• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
نہیں ! میرے کہنے مقصد ہے کہ یہاں پاکستان میں آپ کی مسجد سے آمین کی ایسی آواز آئے کہ مسجد گونج اٹھے، اور ایک بار آپ کا عمل ثابت ہو جائے،حرم مکی تو پہلے ہی آمین کی آواز سے ہر روز گونجتا ہے ، وہاں آپ کی آمین قطعا ضرورت نہیں ہے، اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو وہاں کرو جہاں پہلے اس پر پابندی لگی ہوئی اور اس کی گمراہی سمجھا جاتا ہے ، اور میرا دعوی ہے کہ تم اپنی مسجد ہر گز یہ کام نہیں کر سکتے ہو کیوں کہ حنفی لوگ تمہیں پاگل کہیں گے اور تمہیں غیر مقلد کا طعنہ بھی سننا پڑے گا اور ہو سکتا ہے زد و کوب تک نوبت پہنچ جائے کیوں کہ تقلید میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو برداشت کر سکے پھر بھی ہم آپ کے لیے دعا گوہ ہیں کہ اللہ آپ کو اس کی توفیق سے نوازے آمین
حنفیوں کی عجیب(تدوین) منطق ہے۔
جب میں نیا نیا اہلحدیث ہوا تو مجھے حنفی مدرسے میں لے جایا گیا، تاکہ دوبارہ سے حنفی بنایا جائے، اللہ نے اپنے بندے کو بچا لیا ان گمراہوں سے، اور حق پر استقامت عطا فرمائی اور وہ بھی کم عمری میں۔

حنفی مولوی نے کہا: جناب رفع الیدین منسوخ ہے۔
تھوڑی دیر بعد کہتا ہے : ہم سعودیہ جائیں گے تو وہاں کریں گے۔

میں نے کہا: مولوی صاحب یہ کون سی بات ہے؟ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو پھر سعودیہ، دبئی، امریکہ، انگلینڈ، پاکستان ہر جگہ رفع الیدین منسوخ ہونا چاہئے، آپ یہاں نہیں کریں گے وہاں کریں گے، اور اگر وہاں کرنا ہے تو یہاں کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

تو اس بات کا مولوی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے دین کو گھر کی میراث سمجھ رکھا ہے، جیسے امام شافعی کے بارے میں ایک بات گھڑ رکھی ہے کہ جو ابوحنیفہ کے پاس جاتے تو رفع الیدین نہیں کرتے اور اپنے ہاں رفع الیدین کرتے۔

ہم متبع سنت لوگوں سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی کہ یہاں کریں گے وہاں نہیں کریں گے، وہاں کریں گے یہاں نہیں کریں گے، ہم بس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا جانتے ہیں۔ الحمدللہ



اشماریہ صاحب سعودیہ پتہ نہیں جانا ہو یا نہ ہو، پاکستان میں ہی اس پر عمل کر لو
میں نے سوچا شاید آپ اس عجیب اعتراض کو وقتی طور پر موقوف کر دیں۔ اس لیے وہ عرض کیا تھا۔
لیکن آپ نے نہیں کیا تو مجھے سند پر تحقیق کرنی پڑ گئی۔ امید ہے اب دل خوش ہوگا۔
ویسے میں یہاں کراچی میں بھی کہہ سکتا ہوں۔

لگتا ہے فیس بک پر دیکھ لیا ہے ، چلو ہمیں یہ شرف تو حاصل ہو گیا کہ جناب کی نظر ہم پر بھی پڑ گئی، لیکن یہ آپ کو نظر آیا کہ وہ کالی ہے، یعنی شوقیہ ہے
پتا نہیں یہ آپ خود کو شرف حاصل ہونے کا فرما رہے ہیں یا مجھے۔ میں فیس بک استعمال نہیں کرتا۔

مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اس حدیث کے معنی کو تسلیم کر لیا ہے، یہ واحد پوسٹ ہے جس کا جناب جواب نہیں دیا ہے، مجھے حسن ظن ہے کہ ان تمام محدثین کے استدلال سے آپ کو اتفاق ہے، ورنہ پہلے آپ اس حدیث کے معنی سے اختلاف کرتے ہوے اس سے آمین بالجہر کے استدلال کو رد کرتے رہے ہو ، اللہ حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
میں نے اسی لیے پوچھا تھا کہ آپ عینک لگاتے ہیں؟
اتنی ساری پوسٹس؟؟؟
پتا نہیں آپ کاپی کرتے ہیں یا تحریر لیکن میں تو اپنے وقت کے مطابق ہی جواب دے سکوں گا۔
آپ صبر کے ساتھ پڑھتے رہیئے گا۔
کیا آپ ان کا طرز استدلال بتا سکتے ہیں؟ آخر انہوں نے یہ استدلال کیوں کیا؟
ورنہ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے احناف اس سے یہ استدلال نہیں کر رہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے یہ بات ثابت نہیں ہو رہی جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا ہے۔
اب اگر اس کے مقابلے میں آپ ان ائمہ کے استدلالات بغیر دلیل کے لگا دیتے ہیں تو پھر تقلید کس بلا کا نام ہے؟
میرے محترم بھائی انہوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے اپنے اجتہاد کی بنا پر یا اپنے مسلک کی موافقت میں۔ میں ان کے مسلک پر ہوں نہیں اور ان کے اجتہاد کے مقابلے میں احناف کا اجتہاد زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ حدیث کے الفاظ کے مطابق بھی ہے، تطبیق کے موافق بھی اور دیگر دلائل کے مطابق بھی۔ (جن کا ذکر شاید بعد میں آئے)۔
آپ کس وجہ سے قبول کر رہے ہیں؟؟؟
میں نے دہرا مفہوم نہیں اخذ کیا محترم میں نے عرض کیا ہے کہ دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں، حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ اس کا مطلب دہرا مفہوم اخذ کرنا ہوتا ہے؟
یہ تو تھا اصولی جواب۔ اب ذرا آگے دیکھیئے۔ (یہ اضافی جواب ہے)
آپ نے آٹھ محدثین کا ذکر کیا جنہوں نے اس سے جہر پر استدلال کیا ہے۔ بیہقی کی دو کتابیں لکھی ہیں۔ خطابی اور ابن بطال نے شرح کی ہے اور وہ بھی اپنے مسلک اور فقہ کے مطابق۔ (ظاہر ہے مجھے ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں)
میں نے صرف شاملہ میں سرچ کیا تو علم ہوا کہ اس حدیث کی تخریج ان محدثین نے بھی کی ہے اور انہوں نے اس سے جہر پر استدلال نہیں کیا۔ کسی نے فضل تامین کا باب باندھا ہے اور کسی نے صرف تامین خلف الامام کا۔
مسند الشافعی (محمد بن ادریس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک (مالک بن انس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک بروایۃ محمد (محمد بن الحسن الشیبانی احد صاحبی ابی حنیفۃ) (موطا محمد کو الگ سے کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے اس لیے اس کا ذکر الگ سے کیا ہے)
سنن ابی داؤد (تامین وراء الامام)
منتقی لابن جارود (قراءۃ وراء الامام)
مستدرک حاکم (التامین)
سنن الترمذی (فضل التامین)
صحیح مسلم (باب فضل قول المأموم آمين)
شرح السنۃ للبغوی (محیی السنۃ حسین بن مسعود الفرا۔ باب فضل التامین)
علامہ بغوی نے اس سے پہلے جہر بالتامین کا باب بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
یہ نو ہو گئے۔
اب کیا کریں؟
اگر آپ کو جہر امام پر دلیل نہیں پتا تو میں بتا دیتا ہوں محترم بھائی۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحة آية 7) ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". مسند أبي داود الطيالسي
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے اگر نبی ﷺ نے دل میں آمین فرمایا تھا تو انہوں نے کیسے سنا؟ تو پتا چلا کہ آپ نے زبان سے آمین فرمایا تھا۔
البتہ اس سے اتنی آواز نہیں ثابت ہوتی جتنی آپ لوگبیان کرتے ہیں کیوں کہ آگے خفض کا بھی ذکر ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس اثر سے اشماریہ صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ آمین صرف ایک بار ثابت ہوتی ہے حالاں کہ یہاں کان مضارع پر داخل ہوا ہے اور وہ استمرار کا معنی دیتا ہے الا کوئی قرینہ صارف آجائے ، تو ثابت ہوا کہ عبد اللہ بن زبیر کا ہمیشگی والا طریقہ تھا
جواب دے دیا گیا ہے۔

عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلاَةً فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أُقِرَّتِ الصَّلاَةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ قَالَ فَلَمَّا قَضَى أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الصَّلاَةَ وَ سَلَّمَ ، انْصَرَفَ فَقَالَ أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَ كَذَا ؟ قَالَ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ ثُمَّ قَالَ أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَ كَذَا ؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا قَالَ مَا قُلْتُهَا وَ لَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَنَا قُلْتُهَا وَ لَمْ أُرِدْ بِهَا إِلاَّ الْخَيْرَ فَقَالَ أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلاَتِكُمْ ؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَ عَلَّمَنَا صَلاَتَنَا فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَ إِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لاَ الضَّآلِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمُ اللَّهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَ رَكَعَ فَكَبِّرُوا وَ ارْكَعُوا فَإِنَّ الإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَ يَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَ إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَ إِذَا كَبَّرَ وَ سَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَ يَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَ إِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمُ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاََّ اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ
"صحیح مسلم"
جزاک اللہ خیرا
پہلے عرض کیا ہے کہ اس سے جہرا آمین ثابت نہیں ہوتی اگرچہ کچھ علماء نے یہ استدلال کیا ہے۔ لیکن بغیر کسی دلیل کے یہ استدلال کمزور ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں نے اشماریہ صاحب سے آمین کے بارے ایک صحیح حدیث کا مطالبہ کیا تھا لیکں اب تک ان کی طرف سے ضعیف حدیث موصول نہیں ہوئی، دوبارہ پھر مطالبہ کیے دیتے ہیں ،شاید تقلیدی جزبے میں جوش آجائے
البینۃ علی۔۔۔۔۔۔۔؟

ویسے اس بحث کی پہلی روایت پڑھ لیجیے۔ شاید تحقیقی جذبے میں جوش آ جائے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
البینۃ علی۔۔۔۔۔۔۔؟

ویسے اس بحث کی پہلی روایت پڑھ لیجیے۔ شاید تحقیقی جذبے میں جوش آ جائے۔
جناب اشماریہ صاحب ہر چیز اپنی اصل پر ہوتی ہے اور اصل یہ ہے کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہوتا ہے، اس لیے آمین بھی ظاہری آواز میں کہے گا، یہاں آپ نے دعوی یہ کیا ہے کہ امام قراءت تو بلند آواز سے کرے گا ،لیکن آمین کی آواز نہیں آنی چاہیے ، اس لیے دلیل آپ کے ذمے ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
عبد الرزاق عن ابن جریج
ان کا نام ہے عبد الملک بن عبد العزيز بن جريج۔ یہ مدلس ہیں اور یہاں عن کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ دار قطنی کہتے ہیں: شر التدليس تدليس بن جريج فإنه قبيح التدليس لا يدلس الا فيما سمعه من مجروح (طبقات المدلسین) (موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی)
"بدترین تدلیس ابن جریج کی تدلیس ہے کیوں کہ قبیح تدلیس ہے۔ یہ صرف انہی سے تدلیس کرتے ہیں جن سے انہوں نے سنا ہو اور وہ مجروح ہو۔"
نسائی نے بھی انہیں مدلسین میں ذکر کیا ہے۔
مجھے اندازہ ہو چکا ہے آپ صرف احادیث کی تاویل میں ماہر ہیں، اصول حدیث میں بالکل کورے ہیں، اگر اس عبارت کو غور سے پڑھیں تو ابن جریج نے اپنے سماع کی تصریح کی ہے، لیکن آنکھیں اگر بند ہوں تو دن بھی رات بھلا اس میں قصور کیا ہے آفتاب کا ، ایک بار دوبارہ زحمت فرما لیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو پوچھنے کا کشٹ کر لینا میں بتا دوں گا سماع کی تصریح کہاں ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مجھے اندازہ ہو چکا ہے آپ صرف احادیث کی تاویل میں ماہر ہیں، اصول حدیث میں بالکل کورے ہیں، اگر اس عبارت کو غور سے پڑھیں تو ابن جریج نے اپنے سماع کی تصریح کی ہے، لیکن آنکھیں اگر بند ہوں تو دن بھی رات بھلا اس میں قصور کیا ہے آفتاب کا ، ایک بار دوبارہ زحمت فرما لیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو پوچھنے کا کشٹ کر لینا میں بتا دوں گا سماع کی تصریح کہاں ہے؟
جزاک اللہ خیرا۔
آپ کے الفاظ نے مجھے تکلیف دی۔ میرے تو عینک کے بولنے کو آپ نے طعنہ گردانا تھا۔
آپ کی بات درست ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جناب اشماریہ صاحب ہر چیز اپنی اصل پر ہوتی ہے اور اصل یہ ہے کہ امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہوتا ہے، اس لیے آمین بھی ظاہری آواز میں کہے گا، یہاں آپ نے دعوی یہ کیا ہے کہ امام قراءت تو بلند آواز سے کرے گا ،لیکن آمین کی آواز نہیں آنی چاہیے ، اس لیے دلیل آپ کے ذمے ہے
ہر چیز اپنی اصل پر ہوتی ہے۔ یہ آپ نے فرمایا۔
جو روایت آپ نے دی اسی میں عطا فرماتے ہیں کہ آمین دعا ہے۔
اور دعا میں اصل یہ ہے کہ "ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ"۔
جو شخص خلاف اصل ہو وہ مدعی ہوتا ہے۔
آپ کا مکمل دعوی ہے کہ امام اور مقتدی آواز سے آمین کہیں گے۔ اور یہ صرف انہی نمازوں میں ہوگا جن میں جہری قراءت ہوتی ہے اور ان میں بھی انہی رکعتوں میں جن میں امام آواز سے قراءت کرتا ہے۔
اس پر دلیل عنایت فرمائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مجھے اندازہ ہو چکا ہے آپ صرف احادیث کی تاویل میں ماہر ہیں، اصول حدیث میں بالکل کورے ہیں، اگر اس عبارت کو غور سے پڑھیں تو ابن جریج نے اپنے سماع کی تصریح کی ہے، لیکن آنکھیں اگر بند ہوں تو دن بھی رات بھلا اس میں قصور کیا ہے آفتاب کا ، ایک بار دوبارہ زحمت فرما لیں اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو پوچھنے کا کشٹ کر لینا میں بتا دوں گا سماع کی تصریح کہاں ہے؟
محترم حافظ بھائی۔ جس چیز کو آپ بآسانی تاویل فرماتے ہیں وہی بسا اوقات تحقیق ہوتی ہے۔ تحقیق حدیث یہ نہیں ہوتی کہ کسی حدیث کو اس کے اصل ماخذ میں دیکھ لیں اور اس کے ظاہری ترجمہ کو ہی سب کچھ مان لیں۔ ٹھیک ہے کہ یہ بھی درست ہے لیکن اگر اس روایت کی دیگر روایات سے تطبیق کی جائے، اس کے الفاظ کا اصل معنی تلاش کیا جائے یا یہ دیکھا جائے کہ اس روایت کے ہوتے ہوئے علماء امت کے ایک طبقہ نے اس کے ظاہر کے خلاف فتوی کیوں دیا تو یہ تحقیق حدیث ہوتی ہے۔ تاویل کا جو معنی آپ حضرات لیتے ہیں وہ اکثر درست ہی نہیں ہوتا۔ یہ تاویل اردو والی نہیں عربی والی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس تاویل کو اپنے اصل معنی میں دیکھنا چاہیں تو تفسیر طبری میں دیکھیے جہاں ابو جعفر طبری رح ہر تفسیر کو تاویل کہتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب تاویل مذمومہ ہوتی ہے؟
یہ سلف سے چلتا آرہا ہے کہ ایک شخص کسی روایت میں کوئی کلام کرتا ہے اور دوسرا اس کا رد کرتا ہے لیکن آپ جیسے الفاظ بہت کم استعمال ہوتے ہیں۔ اگر میں یہ استعمال کرنا شروع کر دوں تو آپ کی روایات پر میری جرح خطرناک ہو جائے گی، ایک طبقہ خوش بھی ہوگا لیکن پھر آپ میں اور مجھ میں فرق کیا ہوگا؟

اس روایت کی سند جیسے آپ نے بیان فرمائی درست ہے۔ اب اس کےمتن کا جائزہ لیتے ہیں:۔
اس کا متن یہ ہے:۔
عن ابن جريج، عن عطاء قال: قلت له: أكان ابن الزبير يؤمن على إثر أم القرآن؟ قال: «نعم، ويؤمن من وراءه حتى أن للمسجد للجة»، ثم قال: إنما آمين دعاء
"ابن جریج عطاء سے روایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے انہیں کہا: کیا ابن زبیر فاتحہ کے بعد آمین کہتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، اور جو ان کے پیچھے ہوتے وہ بھی کہتے حتی کہ مسجد میں ایک گونج سی ہو جاتی۔ پھر کہا: آمین تو دعا ہے۔"
یہاں استدلال لفظ لجۃ سے ہے۔ اس کے معنی یوں کیے جاتے ہیں کہ "مسجد گونج اٹھی۔" حالاں کہ اردو میں یہ ترجمہ جو معانی سمجھا رہا ہے وہ عربی لفظ لجۃ کے نہیں ہیں۔ یہ اردو میں عام ہے کہ جو معنی عربی الفاظ کے ہوتے ہیں اردو ترجمہ وہ مکمل ادا نہیں کر سکتا۔
لجۃ کا اصل معنی ہے آوازوں کا ایک دوسرے سے مختلط ہوجانا، مل جانا، گڈمڈ ہوجانا۔ ایک نارمل آواز میں جو ایک یا دو فرد سن سکتے ہوں اگر بہت سے لوگ بول اٹھیں تو ان کی آوازیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔ لجۃ کا مکمل معنی اصوات سے کیا گیا ہے یعنی آوازیں۔
تاج العروس میں ہے:۔
و في حديث عكرمة: سمعت لهم لجة بآمين يعني أصوات المصلين.
"حدیث عکرمہ میں ہے میں نے ان کی آمین کی "لجۃ" سنی یعنی نماز پڑھنے والوں کی آوازیں۔"
لسان العرب میں ہے:۔
ولجة القوم: أصواتهم. واللجة واللجلجة: اختلاط الأصوات. ۔۔۔۔ وفي حديث عكرمة: سمعت لهم لجة بآمين، يعني أصوات المصلين.
گونج اٹھنے کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ القاموس الجدید اردو۔عربی میں اس کے لیے الفاظ استعمال ہوئے ہیں:۔
دوّی المکان و دوی، ضج المکان بہتافات، تجاوبت الصدی
تجاوب ، جواب سے باب تفاعل ہے یعنی آپ نے آواز دی اور وہ آواز دیواروں وغیرہ سے ٹکرا کر واپس آئے۔ دیواریں یا پہاڑیاں آپ کی بات کا جواب دیں۔
ضجۃ گونج کے لیے اصل لفظ ہے۔ اس کا معنی معجم الوسیط میں مذکور ہے:۔
(الضجة) الجلبة والصياح
جلبہ کے معنی بھی آوازوں کے ہیں اور صیاح کے معنی تیز آواز، چیخ کے ہیں۔ لغت میں تفسیر بالاعم کی جاتی ہے۔ دونوں کو ملا کر ہم ترجمہ کریں تو اردو میں گونج کا ترجمہ بنتا ہے۔
تاج العروس میں لجۃ کے معنی میں بھی ضجۃ کا لفظ لکھا گیا لیکن یہ بھی تفسیر بالاعم ہے۔ کیوں کہ اس کا عمومی ترجمہ اصوات اور اختلاط اصوات سے ہی کیا گیا ہے۔ جیسے اوپر واضح کیا گیا ہے۔
مقاییس اللغہ میں ہے:۔
واللجة: الجلبة.
اور جلب کا معنی تاج العروس میں ہے:۔
(و) الجلب: الأصوات، وقيل (اختلاط الصوت كالجلبة)
معجم الوسیط میں ہے:۔
(اللجة) اخْتِلَاط الْأَصْوَات وَيُقَال سَمِعت لجة النَّاس أَصْوَاتهم وصخبهم والجلبة
تو ان سب لغات سے معلوم ہوتا ہے کہ لجۃ کا معنی گونج اٹھنا کرنا ،مکمل معنی نہیں۔ اور نہ ہی لجۃ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب مل کر آاااامی ی ی ی ن کہتے ہوں گے۔ بلکہ اس سے سب میں ایک اٹھتی ہوئی آواز ثابت ہوتی ہے جو سب کے ہلکی یا نارمل آواز سے آمین کہنے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے لیے اتنے زور سے کہنا ضروری نہیں۔
اخفاء بالکل کرنا یعنی آواز ہی نہ آئے یہ اخفاء کا اعلی درجہ ہے اور اس قدر کے قریب والوں کو آواز آجائے یہ اخفاء کا ادنی درجہ ہے۔ تو ان حضرات کا اس طرح آمین کہنا اخفاء سے خارج نہیں ہوتا۔ ممکن ہے بیچ میں چند عام افراد زور سے بھی کہہ دیتے ہوں اور چوں کہ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اس لیے ابن زبیر رض نے نکیر نہیں فرمائی ہو۔

پھر اگر ہم اس روایت سے جہر کا ثبوت مان بھی لیں تو اس کے مقابلے میں قوی دلائل ایسے ہیں جو خفا پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے آیت مبارکہ "ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ" جب کہ اسی روایت میں عطا کا یہ قول ہے کہ آمین تو دعا ہے۔ تو اگر احناف ایک جانب کے دلائل کو راجح جان کر ان کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟؟
دوسری بات یہ کہ اس قسم کی روایات سے ایک صحابی کا اجتہاد ثابت ہوتا ہے ۔ اور اجتہادی مسائل میں جب دوسرے مجتہد کے پاس بھی دلائل ہوں تو اس پر کسی اور کا اجتہاد حجت نہیں ہوتا۔ ابراہیم نخعیؒ مشہور تابعی اور فقیہ و محدث ہیں۔ ان کی تعریف ذہبی یوں کرتے ہیں:۔
وكان بصيرا بعلم ابن مسعود، واسع الرواية، فقيه النفس، كبير الشأن، كثير المحاسن - رحمه الله تعالى -.
علم ابن مسعود رض کے ان حامل کا فتوی یہ ہے:۔
عن الثوري، عن منصور، عن إبراهيم قال: " خمس يخفين: سبحانك اللهم وبحمدك، والتعوذ، وبسم الله الرحمن الرحيم، وآمين، واللهم ربنا لك الحمد "
مصنف عبد الرزاق 2۔87 مجلس العلمی
"ابراہیم کہتے ہیں: پانچ چیزیں امام پوشیدہ ادا کرے گا: سبحانک اللہم، تعوذ، تسمیہ، آمین اور اللہم ربنا لک الحمد۔"

تو اب ہمارے پاس اس بحث کا خلاصہ یہ جمع ہوا:۔
1۔ لجۃ سے صرف ہلکی آواز ثابت ہوتی ہے۔ مطلوبہ آمین پر مزید دلائل چاہیے ہوں گے۔
2۔ اس کے مقابلے میں قوی دلائل موجود ہیں۔
3۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے اور اس کے مخالف اجتہاد بھی موجود ہے۔

مجھے قوی امید ہے کہ اب آپ اس کو تاویل نہیں کہیں گے اور جواب دیتے وقت لہجہ بھی شائستہ رکھیں گے۔ آپ میری بات کا بالدلیل جو رد کریں گے اس سےمیں خوشی محسوس کروں گا۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
جو روایت آپ نے دی اسی میں عطا فرماتے ہیں کہ آمین دعا ہے۔
اور دعا میں اصل یہ ہے کہ "ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ"۔
یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے اور وہ ہم سب سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے تھے ،
یہ بات یہاں تک صحیح ہے کہ عمومی طور پر دعا اور اذکار عاجزی اور خفیہ طریقے سے کرنی چاہیئے ، لیکن جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہر ثابت ہوگا ، وہاں پر جہر ہی ہوگا ، نہ کہ عمومات پر استدلال ۔ خوب سمجھ لو ۔

دوسری تیسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں تعوذ کیوں نہیں پڑھتے ، حالانکہ قرآن میں ہے کہ " فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (98) نحل ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے اور وہ ہم سب سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے تھے ،
یہ بات یہاں تک صحیح ہے کہ عمومی طور پر دعا اور اذکار عاجزی اور خفیہ طریقے سے کرنی چاہیئے ، لیکن جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہر ثابت ہوگا ، وہاں پر جہر ہی ہوگا ، نہ کہ عمومات پر استدلال ۔ خوب سمجھ لو ۔

دوسری تیسری اور چوتھی رکعت کے شروع میں تعوذ کیوں نہیں پڑھتے ، حالانکہ قرآن میں ہے کہ " فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (98) نحل ۔
بالکل سمجھ گیا۔
اب آپ نبی ﷺ سے غیر معارض صحیح صریح جہر کا حکم ثابت کیجیے۔
 
Top