المھند کی جس عبارت کے تحت اھلحدیث کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا وہاں خلیل احمد سہارنپوری نے عقائد کے لیے اشعری و ماتریدی کی "اتباع" ذکر کی ہے- جبکہ اس سے پہلے فروع میں امام ابوحنیفہ کی تقلید ذکر کی ہے-وعلیکم السلام،
جس تقلید پر اجماع ہوا ہے یہ فقط فرعی مسائل والی تقلید ہے یا عقائد کی تقلید کو بھی محیط ہے؟
بات یہ ہے کہ بنیادی عقائد میں تقلید کبھی کسی درجے میں محل نزاع نہیں رہی-
تقلید کے مخالف تو نہیں ہاں ایسے علماء ہر دور میں رہے ہیں جو تقلید شخصی کے وجوب کے قائل نہ تھے- یہ ہمارا کام ہے کہ ہم مثبت علمی انداز میں ایسے علماء کے اقوال باحوالہ جمع کریں-ہر دور میں تقلید اور خصوصیت سے تقلید شخصی کے مخالف علمائے کرام موجود رہے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں اجماع منعقد ہو سکتا ہے، جبکہ خود مقلدین کے نزدیک ثقہ علمائے کرام تقلید شخصی کی مخالفت کرتے ہوں؟ بلکہ خود ائمہ اربعہ کے اقوال تقلید کی ممانعت میں موجود ہوں؟
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ لفظ تقلید کا اطلاق کس پر کس انداز میں ہوتا ہے اس پر علماء میں اختلاف رہا ہے- جیسا کہ حنفی اصول کی بعض کتب میں مذکور ہے کہ شروع میں عامی کا مفتی سے استفتاء تقلید نہیں کہلاتا تھا بعد میں اصولیوں میں یہ تقلید کے طور پر مشہور ہوگیا- تقلید ایک فقہی اصطلاح ہے جیسے علم حدیث کی اپنی ہیں- شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحقیق کے مطابق امام ترمذی سے پہلے حدیث حسن کی قسم نہیں تھی ار اسی طرح اس کی تعریف اور اطلاق پر علماء میں کافی اختلاف ہے-
عامی عالم سے پوچھے گا اور دلیل کا جاننا اس کیلئے ضروری نہیں- اسے تقلید کہیں اتباع کہیں یا استفتاء کہیں، یہ عامی پرواجب ہے-