• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اجماع ! صحیح بخاری قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے !!!

شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
السلام علیکم بھائیوں

میرے بھائیوں میں تو ایک عدنہ سا طالب علم ہو اگر میری کسی پوسٹ میں غلطی ہو جائے تو علماء سے گزارش ہے کہ وہ میری اصلاح کر دیں -

ہاں ایک بات ضرور کہوں گا کہ جب بھی کوئی شخص میری سامنے صحیح حدیث پیش کریں ان شاء اللہ میں قبول کر لوں گا-

اور ہاں میرا آخری سوال ہیں آپ لوگوں سے ہیں کہ

علامہ عینی حنفی کی شرح بخاری "عمدۃ القاری" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے :

اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري


مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔


انھوں نے جو دعویٰ کیا ہے علماء اس مسلے پر روشنی ڈالے
عامر یونس صاحب: خطِ کشد عبارت کا جواب شاہ صاحب اوربھائی محمد باقر نے دیا تھا اس کا جواب ابھی تک کسی نے نہیں لکھا اُن کے جواب نقل کرتا ہوں دوبارہ پڑھیں۔
شاہ صاحب نے لکھا تھا کہ(ہائیلائٹ شدہ "تمام" عربی عبارت میں موجود نہیں۔ دوسرا کسی ایک زمانے کے تمام مراد ہوتے ہیں نہ کہ ہر زمانے کے۔
اجماع کی تعریف ہے:۔
فهو اتفاق مجتهدي أمة محمد صلى الله عليه وسلم بعد وفاته في عصر من الأعصار على أمر من الأمور.
ارشاد الفحول 1۔193 ط دار الکتاب العربی
"وہ امت محمد ﷺ کے مجتہدین کا زمانوں میں سے کسی ایک زمانے میں معاملات میں سے کسی ایک معاملہ پر اتفاق کرنا ہے۔"
یہ تعریف علامہ شوکانی نے کی ہے۔
اس کو ذرا غور سے پڑھیے: کسی ایک زمانے میں۔ یعنی جب کسی ایک زمانے میں علماء کا اتفاق ہو جائے تو اسے علماء کا اجماع قرار دیا جاتا ہے۔
اب جب ہم کہیں گے کہ امت محمدیہ یا امت مسلمہ کا اجماع ہے تو اس تعریف کی رو سے کسی ایک زمانے کا اجماع مراد ہوگا۔

محمد باقر نے لکھا تھاکہ
علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ :

اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري -

جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
اس عبارت میں "تمام" کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے؟

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ " اسی فورم کی علمی نگران جناب ابوالحسن علوی صاحب نے ایک دھاگہ میں اجماع کی وضاحت کی ہے اسے پڑھیں( اجماع ایک زمانے کے جمیع مجتہدین کے اتفاق کو کہتے ہیں )
ہر زمانے کے اجماع کو نہیں کہتے بقول علمی نگران جناب ابو الحسن علوی صاحب
یہاں بھی علامہ عینی کے زمانہ سن900 ھ کے شرق وغرب کے علماء کا اجماع مراد ہے

شاہ جی اور بھائی محمد باقر کی ان باتوں کا جواب عامر یونس صاحب آپ کے ذمہ ہے امید ہے کہ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کریں گے؟


ہاں اگر یہاں عربی عبارت یوں ہوتی کہ(اتفق علماء کلھا اشرق والغرب۔۔۔۔۔۔) ہوتا تو پھر عامر بھائی کی بات درست تھی ورنہ نہیں۔امید کرتا ہوں کہ عامر یونس بھائی اب کاپی پیسٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
امام نسائی (متوفی۳۰۳ھ)فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

ان کتابوں (بخاری و مسلم ) کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

اگر مسئلہ یہ ہے کہ چھٹی صدی سے قبل کسی نے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح استعمال نہیں کی ، تو الگ بات ہے۔ ورنہ چھٹی صدی ہجری سے قبل بھی محدثین و فقہاء نے صحیح بخاری کی تمام احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔اور اس بات میں شاید احناف و اہلحدیث کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ :

1۔ اگر قرآن "تمام" علماء کے نزدیک تواتر سے ثابت ہے۔ اور دنیا میں "سب سے صحیح" کتاب ہے۔
2۔ اگر صحیح بخاری کی تالیف کے بعد سے ہی علماء اس میں موجود "تمام" احادیث کو "صحیح " قرار دیتے آئے ہیں۔
3۔ اگر صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کی "تمام احادیث" کو "صحیح " قرار نہیں دیا گیا۔

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی مخصوص اصطلاح کس دور میں استعمال کی گئی اور کس دور میں اس پر اتفاق یا اجماع ہوا۔
جب اس خاص اصطلاح کے استعمال کے بغیر بھی محدثین و فقہاء بعینہ وہی بات کہتے آئے ہیں کہ جو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح کا منطقی نتیجہ ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
امام نسائی (متوفی۳۰۳ھ)فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

ان کتابوں (بخاری و مسلم ) کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

اگر مسئلہ یہ ہے کہ چھٹی صدی سے قبل کسی نے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح استعمال نہیں کی ، تو الگ بات ہے۔ ورنہ چھٹی صدی ہجری سے قبل بھی محدثین و فقہاء نے صحیح بخاری کی تمام احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔اور اس بات میں شاید احناف و اہلحدیث کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ :

1۔ اگر قرآن "تمام" علماء کے نزدیک تواتر سے ثابت ہے۔ اور دنیا میں "سب سے صحیح" کتاب ہے۔
2۔ اگر صحیح بخاری کی تالیف کے بعد سے ہی علماء اس میں موجود "تمام" احادیث کو "صحیح " قرار دیتے آئے ہیں۔
3۔ اگر صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کی "تمام احادیث" کو "صحیح " قرار نہیں دیا گیا۔

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی مخصوص اصطلاح کس دور میں استعمال کی گئی اور کس دور میں اس پر اتفاق یا اجماع ہوا۔
جب اس خاص اصطلاح کے استعمال کے بغیر بھی محدثین و فقہاء بعینہ وہی بات کہتے آئے ہیں کہ جو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح کا منطقی نتیجہ ہے۔
یہی بات میں نے ایک مختلف پیرائے میں کہی تھی کہ شروع کے ادوار کے علماء ومحدثین کے اقوال کی نص یہی ہے اگرچہ ظاہری الفاظ یہ نہیں ہیں کہ صحیح بخاری ہی کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ہے۔
 
شمولیت
مئی 12، 2014
پیغامات
226
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
42
امام نسائی (متوفی۳۰۳ھ)فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

ان کتابوں (بخاری و مسلم ) کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

اگر مسئلہ یہ ہے کہ چھٹی صدی سے قبل کسی نے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح استعمال نہیں کی ، تو الگ بات ہے۔ ورنہ چھٹی صدی ہجری سے قبل بھی محدثین و فقہاء نے صحیح بخاری کی تمام احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔اور اس بات میں شاید احناف و اہلحدیث کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ :

1۔ اگر قرآن "تمام" علماء کے نزدیک تواتر سے ثابت ہے۔ اور دنیا میں "سب سے صحیح" کتاب ہے۔
2۔ اگر صحیح بخاری کی تالیف کے بعد سے ہی علماء اس میں موجود "تمام" احادیث کو "صحیح " قرار دیتے آئے ہیں۔
3۔ اگر صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کی "تمام احادیث" کو "صحیح " قرار نہیں دیا گیا۔

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی مخصوص اصطلاح کس دور میں استعمال کی گئی اور کس دور میں اس پر اتفاق یا اجماع ہوا۔
جب اس خاص اصطلاح کے استعمال کے بغیر بھی محدثین و فقہاء بعینہ وہی بات کہتے آئے ہیں کہ جو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح کا منطقی نتیجہ ہے۔
امام نسائی (متوفی۳۰۳ھ)فرماتے ہیں :
اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین

ان کتابوں (بخاری و مسلم ) کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
حوالہ : نصرۃ الباری

شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

اگر مسئلہ یہ ہے کہ چھٹی صدی سے قبل کسی نے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح استعمال نہیں کی ، تو الگ بات ہے۔ ورنہ چھٹی صدی ہجری سے قبل بھی محدثین و فقہاء نے صحیح بخاری کی تمام احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔اور اس بات میں شاید احناف و اہلحدیث کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ :

1۔ اگر قرآن "تمام" علماء کے نزدیک تواتر سے ثابت ہے۔ اور دنیا میں "سب سے صحیح" کتاب ہے۔
2۔ اگر صحیح بخاری کی تالیف کے بعد سے ہی علماء اس میں موجود "تمام" احادیث کو "صحیح " قرار دیتے آئے ہیں۔
3۔ اگر صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کی "تمام احادیث" کو "صحیح " قرار نہیں دیا گیا۔

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی مخصوص اصطلاح کس دور میں استعمال کی گئی اور کس دور میں اس پر اتفاق یا اجماع ہوا۔
جب اس خاص اصطلاح کے استعمال کے بغیر بھی محدثین و فقہاء بعینہ وہی بات کہتے آئے ہیں کہ جو "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح کا منطقی نتیجہ ہے۔
محترم راجا صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔
محترم اس دھاگہ میں یہ اختلاف ہر گز نہیں ہے کہ بخاری ومسلم کی تمام احادیث صحیح ہیں یا نہیں؟ اور نہ ہی کسی نے بخاری ومسلم کی احادیث کی صحت سے انکار کیا ہے ،جس بات کا انکار نہیں اُسے بار بار لکھنا مناسب نہیں ہے۔اختلاف صرف یہ ہے کہ عامر یونس صاحب نے یہ جو لکھا ہے ( امام بخاری رحمہ اللہ نے جب سے صحیح بخاری لکھی اس وقت سے آج تک سب کا اجماع ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے ")

اس دھاگہ میں موجود معاویہ زین العابدین،محمد باقر، اشماریہ شاہ صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ (بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے) یہ الفاظ چھٹی صدی تک کسی نے نہیں کئے ،اور آپ نے دبے لفظوں میں اس کا اقرار بھی کیا ہے،آپ نے لکھا ہے کہ (اگر مسئلہ یہ ہے کہ چھٹی صدی سے قبل کسی نے "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی اصطلاح استعمال نہیں کی ، تو الگ بات ہے)(تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی مخصوص اصطلاح کس دور میں استعمال کی گئی اور کس دور میں اس پر اتفاق یا اجماع ہوا۔ )

اِن بھائیوں معاویہ زین العابدین،محمد باقر، اشماریہ شاہ صاحب کا مطالبہ یہ ہے کہ یہ جو دعوی کیا گیا ہے کہ (امام بخاری رحمہ اللہ نے جب سے صحیح بخاری لکھی اس وقت سے آج تک سب کا اجماع ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے ")امام بخاری کی وفات 256ھ سے لیکر 556 ھ تک چند محدثین کے حوالے اس دعوی پر نقل کر دئے جائیں بات ختم ۔
دلیل دعویٰ کے مطابق ہونی چاہئے

آپ نے لکھا ہے کہ ( اگر صحیح بخاری کے علاوہ کسی بھی کتاب کی "تمام احادیث" کو "صحیح " قرار نہیں دیا گیا)

حجۃ اللہ بالغہ کا مطالعہ کریں شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اختلاف صرف یہ ہے کہ عامر یونس صاحب نے یہ جو لکھا ہے

( امام بخاری رحمہ اللہ نے جب سے صحیح بخاری لکھی اس وقت سے آج تک سب کا اجماع ہے کہ قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے")
محترم یزید! بات ختم کرنے کا ایک سادہ سا فارمولہ، اگر مجھے کسی ممبر کی بات سے اختلاف ھے تو اس پر میں سامنے والے کے علم کے مطابق
یا تو اسے اگنور کروں گا
یا سیدھا اپنی رائے، جواب میں لکھوں گا
یا سامنے والے سے مزید کنفرمیشن کے لئے اسے ریویو کے لئے کہوں گا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ عامر بھائی سے بنائے گئے دھاگہ یا مزید کسی مراسلہ میں پیش کی گئی بات سے متفق نہیں تو ایک طــــــــــــــویــــــــــــــــــــــــــل لڑی کے بعد آپ اپنی مفید رائے یا مفید جواب پیش کریں، بات ختم!

والسلام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہی بات میں نے ایک مختلف پیرائے میں کہی تھی کہ شروع کے ادوار کے علماء ومحدثین کے اقوال کی نص یہی ہے اگرچہ ظاہری الفاظ یہ نہیں ہیں کہ صحیح بخاری ہی کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ہے۔
لیکن کیا صرف اس بنا پر اس کے "اصح الکتب" ہونے پر اس زمانے میں "اجماع" کا دعوی کرنا درست ہے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
لیکن کیا صرف اس بنا پر اس کے "اصح الکتب" ہونے پر اس زمانے میں "اجماع" کا دعوی کرنا درست ہے؟
آپ کی بات کا جواب ہاں اور نفی دونوں صورتوں میں درست ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کے نزدیک اجماع کے منعقد ہونے کا معنی ومفہوم کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے جس معنی میں اجماع کو حجت قرار دیا ہے، جو کہ ہمارے نزدیک اجماع کے انعقاد کا صحیح ترین مفہوم ہے، اس معنی میں اس پر اجماع کا دعوی کرنا ثابت ہے۔ راقم نے اجماع کے انعقاد کے میکانزم کے بارے اپنی رائے کا اظہار اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے چھٹے باب کی چوتھی فصل میں کیا ہے جو کتاب وسنت ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔ جزاکم اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی بات کا جواب ہاں اور نفی دونوں صورتوں میں درست ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ کے نزدیک اجماع کے منعقد ہونے کا معنی ومفہوم کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے جس معنی میں اجماع کو حجت قرار دیا ہے، جو کہ ہمارے نزدیک اجماع کے انعقاد کا صحیح ترین مفہوم ہے، اس معنی میں اس پر اجماع کا دعوی کرنا ثابت ہے۔ راقم نے اجماع کے انعقاد کے میکانزم کے بارے اپنی رائے کا اظہار اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے چھٹے باب کی چوتھی فصل میں کیا ہے جو کتاب وسنت ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔ جزاکم اللہ
جزاک اللہ خیرا
کیا آپ مجھے اس کا کوئی لنک عنایت فرما دیں گے؟ امید ہے یہ میرے لیے ایک مفید مضمون ہوگا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
Top