آفتاب بھائی،
دیکھئے یہ طویل مباحث نہ کبھی ختم ہوئے اور جو طرز یہاں چل رہا ہے اس سے نہ ہی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی ہے۔ اعتراض در اعتراض طرفین کے علمائے کرام نے اتنے کر رکھے ہیں کہ مہینوں بھی اس دھاگے میں گفتگو چلتی رہے گی تو نہ لکھنے کے لئے مواد ہی کم پڑے گا اور نہ کسی کی اصلاح ہی ہو پائے گی۔ لہٰذا بحث کو مختصر کرنے کے لئے گزشتہ دو باتیں عرض کر رہا ہوں۔ شاید ان کی روشنی میں بات کو سمیٹنے میں آسانی ہو۔
۱۔ پہلی بات تو یہ کہ اس پوسٹ میں ناصر بھائی کی پیش کردہ پہلی دلیل پر اب تک کوئی بات نہیں ہو پائی۔ آسانی کی خاطر میں یہاں دوبارہ کوٹ کر دیتا ہوں:
۲۔ دوسری بات یہ عرض کرنا تھی۔ کہ میرے ناقص علم کی حد تک دو ہی طرح کی احادیث ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کے مقام کی صراحت ہے۔ یا تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی اور یا زیر ناف ہاتھ باندھنے والی۔ اب احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ آپ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں۔ اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی سب سے پہلی پوسٹ ہی میں بدلائل ثابت کیا گیا ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی مرفوع روایت کے ضعف پر علمائے احناف بھی متفق ہیں۔
اب اگر واقعی حنفی مذہب کے لئے دلائل اکٹھے کرنے کا مقصد نہ ہو، بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح مطلوب ہو۔ تو فیصلہ نہایت آسان ہے۔ اگر سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام ہی روایات ضعیف ہیں اور لائق عمل نہیں۔ تو جیسے کہ رضا بھائی نے بھی شروع میں سوال کیا تھا کہ حنفی خواتین سینے پر ہاتھ کیوں باندھتی ہیں؟ ازراہ کرم اجماع یا پردہ کی بات بھی مت کیجئے گا کہ علمی میدان میں اور نماز جیسے اہم فریضہ میں ان تاویلات کی وقعت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ نیز اس قسم کی تاویل کے نتیجہ میں یہ بھی بتانا ہوگا کہ امہات المومنین اور صحابیہ خواتین آخر کیسے نماز پڑھا کرتی تھیں؟
خلاصہ یہ کہ اہلحدیث کے نزدیک تو ہر حال میں زیر ناف ہاتھ باندھنے والی احادیث ضعیف ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث قوی بھی ہیں اور مرفوع احادیث تعداد میں بھی زیادہ ہیں ۔ لہٰذا ہمارا عمل تو الحمدللہ صرف اور صرف سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کا ہے خواتین ہوں یا مرد۔
سوال آپ سے ہے کہ ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کے ضعف کو ثابت کرنا اور دوسری طرف عملاً اپنی آدھی آبادی کو انہی ضعیف احادیث پر عمل کروانے کی کیا دلیل ہے؟
باقی جو آپ نے یہ کہا:
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر للہیت کے ساتھ غور فرمائیں گے تو قاسم بن قطلوبغا کی غلط فہمی آپ پر بھی واضح ہو ہی جائے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اگر ان سے غلطی ہوئی بھی ہے تو اس پر اصرار کرتے چلے جانا تو کوئی مناسب رویہ نہیں۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث پر تحقیق پیش کر رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
آخر میں بعض دیوبندیوں کی ایک غلطی پر تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے جسے علمی خیانت اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ حال ہی میں کراچی کے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ سے طبع ہوئی ہے، اس میں ایک حدیث اس طرح درج ہے:
وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ (مصنف ۳۹۰/۱)
طبع کرنے والوں کا فر ض تھا اور علمی امانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ بتاتے کہ تحت السرۃ کے الفاظ انھیں کس نسخہ سے دریافت ہوئے ہیں تاکہ حدیث کے طالب علم اس نسخہ کے نسب نامہ پر نظر ڈال سکتے مگر انھوں نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ۱۹۶۶ء بمطابق ۱۳۸۶ھ حیدرآباد (الہند) میں طبع ہواتھا، اس میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ" پر ہوا ہے اور اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
• مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں، علامہ محمد حیات سندھی کی گواہی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں ثبت ہے کہ انھوں نے مصنف کے نسخہ میں الفاظ نہیں پائے۔
• استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔
انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ۲۶۷/۲)
۱۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔
لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین
[نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام]
دیکھئے یہ طویل مباحث نہ کبھی ختم ہوئے اور جو طرز یہاں چل رہا ہے اس سے نہ ہی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی ہے۔ اعتراض در اعتراض طرفین کے علمائے کرام نے اتنے کر رکھے ہیں کہ مہینوں بھی اس دھاگے میں گفتگو چلتی رہے گی تو نہ لکھنے کے لئے مواد ہی کم پڑے گا اور نہ کسی کی اصلاح ہی ہو پائے گی۔ لہٰذا بحث کو مختصر کرنے کے لئے گزشتہ دو باتیں عرض کر رہا ہوں۔ شاید ان کی روشنی میں بات کو سمیٹنے میں آسانی ہو۔
۱۔ پہلی بات تو یہ کہ اس پوسٹ میں ناصر بھائی کی پیش کردہ پہلی دلیل پر اب تک کوئی بات نہیں ہو پائی۔ آسانی کی خاطر میں یہاں دوبارہ کوٹ کر دیتا ہوں:
درج بالا حدیث کی صحت شبہ سے بالا ہے۔ اور اس پر عمل کرنے سے ہاتھ سینے تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔دلیل نمبر١:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
۲۔ دوسری بات یہ عرض کرنا تھی۔ کہ میرے ناقص علم کی حد تک دو ہی طرح کی احادیث ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کے مقام کی صراحت ہے۔ یا تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی اور یا زیر ناف ہاتھ باندھنے والی۔ اب احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ آپ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں۔ اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی سب سے پہلی پوسٹ ہی میں بدلائل ثابت کیا گیا ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی مرفوع روایت کے ضعف پر علمائے احناف بھی متفق ہیں۔
اب اگر واقعی حنفی مذہب کے لئے دلائل اکٹھے کرنے کا مقصد نہ ہو، بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح مطلوب ہو۔ تو فیصلہ نہایت آسان ہے۔ اگر سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام ہی روایات ضعیف ہیں اور لائق عمل نہیں۔ تو جیسے کہ رضا بھائی نے بھی شروع میں سوال کیا تھا کہ حنفی خواتین سینے پر ہاتھ کیوں باندھتی ہیں؟ ازراہ کرم اجماع یا پردہ کی بات بھی مت کیجئے گا کہ علمی میدان میں اور نماز جیسے اہم فریضہ میں ان تاویلات کی وقعت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ نیز اس قسم کی تاویل کے نتیجہ میں یہ بھی بتانا ہوگا کہ امہات المومنین اور صحابیہ خواتین آخر کیسے نماز پڑھا کرتی تھیں؟
خلاصہ یہ کہ اہلحدیث کے نزدیک تو ہر حال میں زیر ناف ہاتھ باندھنے والی احادیث ضعیف ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث قوی بھی ہیں اور مرفوع احادیث تعداد میں بھی زیادہ ہیں ۔ لہٰذا ہمارا عمل تو الحمدللہ صرف اور صرف سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کا ہے خواتین ہوں یا مرد۔
سوال آپ سے ہے کہ ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کے ضعف کو ثابت کرنا اور دوسری طرف عملاً اپنی آدھی آبادی کو انہی ضعیف احادیث پر عمل کروانے کی کیا دلیل ہے؟
باقی جو آپ نے یہ کہا:
آفتاب بھائی، آپ سے ہرگز امید نہ تھی کہ آپ یہ حدیث اپنی دلیل کے طور پر پیش کریں گے۔ بھائی، اگر احناف کو مصنف ابن ابی شیبہ کا کوئی قلمی نسخہ ’تحت السرۃ‘ کے الفاظ کے ساتھ مل گیا ہے تو ہمیں بڑی مسرت ہوگی اگر آپ ہمارے ساتھ شیئر کر سکیں۔۔!حدثنا و کیع عن موسٰی بن عمیر عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علٰی شمالہ فی الصلٰوۃ تحت السرہ ۔( مصنف ابن ابی شیبہ )
الشیخ قاسم بن قطلوبغا نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔
پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔
ھذا حدیث قوی من حیث السند
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر للہیت کے ساتھ غور فرمائیں گے تو قاسم بن قطلوبغا کی غلط فہمی آپ پر بھی واضح ہو ہی جائے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اگر ان سے غلطی ہوئی بھی ہے تو اس پر اصرار کرتے چلے جانا تو کوئی مناسب رویہ نہیں۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث پر تحقیق پیش کر رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
آخر میں بعض دیوبندیوں کی ایک غلطی پر تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے جسے علمی خیانت اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ حال ہی میں کراچی کے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ سے طبع ہوئی ہے، اس میں ایک حدیث اس طرح درج ہے:
وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ (مصنف ۳۹۰/۱)
طبع کرنے والوں کا فر ض تھا اور علمی امانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ بتاتے کہ تحت السرۃ کے الفاظ انھیں کس نسخہ سے دریافت ہوئے ہیں تاکہ حدیث کے طالب علم اس نسخہ کے نسب نامہ پر نظر ڈال سکتے مگر انھوں نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ۱۹۶۶ء بمطابق ۱۳۸۶ھ حیدرآباد (الہند) میں طبع ہواتھا، اس میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ" پر ہوا ہے اور اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
• مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں، علامہ محمد حیات سندھی کی گواہی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں ثبت ہے کہ انھوں نے مصنف کے نسخہ میں الفاظ نہیں پائے۔
• استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔
انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ۲۶۷/۲)
۱۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔
لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین
[نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام]