• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
چلیں ہمارے درمیان دائیں ہاتھ کی لمبائی کا موضوع تو ختم ہوا۔اب رسغ و ساعد اور ذراع کی بحث رہ گئی۔
دائین ہاتھ کی لمبائی کا موضوع کو بعد میں ڈسکس ہونا چاہئیے تھے اور ذراع اور ساعد پہلے ۔ اس لئیے میں نے دائین ہاتھ کی لمبائی پر کوئی بات نہیں کی ۔

پہلے آپ حضرات کی طرف سے جواب آیا
بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے
اور میرے خیال میں ساری تو کا مل کو کہتے ہیں ۔ جب ڈیفینیشن آپ کے مسلک سے ٹکرائی تو ڈیفینیشن بدل گئی اور جواب آیا
میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ساعد سے کامل ساعد مراد لو۔ بلکہ یہ کہا ہے کہ ساعد سے ساعد اور ذراع سے ذراع ہی مراد لیا جائے۔ اس کے جو بھی معنی ہیں، اس میں کسی قسم کی تخصیص نہ کریں
میں آپ کی نئی ڈیفیشن مان لوں گا لیکن صدق دل سے بتائیں اگر اس طرح کوئی حنفی پلٹہ کھائے تو فورا کہا جاتا ہے کہ اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کی وجہ سے ایسا کہ رہا ہے ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا ہو سکتا ہے وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوگيا ہو ۔ بہر حال میں آپ کی نئی ڈیفینیشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ میری پچھلی پوسٹ اپ کی پچھلی ڈیفینیشن کے تناظر میں تھی ۔

۔ اب ساعد اور ذراع کے اپنے معنی میں کہنی تک کے مکمل ہاتھ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔جسے بحوالہ ثابت کیا گیا ہے۔ اور جب آپ ساعد و ذراع کے اپنے معنی میں شامل ’مکمل‘ کے مفہوم کو نہیں مانتے اور اس کی جگہ بعض الساعد اور بعض الذراع کا مفہوم لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ساعد و ذراع کے معنی میں موجود ’مکمل‘ کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے مفید مطلب مفہوم لینے کے لئے آپ کو لفظ میں بھی ترمیم کرنی پڑتی ہے۔ اور بعض الساعد کہنا پڑتا ہے۔ اور یہ ’بعض‘ کا اضافہ بھی حدیث میں موجود لفظ ’ساعد‘ کی تخصیص ہے۔
یعنی اگر میں کہوں کہ ساعد یا ذراع اگو عموم معنوں میں کہیں آتا ہے تو اس مراد کہنی تک کا ہاتھ ہوگا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟ اس کا جواب دیجیئے گا پھر آکے بات کرتے ہیں

درج بالا وضاحت سے آپ کی دی گئی مثالوں کا بھی واقعتاً غلط ہونا ثابت ہوتا ہے۔
یہ مثالیں آپ حضرات کی پچھلی ڈیفینیشن کے تناظر میں دی گئیں تھیں ۔ اب آگے بات کرنے سے پہلے آپ بتائیے کہ اوپر والی بات میں آپ کی بات صحیح سمجھا ۔ پھر آگے کچھ عرض کروں گا ان شاء اللہ

اب ذراع سے مکمل ذراع ہی مراد لینے کی درست مثال، کفایت اللہ بھائی کے شکریہ کے ساتھ، پیش خدمت ہے:

بخاری کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
عن ميمونة قالت: «وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة، فأكفأ بيمينه على شماله مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض أو الحائط، مرتين أو ثلاثا، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض على رأسه الماء، ثم غسل جسده، ثم تنحى فغسل رجليه» قالت: «فأتيته بخرقة فلم يردها، فجعل ينفض بيده» (صحیح البخاری :1 63 رقم 274)

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کو دھویا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذراع (بمفہوم کہنی تک بازو کا مکمل حصہ) کو نہیں دھویا بلکہ صرف بعض کو دھویا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔
میرا جواب ہے کہ یہاں ذراع میں کامل کی تخصیص ہے ۔ اور بعض کی تخصیص نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی صحیح احادیث میں غسل کے سلسے میں الفاظ آئے ہیں

ثم غسل سائر جسده،

ثم أفاض الماء على سائر جسده

سائر جسد کے الفاظ ہوتے ہوئے بعض ذراع کی تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ ذراع جسد کا حصہ ہے سائر جسد کی وجہ سے کامل ذراع کی تخصیص کرنا پڑے گی بعض کی نہیں ۔ اس میں تو تخصیص کے لئیے دلیل ہے تو آپ نے ایک ایسی مثال کیوں دی جس میں تخصیص ہے ۔ بات تو عموم پر ہے ۔

ذراع و ساعد چونکہ بازو کی لمبائی بتاتے ہیں لہٰذا ایک ٹوٹی پھوٹی مثال یہ بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ جیسے کہ ایک فٹ میں بارہ انچ ہوتے ہیں۔ تو اب فٹ کے اپنے معنی میں مکمل بارہ انچ کا مفہوم شامل ہے۔چاہے فٹ کے معنی کرتے وقت ’مکمل‘ کا لفظ نہ بھی کہا جائے۔ لہٰذا آپ فٹ سے اس کا کچھ حصہ مراد لے ہی نہیں سکتے۔اس کے معنی کے عموم کی تخصیص کے لئے آپ کو واضح قرینہ چاہئے۔ مثلاً جیسے کہا جائے کہ فٹہ کو اس گلاس کے پانی میں ڈبو دو۔ تو ظاہر ہے کہ مکمل بارہ انچ عام گلاس کے پانی میں نہیں آ سکتے۔ تو ہم فٹہ سے مراد اس گلاس میں پانی کی اونچائی جتنا حصہ ہی لیں گے۔
یہاں آپ نے کچھ جنرل مثالیں ذکر کیں ۔ ان مثالوں سے بات کہیں بھی نہیں پہنچتی ۔مکالمہ کو طول ضرور دیتی ہے اپنی مثال کاجواب سن لیں ۔ فٹ ایک اکائی ہے ناپ کی ۔ اپ یورپ چلے جائیں یا بھائی پھیرو (مجھے اس جگہ کا نام بہت پسند ہے اس لئیے مثال میں اس جگہ کا نام لیا ) فٹ کا ایک ہی معیار ہو گا لیکن ساعد کی لمبائی چوڑائی مین فرق ہوگا ۔
دوسری بات جو ذیادہ ضروری ہے اگر کہا جائے ایک فٹ کی مکھی دیکھی تو ذہن میں بارہ انچ کی مکھی ذہن میں آئے گی (ذہن اتنی لمبائی قبول کرے یا نہیں لیکن لمبائی 12 انچ ذہن میں آئے گی ) لیکن اگر کہا جائے مکھی ساعد یا ذراع پر بیٹھی تو آپ نے کہا تھا کہ ۔ اب ساعد اور ذراع کے اپنے معنی میں کہنی تک کے مکمل ہاتھ کا مفہوم پایا جاتا ہے تو کوئی بھی اس عموم کا معنی نہ لے گا ۔ کیوں عموم کا مطلب ہے مکھی پورے ساعد پر بیٹھی ۔
اس لئیے فٹ کی مثال ذراع اور ساعد ثابت کرنے کے لئیے بالکل غلط ہے ۔

اب رسغ و ساعد اور ذراع سے بعض الساعد یا بعض الذراع کا معنی لینے کے لئے جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو تب تک ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کیسے مراد لیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب میں نے ایک سوال آپ سے پوچھا ہے کہ کیا میں صحیح سمجھا کے جواب کے بعد دوں گا ان شاء اللہ

ایک بات یہ بھی نوٹ فرمائیں کہ احناف جس طریقہ پر زور دیتے ہیں وہ یہ کہ آپ دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے کلائی کو تھامیں اور باقی تین انگلیاں بعض الساعد پر رکھیں۔ جبکہ حدیث میں الید کو رسغ و ساعد یا ذراع پر رکھنے کا حکم ہے۔ اگر آپ دائیں الید سے مراد مفصل تک ہاتھ لے لیں ( جو کہ ید کے مفہوم میں موجود کم سے کم لمبائی کی مقدار ہے) اور اس کو کلائی اور کلائی کے بعد کے حصہ پر (یعنی بعض الساعد پر) رکھیں۔ تب بھی ہاتھ فوق السرۃ ، ناف سے کچھ اوپر تک ہی آئیں گے
انگلیآں الید کا حصہ ہیں اگر یہ بعض رسغ پو ہوں تو ناف کے نیچے ہاتھ آسکتے ہیں

جیسا کہ ہمارا اتفاق ہے کہ یا تو ہاتھ زیر ناف رکھے جائیں گے یا سینے پر)۔
نہیں بھائی ایسا کوئی اتفاق نہيں ۔ سینے پر بھی ہاتھ باندھنے کی روایت ضعیف اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی بھی روایت ضعیف تو اگر کوئی ناف پر بھی ہاتھ باندھتا ہے تو وہ کسی صحیح حدیث کا تارک نہیں کہلائے گا۔

الا یہ کہ آپ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو نہ ڈھانپیں اور براہ راست کلائی کو پکڑ لیں۔ ۔۔اور انگریزی حرف V کی شکل میں ہاتھ باندھ لیں۔ ( جو کہ پیش کی گئی صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کے خلاف ہو جائے گا کیونکہ اس میں ہتھیلی کے ڈھانپنے کا بھی ذکر ہے)۔
ابن خزیمہ کی روایت عربی متن کے ساتھ بتائیں پھر اس پر بات ہوگی ۔ مجھے کیا معلوم آپ کون سی روایت کا ریفرینس دے رہے ہیں ۔

لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی بھی جرات کروں گا کہ اگر آپ نیوٹرل ہو کر تحقیق کرتے اور عرصے سے زیر ناف ہاتھ باندھتے باندھتے ذہن ایک خاص سانچہ میں نہ ڈھل چکا ہوتا تو یہ تاویلات کرنے کی کوئی گنجائش ان احادیث کے مفہوم میں موجود ہی نہیں۔ اور اس میں آپ کا قصور نہیں۔(ورنہ جب آپ کے اخلاص پر میرا اعتماد مشکوک ہو جائے گا تو میں مزید بات چیت سے ہی مجلس کی اختتامی دعا کے ساتھ معذرت کر لوں گا۔) جب میں نے بھی تحقیق کے بعد ہاتھ سینے پر باندھنا شروع کئے تھے تو شروع میں بہت عجیب لگتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات شرمندگی بھی محسوس ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا کہ اس پر جلد ہی قابو پانے کی توفیق عنایت کر دی۔ ہم تو بس اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ ہم سب کو اپنے نفس اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
آپ کو میرا اخلاص اس لئیے مشکوک لگ سکتا ہے کیوں کہ آپ کے نظریات مجھ سے میچ نہين ہوتے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اسی لنک پر جائیں اور دکیھیں کہ صلاہ کے لفظ کا اطلاق سورہ الفاتحہ پر بھی ہوتا ہے ۔

Online Urdu Dictionary

یہ اسی ویب کا ایڈریس ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا تھا
تو کیا صرف سورہ الفاتحہ پڑھنے سے صلاہ ادا ہوجاتی ہے ؟
آپ کے ہاں تو لغت کی معنی کا اعتبار ہے اور اس کو آپ شرعیہ پر چسپاں کر رہے ہیں تو کیا آپ نماز اس طرح پڑہیں گے ؟

صیام کا معنی یہاں دیکھ لیں
Online Urdu Dictionary
تو کیا گفتگو سے خاموش رہ کر روزہ رکھا جاسکتا ہے ؟

مذید اعتراض سے بہتر تھا کہ جو جواب میں نے آج پوسٹ کیا ۔ اس پر جواب دیا جاتا۔ مذيد اعتراضات کا مطلب ہے کہ آپ کو میری پوسٹ پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اور آپ اس پوسٹ سے مطمئن ہیں ۔
معاف کیجئے گا محترم آفتاب صاحب میں یہاں لغت کے ذریعے کسی شرعی مسئلہ کی وضاحت نہیں کر رہا بلکہ صرف یہ بتا رہا ہوں کہ احناف مرد اپنے تئیں شریعت پر عمل کرتے ہوئے نماز میں ہاتھ جہاں باندھتے ہیں اسے شرم گاہ کہا جاتا ہے۔ اور اللہ کے حضور حنفی مرد کا شرمگاہ پر ہاتھ باندھنا کسی طور پر بھی اللہ کا ادب نہیں ہے۔اللہ انہیں عقل استعمال کرنے کی توفیق دے۔آمین

جہاں تک شرعی مسائل کو لغت کے سہارے بیان کرنے کی بات ہے تو یہ احناف کی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کیا آپ بھول گئے کہ یہاں امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم نامی تھریڈ میں آپ ہی نے صاحب ہدایہ کا فتویٰ پیش کیا تھا جہاں وہ قرآن کی تفسیر حدیث کے بجائے لغت کے سہارے کر رہے تھے اور مقصد صرف ایک تھا کہ کسی بھی طرح امام صاحب کا دفاع کیا جائے چاہے قرآن و حدیث میں معنوی اور لفظی تحریف کی جائے۔ اس بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
پہلے آپ حضرات کی طرف سے جواب آیا
بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے
اور میرے خیال میں ساری تو کا مل کو کہتے ہیں ۔ جب ڈیفینیشن آپ کے مسلک سے ٹکرائی تو ڈیفینیشن بدل گئی اور جواب آیا
میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ساعد سے کامل ساعد مراد لو۔ بلکہ یہ کہا ہے کہ ساعد سے ساعد اور ذراع سے ذراع ہی مراد لیا جائے۔ اس کے جو بھی معنی ہیں، اس میں کسی قسم کی تخصیص نہ کریں
میں آپ کی نئی ڈیفیشن مان لوں گا لیکن صدق دل سے بتائیں اگر اس طرح کوئی حنفی پلٹہ کھائے تو فورا کہا جاتا ہے کہ اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کی وجہ سے ایسا کہ رہا ہے ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا ہو سکتا ہے وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوگيا ہو ۔ بہر حال میں آپ کی نئی ڈیفینیشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ میری پچھلی پوسٹ اپ کی پچھلی ڈیفینیشن کے تناظر میں تھی ۔
معذرت چاہتا ہوں کہ پہلے پیش کئے گئے الفاظ سے غلط مفہوم برآمد ہوا۔ لیکن محترم یہ بھی تو دیکھئے کہ آپ نے جو پہلی ڈیفینیشن کوٹ کی ہے وہ ناصر بھائی کے الفاظ تھے جنہیں میں نے کوٹ کیا تھا۔ پھر اس کی پوری تشریح میں میری اوپر موجود پوسٹ نمبر 67 موجود ہے ۔ جس میں میں نے وضاحت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا تھا۔اور اس پوسٹ 67 ہی کے جواب میں آپ نے تفصیلی پوسٹ بمعہ دو امثلہ پیش کی تھیں۔ دراصل اردو (ساری، مکمل، پوری) اور عربی (ذراع، ساعد) کے الفاظ کو ملا کر لکھنے سے اور نیز اس تاویل کہ ’ذراع سے بعض الذراع مراد لینا چاہئے‘ کے جواب میں پورے ذراع یا پورے ساعد کے الفاظ استعمال کرنے پڑے ۔ ورنہ شروع سے موقف وہی ہے کہ ذراع کے اپنے معانی میں پورے یا مکمل کا مفہوم موجود ہے۔ جسے میں نے اپنی گزشتہ پوسٹ میں لال حروف میں ہائی لائٹ بھی کیا ہے۔ اور جہاں مکمل ذراع کے لکھنے کی ضرورت تھی تو وہاں مکمل کو بھی بریکٹس میں کر دیا تھا۔ مثلاً گزشتہ پوسٹ کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

گویا ساعد اور ذراع ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ان احادیث میں حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی اوربیچ کی انگلی تک کے ’مکمل‘ حصہ (یعنی ذراع یا رسغ و ساعد) پر رکھیں۔ اب آپ حدیث میں بیان کردہ دائیں ہاتھ یا الید کا مطلب وہی لے سکتے ہیں جو اس قرینہ پر پورا اتر سکے۔ یعنی الید کا ایسا مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ جس سے (مکمل) ذراع پر ہاتھ نہ رکھا جا سکے۔
نوٹ: محترم میں نے احناف پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ لیکن آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ہمارے درمیان اگر اچھے الفاظ میں ہی گفتگو جاری رہے تو مشکور رہوں گا۔

یعنی اگر میں کہوں کہ ساعد یا ذراع اگو عموم معنوں میں کہیں آتا ہے تو اس مراد کہنی تک کا ہاتھ ہوگا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟ اس کا جواب دیجیئے گا پھر آکے بات کرتے ہیں
جی بھائی اگر ساعد یا ذراع کا لفظ کہیں استعمال ہو۔ تو اس کے عمومی معنیٰ میں کہنی تک کا ہاتھ شامل ہوگا۔ اگر کوئی واضح قرینہ اس معنی کے لینے میں مانع ہو تو یہ معنی نہیں لیا جائے گا ورنہ میرے ناقص علم میں ہمیشہ ساعد و ذراع سے کہنی تک کا ہاتھ ہی مراد ہوگا۔ واللہ اعلم!

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کو دھویا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذراع (بمفہوم کہنی تک بازو کا مکمل حصہ) کو نہیں دھویا بلکہ صرف بعض کو دھویا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔
میرا جواب ہے کہ یہاں ذراع میں کامل کی تخصیص ہے ۔ اور بعض کی تخصیص نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی صحیح احادیث میں غسل کے سلسے میں الفاظ آئے ہیں

ثم غسل سائر جسده،

ثم أفاض الماء على سائر جسده


سائر جسد کے الفاظ ہوتے ہوئے بعض ذراع کی تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ ذراع جسد کا حصہ ہے سائر جسد کی وجہ سے کامل ذراع کی تخصیص کرنا پڑے گی بعض کی نہیں ۔ اس میں تو تخصیص کے لئیے دلیل ہے تو آپ نے ایک ایسی مثال کیوں دی جس میں تخصیص ہے ۔ بات تو عموم پر ہے ۔
جی یہ مثال دینے کا مقصد یہی تھا جو بحمدللہ پورا ہوا۔ دیکھیں بھائی، آپ یہاں خود مان رہے ہیں کہ ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کے معنی مراد نہیں لئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ قرینہ موجود ہے اور قرینہ ہے سائر جسد کے الفاظ ۔ یعنی سائر جسد کےا لفاظ دراصل ذراع کے عمومی معنی کی تخصیص کر رہے ہیں۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ:
سائر جسد کے الفاظ ہوتے ہوئے بعض ذراع کی تخصیص نہیں ہوسکتی
جی بالکل نہیں ہو سکتی۔ متفق۔

اور یہی شروع سے اب تک ہم کہتے آ رہے ہیں کہ حالت نماز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع پر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تو اب ذراع کے عمومی معنی ہی لئے جائیں الا یہ کہ کوئی تخصیص موجود ہو جو یہ عمومی معنی لینے میں مانع ہو۔ جیسے کہ درج بالا مثال میں کتنی آسانی سے بات طے پا گئی کہ جی سائر جسد کے الفاظ ذراع کو اپنے عمومی معنوں میں لینے میں حائل ہیں لہٰذا بعض الذراع مراد ہی نہیں لیا جا سکتا۔ اب یہی گزارش آپ سے ہے کہ حالت نماز میں بحالت قیام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع یا رسغ و ساعد پر رکھو تو یہاں ذراع سے بعض الذراع اور ساعد سے بعض الساعد کی تخصیص کس دلیل کی بنا پر ہے۔ بس یہ دلیل بیان کر دیں اور مسئلہ حل ۔ اگر دلیل مل جائے تو ہمارا اس حدیث سے سینے پر ہاتھ رکھنے کا استدلال غلط۔ اور اگر دلیل نہ ملے تو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت پکا۔ آپ اتفاق کرتے ہیں؟

آپ نے جو یہ کہا:
سائر جسد کی وجہ سے کامل ذراع کی تخصیص کرنا پڑے گی
دیکھئے، آپ خود مجبوراً یہاں کامل ذراع کے الفاظ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ بھی بعض الذراع کے الفاظ سے مغائرت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اور اردو عربی مکس ہونے کی وجہ سے یہ ایک مجبوری ہے، اور یہی وجہ تھی کہ ہماری بھی پہلی پوسٹس میں کامل ذراع کا لفظ استعمال ہوا تھا۔

یہاں آپ نے کچھ جنرل مثالیں ذکر کیں ۔ ان مثالوں سے بات کہیں بھی نہیں پہنچتی ۔مکالمہ کو طول ضرور دیتی ہے اپنی مثال کاجواب سن لیں ۔ فٹ ایک اکائی ہے ناپ کی ۔ اپ یورپ چلے جائیں یا بھائی پھیرو (مجھے اس جگہ کا نام بہت پسند ہے اس لئیے مثال میں اس جگہ کا نام لیا ) فٹ کا ایک ہی معیار ہو گا لیکن ساعد کی لمبائی چوڑائی مین فرق ہوگا ۔
محترم معذرت کے ساتھ کہ یہاں بھی آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مثال دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک ایک جزو میں بھی مماثلت ہو۔ میرا استدلال یہ تھا کہ جیسے فٹ میں مکمل بارہ انچ کا مفہوم موجود ہے اور اس عمومی مفہوم کی تخصیص بغیر قرینہ کے درست نہیں۔ ویسے ہی ذراع میں مکمل کہنی تک ہاتھ کی لمبائی شامل ہے اور اس میں قرینہ کے بغیر تخصیص درست نہیں۔
فٹ سے مراد مکمل بارہ انچ یورپ اور بھائی پھیرو میں لئے جاتے ہیں، اسی طرح ذراع سے مراد کہنی تک کا ہاتھ عرب و عجم میں لیا جانا چاہئے۔ یہاں ہم کہنی تک کے ہاتھ کے معنی لے رہے ہیں اس میں کسی ہاتھ کی لمبائی کم ہو یا زیادہ اس سے استدلال پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دوسری بات جو ذیادہ ضروری ہے اگر کہا جائے ایک فٹ کی مکھی دیکھی تو ذہن میں بارہ انچ کی مکھی ذہن میں آئے گی (ذہن اتنی لمبائی قبول کرے یا نہیں لیکن لمبائی 12 انچ ذہن میں آئے گی ) لیکن اگر کہا جائے مکھی ساعد یا ذراع پر بیٹھی تو آپ نے کہا تھا کہ ۔ اب ساعد اور ذراع کے اپنے معنی میں کہنی تک کے مکمل ہاتھ کا مفہوم پایا جاتا ہے تو کوئی بھی اس عموم کا معنی نہ لے گا ۔ کیوں عموم کا مطلب ہے مکھی پورے ساعد پر بیٹھی ۔
اس لئیے فٹ کی مثال ذراع اور ساعد ثابت کرنے کے لئیے بالکل غلط ہے ۔
بھائی مجھے تو اس مثال سے کچھ بھی سمجھ نہیں آ سکا۔ ذرا وضاحت فرما دیں تو بات سمجھنے میں آسانی ہو۔

اب رسغ و ساعد اور ذراع سے بعض الساعد یا بعض الذراع کا معنی لینے کے لئے جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو تب تک ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کیسے مراد لیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب میں نے ایک سوال آپ سے پوچھا ہے کہ کیا میں صحیح سمجھا کے جواب کے بعد دوں گا ان شاء اللہ
جی جواب دیا جا چکا ہے۔ اب آپ سے بھی دیانت کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

ایک بات یہ بھی نوٹ فرمائیں کہ احناف جس طریقہ پر زور دیتے ہیں وہ یہ کہ آپ دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے کلائی کو تھامیں اور باقی تین انگلیاں بعض الساعد پر رکھیں۔ جبکہ حدیث میں الید کو رسغ و ساعد یا ذراع پر رکھنے کا حکم ہے۔ اگر آپ دائیں الید سے مراد مفصل تک ہاتھ لے لیں ( جو کہ ید کے مفہوم میں موجود کم سے کم لمبائی کی مقدار ہے) اور اس کو کلائی اور کلائی کے بعد کے حصہ پر (یعنی بعض الساعد پر) رکھیں۔ تب بھی ہاتھ فوق السرۃ ، ناف سے کچھ اوپر تک ہی آئیں گے
انگلیآں الید کا حصہ ہیں اگر یہ بعض رسغ پو ہوں تو ناف کے نیچے ہاتھ آسکتے ہیں
سبحان اللہ۔ میرے بھائی، آپ اپنی پوسٹ نمبر ۶۱ ملاحظہ فرمائیں: آپ کے الفاظ یہاں کوٹ کر دیتا ہوں:

عربي میں يد کے کئی معنی پائے جاسکتے ہیں

1- مفصل تک
2- ما دون المرفق
3- الی المنکب
محترم، ہم اب کیا کہیں۔ بہرحال۔ اگر آپ الید سے بھی بعض الید مراد لینا چاہتے ہیں تو ازراہ کرم اب یہ بھی بتا دیں کہ ید کے عمومی معنی لینے کے بجائے آپ کے بعض الید مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ آپ بھی تحقیق کے داعی ہیں ماشاءاللہ، تو پھر یا تو دلائل دیں یا قبول فرما لیں کہ یہاں بعض الید مراد لینے کی کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا ہاتھ کم سے کم زیر ناف تو نہیں پہنچ سکتے۔

جیسا کہ ہمارا اتفاق ہے کہ یا تو ہاتھ زیر ناف رکھے جائیں گے یا سینے پر)۔
نہیں بھائی ایسا کوئی اتفاق نہيں ۔ سینے پر بھی ہاتھ باندھنے کی روایت ضعیف اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی بھی روایت ضعیف تو اگر کوئی ناف پر بھی ہاتھ باندھتا ہے تو وہ کسی صحیح حدیث کا تارک نہیں کہلائے گا۔
جی بھائی، چاہے وہ شخص آپ کی نظر میں کسی صحیح حدیث کا تارک نہ ہو۔ تب بھی کسی ضعیف حدیث کا تارک تو ہوگا ہی کہ نہیں؟ ہم تو احناف کا یہی دعویٰ سنتے آئے ہیں کہ وہ قیاس کو ضعیف حدیث کے مقابل بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ چونکہ (اب تک) حنفی ہیں لہٰذا آپ کو ماننا چاہئے کہ جو شخص ضعیف حدیث کے بالمقابل قیاس پر عمل کرتے ہوئے فوق السرۃ یا پیٹ پر ہاتھ باندھے تو وہ ایک غلط کام ہی کر رہا ہوگا۔ ورنہ یہ فرمائیں کہ کیا گردن پر ہاتھ باندھنے والا بھی آپ کے نزدیک اتنا ہی درست ہے جتنا زیر ناف، یا سینے پر یا پیٹ پر ہاتھ باندھنے والا شخص؟

الا یہ کہ آپ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو نہ ڈھانپیں اور براہ راست کلائی کو پکڑ لیں۔ ۔۔اور انگریزی حرف V کی شکل میں ہاتھ باندھ لیں۔ ( جو کہ پیش کی گئی صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کے خلاف ہو جائے گا کیونکہ اس میں ہتھیلی کے ڈھانپنے کا بھی ذکر ہے)۔
ابن خزیمہ کی روایت عربی متن کے ساتھ بتائیں پھر اس پر بات ہوگی ۔ مجھے کیا معلوم آپ کون سی روایت کا ریفرینس دے رہے ہیں ۔
محترم، عرض ہے کہ اسی ابن خزیمہ ہی کی روایت پر بحث چل رہی ہے اور عربی متن بھی کئی بار پیش کیا جا چکا ہے۔ (دلیل نمبر ۱)۔بہرحال پھر پیش خدمت ہے۔ گزارش ہے کہ صحیح احادیث کے الفاظ کو یوں سمجھ کر ہی پڑھا کریں کہ جیسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے بذات خود یہ الفاظ سماعت فرما رہے ہوں۔ اس سے قلب پر پڑنے والا اثر مختلف ہوتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
آپ نے اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا کہ ذراع اور رسغ و ساعد کے دو علیحدہ علیحدہ الفاظ پیش کی گئی کثیر صحیح احادیث میں استعمال ہوئے ہیں اور حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے کے مصداق ہم ساعد کی تشریح ذراع سے یا ذراع کی تشریح ساعد سے کریں تو ان دونوں الفاظ سے لئے جانے والے عمومی معنیٰ ہی کو تقویت پہنچتی ہے۔

آپ کو میرا اخلاص اس لئیے مشکوک لگ سکتا ہے کیوں کہ آپ کے نظریات مجھ سے میچ نہين ہوتے ۔
جی بھائی، میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آپ کی بات بالکل درست ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انسانی نفسیات ہیں ان سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں۔
[میں یہاں مزید کچھ لکھنا چاہتا تھا، لیکن اس لئے نہیں لکھ رہا کہ ’لیکن‘ کے بعد جو بھی لکھوں گا وہ آپ کو نامناسب محسوس ہوگا]
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جہاں تک شرعی مسائل کو لغت کے سہارے بیان کرنے کی بات ہے تو یہ احناف کی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کیا آپ بھول گئے کہ یہاں امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم نامی تھریڈ میں آپ ہی نے صاحب ہدایہ کا فتویٰ پیش کیا تھا جہاں وہ قرآن کی تفسیر حدیث کے بجائے لغت کے سہارے کر رہے تھے
آپ نے جس لفت سے استفادہ کی کوشش کی وہ اردو سے اردو لغت ہے ۔ اس لئیے اس کا اعتبار تو عربی عبارت کے لئیے نہیں کیا جاسکتا ۔

بعض عربی کے الفاظ ہیں جس کے شرعیت میں مخصوص مفہوم ہے اور ان کی کیفیت شرعی دلائل سے معلوم ہے جیسے صلاہ صیام وغیرہ ۔ یہاں ان الفاط کا شرعی معنی ڈھونڈنے میں لغت نہیں دیکھیں گے ۔ اگر عربی زبان بولیں تو لغت کا سہارہ لیں گے اگر آپ عربی جانتے ہوتے اور عرب میڈیا پر خبریں پڑہتے تو آپ کو پتا چلتا کہ وہاں عیسائیوں کی عبادت کے لئیے بھی صلاہ کا لفظ ممنوع نہیں کیوں کہ صلاہ کا لفظی معنی عبادت اور دعا کے ہیں ۔ لیکن شرعیت میں جب ان الفاظ کا استعمال ہو گا تو وہ مفہوم ہو گا جو شرعیت نے متعین کیا ہے
ایک بات یاد آئی ۔ کافی پرانا واقعہ ہے ۔ ایک بزرگ نے یہ بات بتائی تھی ۔ جب نہرو جو انڈیا کے وزیر اعظم تھے کسی خلیجی ملک کے دورے پرگئے ۔ اس وقت غالبا ریڈیو بھی اتنا عام نہ تھا ۔ وہاں کے اخبارات میں ان کو السید نہرو کہا گيا ۔ سید کا عام عربی میں ترجمہ مسٹر کے طور پر آتا ہے ۔ بریلوی اور شیعہ تو خلیجی ممالک سے خار کھاتے ہیں ۔ کیوں وہاں رد بدعت اور شرک کے لئیے وہاں کے حکمرانوں نے کافی کام کیا ہے ۔ تو بریلوی ذہن رکھنے والوں نے کہا لو دیکھو نہرو کو بھی ان وہابیوں نے سید کہ دیا ۔ اور کافی اس سلسلے میں پروپیگنڈا کیا۔
بہر حال کہنے کا مطلب ہے شرعیت کی اصطلاحات کا وہی مفہوم لیں گے جو شرعی دلائل سے معلوم ہوں ۔
لیکن بعض جگہ نص سے الفاظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو مستند عربی لغت کا سہارہ لیا جاتا ہے جیسے اس تھریڈ میں ساعد اور ذراع کی معنی کے لئیے بھی لغت کا سہارا لیا گیا اور میں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ کیوں کہ یہاں لغت کا سہارہ ہی لینا تھا ۔
ہدایہ نے بھی جو حمل کے لئیے گود کے معنی لغت سے لئیے وہاں بھی یہی وجہ تھی ۔ اکثر مفسرين کرام نے حمل سے مراد ماں کا بچہ کوپیٹ میں اٹھانا مراد لیا ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں لیکن یہاں نص سے کوئی معنی مراد نہیں ۔ اس لئیے اگر کسی نے گود میں اٹھانا مراد لئیے ہیں تو اس کو زیادہ سے ذیادہ اجتہادی غلطی کہ سکتے ہیں اور کچھ نہیں
اسی طرح ستر کے معنی بھی شرعی دلائل سے واضح ہیں وہاں لغت کا سہارہ نہیں لے سکتے ۔ اور خواتین تو سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں اور وہ ان کا ستر بھی ہے معاذ اللہ کیا یہ کہا جائے کہ وہ شرمگاہ پر ہاتھ باندھتیں ہیں ۔ ان کے تو پیٹ اور بال بھی ستر میں داخل ہیں تو کیا وہ بھی شرمگاہ کہلائے گی ؟؟؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
جی بھائی اگر ساعد یا ذراع کا لفظ کہیں استعمال ہو۔ تو اس کے عمومی معنیٰ میں کہنی تک کا ہاتھ شامل ہوگا۔ اگر کوئی واضح قرینہ اس معنی کے لینے میں مانع ہو تو یہ معنی نہیں لیا جائے گا ورنہ میرے ناقص علم میں ہمیشہ ساعد و ذراع سے کہنی تک کا ہاتھ ہی مراد ہوگا۔
اور درج بالا دونوں امثلہ میں یہ بھی غور فرمائیں کہ قرینہ بھی موجود ہے۔ اور وہ قرینہ یہ ہے کہ المیتۃ یا وصل کا بعض حصہ کھائے بغیر آپ پورا کھا ہی نہیں سکتے۔ اور عرف یہ ہے کہ جو چیز پوری حرام یا مکروہ ہے تو آدھی بھی حرام یا مکروہ ہی ہوگی۔
آپ نے عرف اور قرینہ کی بات کی۔ اگر کوئی قرینہ نہ ہو تو الساعد سے مراد کہنی تک لیں گے

میرا نظریہ یہ ہے کہ کسی لفظ کا عموم میں بعض بھی شامل ہے اور کامل بھی ۔ مثال دیکھیں پانی کسی برتن میں ہو اور کوئی اس میں سے پانی پيے تو کہا جائے کہ اس نے پانی پیا تو یہاں پانی پینے سے مراد پورا گلاس پینا بھی ہوسکتا ہے اور آدھا گلاس پانی پینے کا احتمال ہے ۔ تو اس عموم میں نہ کامل کی تخصیص ہے اور نہ بعض کی۔

عربی کا شعر ملاحظہ فرمائیں ۔

إِنَّكِ لَوْ شَهِدْتِ يَوْمَ الْخَنْدَمَهْ
ذْ فَرَّ صَفْوَانُ وَفَرَّ عِكْرِمَهْ
وَاسْتَقْبَلَتْنَا بِالسُّيُوفِ الْمُسْلِمَهْ
يَقْطَعْنَ كُلَّ سَاعِدٍ وَجُمْجُمَهْ
ضَرْبًا فَلَا يُسْمَعُ إِلَّا غَمْغَمَهْ
لَمْ تَنْطِقِي فِي اللُّوَّمِ أَدْنَى كَلِمَهْ

کیا ساعد کو کہنی سے کاٹا گیا یا بیچ میں سے ؟

أَخْرَجَ ابْنُ السُّنِّيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ : مَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بِيَدِ رَجُلٍ فَفَارَقَهُ حَتَّى قَالَ اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

وَعَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ : إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا لَقِيَ أَخَاهُ فَأَخَذَ بِيَدِهِ تَحَاتَّتْ عَنْهُمَا ذُنُوبُهُمَا كَمَا يَتَحَاتُّ الْوَرَقُ عَنِ الشَّجَرَةِ الْيَابِسَةِ فِي رِيحِ يَوْمٍ عَاصِفٍ ، وَإِلَّا غُفِرَ لَهُمَا وَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُهُمَا مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ ، انْتَهَى .


یہاں کیا آپ اليد سے مراد کندھے تک لیں گے کیوں کہ عموم کے معنی میں ہے اور عموم میں آپ اليد کندھے تک لیتے ہیں ۔

ابن باز کا فتوی پڑھیں وہ بھی بعض الساعد کا معنی لے رہے ہیں ۔
نعم جاءت السنة عن النبي - صلى الله عليه وسلم –أنه في حال قيامه يضع كفه اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد، وفي بعضها على كوعه، والكوع هو العظم الذي يلي الإبهام، وما يلي الخنصر يقال له كرسوع، والمعنى أن يضع يده على مفصل الكف من الذراع فيكون وضع اليمنى على كفه اليسرى وعلى رسغها، وعلى ساعدها، هذا هو السنة في حال قيام في الصلاة،
كيفية وضع الأيدي في الصلاة | الموقع الرسمي لسماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز

الساعد کی کہنی تک کے معنی انہوں نے بھی نہیں لئیے ۔

عموم میں کامل اور بعض کی تخصیص نہیں ہوتی ۔ آپ نے غسل کے سلسلے میں جو حدیث بیان کی اس کی سپورٹ میں جو دوسری حدیث ہے اجس میں سائر جسد کے الفاظ تھے اس دوسری حديث سے وہاں کامل کے معنی کی تخصیص ہو ئی تھی اور اس لئیے بعض کا معنی پیدا نہ ہوا ۔

إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه
مذید جب آپ سجدہ میں جاتے ہیں اور آپ پہلے ہاتھ رکھتےہیں تو اس ہاتھ کی مقدار کیا ہونی چاہئیے ۔ ویسے تو ہاتھ کندھے تک ہوتا ہے لیکن اس طرح سجدہ میں جانا نا ممکن ہے اور قرینہ کے خلاف کی وجہ سے یہ معنی نہ لیں گے لیکن کہنی تک رکھنا تو ممکن ہے تو آپ سجدہ میں جاتے ہوئے کہاں تک الید رکھتے ہیں ۔

اور سجدہ کی حالت ميں کتنا ہاتھ زمیں پر رکھتے ہیں ۔
حدیث کی روشنی میں بتائیں اور عموم کا معنی لیجیے گا۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم آفتاب بھائی،
مجھے اب سمجھ آ گیا ہے کہ آپ کیوں دیانتداری سے تحقیق کے باوجود اب تک حنفی ہی ہیں۔ اللہ ہی ہے جو دلوں کو پھیرتا ہے۔ اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اور میرے دلوں کو بھی ہدایت ہی کی طرف پھیر دے اور اسی پر قائم رکھے، اسی پر موت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

میرا نظریہ یہ ہے کہ کسی لفظ کا عموم میں بعض بھی شامل ہے اور کامل بھی ۔
محترم بھائی، اس نظریہ کو مان لینے سے لغت کی غالباً نئے سرے سے تدوین کرنی ضروری ہو جائے گی۔ لہٰذا اس اہم بات کے ثبوت کے طور پر کسی لغت کی کتاب کا حوالہ دے دیں یا کسی لغوی ماہر کی کوئی بات نقل کر دیں تو ہم ساعد و ذراع کے الفاظ سے سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل سے فوری دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیجئے گا کہ کیا آپ کے نزدیک لفظ کے عموم میں بعض اور کل جو شامل ہے، یہ لغت کے ہر لفظ کو شامل ہوتا ہے یا خاص ساعد و ذراع کے الفاظ ہی پر یہ نظریہ لاگو ہوگا؟

مثال دیکھیں پانی کسی برتن میں ہو اور کوئی اس میں سے پانی پيے تو کہا جائے کہ اس نے پانی پیا تو یہاں پانی پینے سے مراد پورا گلاس پینا بھی ہوسکتا ہے اور آدھا گلاس پانی پینے کا احتمال ہے ۔ تو اس عموم میں نہ کامل کی تخصیص ہے اور نہ بعض کی۔
بھائی میرا مبلغ علم بہت تھوڑا سا ہے۔ آپ کی کچھ باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔ مثلاً یہ فرمائیں کہ اس مثال میں وہ کون سا لفظ ہے جس میں بعض اور کل کے دونوں معنی پائے گئے ہوں؟؟ یہ مجہول عبارت آپ کے نظریہ کی بہرحال تائید نہیں کرتی۔

ہم نے ساعد و ذراع کے الفاظ کے معنی لغت سے بیان کر دئے جس میں کہنی تک کا ہاتھ کا مفہوم شامل ہے۔اگر آپ کے نظریہ کو درست مان لیا جائے تو ماہرین لغت کو اس لفظ کے معنی میں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ:
کلائی تک کا ہاتھ بھی ساعد اور ذراع کہلاتا ہے۔
ہاتھ کی درمیانی انگلی سے لے کر کہنی اور کلائی کے بیچ تک کا حصہ بھی ذراع کہلاتا ہے وغیرہ۔

اگر کسی لغت سے آپ ذراع و ساعد کا ایسا کوئی معنی بتا سکیں تو فبہا اور نہ بتا سکیں تو ازراہ کرم اپنے نظریہ سے دستبردار ہو جائیں اور کوئی دوسری تاویل بتائیں۔
اور اس سے قبل کہ آپ کوئی ایسا اعتراض کر دیں کہ جب کہنی تک کا ہاتھ کہہ دیا تو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ رہی کہ درمیانی انگلی سے کلائی تک اور درمیانی انگلی سے کلائی اور کہنی کے بیچ تک کا حصہ یعنی بعض الذراع بھی ذراع ہی ہے۔

میں اس ممکنہ جواب کے تعلق سے آپ کی توجہ الید کے معنی کی طرف دلانا چاہوں گا۔ کہ الید کے معنی میں لغت میں صراحت ہے کہ اس کے مختلف معنی، کلائی تک، کہنی تک اور کندھے تک لئے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ صرف کندھے تک کہہ دیا جاتا تو کلائی اور کہنی خود بخود اس میں شامل ہو جاتیں۔ لیکن جب وہاں ماہرین صراحت کے ساتھ الید کے مختلف معنی مختلف مقامات تک بتاتے ہیں تو یہاں ذراع و ساعد ہی میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اور کیوں تمام لغات ذراع و ساعد کے یکساں معنی کہنی تک بتلانے پر متفق ہیں؟

نیز جو منفرد نظریہ آپ پیش کر رہے ہیں اس کی تائید میں آپ کو ہرگز مثالیں دینے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی مثالوں سے یہ نظریہ ثابت ہی ہوگا۔ بلکہ اس کے لئے آپ کو اس فن کے ماہرین کے حوالہ جات پیش کرنے ہیں، یا لغت سے ان خاص ذراع و ساعد کے الفاظ میں یہ تخصیص دکھانی ہوگی کہ دیکھیں جی فلاں لغت کے حساب سے ذراع کا مفہوم بعض الذراع بھی ہو سکتا ہے۔

اور ایک گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس صحیح بخاری کی حدیث پر یہ بحث چل رہی ہے۔ اور دلیل نمبر ایک کے عنوان کے تحت جو حدیث پیش کی گئی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ آپ کے نزدیک کیا ہوگا؟ اردو سمجھنے والے لوگ ذراع یا ساعد سے ناواقف ہیں۔ آپ ازراہ کرم حدیث کا اردو ترجمہ کر دیں تاکہ آسانی ہو یہ سمجھنے میں کہ آپ کیسے اس حدیث پر عمل کریں گے؟

نیز پچھلی پوسٹ میں جو آپ نے الید سے مراد بعض الید یا انگلیاں لی تھیں، اس کی بھی کوئی دلیل پیش کر دیں یا وہ بھی آپ کے اس پیش کردہ نظریہ کے تحت داخل ہے؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
گڈ مسلم صاحب نے کہا تھا ۔
2۔ٹھیک ہے بھائی لغت میں الید کے معنی ہاتھ ہیں اور اس کا اطلاق مونڈھے سے انگلیوں کے کناروں تک ہوتا ہے۔(حوالہ،القاموس الوحید۔تالیف مولانا وحیدالزماں قاسمی کیرانوی،ادارہ اسلامیات لاہور۔کراچی،اشاعت اول جون2001،صفحہ نمبر1910) یہ لیں بھائی حو الہ۔
یہاں پر کسی نے اعتراض نہ کیا اور اور ان کی بات کو کسی نے رد نہ کیہ ۔ تو میں سمجھا آپ حضرات الید کے یہی معنی لیتے ہیں ۔ اس سوچ میں الید کے حوالہ سے کچھ باتیں نقل کیں کہ مصافحہ کے لئیے الید کا لفظ آیا ۔ سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدہ میں الید کا لفظ آیا اور اس تناظر میں ان احادیث کا مطلب پوچھا تو راجا صاحب کی طرف سے جواب آیا ۔
میں اس ممکنہ جواب کے تعلق سے آپ کی توجہ الید کے معنی کی طرف دلانا چاہوں گا۔ کہ الید کے معنی میں لغت میں صراحت ہے کہ اس کے مختلف معنی، کلائی تک، کہنی تک اور کندھے تک لئے جا سکتے ہیں

مجھے سمجھ میں نہیں آرہا میں اس بحث کو آگے کس طرح چلاؤں ۔ پہلے بھی عموم کی معنی اور مطلب میں ایسا ہی ہوآ تھا ۔ ایک صاحب نے ایک بات کی ۔ بعد میں کچھ صاحب نے دوسری تعریف کردی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا میں کس سے کس طرح بات کروں ۔ کیا میں ہر ایک سے پہلے اس سے اصطلاحات کا معنی پوچھ لوں ۔ اس طرح تو بات کبھی ختم نہ ہوگی

میرا مقصد صرف اہل حدیث کے مسلک کی تحقیق ہے ۔ کسی کو دلائل سے مغلوب کرنا نہیں ۔ کئی فورم پر یہی حال ہے ۔ ایک تھریڈ میں اگر احناف کے اعتراضات کے جواب دے دیے جاتے ہیں تو نئے تھریڈ میں دوبارہ وہی اعتراضات اجاتے ہیں ۔ یعنی جواب کی فکر نہیں بس اعتراضات کرتے ہیں ۔
میں نے سوال و حواب کے سیکشن میں بھی سوالات کیے ۔ آخر میں جواب آیا مکالمہ کے سیکشن میں چلیں جائیں ۔
اب مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ آگے کیسے بڑھوں ؟
بس ایک گذرارش ہے کہ اللہ سے دعا کردیں کہ اللہ مجھے حق تک پہنچنے کی توفیق دے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بس ایک گذرارش ہے کہ اللہ سے دعا کردیں کہ اللہ مجھے حق تک پہنچنے کی توفیق دے ۔
آمین اور ہم سب کو بھی!
اللهم اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين غير المغضوب عليهم ولا الضالين
 
Top