• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ابو حنیفہ رح کے نزدیک بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی احادیث قابل قبول نہیں؟غالباً ایک شیعہ کی تحریر؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ مضمون بذریعہ وٹس ایپ موصول ہوا ہے..اہل علم کی رائے درکار ہے. جزاک اللہ خیرا!

امام ابوحنيفة رحمه الله كے نزديک بعض صحابه كرام كي احاديث قابل قبول نهيں، اور انكي تعداد تقريباً تين هے:
[1) أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق هے ابوحنيفة سے جب پوچها گيا كه ابو هريرة رض كي احاديث كو كيون قبول نه كيا جائے ؟ تو جواب ديا: كه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا تهے اسلئے انكي احاديث معتبر نهيں.
[2] حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا.
[3] حضرت سمرة بن جندب رضي الله عنه كي احاديث بهي معتبر نهيں.
امام ابو يوسف رحمه الله سے مروي هے جو ابو حنيفه كے شاگرد تهے كهتے هيں كه ميں نے ابو حنيفة سے پوچها كه اگر همارے پاس كوئي حديث همارے قياس كے خلاف هو تو هم كيا كريں تو ابوحنيفة نے جواب ديا كه اسي پر عمل كيا جائے اور قياس ترک كيا جائے تو ميں نے عرض كيا كه اگر ابوبكر و عمر عثمان و علي كي روايت آئے تو آپ نے فرمايا انكي بهي حديث معتبر هے اور اسي پر عمل هوگا اور فرمايا كه تمام صحابه عدول هيں سوائے چند صحابہ مثلا: أبوهريرة أنس بن مالك رضوان الله عليهم اجمعين.
اور اسي طرح أحمد أمين المصراة نقل كرتے هيں امام ابوحنيفة سے كه وه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه كي احاديث كو رد كرتے تهے جب انكي احاديث انكے قياس كے مخالف هوتي اور كها كرتهے كه ابوهريرة رضي الله عنه غير فقيه هيں ، اسلئے انكي احاديث رد كي جائے جو همارۓ قياس كے مخالف هو.
ملا علي القاري الحنفي جو حنفي مسلک كے بهت بڑے عالم گذرے هيں فرماتے هيں كه امام ابوحنيفة رحمه الله كے اصول ميں سے هے كه راوي انکي راي كے خلاف عمل نه كرے اسلئے انهوں نے حضرت ابوهرة كي وه حديث غسل رد كي كيوں كه وه انكے فتوى كے خلاف تهي.
اب آل اصحاب الرأي آل ديوبند (مقلدين احناف) سے چند سوالات جواب ديناغور كرنا پسند فرماويگے؟؟
آن حضرات (آل ديبند) كے كتنے روپ هيں؟؟
{1} كيا تمام صحابه كرام عدل كرنے والے تهے؟ اگر تهے تو پهر يه كونسا روپ هے؟
{2} كيا ايسے هي شخص كو امام اعظم كا لقب ديا جاسكهتا هے جو صحابه كي عدالت پر شک كرے؟
{3} يا ايسے شخص كو (محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم) جسكو اهل الحديث امام اعظم كا لقب ديتے هيں؟
{4} كيا أصحاب الرأي كے نزديک صحابه كرام معصوم هيں؟ يقيناً انكا جواب يهي هوگا كه هاں تمام صحابه معصوم عن الخطأ تهے جيساكه بهت سے مقلدين نے اسكو اپني كتابوں ميں ذكركيا هے تو پهر ابوهريرةرضي الله عنه كيا صحابي نهيں هے ؟
{5} صحابه كي عدالت پر شک كرنا اسكا كيا حكم هے؟
{6} كيا صحابي بهتر هے يا ابوحنيفة؟
{7} كيا صحابه كرام حضرت ابوهريرة رضي الله عنه سے حديثں قبول نهيں كرتے تهے؟؟
{8} كيا صحابه كرام پر طعن كرنے والے اهل السنة والجماعة كهلانے کے مستحق هے يا نهيں؟
{9} جوحضرات صحابه كرام كي عدالت پر نقد كريں، اور انكي احاديث كو رد كريں وه أهل السنة والجماعة اور جو انكي هر حديث لينے كيلئے تيار ان پر اعتراضات اور برے القاب سے پكارا جاتا هے.
***********************************************
اس شخص كا حكم جو كسي صحابي پر لعن طعن كرے اسكو گالي دے يا اس پر كوئي جرح كرے علماء اهل السنة كي نظر ميں:
1} امام احمد بن حنبل رحمه الله فرماتےهيں: جو اصحاب الرسول ميں سے كسي كو گالي دے يا ان ميں سے كسي كي برائي كرے يا كسي پر طعن كرے يا كسي كا كوئي عيب بيان كرے وه بدعتي رافضي خبيث هے اسكي كوئي بات قبول نه كي جائےگي.
2} امام طحاوي فرماتے هيں: هم صحابه كرام سے محبت كرتے هيں اور جوان سے بغض ركهے هم اس سے بغض ركهيں گے اور هم صحابه كا ذكر خير هي سےکرينگے، اور صحابه سے محبت كرنا ايمان هے، ان سے بغض ركهنا كفر، نفاق اورسركشي هے
العقيدة الطحاوية ٤٦٧ ]
3} امام ابن قدامه فرماتے هيں سنت يه هے كه صحابه كرام سے محبت كي جائے انكا ذكر خيرا كياجائے انكي خوبياں بيان كي جائيں اورانكے كے لئے استغفار كياجائے انكي فضيلت بيان كي جائے.
" ومن السُّنة تولّي أصحاب رسول الله ﷺ ومحبّتهم ، وذكر محاسنهم والتّرحم عليهم والاستغفار لهم ، والكف عن ذكر مساوئهم ، وما شجر بينهم ، واعتقاد فضلهم ومعرفة سابقتهم ".
4} امام ابوزرعة فرماتے هيں كه اگر تم كسي شخص كو صحابه پر نقد كرتے هوئے ديكهو تو جان لو وه زنديق هے يه اسلئے كه همارے نزديک رسول الله صلى الله عليه وسلم حق هے قرآن حق هے، اور جنهوں نے اس قرآن كواور رسول الله صلى الله عليه وسلم كي سنن كو هم تک پهونچايا ، كيا وه چاهتے هيں كه وه قرآن وسنة كو باطل ٹهرائيں ، اس سے بهتر هے انكو زنديق سمجها جائے.
5} علامه ابن حجر العسقلاني رحمه الله فرماتے هيں:تمام اهل اسلام كا اس بات پر اتفاق هے كه تمام صحابه كرام عدول(عدل كرنے والے) تهے، اسكا كوئي مخالف نهيں الا اهل بدعت نے.
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
حواله جات درج ذيل كتابوں ميں موجود هے:
[1] حواله:[أضواء على السنة المحمدية لأبي رية ص 205، ينقله عن كتاب مختصر كتاب المؤمل لأبي شامة]
[2] ينقله عن كتاب مختصر كتاب المؤمل لأبي شامة رواها علامة المعتزلي أبن أبي الحديد في شرح النهج 4: 68]
[3] ديكهئےحواله: [أنظر: فجر الإسلام: 26].
[4] ديكهئےحواله:[ أنظر شرح مسند أبي حنيفة : 4]
[5] كتائب أعلام الأخيار من فقهاء مذهب النعمان المختار ـ مخطوط.
[6] وذكره صاحب هديّة العارفين 1: 307 وأرّخ وفاته بحدود سنة 400.
[7] روضة العلماء، ذكره له صاحب كشف الظنون 1: 928.
[8] السُّنة ٧٨ "
[9] لمُعَة الإعتقاد ٣٢
[10] الكفاية في علم الرواية ص ٤٩
[11] الإصابة ١٠/١
كتبه/ٍحافظ محمد يوسف بٹ رياضي
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ان کے حوالہ جات درست طریقے سے ہونے چاہئیں تاکہ انہیں دیکھا جا سکے۔ میں گزشتہ دس سال سے فقہ حنفی سے متعلق ہوں، منتہی سالوں میں دلائل اور مذاہب بھی پڑھے ہیں اور میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔
ملا علی قاری رح کا جو حوالہ دیا گیا ہے اگر یہ کتے کے جھوٹے برتن کو دھونے کے حوالے سے ہے تو اس کے الفاظ کو غالبا بہت تبدیل کیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ صحابی کی روایت ان صحابی کے اپنے فتوی کے خلاف ہے۔ اس سے نسخ پر دلیل لی جاتی ہے۔
بہر حال حوالے درست طریقے سے ہوں، عبارات موجود ہوں تو دیکھا جا سکتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
{4} كيا أصحاب الرأي كے نزديک صحابه كرام معصوم هيں؟ يقيناً انكا جواب يهي هوگا كه هاں تمام صحابه معصوم عن الخطأ تهے جيساكه بهت سے مقلدين نے اسكو اپني كتابوں ميں ذكركيا هے تو پهر ابوهريرةرضي الله عنه كيا صحابي نهيں هے ؟
یہ تو عجیب بات ہوئی! یہ تو نہ امام ابو حنیفہ کا مؤقف ہے نہ کسی حنفی کا اور نہ ہی کسی اہل سنت والجماعت کا!

صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایت کو قبول کرنے سے متعلق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا یہ اصول تھا یا نہیں! اس سے قطع نظر !
فقہ حنفی کا یہ اصول ضرور ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر بھی!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں گزشتہ دس سال سے فقہ حنفی سے متعلق ہوں، منتہی سالوں میں دلائل اور مذاہب بھی پڑھے ہیں اور میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔
ميں آپ کو یہ اصول ، اصول فقہ حنفیہ سے دکھا دیتا ہوں۔ ان شاء اللہ!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں فقہ حنفی کے اس أصول کو بلا تبصرہ نقل کردیتا ہوں:

الحسامي - حسام الدين محمد بن عمر الحسامي لأخسيكثي (المتوفى: 644هـ)
﴿خبر الراوي المعروف﴾
وإذا ثبت أن خبر الواحد حجة قلنا: إن كان معروفاً بالفقه والتقدّم في الاجتهاد، كالخلفاء الراشدين والعبادلة الثلاثة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبي موسی الأشعري وعائشة رضوان الله عليهم أجمين وغيرهم ممن اشتهر بالفقه والنظر، كان حديثهم حجة، يترك به القياس، وإن كان الراوي معروفاً بالعدالة والحفظ دون الفقه، مثل أبي هريرة وأنس بن مالك رضي الله عنهما فإن وافق حديثه القياس عمل به، وإن خالفه لم يترك إلا للضرورة وانسداد باب الرأي، وذلك مثل حديث أبي هريرة في المصرّة.

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 74 – 75 الحسامي في اصول الفقه - طبعه المطبع الحنفي سنه 1851
صفحه 140 – 141 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي
صفحه 148 – 149 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي


اور جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ خبر واحد حجت ہے تو ہم کہیں گے کہ اگر راوی معروف ہو فقہ اور اجتہاد میں تقدم کے ساتھ جیسے خلفاء راشدین اور تینوں عبد اللہ اور زید بن ثابت اور معاذ بن جبل ابو موسیٰ اشعری اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے علاوہ ان لوگوں میں سے جو فقہ ونظر کے ساتھ مشہور ہیں تو ان کی حدیث حجت ہوگی جس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر راوی عدالت اور حفظ کے ساتھ معروف ہو نہ کہ فقہ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس ابن مالک پس اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو تو چھوڑا نہ جائیگا مگر ضرورت کی وجہ سے اور وہ ضرورت اجتہاد (قیاس ، رائے)کے دروازہ کا بند ہونا ہے، اور اس کی مثال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مصراۃ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 126 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی


أصول الشاشي - نظام الدين أبو علي أحمد بن محمد بن إسحاق الشاشي (المتوفى: 344هـ)
وَالْقسم الثَّانِي من الروَاة هم المعروفون بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَة دون الِاجْتِهَاد وَالْفَتْوَى كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك فَإِذا صحت رِوَايَة مثلهمَا عنْدك
فَإِن وَافق الْخَبَر الْقيَاس فَلَا خَفَاء فِي لُزُوم الْعَمَل بِهِ وَإِن خَالفه كَانَ الْعَمَل بِالْقِيَاسِ أولى مِثَاله مَا روى أَبُو هُرَيْرَة الْوضُوء مِمَّا مسته النَّار فَقَالَ لَهُ ابْن عَبَّاس أَرَأَيْت لَو تَوَضَّأت بِمَاء سخين أَكنت تتوضأ مِنْهُ فَسكت وَإِنَّمَا رده بِالْقِيَاسِ إِذْ لَو كَانَ عِنْده خبر لرواه وعَلى هَذَا ترك أَصْحَابنَا رِوَايَة أبي هُرَيْرَة فِي مَسْأَلَة الْمُصراة بِالْقِيَاسِ.

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 174 – 175 أصول الشاشي وبهامشه عمدة الحواشي - دار الكتب العلمية بيروت
صفحه 179 – 180 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – مكتبة البشری كراتشي
صفحه 199 – 200 أصول الشاشي تحقيق محمد أكرم ندوي – دار الغرب الإسلامي بيروت
صفحه 75 – 76 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – قديمي كتب خانة كراتشي



ترجمہ: اور راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اور عدالت کے ساتھ مشہور ہوں نہ کہ اجتہاد اور فتویٰ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس اگر ان جیسے راویوں کی روایت تیرے ہاں صحیح طور ثابت ہو جائے تو اگر وہ خبر قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے کے حق میں کوئی خفا نہیں ہے اور اگر وہ خبر قیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس خبر کے اوپر عمل کرنے سے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ وضو واجب ہوتا ہے اس چیز (کے کھانےپینے) سے جس کو آگ نے چھوا ہو۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ بتائیں کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس کی وجہ سے (پھر) وضو کریں گے پس ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے۔ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو قیاس سے رد کیا اس لئے کہ اگر ان کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ اس کو ضرور روایت کرتے۔ اور اسی بنا پر ہمارے علماء نے مصراة کے مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قیاس کے ساتھ رد کردیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
صفحہ 464 صفوۃ الحواشی شرح اُصُولُ الشاشی – عبد الغفار – مکتبہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ کے اچھے ہونے اور عادل ہونے میں تو مشہور ہیں مگر اجتہاد اور فتویٰ دینے کا درجہ نہ رکھتے ہوں جیسے ابی ہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان جیسے راویوں کی روایت صحیح ہونے پر اگر وہ قیاس کے موافق ہے تو یقیناً اس پر عمل کرنا لازم ہے اور اگر قیاس کے مخالف ہے تو قیاس پر عمل کرنا بہتر ہوگا۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی:" الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ. آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو اس سر نو کرنا چاہئے"۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: بھلا بتاؤ تو اگر تم گرم پانی سے وضو کرو تو پھر اس کے بعد اور وضو جدید کروگے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور عبد اللہ بن عباس نے اس موقعہ پر قیاس ہی کو پیش کیا کیونکہ اگر اس باب میں ان کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو اس کو پیش کرتے۔ اسی واسطے علماء حنفیہ نے مسئلہ مصراۃ میں قیاس کے مقابلہ میں حدیث ابی ہریرہ پر عمل نہیں کیا۔ (ترک کر دیا ہے)
صفحہ 102 اُصُول الشاشی کا مستند اردو ترجمہ – محمد مشتاق انبیھٹوی – مکتبۃُ العلم لاہور
ترجمہ:۔۔۔۔۔اور راویوں کی دوسری قسم وہ حضرات ہیں جو حفظ وعدالت کے ساتھ معروف ہیں نہ کہ اجتہاد اور فتویٰ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۔ پس اگر ان جیسوں کی روایت تیرے پاس بطریق صحت پہنچ جائے پس اگر خبر قیاس کے موافق ہوگی تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی خفاء نہیں ہے اور اگر خبر قیاس کے مخالف ہے تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس کی مثال وہ ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ آگ نے جس چیز کو چھو لیا ( اس کے کھانے سے) سے وضو (واجب) ہوگا۔ پس ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ سے کہا آپ بتائیے اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس سے بھی وضو کریں گے پس ابو ہریرہ نے سکوت اختیار کیا اور ابن عباس نے قیاس سے حدیث ابی ہریرہ کو رد کر دیا اگر ابن عباس کے پاس حدیث ہوتی تو اس کو ضرور روایت کرتے۔ اور اسی بناء پر ہمارے علماء نے مصرات کے مسئلہ میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس کی وجہ سے ترک کردیا۔
صفحہ 304 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – دار الاشاعت کراچی
ترجمہ: اور راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اور عدالت کے ساتھ مشہور ہوں نہ کہ اجتہاد اور فتوی کے ساتھ جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس اگر ان جیسے راویوں کی روایت تیرے ہاں صحیح طور ثابت ہو جائے، پس اگر وہ خبر قیاس کے مطابق ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی خفا نہیں اور اگر وہ خبر قیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ وضو واجب ہوتا ہے اس چیز (کے کھانے پینے) سے جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ بتائیں کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس سے بھی وضو کریں گے پس حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ مے سکوت اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قیاس سے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رد کردیا اور اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ اس کو ضرور روایت کرتے، اور اسی بنا پر ہمارے علماء نے مصراة کے مسئلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قیاس کی وجہ سے ترک کر دیا ہے،
صفحہ 347 اجودُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – محمد اصغر علی – مكتبہ اسلامیہ عربیہ مدنی ٹاون فيصل آباد
ترجمہ: اور راویوں کی قسم ثانی (یعنی دوسری قسم کے راوی) وہ حضرات ہیں کہ جو حفظ (حافظہ کا اچھا ہونا) اور عدالت میں معروف ہوں نہ کہ اجتہاد و فتویٰ میں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس جب ان دونوں حضرات جیسوں کی روایت تیرے پاس پہنچے تو اگر خبر، قیاس کے مخالف ہو تو اس پر عمل لازم ہونے میں کوئی خفاء نہیں ہے (یعنی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے) اور اگر وہ قیاس کے خلاف ہو تو (اس صورت) میں قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس خبر کی مثال جو قیاس کے مخالف ہو وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اس چیز (کے استعمال کرنے) سے وضو (واجب) ہے جس کو آنچ لگی ہو (یعنی جو چیز آگ پر پکائی گئی ہو جیسے روٹی، چائے وغیرہ) تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابن عباس نے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس گرم پانی (کے استعمال) کی وجہ سے وضو جدید کریں گے پس حضرت ابو ہریرہ خاموش ہو گئے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث ابو ہرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس سے رد کردیا، اس لئے کہ اگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی خبر ہوتی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خبر کو ضرور روایت کرتے وعلیٰ هذا الخ اور اسی اصل (کہ اگر راوی فقہ واجتہاد میں معروف نہ ہو تو اس کی روایت کو قیاس کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے) کہ بناء پر ہمارے اصحاب احناف رحمہ اللہ نے مصراۃ کے مسئلہ میں حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس کی وجہ سے ترک کر دیا ہے۔
صفحہ 439 – 440نُجُومُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – حسين احمد ہردواری – مكتبہ رحمانیہ لاہور


حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز (المتوفى: 1297هـ)
والاصل عندنا ان الراوي ان كان معروفا بالعدالة والحفظ والضبط دون الفقه والاجتهاد ومثل أبي هريرة وأنس بن مالك فان وافق حديثه القياس عمل به والا لم يترك الا لضرورة وانسداد باب الرأي وتمامه في اصول الفقه انتهی.

ہمارے نزدیک اصول یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو معروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی میں معروف نہ ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا انس بن مالک تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو نہيں ترک کی جائے گی مگر بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتاب میں موجود ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 570 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 382 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري – مكتبه رحمانيه
مجلد 01 صفحه 288 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري – قديمي كتب خانه


حدیث مصراة کے حوالہ سے ایک ممکنہ شبہ کا ازالہ پیشگی کردوں:
حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)
﴿ قوله: عن عبد الله بن مسعود رضي الله تعالی عنه قال من اشتری شاة الخ﴾ هذا الحديث علی اصول علمائنا الحنفية يجب ان يكون له حكم الرافع فانهم صرحو بان الحديث مخالف للقياس ومن اصولهم ان الموقوف اذا خالف القياس فهو في حكم المرفوع فبطل اعتذار من قال ان الحديث قد رواه ابو هريرة وهو غير فقيه ورواية غير الفقيه اذا خالف جميع الأقسية ترد لانه اذا ثبت ابن مسعود موقوفا والموقوف في حكم المرفوع ثبت من رواية ابن مسعود ايضاً وهو من اجلاء الفقهاء بالتفاق علی ان الحديث قد جاء برواية ابن عمر اخرجه ابو دواد بوجه و الطبراني بوجه آخر وبرواية انس اخرجه ابو يعلی وبرواية عمرو ابن عوف اخرجه البيهقي في الخلافيات كذا ذكره المحقق ابن حجر.

یہ حدیث ہمارے علماء کے اصول کے مطابق حکما مرفوع ہونا لازم ہے، کیونکہ انہوں نے صراحت کی ہے کہ جو حدیث قیاس کے مخالف ہو ، اور ان کے اصول میں قیاس کے مخالف موقوف حدیث حکماً مرفوع ہے، لہٰذا یہ عذر باطل ہو گیا کہ جس نے کہا کہ یہ حدیث ابو هریرہ نے روایت کی ہے اور وہ غیر فقیہ ہیں، اور غیر فقیہ کی روایت اگر قیاس کی تمام اقسام کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے، اور جب ابن مسعود سے موقوفاً ثابت ہے، اور ابن مسعود کی موقوف روایت ہے حکماً مرفوع کے ہے، جو بالاتفاق اجلاء الفقہاء میں سے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 570 – 571 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 383 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - مكتبه رحمانيه


مذکورہ أصول فقہ حنفیہ کی مندرجہ ذیل کتب سے مطالبہ پر پیش کیا جا سکتا ہے!
01 أصول الشاشي - نظام الدين أبو علي أحمد بن محمد بن إسحاق الشاشي (المتوفى: 344هـ)
02 الفصول في الأصول - أحمد بن علي الرازي الجصاص (المتوفى: 370هـ)
03 تقويم الأدلة في أصول الفقه - عبيد الله بن عمر عيسی أبي زيد الدبوسي الحنفي (المتوفى: 430هـ)
04 أصول البزدوي - كنز الوصول الى معرفة الأصول - ﻓﺨﺮ ﺍﻹﺳﻼﻡ علي بن محمد البزدوي الحنفي (المتوفى: 482هـ)
05 الكافي شرح البزدوي
۔ حسام الدين حسين بن علي بن حجاج السغناقي (المتوفى: 714هـ)
06 كشف الأسرار شرح أصول البزدوي - عبد العزيز بن أحمد بن محمد، علاء الدين البخاري الحنفي (المتوفى: 730هـ)
07 أصول السرخسي - محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)
08 الحسامي - حسام الدين محمد بن عمر الحسامي لأخسيكثي (المتوفى: 644هـ)
09 تبيين شرح المنتخب الحسامي – قوام الدين أمير كاتب بن أمير عمر بن أمير غازي الفارابي الإتقاني الحنفي (المتوفى: 758هـ)
10 شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي – أبي محمد عبد الحق الحقاني
11 المغني في أصول الفقه - جلال الدين عمر بن محمد الخبازي (المتوفى: 691هـ)
12 متن المنار في أصول الفقه – أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
13 كشف الأسرار شرح المصنف علی المنار - أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
14 جامع الأسرار في شرح المنار - محمد بن محمد بن احمد الكاكي (المتوفى: 749هـ)
15 شرح منار الأنوار في أصول الفقه - عز الدين عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك المعروف بابن المك (المتوفى: 801هـ)
16 إفاضة الأنوار في إضاءة أصول المنار
۔ محمود بن محمد الدهلوي الحنفي (المتوفى: 891هـ)
17 حاشية للشيخ يحيى الرهاوي علی شرح المنار - عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك - يحيى بن قراجا سبط الرهاوى (المتوفى: بعد 942هـ)
18 فتح الغفار بشرح المنار المعروف بمشكاة الأنوار في أصول المنار - زين الدين بن إبراهيم ، المعروف بابن نجيم المصري الحنفي (المتوفى:970هـ)
19 إضافة الأنوار علي أصول المنار - محمد علاء الدين بن علي بن محمد الحصي المعروف علاء الدين الحصكفي (المتوفى: 891هـ) 1088
20 نور الأنوار في شرح المنار - أحمد بن أبي سعيد ملاجيون الحنفي (المتوفى: 1130هـ)
21 نسمات الاسحار على شرح إفاضة الأنوار– ابن عابدين الشامي، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الحنفي (المتوفى: 1252هـ)
22 فصول البدائع في أصول الشرائع - محمد بن حمزة بن محمد، شمس الدين الفناري الرومي (المتوفى: 734هـ)
23 التقرير والتحبير - شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ)
24 تيسير التحرير - محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972هـ)
25 مرقاة الوصول في أصول الفقة - محمد بن فرامرز بن علي الحنفي - ملا خسرو (المتوفى: 885هـ)
26 مرآة الأصول شرح مرقاة الأصول - يوسف ضياء الدين وأحمد نائلي وشركاسي
27 الوجيز في أصول الفقه - يوسف بن حسين الكراماشی (المتوفى: 906هـ)
28 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)
29 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري (المتوفى: 1297هـ)
30 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي (المتوفى: 1920م)
31 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي (المتوفى 1339هـ الموافق 1920م)
32 العرف الشذي شرح سنن الترمذي - محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى 1353هـ الموافق 1933م)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں فقہ حنفی کے اس أصول کو بلا تبصرہ نقل کردیتا ہوں:

الحسامي - حسام الدين محمد بن عمر الحسامي لأخسيكثي (المتوفى: 644هـ)
﴿خبر الراوي المعروف﴾
وإذا ثبت أن خبر الواحد حجة قلنا: إن كان معروفاً بالفقه والتقدّم في الاجتهاد، كالخلفاء الراشدين والعبادلة الثلاثة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأبي موسی الأشعري وعائشة رضوان الله عليهم أجمين وغيرهم ممن اشتهر بالفقه والنظر، كان حديثهم حجة، يترك به القياس، وإن كان الراوي معروفاً بالعدالة والحفظ دون الفقه، مثل أبي هريرة وأنس بن مالك رضي الله عنهما فإن وافق حديثه القياس عمل به، وإن خالفه لم يترك إلا للضرورة وانسداد باب الرأي، وذلك مثل حديث أبي هريرة في المصرّة.

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 74 – 75 الحسامي في اصول الفقه - طبعه المطبع الحنفي سنه 1851
صفحه 140 – 141 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي
صفحه 148 – 149 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي


اور جبکہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ خبر واحد حجت ہے تو ہم کہیں گے کہ اگر راوی معروف ہو فقہ اور اجتہاد میں تقدم کے ساتھ جیسے خلفاء راشدین اور تینوں عبد اللہ اور زید بن ثابت اور معاذ بن جبل ابو موسیٰ اشعری اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے علاوہ ان لوگوں میں سے جو فقہ ونظر کے ساتھ مشہور ہیں تو ان کی حدیث حجت ہوگی جس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر راوی عدالت اور حفظ کے ساتھ معروف ہو نہ کہ فقہ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس ابن مالک پس اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو تو چھوڑا نہ جائیگا مگر ضرورت کی وجہ سے اور وہ ضرورت اجتہاد (قیاس ، رائے)کے دروازہ کا بند ہونا ہے، اور اس کی مثال ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مصراۃ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 126 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی


أصول الشاشي - نظام الدين أبو علي أحمد بن محمد بن إسحاق الشاشي (المتوفى: 344هـ)
وَالْقسم الثَّانِي من الروَاة هم المعروفون بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَة دون الِاجْتِهَاد وَالْفَتْوَى كَأبي هُرَيْرَة وَأنس بن مَالك فَإِذا صحت رِوَايَة مثلهمَا عنْدك
فَإِن وَافق الْخَبَر الْقيَاس فَلَا خَفَاء فِي لُزُوم الْعَمَل بِهِ وَإِن خَالفه كَانَ الْعَمَل بِالْقِيَاسِ أولى مِثَاله مَا روى أَبُو هُرَيْرَة الْوضُوء مِمَّا مسته النَّار فَقَالَ لَهُ ابْن عَبَّاس أَرَأَيْت لَو تَوَضَّأت بِمَاء سخين أَكنت تتوضأ مِنْهُ فَسكت وَإِنَّمَا رده بِالْقِيَاسِ إِذْ لَو كَانَ عِنْده خبر لرواه وعَلى هَذَا ترك أَصْحَابنَا رِوَايَة أبي هُرَيْرَة فِي مَسْأَلَة الْمُصراة بِالْقِيَاسِ.

ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 174 – 175 أصول الشاشي وبهامشه عمدة الحواشي - دار الكتب العلمية بيروت
صفحه 179 – 180 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – مكتبة البشری كراتشي
صفحه 199 – 200 أصول الشاشي تحقيق محمد أكرم ندوي – دار الغرب الإسلامي بيروت
صفحه 75 – 76 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – قديمي كتب خانة كراتشي



ترجمہ: اور راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اور عدالت کے ساتھ مشہور ہوں نہ کہ اجتہاد اور فتویٰ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس اگر ان جیسے راویوں کی روایت تیرے ہاں صحیح طور ثابت ہو جائے تو اگر وہ خبر قیاس کے موافق ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے کے حق میں کوئی خفا نہیں ہے اور اگر وہ خبر قیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس خبر کے اوپر عمل کرنے سے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ وضو واجب ہوتا ہے اس چیز (کے کھانےپینے) سے جس کو آگ نے چھوا ہو۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ بتائیں کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس کی وجہ سے (پھر) وضو کریں گے پس ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے۔ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو قیاس سے رد کیا اس لئے کہ اگر ان کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ اس کو ضرور روایت کرتے۔ اور اسی بنا پر ہمارے علماء نے مصراة کے مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قیاس کے ساتھ رد کردیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
صفحہ 464 صفوۃ الحواشی شرح اُصُولُ الشاشی – عبد الغفار – مکتبہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ کے اچھے ہونے اور عادل ہونے میں تو مشہور ہیں مگر اجتہاد اور فتویٰ دینے کا درجہ نہ رکھتے ہوں جیسے ابی ہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ہیں۔ ان جیسے راویوں کی روایت صحیح ہونے پر اگر وہ قیاس کے موافق ہے تو یقیناً اس پر عمل کرنا لازم ہے اور اگر قیاس کے مخالف ہے تو قیاس پر عمل کرنا بہتر ہوگا۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی:" الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ. آگ کی پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو اس سر نو کرنا چاہئے"۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: بھلا بتاؤ تو اگر تم گرم پانی سے وضو کرو تو پھر اس کے بعد اور وضو جدید کروگے؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور عبد اللہ بن عباس نے اس موقعہ پر قیاس ہی کو پیش کیا کیونکہ اگر اس باب میں ان کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو اس کو پیش کرتے۔ اسی واسطے علماء حنفیہ نے مسئلہ مصراۃ میں قیاس کے مقابلہ میں حدیث ابی ہریرہ پر عمل نہیں کیا۔ (ترک کر دیا ہے)
صفحہ 102 اُصُول الشاشی کا مستند اردو ترجمہ – محمد مشتاق انبیھٹوی – مکتبۃُ العلم لاہور
ترجمہ:۔۔۔۔۔اور راویوں کی دوسری قسم وہ حضرات ہیں جو حفظ وعدالت کے ساتھ معروف ہیں نہ کہ اجتہاد اور فتویٰ کے ساتھ جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۔ پس اگر ان جیسوں کی روایت تیرے پاس بطریق صحت پہنچ جائے پس اگر خبر قیاس کے موافق ہوگی تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی خفاء نہیں ہے اور اگر خبر قیاس کے مخالف ہے تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس کی مثال وہ ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ آگ نے جس چیز کو چھو لیا ( اس کے کھانے سے) سے وضو (واجب) ہوگا۔ پس ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ سے کہا آپ بتائیے اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس سے بھی وضو کریں گے پس ابو ہریرہ نے سکوت اختیار کیا اور ابن عباس نے قیاس سے حدیث ابی ہریرہ کو رد کر دیا اگر ابن عباس کے پاس حدیث ہوتی تو اس کو ضرور روایت کرتے۔ اور اسی بناء پر ہمارے علماء نے مصرات کے مسئلہ میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس کی وجہ سے ترک کردیا۔
صفحہ 304 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – دار الاشاعت کراچی
ترجمہ: اور راویوں کی دوسری قسم وہ ہے جو حفظ اور عدالت کے ساتھ مشہور ہوں نہ کہ اجتہاد اور فتوی کے ساتھ جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس اگر ان جیسے راویوں کی روایت تیرے ہاں صحیح طور ثابت ہو جائے، پس اگر وہ خبر قیاس کے مطابق ہو تو اس پر عمل کے لازم ہونے میں کوئی خفا نہیں اور اگر وہ خبر قیاس کے مخالف ہو تو قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس کی مثال وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ وضو واجب ہوتا ہے اس چیز (کے کھانے پینے) سے جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ بتائیں کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس سے بھی وضو کریں گے پس حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ مے سکوت اختیار کیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قیاس سے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رد کردیا اور اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی حدیث ہوتی تو وہ اس کو ضرور روایت کرتے، اور اسی بنا پر ہمارے علماء نے مصراة کے مسئلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قیاس کی وجہ سے ترک کر دیا ہے،
صفحہ 347 اجودُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – محمد اصغر علی – مكتبہ اسلامیہ عربیہ مدنی ٹاون فيصل آباد
ترجمہ: اور راویوں کی قسم ثانی (یعنی دوسری قسم کے راوی) وہ حضرات ہیں کہ جو حفظ (حافظہ کا اچھا ہونا) اور عدالت میں معروف ہوں نہ کہ اجتہاد و فتویٰ میں جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ پس جب ان دونوں حضرات جیسوں کی روایت تیرے پاس پہنچے تو اگر خبر، قیاس کے مخالف ہو تو اس پر عمل لازم ہونے میں کوئی خفاء نہیں ہے (یعنی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے) اور اگر وہ قیاس کے خلاف ہو تو (اس صورت) میں قیاس پر عمل کرنا اولیٰ ہے اس خبر کی مثال جو قیاس کے مخالف ہو وہ حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اس چیز (کے استعمال کرنے) سے وضو (واجب) ہے جس کو آنچ لگی ہو (یعنی جو چیز آگ پر پکائی گئی ہو جیسے روٹی، چائے وغیرہ) تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابن عباس نے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا آپ اس گرم پانی (کے استعمال) کی وجہ سے وضو جدید کریں گے پس حضرت ابو ہریرہ خاموش ہو گئے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث ابو ہرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس سے رد کردیا، اس لئے کہ اگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی خبر ہوتی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس خبر کو ضرور روایت کرتے وعلیٰ هذا الخ اور اسی اصل (کہ اگر راوی فقہ واجتہاد میں معروف نہ ہو تو اس کی روایت کو قیاس کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے) کہ بناء پر ہمارے اصحاب احناف رحمہ اللہ نے مصراۃ کے مسئلہ میں حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قیاس کی وجہ سے ترک کر دیا ہے۔
صفحہ 439 – 440نُجُومُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – حسين احمد ہردواری – مكتبہ رحمانیہ لاہور


حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز (المتوفى: 1297هـ)
والاصل عندنا ان الراوي ان كان معروفا بالعدالة والحفظ والضبط دون الفقه والاجتهاد ومثل أبي هريرة وأنس بن مالك فان وافق حديثه القياس عمل به والا لم يترك الا لضرورة وانسداد باب الرأي وتمامه في اصول الفقه انتهی.

ہمارے نزدیک اصول یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو معروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی میں معروف نہ ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا انس بن مالک تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو نہيں ترک کی جائے گی مگر بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتاب میں موجود ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
صفحه 570 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 382 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري – مكتبه رحمانيه
مجلد 01 صفحه 288 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري – قديمي كتب خانه


حدیث مصراة کے حوالہ سے ایک ممکنہ شبہ کا ازالہ پیشگی کردوں:
حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)
﴿ قوله: عن عبد الله بن مسعود رضي الله تعالی عنه قال من اشتری شاة الخ﴾ هذا الحديث علی اصول علمائنا الحنفية يجب ان يكون له حكم الرافع فانهم صرحو بان الحديث مخالف للقياس ومن اصولهم ان الموقوف اذا خالف القياس فهو في حكم المرفوع فبطل اعتذار من قال ان الحديث قد رواه ابو هريرة وهو غير فقيه ورواية غير الفقيه اذا خالف جميع الأقسية ترد لانه اذا ثبت ابن مسعود موقوفا والموقوف في حكم المرفوع ثبت من رواية ابن مسعود ايضاً وهو من اجلاء الفقهاء بالتفاق علی ان الحديث قد جاء برواية ابن عمر اخرجه ابو دواد بوجه و الطبراني بوجه آخر وبرواية انس اخرجه ابو يعلی وبرواية عمرو ابن عوف اخرجه البيهقي في الخلافيات كذا ذكره المحقق ابن حجر.

یہ حدیث ہمارے علماء کے اصول کے مطابق حکما مرفوع ہونا لازم ہے، کیونکہ انہوں نے صراحت کی ہے کہ جو حدیث قیاس کے مخالف ہو ، اور ان کے اصول میں قیاس کے مخالف موقوف حدیث حکماً مرفوع ہے، لہٰذا یہ عذر باطل ہو گیا کہ جس نے کہا کہ یہ حدیث ابو هریرہ نے روایت کی ہے اور وہ غیر فقیہ ہیں، اور غیر فقیہ کی روایت اگر قیاس کی تمام اقسام کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے، اور جب ابن مسعود سے موقوفاً ثابت ہے، اور ابن مسعود کی موقوف روایت ہے حکماً مرفوع ہے کے ہے، جو بالاتفاق اجلاء الفقہاء میں سے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 570 – 571 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 383 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري - مكتبه رحمانيه


مذکورہ أصول فقہ حنفیہ کی مندرجہ ذیل کتب سے مطالبہ پر پیش کیا جا سکتا ہے!
01 أصول الشاشي - نظام الدين أبو علي أحمد بن محمد بن إسحاق الشاشي (المتوفى: 344هـ)
02 الفصول في الأصول - أحمد بن علي الرازي الجصاص (المتوفى: 370هـ)
03 تقويم الأدلة في أصول الفقه - عبيد الله بن عمر عيسی أبي زيد الدبوسي الحنفي (المتوفى: 430هـ)
04 أصول البزدوي - كنز الوصول الى معرفة الأصول - ﻓﺨﺮ ﺍﻹﺳﻼﻡ علي بن محمد البزدوي الحنفي (المتوفى: 482هـ)
05 الكافي شرح البزدوي
۔ حسام الدين حسين بن علي بن حجاج السغناقي (المتوفى: 714هـ)
06 كشف الأسرار شرح أصول البزدوي - عبد العزيز بن أحمد بن محمد، علاء الدين البخاري الحنفي (المتوفى: 730هـ)
07 أصول السرخسي - محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)
08 الحسامي - حسام الدين محمد بن عمر الحسامي لأخسيكثي (المتوفى: 644هـ)
09 تبيين شرح المنتخب الحسامي – قوام الدين أمير كاتب بن أمير عمر بن أمير غازي الفارابي الإتقاني الحنفي (المتوفى: 758هـ)
10 شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي – أبي محمد عبد الحق الحقاني
11 المغني في أصول الفقه - جلال الدين عمر بن محمد الخبازي (المتوفى: 691هـ)
12 متن المنار في أصول الفقه – أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
13 كشف الأسرار شرح المصنف علی المنار - أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود النسفي (المتوفى: 710هـ)
14 جامع الأسرار في شرح المنار - محمد بن محمد بن احمد الكاكي (المتوفى: 749هـ)
15 شرح منار الأنوار في أصول الفقه - عز الدين عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك المعروف بابن المك (المتوفى: 801هـ)
16 إفاضة الأنوار في إضاءة أصول المنار
۔ محمود بن محمد الدهلوي الحنفي (المتوفى: 891هـ)
17 حاشية للشيخ يحيى الرهاوي علی شرح المنار - عبد اللطيف بن عبد العزيز بن الملك - يحيى بن قراجا سبط الرهاوى (المتوفى: بعد 942هـ)
18 فتح الغفار بشرح المنار المعروف بمشكاة الأنوار في أصول المنار - زين الدين بن إبراهيم ، المعروف بابن نجيم المصري الحنفي (المتوفى:970هـ)
19 إضافة الأنوار علي أصول المنار - محمد علاء الدين بن علي بن محمد الحصي المعروف علاء الدين الحصكفي (المتوفى: 891هـ) 1088
20 نور الأنوار في شرح المنار - أحمد بن أبي سعيد ملاجيون الحنفي (المتوفى: 1130هـ)
21 نسمات الاسحار على شرح إفاضة الأنوار– ابن عابدين الشامي، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الحنفي (المتوفى: 1252هـ)
22 فصول البدائع في أصول الشرائع - محمد بن حمزة بن محمد، شمس الدين الفناري الرومي (المتوفى: 734هـ)
23 التقرير والتحبير - شمس الدين محمد بن محمد بن محمد المعروف بابن أمير حاج ويقال له ابن الموقت الحنفي (المتوفى: 879هـ)
24 تيسير التحرير - محمد أمين بن محمود البخاري المعروف بأمير بادشاه الحنفي (المتوفى: 972هـ)
25 مرقاة الوصول في أصول الفقة - محمد بن فرامرز بن علي الحنفي - ملا خسرو (المتوفى: 885هـ)
26 مرآة الأصول شرح مرقاة الأصول - يوسف ضياء الدين وأحمد نائلي وشركاسي
27 الوجيز في أصول الفقه - يوسف بن حسين الكراماشی (المتوفى: 906هـ)
28 حاشية للإمام أبي الحسن السندي علی صحيح البخاري (المتوفى: 1138هـ)
29 حاشية أحمد علی السهارنفوري علی صحيح البخاري (المتوفى: 1297هـ)
30 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي (المتوفى: 1920م)
31 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي (المتوفى 1339هـ الموافق 1920م)
32 العرف الشذي شرح سنن الترمذي - محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي (المتوفى 1353هـ الموافق 1933م)
جزاک اللہ خیرا
یہ میرے علم میں ہے اور اس پر بہت سے علماء اور اسی فورم جمشید بھائی بات بھی کر چکے ہیں.
سوال ابو حنیفہ رح کے بارے میں ہے. اگر آپ ان کے قول کا کوئی حوالہ عنایت فرمائیں تو مہربانی ہوگی اور موقع کے مناسب بھی ہوگا.
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49


آپ اہل حدیث دوستوں سے گزارش ہے کہ میں اس تحریر سے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔۔امید ہے رائے ضرور دیں گے ۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمان جو ایسے مواقع کے لئے ہمیں ہمیشہ یاد بھی رکھنا چاہیے ۔

’’اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ،
اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو،
انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے،
اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
(سورۃ المائدۃ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام ابو حنیفہؒ اور فقہ حنفی کے بارے میں اس فورم پہ کافی کچھ موجود ہے ۔
اگر دوستوں کا رجحان اس طرف ہے تو کوشش کیا کیجئے کہ مثبت نظر سے بات ہو ۔۔۔
تاکہ آپ پر کوئی تعصب کا الزام نہ دے ۔ کبھی آدمی کا رجحان کسی ایک طرف ہوتا ہے ۔۔اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور طرف اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔ اور وہ کس کی تقویت کا سبب بن رہا ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر ہندوستان کی تاریخ میں احناف اور اہل حدیث میں کافی بحثیں ہوئی ہیں ۔۔۔ اس میں جو سنجيده علماء ہیں ۔وہ علمی بحث ہی کرتے رہے ۔۔۔اگرچہ انداز مناظرانہ ہی ہو۔
لیکن آپ کے علم میں ہوگا کہ ان ابحاث سے پہلے ہندوستان میں سنی اور شیعہ کی بحثیں مناظرے ہوتے تھے جو شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے دور میں عروج پر تھے ۔۔اسی دوران
تحفه اثناء عشريه جيسي معركه الآرا کتاب لکھی گئی ۔۔اس کے بعد دونوں اطراف سے کچھ کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔۔۔
انہی میں شاہ عبد العزیزؒ کے شاگرد مولانا حیدر علی فیض آبادیؒ نے شیعہ کے رد میں کتاب ’’منتہی الکلام‘‘ لکھی جو سنا ہے بہت زبردست کتاب ہے ۔۔اور مخطوط ہے ۔
اس کے جواب میں ایک انتہائی متعصب شیعہ حامد حسین لکھنوی نے استقصاء الافحام واستيفاء الانتقام .
لکھی۔۔
اس کتاب میں صحابہؓ ، ائمہؒ امام مالکؒ ، امام بخاریؒ ، امام ابو حنیفہؒ وغیرہ سب پر گھٹیا زبان میں اعتراضات کئے گئے ۔۔۔۔

اس کے بعد جب احناف اور اہل حدیث میں بحثیں چھڑیں تو ۔۔۔۔امام ابوحنیفہؒ کے خلاف جو مواد اس کتاب میں تھا ۔۔۔۔بعض غیر عالم ، اور ناسمجھ قسم کے لوگوں نے احناف کے خلاف چھاپا اور مشتہر کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ یہ اوپر کی جاہلانہ زبان کی تحریر اگرچہ بعض ناواقف اہل حدیث دوست نیٹ پہ مشہور کر رہے ہیں ۔۔۔لیکن یہ تحریر شیعہ کی ہے اور ۔۔استقصا الافہام سے لی گئی ہے ۔۔۔
اگرچہ اس میں بعد میں سوالات والا اور اس کے بعد کا حصہ اضافہ ہے شاید۔
ان شیعہ سائٹوں پے یہ مضمون ، کمی بیشی کے ساتھ انہی مصادر سے عربی میں نقل ہے ۔

https://forums.alkafeel.net/showthread.php?t=16592
http://www.aqaed.com/faq/2966/
http://www.shiaweb.org/books/al-bukhari/pa31a.html

اور یہ ہے استقصاء الافحام كا حوالہ ۔۔۔۔یہ خبیث کتاب مکمل بھی کہیں ہے ۔۔لیکن آج کل شیعہ نے اس کا ایک خلاصہ و اضافہ تیار کیا ہوا ہے ۔۔۔ استخراج المرام من استقصاء الإفحام کے نام سے اس کی دوسری جلد میں یہ مضمون کچھ کمی کے ساتھ ہے ۔۔۔
مکمل جو دوسری شیعہ سائٹوں پرموجود ہے وہ یقینا اصل استقصا میں ہوگا۔یا شیعہ ہی کی کسی اور کتاب میں۔

http://www.al-milani.com/library/lib-pg.php?booid=5&mid=6&pgid=289
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے بعد آپ دوستوں سے یہ گزارش ہے کہ کیا کسی کی مخالفت میں آپ نے اس مضمون پر بھی غور نہیں کیا۔
یہ تو ترجمہ بھی شیعہ کا لگتا ہے ۔۔۔
یا کسی ناواقف متعصب کا۔ جس نے بعض جگہہ عبارت کو سنی بنانے کی کوشش کی ہے ۔ رحمہ اللہ یا رضی اللہ عنہ وغیرہ لکھ کر ۔۔۔ البتہ اس میں اضافہ ہے۔
اس کے لئے میں نے جن مقامات کو ہائیلائٹ کیا ہے ۔ ان کو دیکھیں۔

[1) أبوهريرة رضي الله عنه جسكي أحاديث كے لينے پر تمام امت كا اتفاق هے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔: كه حضرت ابوهريرة رضي الله عنه هر حديث روايت كرتا تها بغير اسكے كه وه اس پر غور كرتا اور اسكے معاني سمجهتا اور وه ناسخ اور منسوخ نهيں جانتا تهے اسلئے ۔۔۔۔
یہ ہائیلائٹ جملے ۔۔ظاہر کرتے ہیں کہ مترجم کو بس ذہن میں یہ ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ امام ابوحنیفہؒ اس طرح توہین سے صحابیؓ کا ذکر کرتے تھے ۔۔۔۔اور اس چکر میں اسے خود اپنی گستاخ زبان کا بھی یاد نہیں رہا۔۔۔
[2] حضرت أنس بن مالك آخر عمر ميں اختلاط كے شكار هوئے تهے اور انهيں جب كوئي سؤال پوچها جاتا تو وه تو اپني عقل سے جواب ديا كرتے تهے اور ميں اسكي عقل كي تقليد نهيں كرتا.
لیجئے ۔۔ابو حنیفہؒ نے کیا اردو میں کہا تھا جو صیغہ ادب بھول گئے۔؟

{4} كيا أصحاب الرأي كے نزديک صحابه كرام معصوم هيں؟ يقيناً انكا جواب يهي هوگا كه هاں تمام صحابه معصوم عن الخطأ تهے جيساكه بهت سے مقلدين نے اسكو اپني كتابوں ميں ذكركيا هے تو پهر ابوهريرةرضي الله عنه كيا صحابي نهيں هے ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــ

حواله جات ۔۔:
[1] حواله:[أضواء على السنة المحمدية لأبي رية ص 205، ينقله عن كتاب مختصر كتاب المؤمل لأبي شامة]
اضوا علی السنہ ۔۔۔۔ابی ریہ شیعی کی کتاب ہے ۔۔اس نے تو حضرت ابو ہریرۃؓ کے خلاف مستقل کتاب بھی لکھی ہے ۔
اس کے بارے میں یہ لنک دیکھیں۔
http://www.sahab.net/forums/?showtopic=86255
اس کتاب کا پورا علمی رد۔۔ علامہ عبد الرحمٰن المعلمی الیمانیؒ ۔۔۔نے لکھا ہے جو مشہور ہے ۔۔

الأنوار الكاشفة لما في كتاب "أضواء على السنة" من الزلل والتضليل والمجازفة
اس کے ج۱صفحہ ۱۷۵ پہ انہوں نے یہ دونوں عبارات نقل کر کے رد کیا ہے ۔
أقول: عزاه أبو رية هذه الحكاية إلى مختصر كتاب المؤمل لأبي شامة،
وأبو شامة من علماء الشافعية في القرن السابع
بينه وبين محمد بن الحسن عدة قرون، ولا ندري من أين أخذ هذا،
وقد احتاج العلامة الكوثري في رسالته (الترحيب) ص24 إلى هذه الحكاية، ومع سعة اطلاعه على كتب أصحابه الحنفية وغيرهم لم يجد لها مصدراً إلا مصدر أبي رية هذا.
وحكاية مثل هذا عن محمد بن الحسن عن أبي حنيفة لا توجد في كتب الخليفة أي قيمة لها؟
هذا والحكاية لا تتعرض للأحاديث التي يرويها الصحابة، وإنما تتعلق بقل الصحابي الموقوف عليه هل يجوز لمن بعده مخالفته برأيه؟ فحاصلها أن أبا حنيفة يقول إنه لا يخالف قول أحد من الصحابة برأيه سوى أولئك الثلاثة. فأقول: أما أنس فيراجع طليعة التنكيل الطبعة الثانية ص 101و 108. وأما أبو هريرة فقوله فيه «يروى كل ما سمع» يعني بها كل ما سمعه من الأحاديث،
وليس هذا بطعن في روايته ولا هو المقصود، وإنما هو مرتبط بما بعده وهو قوله «من غير
... » والمدار على هذا، يقول: إنه لأجل هذا لا يوثق بما قاه برأيه إذ قد يأخذه من حديث منسوخ ونحو ذلك، وسيأتي ما فيه»
[وقال أبو رية في حاشية ص334 من أجل ذلك لم يأخذ أبو حنيفة بما جاء عن أبي هريرة وأنس بن مالك وسمرة
... كذا يقول أبو رية، فانظر واعتبر!
وفي الحاشية «قال في مرآة الوصول وشرحها مرقاة الأصول من أصول الحنفية رحمهم الله في بحث الراوي: وهو إن عرف بالرواية فإن كان ففيها نقل منه الرواية مطلقاً سواء وافق القياس أوخالفه. وإن لم يكن ففيه (كأبي هريرة وأنس) رضي الله عنهما فترد روايته»
أقول: في هذا أمران، الأول أن الصواب «في مرقاة الوصول وشرحها مرآة الأصول» . الثاني أن مؤدي العبارة على ما نقله أبو رية رد رواية أبي هريرة وأنس ونحوهما مطلقاً، لكن تمام العبارة في مصدره «إن لم يوافق -الحديث الذي رواه - قياساً أصلاً، حتى إن وافق قياساً وخالف قياساً تقبل»
على أن /
هذا القول قد رده محققو الحنفية،
قال ابن الهمام في التحرير «وأبو هريرة فقيه»
قال شارحه ابن أمير الحاج 251:2» لم يعدم شيئاً من أسباب الاجتهاد، وقد أفتى في زمن الصحابة، ولم يكن يفتي في زمنهم إلا مجتهد، وروى عنه أكثر من ثمامائة رجل من بين صحابي وتابعي، منهم ابن عباس وجابر وأنس، وهذا هو الصحيح»

ذكر أبو رية في الحاشبة أن قوله «يروى كل ما سمع» إشارة إلى حديث «كفى بالمرء كذباً أن يحدث بكل ما يسمع»
أقول: هذا الحديث عام يشمل ما يسمع مما يعلم أو يظن أنه كذب، وأبو هريرة إنما كان يحدث بالعلم، بما يعلم أو يعتقد أنه صدق، فأين هذا ومن ذاك؟

وقال ص170 (یعنی
ابی ریہ شیعی)«وروى أبو يوسف قال قلت لأبي حنيفة: الخبر يجئني عن رسول الله يخالف قياسنا، ما نصنع به؟ إذا جاءت به الرواة الثقات عملنا به وتركنا الرأي. فقلت: ما تقول في راية أبي بكر وعمر؟ قال: ناهيك بهما. فقلت: وعلي وعثمان، قال: كذلك، فلما رآني أعد الصحابة قال: والصحابة كلهم عدول ما عدا رجالاً - وعد منهم أبو هريرة وأنس بن مالك»

أقول: لم يذكر مصدره. وهذه عادته (الحميدة) في تدليس بلاياه، ثم وجدت مصدره وهو شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد 360:1 عن أبي جعفر الاسكافي فراجع ما تقدم ص109.

ولا ريب أن هذا لا يصح عن أبي يوسف ولا أبي حنيفة،
والمعروف عنهما وعن أصحابهما في كتب العقائد والأصول وغيرها ما عليه سائر أهل السنة أن الصحابة كلهم عدول
، وإنما يقول بعضهم إن فيهم من ليس بفقيه أو مجتهد، قال ابن الهمام في التحرير « ... يقسم الراوي الصحابي إلى مجتهد كالأربعة والعبادلة، فيقدم على القياس مطلقاً، وعدل ضابط كأبي هريرة وأنس وسلمان وبلال فيقدم، إلا أن خالف كل الأقيسة على قول عيسى والقاضي أبي زيد ... » ثم قال بعد ذلك «أبو هريرة مجتهد» كما تقدم. وغير عيسى وأبي زيد ومن تبعه يرون تقديم الخبر مطلقاً. راجع فواتح الرحموت 145:2


[2] ينقله عن كتاب مختصر كتاب المؤمل لأبي شامة رواها علامة المعتزلي أبن أبي الحديد في شرح النهج 4: 68]
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید بھی شیعہ کی کتاب ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کے بعد ایک اور بات عرض کرنی ہے کہ جب احناف و اہل حدیث کی بحثیں کچھ زیادہ ہوئیں تو بعض جگہہ بعض لوگ اعتدال سے دور ہوئے ۔۔۔انہی میں سے ایک اہل حدیث کا اخبار ’’ اہل الذکر ‘‘ تھا اس نے اس طرح کے کئی مضامین استقصاء الافحام سے امام ابو حنیفہؒ کے خلاف والے لے کے شائع کئے تو اس پر سنجید اور بڑے علمائے اہل حدیث نے یہ تبصرے کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ مولانا محمد حسین بٹالویؒ
امام الائمہ ابو حنیفہؒ پر جو اعتراضات و مطاعن اخبار اہل الذکر میں مشتہر کئے گئے ہیں ۔ ۔۔۔
یہ سب کے سب ہزیانات بلا استثناء اکاذیب و بہتانات ہیں جن کا مآخذ زمانہ حال کے معترضین کے لئے
حامد حسین شیعی لکھنوی کی کتاب استقصاء الافهام اور استيفاء الانتظام في نقض منتهي الكلام کے سوا اور کوئی کتاب نہیں ہے ۔ اس کتاب میں اس قسم کے مطاعن سے امام ابو حنیفہؒ کے علاوہ کسی سنی امام(مالک امام بخاریؒ وغیرہ کو نہیں چھوڑا ۔
ایک ایک کا نام لے کر کئی کئی ورقوں بلکہ جزوں کو سیاہ کر ڈالا ہے ۔

تبصرہ اہل حدیث امرتسر (غالباََ مولانا ثناء الله امرتسریؒ اور ان کے رفقاء كا تبصره ہے )
روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور مطبوعہ ۱۶ نومبر ۱۹۰۸ء میں ۔۔۔اہل حدیث امرتسر نے اہل الذکر کے مضامین کی نسبت اپنی رائے یوں بیان فرمائی ہے
’’ہم اہل حدیث کسی خاص امام کے معتقد نہیں ۔
لیکن ہم کو کسی خاص بزرگ سے کوئی خاص بحث نہیں ۔
اور نہ کسی خاص بزرگ سے عداوت ہے ۔
ہماری نظر میں تمام ائمہ مجتہدین اور تمام محدثین بڑے متقی اور واجب التکریم بزرگ تھے ۔
اس لئے ہم ان مضامین سے نفرت رکھتے ہیں جو ائمہ مجتہدین کی توہین کے لیے لکھے جائیں ۔
اہل الذکر نے ائمہ مجتہدین کی شان میں جس قدر برے الفاظ سے کام لینا شروع کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس سے ہمارے دل کانپ اٹھے ہیں
پس کسی ایمان دار اہل حدیث کا یہ حوصلہ نہیں ہے کہ اہل الذکر کے مضامین کو پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے ‘‘
(یہ دونوں اقتباسات اخبار اہل الذکر کے مضامین کے جواب میں لکھی گئی کتاب ’’السیف الصارم ،مولانا فقیر محمد جہلمیؒ سے لئے گئے ہیں۔ )
باقی مضمون کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔کیونکہ یہ علمی مضمون تو ہے نہیں ۔
اگرچہ اس مضمون کی عبارات کا جواب علامہ معلمیؒ کی عبارت کے ضمن میں ہوگیا۔۔
اور ان کی اس بارے میں گواہی کتنی وزنی ہوگی ۔۔یہ دوستوں سے مخفی نہیں۔۔

اللهم أرنا الحق حقاً وارزقنا إتباعه، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن آپ کے علم میں ہوگا کہ ان ابحاث سے پہلے ہندوستان میں سنی اور شیعہ کی بحثیں مناظرے ہوتے تھے جو شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے دور میں عروج پر تھے ۔۔اسی دوران تحفه اثناء عشريه جيسي معركه الآرا کتاب لکھی گئی ۔۔اس کے بعد دونوں اطراف سے کچھ کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔۔۔
ابن عثمان بھائی! شیعہ اور قادیانی کے باطل ہونے سے فقہ حنفی کا یہ اصول کیسے درست ہو جائے گا!
اس اصول سے تو صحابہ کی شان میں چار چاند لگ گئے ہیں کیا؟
لہٰذا شعیہ اور قادیانی وغیرہ کا بطلان ضرور بیان کیجئے، مگر کچھ اپنی اصلاح بھی کر لیں!
اس کے بعد جب احناف اور اہل حدیث میں بحثیں چھڑیں تو ۔۔۔۔امام ابوحنیفہؒ کے خلاف جو مواد اس کتاب میں تھا ۔۔۔۔بعض غیر عالم ، اور ناسمجھ قسم کے لوگوں نے احناف کے خلاف چھاپا اور مشتہر کیا۔۔۔
ابن عثمان بھائی! امام ابو حنیفہ اور ان کی فقہ کے خلاف امام ابن ابی شیبہ نے بھی کتاب لکھی ہے، جو ان کی مصنف میں شامل ہے!
یہ شیعہ اور قادیانی کی آڑ میں امام صاحب اور فقہ حنفی کو بچانے کی کوشش نہ کریں!
ابن عثمان بھائی! میں نے حنفی فقہاء کی 32 کتابوں کے نام پیش کئے ہیں جہاں یہ اصول موجود ہے۔ اور 05 کتابوں کی عبارت بھی نقل کی ہے، کیا یہ سب شیعہ کے حوالے پیش کئے گئے ہیں۔ کیا یہ اصول فقہ حنفیہ کا نہيں ہے؟
باقی مضمون کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔کیونکہ یہ علمی مضمون تو ہے نہیں ۔
مضمون کا جواب تو میں نے دے دیا ہے، کہ جس نے بھی یہ مضمون پیش کیا ہے، اس میں جو اصول بیان کیا گیا ہے وہ فقہ حنفی کا اصول ہے۔
اس اصول کو رد کرنا مقلد کے بس کا روگ نہیں! خواہ اس سے صحابہ ''غیر ثقہ '' اور نا قابل اعتبار ہی کیوں نہ قرار پائے!

ابن عثمان بھائی تو اس سادگی سے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ یہ شیعہ کا پروپگنڈا ہے اور اس میں حقیقت نہیں ہے!
فقہ حنفی کے اس اصول کا ثبوت پیش کیا جا چکا ہے!
ابن عثمان بھائی! اب آپ ابو هریرة رضی اللہ عنہ اور انس رضی اللہ عنہ اور ان جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دفاع میں فقہ حنفی کے اس اصول کو رد کریں، اور یہ اعلان کریں کہ فقہ حنفی کا یہ اصول باطل ہے!
تا کہ ہم بھی دیکھیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت سبقت لیتی ہے یا فقہ حنفیہ اور فقہاء احناف کی محبت آڑے آجاتی ہے!
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تو گویا مختصرا یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
مذکورہ اصول سے ابوحنیفہ رحمہ اللہ بری ہیں؟
یہ اصول احناف نے بنایا ہے؟ اور احناف اس اصول کو ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب کرتے ہیں؟
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
محمد نعیم یونس بھائی ۔۔آپ نے یہ تحریر نقل کی ہے ۔۔۔ میری درخواست ہے کہ ۔۔۔
فی الحال اس میں سے نکلی ہوئی بات کی طرف بعد میں متوجہ ہوتے ہیں ۔۔۔
اگر آپ میری تحریر سے اتنا متفق ہیں کہ یہ تحریر شیعہ کی ہے تو۔۔۔
آپ اس تحریر سے اہل حدیث کا بری ہونے کا اعلان کریں ۔۔۔اوریاتو۔۔
۱۔ انتظامیہ سے گزارش کریں کے اس کو ۔۔۔اور میری تحریر کو بمع شیعہ حوالوں کے ریموو کر دیں ۔
یہ اگر نہیں ہوسکتا تو۔۔
۲۔ اس کے عنوان میں ۔وضاحت کر دیں ۔۔۔یہ شیعہ کی تحریر ہے ۔۔۔اہل حدیث کی نہیں۔۔اگر آپ متفق ہیں تو۔

۳۔ اگر اس حوالہ سے علمی اشکال اور اعتراض باقی ہے تو نئی تحریر لکھیں ۔۔۔

اور خصوصاََ ابن داود بھائی کی تحریر بالکل ریموو نہ کریں ۔۔
ان کا کوئی جواب دینا چاہے تو دے دے گا۔
تو گویا مختصرا یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
مذکورہ اصول سے ابوحنیفہ رحمہ اللہ بری ہیں؟
یہ اصول احناف نے بنایا ہے؟ اور احناف اس اصول کو ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منسوب کرتے ہیں؟
بلاشبہ کسی توہین آمیز روایت یا رویہ کے بغیر ۔۔۔احناف کے کئی علما الجصاصؒ ، الدبوسیؒ ، السرخسیؒ ، البزدویؒ ، النسفیؒ وغیرہ اس بارے میں وہ نظریہ رکھتے ہیں۔۔۔
اور یہ اصول امام ابوحنیفہؒ سے بالکل ضعیف طریقہ سے منقول ہے ۔۔۔یعنی ان سے بالکل ثابت نہیں ۔۔۔اور نہ ہی ان کے اکابر تلامذہ سے ثابت ہے ۔
صحیح روایات میں ان سے اور ان کے بڑے شاگردوں سے اس کے خلاف منقول ہے ۔۔۔اور کئی محقق علما نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔۔اور متاخرین اور آج کل کے تقریباََ تمام علما کا بھی یہی نظریہ ہے ۔ اور یہی حق ہے ۔

یہ اصول احناف کے عالم عیسی بن ابانؒ سے منسوب ہے ۔۔اور ان کی بھی دو روایتیں ہیں۔۔
بہرحال انہوں نے یہ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں سے نہیں لیا۔۔۔

بلکہ امام ابراہیم نخئیؒ جو بہت بڑے تابعی ثقہ امام ہیں ۔صحاح ستہ کے راوی ہیں۔۔۔ان سے لیا ہے ۔۔۔
لیکن یہ قابل قبول نہیں ہے ۔

اور خاص تنبیہہ یہ کہ جو اس کا قائل ہے بھی ۔۔تو ان میں سے بھی کسی نےبھی حضرت ابوہریرہؓ کی عدالت میں کلام بالکل نہیں کیا۔۔۔بلکہ بس ان کے خیال میں جس طرح دوسرے صحابہؓ مجتہد فقیہ تھے ۔۔ابوہریرہؓ اس درجہ کے فقیہ نہیں تھے۔۔
بلاشبہ ان کی رائے غلط ہے ۔۔۔بلاشبہ حضرت ابوہریرہؓ فقیہہ تھے۔اور فتوی بھی دیتے تھے۔۔

متقدمین احناف کے بڑے علما سے بھی اس اصول کے قائل نہیں۔۔مثلاََ امام طحاویؒ ، امام کرخیؒ ،
اور متاخرین عبد العزیز بخاریؒ ، الکاکیؒ الخجندیؒ (صاحب جامع الاسرار) عبد القادر قرشیؒ ، ابن ہمامؒ ، ابن امیر الحاجؒ ،ابن الملکؒ ، ابن نجیمؒ ، ملا علی قاریؒ ،الحصکفیؒ ، ابن عابدین شامیؒ ، بحر العلومؒ ، اللکنویؒ۔۔۔اور عصر حاضر کے تقریباََ سارے علما نے بھی اس کا رد کیا۔اور یہی صحیح بھی ہے ۔
میری باتیں تکرار ہی ہیں۔۔۔کیونکہ
یہ موضوع اہلحدیث اور احناف کی بحثوں میں آتا رہتا ہے ۔۔۔اور مناظرہ کے شوقین حضرات اس میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز بھائی ابن داود سے گزارش ہے کہ ۔۔آپ ناراض نہ ہوں۔۔۔۔۔۔
میرا مقصد کوئی اہلحدیث کے خلاف بات کرنا نہیں ۔۔۔۔بلکہ میری تحریر کے اندر موجود ہے کہ ۔۔۔بڑے اہلحدیث علما کی رائے اس کے بارے میں کیا تھی۔
۔آپ چونکہ امید ہے احناف کے نظریات سے واقف ہوتے ہیں ۔۔اور آپ کافی نظر بھی رکھتے ہیں۔۔۔۔۔اس لئے امید ہے آپ کی نظر میں احناف کے دونوں نظریات ہوں گے اس لئے آپ کی کسی بات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
بس آپ چونکہ رد احناف کا شوق رکھتے ہیں اس لئے آپ کی نظر انتخاب اور طرح کی ہے ۔۔۔۔اور میں تو معاملہ کو مثبت نظر سے دیکھنے کا قائل ہوں ۔۔۔چاہے کسی کی بھی تحریر ہو۔۔۔۔
 
Top