• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آفتاب بھائی،
دیکھئے یہ طویل مباحث نہ کبھی ختم ہوئے اور جو طرز یہاں چل رہا ہے اس سے نہ ہی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی ہے۔ اعتراض در اعتراض طرفین کے علمائے کرام نے اتنے کر رکھے ہیں کہ مہینوں بھی اس دھاگے میں گفتگو چلتی رہے گی تو نہ لکھنے کے لئے مواد ہی کم پڑے گا اور نہ کسی کی اصلاح ہی ہو پائے گی۔ لہٰذا بحث کو مختصر کرنے کے لئے گزشتہ دو باتیں عرض کر رہا ہوں۔ شاید ان کی روشنی میں بات کو سمیٹنے میں آسانی ہو۔

۱۔ پہلی بات تو یہ کہ اس پوسٹ میں ناصر بھائی کی پیش کردہ پہلی دلیل پر اب تک کوئی بات نہیں ہو پائی۔ آسانی کی خاطر میں یہاں دوبارہ کوٹ کر دیتا ہوں:
دلیل نمبر١:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
درج بالا حدیث کی صحت شبہ سے بالا ہے۔ اور اس پر عمل کرنے سے ہاتھ سینے تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔

۲۔ دوسری بات یہ عرض کرنا تھی۔ کہ میرے ناقص علم کی حد تک دو ہی طرح کی احادیث ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کے مقام کی صراحت ہے۔ یا تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی اور یا زیر ناف ہاتھ باندھنے والی۔ اب احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ آپ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں۔ اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی سب سے پہلی پوسٹ ہی میں بدلائل ثابت کیا گیا ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی مرفوع روایت کے ضعف پر علمائے احناف بھی متفق ہیں۔

اب اگر واقعی حنفی مذہب کے لئے دلائل اکٹھے کرنے کا مقصد نہ ہو، بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح مطلوب ہو۔ تو فیصلہ نہایت آسان ہے۔ اگر سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام ہی روایات ضعیف ہیں اور لائق عمل نہیں۔ تو جیسے کہ رضا بھائی نے بھی شروع میں سوال کیا تھا کہ حنفی خواتین سینے پر ہاتھ کیوں باندھتی ہیں؟ ازراہ کرم اجماع یا پردہ کی بات بھی مت کیجئے گا کہ علمی میدان میں اور نماز جیسے اہم فریضہ میں ان تاویلات کی وقعت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ نیز اس قسم کی تاویل کے نتیجہ میں یہ بھی بتانا ہوگا کہ امہات المومنین اور صحابیہ خواتین آخر کیسے نماز پڑھا کرتی تھیں؟

خلاصہ یہ کہ اہلحدیث کے نزدیک تو ہر حال میں زیر ناف ہاتھ باندھنے والی احادیث ضعیف ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث قوی بھی ہیں اور مرفوع احادیث تعداد میں بھی زیادہ ہیں ۔ لہٰذا ہمارا عمل تو الحمدللہ صرف اور صرف سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کا ہے خواتین ہوں یا مرد۔
سوال آپ سے ہے کہ ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کے ضعف کو ثابت کرنا اور دوسری طرف عملاً اپنی آدھی آبادی کو انہی ضعیف احادیث پر عمل کروانے کی کیا دلیل ہے؟

باقی جو آپ نے یہ کہا:
حدثنا و کیع عن موسٰی بن عمیر عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علٰی شمالہ فی الصلٰوۃ تحت السرہ ۔( مصنف ابن ابی شیبہ )

الشیخ قاسم بن قطلوبغا نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔
پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔
ھذا حدیث قوی من حیث السند
آفتاب بھائی، آپ سے ہرگز امید نہ تھی کہ آپ یہ حدیث اپنی دلیل کے طور پر پیش کریں گے۔ بھائی، اگر احناف کو مصنف ابن ابی شیبہ کا کوئی قلمی نسخہ ’تحت السرۃ‘ کے الفاظ کے ساتھ مل گیا ہے تو ہمیں بڑی مسرت ہوگی اگر آپ ہمارے ساتھ شیئر کر سکیں۔۔!
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر للہیت کے ساتھ غور فرمائیں گے تو قاسم بن قطلوبغا کی غلط فہمی آپ پر بھی واضح ہو ہی جائے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اگر ان سے غلطی ہوئی بھی ہے تو اس پر اصرار کرتے چلے جانا تو کوئی مناسب رویہ نہیں۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث پر تحقیق پیش کر رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

آخر میں بعض دیوبندیوں کی ایک غلطی پر تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے جسے علمی خیانت اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ حال ہی میں کراچی کے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ سے طبع ہوئی ہے، اس میں ایک حدیث اس طرح درج ہے:

وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ (مصنف ۳۹۰/۱)
طبع کرنے والوں کا فر ض تھا اور علمی امانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ بتاتے کہ تحت السرۃ کے الفاظ انھیں کس نسخہ سے دریافت ہوئے ہیں تاکہ حدیث کے طالب علم اس نسخہ کے نسب نامہ پر نظر ڈال سکتے مگر انھوں نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ۱۹۶۶ء بمطابق ۱۳۸۶ھ حیدرآباد (الہند) میں طبع ہواتھا، اس میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ" پر ہوا ہے اور اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
• مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں، علامہ محمد حیات سندھی کی گواہی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں ثبت ہے کہ انھوں نے مصنف کے نسخہ میں الفاظ نہیں پائے۔
• استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔

انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ۲۶۷/۲)
۱۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔

لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین

[نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام]
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
دیکھئے یہ طویل مباحث نہ کبھی ختم ہوئے اور جو طرز یہاں چل رہا ہے اس سے نہ ہی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی ہے۔ اعتراض در اعتراض طرفین کے علمائے کرام نے اتنے کر رکھے ہیں کہ مہینوں بھی اس دھاگے میں گفتگو چلتی رہے گی تو نہ لکھنے کے لئے مواد ہی کم پڑے گا اور نہ کسی کی اصلاح ہی ہو پائے گی۔ لہٰذا بحث کو مختصر کرنے کے لئے گزشتہ دو باتیں عرض کر رہا ہوں۔ شاید ان کی روشنی میں بات کو سمیٹنے میں آسانی ہو۔

۱۔ پہلی بات تو یہ کہ اس پوسٹ میں ناصر بھائی کی پیش کردہ پہلی دلیل پر اب تک کوئی بات نہیں ہو پائی۔ آسانی کی خاطر میں یہاں دوبارہ کوٹ کر دیتا ہوں:
دلیل نمبر١:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
درج بالا حدیث کی صحت شبہ سے بالا ہے۔ اور اس پر عمل کرنے سے ہاتھ سینے تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
اس کی جواب پہلے دیا جاچکا ہے پھر ملاحظہ فرمائیں
عربي میں يد کے کئی معنی پائے جاسکتے ہیں

1- مفصل تک
2- ما دون المرفق
3- الی المنکب

ید سے یہاں کیا مراد ہیں ۔ حدیث میں واضح نہیں ۔
اگر صرف کف (مفصل ) تک لیں تو رسغ اور ساعد پر ہاتھردکھیں تو بعض الساعد پر ہاتھ رکھنا پڑے گا ۔ یا اگر ید ذراع پر بھی رکھیں تو بعض ذراع پر رکھا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں ناف کے نیچے ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔ اگر پوری ساعد پر ہاتھ رکھیں تو رسغ پر ہاتھ نہیں آئے گا۔
پہلے يد کے معنی یہاں دلائل سے بتائیں پھر بولیں کے "اس طرح تو صرف سینے پر ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔"

يد کے جو معنی مفصل تک لئیے جاسکتے ہیں اس کا ثبوت
وقال تعالى لموسى : وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ سورة النمل آية 12
جیب میں صرف ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے مرفق یا منکب نہیں
ایک صاحب نے کہا کہ تھا کہ
آپ حدیث میں وارد الید کا مفہوم سورۃ النمل کی آیت سے مختص کررہے ہیں کس بنیاد اور کس دلیل پر ۔؟
میں اسے آیت سے مختص نہیں کرر ہا ایک احتمال بتا رہا ہون کہ ید ایک معنی اس آیت کی رو سے یہ ہیں ۔
اب آکے بڑہنے سے پہلے آپ دلائل سے یہ بتائیں کہ یہاں يد ، رسغ اور ساعد سےیہاں آپ کیا مراد لہ رہے ہیں


۲۔ دوسری بات یہ عرض کرنا تھی۔ کہ میرے ناقص علم کی حد تک دو ہی طرح کی احادیث ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کے مقام کی صراحت ہے۔ یا تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی اور یا زیر ناف ہاتھ باندھنے والی۔ اب احناف کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ آپ بھی یہی ثابت کر رہے ہیں۔

اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی تمام احادیث ضعیف ہیں۔ جیسا کہ اس دھاگے کی سب سے پہلی پوسٹ ہی میں بدلائل ثابت کیا گیا ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی مرفوع روایت کے ضعف پر علمائے احناف بھی متفق ہیں۔
کس نے کہا کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی مرفوع روایت کے ضعف پر علمائے احناف بھی متفق ہیں۔ ؟
مصنف ابی شیبہ کی روایت اور اس پر کچھ محققین کے ذکر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ بانھدھنے والی روایت کے ضعف پر اجماع نہیں ۔

اب اگر واقعی حنفی مذہب کے لئے دلائل اکٹھے کرنے کا مقصد نہ ہو، بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح مطلوب ہو۔ تو فیصلہ نہایت آسان ہے۔ اگر سینے پر ہاتھ باندھنے والی تمام ہی روایات ضعیف ہیں اور لائق عمل نہیں۔ تو جیسے کہ رضا بھائی نے بھی شروع میں سوال کیا تھا کہ حنفی خواتین سینے پر ہاتھ کیوں باندھتی ہیں؟ ازراہ کرم اجماع یا پردہ کی بات بھی مت کیجئے گا کہ علمی میدان میں اور نماز جیسے اہم فریضہ میں ان تاویلات کی وقعت کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ نیز اس قسم کی تاویل کے نتیجہ میں یہ بھی بتانا ہوگا کہ امہات المومنین اور صحابیہ خواتین آخر کیسے نماز پڑھا کرتی تھیں؟
اجماع کی بات نہ کروں ۔ کیا اجماع کی آپ حضرات کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔ میرے نزدیک شرعی دلاءل چار ہیں
قرآن
حدیث
اجماع امت
قیاس

اور آپ کے نذدیک ؟
قال الزركشي في البحر المحيط 4/449: والسرّ في اختصاص هذه الأمة بالصواب في الإجماع أنهم الجماعة بالحقيقة؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم بُعث إلى الكافة، والأنبياء قبله إنما بُعث النبي لقومه، وهم بعض من كل، فيصدق على كل أمة أن المؤمنين غير منحصرين فيهم في عصر واحد، وأما هذه الأمة فالمؤمنون منحصرون فيهم، ويد الله مع الجماعة، فلهذا - والله أعلم

قال القاضي أبو يعلى رحمه الله: الإجماع حجة مقطوع عليها، يجب المصير إليها، وتحرم مخالفته، ولا يجوز أن تجتمع الأمة على الخطأ. انظر العُدة 4/1058 .

قرآن میں ہے
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً [النساء: 115].
قال ابن حزم رحمه الله : ومن خالفه - أي الإجماع - بعد علمه به، أو قيام الحجة عليه بذلك فقد استحق الوعيد المذكور في الآية. انظر مراتب الإجماع لابن حزم، ص7.


اجماع کا مرتبہ قرآن و حدیث کے بعد ہے
ما جاء في كتاب عمر رضي الله عنه إلى شريح رحمه الله حيث قال له: اقضِ بما في كتاب الله، فإن لم تجد فبما في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم تجد فبما قضى به الصالحون قبلك. ، وفي رواية: فبما أجمع عليه الناس. أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف 7/240، و البيهقي 10/115، و النسائي 8/231 .

آپ اپنے شرعی دلائل ضرور بتائیے گا ۔



خلاصہ یہ کہ اہلحدیث کے نزدیک تو ہر حال میں زیر ناف ہاتھ باندھنے والی احادیث ضعیف ہیں اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث قوی بھی ہیں اور مرفوع احادیث تعداد میں بھی زیادہ ہیں ۔ لہٰذا ہمارا عمل تو الحمدللہ صرف اور صرف سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کا ہے خواتین ہوں یا مرد۔
سوال آپ سے ہے کہ ایک طرف سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث کے ضعف کو ثابت کرنا اور دوسری طرف عملاً اپنی آدھی آبادی کو انہی ضعیف احادیث پر عمل کروانے کی کیا دلیل ہے؟
خواتین کے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اس کے تھریڈ میں بات ہوگی ان شاء اللہ
میں پہلے ہی کہ چکا ہوں کہ میں ٹائم کی کمی وجہ سے ہر تھریڈ میں بیک وقت حصہ نہیں لے سکتا ۔ جیسے جیسے ٹائم ملے گا ان شاء اللہ عرض کرتا رہوں گا ۔

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اگر للہیت کے ساتھ غور فرمائیں گے تو قاسم بن قطلوبغا کی غلط فہمی آپ پر بھی واضح ہو ہی جائے گی ان شاء اللہ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا تو گناہ کبیرہ ہے۔ اگر ان سے غلطی ہوئی بھی ہے تو اس پر اصرار کرتے چلے جانا تو کوئی مناسب رویہ نہیں۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس حدیث پر تحقیق پیش کر رکھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

آخر میں بعض دیوبندیوں کی ایک غلطی پر تنبیہ ضروری معلوم ہوتی ہے جسے علمی خیانت اور تحریف کہنا زیادہ مناسب ہے، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ حال ہی میں کراچی کے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ سے طبع ہوئی ہے، اس میں ایک حدیث اس طرح درج ہے:

وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ تحت السرۃ (مصنف ۳۹۰/۱)
طبع کرنے والوں کا فر ض تھا اور علمی امانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ بتاتے کہ تحت السرۃ کے الفاظ انھیں کس نسخہ سے دریافت ہوئے ہیں تاکہ حدیث کے طالب علم اس نسخہ کے نسب نامہ پر نظر ڈال سکتے مگر انھوں نے ایسا کوئی حوالہ نہیں دیا۔
مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ۱۹۶۶ء بمطابق ۱۳۸۶ھ حیدرآباد (الہند) میں طبع ہواتھا، اس میں اس حدیث کا اختتام "علی شمالہ فی الصلوٰۃ" پر ہوا ہے اور اس میں "تحت السرۃ" کے الفاظ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
• مصنف کے قدیم نسخوں میں یہ الفاظ موجود نہیں، علامہ محمد حیات سندھی کی گواہی عون المعبود (۴۶۲/۲) میں ثبت ہے کہ انھوں نے مصنف کے نسخہ میں الفاظ نہیں پائے۔
• استاذ محترم سید محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ عامرہ میں مصنف کا قلمی نسخہ بھی اس اضافے سے خالی ہے۔

انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں:
"فانی راجعت ثلاث نسخ للمصنف فما وجدتہ فی واحدۃ منھا"
پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں ، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے۔ (فیض الباری ۲۶۷/۲)
۱۔ یہ حدیث امام وکیع کے واسطے سے مسند احمد (۳۱۶/۴ ح ۱۸۸۴۶) شرح السنۃ (۳۰/۳ ح ۵۶۹) اور سنن دارقطنی (۲۸۶/۱ ح ۱۰۸۸) میں موجود ہے لیکن تحت السرۃ کے الفاظ کسی روایت میں موجود نہیں ہیں۔
۲۔ سنن نسائی (۱۲۵/۲، ۱۲۶ ھ ۸۸۸) اور سنن دارقطنی(۲۸۶/۱ح ۱۰۹۱) میں عبداللہ بن مبارک نے وکیع کی متابعت کی ہے لیکن یہ الفاظ ان کی راویت میں بھی موجود نہیں ہیں۔
۳۔ ابو نعیم الفضل بن دکین نے یہی حدیث موسیٰ بن عمیر سے "تحت السرۃ" کے بغیر روایت کی ہے۔ دیکھئے کتاب المعرفۃ والتاریخ للفارسی (۱۲۱/۳) السنن الکبری(۲۸/۲) المعجم الکبری للطبرانی (۹/۲۲ ح۱) اور تہذیب الکمال للمزی (۴۹۹/۱۸)
۴۔ اگر یہ حدیث اس مسئلہ میں موجود ہوتی تو متقدمین ِ حنفیہ اس سے بے خبر نہ رہتے جب کہ طحاوی ، ابن ترکمانی اور ابن ہمام جیسے اساطین حنفیہ نے اس کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔
نووی اور ابن حجر وغیرہما بھی اس کے متعلق خاموش ہیں۔

لہٰذا ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) کے کارپردازوں کو چاہیے کہ ہر جلد کے سرورق پر جہاں لکھتے ہیں کہ "یہ طبع ان ۴۹۰ ابواب پر مشتمل ہے جو ہندوستانی طبع میں رہ گئے تھے" اس نسخہ کی خصوصیت بھی بتائیں کہ "اس میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں جو ابن ابی شیبہ کو معلوم ہی نہ تھے بلکہ ہم (آل تقلید) نے ایجاد کئے ہیں۔‘‘
یہ الفاظ نویں صدی کے قاسم بن قطلوبغا حنفی (کذاب/ قالہ البقاعی انظر الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے پہلی مرتبہ مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف غلط فہمی یاکذب بیانی کی وجہ سے منسوب کردیئے اور ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ (دیوبندیہ) نے طابع ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ الفاظ متن میں شامل کردیئے حالانکہ نیموی نے آثار السنن میں اس اضافہ کو غیر محفوظ قراردیا تھا، لیکن انھوں نے "تمہیں بھی لے ڈوبیں گے" کے مصداق ابن خزیمہ کی روایت میں موجود "علی صدرہ" کے الفاظ کو بھی اس کی نظیر قراردے دیا حالانکہ یہ الفاظ صحیح ابن خزیمہ کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ یہ روایت مسند بزار میں بھی "عند صدرہ" کے الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتح الباری ۱۷۸/۲)
اللھم ارنا الحق حقاً وارقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ آمین
مصنف ابی شیبہ کی روایت میں اس لئیے لکھی کہ آپ حضرات نے کہا تھا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کے ضعف پر احناف کا اتفاق ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اس روایت کے سلسلے میں کچھ الزامات لگائے ۔ ان الزامات کی تحقیق بھی میرے پاس ہے ۔ لیکن میں اس بات کو طول نہیں دوں گا۔ کیوں کہ میرے نزدیک ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہیں اور سینے والی روایت کے ضعف کو میں اپنی پچھلی پوسٹ پر بتا چکا ہوں ۔


بہت طویل گفتگو تک پھیل چکا ہے۔لیکن ابھی تک کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ حضرات گھما پھرا کر ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت پر آجاتے ہیں ۔ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کہ میرے نذدیک وہ ضعیف ہیں ۔
اب اختلاف صرف اتنا ہے کہ سینے پر ہاتھ بادھنے کے متعلق روایت کو آپ صحیح کہ رہے ہیں اور میں ضعیف ۔ اس لئیے اگر ڈسکشن کو يہیں رکھا جائے تو بہتر ہوگا ۔
ایک بات میں بتادون آپ میری بات کو احناف پر چسپاں نہ کریں ۔ میں نہ عالم ہوں کہ احناف کی ترجمانی کروں ۔ اگر میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث کو ضعیف کہ رہا ہوں تو یہ میرے ذاتی تحقیق ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
سب جانتے ہیں کہ مرد کا ستر یا شرمگاہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ اور حنفی ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے اور اسے سنت کہتے ہیں۔نعوذباللہ

اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف کے نزدیک مرد کے لئے شرمگاہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے۔ کیا یہ نماز میں کھڑے ہوئےشخص کی اللہ کے حضور گستاخی نہیں ہے؟! للہ کچھ تو اپنے خلاف سنت موقف پر نظر ثانی فرمائیں جو نقل، عقل اور حیا کے بھی خلاف ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
سب جانتے ہیں کہ مرد کا ستر یا شرمگاہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ اور حنفی ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے اور اسے سنت کہتے ہیں۔نعوذباللہ
۔
آپ کے نذدیک ستر اور شرمگاہ میں کوئي فرق نہیں ۔ حوالہ دیں ۔ بھر آگے بات ہوگی ۔
دوسری بات الحمد للہ مسائل و احکام میں دلائل سے بات ہو رہی اور حوالہ جات سے ۔ اس کیٹگری میں آپ بھی حوالہ جات سے بات کریں ۔ جذباتی اور بے دلیل اور بغیر حوالہ کے باتیں نہیں
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
آپ کے نذدیک ستر اور شرمگاہ میں کوئي فرق نہیں ۔ حوالہ دیں ۔ بھر آگے بات ہوگی ۔
دوسری بات الحمد للہ مسائل و احکام میں دلائل سے بات ہو رہی اور حوالہ جات سے ۔ اس کیٹگری میں آپ بھی حوالہ جات سے بات کریں ۔ جذباتی اور بے دلیل اور بغیر حوالہ کے باتیں نہیں
محترم جناب آفتاب صاحب میں جب بھی کوئی اعتراض کرتا ہوں اس کی میرے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہوتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ فوری طور پر میں وہ دلیل ذکر نہ کرسکوں کیونکہ بات زہن میں رہ جاتی ہے اور دلیل انسان بھول جاتا ہے۔ میرے زہن میں یہی تھا کہ ستر اور شرم گاہ کے الفاظ ہم معنی ہیں اور اس کی بنیاد میرا مطالعہ تھا۔ بہرحال آپ ہماری دلیل ملاحظہ فرمائیں

ستر اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں عربی زبان سے ماخوذ ہے۔
ستر کے لفظی معنی ہیں: پردہ ڈالنا، ڈھکنا، چھپانا۔
اور اصطلاحی معنی ہیں: عورت یا مرد کا وہ مقام جس کا چھپانا واجب ہو اور جس برہنگی سے شرم آئے، چھپانے کی چیز، شرم گاہ۔

یہ اس لغت کا ربط ہے۔ Online Urdu Dictionary

الحمد اللہ ثابت ہوگیا کہ ستر اور شرم گاہ ہم معنی الفاظ ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
ستر اصل میں عربی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں عربی زبان سے ماخوذ ہے۔
ستر کے لفظی معنی ہیں: پردہ ڈالنا، ڈھکنا، چھپانا۔
اور اصطلاحی معنی ہیں: عورت یا مرد کا وہ مقام جس کا چھپانا واجب ہو اور جس برہنگی سے شرم آئے، چھپانے کی چیز، شرم گاہ۔

یہ اس لغت کا ربط ہے۔ Online Urdu Dictionary

الحمد اللہ ثابت ہوگیا کہ ستر اور شرم گاہ ہم معنی الفاظ ہیں۔

اسی لنک پر جائیں اور دکیھیں کہ صلاہ کے لفظ کا اطلاق سورہ الفاتحہ پر بھی ہوتا ہے ۔

Online Urdu Dictionary

یہ اسی ویب کا ایڈریس ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا تھا
تو کیا صرف سورہ الفاتحہ پڑھنے سے صلاہ ادا ہوجاتی ہے ؟
آپ کے ہاں تو لغت کی معنی کا اعتبار ہے اور اس کو آپ شرعیہ پر چسپاں کر رہے ہیں تو کیا آپ نماز اس طرح پڑہیں گے ؟

صیام کا معنی یہاں دیکھ لیں
Online Urdu Dictionary
تو کیا گفتگو سے خاموش رہ کر روزہ رکھا جاسکتا ہے ؟

مذید اعتراض سے بہتر تھا کہ جو جواب میں نے آج پوسٹ کیا ۔ اس پر جواب دیا جاتا۔ مذيد اعتراضات کا مطلب ہے کہ آپ کو میری پوسٹ پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اور آپ اس پوسٹ سے مطمئن ہیں ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
عربي میں يد کے کئی معنی پائے جاسکتے ہیں

1- مفصل تک
2- ما دون المرفق
3- الی المنکب

ید سے یہاں کیا مراد ہیں ۔ حدیث میں واضح نہیں ۔
اگر صرف کف (مفصل ) تک لیں تو رسغ اور ساعد پر ہاتھردکھیں تو بعض الساعد پر ہاتھ رکھنا پڑے گا ۔ یا اگر ید ذراع پر بھی رکھیں تو بعض ذراع پر رکھا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں ناف کے نیچے ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔ اگر پوری ساعد پر ہاتھ رکھیں تو رسغ پر ہاتھ نہیں آئے گا۔
پہلے يد کے معنی یہاں دلائل سے بتائیں پھر بولیں کے "اس طرح تو صرف سینے پر ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں ۔"
آفتاب بھائی۔ پہلے درج ذیل دو احادیث ملاحظہ کر لیتے ہیں۔
عن ابی حازم عن سھل بن سعد الساعدی قال کان الناس یؤمرون ان یّضع الرجل یدہ الیمنیٰ علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصّلوٰۃ قال ابو حازم لا اعلمہ الّا ینمی ذالک الی النّبی [بخاری: ۷۴۰]
ابو حازم سھل بن سعد ساعدی سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں کو حکم تھا کہ ہر نمازی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی اور ذراع پر رکھے۔ راوی ابو حازم کہتے ہیں کہ میں اس طرح جانتا ہوں کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہے یعنی یہ آپ ہی کا حکم تھا۔

پہلے پیش کی گئی حدیث کے آخری الفاظ یہ تھے:

"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔[صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴)]

ذراع کی تشریح ہمارے کفایت اللہ بھائی نے ایک اور جگہ یوں کر رکھی ہے:
وضاحت:ـ
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمیں دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع''پررکھنے کاحکم دیاہے اور''ذراع'' کہتے ہیں''کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کو''۔
چنانچہ غریب الحدیث للحربی : (277/1)میں ہے :
''الذراع'' من طرف المرفق الی طرف الاصبع الوسطی،یعنی ''ذراع'' کہتے ہیں ''کہنی کے سرے سے لیکر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ کو''

نیز کتب لغت میں بھی ''ذراع '' کایہی معنی درج ہے مثلادیکھئے :لسان العرب :93/8،تاج العروس :5217/1کتاب العین :96/2،المعجم الوسیط:311/1تہذیب اللغہ :189/2،کتاب الکلیات :730/1وغیرہ۔

اوردارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ ادب مولاناوحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ'' ذراع ''کایہ معنی لکھتے ہیں :
''کہنی سے بیچ کی انگلی تک''دیکھئے موصوف کی تالیف کردہ لغت کی کتاب ''القاموس الجدید،عربی اردو'' ما دہ ''ذرع ''ص308 کتب خانہ حسینیہ دیوبند ،یوپی۔
اور الساعد کے معنی ملاحظہ ہوں:
المعجم الوسیط (۴۳۰/۱) میں ہے: " الساعد: مابین المرفق الکف من اعلی"
ساعد کہنی اور ہتھیلی کے درمیان کو کہتے ہیں۔

گویا ساعد اور ذراع ہم معنی الفاظ ہیں اور دونوں احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ان احادیث میں حکم یہ دیا جا رہا ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنی سے لے کر کلائی اوربیچ کی انگلی تک کے ’مکمل‘ حصہ (یعنی ذراع یا رسغ و ساعد) پر رکھیں۔ اب آپ حدیث میں بیان کردہ دائیں ہاتھ یا الید کا مطلب وہی لے سکتے ہیں جو اس قرینہ پر پورا اتر سکے۔ یعنی الید کا ایسا مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ جس سے (مکمل) ذراع پر ہاتھ نہ رکھا جا سکے۔

بعینہٖ اسی طرح جیسے کہ آپ نے کہا:

يد کے جو معنی مفصل تک لئیے جاسکتے ہیں اس کا ثبوت
وقال تعالى لموسى : وَأَدْخِلْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ سورة النمل آية 12
جیب میں صرف ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے مرفق یا منکب نہیں
یعنی درج بالا آیت میں قرینہ کی بنیاد پر الید کا معنیٰ مرفق یا منکب لیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اگر ایسے معنیٰ کریں گے تو جیب میں ہاتھ مرفق یا منکب تک جا ہی نہیں پائے گا۔
اب اسی طرح ہم درج بالا احادیث میں بھی الید کا وہی معنیٰ کریں گے کہ جس سے حدیث کے الفاظ پر درست طور پر عمل کیا جانا ممکن ہو۔ اگر مفصل کے معنیٰ میں لیں گے تو حدیث کے الفاظ یعنی الساعد یا ذراع پر الید رکھنا، اس پر عمل ممکن نہیں ہوگا۔ بلکہ تحریف کرتے ہوئے الساعد سے بعض الساعد اور ذراع سے بعض الذراع مراد لینا پڑے گا۔اگر دونوں میں سے کسی ایک حدیث میں بعض الساعد یا بعض الذراع کے الفاظ ہوتے تو بھی کسی حد تک امکان تھا کہ ایک سے دوسرے کی تشریح کر لی جاتی۔ لیکن دونوں ہی احادیث بائیں ہاتھ کی کہنی تک کے مکمل حصہ کو ڈھانپنے پر صریح ہیں۔

یہاں اہمیت اس بات کی ہے کہ بائیں بازو جس کو ڈھانکنا ہے اس کا مقام متعین ہے کہ درمیان کی انگلی سے لے کر کہنی تک کا حصہ ہے جس کو دائیں ہاتھ سے ڈھانکنا ہے۔ اب دائیں ہاتھ کی لمبائی معلوم نہ بھی ہو تو حرج نہیں۔ کیونکہ بائیں ہاتھ کو ہمیں کہنی تک دائیں ہاتھ سے ڈھانکنا ہے تو ظاہر ہے دائیاں ہاتھ بھی کہنی تک ہی درکار ہوگا۔
دیکھئے بھائی، ہمارا مقصد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پر بعینہٖ عمل کرنا ہے نا کہ اس میں امکانات تلاش کرتے ہوئے اس کو رد کرنا۔ لہٰذا اگر ہم یوں سمجھ لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ہمارے سامنے کھڑے ہوئے ہیں اور ہمیں وہی عربی الفاظ کہہ رہے ہیں کہ جن کا ترجمہ یہ بنتا ہے:
ہر نمازی نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی اور ’درمیانی انگلی سے کہنی تک کے پورے حصے‘ (ذراع) پر رکھے۔
تو کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر فوری عمل کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کو کہنی تک دائیں ہاتھ سے ڈھانک کر نماز پڑھیں گے یا دائیں ہاتھ کی لمبائی کی مقدار متعین کریں گے؟ جبکہ درج بالا حدیث پر انہی الفاظ کے ساتھ عمل کرنا بالکل ممکن ہے اور ایسی صورت میں بہرحال ہاتھ سینے پر ہی آتے ہیں۔

اجماع کی بات نہ کروں ۔ کیا اجماع کی آپ حضرات کے ہاں کوئی اہمیت نہیں ۔ میرے نزدیک شرعی دلاءل چار ہیں
یہاں آپ میری بات کا غلط مطلب لے گئے۔ یا شاید میں نے جو الفاظ استعمال کئے وہ درست نہیں تھے۔جس کے لئے میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ اجماع کے حجت ہونے سے انکار نہیں ۔ میرا مطلب تھا کہ خواتین کے سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل کے طور پر اجماع کا نام مت لیجئے گا کہ اسے ثابت بھی کرنا پڑے گا اور اجماع سے قبل صحابیات کا طرز عمل بھی بیان کرنا پڑے گا۔

خواتین کے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اس کے تھریڈ میں بات ہوگی ان شاء اللہ
محترم بھائی، ایک موضوع پر ایک ہی تھریڈ میں بات ہو تو بہتر ہے۔ اور موضوع نماز میں ہاتھ باندھنے کا مقام ہے، اس میں مرد بھی شامل ہیں اور خواتین بھی۔اور جیسا کہ میں نے گزارش کی کہ بات کو کسی نتیجہ تک لانے کے لئے اس پوائنٹ پر بھی بات بہت ضروری ہے۔ چلیں پھر بھی آپ الگ دھاگے میں بات کرنا چاہیں تو ازراہ کرم نیا دھاگہ بنا کر وہاں اپنے دلائل پیش کر دیں۔ یا آپ کہیں تو میں نیا دھاگا بنا دیتا ہوں۔

مصنف ابی شیبہ کی روایت میں اس لئیے لکھی کہ آپ حضرات نے کہا تھا کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت کے ضعف پر احناف کا اتفاق ہے ۔ اس کے بعد آپ نے اس روایت کے سلسلے میں کچھ الزامات لگائے ۔ ان الزامات کی تحقیق بھی میرے پاس ہے ۔ لیکن میں اس بات کو طول نہیں دوں گا۔ کیوں کہ میرے نزدیک ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہیں اور سینے والی روایت کے ضعف کو میں اپنی پچھلی پوسٹ پر بتا چکا ہوں ۔
محترم بھائی، اگر مصنف ابی شیبہ کی یہ روایت تحت السرۃ کے الفاظ کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر آپ کی یہ تحقیق غلط ثابت ہو جائے گی کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی تمام روایات ضعیف ہیں۔ کیونکہ میرے علم کی حد تک مصنف کی یہ روایت صحیح ہے۔ البتہ ’تحت السرۃ‘ کے الفاظ کا الحاق موجودہ دیوبندی ناشرین نے کیا ہے۔ کیونکہ مصنف کے کسی معتبر قلمی نسخہ میں یہ الفاظ اس روایت کے ساتھ موجود نہیں۔ بہرحال، میں بھی اس بات کو طول نہیں دیتا۔ فی الوقت ساعد و ذراع اور خواتین کے ہاتھ باندھنے کے مقام پر بات ہو جائے تو بہتر ہے تاکہ گفتگو کا کوئی نتیجہ تو برآمد ہو۔

اب اختلاف صرف اتنا ہے کہ سینے پر ہاتھ بادھنے کے متعلق روایت کو آپ صحیح کہ رہے ہیں اور میں ضعیف ۔ اس لئیے اگر ڈسکشن کو يہیں رکھا جائے تو بہتر ہوگا ۔
جی بہتر۔ ان شاءاللہ، اگر ہماری نیت درست ہوگی تو یہ اختلاف ختم ہونا بھی کوئی ناممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین۔

ایک بات میں بتادون آپ میری بات کو احناف پر چسپاں نہ کریں ۔ میں نہ عالم ہوں کہ احناف کی ترجمانی کروں ۔ اگر میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث کو ضعیف کہ رہا ہوں تو یہ میرے ذاتی تحقیق ہے ۔
آپ کی ذاتی تحقیق سر آنکھوں پر۔ لیکن عرض ہے کہ اگر آپ کی نظر میں احناف کا نظریہ تقلید درست ہے تو اس ذاتی تحقیق کی بنیاد پر (نا کہ امام کے قول کی بنیاد پر ) کوئی رائے بنا لینے کی بہرحال آپ کو اجازت نہیں۔ اور یہ بات ایسے تو سمجھ شاید نہ آئے لیکن اگر آپ کی ذاتی تحقیق آپ کو اس درجہ تک پہنچا دے کہ آپ کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی کوئی ایک روایت درست ثابت ہو جائے تب؟ تقلید چھوڑیں گے یا تحقیق چھوڑیں گے؟ کہ اجتماع ضدین تو محال ہی ہے۔ واللہ اعلم!
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔ (فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں آپ عموم کا یہ معنی لے رہے ہیں کہ جس بارے میں عموم کا حکم ہے اس سے وہ چیز کامل مراد ہے ۔ یہاں الساعد میں کوئی تخصیص نہیں اور حافظ ابن حجر نے جو کلیہ بتایا ہے اس کے مطابق الساعد کی ہم کوئی تخصیص نہیں کریں گے اور اس کے عموم معنی لیں گے اور اپ کی تشریح کے مطابق الساعد سے مطلب کامل الساعد لیں گے۔
یہاں آپ ایک غلطی کر رہے ہیں ۔ اگر الساعد کر ہم کامل لیں اور بعض الساعد کو رد کر دیں تو یہ بھی تخصیص ہے کہ ہم اس کو صرف کامل پر محمول کر رہے ہیں ۔ عموم تو تب ہوگا جب دونوں معنی مراد لئیے جائیں نہ بعض الساعد پر اعتراض کیا جائے نہ کامل الساعد پر اعتراض کیا جائے

قرآن سے مثال
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ
یہاں المیتہ کا لفظ عموم ہے ۔ آپ کے مطابق تو یہاں پر پھر کامل المیتہ مراد ہوناجاہئیے ۔ بعض المیتہ نہیں کیوں کہ عموم میں آپ کامل کے معنی لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے اگو کوئی المیتہ کا کچھ حصہ یعنی آدھا حصہ کھا لے تو جائز اور اگر پورا حصہ کھا لے تو حرام

حدیث سے مثال
بخاری کی حدیث ہے کہ
من أكل الثوم أو البصل من الجوع أو غيره فلا يقربن مسجدنا ‏
یہاں بھی بصل کی کوئی تخصیص نہیں ۔ عموم معنی ہیں تو آپ کے نزدیک عموم تو کامل کے لئیے ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ جو بصل ادھا کھائے یا تین چوتھائی بھی کھا لے تو مسجد آسکتا ہے مگر بصل پورا کھاکر مسجد نہ آئے

اگر آپ عموم سے مراد کامل لیں گے تو قراں و حدیث میں کیا کیا گڑ بڑ ہوجائے گی وہ آپ اوپر کی مثالوں سے دیکھ سکتھے ہیں ۔ اس طرح کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔
اس سے ثابت ہوا کہ عموم سے مراد بعض حصہ اور کامل دونوں مراد ہیں جو بعض پر عمل کرے وہ بھی صحیح اور جو کامل پر کرے وہ بھی صحیح
بعض المیتہ کھانا بھی حرام اور کامل المیتہ کھانا بھی حرام ۔ بعض البصل کھا کر بھی مسجد نہ جائے اور کامل بصل کھا کربھی مسجد نہ جائے
اب دوبارہ اپنی پیش کردہ حدیث اس معنی میں دیکھیں ۔ جو بعض الساعد پر بعض الید رکھے وہ بھی صحیح اور جو کامل الساعد پر الید رکھے وہ بھی صحیح ۔ اس حدیث سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا اس کا مقام کیا ہو گا


آپ کی ذاتی تحقیق سر آنکھوں پر۔ لیکن عرض ہے کہ اگر آپ کی نظر میں احناف کا نظریہ تقلید درست ہے تو اس ذاتی تحقیق کی بنیاد پر (نا کہ امام کے قول کی بنیاد پر ) کوئی رائے بنا لینے کی بہرحال آپ کو اجازت نہیں۔ اور یہ بات ایسے تو سمجھ شاید نہ آئے لیکن اگر آپ کی ذاتی تحقیق آپ کو اس درجہ تک پہنچا دے کہ آپ کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے والی کوئی ایک روایت درست ثابت ہو جائے تب؟ تقلید چھوڑیں گے یا تحقیق چھوڑیں گے؟ کہ اجتماع ضدین تو محال ہی ہے۔ واللہ اعلم!
آپ ہر تھریڈ میں تقلید کو کیوں لاتے ہیں ۔ اس سے موضوع بدل جاتا ہے اور اصل تھریڈ سے توجہ ہٹ کر کہیں اور پہنچ جاتی ہے ۔ میں کئی بار کہ چکا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے سامنے تقلید چھوڑ دوں گا اور یہی میں نے اپنے علماء سے سیکھا ہے ۔ اور اسی بات کی ہمارے علماء تاکید کرتے ہیں ۔
اس تھریڈ کو نماز میں ہاتھ باندھنے کے مقام کے موضوع پر ہی رہنے دیں
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
چلیں ہمارے درمیان دائیں ہاتھ کی لمبائی کا موضوع تو ختم ہوا۔اب رسغ و ساعد اور ذراع کی بحث رہ گئی۔

یہاں آپ عموم کا یہ معنی لے رہے ہیں کہ جس بارے میں عموم کا حکم ہے اس سے وہ چیز کامل مراد ہے ۔
نہیں آفتاب بھائی، آپ کی بالا پوری پوسٹ اسی بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ساعد سے کامل ساعد مراد لو۔ بلکہ یہ کہا ہے کہ ساعد سے ساعد اور ذراع سے ذراع ہی مراد لیا جائے۔ اس کے جو بھی معنی ہیں، اس میں کسی قسم کی تخصیص نہ کریں۔ اب ساعد اور ذراع کے اپنے معنی میں کہنی تک کے مکمل ہاتھ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔جسے بحوالہ ثابت کیا گیا ہے۔ اور جب آپ ساعد و ذراع کے اپنے معنی میں شامل ’مکمل‘ کے مفہوم کو نہیں مانتے اور اس کی جگہ بعض الساعد اور بعض الذراع کا مفہوم لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ساعد و ذراع کے معنی میں موجود ’مکمل‘ کے عموم کی تخصیص ہے۔ اور سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے مفید مطلب مفہوم لینے کے لئے آپ کو لفظ میں بھی ترمیم کرنی پڑتی ہے۔ اور بعض الساعد کہنا پڑتا ہے۔ اور یہ ’بعض‘ کا اضافہ بھی حدیث میں موجود لفظ ’ساعد‘ کی تخصیص ہے۔

درج بالا وضاحت سے آپ کی دی گئی مثالوں کا بھی واقعتاً غلط ہونا ثابت ہوتا ہے۔

قرآن سے مثال
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ
یہاں المیتہ کا لفظ عموم ہے ۔ آپ کے مطابق تو یہاں پر پھر کامل المیتہ مراد ہوناجاہئیے ۔ بعض المیتہ نہیں کیوں کہ عموم میں آپ کامل کے معنی لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے اگو کوئی المیتہ کا کچھ حصہ یعنی آدھا حصہ کھا لے تو جائز اور اگر پورا حصہ کھا لے تو حرام
جی ہمارے نزدیک کامل المیتہ اس لئے نہیں ہوگا کیونکہ ہم لفظ کے عموم کا اطلاق کل پر نہیں کر رہے، بلکہ معنی میں اگر کُل کامفہوم موجود ہے تو اس کی قرینہ کے بغیر تخصیص کو غلط کہہ رہے ہیں۔

حدیث سے مثال
بخاری کی حدیث ہے کہ
من أكل الثوم أو البصل من الجوع أو غيره فلا يقربن مسجدنا ‏
یہاں بھی بصل کی کوئی تخصیص نہیں ۔ عموم معنی ہیں تو آپ کے نزدیک عموم تو کامل کے لئیے ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ جو بصل ادھا کھائے یا تین چوتھائی بھی کھا لے تو مسجد آسکتا ہے مگر بصل پورا کھاکر مسجد نہ آئے
ہمارے نزدیک ہرگز عموم کامل کے معنوں میں نہیں۔ بلکہ کسی بھی لفظ کے معنی میں موجود عموم کی قرینہ کے بغیر تخصیص غلط ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی غلط۔

اور درج بالا دونوں امثلہ میں یہ بھی غور فرمائیں کہ قرینہ بھی موجود ہے۔ اور وہ قرینہ یہ ہے کہ المیتۃ یا وصل کا بعض حصہ کھائے بغیر آپ پورا کھا ہی نہیں سکتے۔ اور عرف یہ ہے کہ جو چیز پوری حرام یا مکروہ ہے تو آدھی بھی حرام یا مکروہ ہی ہوگی۔

اب ذراع سے مکمل ذراع ہی مراد لینے کی درست مثال، کفایت اللہ بھائی کے شکریہ کے ساتھ، پیش خدمت ہے:

بخاری کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
عن ميمونة قالت: «وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة، فأكفأ بيمينه على شماله مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض أو الحائط، مرتين أو ثلاثا، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض على رأسه الماء، ثم غسل جسده، ثم تنحى فغسل رجليه» قالت: «فأتيته بخرقة فلم يردها، فجعل ينفض بيده» (صحیح البخاری :1 63 رقم 274)

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کو دھویا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذراع (بمفہوم کہنی تک بازو کا مکمل حصہ) کو نہیں دھویا بلکہ صرف بعض کو دھویا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔

ذراع و ساعد چونکہ بازو کی لمبائی بتاتے ہیں لہٰذا ایک ٹوٹی پھوٹی مثال یہ بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ جیسے کہ ایک فٹ میں بارہ انچ ہوتے ہیں۔ تو اب فٹ کے اپنے معنی میں مکمل بارہ انچ کا مفہوم شامل ہے۔چاہے فٹ کے معنی کرتے وقت ’مکمل‘ کا لفظ نہ بھی کہا جائے۔ لہٰذا آپ فٹ سے اس کا کچھ حصہ مراد لے ہی نہیں سکتے۔اس کے معنی کے عموم کی تخصیص کے لئے آپ کو واضح قرینہ چاہئے۔ مثلاً جیسے کہا جائے کہ فٹہ کو اس گلاس کے پانی میں ڈبو دو۔ تو ظاہر ہے کہ مکمل بارہ انچ عام گلاس کے پانی میں نہیں آ سکتے۔ تو ہم فٹہ سے مراد اس گلاس میں پانی کی اونچائی جتنا حصہ ہی لیں گے۔

آپ نے خود بھی سورہ نمل سے ہاتھ کے مفصل تک کی لمبائی کے معنی لینے کی اچھی مثال دی۔ کہ الید کے مختلف عام معانی میں تخصیص کے لئے قرینہ موجود ہے، لہٰذا وہی معنی لیا جائے گا۔ اور مخالف مفہوم یہ ہوا کہ جب قرینہ موجود نہ ہو تو عام معنی کی تخصیص جائز نہیں۔

اب رسغ و ساعد اور ذراع سے بعض الساعد یا بعض الذراع کا معنی لینے کے لئے جب تک کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو تب تک ذراع کے لفظ سے بعض الذراع کیسے مراد لیا جا سکتا ہے؟ یہ قرینہ کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ کہا جاتا کہ دائیں ید کو رسغ تک بائیں ید کے ذراع پر رکھیں۔ اب دائیں ہاتھ کی متعین لمبائی کی مقدار ، جو کہ رسغ تک ہے، ایک واضح قرینہ ہوگا جو ذراع کے لفظ سے بعض الذراع مراد لینے پر قوی دلالت کرے گا۔ ورنہ حدیث پر عمل ممکن نہ ہوگا۔ لہٰذا ازراہ کرم یا تو بعض الساعد و بعض الذراع کی تخصیص کا کوئی واضح قرینہ پیش کریں یا ذراع و ساعد کا وہی مفہوم لیں جو کہ درست ہے۔اور جس پر درج بالا صحیح بخاری کی حدیث بھی دلالت کرتی ہے اور اس پر عمل کریں۔

اوپر پوسٹ میں یہ بات بھی پیش کی تھی۔ کہ ساعد اور ذراع کے الفاظ دو مختلف احادیث میں مروی ہیں۔ بلکہ اس موضوع پر دیگر بھی کئی احادیث موجود ہیں جن میں یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ ایک دوسرے کی تشریح کرتے ہیں۔ مثلاً یہ احادیث ملاحظہ فرمائیں:
رسغ و ساعد:
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب رفع الیدین فی الصلوٰة،حدیث نمبر727۔
سنن نسائی:ـکتاب الافتتاح:باب موضع الیمین من الشمال فی الصلوٰة،حدیث نمبر889۔

ذراع :
مؤطاامام محمد:ـأبواب الصلوٰة:باب وضع الیمین علی الیسارفی الصلوٰة،حدیث نمبر290۔
مؤطاامام مالک:ـکتاب النداء للصلوٰة:باب وضع الیدین علی الأخری فی الصلوٰة،حدیث نمبر376۔
وغیرہ وغیرہ

یہ احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں اور استعمال ہونے والے دو مختلف الفاظ ساعد اور ذراع اس بات پر قوی دلالت کرتے ہیں کہ یہاں ان الفاظ کا حقیقی مفہوم ہی مراد لینا چاہئے۔

ایک بات یہ بھی نوٹ فرمائیں کہ احناف جس طریقہ پر زور دیتے ہیں وہ یہ کہ آپ دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے کلائی کو تھامیں اور باقی تین انگلیاں بعض الساعد پر رکھیں۔ جبکہ حدیث میں الید کو رسغ و ساعد یا ذراع پر رکھنے کا حکم ہے۔ اگر آپ دائیں الید سے مراد مفصل تک ہاتھ لے لیں ( جو کہ ید کے مفہوم میں موجود کم سے کم لمبائی کی مقدار ہے) اور اس کو کلائی اور کلائی کے بعد کے حصہ پر (یعنی بعض الساعد پر) رکھیں۔ تب بھی ہاتھ فوق السرۃ ، ناف سے کچھ اوپر تک ہی آئیں گے۔ (جو کہ غلط ہے، جیسا کہ ہمارا اتفاق ہے کہ یا تو ہاتھ زیر ناف رکھے جائیں گے یا سینے پر)۔ الا یہ کہ آپ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو نہ ڈھانپیں اور براہ راست کلائی کو پکڑ لیں۔ ۔۔اور انگریزی حرف V کی شکل میں ہاتھ باندھ لیں۔ ( جو کہ پیش کی گئی صحیح ابن خزیمہ کی حدیث کے خلاف ہو جائے گا کیونکہ اس میں ہتھیلی کے ڈھانپنے کا بھی ذکر ہے)۔

آپ ہر تھریڈ میں تقلید کو کیوں لاتے ہیں ۔ اس سے موضوع بدل جاتا ہے اور اصل تھریڈ سے توجہ ہٹ کر کہیں اور پہنچ جاتی ہے ۔ میں کئی بار کہ چکا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے سامنے تقلید چھوڑ دوں گا اور یہی میں نے اپنے علماء سے سیکھا ہے ۔ اور اسی بات کی ہمارے علماء تاکید کرتے ہیں ۔
بھائی، اصولی اختلاف تو تقلید ہی میں ہے۔ دیانتدارانہ تحقیق کے بعد آپ چاہے زیر ناف ہاتھ باندھیں یا سینے پر، ان شاء اللہ ایک اجر تو پکا ہے۔ نیز اہلحدیث کی تحقیق پر آپ کو اعتماد نہیں تو امام شافعی اور امام احمد کا سینے پر ہاتھ باندھنے کا موقف پیش کیا جا سکتا ہے۔ امام مالک کا موقف تو خیر غلط ہے ہی کہ صحیح بخاری کی احادیث موجود ہیں۔ بہرحال یہ سب قابل احترام ائمہ کرام بیک وقت تو حق نہیں۔ باقی آپ کی بات درست ہے کہ اس موضوع کو نماز ہی پر قائم رہنے دیا جائے۔ اپنی غلطی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنے کی بھی جرات کروں گا کہ اگر آپ نیوٹرل ہو کر تحقیق کرتے اور عرصے سے زیر ناف ہاتھ باندھتے باندھتے ذہن ایک خاص سانچہ میں نہ ڈھل چکا ہوتا تو یہ تاویلات کرنے کی کوئی گنجائش ان احادیث کے مفہوم میں موجود ہی نہیں۔ اور اس میں آپ کا قصور نہیں۔(ورنہ جب آپ کے اخلاص پر میرا اعتماد مشکوک ہو جائے گا تو میں مزید بات چیت سے ہی مجلس کی اختتامی دعا کے ساتھ معذرت کر لوں گا۔) جب میں نے بھی تحقیق کے بعد ہاتھ سینے پر باندھنا شروع کئے تھے تو شروع میں بہت عجیب لگتا تھا۔ بلکہ بعض اوقات شرمندگی بھی محسوس ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا کرم کیا کہ اس پر جلد ہی قابو پانے کی توفیق عنایت کر دی۔ ہم تو بس اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ ہم سب کو اپنے نفس اور شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
 
Top