- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
بھائی، نہ تو اس نظام کے غیر اسلامی ہونے سے انکار ہے اور نہ خلافت کے فضائل سے۔دوسری بات -حکومتی نظام بدلنا ہمارے ہاتھ میں ہے اگر ہم صحیح طو ر پر کوشش کریں - جب نظام ہی کفریہ اور الله سے بغاوت پر مبنی ہو گا تو اس میں شامل ہونے والے اچھے لوگ بھی اس کے زیر اثر آ جایں گے - اور پھر عوام کے پاس اس بات کا کیا پیمانہ ہے کہ کون زیادہ برا ہے اور کون کم برا ہے اور کس میوں کتنی اہلیت ہے کہ وہ شرعی احکام کو صحیح طو ر پر نافذ کر پا ے گا یا نہیں ؟؟ ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا اور جو کچھ ہو چکا ہے وہ اس کفریہ نظام حکومت کے ہی مرہون منّت ہے اس بات کا مشاہدہ آپ بھی کر چکے ہونگے اور باقی عوام بھی -باقی اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں -اس لئے میرے خیال میں نظام بدلنا ضروری ہے نہ کہ لوگ
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب تک یہ نظام ہم پر مسلط ہے ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں:
1۔ یا تو اس نظام سے مکمل برات اور قطع تعلقی اختیار کی جائے۔ یہ طاغوت کو مزید قوت پہنچانے کے مترادف ہے۔
2۔ یا اس نظام کے تحت جس حد تک بھلائی حاصل کرنا ممکن ہو اتنا حصہ ڈالیں۔ اور نظام کے بدلنے کی کوشش بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔
کوئی تیسرا راستہ ہے تو بتائیں۔
اور یہ بھی بتائیں کہ دوران سفر آپ کو یہ اختیار دیا جائے کہ ایک شرابی، زانی، بے نمازی اور ایک دوسرے شخص میں جو بے نمازی تو ہے مگر شرابی اور زانی نہیں، میں سے کسی ایک کو امیر منتخب کر لیں یا پھر خاموشی اختیار کریں اور انتظار کریں کہ آپ کے ہم سفر جسے منتخب کریں وہی آپ کا امیر بنا دیا جائے، تو آپ کون سی راہ اختیار کریں گے اور کیوں؟
المیہ یہ ہے کہ ملک میں اکثریت تو ویسے ہی جاہل ہیں جو ووٹ ڈالتے ہی ان کو ہیں، جن کے ساتھ برادری ہے، یا جو کچھ انہیں پیسے دے دیتے ہیں، یا انہیں بھی جو پولنگ اسٹیشن تک گاڑی کا بندوبست کر دے۔ اور جو عقل و شعور کے ساتھ برے اور اچھے (یا کم برے) میں تمیز کی اہلیت رکھتے ہیں، وہ عضو معطل بنے رہتے ہیں۔