اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
جزاک اللہ خیرا۔ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور کافی دن بعد کوئی تحقیقی چیز پڑھنے کو ملی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔یہ مقالہ اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے؛
http://kitabosunnat.com/kutub-library/asrehazirmeijtamaiijtihadaiktajziatimutalia-–p-2.html
باقی اس سلسلے میں جو آپ نے فرمایا تو امام شافعیؒ کے قول کے مطابق مسئلہ ایسا واضح اور مشہور ہونا چاہیے کہ جس عالم سے بھی پوچھا جائے تو اس کا ایک ہی جواب ملے۔
جب کہ یہاں ہم اپنے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو بخاری کی روایات کے صحیح ہونے کا مسئلہ تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے لیکن بخاری کے کتاب اللہ کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہونے کا مسئلہ ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم کوئی ایک شخص یا کوئی ایک عالم تو اس کی صراحت کرتا۔ جن علماء نے بھی صراحت کی انہوں نے صحت کی کی ہے لیکن یہ دعوی کسی نے نہیں کیا کہ کتاب اللہ کے بعد اس سے زیادہ صحیح کتاب روئے زمین پر کوئی نہیں ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سمجھ بھی آتی ہے۔ اس زمانے میں کتب مدون ہو رہی تھیں اس لیے یہ عین ممکن تھا کہ کوئی اس سے بھی زیادہ صحیح سندوں پر مشتمل کتاب مدون کر لے اس لیے یہ دعوی تقریبا نا ممکن تھا۔ ابن صلاح کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ جب کہ چوتھی صدی سے تدوین کتب کا کام ہمیں انتہائی کم نظر آتا ہے اور اس کے مقابلے میں جمع بین الکتب اور اصول حدیث و جرح و تعدیل کا کام زیادہ نظر آتا ہے۔ اس لیے چھٹی صدی تک پہنچتے پہنچتے ابن صلاح کے زمانے کے علماء کے لیے غالبا یہ واضح ہو گیا تھا کہ اب اس کے بعد اپنی اسناد سے اس سے زیادہ صحیح کتاب لکھنا ممکن نہیں تو انہوں نے اس پر اجماع کا دعوی کیا۔
ہماری اس بات کی تائید اس سے بھی ملتی ہے کہ دارقطنی وغیرہ نے بخاری کی بعض احادیث پر نقد کیا ہے۔ اگرچہ اس کا بعد میں جواب دے دیا گیا لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ناقدین کے ہاں بخاری کو قرآن کے بعد اصح کہنے کا تصور نہیں تھا بلکہ بعض حدیثوں میں صحیح کہنا بھی ان کے ہاں محل نظر تھا۔ ان کے اس نقد کی موجودگی میں ان کے زمانے میں اجماع کا وجود تو ہو نہیں سکتا قطعی طور پر۔
ہذا ما ظہر لی۔ واللہ اعلم