اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
نہیں ! میرے کہنے مقصد ہے کہ یہاں پاکستان میں آپ کی مسجد سے آمین کی ایسی آواز آئے کہ مسجد گونج اٹھے، اور ایک بار آپ کا عمل ثابت ہو جائے،حرم مکی تو پہلے ہی آمین کی آواز سے ہر روز گونجتا ہے ، وہاں آپ کی آمین قطعا ضرورت نہیں ہے، اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو وہاں کرو جہاں پہلے اس پر پابندی لگی ہوئی اور اس کی گمراہی سمجھا جاتا ہے ، اور میرا دعوی ہے کہ تم اپنی مسجد ہر گز یہ کام نہیں کر سکتے ہو کیوں کہ حنفی لوگ تمہیں پاگل کہیں گے اور تمہیں غیر مقلد کا طعنہ بھی سننا پڑے گا اور ہو سکتا ہے زد و کوب تک نوبت پہنچ جائے کیوں کہ تقلید میں اتنا ظرف نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کو برداشت کر سکے پھر بھی ہم آپ کے لیے دعا گوہ ہیں کہ اللہ آپ کو اس کی توفیق سے نوازے آمین
حنفیوں کی عجیب(تدوین) منطق ہے۔
جب میں نیا نیا اہلحدیث ہوا تو مجھے حنفی مدرسے میں لے جایا گیا، تاکہ دوبارہ سے حنفی بنایا جائے، اللہ نے اپنے بندے کو بچا لیا ان گمراہوں سے، اور حق پر استقامت عطا فرمائی اور وہ بھی کم عمری میں۔
حنفی مولوی نے کہا: جناب رفع الیدین منسوخ ہے۔
تھوڑی دیر بعد کہتا ہے : ہم سعودیہ جائیں گے تو وہاں کریں گے۔
میں نے کہا: مولوی صاحب یہ کون سی بات ہے؟ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو پھر سعودیہ، دبئی، امریکہ، انگلینڈ، پاکستان ہر جگہ رفع الیدین منسوخ ہونا چاہئے، آپ یہاں نہیں کریں گے وہاں کریں گے، اور اگر وہاں کرنا ہے تو یہاں کرنے سے کیا ہوتا ہے؟
تو اس بات کا مولوی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے دین کو گھر کی میراث سمجھ رکھا ہے، جیسے امام شافعی کے بارے میں ایک بات گھڑ رکھی ہے کہ جو ابوحنیفہ کے پاس جاتے تو رفع الیدین نہیں کرتے اور اپنے ہاں رفع الیدین کرتے۔
ہم متبع سنت لوگوں سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی کہ یہاں کریں گے وہاں نہیں کریں گے، وہاں کریں گے یہاں نہیں کریں گے، ہم بس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا جانتے ہیں۔ الحمدللہ
میں نے سوچا شاید آپ اس عجیب اعتراض کو وقتی طور پر موقوف کر دیں۔ اس لیے وہ عرض کیا تھا۔اشماریہ صاحب سعودیہ پتہ نہیں جانا ہو یا نہ ہو، پاکستان میں ہی اس پر عمل کر لو
لیکن آپ نے نہیں کیا تو مجھے سند پر تحقیق کرنی پڑ گئی۔ امید ہے اب دل خوش ہوگا۔
ویسے میں یہاں کراچی میں بھی کہہ سکتا ہوں۔
پتا نہیں یہ آپ خود کو شرف حاصل ہونے کا فرما رہے ہیں یا مجھے۔ میں فیس بک استعمال نہیں کرتا۔لگتا ہے فیس بک پر دیکھ لیا ہے ، چلو ہمیں یہ شرف تو حاصل ہو گیا کہ جناب کی نظر ہم پر بھی پڑ گئی، لیکن یہ آپ کو نظر آیا کہ وہ کالی ہے، یعنی شوقیہ ہے
آمینمجھے خوشی ہوئی ہے کہ آپ نے اس حدیث کے معنی کو تسلیم کر لیا ہے، یہ واحد پوسٹ ہے جس کا جناب جواب نہیں دیا ہے، مجھے حسن ظن ہے کہ ان تمام محدثین کے استدلال سے آپ کو اتفاق ہے، ورنہ پہلے آپ اس حدیث کے معنی سے اختلاف کرتے ہوے اس سے آمین بالجہر کے استدلال کو رد کرتے رہے ہو ، اللہ حق بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
میں نے اسی لیے پوچھا تھا کہ آپ عینک لگاتے ہیں؟
اتنی ساری پوسٹس؟؟؟
پتا نہیں آپ کاپی کرتے ہیں یا تحریر لیکن میں تو اپنے وقت کے مطابق ہی جواب دے سکوں گا۔
آپ صبر کے ساتھ پڑھتے رہیئے گا۔
کیا آپ ان کا طرز استدلال بتا سکتے ہیں؟ آخر انہوں نے یہ استدلال کیوں کیا؟
ورنہ تو یہ ایسے ہی ہے جیسے احناف اس سے یہ استدلال نہیں کر رہے۔ اس حدیث کے الفاظ سے یہ بات ثابت نہیں ہو رہی جیسا کہ میں نے وضاحت سے عرض کیا ہے۔
اب اگر اس کے مقابلے میں آپ ان ائمہ کے استدلالات بغیر دلیل کے لگا دیتے ہیں تو پھر تقلید کس بلا کا نام ہے؟
میرے محترم بھائی انہوں نے اس سے یہ استدلال کیا ہے اپنے اجتہاد کی بنا پر یا اپنے مسلک کی موافقت میں۔ میں ان کے مسلک پر ہوں نہیں اور ان کے اجتہاد کے مقابلے میں احناف کا اجتہاد زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ حدیث کے الفاظ کے مطابق بھی ہے، تطبیق کے موافق بھی اور دیگر دلائل کے مطابق بھی۔ (جن کا ذکر شاید بعد میں آئے)۔
آپ کس وجہ سے قبول کر رہے ہیں؟؟؟
میں نے دہرا مفہوم نہیں اخذ کیا محترم میں نے عرض کیا ہے کہ دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں، حدیث میں صراحت نہیں ہے۔ اس کا مطلب دہرا مفہوم اخذ کرنا ہوتا ہے؟
یہ تو تھا اصولی جواب۔ اب ذرا آگے دیکھیئے۔ (یہ اضافی جواب ہے)
آپ نے آٹھ محدثین کا ذکر کیا جنہوں نے اس سے جہر پر استدلال کیا ہے۔ بیہقی کی دو کتابیں لکھی ہیں۔ خطابی اور ابن بطال نے شرح کی ہے اور وہ بھی اپنے مسلک اور فقہ کے مطابق۔ (ظاہر ہے مجھے ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہیں)
میں نے صرف شاملہ میں سرچ کیا تو علم ہوا کہ اس حدیث کی تخریج ان محدثین نے بھی کی ہے اور انہوں نے اس سے جہر پر استدلال نہیں کیا۔ کسی نے فضل تامین کا باب باندھا ہے اور کسی نے صرف تامین خلف الامام کا۔
مسند الشافعی (محمد بن ادریس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک (مالک بن انس صاحب المسلک الفقہی)
موطا مالک بروایۃ محمد (محمد بن الحسن الشیبانی احد صاحبی ابی حنیفۃ) (موطا محمد کو الگ سے کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے اس لیے اس کا ذکر الگ سے کیا ہے)
سنن ابی داؤد (تامین وراء الامام)
منتقی لابن جارود (قراءۃ وراء الامام)
مستدرک حاکم (التامین)
سنن الترمذی (فضل التامین)
صحیح مسلم (باب فضل قول المأموم آمين)
شرح السنۃ للبغوی (محیی السنۃ حسین بن مسعود الفرا۔ باب فضل التامین)
علامہ بغوی نے اس سے پہلے جہر بالتامین کا باب بھی قائم کیا ہے لیکن اس میں اس حدیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
یہ نو ہو گئے۔
اب کیا کریں؟
اگر آپ کو جہر امام پر دلیل نہیں پتا تو میں بتا دیتا ہوں محترم بھائی۔
حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُجْرًا أَبَا الْعَنْبَسِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ ، عَنْ وَائِلٍ ، وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ وَائِلٍ ، أَنَّهُ " صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا قَرَأَ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحة آية 7) ، قَالَ : آمِينَ ، خَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى ، وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ ، وَعَنْ يَسَارِهِ ". مسند أبي داود الطيالسي
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا جا سکتا ہے اگر نبی ﷺ نے دل میں آمین فرمایا تھا تو انہوں نے کیسے سنا؟ تو پتا چلا کہ آپ نے زبان سے آمین فرمایا تھا۔
البتہ اس سے اتنی آواز نہیں ثابت ہوتی جتنی آپ لوگبیان کرتے ہیں کیوں کہ آگے خفض کا بھی ذکر ہے۔