پہلے آپ حضرات کی طرف سے جواب آیا
بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے
اور میرے خیال میں ساری تو کا مل کو کہتے ہیں ۔ جب ڈیفینیشن آپ کے مسلک سے ٹکرائی تو ڈیفینیشن بدل گئی اور جواب آیا
میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ساعد سے کامل ساعد مراد لو۔ بلکہ یہ کہا ہے کہ ساعد سے ساعد اور ذراع سے ذراع ہی مراد لیا جائے۔ اس کے جو بھی معنی ہیں، اس میں کسی قسم کی تخصیص نہ کریں
میں آپ کی نئی ڈیفیشن مان لوں گا لیکن صدق دل سے بتائیں اگر اس طرح کوئی حنفی پلٹہ کھائے تو فورا کہا جاتا ہے کہ اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کی وجہ سے ایسا کہ رہا ہے ۔ یہ نہیں دیکھا جاتا ہو سکتا ہے وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوگيا ہو ۔ بہر حال میں آپ کی نئی ڈیفینیشن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ۔ میری پچھلی پوسٹ اپ کی پچھلی ڈیفینیشن کے تناظر میں تھی ۔
معذرت چاہتا ہوں کہ پہلے پیش کئے گئے الفاظ سے غلط مفہوم برآمد ہوا۔ لیکن محترم یہ بھی تو دیکھئے کہ آپ نے جو پہلی ڈیفینیشن کوٹ کی ہے وہ ناصر بھائی کے الفاظ تھے جنہیں میں نے کوٹ کیا تھا۔ پھر اس کی پوری تشریح میں میری اوپر موجود پوسٹ نمبر 67 موجود ہے ۔ جس میں میں نے وضاحت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا تھا۔اور اس پوسٹ 67 ہی کے جواب میں آپ نے تفصیلی پوسٹ بمعہ دو امثلہ پیش کی تھیں۔ دراصل اردو (ساری، مکمل، پوری) اور عربی (ذراع، ساعد) کے الفاظ کو ملا کر لکھنے سے اور نیز اس تاویل کہ ’ذراع سے بعض الذراع مراد لینا چاہئے‘ کے جواب میں پورے ذراع یا پورے ساعد کے الفاظ استعمال کرنے پڑے ۔ ورنہ شروع سے موقف وہی ہے کہ ذراع کے اپنے معانی میں پورے یا مکمل کا مفہوم موجود ہے۔ جسے میں نے اپنی گزشتہ پوسٹ میں لال حروف میں ہائی لائٹ بھی کیا ہے۔ اور جہاں مکمل ذراع کے لکھنے کی ضرورت تھی تو وہاں مکمل کو بھی بریکٹس میں کر دیا تھا۔ مثلاً گزشتہ پوسٹ کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
گویا ساعد اور ذراع ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ان احادیث میں حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی اوربیچ کی انگلی تک کے ’مکمل‘ حصہ (یعنی ذراع یا رسغ و ساعد) پر رکھیں۔ اب آپ حدیث میں بیان کردہ دائیں ہاتھ یا الید کا مطلب وہی لے سکتے ہیں جو اس قرینہ پر پورا اتر سکے۔ یعنی الید کا ایسا مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ جس سے (مکمل) ذراع پر ہاتھ نہ رکھا جا سکے۔
نوٹ: محترم میں نے احناف پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ لیکن آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں الزام تراشی کر رہے ہیں۔ ہمارے درمیان اگر اچھے الفاظ میں ہی گفتگو جاری رہے تو مشکور رہوں گا۔
یعنی اگر میں کہوں کہ ساعد یا ذراع اگو عموم معنوں میں کہیں آتا ہے تو اس مراد کہنی تک کا ہاتھ ہوگا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟ اس کا جواب دیجیئے گا پھر آکے بات کرتے ہیں
جی بھائی اگر ساعد یا ذراع کا لفظ کہیں استعمال ہو۔ تو اس کے عمومی معنیٰ میں کہنی تک کا ہاتھ شامل ہوگا۔ اگر کوئی واضح قرینہ اس معنی کے لینے میں مانع ہو تو یہ معنی نہیں لیا جائے گا ورنہ میرے ناقص علم میں ہمیشہ ساعد و ذراع سے کہنی تک کا ہاتھ ہی مراد ہوگا۔ واللہ اعلم!
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کو دھویا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذراع (بمفہوم کہنی تک بازو کا مکمل حصہ) کو نہیں دھویا بلکہ صرف بعض کو دھویا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔
میرا جواب ہے کہ یہاں ذراع میں کامل کی تخصیص ہے ۔ اور بعض کی تخصیص نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی صحیح احادیث میں غسل کے سلسے میں الفاظ آئے ہیں
ثم غسل سائر جسده،
ثم أفاض الماء على سائر جسده
سائر جسد کے الفاظ ہوتے ہوئے بعض ذراع کی تخصیص نہیں ہوسکتی ۔ کیوں کہ ذراع جسد کا حصہ ہے سائر جسد کی وجہ سے کامل ذراع کی تخصیص کرنا پڑے گی بعض کی نہیں ۔ اس میں تو تخصیص کے لئیے دلیل ہے تو آپ نے ایک ایسی مثال کیوں دی جس میں تخصیص ہے ۔ بات تو عموم پر ہے ۔
جی یہ مثال دینے کا مقصد یہی تھا جو بحمدللہ پورا ہوا۔ دیکھیں بھائی، آپ یہاں خود مان رہے ہیں کہ ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کے معنی مراد نہیں لئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ قرینہ موجود ہے اور قرینہ ہے سائر جسد کے الفاظ ۔ یعنی سائر جسد کےا لفاظ دراصل ذراع کے عمومی معنی کی تخصیص کر رہے ہیں۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ:
سائر جسد کے الفاظ ہوتے ہوئے بعض ذراع کی تخصیص نہیں ہوسکتی
جی بالکل نہیں ہو سکتی۔ متفق۔
اور یہی شروع سے اب تک ہم کہتے آ رہے ہیں کہ حالت نماز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع پر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ تو اب ذراع کے عمومی معنی ہی لئے جائیں الا یہ کہ کوئی تخصیص موجود ہو جو یہ عمومی معنی لینے میں مانع ہو۔ جیسے کہ درج بالا مثال میں کتنی آسانی سے بات طے پا گئی کہ جی سائر جسد کے الفاظ ذراع کو اپنے عمومی معنوں میں لینے میں حائل ہیں لہٰذا بعض الذراع مراد ہی نہیں لیا جا سکتا۔ اب یہی گزارش آپ سے ہے کہ حالت نماز میں بحالت قیام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ذراع یا رسغ و ساعد پر رکھو
تو یہاں ذراع سے بعض الذراع اور ساعد سے بعض الساعد کی تخصیص کس دلیل کی بنا پر ہے۔ بس یہ دلیل بیان کر دیں اور مسئلہ حل ۔ اگر دلیل مل جائے تو ہمارا اس حدیث سے سینے پر ہاتھ رکھنے کا استدلال غلط۔ اور اگر دلیل نہ ملے تو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت پکا۔ آپ اتفاق کرتے ہیں؟
آپ نے جو یہ کہا:
سائر جسد کی وجہ سے کامل ذراع کی تخصیص کرنا پڑے گی
دیکھئے، آپ خود مجبوراً یہاں کامل ذراع کے الفاظ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ بھی بعض الذراع کے الفاظ سے مغائرت پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اور اردو عربی مکس ہونے کی وجہ سے یہ ایک مجبوری ہے، اور یہی وجہ تھی کہ ہماری بھی پہلی پوسٹس میں کامل ذراع کا لفظ استعمال ہوا تھا۔
یہاں آپ نے کچھ جنرل مثالیں ذکر کیں ۔ ان مثالوں سے بات کہیں بھی نہیں پہنچتی ۔مکالمہ کو طول ضرور دیتی ہے اپنی مثال کاجواب سن لیں ۔ فٹ ایک اکائی ہے ناپ کی ۔ اپ یورپ چلے جائیں یا بھائی پھیرو (مجھے اس جگہ کا نام بہت پسند ہے اس لئیے مثال میں اس جگہ کا نام لیا ) فٹ کا ایک ہی معیار ہو گا لیکن ساعد کی لمبائی چوڑائی مین فرق ہوگا ۔
محترم معذرت کے ساتھ کہ یہاں بھی آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مثال دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک ایک جزو میں بھی مماثلت ہو۔ میرا استدلال یہ تھا کہ جیسے فٹ میں مکمل بارہ انچ کا مفہوم موجود ہے اور اس عمومی مفہوم کی تخصیص بغیر قرینہ کے درست نہیں۔ ویسے ہی ذراع میں مکمل کہنی تک ہاتھ کی لمبائی شامل ہے اور اس میں قرینہ کے بغیر تخصیص درست نہیں۔
فٹ سے مراد مکمل بارہ انچ یورپ اور بھائی پھیرو میں لئے جاتے ہیں، اسی طرح ذراع سے مراد کہنی تک کا ہاتھ عرب و عجم میں لیا جانا چاہئے۔ یہاں ہم کہنی تک کے ہاتھ کے معنی لے رہے ہیں اس میں کسی ہاتھ کی لمبائی کم ہو یا زیادہ اس سے استدلال پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسری بات جو ذیادہ ضروری ہے اگر کہا جائے ایک فٹ کی مکھی دیکھی تو ذہن میں بارہ انچ کی مکھی ذہن میں آئے گی (ذہن اتنی لمبائی قبول کرے یا نہیں لیکن لمبائی 12 انچ ذہن میں آئے گی ) لیکن اگر کہا جائے مکھی ساعد یا ذراع پر بیٹھی تو آپ نے کہا تھا کہ ۔ اب ساعد اور ذراع کے اپنے معنی میں کہنی تک کے مکمل ہاتھ کا مفہوم پایا جاتا ہے تو کوئی بھی اس عموم کا معنی نہ لے گا ۔ کیوں عموم کا مطلب ہے مکھی پورے ساعد پر بیٹھی ۔
اس لئیے فٹ کی مثال ذراع اور ساعد ثابت کرنے کے لئیے بالکل غلط ہے ۔
بھائی مجھے تو اس مثال سے کچھ بھی سمجھ نہیں آ سکا۔ ذرا وضاحت فرما دیں تو بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
اب رسغ و ساعد اور ذراع سے بعض الساعد یا بعض الذراع کا معنی لینے کے لئے جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو تب تک ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کیسے مراد لیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب میں نے ایک سوال آپ سے پوچھا ہے کہ کیا میں صحیح سمجھا کے جواب کے بعد دوں گا ان شاء اللہ
جی جواب دیا جا چکا ہے۔ اب آپ سے بھی دیانت کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔
ایک بات یہ بھی نوٹ فرمائیں کہ احناف جس طریقہ پر زور دیتے ہیں وہ یہ کہ آپ دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے کلائی کو تھامیں اور باقی تین انگلیاں بعض الساعد پر رکھیں۔ جبکہ حدیث میں الید کو رسغ و ساعد یا ذراع پر رکھنے کا حکم ہے۔ اگر آپ دائیں الید سے مراد مفصل تک ہاتھ لے لیں ( جو کہ ید کے مفہوم میں موجود کم سے کم لمبائی کی مقدار ہے) اور اس کو کلائی اور کلائی کے بعد کے حصہ پر (یعنی بعض الساعد پر) رکھیں۔ تب بھی ہاتھ فوق السرۃ ، ناف سے کچھ اوپر تک ہی آئیں گے
انگلیآں الید کا حصہ ہیں اگر یہ بعض رسغ پو ہوں تو ناف کے نیچے ہاتھ آسکتے ہیں
سبحان اللہ۔ میرے بھائی، آپ اپنی پوسٹ نمبر ۶۱ ملاحظہ فرمائیں: آپ کے الفاظ یہاں کوٹ کر دیتا ہوں:
عربي میں يد کے کئی معنی پائے جاسکتے ہیں
1- مفصل تک
2- ما دون المرفق
3- الی المنکب
محترم، ہم اب کیا کہیں۔ بہرحال۔ اگر آپ الید سے بھی بعض الید مراد لینا چاہتے ہیں تو ازراہ کرم اب یہ بھی بتا دیں کہ ید کے عمومی معنی لینے کے بجائے آپ کے بعض الید مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ آپ بھی تحقیق کے داعی ہیں ماشاءاللہ، تو پھر یا تو دلائل دیں یا قبول فرما لیں کہ یہاں بعض الید مراد لینے کی کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا ہاتھ کم سے کم زیر ناف تو نہیں پہنچ سکتے۔
جیسا کہ ہمارا اتفاق ہے کہ یا تو ہاتھ زیر ناف رکھے جائیں گے یا سینے پر)۔
نہیں بھائی ایسا کوئی اتفاق نہيں ۔ سینے پر بھی ہاتھ باندھنے کی روایت ضعیف اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی بھی روایت ضعیف تو اگر کوئی ناف پر بھی ہاتھ باندھتا ہے تو وہ کسی صحیح حدیث کا تارک نہیں کہلائے گا۔
جی بھائی، چاہے وہ شخص آپ کی نظر میں کسی صحیح حدیث کا تارک نہ ہو۔ تب بھی کسی ضعیف حدیث کا تارک تو ہوگا ہی کہ نہیں؟ ہم تو احناف کا یہی دعویٰ سنتے آئے ہیں کہ وہ قیاس کو ضعیف حدیث کے مقابل بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ چونکہ (اب تک) حنفی ہیں لہٰذا آپ کو ماننا چاہئے کہ جو شخص ضعیف حدیث کے بالمقابل قیاس پر عمل کرتے ہوئے فوق السرۃ یا پیٹ پر ہاتھ باندھے تو وہ ایک غلط کام ہی کر رہا ہوگا۔ ورنہ یہ فرمائیں کہ کیا گردن پر ہاتھ باندھنے والا بھی آپ کے نزدیک اتنا ہی درست ہے جتنا زیر ناف، یا سینے پر یا پیٹ پر ہاتھ باندھنے والا شخص؟
الا یہ کہ آپ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو نہ ڈھانپیں اور براہ راست کلائی کو پکڑ لیں۔ ۔۔اور انگریزی حرف V کی شکل میں ہاتھ باندھ لیں۔ ( جو کہ پیش کی گئی صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کے خلاف ہو جائے گا کیونکہ اس میں ہتھیلی کے ڈھانپنے کا بھی ذکر ہے)۔
ابن خزیمہ کی روایت عربی متن کے ساتھ بتائیں پھر اس پر بات ہوگی ۔ مجھے کیا معلوم آپ کون سی روایت کا ریفرینس دے رہے ہیں ۔
محترم، عرض ہے کہ اسی ابن خزیمہ ہی کی روایت پر بحث چل رہی ہے اور عربی متن بھی کئی بار پیش کیا جا چکا ہے۔ (دلیل نمبر ۱)۔بہرحال پھر پیش خدمت ہے۔ گزارش ہے کہ صحیح احادیث کے الفاظ کو یوں سمجھ کر ہی پڑھا کریں کہ جیسے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے بذات خود یہ الفاظ سماعت فرما رہے ہوں۔ اس سے قلب پر پڑنے والا اثر مختلف ہوتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
آپ نے اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا کہ ذراع اور رسغ و ساعد کے دو علیحدہ علیحدہ الفاظ پیش کی گئی کثیر صحیح احادیث میں استعمال ہوئے ہیں اور حدیث حدیث کی تشریح کرتی ہے کے مصداق ہم ساعد کی تشریح ذراع سے یا ذراع کی تشریح ساعد سے کریں تو ان دونوں الفاظ سے لئے جانے والے عمومی معنیٰ ہی کو تقویت پہنچتی ہے۔
آپ کو میرا اخلاص اس لئیے مشکوک لگ سکتا ہے کیوں کہ آپ کے نظریات مجھ سے میچ نہين ہوتے ۔
جی بھائی، میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ آپ کی بات بالکل درست ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انسانی نفسیات ہیں ان سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں۔
[میں یہاں مزید کچھ لکھنا چاہتا تھا، لیکن اس لئے نہیں لکھ رہا کہ ’لیکن‘ کے بعد جو بھی لکھوں گا وہ آپ کو نامناسب محسوس ہوگا]