ناف کے نیچے ہاتھ یا سینہ پر
1۔حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کےساتھ نمازپڑھی تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ ،دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ‘ سینے پر باندھے۔(ابن خزیمہ جلدایک صفحہ نمبر243۔اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے)
2۔حضرت ہلب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔(مسنداحمدجلدپانچ،ص226 ۔حافظ ابن عبدالبر اور علامہ عظیم آبادی نے اسے صحیح کہا ہے)
3۔حضرت وائل بن حجر رسو ل اللہﷺ کی نماز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی (کی پشت) اس کے جوڑاور کلائی پر رکھا۔(نسائی،الافتتاح،باب فی الامام اذی رای الرجل قد وضع شمالہ علی یمینہ)
ہمیں بھی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر اس طرح رکھنا چاہیے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت جوڑ اور کلائی پر آجائے اور دونوں کوسینے پر باندھا جائے تاکہ تمام روایات پر عمل ہوسکے۔
4۔حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے یہ حکم دیا جاتا تھا کہ :’’نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی (ذراع) پر رکھیں۔‘‘(صحیح بخاری)
5۔رہی حضرت علی کی روایت کہ سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کوہتھیلی پر زیر ناف رکھا جائے۔(ابوداؤد) تو اسے امام بیہقی اور حافظ ابن حجر نے ضعیف قراردیا ہے اورامام نووی فرماتے ہیں کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔
ان تمام احادیث کے جواب پوسٹ نمبر 5 اور اور پوسٹ نمبر 27 میں آجکے ہیں۔
اگر آپ دوبارہ جواب جاہتے ہیں تو براہ مہربانی حدیث راویوں کی سند کے ساتھ اور عربی متن کے ساتھ لکیھیں ۔ انشاء اللہ دوبارہ جواب دیا جائے گا۔
رواویں کی سند اس لئیے پتا چلے مین اس روایت کی سند میں کسی کے ضعف ثابت کروں تو آپ بولیں نہیں بھائی اس کی سند میں تو یہ راوی ہے نہیں ۔ بعض دفعہ ایک حدیث کی روایت کئی سند سے بھی مروی ہوتی ہے ۔ اور عربی متن اس لئیے کہ بعض دفعہ ترجمہ صحیح نہیں ہوتا یا عربی متن سے تو ایک تشریح ہوتی ہے اور اردو ترجمہ کو دیکھا جائے تودو احتمال نکلتے ہیں ۔
اگر صرف عربی کی متن لکھ دیں تو راویوں کی سند میں خود دیکھ لوں گا ۔
یہ بھی ذرا بتائیے گا کہ اگر ایک حدیث کے ضعف پر محدّثین کا اتفاق ہو (مثلاً وضع الیدین تحت السرہ والی روایت) اور دوسری کے ضعف میں اختلاف آپ کو بھی تسلیم ہے، آپ کے نزدیک وہ کچھ وجوہات (جن کا آپ کو بھی بخوبی علم ہے) کی بناء پر ضعیف ہے جبکہ ہمارے نزدیک صحیح۔
آپ کیسے کہ رہے ہیں کہ وضع الیدین تحت السرہ والی روایت کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے ؟
حدثنا و کیع عن موسٰی بن عمیر عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علٰی شمالہ فی الصلٰوۃ تحت السرہ ۔( مصنف ابن ابی شیبہ )
الشیخ قاسم بن قطلوبغا نے یہ حدیث ” تحت السرہ ” کے لفظ کے ساتھ لکھ کر ” تخریج احادیث الاختیار ” میں لکھا : ھذا سند جید ۔
پھر شیخ ابوالطیب المدنی السندھی نے شرح ترمذی میں یہ حدیث لکھ کر فرمایا:۔
ھذا حدیث قوی من حیث السند
تو سوال یہ ہے کہ پھر عمل کس روایت پر ہونا چاہئے؟!!
ایسے اجتہادی اختلاف کی دوران کیا کرنا چاہییے امام ترمذی کا قول پیش کرتا ہوں
قال الترمذي رحمه الله في "جامعه": "والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم؛ يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة، ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم".