شاہد صاحب کی بات میں ایک ایک بات کی وضاحت ہو جائے تا کہ الزام قبول یا رد کرنا ممکن ہو سکے۔
سب سے پہلی بات: اس بات پر دلیل کہ اگر بالفرض بالفرض بالفرض دیوبندی اکابرین نے تمام امت مسلمہ بشمول مدت متنازعہ کے علماء کے اجماع کی بات کی ہے اور ہم اسے غلط قرار دیتے ہیں تو "یہ ان کی غلطی نہیں بلکہ کذب سمجھا جائے گا۔"
اس پر دلیل دیجیے تاکہ ہم اگلی بات کریں۔
بہت زبردست انداز ہے آپ کا۔ جب ہماری باری ہوتی ہے تو آپ کی زبان پر صرف ’’دلیل‘‘ کا مطالبہ ہوتا ہے اور جب آپ کی باری ہوتی ہے تو ’’دلیل‘‘ کے سوا سب کچھ ہوتا ہے یعنی آئیں بائیں شائیں، غیرمتعلقہ باتیں وغیرہ۔
جب آپ ایک ایک بات کی وضاحت کی بات کررہے ہیں تو آغاز سے بات کرتے ہیں۔
ہمارے بھائی نے ایک اہل حدیث عالم و محدث کا قول پیش کیا کہ صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ چونکہ تمام اہل حدیث کا اس بات پر اتفاق یعنی اجماع ہے اس لئے ہمیں اس کے لئے کسی اضافی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اجماع بذات خود ایک شرعی دلیل ہے۔ اس پر دیوبندیوں نے اعتراض کیا یہ اجماع جھوٹ ہے بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر اجماع نہیں ہوا۔ چونکہ اعتراض دیوبندیوں کی جانب سے ہوا ہے اس لئے اسکی دلیل بھی دیوبندیوں کے ذمہ ہے کہ صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہ ہونے پر دلیل پیش کریں۔ یاد رہے کہ ہمارے بھائی نے کسی دیوبندی مطالبے پر یا کسی دیوبندی سے بحث کے دوران اس اجماع کی بات نہیں کی تھی۔ اس لئے دیوبندیوں کا اپنی ذمہ داری سے مسلسل فرار ہمیں سمجھ میں نہیں آیا۔
اب آتے ہیں اشماریہ کی جانب، اشماریہ صاحب نے پہلے پہل بخاری کے ‘‘اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر اجماع کا انکار کیا تھا۔ دیکھئے:
میں نے تو ابن صلاح سے پہلے کے کسی عالم سےمنقول یہ جملہ نہیں پڑھا۔ اگر کسی نے کہا ہے تو آپ نقل فرما دیں۔
آپ کے اس مضمون میں یہ تو کہا گیا ہے کہ " اس کتاب کے لکھے جانے کے بعد سے اب تک اس کی عظمت کے بے شمار قائلین ہیں"لیکن اجماع والی بات تو مجھے کہیں نہیں ملی۔
جزاکما اللہ
ان دونوں حضرات نے بخاری کو صحیح تو کہا ہے لیکن "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" نہیں کہا۔
یہاں اعتراض بعض بھائیوں کو یہ ہے کہ یہ کہنا کہ قدیم و جدید "تمام" علماء کا اجماع ہے اس خاص بات پر کہ یہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" ہے یہ درست نہیں اور بلا دلیل ہے۔
آپ کے سابقہ بیانات سے بخوبی آپ کا موقف معلوم ہوتا ہے کہ آپ بخاری کو اصح لکتب بعد کتاب اللہ نہیں مانتے اور نہ ہی اس پر کسی اجماع کے قیام کو ماننے کو تیار ہیں۔
بعد میں جب ہم نے آپ کے اکابرین کے موقف کی جانب آپ کی توجہ دلوائی کہ صحیح بخاری کے بارے میں انکا موقف بھی بعینہ وہی ہے جو اہل حدیث کا ہے تو آپ نے کلابازی کھاتے ہوئے اپنا موقف تبدیل کرلیا کہ کہیں اپنے اکابرین ہی کو جھوٹا نہ کہنا پڑ جائے۔ملاحظہ فرمائیں اپنا تبدیل شدہ موقف:
جی بھائی چھٹی صدی کے بعد مختلف اوقات میں مختلف علماء نے اجماع کا دعوی کیا ہے اس لیے میں اسے مانتا ہوں۔ البتہ خود میں نے دیکھا نہیں ہے بلکہ ان کے قول پر اعتماد کرتا ہوں۔
"چھٹی صدی سے پہلے ان الفاظ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" پر اجماع کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ لہذا اس زمانے میں اس پر اجماع نہیں ہے۔
چھٹی صدی کے بعد مختلف علماء نے اجماع کا دعوی کیا ہے تو ان کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔"
پہلے آپ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کے منکر تھے اور اس پر اجماع کو بھی ماننے کو تیار نہ تھے پھر کہنے لگے کہ بخاری کے منصہ شہود پر آنے کے چھ سو سال تک نہ تو بخاری اصح الکتب تھی اور نہ اس پر اجماع تھا لیکن چھ سو سال بعد علماء کے اقوال پر بخاری کو نہ صرف ’’اصح الکتب‘‘ مان لیا بلکہ اس پر اجماع بھی تسلیم کرلیا۔ یعنی اپنی ہٹ دھرمی پر بھی قائم رہے اور اپنے علماء کی عزت بھی بچالی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب چھ سو سال تک بخاری ’’اصح لکتب‘‘ نہیں تھی تو چھ سو سال بعد ایسا کیا ہوا کہ بخاری ’’اصح الکتب‘‘ ہوگئی؟؟؟
بخاری کے صحیح ترین کتاب ہونے کا فیصلہ خود بخاری کے بجائے علماء کے اقوال پر کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ اگر تو بخاری چھ سو سال بعد ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہے تو چھ سو سال پہلے بھی ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہی تھی کیونکہ بخاری جب سے وجود میں آئی ہے آج تک ویسی ہی ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی
اور اسی طرح اگر چھ سو سال پہلے بخاری ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہیں تھی تو چھ سوسال بعد بھی ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہیں ہے کیونکہ بخاری میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اسکے ’’اصح‘‘ نہ ہونے میں تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟؟؟؟ آپ کے دعویٰ کے باطل ہونے پر یہ ایک ایسا نقطہ ہے جسے ایک موٹی عقل رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے لیکن ہٹ دھرم اور متعصب اسے نہیں سمجھے گا کیونکہ پھر اسے اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنا پڑے گا اپنی شکست کا اعتراف کرنا پڑے گا۔
اس سلسلے میں سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے اور اس پر امت مسلمہ کے اجماع کے وقوع کا عقیدہ نہ صرف تمام اہل حدیث کا ہے بلکہ بریلوی اور دیوبندی اکابرین کا بھی ہے۔ اب ان سب سے ہٹ کر ایک انوکھا نظریہ اشماریہ صاحب کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے کہ بخاری کے صحیح ترین کتاب ہونے پر چھ سو سال تک اجماع نہیں تھا چھ سو سال بعد یہ اجماع قائم ہوا۔ چونکہ یہ اشماریہ صاحب کی ذاتی رائے اور خیال ہے اس لئے ہم اسے رد کرتے ہیں کیونکہ اشماریہ صاحب کی ذاتی رائے کی نہ دیوبندیت میں کوئی حیثیت ہے اور نہ اہل حدیث کے نزدیک انکی ذاتی رائے قابل التفات ہے۔ اشماریہ صاحب سے گزارش ہے کہ اپنا دعویٰ صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے موقف پر کسی قابل اعتماد عالم کی تائید پیش کریں کہ یہ اجماع چھ سو سال بعد کا ہے چھ سو سال پہلے ایسا کوئی اجماع نہیں تھا۔ امید ہے اشماریہ صاحب معقول بات کرتے ہوئے اپنے موقف پر دلیل پیش کریں گے اور مزید الجھاؤ اور تلبیسات کے ذریعہ ہمارا وقت برباد نہیں کرینگے۔