• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بغیر وضو قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے؟

س: وضو کے بغیر قرآنِ مجید کی تلاوت کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ جبکہ ایک حدیث میں آتا ہے ( لا یمس القرآن الا طاھرا )قرآن کو طاہر کے سوا کوئی نہ چھوئے '' قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں ؟

ج: بے وضو قرآنِ مجید کی تلاوت کر سکتا ہے کیونکہ کوئی ایسی صریح اور صحیح حدیث یموجود نہیں ہے جس میں بے وضو آدمی کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور قرآن مجید کی تلاوت کا حکم خود قرآن مجید میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں :
'' کہ جو قرآنِ مجید سے میسر ہو ، پڑھو ۔''

اس میں یہ نہیں کہ وضو کے بغیر نہ پڑھو۔ جو حدیث آپ نے پیش کی ہے یہ حدیث بمجمعو طرقہٖ صحیح ہے کہ طاہر کے سوا قرآن مجید کو کوئی نہ چھوئے ۔ اس کی تفسیر بکاری شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جمعات میں آجئے جن میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم بھی تھے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مجلس سے نکل گئے ۔ جب مجلس میں واپس آئے تو سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سبحان اللہ ان المؤ من لا ینجس) کہ مومن نجس نہیں ہوتا یعنی طاہر ہی رہتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ( الا طاہھرا) سے مراد الا مومن ہے یعنی کافر قرآن مجید کو نہ چھوئے، مومن چھو سکتا ہے خواہ وہ با وضو ہو یا بے وضو۔

صحیح بکاری شریف میں ہی ایک حدیث ہے جسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ ا س حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر :
(صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی ۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی اور وضوبعد میں کیا۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے:
بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔
یہ بات تو مسلم ہے کہ نبی کریم بے وضو بھی ہوتے تھے اور مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ :
'' کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے''۔
اور اللہ کے ذکر میں قرآن مجید بھی داخل ہے۔ ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کیلئے با وضو ہونا لازمی نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ آدمی اپنی عادت ہی بنا لے کہ میں نے تلاوت ہی بے وضو ہونے کی حالت میں کرنی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ با وضو ہر کر کے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا

س: کیا حائضہ عورت قرآن مجید کی تلاوت کر سکتی ہے؟ ہم ایک مدرسہ میں قرآن مجید حفظ کرتی ہیں ۔ بعض اہل علم کے بارہ میں ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ جائز کہتے ہیں اور بعض اس سے روکتے ہیں ۔ ہمیں صرف قرآن و سنت سے اس مسئلہ کی وضاحت درکار ہے ۔ (بعض طلبات ، فیصل آباد۔م۔ن، بہاولپور )

ج: اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل علم کی اس میں آراء مختلف ہیں ۔ امام بخاری، ابن جریر طبری، ابن المنذر ، امام مالک ، امام شافعی، ابراہیم نخصی رحمتہ اللہ علیہ ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ راحج بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن و سنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورتوں کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں ۔ اگر قرآن مجید کی تلاوت ان کیلئے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انہیں قرآن مجید کی تلاوت سے روک دیتے جسے طرح کہ نماز پڑھنے اور ورزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود کسی صحابی رسول نے یا اُمہات المؤ منین رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تو معلوم ہوا کہ جائز ہے۔ اب اس چیز کا علم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اس کو حرام کہنا درست نہیں ۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس بار ے میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ :
( ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ )
یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے۔ جب یہ شخص حجازیوں سے کوئی روایت بیان کرے تو وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی اور یہ روایت حجازیوں سے ہے اور دوسری جابر بن عبداللہ کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یہ حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔ اس کی سند میں محمد بن افضل ہے۔ جسے محدثین نے متروک الحدیث قرار دیا ہے ۔ یہ احادیث گھڑنے کا بھی اس پر الزام ہے ۔

یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ اس کی سند میں یحییٰ ابن عبی انیسہ ہے او ریہ کذاب ہے۔
امام شو کافی رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں احادیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
ان دونوں کے حدیثوں کو حائضہ عورت کیلئے قرآن مجید کی تلاوت کی ممانعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بغیر دلیل کے اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔
باقی مفتی اعظم شیخ ابنِ باز نے کہا ہے کہ ایسی عورت قرآن کو چھو نہیں سکتی۔ منہ زبانی پڑھ سکتی ہے لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
کہ قرآں کو طہار کے سواء کوئی نہ چھوئے، سے اسے پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ الاطاہر کا معنی بخاری شریف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث متعین کرتی ہے۔ کہ اس کا معنی ہے مومن کے سوا ء قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حائضہ عورت کا قرآن کو چھونا

س: حائضہ عورت قرآن مجید کو چھو سکتی ہے یا نہیں؟ قرآن مجید کی آیت ( لا یمسہ الا المطھرون ) کے حوالہ سے وضاحت کریں۔ اس آیت کی بناء پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ حائضہ عورت قرآن کو چھو نہیں ستکی ۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ ( ہدایت اللہ شاہین )

ج: حائضہ عورت کے قرآن مجید کی تلاوت کے بارے میں اکتوبر ٩٥ء کے مجلّۃ الدعوۃ میں تفصیلاً لکھا گیا ہے کہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس میں حائضہ عورت کو قرآن مجید پڑھنے سے روکا گیا ہو ۔
رہا قرآن مجید کو چھونے کا مسئلہ تو اس کے متعلق اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔ عدل و انصاف کے ترازو جس بات کو ترجیح ملتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو ایسی حالت میں بال وجہ قرآن مجید کو نہ چھونا چاہئے لیکن پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلہ میں اگر چھو بھی لیتی ہے توا س میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اس کی حرمت پر دال ہو۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں حائضہ ہوتی تھیں۔ وہ قرآن مجید پڑھتی پڑھاتی بھی تھی لیکن کہیں بھی ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ وہ ایسی حالت میں قرآن مجید کو چھو نہیں سکتیں۔ اس وقت اس مسئلہ کے بیان کی ضرورت بھی تھی لیکن ضرورت کے باوجود شارع علیہ السلام کی اس پر خاموشی اس کے جواز کے دلیل ہے۔ قرآن مجید کی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں وہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ یہ آیت قرآن مجید کے چھونے کے بارے میں نہیں ہے۔
اس آیت کے سیاق و سباق کا غور سے مطالعہ کریں تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ قرآن مجید کے متعلق نہیں بلکہ لوحِ محفوظ کے متعلق کہی گئی ہے۔ ( لایمسہ،) کی ضمیر کا مرجع ( فی کتاب مکنون ) ہے۔ اور ( لا یمسہ) سے مراد فرشتے ہیں ۔
تو اس آیت کا معنی ہے کہ لوح محفو خ کو فرشتوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا۔''
(المطھرون)سے مراد فرشتے ہیں ۔ اس بات پر عبداللہ بن عباس، انس بن مالک کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی جماعت متفق ہے۔

احناف کی تفسیر روح المعانی میں ہے:
ابن کثیر میں بھی اس معنی کی عبارت موجود ہے کہ مطہرین سے مراد فرشتے ہیں ۔ یہ عبداللہ بن عباس سے کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے اور انس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک جماعت نے اس کو روایت کیا ہے۔ تفسیر رازی میں ہے ۔ الضمیر عائد الی الکتاب علی الصحیح کہ لا یمسہ، کی کتاب ( لوح محفوظ ) کی طرف راجع ہے۔
اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض نے اس ضمیر کو قرآن مجید کیلئے مانا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ بے وضو ہونے کی حالت میں اسے چھونا جائز نہیں ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور قرآن مجید کو بے وضو چھونا جائز ہے گو بہتر یہ ہے کہ وضو کر لیا جائے۔
قرآن مجید کو چھونے کے متعلق جو صحیح حدیث کے الفاظ ہیں ( لا یمسہ، الا طاہر) '' طاہر کے سواء قرآن کو کوئی نہ چھوئے۔'' ا س طاہر کی تفسیر صحیح بخاری شریف کی حدیث میں موجود ہے۔ جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ جبنی تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دور سے گزر گئے، غسل کے بعد واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا ( المومن لا ینجس ) کہ مومن نجس ہوتا ہی نہیں ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ( الا طاہر ) سے مراد الا مومن ہے ۔ یعنی قرآن مجید کو مومن کے سوا دوسرا نہ چھوئے۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ حیض کی حالت میں عورت مومنہ ہی رہتی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے مسجد سے مصلیٰ پکڑاؤ ۔ انہوں نے کہا کہ میں حائضہ ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :
'' بے شک تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ اس مسئلہ کی نص کی حیثیت رکھتے ہیں کہ حیض کی نجاست ہاتھ کے اندر نہیں ہے۔ بلکہ حیض کی حالت میں ہاتھ پاک ہی رہتا ہے ۔
اس ساری وضاحت کے باوجود اگر مسلمان عورت زیادہ تعظیم اور احترام کے پیش نظر قرآن مجید کو بغیر چھونے کے اگر پڑھ سکتی ہے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآن مجید کو پکڑنے اور اوراق اُلٹانے کیلئے استعمال کر لے تو بہت بہتر اور اچھا ہے ۔ اس سے علماء کے اختلاف سے بھی نکل جائے گی ۔ ایسی صورت میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ جائز بلا خلاف ( شرح المہذب ٢۲/٣۳۷۲٧٢) کہ اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حالتِ حیض میں حج اور طواف

س: عورت حیض کی حالت میں طواف یا حج اور عمرہ کر سکتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں ۔

ج: حائضہ عورت حج اور عمرہ کا احرام باندھ لے اور حج کے سارے کام کرتی جائے صرف بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور نہ ہی نمازیں ادا کرے پھر جب حیض سے پاک ہو جائے تو خانہ کعبہ کا طواف کر لے کیونکہ طواف کیلئے طہارت شرط ہے۔ اگر طہارت نہ ہو تو طواف نہیں ہوتا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
'' ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ ہمارا مقصود صرف حج تھا پھر جب ہم سرف مقام پر پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو میں رو رہی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تجھے حیض آنا شروع ہو گیا ، میں نے کہا ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کیلئے مقرر کرد یا ہے۔ جو کچھ حاجی کرتے ہیں تو بھی کرتی جا۔ سوائے اس کہ کہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ''۔(متفق علیہ ۔ مشکوٰۃ ۲/ ۵۸۱)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حالتِ حیض میں عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ باقی حاجیوں والے تمام کام کر سکتی ہے اور جب حیض سے پاک ہو جائے تو پھر بیت اللہ کا طواف کر ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ڈاڑھی کا مسئلہ اور مصری علماء

س: ڈاڑھی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ مصری علماء کا ایک فتویٰ ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ڈاڑھی اپنی پسند کے مطابق رکھ سکتا ہے۔

ج: بعض مصری علماء کا زیر فطوی قطعاً کتاب وسنت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ فتویٰ ان مصری علماء کے گروپ کا ہے جو احادیث کو عموماً دین کا حصہ اور حجت نہیں سمجھے۔ اس مصری علماء کو جن حضرات نے دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں اسلام اور اسلامی شعائر کا کس قدر احترام پایاجاتاہے؟ ان کی فکر و سوچ ہی نہیں ان کے طور و اطوار، بود و باش اور حرکت و عمل کا ہر زویہ اسلامی تشخص کی بجائے خالصتاً یورپی ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔یہ لوگ کلین شیو، جیسے صلیبی شعائر سے آراستہ ہوتے ہیں اور یورپے کے نقال بن کر اسلام کے بارے میں راہنمائی دیتے ہوئے ( من تشبہ بقوم فھو منھم) ( ابو داؤد) کا مصداق ہو جاتے ہیں ۔ زیر نظر فتویٰ ان کے اسی فکر و عمل کا غماز ہے۔ جیسا کہ سائل نے جب ان سے پوچھا کہ وہ لوگ جو ڈاڑھی مسلسل منڈواتے یا کٹواتے ہیں یا اس کی لمبائی کی تحدید کے قائل ہیں کیا وہ گنہگار ہیں اور کیا وہ زنا اور چوری سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟
جمہوریہ مصری کا مفتی اس کو جواب بھیجتا ہے اس کے چند اقتبا سات ملاحظہ فرمائیں۔

٭ ڈاڑھی کا چھوڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی کی کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے تاکہ ڈاڑھی خوبصورت ہو جائے اور چہرے کے مناسب ہو جائے۔
بعض فقہاء نے ان احادیث کو وجوب پر محمول کیا ہے جب اکثرعلماء نے ان کو سنت کہا ہے جس پر عمل کرنے سے تو ثواب ہوتا ہے لیکن چھوڑنے والے کو عذاب نہیں ہوتا اور جن لوگوں نے ڈاڑھی مونڈھنے کو حرام قرار دیا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔ اب آخر میں فرماتے ہیں ۔

٭ بلکہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسا شیو اپنائے جس کو اپنی شکل و شباہت کے لئے بہترسمجھے اور لوگ بھی اسے پسند کریں۔
مندرجہ بال اقتبا سات سے مفتی مصر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی طور پر محبت اور علمی پوزیشن کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے حالانکہ شریعت سے معمولی واقفیت رکھنے والے عام آدبھی بھی جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت تک مکمل ( پوری ) ڈاڑھی رکھی اور پوری زندگی اپنی ڈاڑھی کا ایک بھی بال کبھی نہیں کاٹا جبکہ مفتی مصر صاحب کہہ رہیں کہ دائیں ، بائیں سے اور اوپر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ڈاڑھی کاٹتے تھے۔ نعوذباللہ ۔

مفتی مصر نے اپنی ا س بودی دلیل کی بنیاد ترمذی شریف میں آنے والی صرف ایک روایت ( یا خذ من طولھا و عرضھا ) پر رکھی ہے ۔ یہ انتہائی کمزور اور ضعیف ہے لیکن اس کا ضعف معلوم ہونے کے باوجود اس سے استدلال کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی خوبصورت بنانی چاہئے اور چہرے کے مناسب ہونی چہائے۔ اگر سنت رسول کو اختیار کرنے کا معیار یہ قائم کیا جائے گا تو پھر لوگ ڈاڑھی اُسترے سے منڈوا کر دلیل پیش کریں گے اور کرتے ہیں کہ اب خوبصورت اور مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ تو کیا شریعت کی رو سے ایسا درست تسلیم کر لیا جائےگا؟ ہر گز نہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاڑھی بڑھانا عین فطرت ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ۔:
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت سے ہیں ۔ ان میں سے مونچھ کا کاٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے ''۔(مسلم)

بخاری میں صیغہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(کانفو المشرکین اخفیو الشوارب و اعفو اللحی ) (بخاری )
جہاں تک خوبصورتی کا تعلق ہے ، اگر ڈاڑھی کے کاٹنے او رنہ ہونے یا کٹوا کر چھوٹے کرنے کو مفتی صاحب نے خوبصورت گر دانا ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ڈاڑھی ہی مرد کی خوبصورتی اور حسن و جمال اور وجہات کی نشانی ہے ۔ شاید ان کی نظر سے مسلم شریف کی یہ روایت نہیں گزری کہ :
'' یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک بہت گھنی تھی ''۔

ڈاڑھی کے کاٹنے سے خوبصورت نہیں بلکہ عورتوں سے مشابہت پیدا ہوتی ہے جو کہ اسلام میں نا جائز ہے۔ ایسی صورت کے رد میں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
'' یعنی اللہ تعالیٰ مردوں پر لعنت کرتا ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کرتا ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں ''۔

دوسرے اقتباس میں ڈاڑھی کے مسئلہ کو ختم کرنے کیلئے پہلے تو ڈاڑھی کو سنت کا درجہ دے رہے ہیں کہ فرض اور واجب نہیں ۔ پھریہ کہہ کر جن لوگوں نے داڑھی مونڈنے کو حرام قرارد یا ہے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ( جو کہ بالکل غلط ہے ) اب یہ کہہ کر ڈاڑھی کاٹنے والوں کیلئے راستہ بالکل صاف کر دیا ہے کہ جس طرح چاہیں ڈاڑھی کاٹیں۔ لیکن اگر ڈاڑھی کے وجوب اور فرض ہونے پر مروی احادیث پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ڈاڑھی کے متعلق کتب احادیث میں موجود احادیث میں پانچ صیغے استعمال ہوئے ہیں اور پانچوں ہی امر کے ہیں۔ مثلاً:
(واعفو ) ( داڑھی کو معاف کرو ) ( اوفوا ) ( داڑھی پوری کرو ) (وفروا ) (ڈاڑھی کافی مقدار میں رکھو ) (ارخو) اوارجو(ڈاڑھی کو لٹکاؤ)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث میں وارد ہونے والے یہ سب کے سب صیغے امر کے ہیں جو کہ ڈاڑھی کے وجوب اور فرض ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔

تیسری جگہ یہ کہہ کر بالکل حدیث انکاری ہی کر دیا کہ '' مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسا شیو اپنائے جس کو اپنی شکل و شباہت کیلئے بہتر سمجھے اور لوگ بھی اسے پسند کریں ''۔
اسلام کے اصولوں پر عمل کا معیار دنیا والوں کی پسندیدگی یا نا پسندیدیگی میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور پسندیدگی میں ہے۔ اس طرح تو وہ تمام لوگ جو اپنی ڈاڑھی اُسترے اور بلیڈ سے منڈواتے ہیں اور اسی کو ہی اپنی شکل و شباہت کیلئے بہتر سمجھتے ہیں اور دین سے نا واقف اور بے بہرہ لوگ بھی ان کو اسی حالت میں پسند کرتے ہیں ۔ اس طرح تو ( ماننا پڑے گا ) کہ وہ تمام لوگ شریعت کی روشنی میں سب افعال سر انجام دے رہے ہیں جو کہ سر اسر شریعت سے مذاق ہے۔

رہا مسئلہ زانی اور چور سے کس طرح بڑھ کر گناہ گار ہے تو یہ ایک سمجھنے کی بات ہے اور ایک بڑے نگاہ پر تسلسل قائم رہنے کا نتیجہ ہے۔ مثلاً چور تو کبھی کبھار یا ایک آدھ بار چور ی کرتا ہے، زانی سے بھی کبھی کبھار گناہ سرزد ہوتا ہے اور پھر وہ پشیمان بھی ہوتا ہے لیکن ڈاڑھی اور سنت رسول کو روزانہ تیز دھار اُسترے سے کاٹ کر گندگی میں پھینک دیتا ہے۔ اس طرح وہ روزانہ تسلسل سے ایک فرض کو قتل کر کے گناہ گار ہوتا ہے اور وہ ایسا کر کے پشیمان ہونے کے بجائے اس کو درست سمجھتا ہے اور آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھ کر اپنے اس قبیح عمل پر خوش ہوتا ہے جبکہ چور اور زانی کبھی کبھی گناہ کا ارتقاب کرتا ہے۔ اس بناء پر ایسا گنہا جس پر تسلسل سے مداومت اور ہمیشگی اختیار کر لی جائے وہ تمام گناہوں سے بڑھ کر سخت نگاہ بن جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اقامت کا جواب

س: کیا اقامت کا جواب اقامھا اللہ وا دامھا کہنا صحیح ہے ؟ تکبیر کا جواب دیتے ہوئے دریافت کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ہمارے بڑے اسی طرح کرتے آئے ہیں ۔ تم ایک نیا فتنہ کھڑا کر رہے ہو ۔ اس مسئلہ میں ہماری صحیح راہنمائی فرمائیں ۔

ج: اقامت کا جواب دینے کیلئے جو اقامھا اللہ وادامھا کہا جات اہے یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ اس سلسلہ میں سنن ابو داؤد میں جو روایت بطریق محمد بن ثابت از رجل من اہل الشام از شھر بن حو شب از ابی امامہ یا عن بعض اصحاب النبی مروی ہے ،انتہائی کمزور ہے۔ اس کی وجہ ضعف یہ ہے کہ اس کی سند میں درج ذیل تین علتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی علت یہ ہے :
(١۱) محمد بن ثابت العبدی ضعیف راوی ہے۔ امام علی بن مدینی اور دیگر محدثین نے کہا کہ یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔ امام ابن معین نے فرمایا لیس بشیء یہ کچھ نہیں ہے۔ ( میزان الا تعدال ٣۳/ ۴۹۵٣٩٥)
امام ابو حاتم نے کہا ہے لیس بالمتین امام بخاری نے کہا یخالف فی بعض حدیثہٖ اما نسائی نے فرمایا لیس بالقوی امام ابن عدی نے کہا عامۃ احادیثہٖ مم لا یتا بع علیہ امام ابو داؤد نے کہا لیس بشی امام ابو احمد الحاکم نے کہا لیس بالمتین (تہذیب التہذیب ٩۹/ ۸۵٨٥)
دوسری علت یہ ہے کہ :
(۲٢) رجل من اھل الشام مجہول ہے یعنی یہ بات معلوم نہیں کہ اہل شام میں سے کون سا آدمی ہے جس سے یہ روایت مروی ہے ۔
(٣۳) تیسری خرابی یہ ہے کہ شہر بن جو شب متکلم فیہ ہے ( جیسا کہ میزان ٢۲/٢۲۸۳٨٣ اور تہذیب ٤۴/ ٣٦۳۶۹٩ میں موجود ہے )حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تقریب میں اسے کثیر الاوہام یعنی کثرت سے وہم میں مبتلا ہونے والا قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب یہ روایت صحیح نہیں تو اس سے استدلال کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے یاد رہے کہ بڑوں کی بات کوئی حجت نہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات میں ہمارے لیے حجت ہیں۔ جو بات قرآن و سنت سے ملتی ہے وہ لے لو اور جس کا شرعاً کوئی ثبو ت نہیں ۔ اس پر عمل کرنے کے ہم مکلف نہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت کا سلسلہ شروع کیا تھا تو آپ کو بھی یہ جواب دیا گیا تھا کہ ہمارے بزرگ اور بڑے آج تک اس طریقہ پر گامزن ہیں ۔ کیا وہ غلط ہیں اور تم جو نیا دین لائے ہو ہو صحیح ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' جب انہیں کہا جاتا کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے آباؤ و اجداد کو پایا ۔ اگر چہ ان کے باپ دادا کچھ نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہدایت یافتہ تھے''۔
یہاں سے معلوم ہوا منزل من اللہ دین کی بات کے مقابلے میں آباؤ اجداد کے اقوال و افعال کو پیش کرنا پرانے مشرکین و کفار کا طرز عمل تھا ۔ اہل اسلام کو یہ بات زیبا نہیں کہ وہ شرعی احکامات کے سامنے اپنے آباؤ اجداد کو پیش کریں۔ جن مسائل کا ثبوت قرآن و سنت کی نصوص سے نصاً یا اشارتاً ملتا ہے انہیں لے لو ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اذان میں اشھد ان امیر المومنین علی ولی اللہ کا اضافہ

س: کیا اذان کے کلمات میں شہادتیں کے بعد اشھد ان امیر المؤ منین علی ولی اللہ وغیرہ کے کلمات کہنا درست ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟

ج: اذان شعائر اسلام میں سے ہے ان کے الفاظ وہی درست ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔ اذان میں نہ اپنی طرف سے اضافہ جائزا ہے اور نہ کمی ۔ جو شخص اذان میں بعض کلمات کا اضافہ کرتا ہے وہ بدعتی ہے بلکہ لعنت کا موجب ہے۔ سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدر بہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت اذاب کے بارے میں مروی ہے۔ اس میں یہ بات مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت لوگوں کو نماز کیلئے جمع کرنے کے واسطے نا قس بجانے کا حکم ید اتو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں نا قوس ہے تو میں نے ان کو کہا، اے اللہ کے بندے کیا تو ناقس بیچے گا تو اس نے کہا آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے۔ تو میں نے کہا میں نماز کیلئے اس کے ذریعے لوگوں کو ندا دوں گا۔ تو اس نے کہا کہ میں تجھے ایسی بات پر راہنمائی کروں جو اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا کیوں نہیں ۔ توا سنے کہا کہ تو کہہ: صبح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خواب سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' یقینا یہ خواب سچا ہے اگر اللہ نے چاہا '' ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' بلالا رضی اللہ عنہ کو یہ کلمات سکھا دو تاکہ وہ اذان کہے کیونکہ اس کی آواز تجھ سے بہتر ہے ''۔ ( منتقی لا بن جا رود (۱۵۸) ابو داؤد (۴۹۹) ابن ماجہ (۷۰۶) ترمذی (١۱۸۹) احمد ۴٤/۴۳ دارمی۱/۲۱۴، ابن حزیمہ ١۱/۱۸۹،۱۹۱١،۱۹۲)۔
اسی طرح فجر کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعد دوبار الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا بھی مشروع ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
'' صبح کی اذان میں حی علی الفلاح کے بعدالصلوٰۃ خیر من النوم کہنا سنت میں سے ہے''۔( ابنِ خزیمہ (۳۸۶)۱/۲۰۲،دارقطنی۱/۲۴۳، بیہقی۱/۴۲۳، ابن منذر۳/۲۱)
اور اصول میں یہ بات متحقق ہے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ من السنۃ کذا مسند اور مفروع حدیث کے حکم میں ہے۔ امام نودی نے المجموع ٥/ ٢٣٢، ابن ہمام نے '' التحریر '' اور اس کے شارح ابن امیر الحاج نے ٢ /٢٢٤ پر جمہور اصولیین و محدثین سے یہی موقف نقل کیا ہے۔ اسی طرح سیدنا ابو محزورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اذان سکھلائی اور فرمایا صبح کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم الصلوٰۃ خیر من النوم کہا کرو۔ یہ حدیث سیدنا ابو محزورہ رضی اللہ عنہ سے متعدد طریق کے ساتھ درج ذیل کتب میں مروی ہے مسند احمد۳/۴۰۸، ابو داؤد (۵۰۱) نسائی (۲/۷٧) ، ابن خزیمہ (۳۸۵) دارقطنی۱/۲۲۴، بیہقی۱/۴۲۲، ابن حبان (۲۸۹) تاریخ الکبیر۱/۱۲۳، عبدالرزاق۱/۴۷۲، حلیہ الاولیاء۸/۴۱۰
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ فجر کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہا جاتا ہے ۔ (طحاوی ۱/۱۷۳، بیہقی ۱/۴۲۳، التلخیص الحبیر ۱/۲۰۱)
ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے اذان میں تر جیع بھی ثابت ہے یعنی شہادتین کے کلمات کو دوبارہ کہنا ۔ پہلی بار آہستہ دوسری بار اس سے اونچی آواز میں ۔ مذکورہ بالا صحیح احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اذان کے مذکورہ کلمات ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ان میں نہ اضافہ جائز ہے اور نہ ہی کمی۔ اس اذان میں اشھد ان علیا ولی اللہ وغیرہ کے کلمات نہیں ہیں جو لوگ ان کلمات کا اضافہ کرتے ہیں ، وہ احاداث فی الدین کے مر تکب ہیں اور بدعتی ہیں ۔ فقہ جعفریہ میں بھی ان کلمات کا اذان میں کہنا ثابت نہیں ہے بلکہ فقہ جعفریہ کی رو سے یہ کلمات اذان میں کہنا گناہ ہے اور کہنے والا لعنت کا مستحق ہے۔
فقہ جعفریہ کی صحاب اربعہ وغیرہ میں مر قوم اذان اور اہل سنت کی اذان میں فرق صرف یہ ہے کہ حی علی الفلاح کے بعد فقہ جعفریہ کی طرف سے حی علی خیر العمل دو مرتبہ کہنا ہے۔ باقی اذان کے الفاظ وہی ہیں جو اہل سنت کی اذان کے ہیں ۔ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب الفقیہ من لا یحضرہ افلقیہ ص۱/۱۸۸٨ پر ابن با بویہ قمی نے اذان کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔
؎ ''یہی اذان صحیح ہے نہ اس میں زیادتی کی جائے گی اور نہ کمی اور یمفوضہ فرقہ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ انہوں نے بہت سی روایات گھڑیں اور اذان میں محمد و آل محمد خیر البریہ دو مرتبہ کہنے کیلئے بڑھا دئیے اور انکی بعض روایات میں اشھد ان محمدا رسول اللہ کے بعد اشھد ان علیہ ولی اللہ دو دفعہ ذکر کیا گیا ۔ ان مفوضہ میں سے بعض نے ان الفاظ کی بجائے یہ افلاظ روایت کیے ہیں اشھد ان امیر المومنین حقا یہ بات یقینی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، اللہ کے ولی اور سچے امیر المؤ منین ہیں اور محمد و آل محمد خیر البریہ ہیں لیکن یہ الفاظ اصل اذان میں نہیں ہیں ۔ میں نے یہ الفاظ اس لئے ذکر کیے ہیں تاکہ ان کی وجہ سے ہو لوگ پہچانے جائیں جو مفوضہ ہونے کی اپنے اور تہمت لئے ہوئے ہیں ۔ اس کے ابوجود اپنےا ور آپ کے اہل تشیع میں شمار کرتے ہیں ''۔ انتھی ابن بابویہ قمی شیعہ محدث کی اس صراحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اشھد ان علیہا ولی اللہ وغیرہ کلمات اصل اذان کے کلمے نہیں بلکہ اس لعنتی فرقہ مفوضہ نے یہ گھڑے ہیں اور اذان میں داخل کر دئیے ہیں ۔ ائمہ محدثین کے ہاں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ الفقیہ من لا یحضرہ الفقیہ ص ۱/۱۸۸کے حاشیہ میں مفوضہ فرقے کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
'' مفوضہ ایک گرماہ فرقہ ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ اس کے بعد دنیا کی پیدائش کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پسرد کر دیا لہٰذ آپ ہی خلاق ( بہت زیادہ پیدا کرنے والے ) ہوئے اور ان کے عقائد میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدائش کا معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا ''۔
مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہو گیا کہ مفوضہ ایک لعنتی فرقی ہے ۔ اس نے یہ کلمات اذان میں بڑھائے ہیں ۔ سنت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ شیعہ مذہب کی معتبر کتاب لامبسوط۱/۹۹ ط تہران لابی جعفر بن محمد حسن الطوسی میں لکھا ہے کہ :
'' بہر حال اذان میں اشھد ان علینا امیر المؤ منین وال محمد خیر البریہ کہناجیسا کہ شاذروایات میں آیا ہے ان کے کہنے پر کوئی کار بند نہیں ہے اور اگر کوئی شخص اذان میں یہ کلمات کہے تو وہ گنا ہگار ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ کلمات اذان کی فضیلت اور کمال میں سے نہیں ہیں ''۔
اس طرح شیعہ مذہب کی معتبر کتاب اللمعۃ المدمشقیہ۱/۲۴۰ پر لکھا ہے:'' مذکورہ اذان ( جو کہ اہل سنت کے مطابق ہے ) یہی شرع میں منقول ہے۔ اس کے علاوہ زائد کلمات کا شروع طور پر درست سمجھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ اذان کے اندر ہوں یا اقامت میں ۔ جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کی گوہای کے الفاظ اور محمد و آل محمد کے خیر البریہ یا خیر البشر ہونے کے الفاظ ہیں ۔ اگر چہ جو کچھ ان الفاظ میں کہا گیا ہے ، وہ واقعی درست ہے( یعنی سدینا علی رضی اللہ عنہ کا ولی اللہ ہون ااور محمد و آل محمد کا بہترین مخلوق ہوان ) لیکن ہر وہ بات جو واقعتا درست اور حق ہو ، اسے ایسی عبادات میں داخل کر لینا جو شرعی و ظیفہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حدبندی کی گئی ہو ، جا زنہیں ہو جاتا ہے۔ لہٰذان کلمات کا اذان میں کہنا بدعت ہے اور ایک نئی شریعت بنانا ہے ''۔
اسی طرح شیعہ کی کتاب فقہ امام جعفر صادق لمحمد جوادا ۱/۱۶۶ط ایران میں لکھا ہےـ:
'' تمام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اشھد ان علیا ولی اللہ کلما اذان اور اس کے اجزاء میں سے نہیں ہے اور اس پر بھی کہ جو شخص ان الفاظ کو اس نیت سے کہتا ہے کہ یہ بھی اذان میں شامل ہیں تو اس نے دین میں بکالی اور وہ بات دین میں داخل کر دی جو اس سے خارج تھی ''۔
اس طرح شیعہ محدث و مفسر شیخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی نے اپنے فتاوی النھایہ فی مجرد النفقہ و الفتاوی ص ٦٩ ط قم ایران میں لکھا ہے:
'' شاذ روایات میں یہ '' قول اشھاد ان علیا ولی اللہ آل محمد خیر البریۃ'' جومروی ہے، یہ ان کلمات میں سے ہے جن پر اذان اور اقامت میں عمل نہیں کیا جاتا جس شخص نے اس پر عمل کیا وہ غلطی پر ہے ''۔
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات متحقق ہوتی ہے کہ اذان کے کلمات شعائر اسلام میں سے ہیں اوریہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیے ہیں ۔ کسی شخص کو ان میں نہ اضافہ کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی کمی کی ۔ جو شخص اذان میں اضافہ یا کمی کرتا ہے ، وہ بدعتی ہے اور موجب لعنت ہے۔ فقہ جعفریہ کی امہات الکتب میں بھی یہی اذان جو اہل سنت کے ہاں مشروع ہے ، نقل کی گئی ہے سوائے حی اعلی خیر العمل کے اور فقہ جعفریہ کی رو سے '' اشھد ان علیا ولی اللہ ''کے کلمان کا اذان میں درج کرنا گناہ ہے اور بعدعت ہے بلکہ یہ الفاظ لعنتی فرقہ مفوضہ میں گھڑے ہیں اور اذان میں داخل کر دئیے ہیں ھلانکہ یہ کلمات اذاننہین ہیں ۔ ہم دعوے کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضٰ اللہ عن ، سیدنا حنس رضٰ اللہ عنہ ، سید نا حسین رضی اللہ عنہ ، علی زین العابدین وغیرہ جو شیعہ کے ہاں ائمہ اہل بیت، معصوم عن الخطاء شمارہوتے ہیں۔ ان سے صحیح سند کے ساتھ تو کیا ضعیف سند کے ساتھ بھی ان کلمات کااذان میں کہنا درست ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ سیدنا علی رضٰ اللہ عنہ کے زمانے میں بھی نما ز کیلئے اذان دی جاتی تھی تو کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات اذان میں کہلوائے تھے۔ بعض لوگ کہتے کہ جو لوگ اذان میں کلمات نہیں کہتے، ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت نہیں ہے۔ یہ بات سرا سر غلط ہے اگر محبت کی یہ علامت ہے کہ جس کے ساتھ محبت ہو ، اس کا نا م اذان میں لیا جائے تو حضرات کی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی تمام الواد، اسی طرح ان کے مزعومہ بارہ امام اور ان کے اولاد کا نام بھی اذان میں لینا چاہئے ۔ تاکہ کھل کر محبت کا اظہار ہو اور اگر اس طرح اذان شروع کر دی جائے تو ہو سکتا ہے ۲۴گھنٹے میں اذان بھی مکمل نہ ہو اور نماز کا وقت ہی نہ ملے ۔ اور شیعہ مجہتدین سے صراحت کے ساتھ نقال کر دیا ہے جو بات امر واقع میں درست ثابت ہو ، اس کو اذان میں اپنی طرف سے داخل کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اذان کے کلمات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقل ہیں اور متعین ہیں ۔ ان میں اضافہ کرنا اپنے آپ کو لعنت کا حقدار بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو سنت نبوت پر عمل کی حماقت توفیق عنایت فرمائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اکیلے آدمی کا اذان اور اقامت کہہ کر نماز ادا کرنا

س: کیا اکیلا آدمی جب نماز ادا کرتا ہے تو اذان و اقامت کہہ سکتا ہے ؟ ّ

ج: اگر نماز اکیلا نماز پڑھے تو اذان و اقامت کہہ سکتا ہے۔ سنن ابو داؤد کی صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' تمہارا رب ایسے چراوا ہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چھوٹی پر اپنا ریوڑ چراتا ہے اور نماز کیلئے اذان کہتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرے اس بندے کی طر ف دیکھو جو اذان و اقامت نماز کیلئے مجھ سے ڈرتے ہوئے کہتا ہے میں نے اپنے اس بندے کو معاف کردیا اور میں نے اسے جنت میں داخل کر دیا ہے ''۔( سنن ابو داؤد و باب الاذان فی السفر۲/۴٤(۱۲۰۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی اکیلا نماز پڑھے تو وہ اذان و اقامت کہہ سکتا ہے۔ یہ اس کیلئے بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز میں وضو کا ٹوٹنا

س: نماز کے دوران اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اُس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟ اس طرح اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ کیا کرے ؟ نماز چھوڑ کر وضو کرنا پڑے گا یا کہ وہ نماز پورا کرے گا ؟

ج: نماز کیلئے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جب وضو ٹوٹ جائے تو نمازی کو نماز چھوڑ کر چلے جانا چاہئے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہئے ۔ اگر امام ہے تو پیچھے سے کسی کو آگے کھڑا کر کے چلا جائے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز ابتداء سے شروع کرے نہ کہ جہاں سے چھوڑی تھی ۔ سیدنا علی بن طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
'' جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں اپنی ہوا خارج کرے تو وہ واپس جا کر وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔'' یہ حدیث حسن ہے۔ ترمذی ( ۱۱۲۴،۱۱۶۶ ابوداؤد (۲۰۵) عبدالرزاق۱۳۹/۱ ، ابن حبان (۲۰۴،۲۰۳) دار قطی۱۵۳/۱ ۔

علماء احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ چلا جائے اور وضو کر کے آئے اور اگر اس نے نماز کے منافی کوئی حرکت نہیں کی تو جہاں سے نماز چھوڑٰ تھی ، وہیں سے اتبداء کرے۔ نئے سرے سے نماز ادا نہ کرے اور اس کی دلیل میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :
'' سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے قے یا نکیر یا پیٹ کا کھانا یا مذی آجائے ، وہ پھر جائے ، وضو کرےا ور اپنی نماز پر بنا کرے بشرطیکہ اس نے دوران کلام نہ کیا ہو ۔''
(ابن ماجہ، دارقطنی۱/۱۵۵،۱۵۳)
یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافط ابن حضرت عسقلانی ؒ نے بلوع المرام میں فرمایا ہے ضعفہ، احمد وغیرہ اس حدیث کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
لہٰذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نئے سرے سے وضو کر کے ابتداء سے نماز پڑھی جائے کیونکہ وضو نماز کیلئے شرط ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
زبان سے نیت کرنے کا حکم

س: کیانماز ادا کرتے ہوئے زبان سے نیت اس طرح کرنا کہ چار رکعت نماز فرض وقت نماز ظہر واسطے اللہ تعالیٰ کے پیچھے اس امام کے اللہ اکبر، جائز ہے یا نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا کوئی ثبوت مروی ہے وضاحت فرمائیں۔

ج: نیت کے معنی قصد اور ارادہ ہے تمام اہل علم کا اتفق ہے کہ قصد و ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا امام ابن قیم راقم ہیں کہ :
'' نیت کے کسی قیام کے قصد و ُپختہ ادارے کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے اور زبان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ''۔

مولانا انور شاہ شمیر ی حنفی نے بھی فیض الباری ١۱/۸ ٨پر لکھا ہے کہ فالنیۃ امر فلبی ' نیت دل کا معاملہ '' ہے۔ لہٰذا اگر نمازی نے دل سے نیت کر لی تو تمام آئمہ کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہو گی ۔ زبان سے نیت کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین رحمتہ اللہ علیہم سے ثابت ہے۔ امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے زاد المعاد ۱١/ ۲۰۱ پر لکھا ہے:
'' نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اس سے پہلے کچھ نہ کہتے اور نہ زبان سے نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں چار رکعت فلاں نماز منہ طرف قبلہ کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ ادایا قضا یا فرض وقت کا نام لیا ہو یہ دس بدعات ہیں اس بارے میں ایک لفظ بھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح یا سند ضعیف یا مرسل سے قطعاً نقل نہیں کیا بلکہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں اور نہ ہی کسی تابعی نے اسے پسند کی ااور نہ آئمہ اربعہ نے ''۔

مجدد الف ثانی شیخ احمد سر ہندی حنفی لکھتے ہیں کہ :
'' زبان سے نیت کرنا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمتہ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے زبان سے نیت بدعت ہے ''۔
( مکتوبات دفتر اول حصہ سوم مکتوب نمبر ١٨۱۸۶ص۷۳٣)
''اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہر گز کامیاب نہیں ہوگا سوائے سفید جھوٹ بلونے کے اگر اس میں بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے ''۔ (اغائۃ اللھفان ١۱/۱۵۸)
 
Top