السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کاتہ،
عصر حاضر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔یہ احتجاج سیاستدانوں سے لے کر ہر طبقہ فکر کے لوگ کرتے ہیں،جن میں ڈاکٹرز ،وکلاء ، اساتذہ، اور حتیٰ کے علماء کرام بھی کرتے ہیں۔کہیں تو احتجاج مختلف ایام کے موقعہ پر کیا جاتا ہے اور کہیں توہین رسالت ،مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اور مطالبات منوانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں،توڑ پھوڑ کی جاتی ہے،افراد اشتعال بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں،راستے بلاک کیئے جاتے ہیں،اور کہیں بینرز اٹھائے دھرنا دیا جاتا ہے،مختلف مواقع پر شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔اس طرح عوام اپنا غصہ ،
جذبات و احساسات، اور نظریئے کو یہاں تک کے جائز مطالبات کو بھی احتجاج کی نظر کر دیتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ
اسلام میں احتجاج کا تصور کیا ہے؟؟؟ کیا نبی کریم ﷺ نے احتجاج کیا تھا؟؟؟
امت مسلماں میں احتجاج کی یہ روش کہاں سے آئی؟ کیا احتجاج کا یہ فعل ہمیں عملاََ کمزور نہیں کر دیتا؟؟؟
ظلم، برائی، باطل ،غیر شرعی معاملات کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل ،جوابی کاروائی کی اسلام میں کیا صورت ہے ؟؟؟
وعلیکم سلام و رحمتالله
اسلام میں احتجاج نہیں بلکہ صرف جہاد کا تصور ہے -
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ - تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ سوره الصف ١٠-١١
مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دے (وہ یہ کہ) خدا پر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے-
اور نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
أَفْضَلُ الْجِهَادِ , كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ "
''افضل جہاد ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنا ہے۔''
جہاد کے لفظی معنی ہیں جدوجہد- اور جب یہ الله کی راہ میں ہو تو اس کو جہاد فِي سَبِيلِ اللَّهِ کہا جائے گا مطلب یہ کہ الله کے دین کی سر بلندی کے لئے الله کی راہ میں باطل قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنا - جہاد کا جو طریقہ اسلام میں بتایا گیا ہے وہ ایک نظم و ضبط کے تحت ہے- اس میں بقائدہ پلاننگ کی جاتی ہے کہ کس طرح باطل قوتوں کو زیر کیا جائے - جب کے احتجاج سے عمومی طور پر لوگ افرا تفری کا شکار ہوتے ہیں -اگر احتجاج پر امن بھی ہو تو بھی وہ دوسروں کے لئے مشکلات کا سبب بنتا ہے - جسے رکاوٹیں کھڑی کرنا - راستہ روکنا - آس پاس کے گھروں میں شور و غل کی آوازیں آنا - جہاں مریض اور بیمار لوگ بھی ہو سکتے ہیں -کارباری لوگوں کو جانے انے اور گاہگوں کا دکانوں پر پہنچنے میں مشکلات کا سامنا -مریضوں کے ہسپتالوں تک پہنچنا بھی اکثر محال ہو جاتا ہے -جب کہ اسلام میں کوئی افراتفری نہیں بلکہ یہ تو کافروں اور منافقین کے نظام میں پائی جاتی ہے، جبکہ اسلامی نظام تو بہت منضبط (نظم وضبط پر مبنی) ہوتا ہے۔اور عوامی احتجاج حقیقت میں یہودیوں اور عیسایوں کی اختراع ہے -
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِه جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا (لنساء:١١٥)
اور جو رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلے تو ہم اسے وہیں پھیر دیتے ہیں جہاں وہ خود پھرتا ہے،اور پھر اسے جہنم میں پہنچائیں گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے-
ویسے بھی نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کے ایک فرمان کے مطابق دین کا یہ اصول ہمیں سامنے رکھنا ضروری ہے کہ "
وہ چیز جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہو اس کو چھوڑ دینا ایک مسلمان پر واجب ہے" - اور عوامی احتجاج میں نقصان زیادہ ہے فائدہ کم -
(واللہ عالم)