Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
لولاک لما خلقت الافلاک کی تحقیق
سوال : لولاک لما خلقت الافلاک (ترجمہ): اے محمد اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہانوں کو ہی پیدا نہ کرتا۔ یہ روایت عام طور پر کئی علماء حضرات بیان کرتے ہیں ۔ اس کی تحقیق درکار ہے۔
ج: یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ امام صنعانی نے اپنی کتاب الاحادیث الموضوعۃ ص۵۲ رقم ۷۸ میں اور علامہ عجلونی نے کشف الخفائ۲/۱۶۴ میں اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ ۳۲۶ میں ذکر کیا ہے۔
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے لولاک لما خلقت الافلاک ۔
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟
سوال : لولاک لما خلقت الافلاک (ترجمہ): اے محمد اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو جہانوں کو ہی پیدا نہ کرتا۔ یہ روایت عام طور پر کئی علماء حضرات بیان کرتے ہیں ۔ اس کی تحقیق درکار ہے۔
ج: یہ روایت موضوع ہے جیسا کہ امام صنعانی نے اپنی کتاب الاحادیث الموضوعۃ ص۵۲ رقم ۷۸ میں اور علامہ عجلونی نے کشف الخفائ۲/۱۶۴ میں اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ ۳۲۶ میں ذکر کیا ہے۔
ملا علی قاری کا یہ کہنا کہ حدیث کا معنی صحیح ہے اور اس کی تائید کے لئے دیلمی کی روایت اور ابنِ عساکر کی روایت لولاک ما خلقت الدنیا پیش کرنا حقیقت کے خلاف ہے۔
کیونکہ یہ روایات تب تائید میں پیش کی جا سکتی تھیں جب یہ پایہ ثبوت کو پہنچتیں جبکہ بلا شک و شبہ یہ روایات بھی ثابت نہیں۔ ابن عساکر والی روایت کو سیو طی اور ابن الجوزی نے موضوع قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیلمی والی روایت کو بھی علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں تو اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی پیدائش کی حکمت بیان کی کہ :
"جن و انس کی پیدائش کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ میری عبادت کریں"(الذاریات : ۵۶)
گویا اس مقصد کے علاوہ اللہ نے جن و انس کی پیدائش کوئی اور مقصد نہیں بتایا کہیں یہ ثابت نہیں کہ اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے پیدا کیا یا اس کے لئے پیدا کیا۔
پھر لطف کی بات ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس حدیث کو چرا کر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۹۹ پر لکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ ان الفاظ کے ساتھ مخاطب ہوا ہے لولاک لما خلقت الافلاک ۔
سوچئے! رب کائنات کی تخلیق کی وہ حکمت تسلیم کی جائے گی جو قرآن میں ہے یا وہ جو اس موضوع من گھڑ ت اور جھوٹی روایت میں ہے؟