• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتباع کسے کہتے ہیں؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
بقیہ حصہ :

جمشید بھائی کی موجودہ مشارکت تقریبا پہلی ( حذف شدہ ) سے ملتی جلتی ہے اس لیے میں جو باتیں وہاں ہو چکی ہیں دوبارہ دوہراؤں گا نہیں الا کہ کسی فائدہ کی وجہ سے ۔


جمشید بھائی نے ہمارا درج ذیل جواب نقل کیا :

جب تک قرآن وسنت کےمطابق عمل کیاجائےگاتو یہ اتباع ہے اور جب قرآن وسنت کو چھوڑکر کسی اور کی بات کو دین سمجھ لیا جائےگا تو یہ تقلید ہو جائے گی ۔
اور اس پر تعلیق یوں فرمائی :

ویسے آنجناب کا یہ جواب بہت حد تک ابن داؤد کے اس جواب کے مشابہ ہے کہ اتباع جب تک اتباع ہے وہ اتباع ہے
تو ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے اور یہ بات خود ابن داؤد بھائی نے بھی بعد میں شاید وضاحت کے ساتھ لکھ دی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری اور ابن داؤد بھائی کی بات میں فرق صرف اجمال اور تفصیل کا ہے ۔

آپ دوبارہ پھر اسی بات پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

سوال تویہی ہے کہ جب تک کی حدود کیاہیں۔آپ نے بھی یہی فرمایاہے کہ جب تک قرآن وسنت کے مطابق عمل کیاجائے تویہ جب تک کی تحدید کیسے ہوگی؟وجدانی ،ذوقی استباطی ،اجتہادی ۔ہرایک کی اپنی مرضی کہ اس کی جوچاہے تشریح کرلے ۔
تو ہم بھی آپ سےعرض کر دیتے ہیں کہ حدود قرآن وسنت نے مقرر فرمادیں او ریہ آیت جو پہلے بھی نقل کی جا چکی ہے کہ :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
یہ اس بارے میں بالکل واضح اور قول فیصل ہے ۔ پتہ نہیں آپ کون سی حدود نکالنا چاہ رہے ہیں یہ کوئی حسی چیز تو ہےنہیں کہ ہم آپ کو ہاتھ لگا کر بتادیں کہ یہ اتباع ہے اور یہ تقلید ہے ۔ جس طرح ملکوں کی حدیں مقرر ہیں اس طرح تو مقرر کرنے سے ہم رہے کہ یہأں سے ملک اتباع شروع ہورہا اور فلاں جگہ ملک تقلید کی حدود ختم ہورہی ہیں ۔ البتہ اگر آپ اس سلسلے میں کوئی نقطہ نظر رکھتے ہیں تو کھل کر بیان فرمائیں اگر آپ کی بات ٹھیک ہوئی تو ہم ماننے سے انکار نہیں کریں گے ۔ اور ہم نے آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے حدود تقلید جو آپ سے پوچھیں تھیں وہ اسی وجہ سے پوچھیں تھیں کہ جس انداز سے آپ حد بندی کریں گےاگر ممکن ہوا اسی طرز فکر سے ہم کچھ کرنے کی کوشش کریں گے ۔

مزید لکھتے ہیں کہ :

ایک ہے دلیل کا سن لینا یہ کام ہروہ شخص کرسکتاہے جس کو اللہ نے قوت سماعت سے نوازاہے لیکن دلیل کا سمجھنا یہ دوسری چیز ہے۔آپ لوگ دونوں کو گڈمڈ کردیتے ہیں
تو بھائی جس کو ایک فعہ دلیل سننے کے بعد بھی سمجھ نہیں آتی وہ دوبارہ سمجھ لے اگر پھر سمجھ نہیں آتی تو پھر سمجھ لے یا کسی اور عالم سے سمجھ لے ۔۔۔ اور یہ معاملہ کوئی اتباع کے ساتھ ہی تو خاص نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بھی سمجھ نہ آئے ۔
بہر صورت بات یہ ہے کہ اگر کسی کو حکم شرعی سمجھ ہی نہیں آتا تو اس کی بحث الگ سے اصول فقہ کی کتب میں موجود ہے مثال کے طور پر مجنون وغیرہ کہ ایسا شخص جس میں حکم معلوم کرنے کی اہلیت ہی نہیں کہ وہ شرعی احکام کا پابند ہے کہ نہیں علمائے اصول نے عوارض اہلیت کے تحت یہ باتیں تفصیل سے لکھی ہیں ۔ اگر ان سے کہیں کو ئی تقلید کی صورت نکلتی ہے تو آپ بیان فرمادیں ۔

اور آپ نے جو یہ رقم فرمایا ہے کہ :

لیکن بعد کے ادوار میں توثبوت حدیث بھی ایک اہم امر ہے اورا سکی بھی لمبی چوڑی بحثیں ہیں۔
پتہ نہیں آپ اس سے کس طرف اشارہ کرناچاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو کیا اب حدیث پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ ۔؟
آپ جو ثبوت حدیث میں لمبی چوڑی بحثیں بتا رہے ہیں ہم اس کا انکا رنہیں کرتے ۔ ہماری قرآن وسنت سے یہی مراد ہے کہ جو کچھ ثابت ہے ۔ ۔ ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس مسئلے کی دلیل فلاں تھی جو کہ حوادث زمانہ کی نظر ہو گئی ۔ جیسا کہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارے امام صاحب کے پاس فلاں حدیث تھی جو ہم تک نہیں پہنچی ۔ ۔

آپ باربار انداز بدل بدل کر ایک ہی بات لکھ رہے ہیں کہ :

جس کے بارے میں ہم بحث کررہے ہیں وہ یہ کہ معاملہ اگر مختلف النوع حدیثوں کاہے۔یاپھراس معاملہ میں کوئی حدیث ہی نہیں ہے ۔توایسے میں عامی کیسے معلوم کرے گاکہ ہم نے جس مفتی سے پوچھاہے اس نے صحیح مسئلہ بتایایاغلط بتایاہے۔
پہلے بھی کہا اگر کسی شخص کو اس طرح کی صورت حال پیش آ گئی ہے تو وہ اہل علم سے رجوع کرے جو اس کو مسئلہ میں قرآن وسنت کے مطابق حل تلاش کرکے دے ۔
ان باتوں کا جواب ہم باربار دے چکے ہیں اب اگر آپ برا نہ مانیں تو انداز بدل کر پوچھتے ہیں کہ اگر یہی مسئلہ کسی مقلد کو پیش آ جائے یعنی کسی مسئلہ میں امام صاحب کے مختلف اقوال ہوں یا اس بارے میں امام صاحب کا قول سرے سے ہو ہی نہ ، تو وہ شخص کیا کرے گا ۔ ؟
یہاں یہ بات مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ شریعت کا آپس میں تعارض نہیں ہو سکتا جب کہ امام کے قول کا آپس میں متعارض ہونا ممکن ہی نہیں امر واقع ہے ۔ اسی طرح کسی مسئلہ میں شریعت کی کوئی رہنمائی نہ ہو تاقیامت یہ محال ہے جبکہ کسی بھی امام کے بارے میں دعو ی نہیں کیاجاسکتا کہ اس نے تمام مسائل کا حل فرمادیا ہے ۔

اللہ ہمیں قرآن وسنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ نے میرے پوسٹ کے جواب بیشتر مقامات پر زیر بحث موضوع کو ہی دلیل کے طورپر اختیار کرلیاہے جس کو منطق کی اصطلاح میں دوران دور کہتے ہیں اورجوبحث واستدلال میں اصولی طورپر غلط سمجھاجاتاہے۔

اتباع کی واضح تعریف مجھے القول المفید میں نہیں ملی ۔آپ ہی القول المفید سے الاتباع کی واضح تعریف نقل کردیں۔
یاد رہے کہ اتباع کی دوحیثیں ہیں۔ مسلک کے طورپر تقلید کے مقابلہ جس اتباع کے آپ داعی ہیں۔اس کی تعریف اوروہ بھی ویسی ہی نقل کیجئے گایعنی جامع اورمانع ۔جس کامطالبہ آپ اورآپ کے ہم مسلک افراد کرتے رہتے ہیں۔تاکہ اتباع کا جائزہ لیاجاسکے کہ وہ واقعتااتباع ہے یابقول ابن حزم اتباع کے نام پر تقلید کی گرم بازاری ہے۔

میراخیال ہے کہ بات ایک ایک کرکے آگے چلے توپھربات واضح ہوسکتی ہے۔ بہت سارے سوالات جوابات ایک ساتھ ہونے سے بات مناسب طورپر واضح نہیں ہوپاتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

جمشید بھائی آپ سے گزارش ہے کہ یوں ظلم نہ کریں کیا بے نیازی سے فرماتے ہیں :

آپ نے میرے پوسٹ کے جواب بیشتر مقامات پر زیر بحث موضوع کو ہی دلیل کے طورپر اختیار کرلیاہے جس کو منطق کی اصطلاح میں دوران دور کہتے ہیں اورجوبحث واستدلال میں اصولی طورپر غلط سمجھاجاتاہے۔
اگر آپ بھول گئے ہیں تو دوبارہ اس موضوع میں میری پہلی مشارکت کو پڑھنے کی زحمت اٹھالیں جس میں آپ کو یہی گزارش اسی خدشے سےکی تھی جو کارنامہ آپ نے یہاں کر دکھایا ہے ۔ و إلی اللہ المشتکی ۔
آپ سے گزارش ہے میں آپ کے ہاں ملازم ہونے کے لیے آپ کو امتحان نہیں دے رہا کہ آپ سارے کیا کرائے پر دو لفظ بول کر پانی پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جو کچھ لکھا ہے الحمد للہ دلیل کے ساتھ لکھا ہے ۔ آپ کو چاھیے تھا کہ اگر کسی جگہ آپ کو دلیل نظر نہیں آتی ہے تواس کا مطالبہ کریں ( جیسا کہ آپ نےبعض مقامات پر ایسا کیا اور ہم نے آپ کووضاحت کردی ) اور اگر کسی جگہ دلیل غلط ہے تو غلطی واضح کریں ۔
اور اگر آپ اتنا وقت نہیں نکال سکتے تو برائے مہر بانی واضح کردیں ۔۔۔ تاکہ ہم بھی أپنا وقت کسی اچھی جگہ صرف کریں جہاں کوئی فائدہ حاصل ہونےکی امید ہو ۔

جمشید بھائی لکھتےہیں :

اتباع کی واضح تعریف مجھے القول المفید میں نہیں ملی ۔آپ ہی القول المفید سے الاتباع کی واضح تعریف نقل کردیں۔
اگر القول المفید والی تعریف آپ کے لیےواضح نہیں ہے تو قرآن کی آیت پر ہی غور فرمالیں :
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم
اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سےتمہاری طرف نازل کی گئی ہے ۔
اور ما أنزل میں قرآن وسنت دونوں شامل ہیں ۔
اور یہی اتباع کی تعریف ہے جس کو ہم نے یوں نقل کیا تھا :

دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
اور یہ بات الحمد للہ جامع بھی ہے اور مانع بھی ۔
جامع اس لیے کہ قرآن و سنت دونوں کو شامل ہے ۔
مانع اس لیے کہ قرآن وسنت کے علاوہ کوئی چیزاس میں شامل نہیں ہے کیونکہ قرآن وسنت کے سوا کوئی بھی چیز ما أنزل نہیں ہے ۔
اگر اس کے جامع یا مانع ہونے میں آپ کو تأمل ہے تو آپ اس کی جامعیت و مانعیت کو توڑ کردکھائیں ۔
اگر پھر بھی سمجھ نہیں آئی تو ابن ہمام نےجو تقلید کی تعریف کی ہے اس کو ہی مد نظر رکھ لیں ۔
آپ کو اتباع کا مفہوم سمجھ میں آ جائے گا ۔ ذرا غور کریں :

العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها (تیسیر التحریر 4 / 241 ، لأمیر بادشاه الحنفی ، طبعة دارالفکر بیروت )
ایسا شخص جس کا قول حجج (شرعیہ) میں سے نہیں ہے اس کے قول کے مطابق بلا دلیل عمل کرنا تقلید ہے ۔

اور جس کا قول حجت شرعیہ ہے اس کے مطابق عمل کرنا اتباع ہے ۔اور حجت شرعیہ قرآن وسنت کے دلائل سے واضح ہے کہ صرف قرآن وسنت ہیں ۔

آپ نے لکھا کہ :

یاد رہے کہ اتباع کی دوحیثیں ہیں۔ ۔ ۔
تو گزارش ہے جو کچھ قرآن وسنت سے ثابت ہے ہم نے لکھ دیا اگر آپ کے نزدیک اتباع کی مختلف حیثیتیں ہیں تو آپ وضاحت کے ساتھ ثابت فرمادیں ۔ اگر واقعتا ہی کوئی قابل قبول بات ہوئی تو بھائی آپ کی بات کو ماننے میں ہمیں کوئی تأمل نہیں ہو گا ۔ اور ہم آپ سے وعدہ کرتےہیں آپ جولکھیں گے ہم اس کے ساتھ آپ جیساسلوک نہیں کریں گے ۔بلکہ جو بات قابل ملاحظہ ہوئی اس کی تعیین کرکے بالدلیل اپنی بات عرض کریں گے ۔

اور آپ نےجو یہ اقتراح پیش کی ہے کہ :

میراخیال ہے کہ بات ایک ایک کرکے آگے چلے توپھربات واضح ہوسکتی ہے۔ بہت سارے سوالات جوابات ایک ساتھ ہونے سے بات مناسب طورپر واضح نہیں ہوپاتی ہے۔
تو جیسا آپ کے لیےآسانی محسوس ہوتی ہے ویسا کرلیں ۔ آپ نےہی یک لخت اتنے سارے سوالات کیے تھے اور ہمیں تو جواب دینے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی ہم نے الحمد للہ سارے جوابات دے دیے ہیں ۔
باقی اگر آپ ایک ایک کرکے ان کا مناقشہ کرنا چاہتے ہیں تو جیسے آپ خوش ۔
جس طرح آپ کےلیے آسانی ہے آپ کر لیں ۔۔ جس طرح اللہ نے ہمیں توفیق دی ہم بھی لکھتے رہیں گے ۔ اہم بات تو افہام وتفہیم ہے جیسے بھی ممکن ہو سکے ۔

اللہ ہمیں سیدھے راستے کی سمجھ عطا فرمائے ۔ رحم اللہ عبدا قال آمینا
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اگر آپ بھول گئے ہیں تو دوبارہ اس موضوع میں میری پہلی مشارکت کو پڑھنے کی زحمت اٹھالیں جس میں آپ کو یہی گزارش اسی خدشے سےکی تھی جو کارنامہ آپ نے یہاں کر دکھایا ہے ۔ و إلی اللہ المشتکی ۔
آپ سے گزارش ہے میں آپ کے ہاں ملازم ہونے کے لیے آپ کو امتحان نہیں دے رہا کہ آپ سارے کیا کرائے پر دو لفظ بول کر پانی پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
جو کچھ لکھا ہے الحمد للہ دلیل کے ساتھ لکھا ہے ۔ آپ کو چاھیے تھا کہ اگر کسی جگہ آپ کو دلیل نظر نہیں آتی ہے تواس کا مطالبہ کریں ( جیسا کہ آپ نےبعض مقامات پر ایسا کیا اور ہم نے آپ کووضاحت کردی ) اور اگر کسی جگہ دلیل غلط ہے تو غلطی واضح کریں ۔
اور اگر آپ اتنا وقت نہیں نکال سکتے تو برائے مہر بانی واضح کردیں ۔۔۔ تاکہ ہم بھی أپنا وقت کسی اچھی جگہ صرف کریں جہاں کوئی فائدہ حاصل ہونےکی امید ہو ۔
یہ آپ کا شکوہ ہے جوبجاہوسکتاتھااگرآپ مابعد کے پوسٹ میں یہ سب نہ لکھتے۔کیونکہ اتباع کی تعریف میں آپ نے قران پاک کی یہ آیت تونقل کردی کہ
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم

اس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سےتمہاری طرف نازل کی گئی ہے ۔
اور ما أنزل میں قرآن وسنت دونوں شامل ہیں ۔
اور یہی اتباع کی تعریف ہے جس کو ہم نے یوں نقل کیا تھا : دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی پیروی کرنا ۔
اگرآپ تھوڑی سمجھداری سے کام لیں توواضح طورپر معلوم ہوجائے گاکہ آپ جس چیز کا شکوہ کررہے ہیں وہ غلط ہے اورصحیح بات وہی ہے جومیں نے کہی ہے۔
بحث ہورہی ہے کہ اتباع کیاہے۔آپ دلیل میں قرآن پاک کی آیت پیش کردیتے ہیں اتبعواماانزل الیکم اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی جانب سے نازل ہوئی ہے۔اس آیت سے اتناتوپتہ چلتاہے کہ ماانزل الیکم کی اتباع کی جائے لیکن اتباع کیاہے یہ قطعاپتہ نہیں چلتا۔

پھر اگرآنجناب مزید غوروفکر سے کام لیں توپتہ چلے گاکہ قران نے صرف ماانزل ہی کو نہیں بلکہ شیاطین کی پیروی کو بھی اتباع سے ہی تعبیر کیاہے اوروہ نہ کرنے کا حکم دیاہے۔آپ نے آیت پیش کی تھی
اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء
اسی آیت میں دیکھ لیں کہ قرآن نے ماانزل کو بھی اتباع سے تعبیر کیاہے اورمن دونہ اولیاء کوبھی اتباع سے ہی تعبیر کیاہے۔یہ اور بات ہے کہ ایک کے کرنے کاحکم ہے اوردوسرے سے روکاگیاہے لیکن دونوں کیلئے قرآن میں اتباع لفظ استعمال کیاگیاہے۔پھر آپ جس مزعومہ اتباع کے داعی ہیں اس کی جامع مانع تعریف کہاں سے نکل رہی ہے۔
اس کے علاوہ قراآن میں اتباع کے تعلق سے دیگرآیات ملاحظہ کریں۔

فَلَوۡ لَا كَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اُولُوۡا بَقِيَّةٍ يَّـنۡهَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِيۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَيۡنَا مِنۡهُمۡ‌ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مَاۤ اُتۡرِفُوۡا فِيۡهِ وَكَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿۱۱۶﴾

فَاتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ فِرۡعَوۡنَ‌ۚ وَمَاۤ اَمۡرُ فِرۡعَوۡنَ بِرَشِيۡدٍ‏ ﴿۹۷ہود﴾

النَّاسُ كُلُوۡا مِمَّا يٰٓاَيُّهَا فِى الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَيِّبًا ۖ وَّلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِؕ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿البقرہ168﴾

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاۡمُرُ بِالۡـفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ‌ ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿النور۲۱﴾

وَاِذَا جَآءَهُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَـوۡفِ اَذَاعُوۡا بِهٖ‌ ۚ وَلَوۡ رَدُّوۡهُ اِلَى الرَّسُوۡلِ وَاِلٰٓى اُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ الَّذِيۡنَ يَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَهٗ مِنۡهُمۡ‌ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّيۡطٰنَ اِلَّا قَلِيۡلًا‏ ﴿النساء:۸۳﴾

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّيَـتَّبِعُ كُلَّ شَيۡطٰنٍ مَّرِيۡدٍ ۙ‏ ﴿۳الحج﴾

اَفَمَنۡ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ كَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوۡۤا اَهۡوَآءَهُمۡ‏ ﴿۱۴محمد﴾

ان ساری آیات میں دیکھاجاسکتاہے کہ قران نے شیاطین کی پیروی، باپ داداکی پیروی،ظالموں کی پیروی،خواہشات کی پیروی،من دونہ اولیاء کی پیروی کو بھی اتباع سے ہی تعبیر کیاہےاس فرق کہ ساتھ ان کی اتباع نہ کرنے کا حکم دیاگیاہے لیکن ان امور کو تواتباع ہی کہاگیاہے نا۔

اب دوبارہ گزارش ہے کہ وہ اتباع کی جامع مانع تعریف نقل کریں تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔ویسے تومناسب یہی ہوگاکہ آپ القول المفید سے ہی اتباع کی تعریف نقل کردیں جیساکہ آپ کابیان ہے۔اگروہ واضح تعریف محسوس ہوئی تواسے قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

محترم بھائی کسی بھی چیز کی تعریف کا مقصد ہوتا ہے کہ اس کی پہچان کرنا اور اس کا تصور ذہن میں بٹھانا تاکہ اس کو غیر سے جدا کیا جا سکے ۔
اور یہ فوائد ہماری بیان کردہ وضاحت سے یقینا حاصل ہو رہے ہیں ہم نے کہا اتباع یہ کہ
دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی پیروی کرنا ۔
اور بطور دلیل کے قرآن وسنت سے دلائل بھی پیش کرچکے ہیں ۔ مثلاً قرآن کی آیت :

اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم

اب یہاں سے اتباع کی پہچان اور اس کا تصور واضح ہو رہا ہے کہ نہیں اور کیا اتباع دوسری کسی چیز کے ساتھ خلط ہو رہی ہے ؟

یہاں دو چیزیں ہیں :

اتباع کی لغوی تعریف : پیروی کرنا ۔ اگر ہم صرف اتنی بات پر اکتفا کرتے تو آپ کو یقینا اعتراض کرنے کا حق تھا کہ اس میں تو قرآن وسنت کے علاوہ دوسری چیزیں بھی مثلا شیاطین وغیرہ بھی شامل ہورہے ہیں ۔
اتباع کی شرعی تعریف : لہذا اس اعتراض کو ختم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی قید کا اضافہ کیا ۔ اور یہ ہم نے کوئی اپنی طرف سے تھوڑا ہی کیا بلکہ قرآن کی آیت مذکورہ اور اس کے علاوہ کئی دلائل اس پر شاہد ہیں ۔

کیا اس بیان سے اتباع کی حدود وقیود وغیرہ کی وضاحت نہیں ہورہی ۔؟

پتہ نہیں تعریف کا آپ کے ذہن میں کیا تصور ہے ؟ جس کا آپ ہم سے مطالبہ کر رہےہیں !

آپ نے لکھا کہ :

اب دوبارہ گزارش ہے کہ وہ اتباع کی جامع مانع تعریف نقل کریں تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔
ہماری بھی التماس ہے کہ ہم نے جامع و مانع بات نقل کردی ہے ۔ اگر کسی جگہ نقص یا نقض ہے تو وضاحت کردیں ورنہ بات آگے بڑھائیں اور دیگر جوابات پر اگر کوئی ملاحظات ہیں تو پیش فرمائیں ۔

آپ نے فرمایا :

ویسے تومناسب یہی ہوگاکہ آپ القول المفید سے ہی اتباع کی تعریف نقل کردیں جیساکہ آپ کابیان ہے۔اگروہ واضح تعریف محسوس ہوئی تواسے قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا۔
ویسے اگر قرآنی وضاحت پر آپ قانع نہیں ہیں تو ہم القول المفید سے نقل والا مطالبہ بھی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ لیکن میرے خیال سے بات کو لمبا کرنے کی بجائے سمیٹنے کی طرف آنا چاہیے ۔ اگر آپ نے گفتگو کو سب کچھ بالائے طاق رکھ کر القول المفید پر ہی منحصر کر لیا تو پھر ہمیں نقل کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہو گا ۔

آپ نے اپنی گزشتہ مشارکت میں اتباع کی دو حیثیتوں کا ذکر کیا تھا اس کے حوالے اب آپ نے بالکل خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دینی مسائل میں اللہ اور اس کے رسول کی بات کی پیروی کرنا
بقول آپ کے مسائل دوقسم کے ہیں۔
جن مسائل میں نصوص نہیں ہیں۔وہاں فقہاء اورمجتہدین کے اجتہادات وآراء کی پیروی کرنا اتباع میں شامل ہے یاتقلید میں۔ضرور واضح کیجئے گا۔
ویسے اگر قرآنی وضاحت پر آپ قانع نہیں ہیں تو ہم القول المفید سے نقل والا مطالبہ بھی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ لیکن میرے خیال سے بات کو لمبا کرنے کی بجائے سمیٹنے کی طرف آنا چاہیے ۔ اگر آپ نے گفتگو کو سب کچھ بالائے طاق رکھ کر القول المفید پر ہی منحصر کر لیا تو پھر ہمیں نقل کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہو گا ۔
یہ کیاجملہ ہوا۔’’تیار ہیںُ‘‘۔توپھرہمیں نقل کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا‘‘۔
آپ جب ایک تعریف میں القول المفید کاحوالہ دے رہے ہیں توپھر نقل کرنے میں کیاچیز مانع ہے۔ویسے میراخیال تویہ ہے کہ اصول فقہ پر القول المفید سے بہت پہلے بھی کتابیں لکھی گئیں ہیں ۔ان کاحوالہ مزید بہتر رہتا۔
اتباع کی دوحیثتیں ہرشخص کیلئے واضح ہیں ۔
ایک تواتباع کی حیثیت یہ ہے اللہ اورس کے رسول کاجوکچھ بھی حکم ہے وہ سرآنکھوں پر ۔ اس کا ہرمسلمان قائل ہیں
سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے۔
اتباع کی دوسری حیثیت وہ ہے جوآپ حضرات تقلید کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں۔اورجس پر بحث چل رہی ہے۔اوراسی اعتبار سے اتباع کی تعریف کامطالبہ کیاجارہاہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
جمشید بھائی !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
آپ نے لکھا :

بقول آپ کے مسائل دوقسم کے ہیں۔
جن مسائل میں نصوص نہیں ہیں۔وہاں فقہاء اورمجتہدین کے اجتہادات وآراء کی پیروی کرنا اتباع میں شامل ہے یاتقلید میں۔ضرور واضح کیجئے گا۔
بھائی اگرچہ ہم اس بات کا جواب پہلے دے چکے ہیں پھر بھی اگر کوئی اشکال ہے تو ہم حاضر ہیں لیکن اس جگہ اس کا جواب لکھنا آپ کی پیش کی ہوئی اقتراح کے خلاف ہے ۔
آپ نے ہی پہلے اقتراح پیش کی تھی کہ :

میراخیال ہے کہ بات ایک ایک کرکے آگے چلے توپھربات واضح ہوسکتی ہے۔ بہت سارے سوالات جوابات ایک ساتھ ہونے سے بات مناسب طورپر واضح نہیں ہوپاتی ہے۔
لیکن پھر آپ اتباع کی تعریف سے ہٹ کر سوال کر رہے ہیں ۔ ۔۔۔۔ بہر صورت ان شاء اللہ میرے لیے اس میں کوئی مشکل نہیں اگر آپ دوبارہ پہلی طرز پر آنا چاہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔

باقی اتباع کی جس طرح کی تعریف کا آپ مطالبہ کررہے ہیں ۔ شاید آپ کو کہیں سے نہ مل سکے ۔ ہر چیز کی اس طرح کی تعریف کرنا شاید ممکن بھی نہیں ہے ۔ میں آپ سے پہلے گزارش کرچکا ہوں کہ کسی بھی چیز کی تعریف میں جو فوائد مضمر ہوتے ہیں وہ یہأں ہماری اتباع کے حوالے سے گفتگو سے بالکل واضح ہیں ۔ اس کے باوجود اتباع کی تعریف پر اصرار کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ۔
مثال کے طور پر ’’ عبادت ‘‘ کا کوئی بھی منکر نہیں لیکن اس کے باوجود اس کی معروف اصطلاحی تعریف بھی شاید کسی نے نہیں کی ۔ کیا آپ عبادت کی کوئی تعریف کرسکتے ہیں ؟
اسی طرح ’’ اسلام ‘‘ بحیثیت دین کے تمام ادیان سے جدا ہے اور اس کی حدود و قیود بالکل واضح ہیں لیکن اس کی آپ کی سوچ کے مطابق کوئی تعریف بھی موجود نہیں ۔ کیا آپ اس کی کوئی تعریف جانتےہیں ؟
اگر آپ برا نہ منائیں تو ایک سوال ہے کہ : چلو آپ تو مقلدین ہیں لیکن جن کی آپ تقلید کرتے ہیں وہ تو قرآن وسنت کی براہ راست اتباع کرنے والےتھے نا ۔ اگر متبع کے لیے (آپ کی مطلوبہ) تعریف کرنا ضروری ہے تو یہ سوال ان کے ذمہ میں بھی آتا ہے آپ ان کی ہوئی کوئی تعریف بتلادیں تاکہ کوئی بات تو بنے کہ اس دور کے متبعین اتباع کی تعریف جانتے تھے اس لیے ان کے لیےاتباع مشروع تھی لیکن آج اتباع کا دعوی کرنے والے اس کی تعریف نہیں جانتے اس لیے ان کے لیے اتباع کا بھی کوئی حق نہیں ۔

آپ نے لکھا :

اتباع کی دوحیثتیں ہرشخص کیلئے واضح ہیں ۔
ان کو دو کی بجائے آپ چار کہہ لیں ۔ حقیقت وہی ہے جو ہم نے پہلےاور اب خود آپ نے بھی ان الفاظ میں بیان کردی ہے کہ :

ایک تواتباع کی حیثیت یہ ہے اللہ اورس کے رسول کاجوکچھ بھی حکم ہے وہ سرآنکھوں پر ۔ اس کا ہرمسلمان قائل ہیں
جی ہاں یہی وہ اتباع ہے جو ہم سمجھانے کی کوشش کر رہےتھے ۔ اور اسی کو ہم تقلید کے مقابلے میں پیش کرتےہیں ۔
لہذا آپ کا یہ فرمان :

اتباع کی دوسری حیثیت وہ ہے جوآپ حضرات تقلید کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں۔اورجس پر بحث چل رہی ہے۔اوراسی اعتبار سے اتباع کی تعریف کامطالبہ کیاجارہاہے۔
یا تو حوالے کا محتاج ہے یا پھر تحکم کے قبیل سےہے ۔


سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے۔
اور’’ سر تسلیم خم ‘‘ اسی وقت متحقق ہو گا جب اللہ اور اس کے رسول کی بات کے مقابلے میں ہر ایک کی بات کو چھوڑ دیا جائے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بات کو زیادہ الجھانا کسی بھی حال میں بہتر نہیں ہواکرتا۔
کسی چیز کی تعریف اس لئے کی جاتی ہے کہ اس سے اس کی حدو نہایت اورحدود قیود واضح ہوجائیں اوریہی تعریف کا مقصد بھی ہواکرتاہے۔
آپ کے نزدیک اتباع کی تعریف اتبعواماانزل الیکم ہے۔اس اتباع میں مجتہد اورعامی دونوں شریک ہیں۔ دونوں کیلئے اس میں وجہ تفریق کیارہاہے۔کیااآپ کے مزعومہ اتباع کی تعریف سے مجتہد اورعامی میں کوئی فرق نظرآرہاہے؟یاآپ نے سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیاہے۔
اسی لئےہم آپ سے باصرارعرض کررہے ہیں کہ اتباع کی تعریف کیجئے۔
اب دیکھئے یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمیں کتب اصول فقہ میں تو تقلید کی تعریف ملتی ہے۔ اجتہاد کی تعریف ملتی ہے لیکن یہ اتباع کی تعریف نہیں ملتی۔
اس سے بھی کچھ کچھ ذہن میں آتاہے ۔کیاآتاہے وہ آپ بھی سمجھ جائیں گے اگراپنے ذہن پرزورڈالیں گے۔
مالکیہ ،شافعیہ اورحنابلہ کے تقلید کے تعلق سے کچھ اقتباسات میں نے یہاں ذکرکیاہے اس کوبھی دیکھ لیجئے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
أخ مکرم !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
قلتَ :

بات کو زیادہ الجھانا کسی بھی حال میں بہتر نہیں ہواکرتا۔
أقول :

بھائی آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں بات کو الجھا رہا ہوں اور میرا خیال یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے بات الجھ رہی ہے ۔
آپ نے کہا کہ اتباع کی تعریف کریں ۔ ہم نے جو کچھ سمجھ میں آیا دلائل کے ساتھ آپ کے گوش گزار کردیا ۔ یہ آپ کی طرف سے مطالبہ تھا اگر اس کو پورا نہ کیا جاتا تو یقنا آپ کو حق تھا کہ آپ الجھنے الجھانے کا الزام مجھے دیتے ۔
اب رہی بات یہ کہ آپ کے نزدیک اتباع کی یہ تعریف درست نہیں ہے یا اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو بھائی ہم آپ سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ جس تعریف کو آپ صحیح سمجھتے ہیں وہ بیان کردیں ۔ اور یہ بات ہم بارہا آپ سے عرض کرچکے ہیں جو کچھ ہم نے پیش کردیا ہمارے نزدیک یہی کچھ اتباع کی حقیقت اور حدود وقیود ہیں اس کو آپ اگر بطور تعریف کے تسلیم کرنے کے لیےرضامند نہیں ہیں تو آپ اس کو ان حقائق میں سے سمجھ لیں جو ( آپ کی مطلوبہ ) تعریف کے محتاج نہیں ہوتے ۔ اس پہلے ہم نے کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلائی تھی کہ باوجود ایک مسلمہ حقیقت ہونے کے ان کی ( آپ کی مطلوبہ ) تعریف نہیں ملتی ۔ تو کیا ان چیزوں کا بھی انکار کردیا جائے گا ؟
قلتَ :

اب دیکھئے یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمیں کتب اصول فقہ میں تو تقلید کی تعریف ملتی ہے۔ اجتہاد کی تعریف ملتی ہے لیکن یہ اتباع کی تعریف نہیں ملتی۔
أقول :

یہ ہماری اس بات کی تائید ہے کہ اتباع ( آپ کی مطلوبہ ) تعریف کی محتاج ہی نہیں ہے ۔ باقی حقیقت اتباع کیا ہے آپ قرآن کی کوئی تفسیر ان مقامات سے دیکھ لیں جہاںاتباع کا ذکر ہے ہر مفسر نے بقدر استظاعت اس میں وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور یہ گزارش ہم آپ سے پہلے بھی کر چکے ہیں کہ :

اتباع کی جس طرح کی تعریف کا آپ مطالبہ کررہے ہیں ۔ شاید آپ کو کہیں سے نہ مل سکے ۔ ہر چیز کی اس طرح کی تعریف کرنا شاید ممکن بھی نہیں ہے ۔ میں آپ سے پہلے گزارش کرچکا ہوں کہ کسی بھی چیز کی تعریف میں جو فوائد مضمر ہوتے ہیں وہ یہأں ہماری اتباع کے حوالے سے گفتگو سے بالکل واضح ہیں ۔ اس کے باوجود اتباع کی تعریف پر اصرار کرنے کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ۔
مثال کے طور پر ’’ عبادت ‘‘ کا کوئی بھی منکر نہیں لیکن اس کے باوجود اس کی معروف اصطلاحی تعریف بھی شاید کسی نے نہیں کی ۔ کیا آپ عبادت کی کوئی تعریف کرسکتے ہیں ؟
اسی طرح ’’ اسلام ‘‘ بحیثیت دین کے تمام ادیان سے جدا ہے اور اس کی حدود و قیود بالکل واضح ہیں لیکن اس کی آپ کی سوچ کے مطابق کوئی تعریف بھی موجود نہیں ۔ کیا آپ اس کی کوئی تعریف جانتےہیں ؟
بھائی میں تو چاہتاہوں کہ بات جلدی ختم ہو اور ان مباحث کی طرف بڑے جو اس سے زیادہ اہم ہیں اس لیے آپ سے ایک اور انداز سے استفسار کیا تھا کہ اگر اس طرح نہیں تو اسی طرح ہی سہی کہ :

چلو آپ تو مقلدین ہیں لیکن جن کی آپ تقلید کرتے ہیں وہ تو قرآن وسنت کی براہ راست اتباع کرنے والےتھے نا ۔ اگر متبع کے لیے (آپ کی مطلوبہ) تعریف کرنا ضروری ہے تو یہ سوال ان کے ذمہ میں بھی آتا ہے آپ ان کی ہوئی کوئی تعریف بتلادیں تاکہ کوئی بات تو بنے کہ اس دور کے متبعین اتباع کی تعریف جانتے تھے اس لیے ان کے لیےاتباع مشروع تھی لیکن آج اتباع کا دعوی کرنے والے اس کی تعریف نہیں جانتے اس لیے ان کے لیے اتباع کا بھی کوئی حق نہیں ۔
اتنی واضح اور صاف بات ہونے کے باوجود بھی اگر مجھے بات الجھانے کا الزام دیں تو بھائی آپ کی مرضی ہے ۔

پھر آپ نے کہا کہ :

آپ کے نزدیک اتباع کی تعریف اتبعواماانزل الیکم ہے۔اس اتباع میں مجتہد اورعامی دونوں شریک ہیں۔ دونوں کیلئے اس میں وجہ تفریق کیارہاہے۔کیااآپ کے مزعومہ اتباع کی تعریف سے مجتہد اورعامی میں کوئی فرق نظرآرہاہے؟یاآپ نے سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیاہے۔
ہم نے پہلی ہی مشارکت میں اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ چاہے کوئی عامی ہو چاہے کوئی مجتہد ہو ہر کوئی اتباع کا مکلف ہے ۔ اور یہ بھی صراحت کردی تھی کہ جو قرآن وسنت سے براہ راست استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ کس طرح اتباع کرے گا ۔ اس کے باوجود آپ نے دوبارہ پھر اسی طرح کا سوال کردیا ہے ۔ اور سوال بھی ایسا ہے کہ تعریف کے ساتھ اس کا تعلق بھی نہیں ہے ۔
ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں اگر عامی اور مجتہد کے بارے میں تفصیل میں کوئی اعتراض ہوا تو اس کو دوبارہ پھر بیان کردیا جائے گا ۔ لیکن خود ہی تو آپ نے کہا تھا کہ ایک ایک کرکے اگر مناقشہ ہو تو بہتر رہے گا او راب آپ ہی اس بات کو نظر انداز کر رہےہیں ۔
ہمارے نزدیک بھی مجتہد اور عامی میں فرق ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا تعریف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ہم نے جو اتباع کی وضاحت کی ہے اس حوالے سےدونوں ہی اس میں شامل ہیں ۔ اور آپ کو چاہیے کہ جب تک اتباع کی تعریف کا مسئلہ آپ کو سمجھ نہیں آ جاتا مزید ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں ۔ یا کہہ دیں کہ تعریف کا مسئلہ ہو گیا ۔

قلتَ :

اب دیکھئے یہ حیرت کی بات ہے کہ ہمیں کتب اصول فقہ میں تو تقلید کی تعریف ملتی ہے۔ اجتہاد کی تعریف ملتی ہے لیکن یہ اتباع کی تعریف نہیں ملتی۔
اس سے بھی کچھ کچھ ذہن میں آتاہے ۔کیاآتاہے وہ آپ بھی سمجھ جائیں گے اگراپنے ذہن پرزورڈالیں گے۔
بھائی آپ کے ذہن میں کیا آیا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہ میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ۔ اوریہاں سے مزید اس بات کو تقویت ملی ہے کہ ہر چیز ایک خاص تعریف کی محتاج نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس طرف توجہ نہیں کی ۔
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
لیکن جمشید بھائی ذرا غور کریں
آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟
اگر اس سےپہلے کسی نے اتباع کی تعریف پر سوال و جوا ب نہیں کیےہیں تو آپ کا اس طرح تعریف پر اصرار کرنا اس کی کیا وجہ ہے ؟

نسأل اللہ أن یوفقنا و إیاکم لما یحب و یرضی ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اب رہی بات یہ کہ آپ کے نزدیک اتباع کی یہ تعریف درست نہیں ہے یا اس میں کوئی کمی بیشی ہے تو بھائی ہم آپ سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ جس تعریف کو آپ صحیح سمجھتے ہیں وہ بیان کردیں ۔ اور یہ بات ہم بارہا آپ سے عرض کرچکے ہیں جو کچھ ہم نے پیش کردیا ہمارے نزدیک یہی کچھ اتباع کی حقیقت اور حدود وقیود ہیں اس کو آپ اگر بطور تعریف کے تسلیم کرنے کے لیےرضامند نہیں ہیں تو آپ اس کو ان حقائق میں سے سمجھ لیں جو ( آپ کی مطلوبہ ) تعریف کے محتاج نہیں ہوتے ۔ اس پہلے ہم نے کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلائی تھی کہ باوجود ایک مسلمہ حقیقت ہونے کے ان کی ( آپ کی مطلوبہ ) تعریف نہیں ملتی ۔ تو کیا ان چیزوں کا بھی انکار کردیا جائے گا ؟
آپ کی تعریف میں ہمیں ایک عامی ،مولاناخضرحیات،مولانا اسماعیل سلفی مرحوم،حضرت ابن تیمیہ ،امام احمد بن حنبل میں کوئی فرق نظرنہیں آرہاہے۔اسی لئے ہم اس کو اتباع کی تعریف ماننے سے قاصر ہیں۔ تعریف میں اگرحدود وقیود نہ ہوں اورغیرمتعلقہ لوگوں کواس سے الگ نہ کیاجائے تو پھر اس کا فائدہ ہی کیارہ جاتاہے۔
آپ نے عبادت کی تعریف ہونے پر اشکال ظاہر کیاہے۔یہ واقعتاحیرت کی بات ہے کہ کشاف الاصطلاحات دیکھیں یاپھر فقہ کی کوئی دوسری کتاب دیکھیں اس میں عبادت کی جامع مانع تعریف نظرآجائے گی۔
گوگل پر سرچ کے دوران عبادت کی یہ تعریف بھی نظرآئی ۔بلکہ آپ کو عبادت کی تعریف تواصول فقہ کی کتابوں اورتفسیرات مین بھی نظرآجائے گی۔
اسم يطلق على كل ما يصدر عن الانسان المسلم من أقوال وأفعال وأحاسيس استجابة لامر الله تعالى وتطابقاً مع إرادته ومشيئته .
لیکن چونکہ موضوع بحث عبادت نہیں ہے بلکہ اتباع ہے۔اس لئے ہم اسی تعلق سے گفتگو کریں گے۔
ہم نے پہلی ہی مشارکت میں اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ چاہے کوئی عامی ہو چاہے کوئی مجتہد ہو ہر کوئی اتباع کا مکلف ہے ۔ اور یہ بھی صراحت کردی تھی کہ جو قرآن وسنت سے براہ راست استفادہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ کس طرح اتباع کرے گا ۔ اس کے باوجود آپ نے دوبارہ پھر اسی طرح کا سوال کردیا ہے ۔ اور سوال بھی ایسا ہے کہ تعریف کے ساتھ اس کا تعلق بھی نہیں ہے ۔
ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں اگر عامی اور مجتہد کے بارے میں تفصیل میں کوئی اعتراض ہوا تو اس کو دوبارہ پھر بیان کردیا جائے گا ۔ لیکن خود ہی تو آپ نے کہا تھا کہ ایک ایک کرکے اگر مناقشہ ہو تو بہتر رہے گا او راب آپ ہی اس بات کو نظر انداز کر رہےہیں ۔
جوسمجھنے کی بات ہے اسے آنجناب سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ کیاجہاں اجتہاد کی تعریف کی گئی ہے اس میں مقلدین کسی طورپر شامل ہوتے ہیں؟نہیں ہوتے
جہاں تقلید کی تعریف کی گئی ہے کیااس میں مجہتدین کی شمولیت کا کوئی امکان ہوتاہے ۔یہ پوری دنیا سے نرالاصرف آپ کا مزعومہ اتباع ہی ٹھہراجس میں ہرایک شامل ہوجائے۔
اب اتنی وضاحت کے باوجود اگر آپ مجھ سےتحریری طور پر لکھوانا چاہتےہیں کہ میں کسی اصولی کی کتاب سے آپ کی مطلوبہ تعریف اتباع کے سلسلے میں نہیں دکھا سکا تو میں حاضر ہوں ۔
لیکن جمشید بھائی ذرا غور کریں
آپ کہتے ہیں کہ کسی نے اتباع کی تعریف نہیں کی تو کیا علماء اتباع کا انکار کرتے تھے ؟
آئمہء مقلَدین( مثلا آئمہ اربعہ ) تقلید کرتے تھے یا اتباع کرتے تھے ؟ اگر اتباع کرتے تھے تو کیا انہوں نے اس اتباع کی تعریف کی ہے ؟
کیا ہر چیز کی ایک خاص تعریف ہونا ضروری ہے ؟
اگر اس سےپہلے کسی نے اتباع کی تعریف پر سوال و جوا ب نہیں کیےہیں تو آپ کا اس طرح تعریف پر اصرار کرنا اس کی کیا وجہ ہے
کچھ بطور خاص لکھوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ خود ہی لکھتے جارہے ہیں۔ کتب اصول فقہ میں اتباع کی تعریف الگ سے مذکور نہ ہونے کی وجہ سے بداہتایہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ لوگ صرف دوکٹیگری کے قائل تھے ۔یاتوآدمی مجتہد ہوگا یامقلد ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اتباع کی تعریف بھی نہیں کی ہے۔جیساکہ میں نے اہل الرائے کی بحث میں مالکیہ،شافعیہ اورحنابلہ کی کتابوں سے نقل کیاہے کہ لوگوں کی دوقسمیں ہیں یاتومجتہد یامقلد ۔
 
Top