• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احادیث کی صحت درکار ہے

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس روایت کے بارے سب سے پہلے جناب اشماریہ صاحب نے فرمایا کہ اس کی سند نہیں ہے، تو بندہ نےسند پیش کردی ، لیکن جب احناف صاحبان کا یہ خاصا ہے کہ جو بات امام صاحب کے قول کے مخالف ہو تو اس کو رد کرنا واجب ہے اور فرض ہے اس لیے سند کو در کر دیا گیا، اس کے سند پر کلام کیا گیا کہ ابن جریج مدلس ہے اور سماع کیا صراحت نہیں ہے ، حالاں کہ سماع کی صراحت بھی موجود تھی لیکن آنکھوں پر تقلیدی پٹی بندھی تھی ، اس لیے سماع نظر سے اوجھل رہا، اور اب جب کہ کوئی بھاگنے کی کوئی سبیل باقی نہ رہی تو اب یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس روایت سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، اسی کو اندھی تقلید کہتے ہیں کہ واضح دلائل کے آجانے کے بعد بھی صرف امام کے قول کو ہی بالا رکھنا، اور واضح روایات کو رد کر دینا الامان و الحفیظ
ایک بات سے اشماریہ صاحب اور بھاگے ہیں اور وہ بھی واضح حدیث ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے آمین بالجہر ثابت ہی نہیں ہے، وہ حدیث یہ ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أمن الإمام فأمنوا ، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة : غفر له ما تقدم من ذنبه
اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے اشماریہ صاحب فرماتے ہیں:اس سے جہر پر استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ زور سے آمین کہیں گے تو فرشتوں سے موافقت ہوگی۔ حالاں کہ فرشتوں کی آمین کی آواز ہی نہیں آتی۔ اس لیے ان کی آمین تو سری ہوئی تو اس سے تو اخفاء پر استدلال ہونا چاہیے۔
پھر کوئی بھی قرینہ اس پر نہیں ہے کہ موافقت جہر یا اخفاء میں مراد ہے۔ تلفظ یا سرعت و تاخیر میں موافقت مراد ہونا بھی اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا جہر یا اخفاء میں موافقت مراد ہونا۔
حقیقتا یہ دلیل اداء تامین پر ہے صرف۔
بھائی میری مراد یہ ہے کہ وہ روایات بتا دیں جن سے شعبہ کو وہم ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی جن میں شعبہ کے استاد سے کسی اور نے مد صوت کی روایت کی ہو۔
میں نے جب بحث کی اور محدثین کا اقوال پیش کیے تو اشماریہ نے اس بات کو چھوڑ کر دوسری بات شروع کر دی ، اس حدیث سے محدثین نے آمین بالجہر ہی مراد لیا ہے ، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اس حدیث پر تما م محدثین نے آمین بالجہر کا باب وائم کر کے احناف کے جھوٹا ہونے پر کیل ثبت کر دیا
امام البخاری (باب جہر الامام بالتامین)
امام ابن خزیمہ (باب الجہر بآمین عند انقضاء فاتحہ الکتاب۔۔۔۔۔)
امام نسائی (جہر الامام بآمین)
امام ابن ماجہ (باب الجہر بآمین)
سنن الکبری للبیہقی: بَابُ جَهْرِ الْإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
السنن الصغیر للبیہقی:بَابُ الْإِمَامِ يَجْهَرُ بِالتَّأْمِينِ فِي صَلَاةِ الْجَهْرِ وَيَقْتَدِي بِهِ الْمَأْمُومُ
المسند المستخرج علی صحیح مسلم:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
السنن الصغری للنسائی:بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ناسخ الحدیث و منسوخہ لاثرم:باب الجهر بالتأمين
اس کے بعد شارحین حدیث بھی اس حدیث کا یہی معنی بیان کرتے ہیں، لیکن کیا کریں احناف کا جن کو تقلید کی عینک اندھا کیے جا رہی ہے، سنن ابو داود کی شرح معالم السنن میں امام الخطابي (المتوفى: 388هـ) نےلکھا ہے:قلت فيه دليل على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجهر بآمين ولولا جهره به لم يكن لمن يتحرى متابعته في التأمين على سبيل المداركة طريق إلى معرفته فدل أنه كان يجهر به جهرا يسمعه من وراءه
"مذکورہ حدیث آمین بالجہر کی دلیل ہے"
اسی طرح ابن بطال نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے:وحجة من جهر بها قوله عليه السلام: (إذا أمن الإمام فأمنوا)
یہ حدیث آمین بالجہر والوں کی دلیل ہے"
اشماریہ صاحب اللہ سے ڈر جاؤ اور انصاف سے بتاؤ کہ کیا تم احادیث میں تاویل سے کام نہیں لے رہے ہو ، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ مین نے تم تک حق بات کو پہچا دیا ہے ،ہماری طرف سے حجت تمام ہو گئی ہے، اللہ ہی تمہیں ہدایت دے آمین یا رب العالمین
خدا کے بندے! اللہ سے ڈرو۔
اس کا جواب میں پہلے دو مرتبہ دے چکا ہوں۔ یہ پوسٹ آنکھیں کھول کر پڑھو۔
http://forum.mohaddis.com/threads/احادیث-کی-صحت-درکار-ہے.21618/page-6#post-172349
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر محترم خضر بھائی نے علمی کی رینکنگ بھی دی ہے۔ پتا نہیں آپ لوگ پڑھتے بھی ہیں یا نہیں۔
حافظ صاحب تمام محدثین آپ نے لکھا ہے۔ ذرا میری پوسٹ میں نو محدثین دیکھیں جنہوں نے یہ باب جہر قائم نہیں کیا اور بتائیے کہ "تمام" کسے کہتے ہیں۔

اور جو روایت میں نے شعبہ کے وہم کے بارے میں طلب کی تھی وہ سفیان کی روایت ہے۔ آپ نے تو نہ دی نہ دینی تھی کیوں کہ کسی چیز پر علمی بحث تو شاید اچھی لگتی ہی نہیں ہے۔ بس مسلکی اختلاف کی بحث ہوتی رہے۔
اس پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا رنگین الفاظ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ صحابہ کرام کی آمین ظاہری ہوتی تھی؟
کیا اس کے کچھ نیچے یہ الفاظ نظر نہیں آئے؟
اخفاء بالکل کرنا یعنی آواز ہی نہ آئے یہ اخفاء کا اعلی درجہ ہے اور اس قدر کے قریب والوں کو آواز آجائے یہ اخفاء کا ادنی درجہ ہے۔ تو ان حضرات کا اس طرح آمین کہنا اخفاء سے خارج نہیں ہوتا۔ ممکن ہے بیچ میں چند عام افراد زور سے بھی کہہ دیتے ہوں اور چوں کہ یہ مسئلہ مجتہد فیہ ہے اس لیے ابن زبیر رض نے نکیر نہیں فرمائی ہو۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کے اس استدلال پر مجھے بہت زیادہ ہنسی آرہی ہے ،اگر تھوڑا سا غور کر لیتے توایسے بہت سارے مقامات آپ کے سامنے آجاتے جن میں تم اس آیت کی مخالفت کرتے ہو،کیا حنفی کبھی بلند آوازسے دعا نہیں کرتے؟کتنا بھونڈا استدلال ہے
کیا اس پر ہم حلال حرام کی بحث کرتے ہیں ؟ یا اولی غیر اولی کی؟
اس استدلال سے زیادہ بھونڈا جواب ہے جو "علمیت" کا اظہار کر رہا ہے۔

ہم نے آمین بالجہر پر صرف ایک حدیث طلب کی تھی لیکن اب تک کوئی جواب نہ آیا ایک تابعی کا قول سامنے آیا ہے جس کا کئی سر پیر نہیں ہے
دلیل آپ کے ذمے نہیں ہے؟ جب کہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ اصل اخفاء ہے؟
پھر بھی اس تھریڈ کی پہلی حدیث پڑھ لیجیے۔ وہی والی۔۔۔۔ جو شعبہ نے روایت کی ہے۔
یہ جواب پہلے بھی دے چکا ہوں۔ پتا نہیں کس کو دھوکا دینے کے لیے بار بار ایک بات دہراتے ہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
احناف بھی اونچی آواز سے آمین کو درست قرار دیتے تھے

امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ:

احناف کے جد امجد ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال ابن الہمام بلغ رتبۃ الاجتہاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں:
و لو کان الی فی ہذا شیئی لوفقت بان روایۃ الخفض یراد بہا عدم القرع العنیف و روایۃ الجہر بمعنی قولہا فی زیر الصوت و ذیلہ ( فتح القدیر، ج: 117/1 )
( ترجمہ ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔
امام ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ:

یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب " حلیہ " میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 )
( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ :

جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے " فتح سر المنان " لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔
مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ :
حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 )
( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔
مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ:

یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں:
احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔
مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی " ارکان الاسلام " میں یہی لکھتے ہیں کہ " آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔ "

مولانا سلام اللہ الحنفی
: انھوں نے موطا کی شرح المحلی میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔
ومولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ:

در سالہ تنویر العینین می فرمایند، کہ بجہر آمین گفتن اولیٰ است از آہستہ گفتن و عبارہ ھکذا و التحقیق ان الجھر بالتامین اولیٰ من خفضہ
موصوف نے رسالہ تنویر العینین میں لکھا ہے کہ بلند آمین کہنا اولی ہے
عبدالرشید گنگوہی :

انھوں نے فتاوی رشیدیہ میں لکھا ہے کہ احناف بلند آواز سے آمین کہنے کے قائل ہیں،تلک عشرۃ کاملۃ
لیکن پھر بھی احادیث کی تاویل کرتے چلے جانا یہ کس کا شیوہ ہے؟
اس کا پہلے بھی جواب دے چکا ہوں۔ پھر دوبارہ لکھ دیا؟
ویسے بھی جو عنوان ہے اس کے ہم بھی قائل ہیں۔ درست تو سمجھتے ہیں لیکن افضل سر کو سمجھتے ہیں۔ کیا بات ہے ماشاء اللہ آپ کی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہم نے آمین بالجہر پر صرف ایک حدیث طلب کی تھی لیکن اب تک کوئی جواب نہ آیا ایک تابعی کا قول سامنے آیا ہے جس کا کئی سر پیر نہیں ہے
حدیث کے سوال کا تو دو مرتبہ جواب دے دیا ہے۔

لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ تابعی کے قول کا سر پیر نہیں ہے؟
یہ تابعی کوفہ کا مشہور فقیہ ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رض کے علوم کا امین ہے۔ صحابہ کے دور میں پیدا ہوا اور اسی میں وفات ہوئی۔ اسی میں اس تابعی نے فتوی دیا۔نہ کسی صحابی نے رد کیا نہ تابعی نے اسے مخالف حدیث کہا۔ اس نے صحابہ کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کا عمل دیکھا اور پھر فتوی دیا اور جناب خیر القرون کے اس شخص کے بارے میں آج فرماتے ہیں: اس قول کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
نہیں حافظ جی۔ ہر بات ثابت کرنی ہوگی۔ دلیل لائیں۔

حافظ صاحب مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ دلائل ولائل کوئی آپ کے پاس نہیں۔ بس پچھلی پوسٹوں کو اٹھا کر دوبارہ کاپی کر دینا ہے۔
آپ اپنا عمل درست ثابت کر رہے ہیں اور دلیل میں احناف کے علماء کے اقوال لا رہے ہیں، حیرت ہے۔ حالاں کہ میں نے کہا بھی ہے کہ میں اس سے زیادہ اقوال نفی پر لا سکتا ہوں۔
یہ تو احناف کی دیانت ہے کہ جس بات کو جیسا سمجھتے ہیں ویسا بیان کر دیتے ہیں۔ مداہنت نہیں کرتے۔
اب تک جن باتوں کا جواب ہو چکا ہے وہ اب دوبارہ پوسٹ کریں گے تو میں رپورٹ کا بٹن ہی دبا سکوں گا اور کچھ نہیں۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں نے صرف شاملہ میں سرچ کیا تو علم ہوا کہ اس حدیث کی تخریج ان محدثین نے بھی کی ہے اور انہوں نے اس سے جہر پر استدلال نہیں کیا۔ کسی نے فضل تامین کا باب باندھا ہے اور کسی نے صرف تامین خلف الامام کا۔
مسند الشافعی (محمد بن ادریس صاحب المسلک الفقہی)
جناب اشماریہ صاحب نے آمین کے بارے امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بیا ن کیا ہے، اور حوالے کے طور پر ان کی مسند کو پیش کیا ہے،لیکن حسب سابق حنفی بھائی یہاں بھی بے جا تقلید کو ثابت کرنے کی کوشسش کی گئ
ہے، حالاں کہ امام شافعی نے اسی حدیث سے آمین بالجہر کو ثابت کیا ہے،اور اپنی مسند میں بھی انہی روایات کو لے کر آئے ہیں جن سے اہل حدیث آمین کو ثابت کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا؛ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «آمِينَ»
(مسند الشافعی،باب:وَمِنْ كِتَابِ اخْتِلَافِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ )
لیکن اپنی دوسری کتاب الام میں ایسی حدیث سے امام شافعی نے آمین بالجہر کو ثابت کیا ہےاور اس پر یہ باب قائم کیا ہے: بَابُ الْجَهْرِ بِآمِينَ
ابن شھاب کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے سوال کیا:
سَأَلْت الشَّافِعِيَّ عَنْ الْإِمَامِ إذَا قَالَ:غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ هَلْ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِآمِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ وَيَرْفَعُ بِهَا مَنْ خَلْفَهُ أَصْوَاتَهُمْ فَقُلْت: وَمَا الْحُجَّةُ فِيمَا قُلْت مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا » قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ يَقُولُ: آمِينَ» قَالَ: وَفِي قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ «إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا» دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ أَمَرَ الْإِمَامَ أَنْ يَجْهَرَ بِآمِينَ؛ لِأَنَّ مَنْ خَلْفَهُ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ تَأْمِينِهِ إلَّا بِأَنْ يَسْمَعَ تَأْمِينَهُ
"کیا امام سورہ فاتحہ کے آخر میں بلند آواز سے آمین کہے گا؟ تو جناب امام شافعی نے جواب دیا : بالکل امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہیں گے،ابن شہاب کہتے ہیں : میں دوبارہ سوال کیا اس کی دلیل کیا ہے ؟ تو امام شافعی نے مذکورہ حدیث کو دلیل بنایا ، اور کہا کہ اس حدیث کے یہ الفاظ اونچی آمین کی دلیل ہیں:«إذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا»یعنی جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو،اور امام شافعی نے مزید کہا : یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی اکرم امام کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ بلند آواز سے آمین کہے، کیوں کہ مقتدیوں کو امام کا آمین سن کر اس کی آمین کا علم ہوگا" (الام للشافعی:باب سجود القرآن،ص:212)
اشماریہ بھا ئی اللہ سے ڈر کر بات کیا کریں ، آپ ایک عالم آدمی ہیں ،روز قیامت آپ سے باز پرس ہو گی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
حدیث کے سوال کا تو دو مرتبہ جواب دے دیا ہے۔

لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ تابعی کے قول کا سر پیر نہیں ہے؟
یہ تابعی کوفہ کا مشہور فقیہ ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رض کے علوم کا امین ہے۔ صحابہ کے دور میں پیدا ہوا اور اسی میں وفات ہوئی۔ اسی میں اس تابعی نے فتوی دیا۔نہ کسی صحابی نے رد کیا نہ تابعی نے اسے مخالف حدیث کہا۔ اس نے صحابہ کا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کا عمل دیکھا اور پھر فتوی دیا اور جناب خیر القرون کے اس شخص کے بارے میں آج فرماتے ہیں: اس قول کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔
نہیں حافظ جی۔ ہر بات ثابت کرنی ہوگی۔ دلیل لائیں۔
جو بھی ہو اس کا احترام اپنی جگہ ہے مگر اس کی بات حجت نہین ہے،شریعت میں ان کی بات حجت نہیں ہے،سیدنا عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن کا حصہ نہیں سمجھتے تھے کیا ہم ان کی بات کو مان لیں ؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس کا پہلے بھی جواب دے چکا ہوں۔ پھر دوبارہ لکھ دیا؟
ویسے بھی جو عنوان ہے اس کے ہم بھی قائل ہیں۔ درست تو سمجھتے ہیں لیکن افضل سر کو سمجھتے ہیں۔ کیا بات ہے ماشاء اللہ آپ کی۔
بس میں تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور وہ کام کرو جس سے یہودی لوگ چڑ کھاتے ہوں لیکن آپ آمیں کی آواز کو دبانا چاہ رہے ہیں،
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیا اس پر ہم حلال حرام کی بحث کرتے ہیں ؟ یا اولی غیر اولی کی؟
اس استدلال سے زیادہ بھونڈا جواب ہے جو "علمیت" کا اظہار کر رہا ہے۔



دلیل آپ کے ذمے نہیں ہے؟ جب کہ میں ثابت کر چکا ہوں کہ اصل اخفاء ہے؟
پھر بھی اس تھریڈ کی پہلی حدیث پڑھ لیجیے۔ وہی والی۔۔۔۔ جو شعبہ نے روایت کی ہے۔
یہ جواب پہلے بھی دے چکا ہوں۔ پتا نہیں کس کو دھوکا دینے کے لیے بار بار ایک بات دہراتے ہیں۔
یہ روایت محدثین کے نزدیک ناقابل احتجاج ہے اور اس کے معنی میں بھی اختلاف ہے، خفض کا معنی سکوت نہیں ہے بلکہ آواز کو پست رکھنا ہے ، حنفی علما نے بھی اس کا یہی معنی مراد لیا ہے جیسا کہ سابقہ پوسٹوں میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے
 
Top