• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیت خاتم النبیینْ کا لغوی پہلو۔

شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
پہلی فرصت میں اس کا جواب شراح حدیث سے دیتا ہوں۔ فی الحال ذرا سا مصروف ہوں۔


محترمی! اگر آپ کی عبارت کی نقل درست ہے تو پھر آپ کا ترجمہ شاید غلط ہے۔
’’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الاستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است ‘‘
"چاہیے کہ جان لیا جائے کہ اس آیت کا مدلول نہیں ہے علی رضی اللہ عنہ کو مدینے پر خلیفہ بنانا غزوہ تبوک میں اور اس خلیفہ بنانے کو تشبیہ دینا موسی کے ہارون کو خلیفہ بنانے سے ان کے طور کی جانب سفر کے وقت، اور یہاں "بعدی" کا معنی "غیری" ہے۔"
غلطی سے آج سے بارہ سال پہلے ٹوٹی پھوٹی فارسی ہم نے بھی سیکھ لی تھی۔ اس میں "الاستخلاف" نہ "الا استخلاف" اور آخر میں "نہ کہ بعدیت زمانی" کے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ ممکن ہے یہ آپ سے عبارت نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہو۔
بہر حال چونکہ یہ کتاب نیٹ پر بھی آسانی سے نہیں ملتی اور ہمارے پاس بھی نہیں ہے اس لیے فورم کے اصول کے مطابق اس صفحے کا اسکین عنایت فرمائیے تاکہ ہم اصل عبارت اور اس کا سیاق و سباق دیکھ سکیں۔


یہاں بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے کہ آپ کی فارسی عبارت میں "غیری" والے معنی کا دور دور تک پتا نہیں ہے۔ اس کا بھی اسکین عنایت فرمائیے۔ میں ممنون ہوں گا۔

باقی "بعد" کے معنی تو تاج العروس میں "مع" بھی لکھے ہیں لیکن وہ آپ کو نافع نہیں ہیں۔ اگر ایک بار تاج العروس کا مطالعہ فرمالیں اس لفظ کے تحت تو اس میں اس کے تمام حقیقی و مجازی معانی مذکور ہیں۔
ٹائپنگ میں غلطی کی تصحیح کے لئے آپکا ممنون ہوں۔
میں نے حوالہ کو دو حصوں پر پیش کیا تھا اور اس درمیان اپنا تبصرہ شامل کیا تھا ۔تاہم لگتا ہے کہ آپ کے لئے مضمون واضح نہیں ہو پایا۔

اپنی فارسی دانی پر معذرت خواہ ہوں پورا حوالہ یہ ہے ۔ میں ترجمہ لکھتا ہوں ۔لیکن آپ خود بھی اسکا ترجمہ فرما لیں۔ اور بتائیں کہ کیا سمجھے ہیں؟۔

’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الااستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است چنانچہ در آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ (الجاثیہ : 23) گفتہ اند نہ بعدیّتِ زمانی ۔زیرا کہ حضرت ہارون بعد حضرت موسیٰؑ نماند ندتا ایشاں را بعدیتِ زمانہ ثابت بود ۔ ‘‘ (قرّۃ العینین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
’’جاننا چاہیے کہ اس حدیث (لانبی بعدی) کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون ؓ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسیٰؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور ’’ بعدی‘‘ کے معنی اس جگہ ’’ غیری‘ ‘ ہیں جیسا کہ آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ میں ہے نہ کہ بعدیت زمانی ۔ (بعد یت زمانی) اس لئے مراد نہیں کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰؑ کے بعد زندہ نہیں رہے کہ حضرت علیؓ کے لئے بعدیت ِ زمانی ثابت ہو۔ ‘‘
( یہ کتاب نایاب ہے خاکسار نے اس کا بس حوالہ لکھا تھا ۔ کوشش کرتا ہوں لائبریری سے اسکین یا تصویر مل جائے تو بھجواتا ہوں۔)


آپ نے لغت کی کتاب کا استفسار کیا تھا ۔ حوالہ بھجوا رہا ہوں۔
2)لغات القرآن مصنفہ غلام احمد پرویز میں ’بعد ‘کے معانی ملاحظہ ہوں۔
’’ بعد کے معنی ’غیر‘ کے بھی آتے ہیں ۔ فمن یھد یہ من بعد اللہ‘‘
(لغات القرآن صفحہ 331)


آپ نے تفسیر کی کتاب کا استفسار کیا تھا ۔ حوالہ بھجوا رہاہوں۔
3) تفسیر ابن عاشور میں زیر آیت ہذا(الجاثیہ :6) لکھا ہے :

وقوله : { فبأي حديث بعد الله وآياته يؤمنون } ، و { بعد } هنا بمعنى ( دون ) . فالمعنى : فبأي حديث دون الله وآياته۔
پھر لکھتے ہیں:
{ فبأيّ حديث بعده يؤمنون } وعطف و { آياته } على { حديث } لأن المراد بها الآيات غير القرآن

دون کے معانی معجم میں ملاحظہ کریں: کسی چیز کو چھوڑ کر دوسری کو اختیار کرنا۔ مغایرت، تحقیر، غیر وغیرہ کے معانی ہیں۔
غیر کے معانی پہلے لکھ چکا ہوں۔

حجّت تو تمام ہو گئی ہے ۔
اب تسلیّ ہو گئی ہو تو بتائیں ورنہ انشاء اللہ اور کلام کروں گا۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔

اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عیسیؑ کو غیر تشریعی نبی قرار دیا ہے:

جب کہ حضرت عیسیؑ نے خود فرمایا ہے:
ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم وجئتكم بآية من ربكم (آل عمران۔50)
"اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں۔"
حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا "نسخ" ہے۔
اس کی تاویل بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ چیزیں یہود کے علماء نے حرام کر دی تھیں۔ قرآن کریم میں اس کے خلاف موجود ہے:
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا (160) وأخذهم الربا وقد نهوا عنه وأكلهم أموال الناس بالباطل وأعتدنا للكافرين منهم عذابا أليما (161) (النساء)
"یہود کی طرف سے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جب کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ حرام کردہ چیزیں اللہ پاک کی طرف سے تھیں۔
بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حرام کردہ چیزیں "ظلم" کی وجہ سے تھیں تو عیسیؑ نے انہیں ان کی اصل یعنی حلت پر واپس کر دیا۔ یہ تاویل تو واضح طور پر غلط ہے کہ یہود کے جو افعال اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ تو آج تک ان میں موجود ہیں، عیسیؑ کے وقت تو بہت شدت سے تھے۔ جب تحریم کی علت موجود تھی تو وہ احکام حلت پر واپس کیسے کردیے گئے؟
معلوم یہ ہوا کہ عیسیؑ نے ان احکام کی حرمت کو باقاعدہ نئے احکام خداوندی سے منسوخ کر دیا تھا۔
آپ نے صاحب تشریع نبی کی تعریف یہ کی کہ جو پرانی شریعت کے تابع تھے اور انہوں نے کوئی حکم منسوخ نہیں کیا، مثال میں عیسیؑ کو ذکر کیا حالانکہ انہوں نے احکام کو منسوخ کیا ہے۔ اب یا تو آپ کی تعریف غلط ہے اور یا مثال۔ تعیین آپ خود فرما دیں۔

محترم اشماریہ صاحب ۔
’بعد ‘کے معانی جو میں نے کئے تھے انکو لغت تفسیر و حضرت شاہ دہلوی ؒ صاحب کے حوالہ جات سے ثابت کرنے کے’ بعد‘ میں آپ کی اس پوسٹ کے پہلے مسئلہ کو لیتا ہوں۔

1) سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جو آیت آپ نے پیش کی وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ اس میں فعل مجہول ’’حُرّمَ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ جسکا فاعل معلوم نہیں کون ہے ۔ اگر اللہ کی حرام کردہ کو حلا ل کرنے کی بات ہوتی تو فرمانا چاہیے تھا کہ ’ ’ بعض الذی حرّم اللہ علیکم ‘‘ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ تو جس طرح آپ نے توجیح فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ہے و اللہ نے حرام کیا (سورۃ النساء:160) ۔ مجھے بتائیں مجھے کیا چیز مانع ہے کہ میں اس سے مراد یہود نہ لوں؟؟ جبکہ آلِ عمران :۹۳ میں واضح لکھا ہے کہ اسرائیل نے خود اپنے اوپر بھی کچھ چیزیں حرام کر لیں تھیں ۔ کیونکہ فعل مجہول کا فاعل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے آپ اس سے مراد اللہ کو لیں میں اس سے مراد یہود کو لیتا ہوں۔

2)پس واضح ہو جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا کہ بعض علماء نے اسکی تاویل کی ہے کہ وہ چیزیں یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لی تھیں۔ انہیں کو حضرت عیسی ٰ ؑ نے آ کر حلال کر دیا تھا ۔ اسکی تائید ذیل کی آیت سے ملتی ہے۔
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ(سورۃ آل عمران :93)
ترجمہ :تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے سوائے ان کے جو خود اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لئے پیشتر اس کے کہ تورات اتاری جاتی۔ تُو کہہ دے کہ تورات لے آؤ اور اسے پڑھ (کر دیکھ) لو، اگر تم سچے ہو۔

تو اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل دی کہ ہم نے تو توراۃ میں انکی حرمت نہیں بیان کی ۔ تم تو راۃ سے ثابت کرو کہ کہاں ان کی حرمت بیان ہوئی ہے ؟؟۔
علاّمہ زمخشری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب ؑ کو بیماری لاحق ہوئی اور انہوں(1) نذر مانگی کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو یہ چیزیں نہ کھاؤں گا(2) یا اطباء نے مشورہ دیا کہ ان کو استعمال نہ کریں ۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو بعد میں یہود نے ان کو اس طرح حرام قرار دینا شروع کر دیا گویا وہ خدا نے حرام کی ہوں۔ (دیکھو تفسیر الکشاف زیر آیت ھذا)

تو حضرت عیسیٰ ؑ نے وہی حلا ل کیا جو خدا تعالیٰ نے نہیں بلکہ جو یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لیا ۔ اسلئے شریعت موسوی کا کچھ بھی نسخ نہ کیا۔

3)میں آپ کی بات مان بھی لوں کہ ’’حُرّم‘‘ میں اللہ تعالیٰ ہی فاعل ہے اوراللہ ہی نے حرام قرار دیا تھا تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی حرمت شریعت موسوی میں ہی بیان ہوئی تھی ؟ اسکا کیا ثبوت دیں گے؟


4) علاّمہ مودودی نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے ۔فرماتے ہیں :

’’
رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا ( ہم نے حرام کیا ) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے ۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں ۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے ۔‘‘(زیر آیت سورۃ الانعام:146)


میرا خیال ہے اتنے دلائل کافی ہیں۔ باقی اگر ضرورت ہوئی تو اور انشاء اللہ ۔
بہرحال ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ عیسیٰ ؑ تشریعی نہ تھے بلکہ شریعت موسوی ؑ کے پیرو تھے ۔ اور یہ عقیدہ با دلیل اب بھی کھڑا ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔


اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے عیسیؑ کو غیر تشریعی نبی قرار دیا ہے:

جب کہ حضرت عیسیؑ نے خود فرمایا ہے:
ولأحل لكم بعض الذي حرم عليكم وجئتكم بآية من ربكم (آل عمران۔50)
"اور تاکہ میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کروں جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے نشانی لے کر آیا ہوں۔"
حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا "نسخ" ہے۔
اس کی تاویل بعض علماء نے یہ کی ہے کہ یہ چیزیں یہود کے علماء نے حرام کر دی تھیں۔ قرآن کریم میں اس کے خلاف موجود ہے:
فبظلم من الذين هادوا حرمنا عليهم طيبات أحلت لهم وبصدهم عن سبيل الله كثيرا (160) وأخذهم الربا وقد نهوا عنه وأكلهم أموال الناس بالباطل وأعتدنا للكافرين منهم عذابا أليما (161) (النساء)
"یہود کی طرف سے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو ان پر حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جب کہ انہیں اس سے روکا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے کی وجہ سے، اور ان میں کافروں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔"
معلوم ہوا کہ حرام کردہ چیزیں اللہ پاک کی طرف سے تھیں۔
بعض علماء نے یہ تاویل کی ہے کہ یہ حرام کردہ چیزیں "ظلم" کی وجہ سے تھیں تو عیسیؑ نے انہیں ان کی اصل یعنی حلت پر واپس کر دیا۔ یہ تاویل تو واضح طور پر غلط ہے کہ یہود کے جو افعال اس آیت میں بیان ہوئے ہیں وہ تو آج تک ان میں موجود ہیں، عیسیؑ کے وقت تو بہت شدت سے تھے۔ جب تحریم کی علت موجود تھی تو وہ احکام حلت پر واپس کیسے کردیے گئے؟
معلوم یہ ہوا کہ عیسیؑ نے ان احکام کی حرمت کو باقاعدہ نئے احکام خداوندی سے منسوخ کر دیا تھا۔
آپ نے صاحب تشریع نبی کی تعریف یہ کی کہ جو پرانی شریعت کے تابع تھے اور انہوں نے کوئی حکم منسوخ نہیں کیا، مثال میں عیسیؑ کو ذکر کیا حالانکہ انہوں نے احکام کو منسوخ کیا ہے۔ اب یا تو آپ کی تعریف غلط ہے اور یا مثال۔ تعیین آپ خود فرما دیں۔

دوسرے سوال کے جواب سے متعلق بات ان شاء اللہ رات کو کرتا ہوں۔
محترم اشماریہ صاحب ۔
’بعد ‘کے معانی جو میں نے کئے تھے انکو لغت تفسیر و حضرت شاہ دہلوی ؒ صاحب کے حوالہ جات سے ثابت کرنے کے’ بعد‘ میں آپ کی اس پوسٹ کے پہلے مسئلہ کو لیتا ہوں۔

1) سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جو آیت آپ نے پیش کی وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ اس میں فعل مجہول ’’حُرّمَ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ جسکا فاعل معلوم نہیں کون ہے ۔ اگر اللہ کی حرام کردہ کو حلا ل کرنے کی بات ہوتی تو فرمانا چاہیے تھا کہ ’ ’ بعض الذی حرّم اللہ علیکم ‘‘ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ تو جس طرح آپ نے توجیح فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ہے و اللہ نے حرام کیا (سورۃ النساء:160) ۔ مجھے بتائیں مجھے کیا چیز مانع ہے کہ میں اس سے مراد یہود نہ لوں؟؟ جبکہ آلِ عمران :۹۳ میں واضح لکھا ہے کہ اسرائیل نے خود اپنے اوپر بھی کچھ چیزیں حرام کر لیں تھیں ۔ کیونکہ فعل مجہول کا فاعل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے آپ اس سے مراد اللہ کو لیں میں اس سے مراد یہود کو لیتا ہوں۔

2)پس واضح ہو جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا کہ بعض علماء نے اسکی تاویل کی ہے کہ وہ چیزیں یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لی تھیں۔ انہیں کو حضرت عیسی ٰ ؑ نے آ کر حلال کر دیا تھا ۔ اسکی تائید ذیل کی آیت سے ملتی ہے۔
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ(سورۃ آل عمران :93)
ترجمہ :تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے سوائے ان کے جو خود اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لئے پیشتر اس کے کہ تورات اتاری جاتی۔ تُو کہہ دے کہ تورات لے آؤ اور اسے پڑھ (کر دیکھ) لو، اگر تم سچے ہو۔

تو اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل دی کہ ہم نے تو توراۃ میں انکی حرمت نہیں بیان کی ۔ تم تو راۃ سے ثابت کرو کہ کہاں ان کی حرمت بیان ہوئی ہے ؟؟۔
علاّمہ زمخشری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب ؑ کو بیماری لاحق ہوئی اور انہوں(1) نذر مانگی کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو یہ چیزیں نہ کھاؤں گا(2) یا اطباء نے مشورہ دیا کہ ان کو استعمال نہ کریں ۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو بعد میں یہود نے ان کو اس طرح حرام قرار دینا شروع کر دیا گویا وہ خدا نے حرام کی ہوں۔ (دیکھو تفسیر الکشاف زیر آیت ھذا)

تو حضرت عیسیٰ ؑ نے وہی حلا ل کیا جو خدا تعالیٰ نے نہیں بلکہ جو یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لیا ۔ اسلئے شریعت موسوی کا کچھ بھی نسخ نہ کیا۔

3)میں آپ کی بات مان بھی لوں کہ ’’حُرّم‘‘ میں اللہ تعالیٰ ہی فاعل ہے اوراللہ ہی نے حرام قرار دیا تھا تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی حرمت شریعت موسوی میں ہی بیان ہوئی تھی ؟ اسکا کیا ثبوت دیں گے؟

4) علاّمہ مودودی نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے ۔فرماتے ہیں :

’’
رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا ( ہم نے حرام کیا ) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے ۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں ۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے ۔‘‘(زیر آیت سورۃ الانعام:146)

میرا خیال ہے اتنے دلائل کافی ہیں۔ باقی اگر ضرورت ہوئی تو اور انشاء اللہ ۔
بہرحال ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ عیسیٰ ؑ تشریعی نہ تھے بلکہ شریعت موسوی ؑ کے پیرو تھے ۔ اور یہ عقیدہ با دلیل اب بھی کھڑا ہے ۔

آپکے دوسرے مسئلہ پر بھی جواب دوں گا ۔ کچھ وقت درکار ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اپنی فارسی دانی پر معذرت خواہ ہوں پورا حوالہ یہ ہے ۔ میں ترجمہ لکھتا ہوں ۔لیکن آپ خود بھی اسکا ترجمہ فرما لیں۔ اور بتائیں کہ کیا سمجھے ہیں؟۔
’باید دانس کہ مدلول ِ ایں آیت نیست الااستخلاف ِ علیؓ بر مدینہ در غزوۂ تبوک و تشبیہ دا دن این استخلاف با استخلاف موسیٰ ہارون را در وقتِ سفرِِ خود بجانب طور و معنی ’’ بعدی‘‘ اینجا ’’ غیری ‘‘ است چنانچہ در آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ (الجاثیہ : 23) گفتہ اند نہ بعدیّتِ زمانی ۔زیرا کہ حضرت ہارون بعد حضرت موسیٰؑ نماند ندتا ایشاں را بعدیتِ زمانہ ثابت بود ۔ ‘‘ (قرّۃ العینین فی تفصیل الشیخین صفحہ 206)
’’جاننا چاہیے کہ اس حدیث (لانبی بعدی) کا مدلول صرف غزوۂ تبوک میں حضرت علیؓ کا مدینہ میں نائب یا مقامی امیر بنایا جانا اور حضرت ہارون ؓ سے تشبیہ دیا جانا ہے جبکہ موسیٰؑ نے طور کی جانب سفر کیا اور ’’ بعدی‘‘ کے معنی اس جگہ ’’ غیری‘ ‘ ہیں جیسا کہ آیت فمن یھد یہ من بعد اللہ میں ہے نہ کہ بعدیت زمانی ۔ (بعد یت زمانی) اس لئے مراد نہیں کیونکہ حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰؑ کے بعد زندہ نہیں رہے کہ حضرت علیؓ کے لئے بعدیت ِ زمانی ثابت ہو۔ ‘‘

( یہ کتاب نایاب ہے خاکسار نے اس کا بس حوالہ لکھا تھا ۔ کوشش کرتا ہوں لائبریری سے اسکین یا تصویر مل جائے تو بھجواتا ہوں۔)

اس کا اسکین یا تصویر مل جائے تو اس پر بات کرتے ہیں۔ پہلے آپ نے حوالہ آدھا دیا تھا اور ابھی اس میں اضافہ فرمایا ہے۔ بہرحال تصویر آ جائے تو اسے دیکھتے ہیں۔

آپ نے لغت کی کتاب کا استفسار کیا تھا ۔ حوالہ بھجوا رہا ہوں۔
2)لغات القرآن مصنفہ غلام احمد پرویز میں ’بعد ‘کے معانی ملاحظہ ہوں۔
’’ بعد کے معنی ’غیر‘ کے بھی آتے ہیں ۔ فمن یھد یہ من بعد اللہ‘‘
(لغات القرآن صفحہ 331)
محترمی! ایک بات تو یہ کہ غلام احمد پرویز صاحب ماضی قریب کے مشہور منکر حدیث گزرے ہیں۔ ان کی قرآن کی تفسیر اور دروس بھی موجود ہیں جن میں انہوں نے وہ تمام باتیں شامل کی ہیں جو ان کے ذہن میں آئی ہیں، اگرچہ اس میں بھی وہ "خاتم النبیین" کی تفسیر میں فرماتے ہیں: "کیونکہ اس کے بعد نبوت (یعنی خدا کی طرف سے وحی ملنے کا سلسلہ) ختم ہو گئی۔" (مفہوم القرآن 1۔ 976)
لیکن اس سب سے ہٹ کر ان کا حوالہ ان کے خیالات اور انکار حدیث کی وجہ سے ہمارے یہاں قبول نہیں کیا جاتا اور جیسا کہ آپ کے اقوال اور حوالہ جات سے یہ خیال ہوتا ہے کہ آپ حدیث کو مانتے ہوں گے، تو پھر امید ہے کہ آپ کے یہاں بھی ان کا حوالہ قابل قبول نہیں ہوگا۔
لیکن اگر آپ کے حوالے کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی آپ کا موقف تھا "مد مقابل" اور "مخالف" کا:
یہاں بھی بعد سے مراد مدّ مقابل اور مخالف ہے ۔
آپ کا موقف "غیر" کا نہیں تھا۔ اور غیر کا معنی لازمی طور پر "مد مقابل" نہیں ہوتا۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ جب بھی کسی کو دوسرے کا "غیر" کہا جائے تو اس کا مطلب ہو "مد مقابل" اور "مخالف"۔ چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں "غیر" کا معنی "مد مقابل" نہیں کیا جا سکتا:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ
"بے شک تم پر حرام کر دیے گئے ہیں مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو اللہ کے "غیر" کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔"
اگر آپ کا معنی مان لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ جو اللہ کے "مد مقابل" کے لیے ذبح کیا گیا ہو وہ حرام ہے اور جو ایسے معبودان باطلہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو جنہیں مشرک اللہ کا "مد مقابل" نہ سمجھتے ہوں تو جائز ہے مثلاً اگر کوئی عیسائی عیسیؑ کے نام پر ذبح کرے تو جائز ہو۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ
"اور جو مجبور ہو جائے اس حال میں کہ "غیر" ہو سرکشی کرنے والے کا اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔"
آپ کے معنی کے مطابق تو یہاں ترجمہ ہی نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ ٹھیک ہو۔ یہاں غیر "نہ" کے معنی میں ہے۔

وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
"اور اللہ جسے چاہتا ہے "بغیر" حساب دیتا ہے۔"
بھلا حساب کے "مد مقابل" اور "مخالف" کون سی چیز ہوتی ہے؟

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ
"اور جو اسلام کا "غیر" کوئی دین تلاش کرے تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔"
یہاں اگر آپ کا ترجمہ "مد مقابل" اور "مخالف" کر دیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ اگر کوئی شخص کوئی نیا دین بنائے اور اس میں اسلام کا مقابلہ نہ کرے بلکہ متوازی بنائے اور مسلمانوں کے مخالف نہ اٹھے تو اس کا دین قبول ہے۔

اس طرح کی اور بھی کئی آیات ہیں جن کا ذکر طوالت کی وجہ سے نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ پھر غیر کا معنی کیا ہے؟ تو اس کا معنی ہے:
غَيْرُ: بمَعْنَى سِوَى، والجَمْع أَغْيَارٌ، وَهِي كَلِمَة يُوصَفُ بهَا ويُسْتَثْنَى. قَالَ الفَرّاءُ: وتَكُونُ بمَعْنَى لَا فَتنْصِبُها على الحالِ، كقَوْلِه تَعَالَى: فَمَنِ اضْطُرَّ} غَيْرَ بَاغٍ ولاَ عَادٍ: أَي فمَن اضْطُرَّ جائِعاً لَا باغِياً۔۔۔۔ قَالَ الأَزهريّ: ويكونُ غَيْرُ بمعْنَى لَيْسَ، كَمَا تقولُ العَرَبُ: كلامُ الله غَيْرُ مَخْلُوقٍ، ولَيْسَ بمَخْلُوق وَهُوَ اسمٌ مُلازِمٌ للإِضافَة فِي المَعْنَى، ويُقْطَعُ عَنْهَا لَفْظاً إِن فُهمَ مَعناه
(تاج العروس)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "غیر" کے اصل معنی "سوی" یعنی "علاوہ" اور "لیس" یعنی "نہیں" کے ہیں۔

والأصل الآخر: قولنا: هذا الشيء غير ذاك، أي هو سواه وخلافه. ومن الباب: الاستثناء بغير، تقول: عشرة غير واحد، ليس هو من العشرة. ومنه قوله - تعالى: {صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين} (مقاييس اللغة)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "غیر" کا معنی کسی چیز کا دوسرے کے "سوی" اور "خلاف" یعنی "علاوہ" ہونا ہے۔ یہ عربی والا "خلاف" ہے جس کا مطلب "علاوہ" کا ہوتا ہے نہ کہ مد مقابل کا۔

(غير) يكون اسْما بِمَعْنى إِلَّا تَقول جَاءَ الْقَوْم غير مُحَمَّد مَعْنَاهُ إِلَّا مُحَمَّدًا ويعرب حِينَئِذٍ إِعْرَاب الِاسْم الْوَاقِع بعد إِلَّا فَهُوَ هُنَا مَنْصُوب على الِاسْتِثْنَاء
وَيكون اسْما بِمَعْنى سوى نَحْو مَرَرْت بغيرك أَي بسواك وَهَذَا غَيْرك بِمَعْنى لَيْسَ نَحْو كلامك غير مَفْهُوم أَي لَيْسَ بِمَفْهُوم ويعرب هُنَا على حسب العوامل
واسما بِمَعْنى لَا نَحْو قَوْله تَعَالَى {فَمن اضْطر غير بَاغ وَلَا عَاد} كَأَنَّهُ تَعَالَى قَالَ فَمن اضْطر جائعا لَا بَاغِيا وَلَا عاديا وَنَحْو {غير ناظرين إناه} و {غير محلي الصَّيْد} وَهِي مَنْصُوبَة فِيهَا جَمِيعًا على الْحَال
وَصفَة نَحْو قَوْله تَعَالَى {غير المغضوب عَلَيْهِم} ويعرب حِينَئِذٍ إِعْرَاب الْمَوْصُوف وَهُوَ فِي الْآيَة مجرور لِأَنَّهُ صفة للَّذين
وَهَذَا اللَّفْظ ملازم للإضافة وَقد يقطع عَنْهَا إِن فهم مَعْنَاهُ وَسَبقه (لَيْسَ) أَو (لَا) نَحْو قبضت عشرَة لَيْسَ غير أَو لَا غير
وَيُقَال جَاءَ ببنات غير أَي بأكاذيب وَفعله غير مرّة أَي أَكثر من مرّة وَعِنْدِي غير كتاب أَكثر من كتاب
(المعجم الوسیط)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ "غیر" (جب صفت نہ ہو) کے تین معنی ہیں: "الا" اور "سوی" یعنی "علاوہ" اور "لا" یعنی "نہیں"۔

و (غير) بمعنى سوى والجمع (أغيار) وهي كلمة يوصف بها ويستثنى. فإن وصفت بها أتبعتها ما قبلها. وإن استثنيت بها أعربتها بالإعراب الذي يجب للاسم الواقع بعد إلا. وذلك أن أصل (غير) صفة والاستثناء عارض.
(مختار الصحاح)
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ "غیر" کا معنی "سوی" یعنی "علاوہ" ہے۔

مزید حوالہ جات بھی اگر مطلوب ہوں تو پیش کر دوں گا۔ بہرحال مراد یہ ہے کہ غلام احمد پرویز صاحب نے اگر "بعد" کا معنی "غیر" کیا ہے تو بھی یہ آپ کے "مد مقابل" اور "مخالف" والے مسلک کو تقویت نہیں دیتا۔ اور اگر آپ کہیں سے کوئی مجازی معنی "مخالف" یا "مد مقابل" نکال بھی لاتے ہیں تو بھی آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ حقیقی معنی کیوں ترک کیا گیا۔

آپ نے تفسیر کی کتاب کا استفسار کیا تھا ۔ حوالہ بھجوا رہاہوں۔
3) تفسیر ابن عاشور میں زیر آیت ہذا(الجاثیہ :6) لکھا ہے :
وقوله : { فبأي حديث بعد الله وآياته يؤمنون } ، و { بعد } هنا بمعنى ( دون ) . فالمعنى : فبأي حديث دون الله وآياته۔
پھر لکھتے ہیں:

{ فبأيّ حديث بعده يؤمنون } وعطف و { آياته } على { حديث } لأن المراد بها الآيات غير القرآن

دون کے معانی ہم آپ کے بیان کردہ مان لیں:
دون کے معانی معجم میں ملاحظہ کریں: کسی چیز کو چھوڑ کر دوسری کو اختیار کرنا۔ مغایرت، تحقیر، غیر وغیرہ کے معانی ہیں۔
تب بھی اس کے معنی میں "مد مقابل" کا کوئی معنی نہیں ہے۔

شاید بات گنجلک ہو گئی ہے تو میں واضح کرتا ہوں: حدیث لا نبی بعدی کے مطابق کسی نبی کے باطل ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کا مد مقابل ہو اور آپ کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہو کیوں کہ "بعد" کا مطلب "مد مقابل" ہے ہی نہیں۔ لہذا مسیلمہ، طلیحہ، اسود اور دوسرے مدعین نبوت صرف اس وجہ سے باطل نہیں ہو سکتے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے "مد مقابل" تھے بلکہ ان کے باطل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ ﷺ کے "بعد" تھے۔ اگر آپ یہ وجہ نہیں مانتے ہیں تو پھر ان کے بطلان کی کوئی دوسری وجہ بتا دیجیے۔

اب آتے ہیں "یخرجان بعدی" میں لفظ "بعد" کی جانب:
علامہ کرمانیؒ فرماتے ہیں:
(يخرجان) أي يظهران شوكتهما ودعواهما النبوة وإلا فقد كانا في زمنه أو المراد بعد دعوى النبوة أو بعد ثبوت نبوتي
(الکواکب الدراری، 14۔182، ط: دار احیاء التراث)
"یعنی اپنی شوکت اور اپنا نبوت کا دعوی ظاہر کریں کریں گے ورنہ وہ تھے تو نبی ﷺ کے زمانے میں، یا مراد یہ ہے کہ نبوت کے دعوے یا میری نبوت کے ثبوت بعد (دعوی کریں گے۔۔۔مترجم)"

علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
قال العلماء المراد بقوله صلى الله عليه وسلم يخرجان بعدي أي يظهران شوكتهما أو محاربتهما ودعواهما النبوة وإلا فقد كانا في زمنه
شرح النووي على مسلم (15/ 34)
"علماء نے کہا ہے کہ یخرجان بعدی کے قول سے نبی کریم ﷺ کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنی شوکت یا لڑائی اور اپنا نبوت کا دعوی آپ ﷺ کے بعد ظاہر کریں گے ورنہ وہ آپ کے زمانے میں تھے۔"

علامہ عراقیؒ نے بھی علامہ نوویؒ کے قول کو ذکر کیا ہے:
قد يقتضي خلاف ذلك والجمع بينهما أن المراد بخروجها بعده ظهور شوكتهما ومحاربتهما قال النووي قال العلماء المراد بقوله - صلى الله عليه وسلم - «يخرجان بعدي» أي يظهران شوكتهما ومحاربتهما ودعواهما النبوة وإلا فقد كان في زمنه.
طرح التثريب في شرح التقريب (8/ 218)

حافظ ابن حجرؒ نے علامہ نوویؒ کے قول کو ذکر کرنے کے بعد اس پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اسود عنسی نے اپنا دعوی حضور ﷺ کے دور میں ظاہر کر دیا تھا اس لیے اس کی انہوں نے دو وجہیں بیان کی ہیں:
فإما أن يحمل ذلك على التغليب وإما أن يكون المراد بقوله بعدي أي بعد نبوتي
فتح الباري لابن حجر (12/ 424)
"اسے یا تو تغلیب (دو افراد میں سے ایک کی حالت کے مطابق دوسرے کو اس کے ضمن میں کرنا کما فی مختصر المعانی۔۔۔۔ مترجم) پر محمول کیا جائے گا اور یا آپ کے قول "بعدی" سے آپ کی مراد "میری نبوت کے بعد" ہے۔"

علامہ عینیؒ نے فرمایا ہے:
قلت: معنى قوله بعدي: يعني بعد ثبوت نبوتي، أو بعد دعواي النبوة.
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (16/ 151)
"میں کہتا ہوں: ان کے ارشاد "بعدی" کا معنی ہے میری نبوت کے ثبوت کے بعد یا میرے نبوت کے دعوے کے بعد۔"

قسطلانیؒ نے بھی حافظ ابن حجرؒ کے قول کو ذکر کیا ہے:
(يخرجان بعدي) استشكل بأنهما كانا في زمنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-. وأجيب: بأن المراد بخروجهما بعده ظهور شوكتهما ومحاربتهما ودعواهما النبوة. نقله الإمام النووي عن العلماء. قال الحافظ ابن حجر: وفيه نظر لأن ذلك كله ظهر للأسود بصنعاء في حياته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فادعى النبوة وعظمت شوكته وحارب المسلمين وفتك فيهم وغلب على البلدان وآل أمره إلى أن قتل في حياته عليه الصلاة
والسلام كما مرّ، وأما مسيلمة فكان ادعى النبوة في حياته -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لكن لم تعظم شوكته ولم تقع محاربته إلا في زمن الصديق، فأما أن يحمل ذلك على التغليب أو أن المراد بقوله بعدي أي بعد نبوتي.
شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (6/ 66)

مبارکپوریؒ نے حافظ ابن حجرؒ کے قول کو ذکر کیا ہے:
قال الحافظ هذا ظاهر في أنهما كانا حين قص الرؤيا موجودين وهو كذلك لكن وقع في رواية بن عباس يخرجان بعدي والجمع بينهما أن المراد بخروجهما بعده ظهور شوكتهما ومحاربتهما ودعواهما النبوة
نقله النووي عن العلماء وفيه نظر لأن ذلك كله ظهر للأسود بصنعاء في حياته صلى الله عليه وسلم فادعى النبوة وعظمت شوكته وحارب المسلمين وفتك فيهم وغلب على البلد وآل أمره إلى أن قتل في حياة النبي صلى الله عليه وسلم كما قدمت ذلك واضحا في أواخر المغازي
وأما مسيلمة فكان ادعى النبوة في حياة النبي صلى الله عليه وسلم لكن لم تعظم شوكته ولم تقع محاربته إلا في عهد أبي بكر
فإما أن يحمل ذلك على التغليب وإما أن يكون المراد بقوله بعدي أي بعد نبوتي
تحفة الأحوذي (6/ 471)

میرا خیال ہے کہ اتنے حوالے کافی ہیں۔ ان سب سے چار معانی معلوم ہوتے ہیں:

  1. انہوں نے شوکت بعد میں ظاہر کی۔
  2. تغلیباً اسود عنسی کو مسیلمہ کے تابع کیا گیا اور اس نے شوکت بعد میں ظاہر کی۔
  3. نبی ﷺ کے دعوائے نبوت کے بعد۔
  4. نبی ﷺ کی نبوت کے ثبوت کے بعد۔
راقم کی رائے میں آخری دو معانی راجح ہیں کیوں کہ ان دونوں نے نبی کریم ﷺ کے دعوائے نبوت کے بعد اور ثبوت نبوت کے بعد دعوی کیا تھا اور آپ ﷺ کے دعوائے نبوت کے بعد کسی کا نبوت کا دعوی مقبول نہیں چاہے وہ آپ ﷺ کی زندگی میں ہو یا آپ کے بعد۔

دوسری بات آپ نے پوچھی فلا کسری بعدہ سے متعلق تو میں عرض کرتا ہوں کہ میں اس کے معنی میں فی الحال آپ کی بات تسلیم کر لیتا ہوں کہ اس کا مطلب ہے "ایسی شان والا" کسری دوبارہ نہیں آئے گا۔
لیکن کیا نبی کریم ﷺ کی حدیث لا نبی بعدی میں بھی یہی مراد ہے کہ "میری جیسی شان والا" نبی میرے بعد نہیں آئے گا؟ آپ نے فرمایا:
تو یہاں بعد کے معنی ہوئے اس شان والا ۔ لہذا اس لحاظ سے لا نبی بعدی کے معنی ہوئے کہ میرے جیسی شان والا نبی نہیں آئے گا۔
عرض ہے کہ پھر یہ ایک لنک ہے جس میں صرف تیس مدعیان نبوت کے نام ہیں۔ آپ ذرا تعیین فرما دیں کہ کون کون سا ان میں سے نبی کریم ﷺ جیسی "شان والا نبی" تھا اور کس شان میں آپ ﷺ کی مثل تھا؟ اور کون کون سا ایسی شان والا نبی نہیں تھا اور آپ اس کے نبی ہونے پر ایمان لانا پسند فرماتے ہیں کیوں کہ آپ کے نزدیک نہ وہ تشریعی ہے اور نہ آپ ﷺ جیسی شان والا!
ہم بھی دیکھنا چاہیں گے کہ امت محمدیہ میں کون کون سا نبی آ چکا ہے۔

آگے صرف اتمام بحث کے لیے مرزا قادیانی کا ذکر دوبارہ کر دوں کہ اس نے تو خود میں نبی ﷺ، عیسیؑ، مریمؑ اور نہ جانے کس کس کو داخل کر کے وہ دعوے کیے ہیں جو نبی ﷺ نے نہیں فرمائے تھے۔ یعنی اس نے اپنی شان نبی ﷺ سے بڑھانے کی کوشش کی ہے اور اس حدیث کے "آپ کے بیان کردہ معانی" کی رو سے بھی وہ نبی نہیں بنتا۔

حجّت تو تمام ہو گئی ہے ۔اب تسلیّ ہو گئی ہو تو بتائیں ورنہ انشاء اللہ اور کلام کروں گا۔
جناب والا! حجت تمام تب ہوتی ہے جب دلیل دعوے اور مثال ممثل لہ کے مطابق ہو۔ "مد مقابل" کی دلیل میں "غیر" پیش کرکے حجتیں تو ہوتی ہیں لیکن حجت تمام نہیں ہوتی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
’بعد ‘کے معانی جو میں نے کئے تھے انکو لغت تفسیر و حضرت شاہ دہلوی ؒ صاحب کے حوالہ جات سے ثابت کرنے کے’ بعد‘ میں آپ کی اس پوسٹ کے پہلے مسئلہ کو لیتا ہوں۔
اسکین باقی ہے۔۔۔۔۔! اور بات بھی۔۔۔۔!

1) سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جو آیت آپ نے پیش کی وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ اس میں فعل مجہول ’’حُرّمَ‘‘ استعمال ہوا ہے ۔ جسکا فاعل معلوم نہیں کون ہے ۔ اگر اللہ کی حرام کردہ کو حلا ل کرنے کی بات ہوتی تو فرمانا چاہیے تھا کہ ’ ’ بعض الذی حرّم اللہ علیکم ‘‘ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ تو جس طرح آپ نے توجیح فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ہے و اللہ نے حرام کیا (سورۃ النساء:160) ۔ مجھے بتائیں مجھے کیا چیز مانع ہے کہ میں اس سے مراد یہود نہ لوں؟؟ جبکہ آلِ عمران :۹۳ میں واضح لکھا ہے کہ اسرائیل نے خود اپنے اوپر بھی کچھ چیزیں حرام کر لیں تھیں ۔ کیونکہ فعل مجہول کا فاعل تو کوئی بھی ہو سکتا ہے آپ اس سے مراد اللہ کو لیں میں اس سے مراد یہود کو لیتا ہوں۔
میں بالکل آپ کے انداز میں کہتا ہوں: اگر بنی اسرائیل کی حرام کردہ کو حلال کرنے کی بات ہوتی تو فرمانا چاہیے تھا کہ "بعض الذی حرمتم علیکم" جب کہ ایسا نہیں ہے۔
بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تحریم کے لیے اسی طرح اللہ پاک نے لفظ مجہول ذکر کیا ہے جہاں حرام کرنے والے قطعی طور پر اللہ پاک ہی ہیں:
1۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا
2۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ
3۔ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
4۔ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
5۔ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ
6۔ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ

میر اخیال ہے کہ ان میں سے کسی ایک جگہ بھی تحریم کی نسبت کسی اور کی جانب ثابت نہیں کی جا سکتی۔ معلوم ہوا کہ یہ تو قرآن کریم کا طرز کلام ہے کہ وہ کبھی تحریم کی نسبت اللہ پاک کی جانب صراحتاً کرتا ہے اور کبھی صیغہ مجہول لاتا ہے لیکن مراد اللہ پاک کی تحریم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب کسی خاص بندے کی تحریم کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو اس کی جانب نسبت کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی طرح صیغہ مجہول آیا ہے اور نسبت اللہ پاک کی جانب ہے۔ آپ اگر اس سے مراد یہود کو لیتے ہیں تو ذرا دکھائیں تو کہ قرآن کریم میں کتنی جگہوں اللہ پاک نے مخاطبین کی جانب تحریم کی نسبت کو صیغہ مجہول سے ذکر کیا ہے؟؟؟

2)پس واضح ہو جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا کہ بعض علماء نے اسکی تاویل کی ہے کہ وہ چیزیں یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لی تھیں۔ انہیں کو حضرت عیسی ٰ ؑ نے آ کر حلال کر دیا تھا ۔ اسکی تائید ذیل کی آیت سے ملتی ہے۔
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ(سورۃ آل عمران :93)
ترجمہ :تمام کھانے بنی اسرائیل پر حلال تھے سوائے ان کے جو خود اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کر لئے پیشتر اس کے کہ تورات اتاری جاتی۔ تُو کہہ دے کہ تورات لے آؤ اور اسے پڑھ (کر دیکھ) لو، اگر تم سچے ہو۔
تو اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل دی کہ ہم نے تو توراۃ میں انکی حرمت نہیں بیان کی ۔ تم تو راۃ سے ثابت کرو کہ کہاں ان کی حرمت بیان ہوئی ہے ؟؟۔
علاّمہ زمخشری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب ؑ کو بیماری لاحق ہوئی اور انہوں(1) نذر مانگی کہ اگر میں ٹھیک ہو گیا تو یہ چیزیں نہ کھاؤں گا(2) یا اطباء نے مشورہ دیا کہ ان کو استعمال نہ کریں ۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو بعد میں یہود نے ان کو اس طرح حرام قرار دینا شروع کر دیا گویا وہ خدا نے حرام کی ہوں۔ (دیکھو تفسیر الکشاف زیر آیت ھذا)

تو حضرت عیسیٰ ؑ نے وہی حلا ل کیا جو خدا تعالیٰ نے نہیں بلکہ جو یہود نے خود اپنے آپ پر حرام کر لیا ۔ اسلئے شریعت موسوی کا کچھ بھی نسخ نہ کیا۔
علامہ زمخشریؒ صرف اتنا ہی نہیں فرماتے بلکہ اس سے آگے بھی فرماتے ہیں:
وهو رد على اليهود وتكذيب لهم، حيث أرادوا براءة ساحتهم مما نعى عليهم في قوله تعالى: (فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ طَيِّباتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ) إلى قوله تعالى (عَذاباً أَلِيماً) وفي قوله: (وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما) إلى قوله: (ذلِكَ جَزَيْناهُمْ بِبَغْيِهِمْ) وجحود ما غاظهم واشمأزوا منه وامتعضوا «2» مما نطق به القرآن من تحريم الطيبات عليهم لبغيهم وظلمهم، فقالوا: لسنا بأوّل من حرّمت عليه، وما هو إلا تحريم قديم، كانت محرّمة على نوح وعلى إبراهيم ومن بعده من بنى إسرائيل وهلم جرا، إلى أن انتهى التحريم إلينا، فحرمت علينا كما حرمت على من قبلنا. وغرضهم تكذيب شهادة اللَّه عليهم بالبغي والظلم والصدّ عن سبيل اللَّه وأكل الربا وأخذ أموال الناس بالباطل، وما عدّد من مساويهم التي كلما ارتكبوا منها كبيرة حُرم عليهم نوع من الطيبات عقوبة لهم قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْراةِ فَاتْلُوها أمر بأن يحاجهم بكتابهم ويبكتهم مما هو ناطق به من أن تحريم ما حرّم عليهم تحريم حادث بسبب ظلمهم وبغيهم، لا تحريم قديم كما يدعونه،
تفسير الزمخشري = الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (1/ 385)
"یہ یہود پر رد اور ان کی تکذیب ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس صفت سے بری کرنا چاہا جو اللہ تعالی کے اس ارشاد میں ان کے بارے میں بیان ہوئی (یہود کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر حرام کر دیں وہ پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں) اللہ پاک کے اس ارشاد تک (دردناک عذاب ہے) اور اللہ پاک کے اس ارشاد میں بیان ہوئی ہے (اور یہود پر ہم نے حرام کر دیے تمام جانور ناخنوں والے اور گائے اور بکریوں میں سے ان پر ہم نے ان کی چربیاں حرام کر دیں) اس ارشاد تک (یہ ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی سزا دی)، اور (انہوں نے چاہا) اس چیز کا انکار کرنا جس نے انہیں غصے میں ڈالا اور جس سے وہ غضبناک اور تنگ ہوئے جو کہ قرآن بتاتا ہے یعنی ان پر ان کی سرکشی اور طلم کی وجہ سے پاکیزہ چیزوں کا حرام کرنا، تو انہوں نے کہا: "ہم کوئی پہلے تھوڑی ہیں جن پر یہ حرام ہوئی ہیں، یہ تو پرانی حرام کردہ ہیں۔ یہ نوح، ابراہیم اور ان کے بعد والے بنی اسرائیل وغیرہ پر بھی حرام تھیں حتی کہ یہ تحریم ہم تک چلتی آئی ہے اور ہم پر اسی طرح حرام ہوئی ہیں جیسے پہلے والوں پر تھیں۔" اور ان کی غرض اللہ کی ان پر سرکشی، ظلم، اللہ کے راستے سے روکنا، سود خوری، لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے اور دوسری برائیوں کی شہادت کی تکذیب کرنا تھی، وہ برائیاں جن میں سے ہر ایک جو وہ کرتے تھے ایسی بڑی برائی ہوتی تھی کی اس کی سزا میں ان پر پاکیزہ چیزوں میں سے کوئی قسم حرام کر دی جاتی تھی۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم تورات لاؤ اور اسے پڑھو: حکم دیا کہ ان سے ان کی کتاب کے ذریعے مباحثہ کیجیے اور اس چیز سے انہیں چپ کروا دیجیے جس پر وہ کتاب بولتی ہے یعنی ان پر حرام کردہ چیزوں کی تحریم بعد میں ہوئی ہے ان کے ظلم اور سرکشی کے سبب سے نہ کہ پرانی تحریم ہے جیسے کہ یہ دعوی کرتے ہیں۔"
معلوم ہوا کہ یہ تحریم ان کی کتاب میں موجود تھی جو تحریم حضرت یعقوبؑ نے خود پر اور اپنی اولاد پر کی تھی۔ یہ تفسیر اور بھی بہت سے حضرات نے کی ہے۔ اب جب یہ حرام شدہ چیزیں عیسیؑ نے حلال کرنا چاہیں تو وہ کیا ہوئے؟ تشریعی یا غیر تشریعی؟

3)میں آپ کی بات مان بھی لوں کہ ’’حُرّم‘‘ میں اللہ تعالیٰ ہی فاعل ہے اوراللہ ہی نے حرام قرار دیا تھا تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی حرمت شریعت موسوی میں ہی بیان ہوئی تھی ؟ اسکا کیا ثبوت دیں گے؟
یعنی آپ یہ مان سکتے ہیں کہ ان کی حرمت یہود پر ہوئی تھی اللہ پاک کی جانب سے اور اس چیز کی دلیل مانگ رہے ہیں کہ یہ تحریم شریعت موسوی میں ہی ہوئی تھی؟؟!!
بھائی جان! آپ کے مطابق غیر تشریعی پیغمبر نسخ نہیں کر سکتا اور آپ کے ہی مطابق موسیؑ کے بعد کوئی تشریعی پیغمبر بنی اسرائیل میں آیا نہیں۔ اب دو ہی طریقے ہیں:

  1. یا تو یہ تحریم تورات میں تھی جیسا کہ علامہ زمخشریؒ نے فرمایا ہے۔
  2. اور یا یہ پہلے سے ہوئی تھی اور اس کا مطلب ہوا کہ تورات نے اس تحریم کو یہود پر باقی رکھا تھا یعنی یہ بھی تورات کی ہی تحریم ہوئی۔
بہر دو صورت عیسیؑ نے اس تحریم کو منسوخ کیا اپنی تحلیل کے ذریعے۔

4) علاّمہ مودودی نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے ۔فرماتے ہیں :

’’رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا ( ہم نے حرام کیا ) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے ۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان پر طیبات کو حرام کر دیں ۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے ۔‘‘(زیر آیت سورۃ الانعام:146)

یہ تفسیر اسلاف کی تمام تفاسیر سے ہٹ کر ایک شاذ تفسیر ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہود مدینہ کے اوپر ایسی کوئی اور قوم حکمران تھی جو ایسے قانون بناتی۔ان کی اپنی معیشت اور اپنا نظام تھا اور بطور اہل کتاب ان کی عزت کی جاتی تھی۔ لہذا یہ تفسیر درست نہیں۔

میرا خیال ہے اتنے دلائل کافی ہیں۔ باقی اگر ضرورت ہوئی تو اور انشاء اللہ ۔
بہرحال ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ عیسیٰ ؑ تشریعی نہ تھے بلکہ شریعت موسوی ؑ کے پیرو تھے ۔ اور یہ عقیدہ با دلیل اب بھی کھڑا ہے ۔
آپ نے چار دلائل دیے۔ ان کے جوابات یوں دیے گئے:

  1. صیغہ مجہول سے اللہ پاک کو مراد نہ لینا اور یہود کو مراد لینا خود قرآن کے طرز کے خلاف ہے۔
  2. یعقوبؑ کی حرام کردہ چیزوں کا ذکر تورات میں موجود تھا، (اور اگر نہ تھا تب بھی یعقوبؑ نبی تھے اور اس وجہ سے ان کی تحریم ان کی اولاد پر لازم تھی جسے تورات نے رد نہیں کیا)۔
  3. حرمت یہود پر تھی جو کہ یا تو تورات میں اصلاً تھی اور یا پہلے کے حکم کو باقی رکھ کر تھی ورنہ یہود پر کیسے ہوتی؟
  4. مودودیؒ کی یہ تفسیر درست نہیں۔
لہذا آپ کا عقیدہ تو اب بھی کھڑا ہے لیکن بلا دلیل اور بے سہارا۔ مزید سہارے اور دلائل لائیے!
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
آپ کا موقف "غیر" کا نہیں تھا۔ اور غیر کا معنی لازمی طور پر "مد مقابل" نہیں ہوتا۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ جب بھی کسی کو دوسرے کا "غیر" کہا جائے تو اس کا مطلب ہو "مد مقابل" اور "مخالف"۔
یعنی لازمی طور پر نہ سہی پھر بھی آپ یہ مانتے ہیں غیر کے معنی مخالف اور مدّ مقابل ہو سکتا ہے ؟؟
اشماریہ صاحب آپ علم دوست آدمی معلوم ہوتے ہیں جو اتنی محنت سے آیات لائے ہیں۔ لیکن یہ بتائیں کہ خاکسار نے کب کہا کہ غیر کے معانی لازماً اور ہر جگہ مخالف اور مدّ مقابل کے ہوتے ہیں؟؟ اگر نہیں کہا تو اتنی محنت کر کے آیات کے حوالہ جات دینے کی کیا ضرورت تھی۔ آپکا وقت اکارت گیا ۔

خاکسار نے مفردات امام راغبؒ کا حوالہ دیا تھا کہ اسے بھی دیکھ لیں ۔ آپ نے اسے فراموش کر دیا۔ امام نے غیر کے ’اصلی ‘معانی بیان کرتے ہوئے متغائرین بمعنی مختلفین لیا ہے ۔ فرماتے ہیں۔ (نوٹ کر لیں کہیں مجازاً نہیں فرمایا)
’’اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر جگہ مختلفین کو متغائرین کہا جا سکتا ہے ‘‘
مخالف ہونا تو ثابت ہو ا چاہتا ہے لیکن آپ اب بھی نہ مانیں تو کوئی ایسی بات نہیں ۔

جہاں تک دون کی آپ نے لغوی بحث ارسال فرمائی وہ بھی بڑی محنت کی آپ نےچلیں حوالہ پیش کر دیتا ہوں شائد افاقہ ہو۔
دون کے معانی ہم آپ کے بیان کردہ مان لیں:

تب بھی اس کے معنی میں "مد مقابل" کا کوئی معنی نہیں ہے۔
امین احسان اصلاحی صاحب نے اس آیت کے معانی مندرجہ ذیل کئے ہیں۔
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا(سورۃ الکہف: 18)
یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کے مقام پر پہنچا تو اس نے اس کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا ، جس کیلئے آفتاب کے بالمقابل ہم نے کوئی پردہ نہیں رکھا تھا ۔
اور یہ لیں مدّ مقابل بھی آ گیا۔ اب یہ نہ کہہ دینا کہ یہاں ’بالمقابل‘ آیا ہے مدّ مقابل نہیں۔

امید ہے اب آپ اتنا تو مان جائیں گے کہ بعد کبھی کبھی ان معانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ لازمی نہیں کہ ہر جگہ ہو۔
اگر افاقہ نہیں ہوا تو بتائیں خاکسارحاضر ہے ۔
لیکن پھرآپ سے اصرار کرتا ہوں کہ اپنا مؤ قف ’خاتم‘ کے بارہ میں بتائیں کہ کیا آپ امام راغب ؒ کی تشریح پر راضی ہیں ؟؟۔
اور علمائے سلف کے خاتم کے متعلق خیالات کو آپ کیسے ردّ فرمائیں گے ؟
نیز لا نبی بعدی کے متعلق جو علماء کے بیانات ہیں انکو آپ کیا سمجھیں گے ؟
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
اسکین باقی ہے۔۔۔۔۔! اور بات بھی۔۔۔۔!

آپ نے چار دلائل دیے۔ ان کے جوابات یوں دیے گئے:
  1. صیغہ مجہول سے اللہ پاک کو مراد نہ لینا اور یہود کو مراد لینا خود قرآن کے طرز کے خلاف ہے۔
  2. یعقوبؑ کی حرام کردہ چیزوں کا ذکر تورات میں موجود تھا، (اور اگر نہ تھا تب بھی یعقوبؑ نبی تھے اور اس وجہ سے ان کی تحریم ان کی اولاد پر لازم تھی جسے تورات نے رد نہیں کیا)۔
  3. حرمت یہود پر تھی جو کہ یا تو تورات میں اصلاً تھی اور یا پہلے کے حکم کو باقی رکھ کر تھی ورنہ یہود پر کیسے ہوتی؟
  4. مودودیؒ کی یہ تفسیر درست نہیں۔
لہذا آپ کا عقیدہ تو اب بھی کھڑا ہے لیکن بلا دلیل اور بے سہارا۔ مزید سہارے اور دلائل لائیے!
مولانا صاحب
جزاکم اللہ احسن الجزاء ۔
آپ کے جواب سے میرے دلائل ٹوٹنے نظر نہیں آتے ۔
میر اخیال ہے کہ ان میں سے کسی ایک جگہ بھی تحریم کی نسبت کسی اور کی جانب ثابت نہیں کی جا سکتی۔ معلوم ہوا کہ یہ تو قرآن کریم کا طرز کلام ہے کہ وہ کبھی تحریم کی نسبت اللہ پاک کی جانب صراحتاً کرتا ہے اور کبھی صیغہ مجہول لاتا ہے لیکن مراد اللہ پاک کی تحریم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب کسی خاص بندے کی تحریم کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو اس کی جانب نسبت کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی طرح صیغہ مجہول آیا ہے اور نسبت اللہ پاک کی جانب ہے۔
یہ بتائیں کہ یہ اصول اور قاعدہ آپ نے کیسے بنا لیا؟۔صرف آپ کے کہنے سے تو میں ماننے والا نہیں ۔ قرآن کی کسی معتبر تفسیر یا لغت یا کسی بزرگ کا قول ہی لا دی جئے ۔

یعقوبؑ کی حرام کردہ چیزوں کا ذکر تورات میں موجود تھا، (اور اگر نہ تھا تب بھی یعقوبؑ نبی تھے اور اس وجہ سے ان کی تحریم ان کی اولاد پر لازم تھی جسے تورات نے رد نہیں کیا)۔
علاّمہ زمخشری نے بھی فرمایا ہے کہ یہ حکم خدا تعالیٰ کے حکم کی طرح سمجھ لیا گیا۔ جسے آپ بھی مانتے ہیں ۔ اب دیکھیں مودودی ؒ صاحب کہتے ہیں:
’’ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے : ایک یہ کہ نزول توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام ( اسرائیل ) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی ، حتٰی کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت توراۃ میں لکھ لی ۔ ان اشیاء میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں ۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ( احبار ٤:۱۱ – ٦ – استثناء ۷:۱٤ ) ۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے ۔ دوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا ۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مرغ ، قاز ، بط وغیرہ ۔ دوسرے گائے اور بکری کی چربی ۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے ۔ ( احبار ۱٦:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱٤:۱٤ – ۱۵ – ۱٦ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳ )‘‘
یعنی توراۃ میں یہودیوں نے لکھا ۔ نہ کہ صاحب شریعت موسیٰ ؑ نے ۔ نہ ہی یہ حکم توراۃ میں اللہ تعالیٰ نے اتارا تو حجت کیا رہ گئی ؟

لیکن یہاں ایک غلط بیانی آپ نے کر دی :
بھائی جان! آپ کے مطابق غیر تشریعی پیغمبر نسخ نہیں کر سکتا
میں نے بیان یہ کیا تھا کہ غیر شرعی نبی جس شریعت کے وہ تابع ہوتا ہے اسکے احکامات کو نسخ نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے ۔
عیسیٰؑ یعقوب ؑ کے تابع نہیں موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع تھے ۔ جب صاحب شریعت موسیٰ ؑ نے توراۃ میں نہ لکھا ۔ بلکہ یہود نے خود ہی لکھ لیا۔ وہ بھی توراۃ سے پہلے کا حکم جو صاحب ِ شریعت کا نہیں ۔ تو عیسیٰ ؑ اگر اسے منسوخ کر بھی دے تو شریعتِ موسوی کے تو کسی حکم کو منسوخ نہ کیا ۔فتدبرو یا اولی الابصار

حرمت یہود پر تھی جو کہ یا تو تورات میں اصلاً تھی اور یا پہلے کے حکم کو باقی رکھ کر تھی ورنہ یہود پر کیسے ہوتی؟
یہ اگر معقول فقرہ ہے تو سمجھا دیں کہ اسکا مطلب کیا ہے ؟ ۔ اگر یہود خود پر ہی کوئی چیز حرام کر لیں گے تو انہیں پر ہو گی نہ جناب ۔ مسلمانوں پر یا ہندؤوں پر ہونے سے تو رہی ۔

یہ تفسیر اسلاف کی تمام تفاسیر سے ہٹ کر ایک شاذ تفسیر ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہود مدینہ کے اوپر ایسی کوئی اور قوم حکمران تھی جو ایسے قانون بناتی۔ان کی اپنی معیشت اور اپنا نظام تھا اور بطور اہل کتاب ان کی عزت کی جاتی تھی۔ لہذا یہ تفسیر درست نہیں۔
تفسیر درست آپ کے نزدیک نہیں ۔ جمیعت کے سارے علماء اس سے متفق ہیں آپ اس سے اتفاق کریں نہ کریں ۔
تفسیر منار میں بھی صاحبِ تفسیر نے حضرت عیسیٰ ؑ کو شریعت ِ موسوی کا تابع قرار دیا ہے جسکا حوالہ غالباً مودودی صاحب نے بھی دیا ہے ۔
پتہ نہیں میرے دلائل میں سے آپ نے توڑا کیا ہے ۔

بہرحال بحث کو اصل مرجع کی طرف واپس لاتے ہیں ۔ اب آپ یہ تو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ امت میں ایک گروہ ایسا موجود ہے جو حضرت مسیح ؑ کو شریعت ِ موسوی کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ مستقل شرعی نبی ۔
یا وہ بھی نہیں۔
اب یہ بتائیں کہ خاتم کے معانی مفردات والے درست ہیں ؟ علماء کی رائے خاتم کے بارہ میں درست ہے ؟لانبی بعدی کی تشریح علماء سلف کی درست ہے ؟؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یعنی لازمی طور پر نہ سہی پھر بھی آپ یہ مانتے ہیں غیر کے معنی مخالف اور مدّ مقابل ہو سکتا ہے ؟؟
اشماریہ صاحب آپ علم دوست آدمی معلوم ہوتے ہیں جو اتنی محنت سے آیات لائے ہیں۔ لیکن یہ بتائیں کہ خاکسار نے کب کہا کہ غیر کے معانی لازماً اور ہر جگہ مخالف اور مدّ مقابل کے ہوتے ہیں؟؟ اگر نہیں کہا تو اتنی محنت کر کے آیات کے حوالہ جات دینے کی کیا ضرورت تھی۔ آپکا وقت اکارت گیا ۔
جناب والا! اس محنت کی وجہ یہ تھی کہ اب جب آپ غیر کے معنی میں وہ معنی اٹھا کر لائیں گے جسے اہل لغت شاذ و نادر کہیں ذکر کرتے ہیں تو اہل لغت سے یا اسلاف سے دلیل بھی لائیں گے کہ یہاں یہ شاذ معنی کیوں لیا گیا ہے اور کس نے لیا ہے؟ شاذ بھی آپ کا دل رکھنے کو کہا ہے ورنہ مجھے تو یہ کسی لغت میں نہیں ملا۔

خاکسار نے مفردات امام راغبؒ کا حوالہ دیا تھا کہ اسے بھی دیکھ لیں ۔ آپ نے اسے فراموش کر دیا۔ امام نے غیر کے ’اصلی ‘معانی بیان کرتے ہوئے متغائرین بمعنی مختلفین لیا ہے ۔ فرماتے ہیں۔ (نوٹ کر لیں کہیں مجازاً نہیں فرمایا)
’’اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر جگہ مختلفین کو متغائرین کہا جا سکتا ہے ‘‘
مخالف ہونا تو ثابت ہو ا چاہتا ہے لیکن آپ اب بھی نہ مانیں تو کوئی ایسی بات نہیں ۔
چلیں اب اپ کا یہ شوق بھی پورا کر دیں (مسکراہٹ)۔

غير يقال على أوجه:
الأول: أن تكون للنفي المجرد من غير إثبات معنى به، نحو: مررت برجل غير قائم. أي: لا قائم، قال: ومن أضل ممن اتبع هواه بغير هدى من الله [القصص/ 50] ، وهو في الخصام غير مبين [الزخرف/ 18] .
الثاني: بمعنى (إلا) فيستثنى به، وتوصف به النكرة، نحو: مررت بقوم غير زيد. أي: إلا زيدا، وقال: ما علمت لكم من إله غيري [القصص/ 38] ، وقال: ما لكم من إله غيره [الأعراف/ 59] ، هل من خالق غير الله [فاطر/ 3] .
الثالث: لنفي صورة من غير مادتها. نحو:
الماء إذا كان حارا غيره إذا كان باردا، وقوله:
كلما نضجت جلودهم بدلناهم جلودا غيرها [النساء/ 56] .
الرابع: أن يكون ذلك متناولا لذات نحو:
اليوم تجزون عذاب الهون بما كنتم تقولون على الله غير الحق [الأنعام/ 93] ، أي:
الباطل، وقوله: واستكبر هو وجنوده في الأرض بغير الحق [القصص/ 39] ،
أغير الله أبغي ربا [الأنعام/ 164] ، ويستخلف ربي قوما غيركم [هود/ 57] ، ائت بقرآن غير هذا [يونس/ 15] .
والتغيير يقال على وجهين:
أحدهما: لتغيير صورة الشيء دون ذاته. يقال:
غيرت داري: إذا بنيتها بناء غير الذي كان.
والثاني: لتبديله بغيره. نحو: غيرت غلامي ودابتي: إذا أبدلتهما بغيرهما. نحو: إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم [الرعد/ 11] .
والفرق بين غيرين ومختلفين أن الغيرين أعم، فإن الغيرين قد يكونان متفقين في الجواهر بخلاف المختلفين، فالجوهران المتحيزان هما غيران وليسا مختلفين، فكل خلافين غيران، وليس كل غيرين خلافين.
المفردات في غريب القرآن (ص: 618)
امام راغب اصفہانیؒ نے "غیر" کے چار معانی ذکر کیے ہیں:

  1. مطلقاً نفی کے لیے۔
  2. "الا" کے معنی میں۔
  3. مادہ کو ایک رکھتے ہوئے صورت کی نفی کے لیے۔
  4. کسی ذات کو شامل کرتے ہوئے۔
ایک معنی بھی آپ کی مرضی کا نہیں ہے (اور مجھے اس پر صدق دل سے افسوس ہے۔۔۔۔ مسکراہٹ)۔ لہذا آپ نے آخر میں مذکور عبارت اٹھائی:
والفرق بين غيرين ومختلفين أن الغيرين أعم، فإن الغيرين قد يكونان متفقين في الجواهر بخلاف المختلفين، فالجوهران المتحيزان هما غيران وليسا مختلفين، فكل خلافين غيران، وليس كل غيرين خلافين.
ترجمہ میں کر دیتا ہوں: " دو "غیر" چیزوں میں اور دو "مختلف" چیزوں میں فرق یہ ہے کہ "غیر" عام ہوتی ہیں۔ لہذا غیر کبھی جواہر میں متفق بھی ہوتی ہیں برخلاف مختلف کے۔ لہذا دو جوہر جگہ رکھنے والے غیر ہوتے ہیں لیکن مختلف نہیں ہوتے۔ سو ہر دو مختلف چیزیں غیر ہیں اور ہر دو غیر چیزیں مختلف نہیں ہیں۔"
یہاں مختلف کہا ہے بالکل اسی طرح جیسے میں آپ سے اور آپ رضا شاہ سے مختلف ہیں۔ اب آپ کی اور رضا کی شخصیت مختلف ہے لیکن کیا آپ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں؟ یا ایک دوسرے کے مد مقابل رہتے ہیں؟ یا آپ اور مصور ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں؟
لہذا یہاں "کچھ" بھی آپ کے مطلب کا نہیں ہے۔

امین احسان اصلاحی صاحب نے اس آیت کے معانی مندرجہ ذیل کئے ہیں۔
حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَىٰ قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَل لَّهُم مِّن دُونِهَا سِتْرًا(سورۃ الکہف: 18)
یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کے مقام پر پہنچا تو اس نے اس کو ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتے دیکھا ، جس کیلئے آفتاب کے بالمقابل ہم نے کوئی پردہ نہیں رکھا تھا ۔
اور یہ لیں مدّ مقابل بھی آ گیا۔ اب یہ نہ کہہ دینا کہ یہاں ’بالمقابل‘ آیا ہے مدّ مقابل نہیں۔
یار بھائی مدرسے میں آپ نے کیا پڑھا ہے؟ ایک تو پھر حوالہ ایسا کہ جسے یہاں قبول کیا جاتا ہے نہ آپ کے ہاں۔ دوسرا انہوں نے اردو میں بالمقابل لکھا ہے بامحاورہ ترجمہ کرنے کے لیے۔
آپ جس "مد مقابل" کی بات کر رہے ہیں وہ دوسرے کی مخالفت کرتا ہے:
اب تاریخی حقائق کو دیکھیں تو دونوں نے آنحضرت ﷺ کی مدّ مقابل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسود عنسی نے آنحضرت ﷺ کے خلاف فوج کھڑی کی ۔ حضور ؐ کے صحابی شہر بن باذان ؓ کو جو صنعاء پر حاکم مقرر کئے گئے تھے قتل کیا اور انکی بیوہ سے زبر دستی شادی کی ۔ حضر موت کے صحراء سے طائف اور بحرین تک اور دوسری طرف احساء سے عدن تک کے علاقہ پر تسلّط قائم کر لیا۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ اس نے رسول کریم ﷺ کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تھا۔
دوسری طرف مسلیمہ کو لے لیں۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قرآن کریم کی نقل میں مسجع عبارتیں تشکیل دینے لگا۔ اسی طرح اپنے ماننے والوں کی نماز معاف کر دی ۔ شراب زنا وغیرہ جائز کر دیا۔یہ ساری تعلیمات جو عملاً حضرت رسول کریم ﷺ کی شریعت کے خلاف تھیں انکی تنشیر کی ۔
یہاں جس پردے کی بات ہو رہی ہے وہ آفتاب کی مخالفت کرتا ہے اور اس سے لڑائی کرتا ہے؟؟؟ میرے بھائی اس پردے کو "چھت" کہتے ہیں اور چھت آفتاب کی مخالفت نہیں کرتی اس کے سامنے ہوتی ہے بس۔ سمجھے؟

عربی لغت کی تفہیم کے لیے عربی حوالہ عنایت فرمائیے! زبان کی تبدیلی سے انداز اور الفاظ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

امید ہے اب آپ اتنا تو مان جائیں گے کہ بعد کبھی کبھی ان معانوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ لازمی نہیں کہ ہر جگہ ہو۔
اگر افاقہ نہیں ہوا تو بتائیں خاکسارحاضر ہے ۔
عربی معنی کی عربی میں وضاحت کے لیے اردو تفسیر کا حوالہ دے کر کچھ زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہو رہے؟؟

لیکن پھرآپ سے اصرار کرتا ہوں کہ اپنا مؤ قف ’خاتم‘ کے بارہ میں بتائیں کہ کیا آپ امام راغب ؒ کی تشریح پر راضی ہیں ؟؟۔
اور علمائے سلف کے خاتم کے متعلق خیالات کو آپ کیسے ردّ فرمائیں گے ؟
نیز لا نبی بعدی کے متعلق جو علماء کے بیانات ہیں انکو آپ کیا سمجھیں گے ؟
اس سے تو فارغ ہوں۔ اس پر بھی بات کروں گا ان شاء اللہ۔
 
شمولیت
ستمبر 28، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
میں ان دونوں جوابات پر آپ کا شکرگزار ہوں۔


دوسرا مسئلہ اس میں ہے مرزا قادیانی کی نبوت کا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ قادیانی ہیں یا مسلمان لیکن چونکہ یہ ابحاث آج کل عموماً قادیانی چھیڑتے ہیں تو میں اس پر بات کرتا ہوں۔
مسئلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کو جہاد کو منسوخ کرنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لیے حرام ہے اب جنگ و قتال

ایک چیز جس کے وجوب و عدم وجوب کی بحث کی جا سکتی تھی اسے مرزا قادیانی نے "حرام" کر دیا۔
دونوں میں فرق سمجھیے! حرمت کے لیے دلیل قطعی چاہیے ہوتی ہے:
الخامس: التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا، أو هو طلب الترك مع المنع عن الفعل، لترتب العقاب على الفاعل، وأثره الحرمة، والمطلوب تركه والكف عن فعله هو الحرام۔۔۔
التحريم: وهو ما طلب الشارع تركه طلبًا جازمًا بدليل قطعي الثبوت قطعي الدلالة، مثل قتل النفس والزنا.
(الوجيز في اصول الفقه)

تحریم کی بھی دو قسمیں ہیں: تحریم لعینہ (جو خود کسی دلیل قطعی کی وجہ سے حرام ہو) اور تحریم لغیرہ (جو خود تو مباح ہو لیکن کسی اور چیز کی وجہ سے اس میں حرمت آ جائے)
جو چیز قرآن کریم کی دلیل قطی سے ثابت ہو اسے کسی وجہ سے وقتی طور پر منع تو کیا جا سکتا ہے لیکن مطلقاً حرام تب ہی کیا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف کوئی دلیل قطعی (یعنی قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ) موجود ہو۔ ایسی کوئی دلیل قطعی جہاد کی حرمت پر تو مرزا قادیانی اور قادیانی مذہب کے پیروکار کہیں سے بھی پیش نہیں کر سکتے تو پھر اسے مرزا نے "حرام" کیسے کر دیا؟ وہ یہ بحث کرتا کہ اس کے اسباب آج کل موجود نہیں ہیں، اس میں مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے، مسائل بہت ہیں وغیرہ اور ان وجوہات کی بنا پر اس قرآنی حکم پر اس زمانے میں عمل مشکل ہے یا نامناسب ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے کہ چلو یہ بشری کمزوری ہے یا کم از کم اجتہادی مسئلہ ہے۔
لیکن ایک جانب دعوائے نبوت اور دوسری جانب فعل تحریم! حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنا نسخ ہوتا ہے تو یہ نسخ کا فعل مرزا نے بھی کیا۔ اب اگر وہ صاحب تشریع نبی تھا تو قادیانی حضرات کی تاویلات کے خلاف ہے اور اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے اللہ پاک پر جھوٹ بول دیا کہ "دین کے لیے حرام ہے۔" نیز اگر وہ غیر صاحب تشریع نبی تھا تو اس نے قرآن کریم کے واضح حکم کی بھی مخالفت کر لی:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (المائدہ۔ 87)

مرزا قادیانی نے اس کام کے لیے حدیث میں واقع "یضع الحرب" کے الفاظ سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب یہ تو ہے کہ مسیح جنگ کو ختم کردے گا (یعنی دشمنوں کو ختم کر کے جنگ کے مواقع ختم کر دے گا) لیکن اس کا مطلب یہ کیسے بن گیا کہ مسیح جہاد کو "حرام" کر دے گا؟ حضرت مسیحؑ (اوریجنل والے، قادیان مارکہ نہیں) شریعت مصطفوی کو منسوخ نہیں کریں گے۔

دوسرے سوال کے جواب سے متعلق بات ان شاء اللہ رات کو کرتا ہوں۔
اب اس دوسرے مسئلہ کو لیتا ہوں۔
تحریم کی جو قِسمیں آپ نے گنوائی ہیں کے مطابق حضرت مرزا صاحب ؑ نے تحریم لغیرہ ہی فرمائی ہے نہ کہ تحریم لعینہ ۔ پھر جیسا کہ آپ نے فرمایا :
ہ یہ بحث کرتا کہ اس کے اسباب آج کل موجود نہیں ہیں، اس میں مسلمانوں کا نقصان ہو رہا ہے، مسائل بہت ہیں وغیرہ اور ان وجوہات کی بنا پر اس قرآنی حکم پر اس زمانے میں عمل مشکل ہے یا نامناسب ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے کہ چلو یہ بشری کمزوری ہے یا کم از کم اجتہادی مسئلہ ہے۔
حضرت مرزا صاحب ؑ نے بعینہ یہی بحث فرمائی ۔ لگتا ہے آپ نے مطالعہ نہیں کیا اور صرف ایک شعر کو ہی لے کر بھاگ پڑے۔ اور جیسا آپ نے فرمایا حضرت مرزا صاحب ؑ نے جہاد کے وجوب و عدم وجوب پر ہی بحث فرمائی تھی ۔ملاحظہ ہو:
جہاد کے لغوی معنی:
جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔ (تاج العروس)
مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘ (سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ ۲۱۰ طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر۱)​
جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ نفس اور شیطان کے خلاف جہاد ۲۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ ۳۔جہاد بالمال ۴۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)
نفس اور شیطان کے خلاف جہاد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
’’تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے‘‘۔(کنز العمال۔ کتاب الجہاد فی الجہاد الاکبر من الاعمال جلد۴حدیث۱۱۲۶۰۔ مطبوعہ مکتبہ التراث الاسلامي حلب)​
جماعت احمدیہ کے افراد اس جہادمیں بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔
۱۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:۔
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا‘‘ (زندہ رود۔ صفحہ۵۷۶از ڈاکٹر جاوید اقبال)​
۲۔ مقبول الرحیم مفتی روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں:۔
’’جماعت احمدیہ کے اندر اہل، باصلاحیت اور محنتی افراد ہونے کا ایک سبب بلکہ اہم ترین سبب یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران ہر سطح پر ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کر کے اپنی جماعت اور جماعت کے افراد کی اصلاح و فلاح کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش و محنت کی ہے‘‘۔(روزنامہ مشرق۔ احمدی مسلم کشمکش کا حل مخاصمت یا مکالمہ از مقبول الرحیم مفتی ۲۴ فروری۱۹۹۴ء)​
۳۔ شیخ محمد اکرم صاحب ایم اے لکھتے ہیں:۔
’’ان (مسلمانوں۔۔۔ ناقل) کے مقابلے میں احمدیہ جماعت میں غیرمعمولی مستعدی، جوش، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کاعلاج ان کے پاس ہے‘‘۔ (موج کوثر۔ صفحہ۱۹۲)​
جہاد بالقرآن

اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا کَبِيْرًا‏ (الفرقان:۵۳)
ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔
جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
۱۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے لکھا:۔
’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں‘‘ (اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء)​
۲۔ حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:۔
’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ۱۰۔ ۲ مارچ۱۹۵۶ء)​
۳۔ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروز پوری بعنوان ’’دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ‘‘ لکھتے ہیں:
’’قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ بیوی ، بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤوں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ اہلحدیث لاہور ۱۱ ستمبر ۱۹۹۲ء۔ صفحہ ۱۱۔۱۲)​
۴۔ جناب عبد الحق صاحب بھریا روڈ سندھ اپنے مضمون ’’علمائے اسلام سے گذارش‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر، درس احادیث، حمد و نعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصا عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں‘‘۔ (ہفت روزہ الاعتصام ۲۴جنوری۱۹۹۷ء۔ جلد۴۹۔ شمارہ نمبر۴۔ صفحہ۱۷)​
۵۔ مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔‘‘ (ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر ۲۔ شمارہ ۴۷۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر؁ ۲۰۰۰ء ۔ صفحہ ۳۱)​
جہاد بالمال

اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے
وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ‌ؕ (التوبہ:۴۱)
ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی ایک بے مثال اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔
۱۔ عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنیر فیصل آباد نے لکھا:۔
’’ان (جماعت احمدیہ) کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر۲مارچ۱۹۵۶ء۔ صفحہ۱۰)​
۲۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’ہر قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے قادیانی جماعت کو دیتا ہے، ہزاروں افراد اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کے لئے وصیت کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۵لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے T.V لیا ہوا ہے۔ ۲۴گھنٹے T.V چینل چلتا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں‘‘۔( ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد۲۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر۲۰۰۰ء۔ شمارہ ۴۷۔ صفحہ۳۱)​
۳۔ مسلک اہل حدیث کا ترجمان ہفت روزہ الاعتصام لکھتا ہے:۔
’’ایک تجزےے کے مطابق دنیا میں موجود ہر قادیانی اپنی ماہوار آمدنی کا دس فیصد رضاکارانہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ پر صرف کرتا ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت پر خرچ کرنا اس کے علاوہ ہے انہی ماہانہ فنڈز کی بدولت اس وقت ایک مستقل T.V اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاچکا ہے جس سے چوبیس گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے‘‘۔(اداریہ از حافظ عبد الوحید۔ الاعتصام ۱۱ فروری ۲۰۰۰ء۔ جلد۵۲۔ شمارہ ۵۔ صفحہ۴)​
جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ

جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ‏ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ؕ (الحج:۴۰۔۴۱)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔ چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا‘‘(فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۲۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)​
مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
’’۱۔ امارت ۲۔ اسلامی نظام حکومت ۳۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا‘‘ (اخبار زمیندار ۱۴جون ۱۹۳۴ء)​
خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے ۱۔ کفار کی مذہب میں مداخلت ۲۔امام عادل ۳۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
۱۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو ۲۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۵۱۔۵۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)​
خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ ۱۔امام وقت کا ہونا ۲۔اسلامی نظام حکومت ۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو ۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو ۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائ۔
ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ

۱۔ اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۵۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)​
۲۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔
’’اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں‘‘ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۷۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)​
۳۔ حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے‘‘ (سوانح احمدی۔ صفحہ۵۷۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)​
۴۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے،، (رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ۱۷)​
۵۔ مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں:۔
’’جمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے‘‘ (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ۱۴۱۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ ۱۹۷۳ء)​
۶۔ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
’’مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے‘‘ (اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ۳۱۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)​
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا) (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)​
اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)
ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ آپ نے لکھا:۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۷۷۔۷۸)​
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں ۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہوسکتا‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۸۲)​
پس حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایاکہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپ نے واضح فرمایا
’’ہم (اہل اسلام کو) یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴۔ صفحہ۴۵۴)​
نیز یہ قرآنی اصول بیان فرمایا کہ
’’اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘ (نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸۔ صفحہ۶۲)​
جہاد بالسیف اور جماعت احمدیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاد بالسیف کے التوا کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ جب اس جہاد کی شرائط موجود ہوں گی تو یہ جہاد بھی ہوگا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوئے تو جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے فرمایا:۔
۱۔’’ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں‘‘
۲۔’’اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی‘‘
۳۔’’جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے‘‘
۴۔’’جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے‘‘
۵ ’’جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو ۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء۔ صفحہ۹۔۱۲۔۱۴)
پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ نمونۃً ملاحظہ ہوں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور صدر کشمیر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید حبیب صاحب مدیر ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا :۔
’’میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی محنت، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا ہے اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں انکی عزت کرتا ہوں‘‘ (تحریک قادیان۔ صفحہ۴۲۔ مطبع مقبول عام پریس لاہور)​
۲۔قیام پاکستان کے معاً بعد کشمیر میں ہونے والی لڑائی میں احمدی مجاہدین نے ’’فرقان بٹالین‘‘ کی صورت میں بھر پور حصہ لیا۔
چنانچہ گلزار احمد صاحب فدا ؔ ایڈیٹر اخبار جہاد سیالکوٹ نے۱۶جون ۱۹۵۰ء میں لکھا :۔
’’فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ مؤقف کو مضبوط بنایا‘‘ (اخبار جہاد سیالکوٹ۔ ۱۶ جون ۱۹۵۰ء)​
۳۔ میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب:۔ ان کے متعلق ۱۹۶۵ء کی جنگ میں شاندار خدمات پر ہفت روزہ الفتح کراچی اپنے کالم مااحوال واقعی میں لکھتا ہے:۔
’’۱۹۶۵ء کی جنگ میں انہوں نے انتہائی دانشمندی، اعلیٰ ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری سے کام لیتے ہوئے دشمن کے چھکے چھوڑا دئے ۔۔۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے اگر کمان اختر ملک کے پاس رہتی تو کشمیر فتح ہوگیا تھا‘‘( ہفت روزہ الفتح کراچی۔ ۱۳تا ۲۰ فروری ۱۹۷۶ء۔ صفحہ۸)​
۴۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید:۔ آپ نے۱۹۶۵ء میں رن کچھ میں اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ پر زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ چھمب افتخار آباد کے نام سے موسوم ہوکر آج بھی آپ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
۵۔ برگیڈئیرعبد العلی ملک ہلال جرأت: ؁۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔ (امروز لاہور۔ ۲۳ اگست ۦ؁۱۹۶۹ء)
پس جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں نہ صرف پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔ والفضل ما شہدت بہ الاعداء
جہاد کے متعلق ارشادات:
’’ اس نکتہ چین نے جو جہاد اسلام کا ذکر کیا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر برانگیختہ کرتا ہے سو ا س سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ اور افتراء نہیں ۔اگر کوئی سوچنے والا ہو ۔ سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑانے کے لئے حکم نہیں فرماتا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو اس پر ایمان لانے سے روکیں اور اس کے دین میں د اخل ہونے سےروکتے ہیں اور اس بات سے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کار بند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور وہ ان لوگوں سے لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنون کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے اور مومنون پر واجب ہے کہ ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں۔ ‘‘(نور الحق حصہ اول ۔ترجمہ از عربی عبارت ۔روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۶۲ )

یعنی بنفسہ جہاد نہیں،جہاد کے غلط تصوّرات اسلام کے لئے خطرناک تھے۔
یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ’’ تنسیخ جہاد ‘‘ اب اور سنئے ! کس چیز کو حرام قرار دیا ، کس چیز کے خلاف آپ نے جہاد کا علم بلند کیا ۔ سو واضح ہو کہ بعض جاہل علماء اور پادریوں کے غلط تصورات تھے جن کے خلاف آپ ؑ نے آواز بلند کی ہے ۔ ان علماء کے غلط تصوّرات کے نتیجہ میں اسلام کو تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچنا تھا کیونکہ ان میں لڑنے کی کوئی طاقت ہی نہیں تھی ہاں نقصان کے بہت سے اندیشے اور خطرات تھے جو اُن کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
’’ سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راست باز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ۔ پس وہ اس حکم کو پا کر شِیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ ان کے ہاتھوں میں زور ہے نہ ان کے بازوؤں میں طاقت۔ بعض ان میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے ان کی ٹانگیں مضبوط طور پر ان اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا ۔ پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہی۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا ان کا شکار ہے اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پا کر بندوق کا فائر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں ۔ انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ ان کے نزدیک خواہ مخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں۔ کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ مخواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں ۔ کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ ، بے جرم ، بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ ، اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے ۔ افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا ۔یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے ؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے ؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے۔ ‘‘ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۲ ، ۱۳)
’’ فرفعت ھٰذہ السنّۃ برفع اسبابھا فی ھٰذہ الا یّام ‘‘
کہ تلوار کے ساتھ جہاد کے شرائط پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا۔پھر فرمایا :۔
’’ واُمرنا ان نعدّ للکافرین کما یعدّون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام ‘‘
اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اس قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی ان پر تلوار نہ اٹھائیں۔ ‘‘ (حقیقۃ المہدی ۔روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۵۴)
پھر فرماتے ہیں :۔
’’ اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں ۔‘‘ (مکتوب بنام حضرت میر ناصر نوابؓ ۔مندرجہ پیش لفظ صفحہ ۱۷۔روحانی خزائن جلد ۱۷)

وہی بحث ہے جو آپ فرما رہے تھے ہونی چاہیے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مولانا صاحب
جزاکم اللہ احسن الجزاء ۔
آپ کے جواب سے میرے دلائل ٹوٹنے نظر نہیں آتے ۔
وہ تو ظاہر ہے آپ کو کہاں سے نظر آنے ہیں! آپ کے نبی کی نبوت کی عمارت اس پر کھڑی ہے۔
البتہ یہی دیکھ لیجیے کہ آپ کا طرز پہلی پوسٹ میں کیا تھا بات کرنے کا اور ابھی کیا ہے۔ آہستہ آہستہ فسوں ٹوٹے گا ہی۔

یہ بتائیں کہ یہ اصول اور قاعدہ آپ نے کیسے بنا لیا؟۔صرف آپ کے کہنے سے تو میں ماننے والا نہیں ۔ قرآن کی کسی معتبر تفسیر یا لغت یا کسی بزرگ کا قول ہی لا دی جئے ۔
کمال ہے! چھ آیات ذکر کی ہیں جہاں یہی ہو رہا ہے اور آپ کہتے ہیں "صرف آپ کے کہنے سے"۔

علاّمہ زمخشری نے بھی فرمایا ہے کہ یہ حکم خدا تعالیٰ کے حکم کی طرح سمجھ لیا گیا۔ جسے آپ بھی مانتے ہیں ۔
زمخشریؒ کی عبارت دوبارہ پڑھنے کی درخواست ہے:
وهو رد على اليهود وتكذيب لهم، حيث أرادوا براءة ساحتهم مما نعى عليهم في قوله تعالى: (فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ طَيِّباتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ) إلى قوله تعالى (عَذاباً أَلِيماً) وفي قوله: (وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما) إلى قوله: (ذلِكَ جَزَيْناهُمْ بِبَغْيِهِمْ) وجحود ما غاظهم واشمأزوا منه وامتعضوا «2» مما نطق به القرآن من تحريم الطيبات عليهم لبغيهم وظلمهم، فقالوا: لسنا بأوّل من حرّمت عليه، وما هو إلا تحريم قديم، كانت محرّمة على نوح وعلى إبراهيم ومن بعده من بنى إسرائيل وهلم جرا، إلى أن انتهى التحريم إلينا، فحرمت علينا كما حرمت على من قبلنا. وغرضهم تكذيب شهادة اللَّه عليهم بالبغي والظلم والصدّ عن سبيل اللَّه وأكل الربا وأخذ أموال الناس بالباطل، وما عدّد من مساويهم التي كلما ارتكبوا منها كبيرة حُرم عليهم نوع من الطيبات عقوبة لهم قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْراةِ فَاتْلُوها أمر بأن يحاجهم بكتابهم ويبكتهم مما هو ناطق به من أن تحريم ما حرّم عليهم تحريم حادث بسبب ظلمهم وبغيهم، لا تحريم قديم كما يدعونه،
تفسير الزمخشري = الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (1/ 385)
"یہ یہود پر رد اور ان کی تکذیب ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس صفت سے بری کرنا چاہا جو اللہ تعالی کے اس ارشاد میں ان کے بارے میں بیان ہوئی (یہود کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر حرام کر دیں وہ پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں) اللہ پاک کے اس ارشاد تک (دردناک عذاب ہے) اور اللہ پاک کے اس ارشاد میں بیان ہوئی ہے (اور یہود پر ہم نے حرام کر دیے تمام جانور ناخنوں والے اور گائے اور بکریوں میں سے ان پر ہم نے ان کی چربیاں حرام کر دیں) اس ارشاد تک (یہ ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی سزا دی)، اور (انہوں نے چاہا) اس چیز کا انکار کرنا جس نے انہیں غصے میں ڈالا اور جس سے وہ غضبناک اور تنگ ہوئے جو کہ قرآن بتاتا ہے یعنی ان پر ان کی سرکشی اور طلم کی وجہ سے پاکیزہ چیزوں کا حرام کرنا، تو انہوں نے کہا: "ہم کوئی پہلے تھوڑی ہیں جن پر یہ حرام ہوئی ہیں، یہ تو پرانی حرام کردہ ہیں۔ یہ نوح، ابراہیم اور ان کے بعد والے بنی اسرائیل وغیرہ پر بھی حرام تھیں حتی کہ یہ تحریم ہم تک چلتی آئی ہے اور ہم پر اسی طرح حرام ہوئی ہیں جیسے پہلے والوں پر تھیں۔" اور ان کی غرض اللہ کی ان پر سرکشی، ظلم، اللہ کے راستے سے روکنا، سود خوری، لوگوں کے مال باطل طریقے سے کھانے اور دوسری برائیوں کی شہادت کی تکذیب کرنا تھی، وہ برائیاں جن میں سے ہر ایک جو وہ کرتے تھے ایسی بڑی برائی ہوتی تھی کی اس کی سزا میں ان پر پاکیزہ چیزوں میں سے کوئی قسم حرام کر دی جاتی تھی۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم تورات لاؤ اور اسے پڑھو: حکم دیا کہ ان سے ان کی کتاب کے ذریعے مباحثہ کیجیے اور اس چیز سے انہیں چپ کروا دیجیے جس پر وہ کتاب بولتی ہے یعنی ان پر حرام کردہ چیزوں کی تحریم بعد میں ہوئی ہے ان کے ظلم اور سرکشی کے سبب سے نہ کہ پرانی تحریم ہے جیسے کہ یہ دعوی کرتے ہیں۔"

اس کا مطلب ہے کہ تورات میں اس تحریم کا باقاعدہ ذکر تھا علامہ زمخشریؒ کے نزدیک۔ اور جب اللہ کی کسی کتاب میں کسی حکم کا ذکر ہوتا ہے تو یا تو نفیاً ہوتا ہے اور یا اثباتاً۔ اور اگر سابقہ حکم کا ذکر ہو تو اگر اس کی نفی ہو جائے تو وہ متروک ہو جاتا ہے اور اگر صرف ذکر ہو یا اثبات ہو تو وہ بھی اسی شریعت کا حکم بن جاتا ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ اس پر کوئی دلیل لاؤں۔ تو نور الانوار یا اصول الشاشی کھولیے اور شرائع من قبلنا کی پوری بحث پڑھ لیجیے۔

اب دیکھیں مودودی ؒ صاحب کہتے ہیں:
’’ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے : ایک یہ کہ نزول توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام ( اسرائیل ) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی ، حتٰی کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت توراۃ میں لکھ لی ۔ ان اشیاء میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں ۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے ( احبار ٤:۱۱ – ٦ – استثناء ۷:۱٤ ) ۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے ۔ دوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا ۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مرغ ، قاز ، بط وغیرہ ۔ دوسرے گائے اور بکری کی چربی ۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے ۔ ( احبار ۱٦:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱٤:۱٤ – ۱۵ – ۱٦ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳ )‘‘
یعنی توراۃ میں یہودیوں نے لکھا ۔ نہ کہ صاحب شریعت موسیٰ ؑ نے ۔ نہ ہی یہ حکم توراۃ میں اللہ تعالیٰ نے اتارا تو حجت کیا رہ گئی ؟

مولانا مودودیؒ اپنے علم کے بسبب ہمارے سر آنکھوں پر لیکن اس بارے میں انہوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی کہ اس حرمت کو یہودیوں نے لکھا تھا۔ مولانا مودودیؒ اسلاف کے کوئی عالم نہیں ہیں بلکہ تقریباً معاصر ہیں اور ایسے علماء کے اقوال بلا دلیل قبول نہیں کرتے۔ اگ آپ ان کے اقوال قبول کرتے ہیں تو پھر میں بھی "خاتم النبیین" والی آیت کھول کر اس کا مطالعہ کرتا ہوں، شاید کہ آپ کو کوئی ہدایت حاصل ہو جائے۔

میں نے بیان یہ کیا تھا کہ غیر شرعی نبی جس شریعت کے وہ تابع ہوتا ہے اسکے احکامات کو نسخ نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے ۔
عیسیٰؑ یعقوب ؑ کے تابع نہیں موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع تھے ۔ جب صاحب شریعت موسیٰ ؑ نے توراۃ میں نہ لکھا ۔ بلکہ یہود نے خود ہی لکھ لیا۔ وہ بھی توراۃ سے پہلے کا حکم جو صاحب ِ شریعت کا نہیں ۔ تو عیسیٰ ؑ اگر اسے منسوخ کر بھی دے تو شریعتِ موسوی کے تو کسی حکم کو منسوخ نہ کیا ۔فتدبرو یا اولی الابصار
اچھا جی! تو آپ بضد ہیں کہ یہود نے خود لکھا ہے!

آپ كے پسنديده امام راغب اصفهانیؒ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

وقيل: إنه لما حرَّم على نفسه حرّم الله عليهم، ولذلك قال:
(فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ) في الآية حجة
عليهم على هذا في جواز النسخ، لأنه حرَّم عليهم ما كان مباحا
في شريعة إبراهيم.
(تفسیر الراغب)
"اور کہا گیا ہے ہے کہ جب یعقوبؑ نے اسے اپنے اوپر حرام کیا تو اللہ نے بھی ان لوگوں پر حرام کر دیا۔ اسی لیے کہا: اور یہود کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں حرام کیں۔ اس آیت میں ان کے خلاف دلیل ہے نسخ کے جائز ہونے پر اس لیے کہ اللہ پاک نے ان پر وہ حرام کر دیا جو ابراہیمؑ کی شریعت میں مباح تھا۔"
یہاں راغب اصفہانیؒ نے فرمایا ہے کہ اللہ پاک نے ان پر حرام کیا۔ آگے آپ بتائیے کہ اگر یہ اللہ پاک نے تورات میں نازل نہیں کیا تو یہود پر حرام کیسے کیا؟

یہ اگر معقول فقرہ ہے تو سمجھا دیں کہ اسکا مطلب کیا ہے ؟ ۔ اگر یہود خود پر ہی کوئی چیز حرام کر لیں گے تو انہیں پر ہو گی نہ جناب ۔ مسلمانوں پر یا ہندؤوں پر ہونے سے تو رہی ۔
اس کا مطلب یہ جناب نجیب اللہ خان ایاز صاحب کہ یہود پر جو چیز حرام ہوئی وہ تورات کے ذریعے سے ہی ہوئی۔ کیوں کہ موسیؑ صاحب شریعت پیغمبر تھے اور یہود ان کی امت ہیں نہ کہ یعقوبؑ کی۔ اب تورات میں یا تو خود ان چیزوں کی حرمت مذکور تھی اور یا یہ مذکور تھا کہ یعقوبؑ نے یہ چیزیں حرام کی تھیں خود پر چنانچہ تم بھی انہیں حرام سمجھو۔
یعنی یہ حرمت یہود پر تورات سے آئی۔

تفسیر درست آپ کے نزدیک نہیں ۔ جمیعت کے سارے علماء اس سے متفق ہیں آپ اس سے اتفاق کریں نہ کریں ۔
تفسیر منار میں بھی صاحبِ تفسیر نے حضرت عیسیٰ ؑ کو شریعت ِ موسوی کا تابع قرار دیا ہے جسکا حوالہ غالباً مودودی صاحب نے بھی دیا ہے ۔
پتہ نہیں میرے دلائل میں سے آپ نے توڑا کیا ہے ۔
سر جی کینیڈا میں بیٹھ کر سہی لیکن گوگل ذرا صحیح استعمال کر لیا کریں۔ جمیعت مولانا فضل الرحمان صاحب کی ہے مودودیؒ کی جماعت کا نام جماعت اسلامی ہے، اور جماعت اسلامی والے مودودیؒ کی ہر بات سے متفق نہیں ہوتے۔ ہم ان کے درمیان رہتے ہیں اور ہم انہیں جانتے ہیں۔
تفسیر منار کا حوالہ ذرا نکال کر لائیں۔

باقی رہ گئی یہ بات کہ میں نے آپ دلائل میں سے توڑا کیا ہے؟َ۔۔۔۔۔ قہقہہ
یوں کہیے میں نے آپ کے دلائل میں سے "چھوڑا" کیا ہے؟
فورم کے صفحات آپ کلکس پر پلٹ جائیں گے۔ اگر آپ کو کہیں کچھ باقی نظر آئے جس پر میں بالدلیل رد نہ کر چکا ہوں تو اس کا حوالہ دے دیجیے، اس پر بھی باقاعدہ حوالہ جات کے ساتھ رد کر دوں گا۔
البتہ آپ سب حوالے اور دلیلیں دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیں تو پھر میں کچھ نہیں کر سکتا۔

بہرحال بحث کو اصل مرجع کی طرف واپس لاتے ہیں ۔ اب آپ یہ تو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ امت میں ایک گروہ ایسا موجود ہے جو حضرت مسیح ؑ کو شریعت ِ موسوی کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ مستقل شرعی نبی ۔
یا وہ بھی نہیں۔
اب یہ بتائیں کہ خاتم کے معانی مفردات والے درست ہیں ؟ علماء کی رائے خاتم کے بارہ میں درست ہے ؟لانبی بعدی کی تشریح علماء سلف کی درست ہے ؟؟
آپ کے کینیڈا میں دن ہو رہا ہے اور میرے یہاں رات۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ آپ کے مسائل میں فی الحال حل طلب ایک قیمتی چیز باقی ہے کہ
نبی کریم ﷺ کے بعد آنے والے تمام نبی جھوٹے تھے یا سچے اور کیوں؟ اسی کو میں نے پہلے ان الفاظ میں پوچھا تھا کہ تشریعی تھے یا غیر تشریعی؟ یعنی مجھے آپ کی رائے جاننی ہے۔
 
Top