• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حرم مکی میں جاؤں گا تو ان شاء اللہ ایسے ہی آمین کہوں گا۔ ٹھیک ہے؟
نہیں ! میرے کہنے مقصد ہے کہ یہاں پاکستان میں آپ کی مسجد سے آمین کی ایسی آواز آئے کہ مسجد گونج اٹھے، اور ایک بار آپ کا عمل ثابت ہو جائے،حرم مکی تو پہلے ہی آمین کی آواز سے ہر روز گونجتا ہے ، وہاں آپ کی آمین قطعا ضرورت نہیں ہے، اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو وہاں کرو جہاں پہلے اس پر پابندی لگی ہوئی اور اس کی گمراہی سمجھا جاتا ہے ، اور میرا دعوی ہے کہ تم اپنی مسجد ہر گز یہ کام نہیں کر سکتے ہو کیوں کہ حنفی لوگ تمہیں پاگل کہیں گے اور تمہیں غیر مقلد کا طعنہ بھی سننا پڑے گا اور ہو سکتا ہے زد و کوب تک نوبت پہنچ جائے کیوں کہ تقلید میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو برداشت کر سکے پھر بھی ہم آپ کے لیے دعا گوہ ہیں کہ اللہ آپ کو اس کی توفیق سے نوازے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
حنفیوں کی عجیب(تدوین) منطق ہے۔
جب میں نیا نیا اہلحدیث ہوا تو مجھے حنفی مدرسے میں لے جایا گیا، تاکہ دوبارہ سے حنفی بنایا جائے، اللہ نے اپنے بندے کو بچا لیا ان گمراہوں سے، اور حق پر استقامت عطا فرمائی اور وہ بھی کم عمری میں۔

حنفی مولوی نے کہا: جناب رفع الیدین منسوخ ہے۔
تھوڑی دیر بعد کہتا ہے : ہم سعودیہ جائیں گے تو وہاں کریں گے۔

میں نے کہا: مولوی صاحب یہ کون سی بات ہے؟ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو پھر سعودیہ، دبئی، امریکہ، انگلینڈ، پاکستان ہر جگہ رفع الیدین منسوخ ہونا چاہئے، آپ یہاں نہیں کریں گے وہاں کریں گے، اور اگر وہاں کرنا ہے تو یہاں کرنے سے کیا ہوتا ہے؟

تو اس بات کا مولوی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے دین کو گھر کی میراث سمجھ رکھا ہے، جیسے امام شافعی کے بارے میں ایک بات گھڑ رکھی ہے کہ جو ابوحنیفہ کے پاس جاتے تو رفع الیدین نہیں کرتے اور اپنے ہاں رفع الیدین کرتے۔

ہم متبع سنت لوگوں سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی کہ یہاں کریں گے وہاں نہیں کریں گے، وہاں کریں گے یہاں نہیں کریں گے، ہم بس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا جانتے ہیں۔ الحمدللہ

 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حنفیوں کی عجیب (تدوین) منطق ہے۔
جب میں نیا نیا اہلحدیث ہوا تو مجھے حنفی مدرسے میں لے جایا گیا، تاکہ دوبارہ سے حنفی بنایا جائے، اللہ نے اپنے بندے کو بچا لیا ان گمراہوں سے، اور حق پر استقامت عطا فرمائی اور وہ بھی کم عمری میں۔

حنفی مولوی نے کہا: جناب رفع الیدین منسوخ ہے۔
تھوڑی دیر بعد کہتا ہے : ہم سعودیہ جائیں گے تو وہاں کریں گے۔
اشماریہ صاحب سعودیہ پتہ نہیں جانا ہو یا نہ ہو، پاکستان میں ہی اس پر عمل کر لو
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ٌجناب ہمیں آپ نے کہاں دیکھ لیا ہے جو عینک طعنے برسنے شروع ہو گئے ہیں؟
لگتا ہے فیس بک پر دیکھ لیا ہے ، چلو ہمیں یہ شرف تو حاصل ہو گیا کہ جناب کی نظر ہم پر بھی پڑ گئی، لیکن یہ آپ کو نظر آیا کہ وہ کالی ہے، یعنی شوقیہ ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اشماریہ بھائی کوئی حقیقت سے لگتی بات کریں مذکورہ حدیث سے محدثین آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے، یہ تقلید کے کرشمے ہیں کہ حدیث میں معنوی تحریف کرتے ہوے آپ کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا ، اس حدیث کا جو معنی محدیثین نے مراد لیا ہے، وہ یہی ہے کہ امام اور مقتدی بلند آواز سے آمین کہیں گے:
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اتنے واضح دلائل کے باوجود بھی یہی رٹ لگائے رکھنا کہ اس حدیث میں آمین بالجہر کا کہیں ذکر نہیں سوائے جہالت کے کچھ بھی نہیں ہے، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حدیث کو جہر اور خفا دونوں ثابت ہو رہے ، میری اشماریہ بھائی سے گزارش ہے یہ دہرا مفہوم کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ حدیث کے کس لفظ میں اس کی وضاحت موجود ہے؟
مجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اس حدیث کے معنی کو تسلیم کر لیا ہے، یہ واحد پوسٹ ہے جس کا جناب جواب نہیں دیا ہے، مجھے حسن ظن ہے کہ ان تمام محدثین کے استدلال سے آپ کو اتفاق ہے، ورنہ پہلے آپ اس حدیث کے معنی سے اختلاف کرتے ہوے اس سے آمین بالجہر کے استدلال کو رد کرتے رہے ہو ، اللہ حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس کی سند درج ذیل ہے:عَنِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , قَالَ : قُلْتُ لَهُ : أَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يُؤَمِّنُ عَلَى إِثْرِ أُمِّ الْقُرْآنِ ؟ , قَالَ : " نَعَمْ , وَيُؤَمِّنُ مَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى أَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً , ثُمَّ قَالَ : إِنَّمَا آمِينَ دُعَاءٌ (مصنف عبد الرزاق : رقم الحدیث: 2552
اس اثر سے اشماریہ صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ آمین صرف ایک بار ثابت ہوتی ہے حالاں کہ یہاں کان مضارع پر داخل ہوا ہے اور وہ استمرار کا معنی دیتا ہے الا کوئی قرینہ صارف آجائے ، تو ثابت ہوا کہ عبد اللہ بن زبیر کا ہمیشگی والا طریقہ تھا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شاید آپ کو علم نہیں ہے کہ اہل حدیث تسمیع اور تحمید دونوں کے قائل ہیں، اور ایسے حالات میں امام کی آواز نہ سننے والا مقتدی مکبر کی آواز کو سن کر اگلے رکن میں داخل ہوتا ہے، یعنی پیچھے والے مقتدی مکبر کی آواز سنے بغیر کچھ نہیں کرتے، گویا مکبر ان کے لیے امام بن جاتا ہے، یہ تو تھا آپ کی اوپر والی بات کا جواب اور کچھ مزید ہماری بھی فرمائش ہے
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس معاملے میں یہود اور احناف مشترک ہیں، مجھے بتاؤ کہ وہ کونسی آمین تھی جس سے یہود کو حسد تھا، کیا نماز والی آمین تھی یا کہ نماز کے علاوہ تھی
کیا احناف پاس کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس میں آمین بغیر آواز کے کہنے کا ذکر ہو اور اس میں کسی قسم کا ضعف بھی نہ ہو صرف ایک حدیث دکھا دو
میں نے اشماریہ صاحب سے آمین کے بارے ایک صحیح حدیث کا مطالبہ کیا تھا لیکں اب تک ان کی طرف سے ضعیف حدیث موصول نہیں ہوئی، دوبارہ پھر مطالبہ کیے دیتے ہیں ،شاید تقلیدی جزبے میں جوش آجائے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلاَةً فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أُقِرَّتِ الصَّلاَةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ قَالَ فَلَمَّا قَضَى أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الصَّلاَةَ وَ سَلَّمَ ، انْصَرَفَ فَقَالَ أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَ كَذَا ؟ قَالَ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ ثُمَّ قَالَ أَيُّكُمُ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَ كَذَا ؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ فَقَالَ لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا قَالَ مَا قُلْتُهَا وَ لَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْكَعَنِي بِهَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ أَنَا قُلْتُهَا وَ لَمْ أُرِدْ بِهَا إِلاَّ الْخَيْرَ فَقَالَ أَبُو مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا تَعْلَمُونَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي صَلاَتِكُمْ ؟ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَ عَلَّمَنَا صَلاَتَنَا فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَ إِذَا قَالَ { غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَ لاَ الضَّآلِّينَ } فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمُ اللَّهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَ رَكَعَ فَكَبِّرُوا وَ ارْكَعُوا فَإِنَّ الإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ وَ يَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَ إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَ إِذَا كَبَّرَ وَ سَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَ يَرْفَعُ قَبْلَكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِصلی اللہ علیہ وسلم فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَ إِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمُ التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاََّ اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ
"صحیح مسلم"
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
میں نے اشماریہ صاحب سے آمین کے بارے ایک صحیح حدیث کا مطالبہ کیا تھا لیکں اب تک ان کی طرف سے ضعیف حدیث موصول نہیں ہوئی، دوبارہ پھر مطالبہ کیے دیتے ہیں ،شاید تقلیدی جزبے میں جوش آجائے
میں نے کہا تھا صبر کر جائیں۔
میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوں۔
ابھی میرے جوابات صبر سے پڑھتے جائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس کی سند درج ذیل ہے:عَنِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ عَطَاءٍ , قَالَ : قُلْتُ لَهُ : أَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يُؤَمِّنُ عَلَى إِثْرِ أُمِّ الْقُرْآنِ ؟ , قَالَ : " نَعَمْ , وَيُؤَمِّنُ مَنْ وَرَاءَهُ حَتَّى أَنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً , ثُمَّ قَالَ : إِنَّمَا آمِينَ دُعَاءٌ (مصنف عبد الرزاق : رقم الحدیث: 2552
عبد الرزاق عن ابن جریج
ان کا نام ہے عبد الملک بن عبد العزيز بن جريج۔ یہ مدلس ہیں اور یہاں عن کے ساتھ روایت کر رہے ہیں۔ دار قطنی کہتے ہیں: شر التدليس تدليس بن جريج فإنه قبيح التدليس لا يدلس الا فيما سمعه من مجروح (طبقات المدلسین) (موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی)
"بدترین تدلیس ابن جریج کی تدلیس ہے کیوں کہ قبیح تدلیس ہے۔ یہ صرف انہی سے تدلیس کرتے ہیں جن سے انہوں نے سنا ہو اور وہ مجروح ہو۔"
نسائی نے بھی انہیں مدلسین میں ذکر کیا ہے۔
امید ہے اب آپ کا ایک بار مسجد گونجنے والا اعتراض ختم ہوگیا ہوگا۔

سیدنا ابو ہریرہ اور جہری آمین
آمین کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ مروان بن حکم اور سیدنا ابو ہریرہ آمین کی تاخیر و تقدیم میں ایک دوسرے کو تلقین کیا کرتے تھے:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ الْقَطَّانُ بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا أَبُو سَهْلِ بْنُ زِيَادٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَاضِى حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِى رَافِعٍ‏:‏ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يُؤَذِّنُ لِمَرَوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، فَاشْتَرَطَ أَنْ لاَ يَسْبِقَهُ بِالضَّالِّينَ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ دَخَلَ الصَّفَ، فَكَانَ إِذَا قَالَ مَرْوَانُ ‏(‏وَلاَ الضَّالِّينَ‏)‏ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ‏:‏ آمِينَ‏.‏ يَمُدُّ بِهَا صَوْتَهُ وَقَالَ‏:‏ إِذَا وَافَقَ تَأْمِينُ أَهْلِ الأَرْضِ تَأْمِينَ أَهْلِ السَّمَاءِ غُفِرَ لَهُمْ‏.‏[/arb


حافظ بھائی اس کا کوئی حوالہ؟

مندرے ذیل اثر کے بارے جناب اشماریہ جی کا تبصرہ تھا کہ اس سے ایک بار آمین ثابت ہوتی ہے، حالاں کہ یہاں مضارع پر لفظ کنت داخل ہوا ہے:
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ وَأَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِى عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ‏:‏ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَخْبَرَنَا الشَّافِعِىُّ أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ قَالَ‏:‏ كُنْتُ أَسْمَعُ الأَئِمَّةَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَمَنْ بَعْدَهُ يَقُولُونَ آمِينَ وَمَنْ خَلْفَهُمْ آمِينَ حَتَّى إِنَّ لِلْمَسْجِدِ لَلَجَّةً‏.‏
احناف کے لیے امام کا قول ہی دلیل ہے اور امام کے قول کے سامنے حدیث صحیح کو سائیڈ سے لگا دیتے ہیں، اللہ ان کو ہدایت سے نوازے ،اگر یہ لوگ آہستہ آواز سے آمین اس لیے کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اس طرح کہی ہے تو یہ بہت بڑی گمراہی ہے
مندرجہ بالا اثر جو حافظ جی نے پیش فرمایا تھا، اس کی سند میں ابن جریج ہے جس کے بارے میں میں لکھ چکا ہوں۔
مزید معلومات کے لیے عرض کرتا ہوں کہ کان جو استمرار کا معنی دیتا ہے یہ ترجمہ کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے مجلس علماء میں لکھا تھا:۔

عربی گرامر کا یہ قاعدہ ترجمہ کے اعتبار سے ہے۔
یعنی ترجمہ یوں ہوگا: وہ فلاں کام "کرتے تھے"۔ لیکن ترجمہ اور دلالت میں بسا اوقات فرق ہوتا ہے۔
اس بات کو علامہ نوویؒ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:۔
قلت الصواب أن هاتين الركعتين فعلهما صلى الله عليه وسلم بعد الوتر جالسا لبيان جواز الصلاة بعد الوتر وبيان جواز النفل جالسا ولم يواظب على ذلك بل فعله مرة أو مرتين أو مرات قليلة ولا تغتر بقولها كان يصلي فإن المختار الذي عليه الأكثرون والمحققون من الأصوليين أن لفظة كان لا يلزم منها الدوام ولا التكرار وإنما هي فعل ماض يدل على وقوعه مرة فإن دل دليل على التكرار عمل به وإلا فلا تقتضيه بوضعها وقد قالت عائشة رضي الله عنها كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم لحله قبل أن يطوف ومعلوم أنه صلى الله عليه وسلم لم يحج بعد أن صحبته عائشة إلا حجة واحدة وهي حجة الوداع فاستعملت كان في مرة واحدة ولا يقال لعلها طيبته في إحرامه بعمرة لأن المعتمر لا يحل له الطيب قبل الطواف بالإجماع فثبت أنها استعملت كان في مرة واحدة كما قاله الأصوليون
6۔21 دار احیاء التراث


لہذا "کان" سے یہ مراد لینا کہ یہ کام ہمیشہ ہوا درست نہیں الا یہ کہ کوئی قرینہ اس پر دلالت کرے۔
اس کی بہت ساری مثالیں ہیں جہاں احادیث میں ماضی استمراری ہے لیکن استمرار کا معنی لینا درست نہیں۔ ایک مثال نووی نے اسی اقتباس میں دی ہے۔
ہم اردو میں بھی کہتے ہیں۔ جب کسی کے والد فوت ہو جائیں اور کوئی ملنے جائے تو کمرے میں بٹھا کر اکثر کہا جاتا ہے: والد صاحب اس کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔
حالاں کہ وہ ہمیشہ اس کمرے میں نہیں بیٹھے ہوتے بلکہ بسا اوقات تو ایک یا دو بار صرف بیٹھے ہوتے ہیں لیکن یہ جملہ عقلا و استعمالا درست رہتا ہے۔
فقط واللہ اعلم
اس اقتباس کے ضروری حصے کا ترجمہ کردیتا ہوں:۔
"آپ کو ان کے قول کان یصلی سے دھوکہ نہ لگے کیوں کہ مختار قول جس پر اصولیین میں سے اکثر اور محققین ہیں کہ کان کے لفظ سے نہ دوام لازم آتا ہے نہ تکرار۔ یہ فعل ماضی ہے جو ایک مرتبہ وقوع پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اگر تکرار پر کوئی دلیل ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا وگرنہ یہ اپنی وضع میں اس پر دلالت نہیں کرتا۔"

تو امید ہے کہ اب آپ کان کو دوام کے لیے بھی پیش نہیں کریں گے اور مجھ سے ایک بار زور سے آمین کہنے کا بھی مطالبہ نہیں فرمائیں گے۔
حافظ صاحب بار بار تقلید اور امام کے قول کا بار بار کہنا چھوڑ دیں۔ دلیل دے سکتے ہیں تو دیجیے تا کہ میں اس پر عمل کر سکوں۔ میں بھی دلائل سے بات کر رہا ہوں۔
شکریہ
 
Top