• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابوحنیفه نعمان بن ثابت, امام ایوب سختیانی کی نظر میں.

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
السلام علیکم و رحمت الله -

گفتگو میں مداخلت کی پیشگی معذرت-
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ عجیب وغریب معذرت ہے،یہ ایساہی ہے جیسے کوئی زبردستی گھر میں داخل ہوجائے اورکہے کہ گھر میں داخل ہونے کیلئے معذرت ، اگربہرحال مداخلت کرنی ہی تھی تو معذرت کی شرافت کا دم چھلا لگانے کی اورنمایشی تہذیب کے مظاہرہ کی کیاضرورت تھی،سچے شریف آدمی کا طریقہ تویہ تھاکہ آپ ذاتی پیغام میں اجازت لیتے اور پھر اپنی بات کہتے،اس طرح سے دخل اندازی اورپھر معذرت قتل کے بعد جفا سے توبہ کے زمرہ میں آتی ہے۔
اورجوکچھ آپ نے ارشادات عالیہ سے ہمیں’’گراں بار ‘‘فرمایاہے،اس کا جواب آخر میں ان شاء اللہ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن داؤد نے مسئلہ استثناء بالایمان میں فقہاء کاکچھ اختلاف نقل کیااوراس کے بعد بغیر کچھ زیادہ سوچے سمجھے لکھ دیا:
ابن نجیم مصری نے بیان کیا ہے کہ فقہاء احناف کا ایک گروہ، ایمان مین استثناء کا قول یعنی کہ یہ کہے کہ ان شاء اللہ مومن ہوں، کہنے پر کافر قرار دیتا ہے، اور باقی اس پر کہ جو شک کرتے ہوئے استثناء کا قول کہے، لیکن اس کے جواز کا قائل کوئی بھی نہیں! بلکہ اس کو جائز کہنے والوں کو کوئی حنفی کافر قرار دے رہا ہے، کوئی حنفی کہتا ہے کہ یہ اہل الکتاب کی مانند ہیں، اور ان کی عورت سے نکاح کر سکتے ہیں، مگر اپنی عورت ان کے ہاں نہیں بیاہ سکتے!
اورساتھ یہ بھی لکھ مارا:
دیکھ لیں، فقہائے احناف خود اسے محض اختلاف لفظی نہیں مانتے!
ابن دائود صاحب پتہ نہیں کیوں بار بار مارگھٹنہ پھوٹے سر والی کہاوت دوہراتے ہیں، مسئلہ ارجاء کا ہے کہ تصدیق واقرار کے ساتھ عمل بھی ایمان کاجزو ہے یانہیں اورہے تو کس حیثیت میں،اور وہ ایک دوسرا مسئلہ استثناء بالایمان پیش کرکے فرمارہے ہیں کہ علماء احناف بھی اسے لفظی اختلاف نہیں مانتے،اس پر آدمی ہنسے یاپھر روئے

ارجاء کا مسئلہ علیحدہ مسئلہ ہے اور استثناء کا مسئلہ بالکل دوسرا مسئلہ ہے، دونوں کا سوائے اس کے کوئی جوڑ نہیں کہ دونوں کا تعلق ایمان سے ہے،لیکن کسی بھی مسئلہ کا ایمان سے متعلق ہونا اس کا تولزوم نہیں ہے کہ وہ ارجاء سے ہی متعلق ہو!
ابن داؤد صاحب ذرا اگلی وضاحت میں واضح طورپر بتائیں کہ استثنا اورارجاء میں آپس میں کیا تعلق ہے اورکس طرح استثناکے مسئلہ سے ارجاء کے مسئلہ پر دلیل اخذ کی جاسکتی ہے؟ہمیں توسمجھ میں نہیں آیا،ان کو سمجھ میں آیاہو،تو بتادیں اور واضح کردیں۔

مزید حیرت یہ کہ جس عبارت کو انہوں نے اپنے حق میں دلیل کے طورپر پیش کیاہے خود ان کی پیش کردہ عبارت میں ہی اس کی تردید موجود ہے،اورکمال یہ ہے کہ ابن داؤد اس عبارت سے خاموشی سے گزرگئے۔
وَذَهَبَ طَائِفَةٌ إلَى تَكْفِيرِ مَنْ شَكَّ مِنْهُمْ فِي إيمَانِهِ بِقَوْلِهِ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ عَلَى وَجْهِ الشَّكِّ لَا مُطْلَقًا وَهُوَ الْحَقُّ لِأَنَّهُ لَا مُسْلِمَ يَشُكُّ فِي إيمَانِهِ وَقَوْلُ الطَّائِفَةِ الْأُولَى أَنَّهُ يَكْفُرُ غَلَطٌ لِأَنَّهُ لَا خِلَافَ بَيْنِ الْعُلَمَاءِ فِي أَنَّهُ لَا يُقَالُ أَنَا مُؤْمِنٌ إنْ شَاءَ اللَّهُ لِلشَّكِّ فِي ثُبُوتِهِ لِلْحَالِ بَلْ ثُبُوتُهُ فِي الْحَالِ مَجْزُومٌ بِهِ كَمَا نَقَلَهُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْهُمَامِ فِي الْمُسَايَرَةِ وَإِنَّمَا مَحَلُّ الِاخْتِلَافِ فِي جَوَازِهِ لِقَصْدِ إيمَانِ الْمُوَافَاةِ فَذَهَبَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ إلَى مَنْعِهِ وَعَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ
ابن داؤد صاحب تھوڑی دیر اس عبارت پر غورکیجئے اور اگرعربی میں کچھ کمزوری درپیش ہے توکسی سے پوچھ لیجئے ،اس میں توابن نجیم مصری تکفیر والوں کو غلط قراردیتے ہیں ،پھر اختلاف کی وجہ کا بھی ذکر کررہے ہیں اورآپ ہیں کہ سب کچھ سے آنکھ بند کرکے ایسی عبارت پیش کررہے ہیں جوآپ کے حق میں نہیں بلکہ آپ کے خلاف جاتی ہے،بالخصوص ایمان الموافاۃ پر ضرور توجہ دیجئے گاکہ اس کا معنی اورمطلب کیاہے؟

ابن داؤد سے میں نے کہاتھا:

آپ نے یہ کیسے اورکس بنیاد پر طے کردیاکہ امام ابوحنیفہ سے ان کی فقاہت کی وجہ سے ناراض تھے اوران کی فقہ کو انہوں نے خارش کہاہے، بغیر دلیل کے کوئی بھی دعویٰ ان کا کام ہوتاہے جن کو جنون لاحق ہے، ورنہ صاحبان عقل لکھنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ ان کے دعویٰ کی دلیل کیاہے اور یہ دلیل کتنی کمزو ریامضبوط ہے؟لہذا پہلے توآپ یہ ثابت کریں کہ ایوب سختیانی نے امام ابوحنیفہ کے تعلق سے جوکچھ کہا،اس کی بنیاد امام ابوحنیفہ کی فقاہت ہے ؟اگریہ کسی واضح دلیل سے نہیں کرسکتے تواپنے اوندھے علم کلام کو کام میں لانے کے بجائے معذرت کا طریقہ اختیار کریں نہ کہ ہٹ دھرمی کا۔
اس پر ابن دائود لکھتے ہیں:
اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی ہے، اور اب آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن عبد البر کے حوالہ سے بیان کردہ بیان پر معذرت کا طریقہ اختیار کریں نہ کہ ہٹ دھرمی کا!مزید کہ آپ کو چاہئے کہ کسی بات پر مدعا قائم کرنے سے قبل اس عبارت کو بغور دیکھ لیا کریں!
قارئین خود ہی دیکھ لیں اورفیصلہ کریں کہ انہوں نے اپنے دعویٰ کے حق میں کون سی دلیل پیش کی ہے، اولاتوایوب سختیانی نے اپنے اصحاب کو امام ابوحنیفہ کے پاس جانے سے روکا جیساکہ روایت میں ہے توابن دائود نے روکے جانے کی وجہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت کو قراردیا،روکے جانے کی وجہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت تھی، کوئی دوسراامر نہیں تھا،اس کی ابن دائود نےا ب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے اور دلیل کے نام پر کچھ پیش کیاہے توایوب سختیانی کی رائے سے نفرت ،سوال یہ ہے کہ رائے سے نفرت سے مراد امام ابوحنیفہ اوران کی فقاہت سے نفرت کیوں مراد لی جائے، معتزلہ اوردیگر گمراہ فرقوں کی نفرت کیوں نہ مراد لی جائے؟جیساکہ ایوب سختیانی کی سیرت سےبھی واضح ہے،اس کا جواب بھی تاحال ان پر قرض ہی ہے اور امید ہے کہ یہ قرض ہی رہے گا۔
ابن دائود لکھتے ہیں:

جب بات یوں ہے کہ حماد بن زید امام ایوب سختیانی کے شاگرد رشید ہیں، اور حماد بن زید کے مؤقف سے ایوب سختیانی کے مؤقف کو سمجھا جا سکتا ہے، تو حماد بن زید کے شاگرد کے مؤقف کو دیکھ کر حماد بن زید کا مؤقف بھی سمجھا جا سکتا ہے، آپ کی پیش کردہ روایت میں حماد بن زید کا قول بیان کرنے والے سلیمان بن حرب ہیں، اور یہی سلیمان بن حرب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؛
آپ نے میرے موقف کو غلط انداز میں پیش کیاہے؟میں نے یہ بات مطلقا نہیں کہی ہے،اس کا پس منظر دوبارہ بیان کردیتاہوں،ایک روایت منقول ہے کہ ایوب سختیانی نےا مام ایوب حنیفہ کو دیکھ کر اپنے اصحاب کو ان کے پاس جانے سے منع کردیااورکہاکہ ان کی خارش تمہیں بھی لگ جائے گی۔
ایوب سختیانی کے سب سے خاص شاگرد حماد بن زید ہیں، حماد بن زید کہتے ہیں کہ میں امام ابوحنیفہ سےاس لئے محبت کرتاہوں کہ وہ ایوب سختیانی سے محبت کرتے ہیں، جو شاگرد اپنے استاد کی محبت میں اس درجہ فناہو کہ استاد سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنے لگے توایسے میں کیایہ ممکن ہے کہ استاد جس سے نفرت کرے، شاگرد اس سے محبت کرے،یہ پوری بات تھی جو آپ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن ’’مردناداں‘‘ پر کلام نرم ونازک اورلطیف اشارات بے اثر ثابت ہوئے،لہذا اب ہندی کی چندی کرکے اس کو واضح کردیاگیا۔

آپ کہتے ہیں کہ حماد بن زید کا امام ابوحنیفہ سے کثیر روایتوں کا اخذ وسماع ان کا اپنا قول نہیں ہے، ہم بھی کہاں کہتے ہیں کہ یہ بات حماد بن زید نے کہی ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ سے کثیر روایتیں نقل کی ہیں،لیکن اس بات کوامام ابوحنیفہ ایوب سے محبت کرتے ہیں اوراس محبت کرنے کی وجہ سے حماد بن زید امام ابوحنیفہ سے محبت کرتے ہیں، یہ بات نقل کرنے والے حماد بن زید سے سلیمان بن حرب ہیں توظاہر تویہی ہے کہ یہ بات سلیمان بن حرب نے کہی ہے کہ حماد بن زید نے امام ابوحنیفہ سے بکثرت روایتیں نقل کی ہیں۔

اب آتے ہیں آپ کے منشاءعدم فہم یاتجاہل عارفانہ کی جانب

، تو حماد بن زید کے شاگرد کے مؤقف کو دیکھ کر حماد بن زید کا مؤقف بھی سمجھا جا سکتا ہے
حَدَّثَنَا سليمان بن حرب حدثنا حماد بن زيد قَالَ: قَالَ ابْنُ عَوْنٍ:نُبِّئْتُ أَنَّ فِيكُمْ صدادين يصدون عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ. قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ:وَأَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ مِمَّنْ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ.
یہ اس وقت ہوتاہے جب شاگرد استاد کی محبت کو اپنی محبت بنالے اوراستاد کی نفرت کو اپنی نفرت بنالے ،ورنہ ایسابھی ہوتاہے کہ شاگردواستاد میں طویل استفادہ وافادہ کے باوجود ذوق اورمنہج کا اختلاف ہوتاہے، جیساکہ محدثین کرام کی سیرت اورسوانح سے واضح ہے۔
چونکہ سلیمان بن حرب اپنے استاد کے اس درجہ شیفتہ اور فریفتہ نہیں ہیں بلکہ ایسالگتاہے کہ ان کو امام ابوحنیفہ سے تعلق پر اپنے استاد سے ایک درجہ کی ناگواریٔ خاطر ہے،لہذا یہاں پر وہ بات نہیں کہی جاسکتی جو ماقبل میں ذکر ہوئی ہے۔
یہی سلیمان بن حرب نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے حماد بن زید محبت کرتے ہیں اوریہی سلیمان بن حرب یصدون عن سبیل اللہ کا مصداق امام ابوحنیفہ اوران کے متبعین کو بنادیتے ہیں، یہی سلیمان بن حرب کہتے ہیں کہ حماد بن زید امام ابوحنیفہ سے بکثرت روایتیں نقل کرتے تھے اوریہی سلیمان بن حرب راہ خدا سے روکنے کا سنگین الزام لگاتے ہیں ،استاد کعبہ کو چلا اورشاگرد ترکستان کی راہ لے رہاہے،ایسے میں کیسے کہاجاسکتا ہے کہ شاگرد کو دیکھ کر استاد کے منہج کا اندازہ لگایاجاسکتاہے، ہاں وہ شاگرد جس نے استاد کی محبت کو اپنی محبت بنالیاہو،اس کےبارے میں ایساکہہ سکتے ہیں۔

اورکمال یہ ہے کہ حماد بن زید بصری ہیں، امام ابوحنیفہ کوفی ہیں، ابن عون کہتے ہیں کہ مجھے خبرملی ہے کہ تم میں بعض لوگ اللہ کی راہ سے روکنے والے ہیں ، توبصرہ اورکوفہ کی مشہورعلمی اور وطنی چپقلش کے ہوتے ہوئے سلیمان بن حرب نے کس منطق اورلیاقت سے اس کو امام ابوحنیفہ پر چسپاں کردیا،یہ تو میری سمجھ سے باہر ہے، ان کی سمجھ میں آئے توبتائیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر سلیمان بن حرب کے پاس حماد بن زید سے امام ابوحنیفہ کی نفرت کے اظہار اک کوئی بھی مقولہ ہوتاتوکیاوہ اس کو بتانے سے ،اس کے اظہار سے ذرہ برابر بھی چوکتے،لیکن ان کو اس طرح کا کوئی قول ،مقولہ ملا نہیں توایک محتمل قول سے امام ابوحنیفہ کو ہدف بنایا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مزید اس بات کو بھی مد نظر رکھیں کہ امام ابو حنیفہ امام سختیانی سے محبت کرتے ہوں گے، مگر امام سختیانی امام ابو حنیفہ سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں!
یہی چیز توہماری سمجھ سے باہر ہے کہ جوشخص اپنے استاد سے اتنی محبت کرتاہوکہ کسی شخص سے اس لئے محبت کرے کہ وہ اس کے استاد سے محبت کرتاہے توایساشخص کسی ایسے فرد سے کیوں محبت کرے گاجس سے اس کااستاد بیزاری کا اعلان کرتاہو۔
اس پورے معاملے پر ہم جوکچھ سمجھتے ہیں وہ عرض کیے دیتے ہیں، کسی کو منوادینا نہ ہمارے اورنہ کسی اورکے بس کی بات ہے ۔

امام ابوحنیفہ کاارجاء اہل سنت یاارجاء الفقہاء کا عقیدہ تھا، ایوب سختیانی مسلک اہل سنت یاسلف صالحین کے سختی سے پابند تھے ،ان تک امام ابوحنیفہ کے بارے میں لوگوں نے مرچ مصالحہ لگاکر خبر پہنچائی ہوگی، جیساکہ ہم خود امام ابوحنیفہ کی سیرت اورسوانح میں دیکھتے ہیں کہ ان پر ایسے ایسے الزام لگائے ہیں جس سے وہ بالکلیہ بری ہیں اوراس شہادت ابن تیمیہ نے بھی دی ہے، چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں ۔

وَقَدْ نَقَلُوا عَنْهُ أَشْيَاءَ يَقْصِدُونَ بِهَا الشَّنَاعَةَ عَلَيْهِ، وَهِيَ كَذِبٌ عَلَيْهِ قَطْعًا، مِثْلَ مَسْأَلَةِ الْخِنْزِيرِ الْبَرِّيِّ وَنَحْوِهَا،( منهاج السنة النبوية (2/ 620)
آپ پوچھیں گے کہ خنریر بری کی حلت کا دعویٰ امام ابوحنیفہ کی جانب کس نے منسوب کیاہے ،ہماراعاجزانہ جواب ہوگاکہ اس کا دعویٰ امام بخاری نے کیاہے :
وَيَزْعُمُ أَنَّ الْخِنْزِيرَ الْبَرِّيَّ [ص:41] لَا بَأْسَ بِهِ (القراءة خلف الإمام للبخاري (ص: 40)

اب بتائیے کہاں امام بخاری کی ذات والاصفات اورکہاں ہم جیسے گنہگار ؛لیکن لکل جواد کبوۃکے مصداق وہ یہاں پر لغزش کھاگئے اور فرط رد میں امام ابوحنیفہ کی جانب ایک بے بنیاد بات منسوب کردی۔

اب چلتے چلتے یہ بھی بتادوں کہ امام بخاری اس قدر غصے میں کیوں آگئے کہ امام ابوحنیفہ کی جانب ایک بے بنیاد بات منسوب کردی ،مسئلہ یہ ہے کہ قراۃ خلف الامام ایک علمی اورفقہی مسئلہ ہے اوراسلاف سے اس مسئلہ میں اختلاف چلاآرہاہے ،صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی قراءۃ خلف الامام کی قائل نہیں تھی اورامام ابوحنیفہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام بخاری اس کی تردید میں رسالہ لکھنے بیٹھے تو مسئلہ یہ درپیش آیاکہ امام المحدثین امام احمد امام ابوحنیفہ کے کسی حد تک ہمنوا ہیں اوریہ فرمایاہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قرات نہ کرنے والے کی نماز نہ ہونے کا عالم اسلام میں کوئی قائل نہیں،بس امام بخاری ناراض ہوگئے اور کہناشروع کردیاکہ آپ نے اپنا اتفاق یاتائید اس شخص کے ساتھ کیاہے جو ایساہے ویساہے ،اس کی رائے یہ ہے،اس کا موقف یہ ہے اوراسی کے ضمن میں اب چاہے اسے فرط رد کہیں یا مناظرانہ جوش ،امام ابوحنیفہ سے ایک قطعی بے بنیاد بات منسوب کردی۔

إِنَّ بَعْضَ مُدَّعِي الْإِجْمَاعَ جَعَلُوا اتِّفَاقَهُمْ مَعَ مَنْ زَعَمَ أَنَ الرَّضَاعَ إِلَى حَوْلَيْنِ وَنِصْفٍ وَهَذَا خِلَافُ نَصِّ كَلَامِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ} [البقرة: 233] وَيَزْعُمُ أَنَّ الْخِنْزِيرَ الْبَرِّيَّ [ص:41] لَا بَأْسَ بِهِ وَيَرَى السَّيْفَ عَلَى الْأُمَّةِ وَيَزْعُمُ أَنَّ أَمْرَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ مَخْلُوقٌ فَلَا يَرَى الصَّلَاةَ دِينًا فَجَعَلْتُمْ هَذَا وَأَشْبَاهَهُ اتِّفَاقًا(القراءة خلف الإمام للبخاري (ص: 40)
اب ہوسکتاہے کہ کوئی سوال کرنے لگے کہ امام احمد نے ایسی بات کہاں کہی ہے تو المغنی دیکھ لے ،ہم کہاں تک اسے بتاتے پھریں ،
مجھے سچ مچ امام بخاری کے اس جلال پر جمال یعنی غصہ پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک فروعی فقہی مسئلہ کو اتنی اہمیت دینا کہ جو امام ابوحنیفہ سے ہمنوائی کرے،اس کو بھی رگید ڈالا۔
اس کے باوجود کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ احناف صرف سناکریں،کچھ بولانہ کریں،اگروہ کچھ بھی بولیں گے تووہ محدثین کی توہین کے زمرہ میں آئے گا، توبھائی میرے یہ ممکن نہیں ہے، اللہ نے جیسے ان کو زبان دیاتھا، ہمیں بھی زبان کی نعمت مرحمت کی ہے،امام بخاری ایک فریق کی حیثیت سے آئیں گے توان کے الزامات اور استدلات کا پرزور جواب دیاجائے گا، اورچونکہ امام بخاری نے خود ہی کوئی ایسی سرحد متعین نہیں کررکھی ہے کہ وہ کہاں فریق ہوں گے اورکہاں صرف محدث ،اس لئے بسااوقات بات ادھر سے ادھر بھی ہوجائے گی،اس میں کس کا قصور اورکون بے قصور ہے،دنیا میں تواس کا پتہ چلنا ممکن نہیں ہے،کل قیامت کو ہی فیصلہ ہوگا۔
ان سب کے بعد مجھے پتہ ہے کہ ابن داؤد ابن تیمیہ کو توکچھ نہیں کہیں گے جنہوں نے امام ابوحنیفہ کی جانب خنزیر بری کے انتساب کو’’کذب قطعا‘‘سے تعبیر کیاہے اور
يَقْصِدُونَ بِهَا الشَّنَاعَةَ عَلَيْهِ کہاہے،ہاں وہ مجھ کر ضرور محدثین کی توہین کے الزام سے نوازیں گے،کیاکریں نزلہ برعضو ضعیف،لیکن ہم اتناتوکرہی سکتے ہیں کہ ابن داؤد کی توجہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی جانب متوجہ کرائیں کہ
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو اُدھر بھی
بات دور نکل گئی، آتے ہیں اصل پوائنٹ کی جانب کہ ایوب سختیانی سلف صالحین کے مسلک کی سختی سے پابندی کرتے تھے،امام ابوحنیفہ ارجاء الفقہاء کا عقیدہ رکھتے تھے، جو اگرچہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ سے الگ نہیں ہے لیکن تعبیر اوراظہار بیان کی حد تک الگ ہے،اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے خلاف ایک عام مخالفانہ فضاء تھی توہوسکتاہے کہ ایوب سختیانی کو کچھ بڑھ چڑھ کر بتایاگیاہو،یاپھر ان کے گمراہ مرجیہ فرقہ کا پیروبتایاگیاہو،بہرحال کچھ بھی ہو، ایوب سختیانی اپنی ان معلومات کی بناء پر امام ابوحنیفہ سے ناراض ہوئے اورامام ابوحنیفہ کو دیکھ کر اپنے شاگردوں کو ان سے ملنے جلنے سے سختی سے روک دیا؛لیکن ایسالگتاہے کہ یہ ناراضگی زیادہ دنوں تک یاہمیشہ برقرارنہیں رہی،چونکہ حماد بن زید ان کے خاص شاگرد ہیں،اورتقریباًبیس سال ان کی خدمت میں رہے، ان کے شب وروز کے محرم راز اوران کے مزاج ومذاق سے اچھی طرح واقف تھے،وہ امام ابوحنیفہ سے محبت کرتے ہیں اورمحبت کی وجہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ایوب سختیانی سے محبت کرتے ہیں،ایسالگتاہے کہ ایوب سختیانی کو بعد میں اصل حقیقت معلوم ہوئی ہوگی توانہوں نے اپنی مخالف چھوڑدی ہوگی اوراسی وجہ سے حماد بن زید بھی امام ابوحنیفہ سے محبت کرنے لگے اوران سے بکثرت روایتیں نقل کرنے لگے۔واللہ اعلم بالصواب
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن دائود نے کچھ محدثین کے اقوال سے امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث ثابت کرناچاہاہے؛لیکن یہ بحث ایسی ہے،جس پر غیرمقلدین حضرات بارہا مسکت جواب ملنے کے باوجود پھر وہی دوچار فقرے اورجملے لے کر آجاتے ہیں،ابن حبان کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے ایک سو تین سے زائد روایت دنیا میں موجود نہیں ہےحدث بِمِائَة وَثَلَاثِينَ حَدِيثا مسانيد مَا لَهُ حَدِيث فِي الدُّنْيَا غَيره،جب کہ اس کے بالمقابل ابن عدی کہتے ہیں کہ تین سو سے زائد حدیث روایت کی ہے، اگرہمارے اندر غیرمقلدانہ انداز بیان یاتحریر ہوتاتوہم کہتے کہ’’دونوں میں سے کوئی ایک ضرور جھوٹ بول رہاہے‘‘،لیکن چونکہ ہم نہ غیرمقلد ہیں اورنہ غیرمقلدانہ انداز بیان وتحریر ہے،لہذا یہ جملہ کہنے کے بجائے یہی عرض کریں گے کہ دونوں سے ہی غلطی ہوئی ہے،ابن داؤد اس موقع پر اپنے تھوڑے سے ہم نام ابن ابی دائود کو کیوں بھول گئے، معلوم نہیں ،ان کا بھی اس بارے میں ایک تیسرا قول ہے ،یعنی ان دونوں سے ہٹ کر انہوں نے الگ الگ تعداد بیان کی ہے، جميع ما روى أبو حنيفة من الحديث مائة وخمسون حديثاً سوال یہ ہے کہ ان تینوں میں سے کس کا قول درست ہے اورکس کا غلط یاپھر تینوں نے اپنے اپنے گمان کے مطابق ایک تعداد بیان کردی ہے اور حقیقت ان تینوں سے پرے ہے،پھر اس پر بھی غورکیجئے کہ ابن حبان کہتے ہیں:
حدث بِمِائَة وَثَلَاثِينَ حَدِيثا مسانيد مَا لَهُ حَدِيث فِي الدُّنْيَا غَيره أَخطَأ مِنْهَا فِي مائَة وَعشْرين حَدِيثا
یعنی انہوں نے ایک سو تیس مسند حدیثیں بیان کی ہیں، جس میں سے ایک سو بیس حدیثوں میں انہوں نے غلطی کی ہے۔
یہ بیان ہوا ،ابن حبان کا ۔
اب دیکھئے آپ کے تھوڑے سے ہم نام یعنی ابن ابی داؤد کیاکہتے ہیں:
جميع ما روى
أبو حنيفة من الحديث مائة وخمسون حديثاً أخطأ- أو قال غلط - في نصفها
امام ابوحنیفہ کی روایت کردہ تمام احادیث کی کل تعداد ایک سو پچاس ہے،جس میں سے انہوں نے آدھے میں غلطی کی ہے۔
ابن عدی تھوڑے محتاط بزرگ ہیں، اس لئے وہ اس طرح کا کوئی اعداد وشمار توپیش نہیں کرتے گول مول الفاظ میں اپنی بات یوں بیان کرتے ہیں :
وأَبُو حنيفة لَهُ أحاديث صالحة وعامة ما يرويه غلط وتصاحيف وزيادات فِي أسانيدها ومتونها وتصاحيف فِي الرجال وعامة ما يرويه كذلك ولم يصح لَهُ فِي جميع ما يوريه إلا بضعة عشر حديثا وقد روى من الحديث لعله أرجح من ثلاثمِئَةحديث من مشاهير وغرائب وكله على هَذِهِ الصورة لأنه ليس هُوَ من أهل الحديث، ولاَ يحمل على من تكون هَذِهِ صورته فِي الحديث.
ابن حبان توکہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی صحیح احادیث کی تعداد دس ہے، ابن ابی داؤد کہتے ہیں کہ 75ہے،جب کہ ابن عدی کہتے ہیں کہ دس سے زائد ہے ،تینوں کا بیان جملہ احادیث کی تعداد اور صحیح احادیث کے شمار میں الگ الگ ہے، پھر ہم کسے درست مانیں اورکسے غلط مانیں۔
یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ ابن عدی تک امام ابوحنیفہ کی احادیث جس سند سے پہنچی ہیں، اس میں بقول علامہ زاہد الکوثری
أبان بن جعفر النجيرمي نام کا ایک شخص بھی ہے،جس کے بارے میں خود ابن حبان کہتے ہیں:
عن ابن حبان أنه قال: رأيته وضع على أبي حنيفة أكثر من ثلاث مِئَة حديث مما لم يحدث به أبو حنيفة قط(لسان الميزان ت أبي غدة (1/ 221)
ویسے دورحاضر میں اس موضوع پر ایک اہم کام شاکر ذیب فیاض نے کیاہے، انہوں نے اپنے تحقیقی مقالہ ’’ابوحنیفۃ بین الجرح والتعدیل‘‘میں کتاب الآثار امام محمد وامام ابویوسف کی امام ابوحنیفہ سے واسطہ سے مروی مرفوع روایات کو تحقیق کا موضوع بنایاہے اور اپنی تحقیق میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ:
ان کو کتاب الآثار میں امام ابوحنیفہ کے واسطہ سے کل۷۲مرفوع روایات ملیں ، جس میں سے ۵۶احادیث ایسی ہیں، جس میں دیگر روات ومحدثین نےان کی متابعت کی ہے اور چھ احادیث ایسی ہیں، جن میں ان کی مخالفت کی گئی ہے اورایک حدیث ایسی ہے جس کے الفاظ میں وہ منفرد ہیں،جس میں نہ ان کی متابعت ہوئی اورنہ مخالفت۔

اورابن عدی توایسے بزرگ ہیں، جوامام ابوحنیفہ کی نیت پرحملہ کرتے ہوئے(جس کی اجازت کسی کو بھی اورکسی بھی حال میں نہیں ہے، جرح وتعدیل کی آڑ لے کر بھی نہیں ہے)فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں فلاں لفظ امام ابوحنیفہ نے فلاں مقصد برآری کیلئے بڑھادیاہے،اگرمحدثین کی ان باتوں پر ہم کلام کرتے ہیں توپھر کسی جانب سے آواز آتی ہے کہ آپ محدثین کی توہین کررہے ہیں۔سبحان اللہ ، ایک شخص کو توہرقسم کی آزادی ہے کہ وہ کسی کی نیت پر بھی حملہ کرناچاہے تو کوئی روک نہیں ،لیکن دوسرا اس ظلم کی شکایت کرے تو وہ توہین کا مرتکب۔
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ابن دائود نے امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث ثابت کرنے کیلئے متعدد محدثین کے حوالے پیش کیے ہیں، جن میں سے ابن حبان،ابن عدی پر بات ہوچکی، آئیے اب بات کرتے ہیں ،حفص بن غیاث کے پیش کردہ حوالہ پر،حفص بن غیاث ایک مسئلہ کے تعلق سے امام ابوحنیفہ کے چارپانچ جوابات سے برگشتہ خاطرہوگئے،اس واقعہ کو پیش کرنے کے بعد ابن دائود نے اس پر جو ’’دفع دخل مقدر‘‘فرمایاہے،اس پر غالب کا شعر ہی پیش کیاجاسکتاہے:
بک رہاہوں جنوں میں کیاکیاکچھ
کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی
ابن دائود لکھتے ہیں:
کسی کو یہاں اگر یہ سمجھنے میں مشکل ہو کہ یہاں امام ابو حنیفہ کا قلیل الحدیث ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے، تو عرض ہے کہ ابو عمر حفص بن غیاث امام ابو حنیفہ کی محفل میں بیٹھتے تھے، مگر وہاں انہیں حدیث سیکھنے موقع نہیں ملتا تھا، یعنی کہ امام ابو حنیفہ کو چھوڑنے کے بعد وہ حدیث کی طرف متوجہ ہوئے! امام ابو حنیفہ کی مجلس کو چھوڑ کر حدیث کی طرف متوجہ ہونا اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں حدیث کی تعلیم نہیں ہوتی تھی!
یہ دعویٰ توشاید کسی حنفی نے بھی نہیں کیاہے کہ امام ابوحنیفہ کی مجلس مجلس حدیث ہواکرتی تھی اور نہ ہی حفص بن غیاث اس غرض سے وہاں بیٹھتے تھے اورنہ ہی ان کے امام ابوحنیفہ کی مجلس سے برگشتہ خاطر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پر حدیث کی مجلس نہیں لگتی تھی، صاف سیدھاجملہ ہے کہ ان کو ایک مسئلہ میں چارپانچ اقوال سے وحشت ہواکرتی تھی،اس لئے انہوں نے فقہ کو چھوڑ کر حدیث کا مشغلہ اپنایا۔

یہ بات تو خود حفص بن غیاث نے بھی نہیں کہی ہے کہ اس مجلس میں چونکہ حدیث کی روایت کا اہتمام نہیں تھا،اس لئے میں نے وہ مجلس چھوڑدی،لیکن ابن داؤد ہمیں یہی باور کراناچاہ رہے ہیں کہ انہوں نے اسی وجہ سے وہ مجلس چھوڑدی ،اسی کو کہتے ہیں کہ مدعی سست گواہ چست۔

حفص بن غیاث نے ایک مسئلہ میں ایک دن میں چارپانچ قول کی وجہ سے مجلس چھوڑی ،جیساکہ روایت میں ذکر ہے،اس کی توجیہ ہم یوں کرسکتے ہیں کہ انسانی طبیعت اورمزاج مختلف ہواکرتاہے، کچھ لوگ دشواری پسند ہوتے ہیں اورکچھ لوگ سہل انگار،کچھ کو مصائب ومشکلات میں جیناپسند ہے کہ ’’اگرآسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے‘‘لیکن اسی وقت کچھ لوگ سہل انگار ہوتے ہیں، انہیں یہ اچھالگتاہے کہ ہربات دو اوردوچار کی طرح واضح ہو اورکہیں کوئی پیچیدگی نہ ہو۔

کوئی بھی فقہی مسئلہ اپنے اندر کئی جہت رکھتاہے،اورفقیہ تمام جہتوں سے غورکرتاہے،بسااوقات یہی وجہ ہوتی ہے کہ ایک ہی مسئلہ میں ایک امام کامتعدد قول ہوتاہے،اس میں بسااوقات وجہ یہی ہوتی ہے کہ مسئلہ اپنے اندر کئی جہتیں رکھتاہے،علاوہ ازیں امام ابوحنیفہ ہوسکتاہے کہ اپنے شاگردوں کی تربیت اور تعلیم کیلئے بھی ایساکرتے ہوں کہ ان کو مسئلہ کے تمام پہلوئوں سے واقف کرنے کیلئے مختلف اقوال بتاتے ہوں،اورکوئی استاد اگرشاگرد کی تعلیم کیلئے اس کااہتمام کرتاہے تویہ قابل ملامت نہیں بلکہ تعریف کے لائق ہے۔

اب یہ ہوسکتاہے کہ کسی شاگرد کی طبعیت اورذہنی افتاد اس کو پسند نہ کرتی ہو تواس کواس کا پورا حق ہے کہ وہ اپنی طبیعت اورمزاج کے مطابق کوئی دوسرافیلڈچن لے ،علم دین کے کسی دوسرے شعبہ میں مہارت حاصل کرےاورجیساکہ حفص بن غیاث نے بھی کیا۔
آج بھی ایساہوتاہے کہ کسی طالب علم کو اس استاد سے زیادہ رغبت ہوتی ہے جواس کی نفسیات کے زیادہ قریب ہوتاہے، اس کے پسندیدہ فن کا ماہر ہوتاہے،وغیرذلک،اس میں نہ کوئی بات مدح کی ہے اورنہ قدح کی۔
لیکن اس سے اس کا اثبات کسی طورپر بھی نہیں ہوتا اورنہ حفص بن غیاث کے اس قول میں کہیں دور دور تک اس کااشارہ موجود ہے کہ امام ابوحنیفہ قلیل الحدیث تھے،یہ بس بھوکے کی طرح دواوردو کو چار روٹی کے جواب جیساہے اوربس۔

جہاں تک بات یحیی بن سعید القطان کے لیس بصاحب الحدیث کا ہے توغیرمقلدوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے کہ وہ صاحب الحدیث کا ترجمہ اہل حدیث کرتے ہیں اور اہل حدیث سے مراد ان کی حدیث کی خدمت کرنے والانہیں بلکہ ایک مخصوص اورمعروف مسلک ومذہب ہواکرتاہے اوریہ ظاہرسی بات ہے کہ امام ابوحنیفہ ان معروف معنوں میں اہل حدیث نہیں تھے، ویسے ابن داؤد کو چاہئے کہ وہ اگلے مراسلے میں کسی جرح وتعدیل کی کتاب سے ثابت کریں کہ لیس بصاحب الحدیث کا معنی قلیل الحدیث ہواکرتاہے، جب تک وہ اس پر کوئی حوالہ پیش نہیں کردیتے ،ان کی بات پادرہواہے،اور بالکل ہی درجہ استنباد سے گری ہوئی ہے۔

ابن دائود کاایک اقتباس ملاحظہ کریں
مَرَّ بِي أَبُو حَنِيفَةَ وَأَنَا فِي سُوقِ الْكُوفَةِ، فَقَالَ لِي: تَيْسُ الْقَيَّاسِ هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ، فَلَمْ أَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ، قَالَ يَحْيَى: وَكَانَ جَارِي بِالْكُوفَةِ فَمَا قَرَبْتُهُ وَلَا سَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ. قِيلَ لِيَحْيَى: كَيْفَ كَانَ حَدِيثُهُ؟ قَالَ: لَمْ يَكُنْ بِصَاحِبِ الْحَدِيثِ.
اس پر محدث فورم پر پہلے ہی بحث ہوچکی ہے ،اس بحث کو دیکھنے کیلئے ذیل کے لنک پر کلک کریں۔

http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%DB%8C%D8%AD%DB%8C%DB%8C-%D8%A8%D9%86-%D8%B3%D8%B9%DB%8C%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%B7%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D8%A7%D8%AE%D8%B0-%D9%88%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D9%81%D8%A7%D8%AF%DB%81.30966/

ابن داؤد نے امام ابوحنیفہ کو قلیل الحدیث ثابت کرنے کیلئے حاکم کا اقتباس پیش کیاہے اورعلمی خیانت سے کام لیاہے کہ مطلب کی جوبات تھی،اسی تو پیش کردیا،لیکن جو بات مطلب نہ کی تھی، اورجس سے اپنے موقف پر ضرب پڑسکتاتھا،اسے چھوڑدیا،ابن دائود حاکم کا موقف پیش کرتے ہیں:

أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع رحمه الله (المتوفى: 405هـ)

آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:

ذِكْرُ النَّوْعِ الْحَادِي وَالْخَمْسِينَ مِنْ عُلُومِ الْحَدِيثِ هَذَا النَّوْعُ مِنْ هَذِهِ الْعُلُومِ مَعْرِفَةُ جَمَاعَةٍ مِنَ الرُّوَاةِ التَّابِعِينَ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يُحْتَجَّ بِحَدِيثِهِمْ فِي الصَّحِيحِ، وَلَمْ يَسْقُطُوا
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
وَمِثَالُ ذَلِكَ فِي أَتْبَاعِ التَّابِعِينَ
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔

أَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ،
۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: فَجَمِيعُ مَنْ ذَكَرْنَاهُمْ فِي هَذَا النَّوْعِ بَعْدَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَمَنْ بَعْدَهُمْ قَوْمٌ قَدِ اشْتَهَرُوا بِالرِّوَايَةِ، وَلَمْ يَعُدُّوا فِي الطَّبَقَةِ الْأَثْبَاتِ الْمُتْقِنِينَ الْحُفَّاظَ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ

لیکن ابن داؤد نے جس کتاب اورجس باب سے یہ نقل کیاہے، اس باب سے دوباب آگے یعنی باب نمبر49 میں حاکم نے کیاکہاہے، اس کو دیکھنے کی اوراس پر نگاہ ڈالنے کی ابن داؤد کو فرصت نہیں ملی ۔
حاکم نے وہاں پر یہ باب قائم کیاہے:

ذِكْرُ النَّوْعِ التَّاسِعِ وَالْأَرْبَعِينَ مِنْ مَعْرِفَةِ عُلُومِ الْحَدِيثِ هَذَا النَّوْعُ مِنْ هَذِهِ الْعُلُومِ مَعْرِفَةُ الْأَئِمَّةِ الثِّقَاتِ الْمَشْهُورِينَ مِنَ التَّابِعِينَ وَأَتْبَاعِهِمْ مِمَّنْ يَجْمَعُ حَدِيثَهُمْ لِلْحِفْظِ، وَالْمُذَاكَرَةِ، وَالتَّبَرُّكِ بِهِمْ، وَبِذِكْرِهِمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْغَرْبِ
اس کے بعد مختلف شہروں کے اہل علم روات کا ذکر کرتے ہیں پھر وہ کوفہ پرآتے ہیں ،لکھتے ہیں:

وَمِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ:....................
.............................
.................................
بہت سارے نام شمار کراتے ہوئے وہ امام ابوحنیفہ کا بھی ذکرکرتے ہیں:

مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ الْهِلَالِيُّ، أَبُو حَنِيفَةَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّيْمِيُّ، مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ الْبَجَلِيُّ،

سوال یہ ہے کہ ابن داؤد نے وہ تودیکھا،جس ہیڈ لائن میں لایحتج بحدیثھم ذکر ہے لیکن وہ باب کیوں نہیں دیکھا جس میں
ذِكْرُ النَّوْعِ التَّاسِعِ وَالْأَرْبَعِينَ مِنْ مَعْرِفَةِ عُلُومِ الْحَدِيثِ هَذَا النَّوْعُ مِنْ هَذِهِ الْعُلُومِ مَعْرِفَةُ الْأَئِمَّةِ الثِّقَاتِ الْمَشْهُورِينَ مِنَ التَّابِعِينَ وَأَتْبَاعِهِمْ مِمَّنْ يَجْمَعُ حَدِيثَهُمْ لِلْحِفْظِ، وَالْمُذَاكَرَةِ، وَالتَّبَرُّكِ بِهِمْ، وَبِذِكْرِهِمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْغَرْبِ
لکھاہواہے، یہ جہالت ہے یاتجاہل ہے ؛اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑدیتے ہیں، ویسے اس کا ترجمہ ضرور کردیتے ہیں تاکہ عربی سے ناواقف حضرات سمجھ سکیں۔

معرفت علوم حدیث میں سے ۴۹ویں نوع کاذکر ،ان علوم میں سے یہ نوع تابعین اورتبع تابعین میں سے مشہور ثقہ ائمہ کے بارے میں ہے جن کی حدیثیں یاد کرنے کیلئے،مذاکرہ کیلئے اورحصول برکت کیلئےاورمشرق ومغرب میں ان کا چرچا کرنے کیلئے جمع کی جاتی ہیں۔

حاکم کی اس بات سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں، ائمہ میں ہیں،اوران کی حدیثیں محدثین بطور خاص جمع کرتے ہیں اوران کی احادیث کا نہ صرف مذاکرہ کرتے ہیں بلکہ ان سے حصول برکت کی توقع رکھتے ہیں اورمشرق ومغرب میں ان کا چرچا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ابن داؤد کے ذکر کردہ نوع کا عنوان ہے۔

مَعْرِفَةُ جَمَاعَةٍ مِنَ الرُّوَاةِ التَّابِعِينَ، فَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يُحْتَجَّ بِحَدِيثِهِمْ فِي الصَّحِيحِ، وَلَمْ يَسْقُطُوا

اس سے یہ تو ثابت ہواہے کہ ان کی احادیث صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتیں اوراسی کے ساتھ ان کی حدیث پایہ اعتبار سے بالکل ساقط بھی نہیں ہیں، لیکن اس میں قلیل الحدیث اورکثیرالحدیث کا ذکر ابن داؤد نے کس غیرمقلدانہ خوردبین سے ڈھونڈاہے،ذرا اس خورد بین کا نام وپتہ ہمیں بھی توبتائیں۔
حیرت ہے کہ جس اقتباس کا قلیل الحدیث اورکثیرالحدیث ہونے سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں، اس کو بھی قلیل الحدیث کے مدعا میں پیش کیاجاتاہے اوراس فہم وعقل پر امام ابوحنیفہ پر طعن کرنے کا شوق ہوتاہے،

بریں عقل ودانش بباید گریست
جاری ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
عبداللہ بن مبارک:
اولاًتو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ عبداللہ بن مبارک امام ابوحنیفہ کے مداحوں میں ہیں، عبداللہ بن مبارک کے تعلق سے ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ رِوَايَاتٌ كَثِيرَةٌ فِي فَضَائِلِ أَبِي حَنِيفَةَ ذَكَرَهَا ابْن زُهَيْر فِي كِتَابِهِ وَذَكَرَهَا غَيْرُهُ(الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء (ص: 133)

اب اگران روایات کثیرہ کے بالمقابل کچھ روایات ذم کی ملتی بھی ہیں تووہ صحت سند کی صورت میں شاذ اورضعف سند کی صورت میں منکر ہوں گی۔
ویسے یتیم کا ایک معنی منفرد،انوکھے اورنایاب ہونے کے بھی ہیں اوراسی سے دریتیم اوردرۃ یتیمۃ کی ترکیب نکلی ہے اوراس کا استعمال مدح میں ہے۔ اگریہی مراد ہے توکوئی اشکال ہی نہیں اوراگر ذم کے معنی ہی مراد لینے پر ابن داوئود اوران کے ہم خیال تلے بیٹھے ہیں تواس کا بھی ایک دوسرا مطلب لیاجاسکتاہے کہ محدثین کرام کے یہاں بالخصوص جس دور میں عبداللہ بن مبارک وغیرہ تھے، اسفار اوررحلۃ کا بڑا زور تھا ،محدثین کرام ایک ایک حدیث کی متعدد سندوں کی خاطر دوردراز کا سفر کرتے تھے،ایک ایک حدیث کی سینکڑوں طرق اوراسانید جمع کرتے تھے اوریہ بھی محدثین کرام کی فضیلت کا ایک گوشہ ہے،اس کے بالمقابل جو محدثین اسانید وطرق کے جمع کرنے کی جانب توجہ نہ دیتے،یاپھر اسفار ورحلت ان کا کم ہوتا،ان کے بارے میں ان کے خیالات اسی قسم کے ہوتے تھےتو شاید عبداللہ بن مبارک کا یتیم اورمسکین سے مراد یہی ہو کہ امام ابوحنیفہ احادیث کے طرق اوراسانید کے جمع کرنے کے درپے نہیں رہتے ہیں، ایک ایک حدیث کی ڈھیرساری سندیں جمع کرنے کی جانب توجہ نہیں دیتے ہیں۔
اگرہم اس تاویل کو جگہ دیں توابن عبدالبر کے کلام اوراس کلام میں کوئی تضاد نہیں رہ جائے گا اورجمع وتطبیق تساقط وتضاد سے بہر صورت اولیٰ ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔

حمیدی:
حمیدی امام ابوحنیفہ سے انتہائی برگشتہ خاطر ہیں اورجوشخص مسجد حرام میں بیٹھ کر امام ابوحنیفہ کے متعلق اپنی بدزبانی پر قابونہ رکھتاہو،اس کی کسی بات کو متعلقہ فرد کے بارے میں پیش کرنا ہی اصولی اوربنیادی طورپر غلط ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی معلوم رہے کہ امام ابوحنیفہ نے بڑی عمر میں علم کی تحصیل شروع کی تھی، ہوسکتاہے کہ یہ ابتدائی عمر کا واقعہ رہاہو۔
ورنہ اگر اس کو امام ابوحنیفہ کے آخری عمر کے متعلق ماناجائے توحمیدی کی یہ بات صریحا جھوٹ ثابت ہوتی ہے ؛کیونکہ کوئی بھی شخص فقہ حنفی کا مطالعہ کرکے دیکھ سکتاہے کہ اس میں مناسک حج ،ارکان ،شرائط ،وغیرہ تمام چیزوں کے متعلق کتنی تفصیل اور تحقیق سے مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ ایک مرتبہ یہ واقعہ پیش آیاکہ ان کا اجتہاد حدیث نبوی کے مطابق نکلا تو وہ اسلام کے بعد سب سے بڑی خوشی بن گئی، امام ابوحنیفہ کو اگرہم حدیث سے ایسے ہی تہی دست مانیں اوراس کے باوجود ان کے سینکڑوں، ہزاروں اجتہاد حدیث کے موافق نکلیں تویہ سوچئے یہ اس شخص کی کتنی بڑی فضیلت،مزاج نبوت سے کتنی قربت اور کتنی بڑی کرامت ہے۔
اب آپ چاہے یہ پہلو اختیار کریں یاوہ پہلو ،دونوں میں امام ابوحنیفہ کی فضیلت موجود ہے، جائے فرارکوئی نہیں بچا،نہ جائے رفتن اورنہ پائے ماندن والی صورت حال ہے، ہمارا مشورہ تویہی ہے کہ تھوڑا دل بڑاکرکے اور تھوڑی سی (زیادہ نہیں )وسعت ظرفی سے کام لے کر امام ابوحنیفہ کی فضیلت کےقائل ہوہی جائیں، دل کی دکھن اور جلن میں تھوڑی کمی آجائے گی(ابتسامہ)

ابن معین

ابن معین کی جلالت شان مسلم ہے ؛لیکن اس بارے میں کئی باتیں ملحوظ خاطر رہیں تو مناسب ہوگا، ابن معین کا بیشتر قول امام ابوحنیفہ کی تعریف اور ثقاہت میں ہے، جیساکہ کتب جرح وتعدیل میں مذکور ہے۔ایک دو قول تضعیف وغیرہ کے بھی ہیں،تواولاًتمام توثیق وتجریح کا جائزہ لے کر کسی ایک پہلو کو متعین کرنے یا پھر تطبیق دینے کی ضرورت ہے،اس کے بغیر محض ایک قول نقل کردینا کافی نہیں ہے،ہم بھی چاہیں توابن معین کا ایک قول تہذیب التہذیب سے نقل کردے سکتے ہیں:
وقال محمد بن سعد العوفي سمعت ابن معين يقول كانأبو حنيفة ثقة لا يحدث بالحديث إلا بما يحفظه ولا يحدث بما لا يحفظ وقال صالح بن محمد الأسدي عن بن معين كان أبو حنيفة ثقة في الحديث(تهذيب التهذيب (10/ 450)
محمد بن سعد عوفی کا ترجمہ میزان الاعتدال میں دیکھئے یہ ہے:

7583 - محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية العوفى.عن يزيد بن هارون، وروح، وعبد الله بن بكر.وعنه ابن صاعد، وأحمد بن كامل، والخراساني، وعدة.قال الخطيب: كان لينا في الحديث، وروى الحاكم عن الدارقطني أنه لا بأس به.توفي سنة ست وسبعين ومائتين.( ميزان الاعتدال (3/ 560)
زبیر علی زئی بسااوقات یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ متقدم کے قول کو متاخر کے قول پر ترجیح حاصل ہوگی اوراسی اصول پر اس نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کے حضرت انس کو دیکھنے اورنہ دیکھنے کے مسئلہ میں خطیب بغداد کے قول پر دارقطنی کے قول کو ترجیح دی ہے،یہ اور بات ہے کہ دارقطنی کے انکار سے پہلے بھی دیگر محدثین جیسے ابن کاس نخعی وغیرہ امام ابوحنیفہ کے حضرت انس کو دیکھنے کی تصریح کرچکے ہیں۔کہنایہ ہے کہ خطیب لین کہتے ہیں جو نہایت ہلکی جرح ہے اور دارقطنی لاباس بہ کہتے ہیں ،تقدم کے اعتبار سے زبیر علی زئی کے اصول پر دارقطنی کے قول کو ترجیح ہوگی،یاتوآپ زبیر علئی زئی کے اس اصول کو واضح لفظوں میں غلط قراردیں یاپھر یہاں بھی اس کی صحت کا اقرار کریں۔
دوسری بات صالح بن محمد اسدی کی ہے، یہ قول تہذیب الکمال للمزی میں جزم کے صیغہ کے ساتھ موجود ہے،مزی نے مقدمہ میں صراحت کی ہے جس قول کو وہ جزم کے صیغہ کے ساتھ ذکر کریں گے، تواس قول کی سند ان کے نزدیک درست ہوگی ،حافظ مزی کا علم حدیث میں پایہ بہت بلند ہے، حافظ ذہبی نے ان کو ابن تیمیہ پر علم حدیث میں ترجیح دی ہے،خود ابن تیمیہ حدیث کے بارے میں مزی سے پوچھاکرتے تھے،لہذا ان کی یہ بات مطلقا رد نہیں کی جاسکتی۔
اب رہی یہ بات کہ اس کی سند کس کتاب میں موجود ہے اورپوری سند کیاہے ،تویہ بات واضح رہنی چاہئے کہ حدیث کی تمام کتابیں شائع نہیں ہوئی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مزی نے جن کتابوں سے استفادہ کیاہے،وہ تمام کی تمام ہمارے سامنے ہوں، لہذا محض اس بناء پر کہ اس کی پوری سند موجود نہیں، اس قول کا انکار کردینا علمی اصول کے اعتبار سے غلط ہوگا،اور تاوقتیکہ اس کی سند لاکر اسے ضعیف ثابت نہیں کردیاجاتا،مزی کے قول پر اس بارے میں اعتبار کیاجائے گا۔
دوسری بات غیرمقلدین کے دوہرے معیار اورپیمانہ کی یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کو مجروح ثابت کرنے کیلئے وہ بھی ابن معین کے اس قول لیس بشی فی الحدیث کو پیش کرتے ہیں اورکبھی قلیل الحدیث ثابت کرنے کیلئے۔سوال یہ ہے کہ لیس بشی کا معنی کیاہے ،اس سے تقلیل حدیث مراد ہے ،یاپھر جرح مراد ہے،اگرتقلیل حدیث مراد ہے توپھر یہ جرح نہیں ہے اوراگریہ جرح ہے توپھر اس سے تقلیل حدیث مراد لینا غلط ہوگاکیونکہ راوی کا قلیل الحدیث ہونا جرح نہیں ہے۔
ابن دائود کو چاہئے کہ اپنے آئندہ مراسلے میں اس دورنگی کو یک رنگی سے بدلیں کہ اس قول سے کیامراد ہے، قلت حدیث ،یاپھر جرح،جوبھی ثابت کریں، مدلل اورباحوالہ ہو، محض دماغی اپج نہ ہو، ہمیں معلوم ہے کہ ابن داؤد کا دماغ بہت زرخیز ہے اور وہ بہت دورازکار تاویلیں بہت جلدی سوچنے میں مہارت رکھتے ہیں؛لیکن ہماری گزارش ہے کہ اپنے دماغی اپج سے ہمیں محفوظ رکھتے ہوئے باحوالہ نقول پیش کریں۔
جاری ہے................
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
امام نسائی

ابن داؤد نے حسب معمول اس پر بھی غورنہیں کیاکہ امام نسائی کے الفاظ کیاہیں، بس’’ قلۃ‘‘ کا لفظ دیکھا اورنقل کردیا،انہوں نے قلۃ روایت کا لفظ استعمال کیاہے،یعنی انہوں نے احادیثیں کم روایت کی ہیں، یہ نہیں کہ ان کے پاس حدیثیں بھی کم تھیں۔ کسی کے پاس حدیث کم یازیادہ ہونا دوسرا مسئلہ ہے اورکسی کاکم زیادہ روایت کرنا دوسرا مسئلہ ہے، دونوں کو ایک نہیں کیاجاسکتا۔امام نسائی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے روایتیں کم منقول ہیں۔
نوٹ:واضح رہے کہ میرے جواب میں بات امام ابوحنیفہ کوقلیل الحدیث کے الزام تک محدود ہے، امام ابوحنیفہ پر جرح سے میں نے تعرض نہیں کیاہے،چونکہ اس کیلئے علیحدہ بحث ہونی چاہئے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تمام قارئین کو میری جانب سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
درمیان میں تھوڑا تعطل اس لئے ہوگیاکہ اسی درمیان عمرہ کا مبارک سفر ہوا، جس میں حرمین شریفین مین حاضری کی سعادت نصیب ہوئی،اب آتے ہیں پھر سے موضوع کی جانب ،
امام ابوداؤد فرماتے ہیں :
رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ كَانَ إِمَامًا رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ كَانَ إِمَامًا
اورابن داؤد کی مضحکہ خیز تاویل دیکھئے:
بات صرف اتنی ہے کہ اہل الرائے کی تکفیر نہیں کی جاتی، اور اہل الرائے کے کا شمار بھی مسلمین میں ہوتا ہے، اور ان کے امام بھی مسلمین کے ''امام'' شمار ہوتے ہیں! اور ان کے لئے ''رحمه الله'' کہا جاتا ہے!
اب اس پر کوئی سرکو پیٹے یاجگر کو روئے
مزید گلفشانی ملاحظہ ہو:

اگر کوئی اس بات پر مصر ہو کہ یہاں امام امالک اور امام شافعی اور امام ابو حنیفہ تینوں کے ساتھ ایک ہی الفاظ ادا کیئے ہیں، تو تینوں کی امامت بالکل ایک جیسی ہے، تو پھر امام ابو حنیفہ کو بھی امام مالک اور امام شافعی کی طرح فقہ اہل الحدیث کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ خلاف حقیقت ہے، یا امام مالک اور امام شافعی کو بھی فقہ اہل الرائے کا امام قرار دینا پڑے گا، اور یہ بھی خلاف حقیقت ہے!
یہی ہے اہل حدیثانہ مغالطہ !
ہم کہہ رہے ہیں کہ ان حضرات کی طرح امام ابوحنیفہ بھی حدیث اورفقہ کے امام تھے اور ابن داؤد ہمیں باور کراناچاہ رہے ہیں کہ فقہ اہل الحدیث کےا مام تھے،ویسے ابن داؤد اوران کے قبیل کے لوگ جب امام شافعی اورامام مالک کو فقہ اہل الحدیث قراردیتے ہیں توپھر نہ جانے وہ اپناشمار کس گنتی میں کرتے ہیں؟اگرشوافع حنابلہ اورمالکیہ اہل حدیث ہیں تویہ پانچویں سوار کون ہیں اور اگریہ حضرات اہل حدیث نہیں ہیں ،جیساکہ پوری دنیا میں سلفیوں نے مسالک اربعہ کے خلاف محاذ کھول رکھاہے توپھریہاں پر اس دروغ بے فروغ کا منشاکیاہے?
دوسری بات یہ ہے کہ فقہ الحدیث سے مراد کیاہے، امام مالک کا شمار بہت سارے حضرات نے فقہاء اہل الرائے میں کیاہے؟فقہ کو شروع سے رائے سے تعبیر کیاگیاہے، اگرکبھی فرصت ملے توکچھ کتابیں بھی دیکھ لیاکریں، اسکین بازی سے ہٹ کر کچھ مطالعہ کیلئے بھی وقت نکال لیاکریں۔
ایک بنیادی سوال :
صرف ابن دائود سے نہیں بلکہ ان کے تمام ہم مسلک اورہم قبیلہ وقبیل کے لوگوں سے ،جس کا جواب باوجود متعدد بار سوال کے آج تک نہیں ملا کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث میں بنیادی فرق کیاہے ،جس کی وجہ سے ایک فرد اہل الرائے کہلائے اور دوسرا اہل حدیث کہلائے،وہ کون سا جوہری اوراصل مابہ الامتیاز ہے جس کی وجہ سے ہم کسی کو اہل الرائے کے خانے میں رکھتے ہیں اورکسی کو اہل حدیث کے، اگر ابن داؤد اوران کے ہم مسلک حضرات کے پاس اس کاکوئی معقول جواب نہ ہو توآئندہ یہ بحث ہی نہ چھیڑیں کہ فلاں اہل الرائے اورفلاں اہل الحدیث ہے،کسی کا خود کا نام اہل الحدیث رکھ لینا اس کا ضامن نہیں کہ وہ واقعتا اہل حدیث بھی ہے، معتزلہ خود کو اہل العدل والتوحید کہاکرتے تھے ،لیکن کیاوہ موحد تھے؟خوارج کا نعرہ ان الحکم الاللہ کا ہواکرتاتھا،کیاوہ اپنے نعرہ میں سچے تھے؟اہل حدیث حضرات خودبھی ان مثالوں میں غورکریں ،ہوسکتاہے کہ کچھ سمجھ میں آجائے۔

اپنے من میں ڈوب کر پاجاسراغ زندگی
تواگرمیرانہیں بنتانہ بن اپناتوبن
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top