جسے چاہئے دین کی باتوں میں عقل اور سمجھ دے دیتا ہے اور جسے سمجھ عنایت ہوئی ، اسے بڑی نعمت مل گئی اور نصیحت قبول کرنا صرف عقلمند کا کام ہے‘‘۔

حدیث میں ہے:
’’ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودہویں کے چاند کی فضیلت ستاروں پر ۔‘‘

ان کے دلائل سے معلوم ہوا کہ دین میں سمجھ بوجھ اور بصیرت حاصل کرنے کی فضیلت ملتی ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت کی علاوہ ترجمہ پڑھنے اور دین میں بصیرت حاصل کرنے کا ثواب نہ ہوتا تو یہ فضیلت علماء کو بھی حاصل نہ ہوتی۔ البتہ صرف ترجمہ پڑھنے کو قرآن کی تلاوت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ترجمہ پڑھنے کا ثواب اپنی جگہ اور تلاوت کا ثواب اپنی جگہ ہے۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ دین میں سمجھ بوجھ اور بصیرت حاصل کرنے کی فضیلت ملتی ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت کے علاوہ ترجمہ پڑھنے اور دین میں بصیرت حاصل کرنے کا ثواب نہ ہو تا تو یہ فضیلت علماء کو بھی حاصل نہ ہوتی۔ البتہ صرف ترجمہ پڑھنے کو قرآن کی تلاوت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ترجمہ پڑھنے کا ثواب اپنی جگہ اور تلاوت کا ثواب اپنی جگہ ہے۔ (از: ر۔ر‘ مجلّۃ الدعوۃ، مئی / ۱۹۹۶؁)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قرآن میں لفظ شیعہ؟

س: شیعہ اپنے مذہب کی صداقت کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا (وان من شیعتہ لا براھیم) کہ نوح علیہ السلام کے شیعوں میں سے ابراہیم علیہ السلام بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ اس آیات سے معلوم ہوا، ابراہیم علیہ السلام بھی شیعہ تھے۔
قرآن و سنت کی رُ و سے واضح کریں کہ مندرجہ ابلا آیات کا کیا مطلب ہے؟ کیا لفظ شیعہ قرآن میں کسی خاص فرقے کیلئے استعمال کیا گیا ہے؟( ناصر‘ پھالیہ
(

ج: لفظ شیعہ کا معنی گروہ او رفرقہ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ شیعہ کسی خاص مذہب کیلئے مستعمل نہیں ہوا ۔ شیعہ حضرات اپنے مذہب کی حقانیت کے لئے مندرجہ بالا آیات کو پیش کرنا قطعاً درست نہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کیلئے یہ جو لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کا معنی گروہ ہے نہ کہ موجودہ شعیہ ۔ آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سید نا نوح علیہ السلام کے گروہ سے تھے۔ یعنی جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے نبی تھے‘ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام بھی نبی تھے۔
قرآن مجید میں جہاں پر ابراہیم علیہ السلام کے دین کا ذکر کیا ہے، وہاں یوں ارشاد فرمایا ہے:
’’ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی لیکن وہ تو یک سو مسلم تھے ‘‘ (آل عمران ۶۷)

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا دین بیان کرتے ہوئے ( حنیفاً مسلما )کہا ہے ۔ اگر وہ مذہباً شیعہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرماتے:ما کان ابراھیم بھو دبا ولا نصر اینا ولکن کان شیعۃ۔ لیکن قرآن میں اس طرح مذکور نہیں۔
قرآن مجید میں اکثر و بیشتر مواقع پر لفظ شیعہ، شریروں ، فسادیوں اور فتنہ بازوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’ التبہ ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول اگلے شیعوں میں بھیجے اور ان کے پاس کوئی بھی رسول نہیں آیا مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے‘‘(الحجر ۱۱)

اگر لفظ شیعہ سے مراد شیعہ فرقہ ہے تو پھر اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والے شیعہ تھے ۔ اِ س آیت کی تفسیر میں شیعہ مفسر عمار علی نے اپنی تفسیر عمدۃ البیان ۲/ ۱۷۴ پر لکھا ہے:
’’ یہاں شیعہ سے مراد وہ کافر ہیں جو رسولوں کے ساتھ ٹھٹھہ وہ مذاق کرتے تھے‘‘۔
کہہ دیجئے اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں اُوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا تم کو شیعہ بنا کر آپس میں لڑا دے ۔‘‘

اگر لفظ (شیعہ) سے شیعہ فرقہ مراد ہے تو ان کے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔
اِ س آیت کے متعلق شیعہ مفسر عمار علی نے عمدۃ البیان /۱ ۳۵۳پر لکھا ہے’’ اس آیت میں لفظ ( شیعہ) شریروں، فسادیوں اور فتنہ بازوں پر بولا گیا ہے ‘‘۔
’’ بے شک فرعون نے زمین میں سر کشی کی اور وہاں کے رہنے والوں کو شیعہ بنا دیا ‘‘۔(القصص ۴)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو شیعہ بنانے والا فرعون تھا۔

’’ اور نماز قائم کرو اور شرکوں سے نہ بنو جنہو ں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور تھے وہ شیعہ ۔‘‘ (الروم ۳۱)
اِ س آیت کی تفسیر میں شیعہ مفسر نے عمداۃ البیان /۳ ۱۳ میں لکھا ہے:
’’ اس آیت میں شیعہ ۔۔۔۔ مشرکوں، بت پرستوں، دشمنان دین اور یہود و نصاریٰ کو کہا گیا ہے ‘‘۔
’’ بے شک وہ لوگ جنہوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور شیعہ ہو گئے ، ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ‘‘۔(الانعام ۱۶۰)
اس آیات نے صراحت کرد ی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شعیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ جس فرقہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تعلق نہ ہو، اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
مندرجہ بالا آیات میں لفظ شیعہ گروہ بندی کے معنی میں ہے۔ اگر لفظ شیعہ سے خاص فرقہ مرا دلیں تو خود سمجھ لیں کہ مذکورہ بالا پانچ آیات میں شیعہ کسے کہا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں وضو کا ٹوٹنا

س: نماز کے دوران اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اُس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟ اس طرح اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ کیا کرے ؟ نماز چھوڑ کر وضو کرنا پڑے گا یا کہ وہ نماز پورا کرے گا ؟

ج: نماز کیلئے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جب وضو ٹوٹ جائے تو نمازی کو نماز چھوڑ کر چلے جانا چاہئے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہئے ۔ اگر امام ہے تو پیچھے سے کسی کو آگے کھڑا کر کے چلا جائے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز ابتداء سے شروع کرے نہ کہ جہاں سے چھوڑی تھی ۔ سیدنا علی بن طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
'' جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں اپنی ہوا خارج کرے تو وہ واپس جا کر وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔'' یہ حدیث حسن ہے۔ ترمذی ( ۱۱۲۴،۱۱۶۶ ابوداؤد (۲۰۵) عبدالرزاق۱۳۹/۱ ، ابن حبان (۲۰۴،۲۰۳) دار قطی۱۵۳/۱ ۔
علماء احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ چلا جائے اور وضو کر کے آئے اور اگر اس نے نماز کے منافی کوئی حرکت نہیں کی تو جہاں سے نماز چھوڑٰ تھی ، وہیں سے اتبداء کرے۔ نئے سرے سے نماز ادا نہ کرے اور اس کی دلیل میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :
'' سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے قے یا نکیر یا پیٹ کا کھانا یا مذی آجائے ، وہ پھر جائے ، وضو کرےا ور اپنی نماز پر بنا کرے بشرطیکہ اس نے دوران کلام نہ کیا ہو ۔''
(ابن ماجہ، دارقطنی۱/۱۵۵،۱۵۳)
یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافط ابن حضرت عسقلانی ؒ نے بلوع المرام میں فرمایا ہے ضعفہ، احمد وغیرہ اس حدیث کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
لہٰذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نئے سرے سے وضو کر کے ابتداء سے نماز پڑھی جائے کیونکہ وضو نماز کیلئے شرط ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
غسل جمعہ کے بعد وضو کرنا ؟

س: کیا غسل جمعہ کرنے کے بعد وضو کرنا ضروری ہے ؟

ج: اگر وضو کر کے غسل کیا ہے تو پھر دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ شرمگاہ کو ہاتھ نہ لگے کیونکہ شرم گاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جائے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
'' بے وضو نما زقبول نہیں ہو گی یہاں تک کہ وضو کرے۔'' (متفق علیہ مشکوٰۃ )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' جب تم میں سے کوئی اپنی شرم گاہ کو چھوئے تو وضو کرے یا کسی اور وجہ سے وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرے گا ''۔(مشکوٰۃ ص ۴۱)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا

س: وضو کرنے کے بعد اگر شلوار ٹخنوں سے نیچے چلی جائے تو کیا اس ے وضو ٹوٹ چاتا ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔

ج: چادر یا چلور کا ٹخنے سے نیچے لٹکانا شدید گناہ ہے او رحدیث میں وارد ہے کہ :
یعنی کپڑے کا وہ حصہ جو ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہے وہ آگ میں ہے ۔''
ایک حدیث میں آتا ہ:
'' جو شخص اپنا کپڑا غرور و تکبر سے لٹکائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کرے گا ''۔ (ابو داؤد ۲۸۶،کتاب اللباس)

اسی طرح حدیث میں آتا ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر کے ڈھلکنے کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' تو ان لوگوں میں سے نہیں جو اس فعل کو تکبر سے کرتے ہیں ۔''(نسائی،۲۳۵۴)

اور یہ بھی یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کے ٹخنوں سے نیچے جان کو فرمایا (فانھا من المخیلۃ) (نسائی) یہ تکبر سے ہے۔ مذکورہ بالا روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مرد کیلئے کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانا شدید ترین جرم ہے اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش متشنیٰ قرار دیا۔ لیکن کسی بھی فقیہ محدث کتب حدیث کے تراجم و ابواب میں اس کو نوقض وضو میں شمار نہیں کیا اور اس ضمن میں جو روایت سنن ابوداؤد میں آتی ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا (اذھا فتو ضا) جا اور وضو کر ۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے اِ س کی سند میں ابو جعفر غیر معروف راوی ہے۔ امام منذری نے مختصر سنن ا بی داؤد ۱١/۳۲۴٤ اور علامہ شو کافی نے نیل الا و طار ۳٣/ ۱۱۸ میں لکھا ہے کہ ۔
اس حدیث کی سند میں اہل مدینہ سے ایک راوی ہے جس کا نام معروف نہیں اور مشکوٰۃ المصابیح پر تعلیق لکھتے ہوئے علامہ البانی حفظہ اللہ نے لکھا ہے کہ :
یعنی اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس میں راوی ابع جعفر ہے۔ اس سے بیان کرنے والا یحییٰ ابن ابی کثیر ہے اور وہ انصاری مدنی مؤذن ہے جو کہ مجہول ہے جس طرح ابن القطان نے کہا ہے اور تقریب میں ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ اس کی حدیث کمزور ہے ۔ علامہ البانی حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ جس نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اسے وہم ہوا ہے۔(مشکٰوۃ ۱/۲۳۸)
لہٰذا جب یہ روایت کمزور ہے اور کسی محدث نے اسے نواقض وضو میں شمار نہیں کیا تو جس آدمی کا کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے اس کا وضو نہیں ٹوٹا البتہ یہ جرم ضرور ہو گا جس کی وعید احادیث میں مرقوط ہے۔
 
Top