محمد عثمان رشید
رکن
- شمولیت
- ستمبر 06، 2017
- پیغامات
- 96
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 65
"اخبرنا القاضی ابوبکر احمد ابن الحسن الحیری وابوالقاسم عبدالرحمن بن محمد بن یعقوب الاصم حدثنا محمد بن اسحاق الصاغانی حدثنا سعید بن عامر حدثنا سلام بن ابی مطیع قال کان ایوب قاعدا فی المسجد الحرام فرآه ابوحنیفه فاقبل نحوه فلما راسه ایوب قد اقبل نحوه قال لاصحابه قوموالا یعدنا بجربه فقاموا فتفرقوا."
(تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۳۹۷.)
"کهتے هیں که امام سختیانی مسجد الحرام میں بیٹهے هوئے تهے تو امام صاحب نے انکی طرف رخ کیا. امام ایوب نے اپنے شاگرد سے کها تم یهاں سے چلے جاؤ کهیں یه تم کو اپنی خارش نه لگا دیں. مراد که ان کی صحبت سے بچو. ایوب سختیانی کے اس فرمان کی فورا تعمیل هوئی."
بعض حضرات اس جرح کا جواب دیتے هوئے کهتے هیں که اسکی سند میں سلام بن ابی مطیع هے جو که مختلف فیه راوی هے اور ابن حبان نے کها که جب منفرد هو تو احتج نهیں کثیر الوهم هے
الجواب:
سلام بن ابی مطیع راوی ثقه صدوق صحیح یا حسن الحدیث راوی هے جمهور نے اسکی توثیق کی هے. اور اس سے احتجاج کیا هے
تفصیل دیکهے:
الجرح:
قال ابن عدی لیس بمستقیم الحدیث عن قتاده.
(الکامل فی الضعفاء الرجال ج ۴ ص ۳۱۷ ت ۷۶۹.)
یه کوئی جرح نهیں هے سلام بن ابی مطیع قتاده سے روایت میں لیس بمستقیم هے مطلب قتاده سے روایت میں ضعیف هے اس سے راوی ساقط الاعتبار نهیں هوتا نه اسکا ضعیف هونا لازم آتا هے بس صرف قتاده سے روایت جو هو گی هو ضعیف هو گی. ایسے بهت سے راوی هیں جو اپنے کسی خاص استاد سے راویت کرنے میں ضعیف هیں مگر کس اور سے روایت میں ثقه هے
نیز اسکا جواب آگے بهی آئے گا ان شاءالله.
۲: قال امام حاکم فی المدخل: "منسوب الی الغفله وسوء الحفظ"
یه جرح بهی مردود هے اسکی وجه یه هے که اگر یه جرح صحیح هوتی تو امام حاکم المستدرک میں اسکی حدیث کی تصحیح نه کرتے. وه خود بهی اس جرح سے راضی نهیں تهے. تفصیل آرهی هے ان شاءالله.
اور اگر یه جرح ثابت بهی هو جائے تو جمهور کے مقابله میں مردود هے.
۳: ابن حبان نے کثیر الوهم لایحتج به اذا انفرد فی کتاب الضعفاء والمتروکین.
(المغنی الذهبی ت ۲۵۰۶.)
یه جرح تین وجه سے مردود هے پهلی یه که ابن حبان متشدد هے.
دوسری وجه یه هے که جمهور کے مقابله میں هے.
تیسری وجه یه هے که ذهبی نے اسکا جواب دیا هے جو که آگے آرها هے انشاءالله.
اور محدثین نے اس جرح کا کوئی اعتبار نهیں کیا.
اور اب الله کے حکم سے تعدیل دیکهے.
التعدیل:
۱: امام احمد نے ثقه صاحب السنه کها(العلل ومعرفه الرجال ج ۱ ص ۲۵۳, ۲۲/۲)
فائده:
علامه عینی حنفی نے ایک راوی جو کے مختلط هونے کی بنا پر ضعیف هے, پر جرح کی اور امام احمد سے توثیق نقل کی
اور کها:
"وثقه احمد وکفی بذلک."
(عمدۃ القاری ج ۱ ص ۲۳۴.)
کهتے هیں امام احمد کی اسکے حق میں ثوثیق کافی هے.
احمد نے ثقه کها هے راوی کو.
یهاں دیکهے که یهاں جمهور نے راوی کو اختلاط کی بنا پر ضعیف کها هے مگر عینی کهتے هیں که نهیں بهائی احمد نے ثوثیق کر دی بس یه هی کافی هے.
کیا یه اصول یهاں مقبول هے؟
۲: ابن خلفون نے ثقات میں ذکر کیا هے؛
۳: ابو عوانه نے اپنی صحیحه میں راوی لی.
(الکامل تهذیب الکامل المغلطائی الحنفی ج ۶ ص ۱۸۲ ت ۲۳۱۶.)
۴: ابو حاتم نے صالح الحدیث کها.
(الجرح والتعدیل ۲۵۸/۱/۲.)
۵: ابن مهدی نے روایت لی هے.
(ایضا.)
۶: ابو سلمه نے سلام بن مطیع کے متعلق کها هو اعقل اهل البصر.
(سیر اعلام النبلاء ج ۷ ص ۹۶ ط الحدیث ت ۱۱۶ تهذیب التهذیب لابن حجر.)
۷: ابن عدی کے مکمل الفاظ هیں
"لا باس به لم ار احد من المتقدمین نسبه الی الضعیف."
(الکامل ج ۴ ص ۳۱۷.)
لهذا ثابت هوا که ابن عدی کی جرح صرف اور صرف قتاده سے روایت میں هے اور یه سند سلام بن مطیع نے قتاده سے بالکل نهیں لی اس سند میں قتاده موجود نهیں هے.
ابن عدی نے صاف صاف کها که لا باس به هے میں نے متقدمین میں سے کسی کو اس یعنی مطیع کو ضعیف کی طرف منسوب کرتے نهیں دیکها
۸. امام نسائی نے ثقه لیس به باس کها.(سیر اعلام النبلاء ج ۷ ص ۴۲۸. تهذیب التهذیب ج ۴)
۹. امام بزار نے مسند میں کها
"کان من خیار الناس و عقلائهم."
(تهذیب التهذیب ج ۴ ص ۲۸۸ ومسند البزار ۲۵۷۸, ۴۴۲.)
۱۰. امام ترمذی نے اس کی حدیث کے متعلق کها هذا حدیث حسن صحیح غریب.
کها اور سلام کے متعلق کها ثقه.
(سنن الترمذی رقم ۳۲۱۳, وفی نسخه ۳۲۷۱.)
۱۱: امام بخاری نے متابعت میں روایت لی.(مقدمه فتح الباری ۴۶, رجال الصحیح البخاری للباجی ص ۱۶۸. والجمع لابن القیسرانی ج ۱ ص ۱۹۶ ت ۷۳۵.)
اور تاریخ الکبیر ج ۴ ص ۱۳۴ ت ۲۲۲۹ میں ذکر کیا اور تاریخ الصغیر ج ۲ ص ۱۵۹ میں ذکر کیا.
۱۲: ابن شاهین نے ثقات میں ذکر کیا(اسماء الثقات ج ۱ ص ۱۰۱ ت ۴۶۸.)
۱۳: امام مسلم نے متابعت میں روایت لی.(رجال صحیح مسلم لابن منجویه ص ۶۹ اور ابن القیسرانی ت ۷۳۵.)
۱۴: علامه ذهبی نے الکاشف میں ذکر کیا ت ۲۲۱۲.
المغنی میں ذکر کیا
دیوان الضعفاء میں ذکر کیا اور کها:
"صدوق لا باس به."
(دیوان الضعفاء ت ۱۶۸۶ ج ۱ ص ۱۶۶.)
اور سیر اعلام النبلاء میں امام الثقه القدوه کها
(سیر اعلام ج ۷ ص ۴۲۹.)
اور ابن حبان کی جرح کا جواب دیتے هوئے کهتے هیں:
"قلت قد احتج به الشخیان ولا ینحط حدیثه عن درجه الحسن."
"کهتے هیں که بخاری مسلم نے اس سے احتج کیا هے اور اسکی حدیث درجه حسن سے نهیں گرتی" لهذا ثابت هو گیا که علامه ذهبی بهی ابن حبان کی جرح کو تسلیم کرتے نهیں هیں. ابن حبان کی جرح کسی لهذا سے بهی قابل قبول نهیں هے اهل باطل جتنی مرضی کوشش کر لے یه جرح مردود هے مردود هے مردود هے. الحمدالله.
اور علامه ذهبی نے
"من تکلم فیه وهو موثق ت امریر میں ذکر کیا هے.
(ت ۱۶۰, اور ت الرحیلی ج ۱ ص ۱۶۱ ص ۲۳۵ وفی نسخه ۱۵)
اور العبر میں ذکر کیا ج ۱ ص ۲۶۲.
۱۵: ابو نعیم نے حلیه الاولیاء میں ذکر کیا ج ۶ ص ۱۸۸.
یعنی کے وه اولیا الله میں سے هیں.!
۱۶: ابو داود نے ثقه کها
(تهذیب الکامل فی اسماء الرجال للمزی ج ۸ ص ۲۳۱, سوالات آلاجری ت ۵۰۹.)
۱۷: ابن حجر نے ثقه صاحب السنه کها
(تقریب ۲۷۱۱.)
۱۸: امام حاکم نے اس کی حدیث کے متعلق کها:
"هذا حدیث صحیح علی شرط صحیح البخاری"
(المستدرک ج ۲ ص ۱۶۳, دوسرا نسخه ج ۲ ص ۵۱۱, رقم ۲۶۱۴, ۲۷۳۷ وغیره.)
لهذا ثابت هوا که امام حاکم بهی سلام پر جرح کو قبول نهیں کرتے.
۱۹: ابن عبدالهادی نے فمن تکلم فیه الامام احمد عدح اوذم میں ذکر کیا
(ص ۷۱ ت ۴۲ٹ.)
۲۰: صالح بن حماد الرفاعی نے الثقات الذین ضعفوا فی بعض الشیوخم من ذکر کیا اور اس کو ثقه کها ص ۱۶۳.
نیز قابل غور بات یه هے که جو ابن عدی نے جرح کی تهی کے قتاده سے روایت میں ضعیف هے.
تو جناب نے اپنی مذکورۃ کتاب میں اسکی تحقیق کر کے سلام بن ابی مطیع کو قتاده سے مطلق ثقه بهی قرار دیا هے. فتدبر.!
۲۱: ابن معین نے بهی توثیق کی هے.
(تاریخ الدوری ج ۲ ص ۲۲۲.)
لهذا اس تفصیل سے معلوم هوا که بخاری مسلم نے اس سے روایت لی هے اور اس سے احتجاج کیا هے اور محدثین نے ثقه صدوق کها هے اس پر کوئی ایسی جرح ثابت نهیں هے جس سے راوی ضعیف ثابت هو اور دلائل سے ثابت کردیا گیا هے که یه راوی ثقه صدوق حسن یا صحیح حدیث راوی هے.
اور پهر اسکی تائید ایک اور راویت سے بهی هوتی هے.
"حدثنی احمد بن محمد بن یحیی بن سعید القطان ثنا ابو نعیم قال کنا مع سفیان جلوسا فی المسجدالحرام فاقبل ابوحنیفه یریده فلما رآه سفیان قال قوموا بنا لا یعدنا هذا...الخ"
(کتاب السنه لعبدالله بن احمد بن حنبل ج ۱ ص ۱۹۹, رقم ۲۹۱ ط دارابن القیم, محقق (الدکتور محمد بن سعید بن سالم القحطانی.) نے کها اسناده صحیح.)
لهذا سلام پر جرح هی مردود هے
.
نیز اس کی سند میں ایک اور راوی پر بهی جرح کی جاتی هے جسکا نام سعید بن عامر حالانکه یه راوی ثقه هے.
بهرحال ایوب سختیانی کی ایک اور جرح بهی صحیح سند سے مروی هے جیسا که تاریخ بغداد میں هے.
(تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۳۹۷.)
"کهتے هیں که امام سختیانی مسجد الحرام میں بیٹهے هوئے تهے تو امام صاحب نے انکی طرف رخ کیا. امام ایوب نے اپنے شاگرد سے کها تم یهاں سے چلے جاؤ کهیں یه تم کو اپنی خارش نه لگا دیں. مراد که ان کی صحبت سے بچو. ایوب سختیانی کے اس فرمان کی فورا تعمیل هوئی."
بعض حضرات اس جرح کا جواب دیتے هوئے کهتے هیں که اسکی سند میں سلام بن ابی مطیع هے جو که مختلف فیه راوی هے اور ابن حبان نے کها که جب منفرد هو تو احتج نهیں کثیر الوهم هے
الجواب:
سلام بن ابی مطیع راوی ثقه صدوق صحیح یا حسن الحدیث راوی هے جمهور نے اسکی توثیق کی هے. اور اس سے احتجاج کیا هے
تفصیل دیکهے:
الجرح:
قال ابن عدی لیس بمستقیم الحدیث عن قتاده.
(الکامل فی الضعفاء الرجال ج ۴ ص ۳۱۷ ت ۷۶۹.)
یه کوئی جرح نهیں هے سلام بن ابی مطیع قتاده سے روایت میں لیس بمستقیم هے مطلب قتاده سے روایت میں ضعیف هے اس سے راوی ساقط الاعتبار نهیں هوتا نه اسکا ضعیف هونا لازم آتا هے بس صرف قتاده سے روایت جو هو گی هو ضعیف هو گی. ایسے بهت سے راوی هیں جو اپنے کسی خاص استاد سے راویت کرنے میں ضعیف هیں مگر کس اور سے روایت میں ثقه هے
نیز اسکا جواب آگے بهی آئے گا ان شاءالله.
۲: قال امام حاکم فی المدخل: "منسوب الی الغفله وسوء الحفظ"
یه جرح بهی مردود هے اسکی وجه یه هے که اگر یه جرح صحیح هوتی تو امام حاکم المستدرک میں اسکی حدیث کی تصحیح نه کرتے. وه خود بهی اس جرح سے راضی نهیں تهے. تفصیل آرهی هے ان شاءالله.
اور اگر یه جرح ثابت بهی هو جائے تو جمهور کے مقابله میں مردود هے.
۳: ابن حبان نے کثیر الوهم لایحتج به اذا انفرد فی کتاب الضعفاء والمتروکین.
(المغنی الذهبی ت ۲۵۰۶.)
یه جرح تین وجه سے مردود هے پهلی یه که ابن حبان متشدد هے.
دوسری وجه یه هے که جمهور کے مقابله میں هے.
تیسری وجه یه هے که ذهبی نے اسکا جواب دیا هے جو که آگے آرها هے انشاءالله.
اور محدثین نے اس جرح کا کوئی اعتبار نهیں کیا.
اور اب الله کے حکم سے تعدیل دیکهے.
التعدیل:
۱: امام احمد نے ثقه صاحب السنه کها(العلل ومعرفه الرجال ج ۱ ص ۲۵۳, ۲۲/۲)
فائده:
علامه عینی حنفی نے ایک راوی جو کے مختلط هونے کی بنا پر ضعیف هے, پر جرح کی اور امام احمد سے توثیق نقل کی
اور کها:
"وثقه احمد وکفی بذلک."
(عمدۃ القاری ج ۱ ص ۲۳۴.)
کهتے هیں امام احمد کی اسکے حق میں ثوثیق کافی هے.
احمد نے ثقه کها هے راوی کو.
یهاں دیکهے که یهاں جمهور نے راوی کو اختلاط کی بنا پر ضعیف کها هے مگر عینی کهتے هیں که نهیں بهائی احمد نے ثوثیق کر دی بس یه هی کافی هے.
کیا یه اصول یهاں مقبول هے؟
۲: ابن خلفون نے ثقات میں ذکر کیا هے؛
۳: ابو عوانه نے اپنی صحیحه میں راوی لی.
(الکامل تهذیب الکامل المغلطائی الحنفی ج ۶ ص ۱۸۲ ت ۲۳۱۶.)
۴: ابو حاتم نے صالح الحدیث کها.
(الجرح والتعدیل ۲۵۸/۱/۲.)
۵: ابن مهدی نے روایت لی هے.
(ایضا.)
۶: ابو سلمه نے سلام بن مطیع کے متعلق کها هو اعقل اهل البصر.
(سیر اعلام النبلاء ج ۷ ص ۹۶ ط الحدیث ت ۱۱۶ تهذیب التهذیب لابن حجر.)
۷: ابن عدی کے مکمل الفاظ هیں
"لا باس به لم ار احد من المتقدمین نسبه الی الضعیف."
(الکامل ج ۴ ص ۳۱۷.)
لهذا ثابت هوا که ابن عدی کی جرح صرف اور صرف قتاده سے روایت میں هے اور یه سند سلام بن مطیع نے قتاده سے بالکل نهیں لی اس سند میں قتاده موجود نهیں هے.
ابن عدی نے صاف صاف کها که لا باس به هے میں نے متقدمین میں سے کسی کو اس یعنی مطیع کو ضعیف کی طرف منسوب کرتے نهیں دیکها
۸. امام نسائی نے ثقه لیس به باس کها.(سیر اعلام النبلاء ج ۷ ص ۴۲۸. تهذیب التهذیب ج ۴)
۹. امام بزار نے مسند میں کها
"کان من خیار الناس و عقلائهم."
(تهذیب التهذیب ج ۴ ص ۲۸۸ ومسند البزار ۲۵۷۸, ۴۴۲.)
۱۰. امام ترمذی نے اس کی حدیث کے متعلق کها هذا حدیث حسن صحیح غریب.
کها اور سلام کے متعلق کها ثقه.
(سنن الترمذی رقم ۳۲۱۳, وفی نسخه ۳۲۷۱.)
۱۱: امام بخاری نے متابعت میں روایت لی.(مقدمه فتح الباری ۴۶, رجال الصحیح البخاری للباجی ص ۱۶۸. والجمع لابن القیسرانی ج ۱ ص ۱۹۶ ت ۷۳۵.)
اور تاریخ الکبیر ج ۴ ص ۱۳۴ ت ۲۲۲۹ میں ذکر کیا اور تاریخ الصغیر ج ۲ ص ۱۵۹ میں ذکر کیا.
۱۲: ابن شاهین نے ثقات میں ذکر کیا(اسماء الثقات ج ۱ ص ۱۰۱ ت ۴۶۸.)
۱۳: امام مسلم نے متابعت میں روایت لی.(رجال صحیح مسلم لابن منجویه ص ۶۹ اور ابن القیسرانی ت ۷۳۵.)
۱۴: علامه ذهبی نے الکاشف میں ذکر کیا ت ۲۲۱۲.
المغنی میں ذکر کیا
دیوان الضعفاء میں ذکر کیا اور کها:
"صدوق لا باس به."
(دیوان الضعفاء ت ۱۶۸۶ ج ۱ ص ۱۶۶.)
اور سیر اعلام النبلاء میں امام الثقه القدوه کها
(سیر اعلام ج ۷ ص ۴۲۹.)
اور ابن حبان کی جرح کا جواب دیتے هوئے کهتے هیں:
"قلت قد احتج به الشخیان ولا ینحط حدیثه عن درجه الحسن."
"کهتے هیں که بخاری مسلم نے اس سے احتج کیا هے اور اسکی حدیث درجه حسن سے نهیں گرتی" لهذا ثابت هو گیا که علامه ذهبی بهی ابن حبان کی جرح کو تسلیم کرتے نهیں هیں. ابن حبان کی جرح کسی لهذا سے بهی قابل قبول نهیں هے اهل باطل جتنی مرضی کوشش کر لے یه جرح مردود هے مردود هے مردود هے. الحمدالله.
اور علامه ذهبی نے
"من تکلم فیه وهو موثق ت امریر میں ذکر کیا هے.
(ت ۱۶۰, اور ت الرحیلی ج ۱ ص ۱۶۱ ص ۲۳۵ وفی نسخه ۱۵)
اور العبر میں ذکر کیا ج ۱ ص ۲۶۲.
۱۵: ابو نعیم نے حلیه الاولیاء میں ذکر کیا ج ۶ ص ۱۸۸.
یعنی کے وه اولیا الله میں سے هیں.!
۱۶: ابو داود نے ثقه کها
(تهذیب الکامل فی اسماء الرجال للمزی ج ۸ ص ۲۳۱, سوالات آلاجری ت ۵۰۹.)
۱۷: ابن حجر نے ثقه صاحب السنه کها
(تقریب ۲۷۱۱.)
۱۸: امام حاکم نے اس کی حدیث کے متعلق کها:
"هذا حدیث صحیح علی شرط صحیح البخاری"
(المستدرک ج ۲ ص ۱۶۳, دوسرا نسخه ج ۲ ص ۵۱۱, رقم ۲۶۱۴, ۲۷۳۷ وغیره.)
لهذا ثابت هوا که امام حاکم بهی سلام پر جرح کو قبول نهیں کرتے.
۱۹: ابن عبدالهادی نے فمن تکلم فیه الامام احمد عدح اوذم میں ذکر کیا
(ص ۷۱ ت ۴۲ٹ.)
۲۰: صالح بن حماد الرفاعی نے الثقات الذین ضعفوا فی بعض الشیوخم من ذکر کیا اور اس کو ثقه کها ص ۱۶۳.
نیز قابل غور بات یه هے که جو ابن عدی نے جرح کی تهی کے قتاده سے روایت میں ضعیف هے.
تو جناب نے اپنی مذکورۃ کتاب میں اسکی تحقیق کر کے سلام بن ابی مطیع کو قتاده سے مطلق ثقه بهی قرار دیا هے. فتدبر.!
۲۱: ابن معین نے بهی توثیق کی هے.
(تاریخ الدوری ج ۲ ص ۲۲۲.)
لهذا اس تفصیل سے معلوم هوا که بخاری مسلم نے اس سے روایت لی هے اور اس سے احتجاج کیا هے اور محدثین نے ثقه صدوق کها هے اس پر کوئی ایسی جرح ثابت نهیں هے جس سے راوی ضعیف ثابت هو اور دلائل سے ثابت کردیا گیا هے که یه راوی ثقه صدوق حسن یا صحیح حدیث راوی هے.
اور پهر اسکی تائید ایک اور راویت سے بهی هوتی هے.
"حدثنی احمد بن محمد بن یحیی بن سعید القطان ثنا ابو نعیم قال کنا مع سفیان جلوسا فی المسجدالحرام فاقبل ابوحنیفه یریده فلما رآه سفیان قال قوموا بنا لا یعدنا هذا...الخ"
(کتاب السنه لعبدالله بن احمد بن حنبل ج ۱ ص ۱۹۹, رقم ۲۹۱ ط دارابن القیم, محقق (الدکتور محمد بن سعید بن سالم القحطانی.) نے کها اسناده صحیح.)
لهذا سلام پر جرح هی مردود هے
.
نیز اس کی سند میں ایک اور راوی پر بهی جرح کی جاتی هے جسکا نام سعید بن عامر حالانکه یه راوی ثقه هے.
بهرحال ایوب سختیانی کی ایک اور جرح بهی صحیح سند سے مروی هے جیسا که تاریخ بغداد میں هے.