اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
خدا کے بندے! اللہ سے ڈرو۔اس روایت کے بارے سب سے پہلے جناب اشماریہ صاحب نے فرمایا کہ اس کی سند نہیں ہے، تو بندہ نےسند پیش کردی ، لیکن جب احناف صاحبان کا یہ خاصا ہے کہ جو بات امام صاحب کے قول کے مخالف ہو تو اس کو رد کرنا واجب ہے اور فرض ہے اس لیے سند کو در کر دیا گیا، اس کے سند پر کلام کیا گیا کہ ابن جریج مدلس ہے اور سماع کیا صراحت نہیں ہے ، حالاں کہ سماع کی صراحت بھی موجود تھی لیکن آنکھوں پر تقلیدی پٹی بندھی تھی ، اس لیے سماع نظر سے اوجھل رہا، اور اب جب کہ کوئی بھاگنے کی کوئی سبیل باقی نہ رہی تو اب یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس روایت سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، اسی کو اندھی تقلید کہتے ہیں کہ واضح دلائل کے آجانے کے بعد بھی صرف امام کے قول کو ہی بالا رکھنا، اور واضح روایات کو رد کر دینا الامان و الحفیظ
ایک بات سے اشماریہ صاحب اور بھاگے ہیں اور وہ بھی واضح حدیث ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، وہ حدیث یہ ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أمن الإمام فأمنوا ، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة : غفر له ما تقدم من ذنبه
اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:اس سے جہر پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ زور سے آمین کہیں گے تو فرشتوں سے موافقت ہوگی۔ حالاں کہ فرشتوں کی آمین کی آواز ہی نہیں آتی۔ اس لیے ان کی آمین تو سری ہوئی تو اس سے تو اخفاء پر استدلال ہونا چاہیے۔
پھر کوئی بھی قرینہ اس پر نہیں ہے کہ موافقت جہر یا اخفاء میں مراد ہے۔ تلفظ یا سرعت و تاخیر میں موافقت مراد ہونا بھی اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا جہر یا اخفاء میں موافقت مراد ہونا۔
حقیقتا یہ دلیل اداء تامین پر ہے صرف۔
بھائی میری مراد یہ ہے کہ وہ روایات بتا دیں جن سے شعبہ کو وہم ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی جن میں شعبہ کے استاد سے کسی اور نے مد صوت کی روایت کی ہو۔
میں نے جب بحث کی اور محدثین کا اقوال پیش کیے تو اشماریہ نے اس بات کو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی ، اس حدیث سے محدثین نے آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے ، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اس حدیث پر تما م محدثین نے آمین بالجہر کا باب وائم کر کے احناف کے جھوٹا ہونے پر کیل ثبت کر دیا
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اشماریہ صاحب اللہ سے ڈر جاؤ اور انصاف سے بتاؤ کہ کیا تم احادیث میں تاویل سے کام نہیں لے رہے ہو ، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مین نے تم تک حق بات کو پہچا دیا ہے ،ہماری طرف سے حجت تمام ہو گئی ہے، اللہ ہی تمہیں ہدایت دے آمین یا رب العالمین
اس کا جواب میں پہلے دو مرتبہ دے چکا ہوں۔ یہ پوسٹ آنکھیں کھول کر پڑھو۔
http://forum.mohaddis.com/threads/احادیث-کی-صحت-درکار-ہے.21618/page-6#post-172349
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر محترم خضر بھائی نے علمی کی رینکنگ بھی دی ہے۔ پتا نہیں آپ لوگ پڑھتے بھی ہیں یا نہیں۔
حافظ صاحب تمام محدثین آپ نے لکھا ہے۔ ذرا میری پوسٹ میں نو محدثین دیکھیں جنہوں نے یہ باب جہر قائم نہیں کیا اور بتائیے کہ "تمام" کسے کہتے ہیں۔
اور جو روایت میں نے شعبہ کے وہم کے بارے میں طلب کی تھی وہ سفیان کی روایت ہے۔ آپ نے تو نہ دی نہ دینی تھی کیوں کہ کسی چیز پر علمی بحث تو شاید اچھی لگتی ہی نہیں ہے۔ بس مسلکی اختلاف کی بحث ہوتی رہے۔
اس پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔