[=افتاب;6194]آپ کی بیان کردہ پہلی حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ۔ صرف ایک احتمال کےتحت آپ نے کہا اگر اس حدیث کے بیان کردہ طریقہ کے مطابق ہاتھ باندھیں گے تو سینے پر ہی باندھا جاسکتا ہے ۔ یہ ایک احتمال ہے کوئی پکی دلیل ہے ۔ حدیث میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی الفاظ بھی لہیں ہیں ۔
اس کا تو راجا بھائی نے خوب جواب دیا ہے،، جزاک اللہ راجا بھائی
دوسری حدیث متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے
سماک بن حرب کو سفیان ، ابن مبارک اور شعبہ نے ضعیف کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب التھذیب )
اور سماک بن حرب کے بارے میں تفصیل ملاحظہ ھو:-
سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
یاد رہے کہ سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
سماک کی روایت صحیح مسلم ، بخاری فی التعلیق اور سنن اربعہ میں ہے۔
سماک بن حرب کتب ستہ کے راوی اور اوساط تابعین میں سے ہیں-
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ان کی درج ذیل روایتیں ہیں:
صحیح بخاری: (ح ٦٧٢٢
صحیح مسلم: )
224,168/436,
487
589,
499,
606,
618,
643,
670,
734,
862,
, ,866
965
,978
1075/173
,1385,
(صحیح مسلم میں اور بھی بہت ہیں آپ کہیں گے تو آپ کی تسلی کے لیے پیش کر دو گا،)
خیر
فواچ عبدالباقی کی ترقیم کے مطابق یہ پینتالیس (٤٥) روایتیں ہیں۔ ان میں سے بعض روایتیں دو دو دفعہ ہیں ۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ صحیح مسلم میں سماک کی پینتالیس سے زیادہ روایتیں موجود ہیں،
سنن ابی داود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن النسائی میں ان کی بہت سی روایتیں ہیں۔
آپ کی اس دلیل کا بھی جواب لیجئے جناب
سماک بن حرب کو سفیان ، ابن مبارک اور شعبہ نے ضعیف کہا ہے
١۔شعبہ: اس روایت کو یحی بن معین نے روایت کیا ہے اور یحی بن معین ١٥٧ ھ میں پیدا ھوے اور
شعبہ بن الحجاج ١٦٠ ھ میں فوت ھوے، یعنی یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے،
(تاریخ بغداد ٢١٥ ،٩،ت ٤٧٩٢)
٢۔سفیان الثوری :
امام العجلی (مولود ١٨٢ ھ متوفی ٢٦١ھ) نے کہا:
جائز الحدیث۔۔۔۔۔و کان فصیحا الا انہ کان فی حدیث عکرمت ربما و صل عن ابن عباس۔۔۔۔وکان
سفیان الثوری یضعفھ بعض الضعف،،، تاریخ ا الثقات:٦٢١ و تاریخ بغداد ٩ /٢١٦
سفیان الثوری ١٦١ھ میں فوت ھوے لہٰذا یہ سند بھی منقطع ہے
اس کے برعکس شعبہ اور سفیان دونوں سے ثانت ہے کہ وہ سماک بن حرب سے روایتیں بیان کرتے تھے
لہٰذا اگر جرح ثابت بھی ہو ئی تو العجلی کے قول کی روشنی میں اسے " سماک عن عکرمہ عن ابن عباس " کی سند پر محمول کیا جاتا ۔ ابن عدی نےاحمد بن الحسین الصوفی ؟ ثنا محمد بن خلف بن عبد الحمید کی سند کی سا تھ سفیان سے نقل کیا ہے کی سماک ضیعف ہے (الکامل ٣ /١٢٩٩
محمد بن خلف مذکور کے حالات نا معلوم ہیں لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ہے۔
٣۔ ابن المبا رک : (تھذیب التھذیب)
یہ روایت بلا سند ہے ۔ کامل ابن عدی (١٢٩٩/٣) میں ضیعف سند کے ساتھ یہی جرح اوپرمختصرا مروی ہے۔
تیسری حدیث بھی متکلم فیہ ہے اور اس میں ضعف بھی ہے
مومل بن اسماعیل – امام بخاری اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے ۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کثرت سے خطا ہوئی ہے ۔ امام ابو حاتم اور امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب الکمال )
میں اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ امام بخاری کا ، منکر الحدیث ، کہنا
امام بخاری کی سند سے ثابت کریں، اور امام بخاری نے اپنی کس کتاب میں ذکر کیا ہے،؟
اور انس بھائی کی بات کا بھی جواب دیں،
aur urdu likhne mein kamzoor hon is liye koi galti hoee ho to mazrat