کہتے ہیں کہ کسی نے ٹیپو سلطان سے کہا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ تو اس پر ٹیپو سلطان نے جواب دیا تھا کہ یہ اسلامی طرز فکر نہیں ہے۔ اسلامی طرز فکر یہ ہے کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے، وہ سب جائز ہو۔
یہی بات ”احتجاج“ پر بھی صادق آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ احتجاج ہمیشہ ”کمزور فریق“ کرتا ہے۔ جیسے اپوزیشن، حکومت سے احتجاج کرتی ہے۔ یا عوام الناس حکومتی طاقتور افراد اور اداروں (کی پالیسیوں ، احکام ، رویوں وغیرہ) کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
اسی طرح مسلم عوام بھی اسلام کے خلاف کئے جانے والے اقدام کے خلاف بھی احتجاج کرتے ہیں۔ عوام اس لئے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے پاس ”طاقت“ نہیں ہوتی کے جن عناصر نے اسلام کے کلاف کوئی کام کیا ہوتا ہے، اسے بزور قوت روک سکیں یا اسے سزا دے سکیں۔ بالخصوص اگر ایسا کوئی واقعہ دوسرے ملک میں ہوا ہو یا اپنے ہی ملک کے بااثر لوگ اس میں ملوث ہوں۔
اسلامی تعلیمات یہی ہیں کہ جب بھی اور جہان کہیں بھی ”احتجاج“ کی ضرورت محسوس ہو، ضرور کیا جائے تاکہ اپنے جذبہ ایمانی کا اعلان ہوسکے اور کل روز قیامت ہم یہ کہہ سکیں کہ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسلام یا اسلامی اقدار کے خلاف کوئی عمل ہوا، ہم نے مقدور بھر اس کے خلاف آواز بلند کی
لیکن کسی بھی قسم کے احتجاج کے دوران کبھی بھی کوئی ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جو اسلامی تعلیمات کے کلاف ہو جیسے :
1) اپنی زبان سے ”مجرموں“ کے خلاف گالم گلوچ یا نازیبا الفاظ نہیں ادا کرنا چاہئے بلکہ تقریر و تحریر میں اخلاقی قدروں میں رہتے ہوئے مجرموں کے اقدامات کی مذمت کی جائے۔
2) احتجاج اگر ”مظاہرہ“ کی صورت میں ہو تو اس مظاہرہ سے ٹریفک میں خلل نہین پڑنا چاہئے اور نہ ہی راستہ بلاک کرکے عام شہریوں کو مشکلات مین ڈالنا چاہئے۔
3) مظاہروں اور جلوسوں کے دوران سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ بلکہ اگر ”مجرمان سے متعلقہ املاک“ بھی ہماری دسترس میں آجائے تو اسے بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ توڑ پھوڑ اور پولس یا انتظامیہ پر پتھراؤ وغیرہ کرنا بالکل غلط ہے۔
4) اگر جرم کسی غیر ملکی نے اپنے ملک میں کیا ہو تو علامتی طور پر اس ملک کا جھنڈا نذر آتش کیا جاسکتا ہے، لیکن اس ملک کے سفارتخانے یا اس ملک کے دیگر شہریوں کو نقسان نہیں پہنچایا جاسکتا
5) اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس ملک کے ارباب اختیار پر زور دیا جاسکتا ہے کہ وہ مجرم کو قرار واعی سزا دے اور آئندہ ایسے (اینٹی اسلامک) جرائم کو اپنے ملک می ہونے سے روکے
6) اپنے ملک کی حکومت پر زور دیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔ ان سے تجارتی تعلقات توڑ لئے جائیں وغیرہ وغیرہ
یعنی ہم احتجاج کا ہر وہ مروجہ اور مہذب طریقہ اپنا سکتے ہیں، جو غیر اسلامی نہ ہو۔
آج کل مسلمانوں میں یہ نظم و ضبط کہاں جو مہذب اسلامی طریقے کے مطابق احتجاج کریں؟
موجودہ مروجہ ’’ احتجاج ‘‘ کو عام اردو میں ’’ ہڑتال ‘‘ اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں۔
مغرب میں احتجاج یا STRIKE کا یہ طریقہ صنعتی انقلاب کے دوران شروع ہوا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔
بر صغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے سب سے پہلے (1918میں) احتجاج کا یہ طریقہ اختیار کیا اور اس کا نام دیا ’’ ہڑتال ‘‘ ۔
گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘ ۔
۔۔۔ یعنی ’ ہر جگہ تالا ‘ لگا دیا جائے اور
۔۔۔عوام الناس کی زندگیوں میں افراتفری پیدا کی جائے۔
۔۔۔لوگوں کے جان و مال کا نقصان کیا جائے۔
۔۔۔سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے
۔۔۔کسی کے کیئے کی سزا کسی اور کو دیا جائے۔
۔۔۔غیر قانونی طور حکومت پر قبضہ کیا جائے۔
۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گاندھی کے بعد سے آج تک تمام سیاست دانوں نے اپنی مفاد کیلئے احتجاج کا یہی طریقہ اپنایا۔
مسلمانوں کے لیڈروں نے بھی بغیر سوچے سمجھے یہود و نصاریٰ کا ایجاد کردہ اور برصغیر میں ایک مشرک کا رائج کردہ احتجاج کا طریقہ اپنایا
اور آج بھی امتِ مسلمہ کی اکثریت اسی غیر اسلامی طریقے سے احتجاج کرکے اسلام دشمن کو ڈرانا چاہتی ہے لیکن ہوتا اس کا الٹ ہے۔
کیونکہ غیر اسلامی طریقے سے اسلام کا بول بالا کیسے اور کیونکر ممکن ہو۔