وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا
اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے اُدھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔
ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے ' کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی)۔۔۔
۔
السلام علیکم
اصل میں یہ پوسٹ ابو مالک صاحب کے لئے کی گئی تھی لیکن تکنیکی خرابی کی وجہ سے آپ سےہی مشارکت کرلی کیونکہ آپ دونوں کا ایک ہی سوال ہے
اجماع کا ثبوت
بزبان امام شافعیؒ آپ نے فرمایا اجماع کا حجت شرعیہ ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے اور دلیل پیش کی
’’ومن یشاقق الرسول من بعدی ما تبین لہ الھدیٰ الاٰیۃ (الافاضات الیومیہ:ص۳۷۱ج۹ودعوات عبدیت)
اجماع کی حقیقت:کسی بھی کے جمیع علماء کسی امر دینی پر اتفاق کرلیں اور اگر کوئی عمداً یا خطاءًاس اتفاق سے خارج رہے تو اس کے پاس کوئی دلیل محتمل صحت نہ ہو تو خطا میں وہ معذور بھی ہوگا الغرض مطلقاً عدم شرکت مضر تحقق اجماع نہیں۔(الاقتصاد ص:۳۸)
اجماع ظنی:اس اجماع سے مراد اتفاق اکثر امت ہے اگرچہ یہ اجماع ظنی ہوگا مگر دعویٰ ظنی کے اثبات کے لئے دلیل ظنی کافی ہے،اور ہر اختلاف قادح اجماع نہیں(ایضاً ص ۷۰)
اجماع کی تمثیلات
تقلید پر اجماع صحابہ
اسی لئے امام غزالی (حنبلی) فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع
ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:
اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔
اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔
نور الانوار میں ہے:
رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ ورخصة ، وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا : ۲۱۹۔
چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم
تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:
(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔
ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع
یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین
یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة
یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․ یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و
ھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
تقلیدِ شخصی
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
"عَنْ مُعَاذٍ اَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ بَعَثَ مُعَاذًا ِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِيا(الیٰ آخر الحدیث ) ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّهِ الَذِي وَفّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّهِ " (سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان ، (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:۱۲۴۹)
تقلید شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں
ایک اور موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حَدّثَنَا مُوسَى بْنُ إسْمَاعِيل ، حَدّثَنَا اَبَانُ ، حَدّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدّثَنِي أَبُو حَسّانَ ، عَنْ الْاسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، انَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرّثَ اخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيّ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌ.(تیسیر کلکتہ : صفحہ٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)
ترجمہ: اسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔
فائدہ: اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا تو اہل یمن کو اجازت دی تھی کہ تعلیم احکام اور فیصلوں کے لئے ہر مسئلے میں حضرت معاذ (رضی الله عنہ) سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.
تقلیدِ شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) کے بعد
عَنْ مُحَمّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ ابِيهِ : " انَ امْرَاةً سَالَتْ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ شَيْئًا ، فَامَرَهَا انْ تَرْجِعَ الَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللّهِ ، ارَاَيْتَ انْ جِئْتُ فَلَمْ اجِدْكَ ؟ قَالَ ابِي : كَانَهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَانْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي ابَا بَكْرٍ " (صحيح مسلم(كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي اللہ عنہ )
ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔اس حدیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے۔
من بعدی" سے ان کی تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید شخصی ہے.اورحقیقت تقلید شخصی یہ ہےکہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے ۔
اب برائے مہربانی میرے مطلوبہ سوالوں کا جوب عنایت فرمادیں ۔باقی باتیں بعد میں ہوں گیں