• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ مقالہ اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛
http://kitabosunnat.com/kutub-library/asrehazirmeijtamaiijtihadaiktajziatimutalia-–p-2.html
جزاک اللہ خیرا۔ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور کافی دن بعد کوئی تحقیقی چیز پڑھنے کو ملی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

باقی اس سلسلے میں جو آپ نے فرمایا تو امام شافعیؒ کے قول کے مطابق مسئلہ ایسا واضح اور مشہور ہونا چاہیے کہ جس عالم سے بھی پوچھا جائے تو اس کا ایک ہی جواب ملے۔
جب کہ یہاں ہم اپنے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو بخاری کی روایات کے صحیح ہونے کا مسئلہ تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے لیکن بخاری کے کتاب اللہ کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہونے کا مسئلہ ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم کوئی ایک شخص یا کوئی ایک عالم تو اس کی صراحت کرتا۔ جن علماء نے بھی صراحت کی انہوں نے صحت کی کی ہے لیکن یہ دعوی کسی نے نہیں کیا کہ کتاب اللہ کے بعد اس سے زیادہ صحیح کتاب روئے زمین پر کوئی نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سمجھ بھی آتی ہے۔ اس زمانے میں کتب مدون ہو رہی تھیں اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی اس سے بھی زیادہ صحیح سندوں پر مشتمل کتاب مدون کر لے اس لیے یہ دعوی تقریبا نا ممکن تھا۔ ابن صلاح کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ جب کہ چوتھی صدی سے تدوین کتب کا کام ہمیں انتہائی کم نظر آتا ہے اور اس کے مقابلے میں جمع بین الکتب اور اصول حدیث و جرح و تعدیل کا کام زیادہ نظر آتا ہے۔ اس لیے چھٹی صدی تک پہنچتے پہنچتے ابن صلاح کے زمانے کے علماء کے لیے غالبا یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب اس کے بعد اپنی اسناد سے اس سے زیادہ صحیح کتاب لکھنا ممکن نہیں تو انہوں نے اس پر اجماع کا دعوی کیا۔
ہماری اس بات کی تائید اس سے بھی ملتی ہے کہ دارقطنی وغیرہ نے بخاری کی بعض احادیث پر نقد کیا ہے۔ اگرچہ اس کا بعد میں جواب دے دیا گیا لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ناقدین کے ہاں بخاری کو قرآن کے بعد اصح کہنے کا تصور نہیں تھا بلکہ بعض حدیثوں میں صحیح کہنا بھی ان کے ہاں محل نظر تھا۔ ان کے اس نقد کی موجودگی میں ان کے زمانے میں اجماع کا وجود تو ہو نہیں سکتا قطعی طور پر۔
ہذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جزاک اللہ خیرا۔ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور کافی دن بعد کوئی تحقیقی چیز پڑھنے کو ملی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

باقی اس سلسلے میں جو آپ نے فرمایا تو امام شافعیؒ کے قول کے مطابق مسئلہ ایسا واضح اور مشہور ہونا چاہیے کہ جس عالم سے بھی پوچھا جائے تو اس کا ایک ہی جواب ملے۔
جب کہ یہاں ہم اپنے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو بخاری کی روایات کے صحیح ہونے کا مسئلہ تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے لیکن بخاری کے کتاب اللہ کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہونے کا مسئلہ ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم کوئی ایک شخص یا کوئی ایک عالم تو اس کی صراحت کرتا۔ جن علماء نے بھی صراحت کی انہوں نے صحت کی کی ہے لیکن یہ دعوی کسی نے نہیں کیا کہ کتاب اللہ کے بعد اس سے زیادہ صحیح کتاب روئے زمین پر کوئی نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سمجھ بھی آتی ہے۔ اس زمانے میں کتب مدون ہو رہی تھیں اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی اس سے بھی زیادہ صحیح سندوں پر مشتمل کتاب مدون کر لے اس لیے یہ دعوی تقریبا نا ممکن تھا۔ ابن صلاح کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ جب کہ چوتھی صدی سے تدوین کتب کا کام ہمیں انتہائی کم نظر آتا ہے اور اس کے مقابلے میں جمع بین الکتب اور اصول حدیث و جرح و تعدیل کا کام زیادہ نظر آتا ہے۔ اس لیے چھٹی صدی تک پہنچتے پہنچتے ابن صلاح کے زمانے کے علماء کے لیے غالبا یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب اس کے بعد اپنی اسناد سے اس سے زیادہ صحیح کتاب لکھنا ممکن نہیں تو انہوں نے اس پر اجماع کا دعوی کیا۔
ہماری اس بات کی تائید اس سے بھی ملتی ہے کہ دارقطنی وغیرہ نے بخاری کی بعض احادیث پر نقد کیا ہے۔ اگرچہ اس کا بعد میں جواب دے دیا گیا لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ناقدین کے ہاں بخاری کو قرآن کے بعد اصح کہنے کا تصور نہیں تھا بلکہ بعض حدیثوں میں صحیح کہنا بھی ان کے ہاں محل نظر تھا۔ ان کے اس نقد کی موجودگی میں ان کے زمانے میں اجماع کا وجود تو ہو نہیں سکتا قطعی طور پر۔
ہذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم
کیا وجہ ہے کہ امت میں سے کسی نے ان احتمالات اور شبہات کی بنیاد پر ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ صرف چھٹی صدی کے بعد سے امت مسلمہ کا صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر اجماع ہے۔ بلکہ اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی تینوں کا بخاری کے قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب ہونے پر اجماع کا دعویٰ مطلق ہے جس میں زمانہ کی قید نہیں ہے۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ اپنے مردود دعویٰ کے ساتھ تنہا ہیں اور خود آپ کی حنفی اور دیوبندی جماعت بھی اس دعویٰ میں آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ اہل حدیث جماعت، بریلوی جماعت اور دیوبندی جماعت کے اکابرین و علماء سارے غلط تو نہیں ہوسکتے اس لئے آپ ہی اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائیں یا پھر کسی معتبر شخصیت کا قول اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کیجئے۔

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں​
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
محمد باقر نے لکھا تھاکہ
علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :

اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
اس عبارت میں "تمام" کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے؟
یہ سستا سا اعتراض کہ عینی حنفی کے قول میں ’’تمام‘‘ کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے، بار بار @یزید حسین اور @محمد باقر صاحبان کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان سے تو خیر اس قسم کے بے سروپا اور فضول اعتراضات کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ خود کو متبحر عالم سمجھنے والے @اشماریہ صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا ہے جس کے بعد انکی تقلید میں انکے دیگر بھائی اس اعتراض کو دہرائے چلے جارہے ہیں۔

اشماریہ صاحب نے ایک عربی عبارت پیش کی تھی جس کا ترجمہ کرتے وقت اس میں ’’ایک‘‘ کا لفظ بڑھا دیا تھا اور اسے سرخ رنگ سے واضح بھی کیا تھا حالانکہ عربی میں ایسا کوئی لفظ نہیں تھا جس کا ترجمہ ’’ایک‘‘ کیا جاتا۔ دیکھئے:
اجماع کی تعریف ہے:۔
فهو اتفاق مجتهدي أمة محمد صلى الله عليه وسلم بعد وفاته في عصر من الأعصار على أمر من الأمور.
ارشاد الفحول 1۔193 ط دار الکتاب العربی

"وہ امت محمد ﷺ کے مجتہدین کا زمانوں میں سے کسی ایک زمانے میں معاملات میں سے کسی ایک معاملہ پر اتفاق کرنا ہے۔"
جب ہم نے اس بات پر اعتراض کیا تو اشماریہ صاحب اصل عبارت سے عربی کا وہ لفظ دکھانے میں ناکام رہے جس کا ترجمہ انہوں ’’ایک‘‘ سے کیا تھا البتہ ہمیں قاعدہ پڑھانے بیٹھ گئے۔مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی نے ایک ایسی ہی عربی عبارت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

وفی الاصطلح اتفاق المجتھدین من امۃ محمدیہ علیہ السلام فی عصر علی حکم شرعی (توضیح تلویح ج2، ص522 میر محمد کتب خانہ کراچی)
امت محمدیہ کے فقہاء مجتہدین کا زمانے میں کسی حکم شرعی پر متفق ہوجانا ’’اجماع‘‘ ہے۔

(حجیت اجماع، صفحہ23)

اب اتنی عربی تو ان دیوبندی مفتی صاحب کو بھی آتی ہوگی جتنی اشماریہ صاحب کو آتی ہے لیکن اسکے باوجود قریب قریب ایک ہی جیسی عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت اشماریہ صاحب نے ’’ایک‘‘ کا اضافہ کردیا لیکن مفتی صاحب نے ’’ایک‘‘ کا اضافہ نہیں کیا۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ترجمہ میں اشماریہ نے ’’ایک‘‘ کا اٍضافہ یونہی کیا ہے جب کہ عربی عبارت میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں تھا جس کا ترجمہ ’’ایک‘‘ کیا جاتا۔

اس طرح اگر عینی کی عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت ہم نے ’’تمام‘‘ کا لفظ بڑھا دیا اگر اسکے غلط ہونے کا سبب صرف یہی ہے کہ عربی عبارت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا ترجمہ ’’تمام‘‘ کیا جاتا تو اشماریہ کا ترجمہ بھی بالکل غلط ہے کیونکہ انہوں نے جو ترجمہ کرتے وقت لفظ ’’ایک‘‘ کا اٍضافہ کیا ہے عربی عبارت ایسا کوئی لفظ نہیں پایا جاتا جس کی ترجمانی لفظ ’’ایک‘‘ سے کی جاتی۔

یہ تو مقلدین کی ہٹ دھرمی اور جہالت ہے ورنہ اصل بات یہ ہے کہ کسی زبان کی ترجمانی کرتے وقت مترجم اگر کچھ ایسے اضافی الفاظ استعمال کرتا ہے جو کہ اصل عبارت کا مفہوم تبدیل نہیں کرتے بلکہ عبارت کے مفہوم کو مزید اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو ایسے الفاظ کا استعمال بالکل جائز و درست ہے۔ اور کوئی ایسا قاعدہ و کلیہ نہیں ہے جن کی بنیاد پر ایسے اضافہ کو غلط قرار دیا جاسکے۔ اسکی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک ہی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت ہر مترجم علیحدہ علیحدہ الفاظ سے عبارت کی ترجمانی کرتے ہیں اور اگر وہ مختلف الفاظ اصل عبارت کا مفہوم نہیں بدلتے تو کوئی انہیں غلط نہیں کہتا اس کی ایک مثال سورہ اخلاص کی ایک آیت کے حوالے سے پوسٹ نمبر 162 میں تفصیل سے پیش کرچکا ہوں کہ ایک ہی آیت کی چھ مترجمین نے چھ مختلف الفاظ کے ذریعے ترجمانی کی ہے اور چونکہ چھ کی چھ عبارتوں کے مفہوم ایک ہی ہیں لہٰذا ترجمہ درست ہے۔

اسی طرح اگر عینی حنفی کی عبارت کو دیکھا جائے جو کہ یہ ہے:
اتفق علماء الشرق والغرب
جس کا ترجمہ ہماری جانب سے یہ کیا گیا ہے:
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترجمہ میں تمام کا اضافی لفظ اصل عربی کے مفہوم میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا نہیں کرتا کہ عبارت کے معنی ہی بدل جائیں بلکہ یہ اضافہ تو عربی عبارت کے معنی و مفہوم کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ اور مصنف کی مراد بھی یہی ہے جسے ’’تمام‘‘ کے لفظ سے واضح کیا گیا ہے اگر مصنف کی مراد یہ نہ ہوتی تو عبارت کچھ یوں ہوتی ’’مشرق و مغرب کے اکثر علماء‘‘ یا ’’مشرق و مغرب کے بعض علماء‘‘ اب جبکہ مصنف نے ایسے کوئی الفاظ استعمال نہیں کئے اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کی تو اسکی عبارت کا یہی مفہوم بنتا ہے کہ ’’مشرق و مغرب کے تمام علماء‘‘

پس اگر اس طرح دیکھا جائے تو اشماریہ نے عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت جو لفظ ’’ایک‘‘ کا اضافہ کیا ہے وہ بھی درست ہے اور ہم نے ترجمہ میں جو ’’تمام‘‘ کا لفظ بڑھایا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ یہ ترجمانی ہے جس میں مختلف الفاظ کے سہارے اور معمولی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ دوسری زبان کا مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔ ترجمانی میں ایسے اعتراضات کرنا کہ ترجمہ میں استعمال کیا جانے والا فلاں لفظ عربی عبارت میں بھی دکھاؤ علم اور عقل کی قلت کے سوا کچھ نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا وجہ ہے کہ امت میں سے کسی نے ان احتمالات اور شبہات کی بنیاد پر ایسا دعویٰ نہیں کیا کہ صرف چھٹی صدی کے بعد سے امت مسلمہ کا صحیح بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر اجماع ہے۔ بلکہ اہل حدیث، دیوبندی اور بریلوی تینوں کا بخاری کے قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب ہونے پر اجماع کا دعویٰ مطلق ہے جس میں زمانہ کی قید نہیں ہے۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آپ اپنے مردود دعویٰ کے ساتھ تنہا ہیں اور خود آپ کی حنفی اور دیوبندی جماعت بھی اس دعویٰ میں آپ کے ساتھ نہیں ہے۔ اہل حدیث جماعت، بریلوی جماعت اور دیوبندی جماعت کے اکابرین و علماء سارے غلط تو نہیں ہوسکتے اس لئے آپ ہی اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائیں یا پھر کسی معتبر شخصیت کا قول اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش کیجئے۔

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں​
ویسے تو ہر جگہ آپ تقلید کے خلاف اور تحقیق کے حق میں نظر آتے ہیں۔ تو اب یہ کیوں؟
ویسے میں نے دعوی نہیں دعوی کا انکار کیا ہے جناب عالی۔ اجماع کا دعوی آپ لوگوں کا ہے۔ ہے یا نہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ سستا سا اعتراض کہ عینی حنفی کے قول میں ’’تمام‘‘ کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے، بار بار @یزید حسین اور @محمد باقر صاحبان کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ ان سے تو خیر اس قسم کے بے سروپا اور فضول اعتراضات کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ خود کو متبحر عالم سمجھنے والے @اشماریہ صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا ہے جس کے بعد انکی تقلید میں انکے دیگر بھائی اس اعتراض کو دہرائے چلے جارہے ہیں۔

اشماریہ صاحب نے ایک عربی عبارت پیش کی تھی جس کا ترجمہ کرتے وقت اس میں ’’ایک‘‘ کا لفظ بڑھا دیا تھا اور اسے سرخ رنگ سے واضح بھی کیا تھا حالانکہ عربی میں ایسا کوئی لفظ نہیں تھا جس کا ترجمہ ’’ایک‘‘ کیا جاتا۔ دیکھئے:

جب ہم نے اس بات پر اعتراض کیا تو اشماریہ صاحب اصل عبارت سے عربی کا وہ لفظ دکھانے میں ناکام رہے جس کا ترجمہ انہوں ’’ایک‘‘ سے کیا تھا البتہ ہمیں قاعدہ پڑھانے بیٹھ گئے۔مفتی حماد اللہ وحید دیوبندی نے ایک ایسی ہی عربی عبارت کا ترجمہ یوں کیا ہے:

وفی الاصطلح اتفاق المجتھدین من امۃ محمدیہ علیہ السلام فی عصر علی حکم شرعی (توضیح تلویح ج2، ص522 میر محمد کتب خانہ کراچی)
امت محمدیہ کے فقہاء مجتہدین کا زمانے میں کسی حکم شرعی پر متفق ہوجانا ’’اجماع‘‘ ہے۔

(حجیت اجماع، صفحہ23)

اب اتنی عربی تو ان دیوبندی مفتی صاحب کو بھی آتی ہوگی جتنی اشماریہ صاحب کو آتی ہے لیکن اسکے باوجود قریب قریب ایک ہی جیسی عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت اشماریہ صاحب نے ’’ایک‘‘ کا اضافہ کردیا لیکن مفتی صاحب نے ’’ایک‘‘ کا اضافہ نہیں کیا۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ترجمہ میں اشماریہ نے ’’ایک‘‘ کا اٍضافہ یونہی کیا ہے جب کہ عربی عبارت میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں تھا جس کا ترجمہ ’’ایک‘‘ کیا جاتا۔

اس طرح اگر عینی کی عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت ہم نے ’’تمام‘‘ کا لفظ بڑھا دیا اگر اسکے غلط ہونے کا سبب صرف یہی ہے کہ عربی عبارت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا ترجمہ ’’تمام‘‘ کیا جاتا تو اشماریہ کا ترجمہ بھی بالکل غلط ہے کیونکہ انہوں نے جو ترجمہ کرتے وقت لفظ ’’ایک‘‘ کا اٍضافہ کیا ہے عربی عبارت ایسا کوئی لفظ نہیں پایا جاتا جس کی ترجمانی لفظ ’’ایک‘‘ سے کی جاتی۔

یہ تو مقلدین کی ہٹ دھرمی اور جہالت ہے ورنہ اصل بات یہ ہے کہ کسی زبان کی ترجمانی کرتے وقت مترجم اگر کچھ ایسے اضافی الفاظ استعمال کرتا ہے جو کہ اصل عبارت کا مفہوم تبدیل نہیں کرتے بلکہ عبارت کے مفہوم کو مزید اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں تو ایسے الفاظ کا استعمال بالکل جائز و درست ہے۔ اور کوئی ایسا قاعدہ و کلیہ نہیں ہے جن کی بنیاد پر ایسے اضافہ کو غلط قرار دیا جاسکے۔ اسکی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ایک ہی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت ہر مترجم علیحدہ علیحدہ الفاظ سے عبارت کی ترجمانی کرتے ہیں اور اگر وہ مختلف الفاظ اصل عبارت کا مفہوم نہیں بدلتے تو کوئی انہیں غلط نہیں کہتا اس کی ایک مثال سورہ اخلاص کی ایک آیت کے حوالے سے پوسٹ نمبر 162 میں تفصیل سے پیش کرچکا ہوں کہ ایک ہی آیت کی چھ مترجمین نے چھ مختلف الفاظ کے ذریعے ترجمانی کی ہے اور چونکہ چھ کی چھ عبارتوں کے مفہوم ایک ہی ہیں لہٰذا ترجمہ درست ہے۔

اسی طرح اگر عینی حنفی کی عبارت کو دیکھا جائے جو کہ یہ ہے:
اتفق علماء الشرق والغرب
جس کا ترجمہ ہماری جانب سے یہ کیا گیا ہے:
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترجمہ میں تمام کا اضافی لفظ اصل عربی کے مفہوم میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا نہیں کرتا کہ عبارت کے معنی ہی بدل جائیں بلکہ یہ اضافہ تو عربی عبارت کے معنی و مفہوم کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ اور مصنف کی مراد بھی یہی ہے جسے ’’تمام‘‘ کے لفظ سے واضح کیا گیا ہے اگر مصنف کی مراد یہ نہ ہوتی تو عبارت کچھ یوں ہوتی ’’مشرق و مغرب کے اکثر علماء‘‘ یا ’’مشرق و مغرب کے بعض علماء‘‘ اب جبکہ مصنف نے ایسے کوئی الفاظ استعمال نہیں کئے اور نہ ہی ایسی کوئی وضاحت کی تو اسکی عبارت کا یہی مفہوم بنتا ہے کہ ’’مشرق و مغرب کے تمام علماء‘‘

پس اگر اس طرح دیکھا جائے تو اشماریہ نے عربی عبارت کا ترجمہ کرتے وقت جو لفظ ’’ایک‘‘ کا اضافہ کیا ہے وہ بھی درست ہے اور ہم نے ترجمہ میں جو ’’تمام‘‘ کا لفظ بڑھایا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ یہ ترجمانی ہے جس میں مختلف الفاظ کے سہارے اور معمولی الفاظ کے اضافہ کے ساتھ دوسری زبان کا مفہوم بیان کیا جاتا ہے۔ ترجمانی میں ایسے اعتراضات کرنا کہ ترجمہ میں استعمال کیا جانے والا فلاں لفظ عربی عبارت میں بھی دکھاؤ علم اور عقل کی قلت کے سوا کچھ نہیں۔
ایک بات کہوں؟ برا نہ مانیے گا۔ سنا ہے احمد رضا خان نے بھی اپنی تفسیر میں ایسے ہی تفسیری ترجمے کیے ہیں۔ آپ کا کہیں ان سے کوئی "لنک" تو نہیں ہے؟
یار جب آپ کو ایک چیز نہیں آتی تو اس پر ضد کیوں کرتے ہیں؟ جب آپ کو عربی نہیں آتی تو پھر بھی عقلی احتمالات نکال کر اس کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بھائی اس "تمام" سے معنی میں کوئی خاص خرابی ہو رہی ہے یا نہیں، یہ تو طے ہے کہ الفاظ کہیں سے بھی اس پر دلالت نہیں کر رہے اور ترجمہ الفاظ کا ہوتا ہے یا آپ کے دماغ کے کارخانہ شیطانی سے برآمد ہونے والے مفہوم کا؟

باقی جو آپ نے مجھ پر اعتراض کیا تو عرض یہ ہے کہ میری پیش کی ہوئی تعریف میں من الاعصار کے ساتھ نکرہ کی تاکید بھی ہے جو اس نکرہ میں مزید تنکیر پیدا کر رہی ہے جب کہ اس تعریف میں نہیں ہے۔ دوسری بات نکرہ کے مطلب کو آپ جتنا بھی گھمالیں یہ لفظ مفرد ہے اس لیے مفرد پر ہی دلالت کرے گا۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کاش آپ نے عربی کا معلم کی پہلی جلد ہی پڑھ لی ہوتی۔
پھر یہ کون سی بات ہے کہ فلاں کو بھی اتنی عربی تو آتی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ رد کر سکتے ہیں تو عربی کے قواعد موجود ہیں۔ رد کیجیے۔ نہیں تو چپکے بیٹھئے۔ کسی نے یہ کیا ہے یا نہیں اس سے میرا ترجمہ کہاں سے غلط ثابت ہو جاتا ہے؟
پھر میں نے خود مصنف کے الفاظ دکھائے کہ مصنف اس لفظ کو اس لیے لائے ہیں تا کہ تمام زمانوں کا وہم نکل جائے۔ پھر بھی آپ کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی ہے۔
دوبارہ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔
ويخرج بقوله في عصر من الأعصار ما يتوهم من أن المراد بالمجتهدين جميع مجتهدي الأمة في جميع الأعصار إلى يوم القيامة

یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک بس آپ کی بات سب کچھ ہے جسے گھما پھرا کر ثابت کرنا ہی ہے۔
جناب @شاہد نذیر !
چونکہ آپ کے یہ ڈرامے میں بہت دیکھ چکا ہوں اس لیے اب اگر آپ "حوالہ" دے کر "باقاعدہ" رد کریں گے تو میں جواب دوں گا ورنہ آپ کی پوسٹ کو غیر متعلق ریٹ کرتا رہوں گا۔ خدا کی پناہ۔ بندہ وقت سے بھی فارغ ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ہاں اس کتاب کا لنک یا اسکین عنایت فرمائیے۔ مجھے آپ کی دیانت پر ہرگز یقین نہیں ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ویسے تو ہر جگہ آپ تقلید کے خلاف اور تحقیق کے حق میں نظر آتے ہیں۔ تو اب یہ کیوں؟
ہم مقلد کی تحقیق کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اسکا مذہب اسے اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ تحقیق تو حنفی مذہب میں مقلد کے لئے ناجائز اور حرام ہے۔ اگر آپ کو تحقیق کا شوق ہے تو تقلید کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکیے پھر شوق سے تحقیق کیجئے۔ لیکن دو رخی نہیں کہ خود کو مقلد بھی کہیں تقلید کی فوائد بھی گنوائیں اور ترک تقلید کے نقصانات کی لسٹ بھی دکھائیں اور مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے تحقیق بھی کریں اور اسے برا بھی نہ سمجھیں۔

دو رخی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
یا سراسر موم ہوجا یا سنگ ہوجا
ویسے میں نے دعوی نہیں دعوی کا انکار کیا ہے جناب عالی۔ اجماع کا دعوی آپ لوگوں کا ہے۔ ہے یا نہیں؟
رمضان میں بھی آپ غلط بیانی سے باز نہیں آتے۔ آپ نے نہ صرف ہمارے دعویٰ کا انکار کیا ہے بلکہ اجماع امت سے ہٹ کر ایک نیا اور انوکھا دعویٰ بھی کیا ہے کہ چھ سو سال بعد سے بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور چھ سو سال سے پہلے بخاری ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہیں تھی کیونکہ اس بات پر کسی عالم کا قول دستیاب نہیں ہے۔

تنبیہ: اب یہ مت فرمادیجئے گا کہ میں نے امت مسلمہ کا لفظ کہاں استعمال کیا ہے یہ لفظ میری تحریر سے دکھاؤ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہم مقلد کی تحقیق کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ اسکا مذہب اسے اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ تحقیق تو حنفی مذہب میں مقلد کے لئے ناجائز اور حرام ہے۔ اگر آپ کو تحقیق کا شوق ہے تو تقلید کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکیے پھر شوق سے تحقیق کیجئے۔ لیکن دو رخی نہیں کہ خود کو مقلد بھی کہیں تقلید کی فوائد بھی گنوائیں اور ترک تقلید کے نقصانات کی لسٹ بھی دکھائیں اور مذہب سے بغاوت کرتے ہوئے تحقیق بھی کریں اور اسے برا بھی نہ سمجھیں۔

دو رخی چھوڑ دے یک رنگ ہوجا
یا سراسر موم ہوجا یا سنگ ہوجا

رمضان میں بھی آپ غلط بیانی سے باز نہیں آتے۔ آپ نے نہ صرف ہمارے دعویٰ کا انکار کیا ہے بلکہ اجماع امت سے ہٹ کر ایک نیا اور انوکھا دعویٰ بھی کیا ہے کہ چھ سو سال بعد سے بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور چھ سو سال سے پہلے بخاری ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ نہیں تھی کیونکہ اس بات پر کسی عالم کا قول دستیاب نہیں ہے۔

تنبیہ: اب یہ مت فرمادیجئے گا کہ میں نے امت مسلمہ کا لفظ کہاں استعمال کیا ہے یہ لفظ میری تحریر سے دکھاؤ۔
اس کو انوکھا دعوی نہیں دعوے کا انکار کہتے ہیں۔
آپ لوگوں کا دعوی امام بخاری سے آج تک کے اجماع کا تھا؟ میں نے چھٹی صدی کے بعد کا تو تسلیم کر لیا اور اس سے پہلے کا انکار کر دیا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ایک بات کہوں؟ برا نہ مانیے گا۔ سنا ہے احمد رضا خان نے بھی اپنی تفسیر میں ایسے ہی تفسیری ترجمے کیے ہیں۔ آپ کا کہیں ان سے کوئی "لنک" تو نہیں ہے؟
یار جب آپ کو ایک چیز نہیں آتی تو اس پر ضد کیوں کرتے ہیں؟ جب آپ کو عربی نہیں آتی تو پھر بھی عقلی احتمالات نکال کر اس کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بھائی اس "تمام" سے معنی میں کوئی خاص خرابی ہو رہی ہے یا نہیں، یہ تو طے ہے کہ الفاظ کہیں سے بھی اس پر دلالت نہیں کر رہے اور ترجمہ الفاظ کا ہوتا ہے یا آپ کے دماغ کے کارخانہ شیطانی سے برآمد ہونے والے مفہوم کا؟
ترجمہ ہمیشہ لفظی نہیں ہوتا بلکہ عبارت کو سلیس بنانے کے لئے بامحاورہ ترجمہ بھی کیا جاتا ہے اور اکثر ترجمہ مفہومی اور بامحاورہ ہی ہوتا ہے۔ جس میں کچھ معمولی الٍفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ ترجمہ شدہ جملوں میں ربط پیدا ہوجائے۔ ورنہ تو اکثر لفظی ترجمہ میں عبارت بے ترتیب سی ہوتی ہے جسے سمجھنا بعض اوقات دشوار ہوجاتا ہے۔ چونکہ عربی ایک جامع اور فصیح بلیغ زبان ہے اسلئے عربی میں اس بات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ اسکا بامحاورہ ترجمہ کیا جائے ایسا ترجمہ جو لفظی سے زیادہ مفہومی ہو۔ قرآن کے مترجمین کا اس بارے میں موقف سن لیں جو اکثر مترجم قرآن کی ابتداء میں بیان کئے جاتے ہیں تو شاید کچھ معقول بات سمجھ میں آجائے اور ہٹ دھرمی میں کچھ کمی واقع ہو جائے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اس کو انوکھا دعوی نہیں دعوے کا انکار کہتے ہیں۔
آپ لوگوں کا دعوی امام بخاری سے آج تک کے اجماع کا تھا؟ میں نے چھٹی صدی کے بعد کا تو تسلیم کر لیا اور اس سے پہلے کا انکار کر دیا۔
آپ اس قدر فضول کی بحث کرتے ہیں کہ مخالف بے زار آجائے۔

کاش آپ میں کچھ دیانت اور امانت ہوتی تو باتوں کو گھما کر ہر بار پرانی اور گھسی پٹی بات نہ کرتے۔ لیکن افسوس کہ یہ تقلید کے کرشمے ہیں تقلید جھوٹ بولنا بھی سکھاتی ہے، تعصب بھی پیدا کرتی ہے اور امانت اور دیانت سے بھی محروم کردیتی ہے۔

ہمارا دعویٰ تھا کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
اب اس کا انکار تو یہ تھا کہ بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع نہیں ہے۔

لیکن آپ نے ایک نیا دعویٰ کیا کہ چھٹی صدی کے بعد بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے اور چھٹی صدی سے قبل بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع نہیں تھا۔

یہ نیا دعویٰ اس لئے ہے کہ ہم نے ایسا کوئی مخصوص دعویٰ کیا ہی نہیں جس کا آپ انکار کریں ہم نے تو صرف ایک مطلق دعویٰ کیا ہے۔

اگر تو ہم یہ کہتے کہ چھٹی صدی کے بعد اور چھٹی صدی سے پہلے بھی بخاری کے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔
پھر آپ اپنا مذکورہ بالا اعتراض پیش فرماتے کہ نہیں چھٹی صدی کے بعد تو اجماع ہے لیکن چھٹی صدی سے پہلے اجماع نہیں ہے تو یہ انکار ہوتا۔ چونکہ ہم نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی تو آپ نے انکار کس بات پر فرمایا؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اور ہاں اس کتاب کا لنک یا اسکین عنایت فرمائیے۔ مجھے آپ کی دیانت پر ہرگز یقین نہیں ہے۔
کیا ہمیں بھی اپنے اکابرین کی طرح سمجھ رکھا ہے؟ ٹھیک ہے جو جیسا ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی اپنی طرح کا خیال کرتا ہے اس لئے آپ کے اس طرح سوچنے میں بھی آپ کا قصور نہیں۔ کتنے ہی حوالے ایسے ہیں جو دیوبندی اکابرین، علماء وغیرہ اہل حدیث کے خلاف پیش کرتے ہیں لیکن جب تحقیق کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل کتاب میں وہ بات ہی نہیں۔ کیا بھول گئے؟ سید نذیر حسین رحمہ اللہ کے حوالے سے جو آپکے دیوبندی بھائی نے جھوٹا حوالہ دیا تھا وہ حوالہ اس دیوبندی کا نہیں تھا بلکہ آپ کے کسی دیوبندی عالم کا جھوٹا حوالہ تھا جسے اس دیوبندی نے نقل کیا تھا۔

الحمدللہ! میری یہ عادت ہے کہ میں تقریباً ہر مضمون کے ساتھ اسکین صفحات منسلک کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ پہلے میں دوران بحث بھی جو غیر معروف حوالہ دیتا تھا اس کا اسکین بھی ساتھ منسلک کردیتا تھا لیکن چونکہ محدث فورم پر براہ راست امیج اپلوڈ کرنے کی سہولت نہیں ہے اور جن پرائیوٹ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرکے امیج کے لنک دیتا تھا وہ ویب سائٹس کچھ عرصہ بعد امیجز ضائع کردیتی ہیں۔ اس لئے اب صرف اپنے مضامین کی امیجز لگاتا ہوں وہ بھی ڈراپ باکس کے ذریعہ۔ مضامین سے ہٹ کر امیجز لگانا اس لئے دشوار ہوتا ہے کہ ڈراپ باکس میں ایک مرتبہ امیج کا لنک شئیر کرنے کے بعد اس کی اصل لوکیشن میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے اس لوکیشن کو سنبھال کر رکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔
 
Top