- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بقیہ حصہ :
جمشید بھائی کی موجودہ مشارکت تقریبا پہلی ( حذف شدہ ) سے ملتی جلتی ہے اس لیے میں جو باتیں وہاں ہو چکی ہیں دوبارہ دوہراؤں گا نہیں الا کہ کسی فائدہ کی وجہ سے ۔
جمشید بھائی نے ہمارا درج ذیل جواب نقل کیا :
آپ دوبارہ پھر اسی بات پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
یہ اس بارے میں بالکل واضح اور قول فیصل ہے ۔ پتہ نہیں آپ کون سی حدود نکالنا چاہ رہے ہیں یہ کوئی حسی چیز تو ہےنہیں کہ ہم آپ کو ہاتھ لگا کر بتادیں کہ یہ اتباع ہے اور یہ تقلید ہے ۔ جس طرح ملکوں کی حدیں مقرر ہیں اس طرح تو مقرر کرنے سے ہم رہے کہ یہأں سے ملک اتباع شروع ہورہا اور فلاں جگہ ملک تقلید کی حدود ختم ہورہی ہیں ۔ البتہ اگر آپ اس سلسلے میں کوئی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو کھل کر بیان فرمائیں اگر آپ کی بات ٹھیک ہوئی تو ہم ماننے سے انکار نہیں کریں گے ۔ اور ہم نے آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے حدود تقلید جو آپ سے پوچھیں تھیں وہ اسی وجہ سے پوچھیں تھیں کہ جس انداز سے آپ حد بندی کریں گےاگر ممکن ہوا اسی طرز فکر سے ہم کچھ کرنے کی کوشش کریں گے ۔
مزید لکھتے ہیں کہ :
بہر صورت بات یہ ہے کہ اگر کسی کو حکم شرعی سمجھ ہی نہیں آتا تو اس کی بحث الگ سے اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے مثال کے طور پر مجنون وغیرہ کہ ایسا شخص جس میں حکم معلوم کرنے کی اہلیت ہی نہیں کہ وہ شرعی احکام کا پابند ہے کہ نہیں علمائے اصول نے عوارض اہلیت کے تحت یہ باتیں تفصیل سے لکھی ہیں ۔ اگر ان سے کہیں کو ئی تقلید کی صورت نکلتی ہے تو آپ بیان فرمادیں ۔
اور آپ نے جو یہ رقم فرمایا ہے کہ :
آپ جو ثبوت حدیث میں لمبی چوڑی بحثیں بتا رہے ہیں ہم اس کا انکا رنہیں کرتے ۔ ہماری قرآن وسنت سے یہی مراد ہے کہ جو کچھ ثابت ہے ۔ ۔ ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس مسئلے کی دلیل فلاں تھی جو کہ حوادث زمانہ کی نظر ہو گئی ۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارے امام صاحب کے پاس فلاں حدیث تھی جو ہم تک نہیں پہنچی ۔ ۔
آپ باربار انداز بدل بدل کر ایک ہی بات لکھ رہے ہیں کہ :
ان باتوں کا جواب ہم باربار دے چکے ہیں اب اگر آپ برا نہ مانیں تو انداز بدل کر پوچھتے ہیں کہ اگر یہی مسئلہ کسی مقلد کو پیش آ جائے یعنی کسی مسئلہ میں امام صاحب کے مختلف اقوال ہوں یا اس بارے میں امام صاحب کا قول سرے سے ہو ہی نہ ، تو وہ شخص کیا کرے گا ۔ ؟
یہاں یہ بات مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ شریعت کا آپس میں تعارض نہیں ہو سکتا جب کہ امام کے قول کا آپس میں متعارض ہونا ممکن ہی نہیں امر واقع ہے ۔ اسی طرح کسی مسئلہ میں شریعت کی کوئی رہنمائی نہ ہو تاقیامت یہ محال ہے جبکہ کسی بھی امام کے بارے میں دعو ی نہیں کیاجاسکتا کہ اس نے تمام مسائل کا حل فرمادیا ہے ۔
اللہ ہمیں قرآن وسنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
جمشید بھائی کی موجودہ مشارکت تقریبا پہلی ( حذف شدہ ) سے ملتی جلتی ہے اس لیے میں جو باتیں وہاں ہو چکی ہیں دوبارہ دوہراؤں گا نہیں الا کہ کسی فائدہ کی وجہ سے ۔
جمشید بھائی نے ہمارا درج ذیل جواب نقل کیا :
اور اس پر تعلیق یوں فرمائی :جب تک قرآن وسنت کےمطابق عمل کیاجائےگاتو یہ اتباع ہے اور جب قرآن وسنت کو چھوڑکر کسی اور کی بات کو دین سمجھ لیا جائےگا تو یہ تقلید ہو جائے گی ۔
تو ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے اور یہ بات خود ابن داؤد بھائی نے بھی بعد میں شاید وضاحت کے ساتھ لکھ دی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری اور ابن داؤد بھائی کی بات میں فرق صرف اجمال اور تفصیل کا ہے ۔ویسے آنجناب کا یہ جواب بہت حد تک ابن داؤد کے اس جواب کے مشابہ ہے کہ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے
آپ دوبارہ پھر اسی بات پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
تو ہم بھی آپ سےعرض کر دیتے ہیں کہ حدود قرآن وسنت نے مقرر فرمادیں او ریہ آیت جو پہلے بھی نقل کی جا چکی ہے کہ :سوال تویہی ہے کہ جب تک کی حدود کیاہیں۔آپ نے بھی یہی فرمایاہے کہ جب تک قرآن وسنت کے مطابق عمل کیاجائے تویہ جب تک کی تحدید کیسے ہوگی؟وجدانی ،ذوقی استباطی ،اجتہادی ۔ہرایک کی اپنی مرضی کہ اس کی جوچاہے تشریح کرلے ۔
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
یہ اس بارے میں بالکل واضح اور قول فیصل ہے ۔ پتہ نہیں آپ کون سی حدود نکالنا چاہ رہے ہیں یہ کوئی حسی چیز تو ہےنہیں کہ ہم آپ کو ہاتھ لگا کر بتادیں کہ یہ اتباع ہے اور یہ تقلید ہے ۔ جس طرح ملکوں کی حدیں مقرر ہیں اس طرح تو مقرر کرنے سے ہم رہے کہ یہأں سے ملک اتباع شروع ہورہا اور فلاں جگہ ملک تقلید کی حدود ختم ہورہی ہیں ۔ البتہ اگر آپ اس سلسلے میں کوئی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو کھل کر بیان فرمائیں اگر آپ کی بات ٹھیک ہوئی تو ہم ماننے سے انکار نہیں کریں گے ۔ اور ہم نے آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے حدود تقلید جو آپ سے پوچھیں تھیں وہ اسی وجہ سے پوچھیں تھیں کہ جس انداز سے آپ حد بندی کریں گےاگر ممکن ہوا اسی طرز فکر سے ہم کچھ کرنے کی کوشش کریں گے ۔
مزید لکھتے ہیں کہ :
تو بھائی جس کو ایک فعہ دلیل سننے کے بعد بھی سمجھ نہیں آتی وہ دوبارہ سمجھ لے اگر پھر سمجھ نہیں آتی تو پھر سمجھ لے یا کسی اور عالم سے سمجھ لے ۔۔۔ اور یہ معاملہ کوئی اتباع کے ساتھ ہی تو خاص نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بھی سمجھ نہ آئے ۔ایک ہے دلیل کا سن لینا یہ کام ہروہ شخص کرسکتاہے جس کو اللہ نے قوت سماعت سے نوازاہے لیکن دلیل کا سمجھنا یہ دوسری چیز ہے۔آپ لوگ دونوں کو گڈمڈ کردیتے ہیں
بہر صورت بات یہ ہے کہ اگر کسی کو حکم شرعی سمجھ ہی نہیں آتا تو اس کی بحث الگ سے اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے مثال کے طور پر مجنون وغیرہ کہ ایسا شخص جس میں حکم معلوم کرنے کی اہلیت ہی نہیں کہ وہ شرعی احکام کا پابند ہے کہ نہیں علمائے اصول نے عوارض اہلیت کے تحت یہ باتیں تفصیل سے لکھی ہیں ۔ اگر ان سے کہیں کو ئی تقلید کی صورت نکلتی ہے تو آپ بیان فرمادیں ۔
اور آپ نے جو یہ رقم فرمایا ہے کہ :
پتہ نہیں آپ اس سے کس طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو کیا اب حدیث پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ ۔؟لیکن بعد کے ادوار میں توثبوت حدیث بھی ایک اہم امر ہے اورا سکی بھی لمبی چوڑی بحثیں ہیں۔
آپ جو ثبوت حدیث میں لمبی چوڑی بحثیں بتا رہے ہیں ہم اس کا انکا رنہیں کرتے ۔ ہماری قرآن وسنت سے یہی مراد ہے کہ جو کچھ ثابت ہے ۔ ۔ ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس مسئلے کی دلیل فلاں تھی جو کہ حوادث زمانہ کی نظر ہو گئی ۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارے امام صاحب کے پاس فلاں حدیث تھی جو ہم تک نہیں پہنچی ۔ ۔
آپ باربار انداز بدل بدل کر ایک ہی بات لکھ رہے ہیں کہ :
پہلے بھی کہا اگر کسی شخص کو اس طرح کی صورت حال پیش آ گئی ہے تو وہ اہل علم سے رجوع کرے جو اس کو مسئلہ میں قرآن وسنت کے مطابق حل تلاش کرکے دے ۔جس کے بارے میں ہم بحث کررہے ہیں وہ یہ کہ معاملہ اگر مختلف النوع حدیثوں کاہے۔یاپھراس معاملہ میں کوئی حدیث ہی نہیں ہے ۔توایسے میں عامی کیسے معلوم کرے گاکہ ہم نے جس مفتی سے پوچھاہے اس نے صحیح مسئلہ بتایایاغلط بتایاہے۔
ان باتوں کا جواب ہم باربار دے چکے ہیں اب اگر آپ برا نہ مانیں تو انداز بدل کر پوچھتے ہیں کہ اگر یہی مسئلہ کسی مقلد کو پیش آ جائے یعنی کسی مسئلہ میں امام صاحب کے مختلف اقوال ہوں یا اس بارے میں امام صاحب کا قول سرے سے ہو ہی نہ ، تو وہ شخص کیا کرے گا ۔ ؟
یہاں یہ بات مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ شریعت کا آپس میں تعارض نہیں ہو سکتا جب کہ امام کے قول کا آپس میں متعارض ہونا ممکن ہی نہیں امر واقع ہے ۔ اسی طرح کسی مسئلہ میں شریعت کی کوئی رہنمائی نہ ہو تاقیامت یہ محال ہے جبکہ کسی بھی امام کے بارے میں دعو ی نہیں کیاجاسکتا کہ اس نے تمام مسائل کا حل فرمادیا ہے ۔
اللہ ہمیں قرآن وسنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔