• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
السلام علیکم،
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، درست ہے لیکن ائمہ حرم مکی اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ۔
یا للعجب
سمجھدار لوگ اب اس قسم کے سوالات کریں گئے تو پھر جاہلوں سے کیا شکایت۔ اگر اس سوال کا مقصد گفتگو کوطول دینا ہے اور کچھ بحث و مباحثے کا ماحول پیدا کرنا ہے تو ٹھیک ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص کے بعد یہ سوال کرنا تفرقہ پیدا کرنا ہے اور آئمہ حرم کا فعل ہمارے لیے حجت نہیں بلکہ قرآن وحدیث کے نصوص ہمارے لیے حجت ہیں۔ اس لیے ایسے سوالوں سے اجتناب بہتر ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
السلام علیکم،
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، درست ہے لیکن ائمہ حرم مکی اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
کسی تھریڈ کو مقفل کرانے کے لئے مجرب نسخہ ہے ۔
بہت خوب !
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ۔
یا للعجب
سمجھدار لوگ اب اس قسم کے سوالات کریں گئے تو پھر جاہلوں سے کیا شکایت۔ اگر اس سوال کا مقصد گفتگو کوطول دینا ہے اور کچھ بحث و مباحثے کا ماحول پیدا کرنا ہے تو ٹھیک ہے۔ قرآن و حدیث کے نصوص کے بعد یہ سوال کرنا تفرقہ پیدا کرنا ہے اور آئمہ حرم کا فعل ہمارے لیے حجت نہیں بلکہ قرآن وحدیث کے نصوص ہمارے لیے حجت ہیں۔ اس لیے ایسے سوالوں سے اجتناب بہتر ہے۔
بالکل ٹھیک کہا عکاشہ بھائی۔ میں نے اس لیے پوچھا ہے کہ الشیخ بن باز وغیرہ کے واضح فتاوی کے باوجود اکثر ائمہ حرم سینے پر ہاتھ نہیں باندھتے جس پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے۔ کسی کو اس کی یقینی وجہ کا علم ہو تو بتائیے۔ جہاں تک سینے پر ہاتھ باندھنے کا تعلق ہے تو اس کے درست ہونے میں مجھے شک نہیں ہے، میں خود نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتا ہوں۔ :)
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
بالکل ٹھیک کہا عکاشہ بھائی۔ میں نے اس لیے پوچھا ہے کہ الشیخ بن باز وغیرہ کے واضح فتاوی کے باوجود اکثر ائمہ حرم سینے پر ہاتھ نہیں باندھتے جس پر مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے۔ کسی کو اس کی یقینی وجہ کا علم ہو تو بتائیے۔ جہاں تک سینے پر ہاتھ باندھنے کا تعلق ہے تو اس کے درست ہونے میں مجھے شک نہیں ہے، میں خود نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتا ہوں۔ :)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ ـ
اگر درست ہونے میں کوئی شک نہیں توپھر سوال کیسا :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦﴾
اگر یہی سوال یوں پوچھا جائے کہ قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے بعد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے تلامیذ اور ان کی پیروی کرنے والے علماء نے سینے پر ہاتھ کیوں نہیں باندھا تو جواب مل جائے گا !! ـرہا سوال آئمہ حرم کیوں نہیں کرتے ، میرا خیال ہے کہ آئمہ حرم کرتے ہیں سوائے چند ایک کے ، جو شاید سستی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ـ اللہ اعلم ـ لیکن اس کا انکار نہیں کرتے ، کسی بھی قسم کی ڈھٹائی نہیں دکھاتے اور نہ ہی کسی مسلک کو ثابت کرنے کے لیے کسی قسم کی تاویلات کرتے ہیں ـ بحرکیف جب آئمہ اربعہ ،خمسہ یا ستہ حجت نہیں تو پھر آئمہ حرم کی حجیت کیسی ۔!!؎
مزید کسی بھی قسم کی بحث سے معذرت ، کیونکہ ابھی چوبیس گھنٹے کے بعد آنا ہوا ،معلوم نہیں پھر کب آنا ہو ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
۔

ابن حجر تھذیب میں سماک بن حرب کے متعلق کہتے ہیں کہ " فالمعروف عن الثوري أنه ضعفه "
ابن حجر کا فالمعروف کہنا وزن رکھتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ اس زمانے میں اکثر اہل علم کو یہ بات معلوم تھی اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ سفیان الثوری سماک کو ضعیف کہا ہے
جناب میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ
۔ سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔

(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
اور مزید تفصیل سے سنیئے۔۔۔
امام عجلی رح فرماتے ہیں کہ وہ عکرمہ رح کے ماسوا جائز الحدیث ہیں۔ امام علی بن مدینی ر فرماتے ہیں کہ ان کی مرویات ذہی مضطرب ہیں جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ۔امام یعقوب کہتے ہیں کہ ان کی وہ روایات جو وہ عکرمہ سے بیان کرتے ہیں ان میں اضطراب ہے اور دیگر اساتذہ سے ان کی روایات درست ہیں۔ امام نسائی فرماتے ہیں ان کی روایات قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام البراز فرماتے ہیں وہ نامور آدمی تھے میری معلومات کے مطابق انہیں کسی نے غیر معتبر سمجھ کر نہیں چھوڑا۔ تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥

امام سفیان اور امام شعبہ ان کی فقط ان روایات کو ضیعف قرار دیتے ہیں جو وہ عکرمہ سے ہیں
میزان الاعتدال:ج٣ص٣٢٧
اور آپ کے لیے
امام یعقوب بن شعبہ کہتے ہیں کہ امام شعبہ اور امام سفیان ثوری نے ان سےاخلاط سے پہلے سماعت حدیث کی ہے اس لیے ان کی احادیث صحیح و مستقیم ہیں۔
امام ابن مبارک فرماتے ہیں ہمیں ان کی فقط ان احادیث کے بارے میں تردد ہے جو ان سے ان کے تلامذہ نے ان کی آخری عمر میں سنی ہیں۔۔
تہذیب التہذیب:ج٤ص٢٠٥

اور آپ کو پہلےبھی بتا چکا ہوں کہ کتب ستہ کے راوی ہیں میں نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کچھ احادیث کے حوالے دے چکا ہوں شاید آپ کو یاد نہ ہو،،
صحیح مسلم میں ان کی کم و بیش ٤٥ پینتالیس روایا ت ہیں ،،
ان روایات کو کس میں شمار کریں گے آپ ؟

اور کچھ محدثین کا حوالہ دیتا جنہوں نے سماک بن حرب کے بارے میں تعدیل کی ہے،


١۔ مسلم : احتج بہ فی صحیحہ (میزان الا عتدال ٢/٢٣٣)
٢-البخاری: امام بخاری نے اپنی صحیح میں حدیث ذکر کی ہے۔ (ح ٦٧٢٢)
اور حافظ زہبی نے اجتناب بخاری کا ذکر کرتے ہوے لکھا ہے: وقد علق لہ البخاری اسشھادابہ
امام بخاری جس رادی سے بطور استشہار روایت کریں وہ امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (سیرا علام النبلا ء ٥/٢٤٨)
٣۔سفیان الثوری: ما یسقط لسماک بن حرب حدیث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔ (تاریخ بغداد ٩/٢١٥، و سند ہ حسن لذاتہ)
٤۔شعبہ : " روی عنہ " ان کی صحیح مسلم ٢٢٤ میں روایت
٥۔یحیٰ بن معین:" ثقہ " (الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩، و تاریخ بغداد ٩/٢١٥ و سندہ صحیح)
٦۔ابو حاتم الرازی: " صدو ق ثقہ" ( الجرح و التعدیل٤/٢٨٠)
٧:احمد بن حنبل : " سماک اصلح حدیثا من عبدالمالک بن عمیر"( الجرح والتعدیل ٤/٢٧٩،٢٨٠، و سندہ صحیح)

٨۔ ابو اسحاق اسبیعی: " خزو العلم من سماک بن حرب" ( الجرح و التعدیل٤/٢٧٥)
٩۔ترمذی: انھوں نے سماک کی بہت سی حدیثوں کو "حسن صحیح " قرار دیا ہے ۔
(مثلا دیکھئے حدیث ٢٥،٢٠٢،٢٢٧)
اور تو اور امام ترمذی نے سنن کا آغاز سماک کی حدیث سے کیا ہے۔(ح١)


اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔

مومل بن اسماعیل کے متعلق امام بخاری کے قول کے متعلق دیکھئیے سير أعلام النبلاء للحافظ الذهبي جس میں حافظ الذھبی نے امام بخاری کا قول ذکر کیا ہے کہ امام بخاری مومل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہا تھا۔
اس کے علاوہ المغنی فی الضعفاء ، تھذیب الکمال ، تھذیب التھذیب اور ميزان الاعتدال بھی ضرور دیکھیں۔
کیا اتنے بہت سے محدثین کو امام بخاری کے قول کے بارے میں وہم ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے یقیینا کوئی دلیل پائی ہوگی تو اتنے محدثین نے امام بخاری کا قول ذکر کیا ہے۔
اگر ہم ایک لمحہ کے لئیے امام بخاری کا قول کو الگ بھی کرلیں
آپ کے ان دو اقوال میں تضاد ہے ان میں سے ایک اپنائیے۔۔ دوغلی پولیسی نا اپنایئے ۔۔
آپ اس میں فیصلہ کریں گیں
تو مومل بن اسماعیل کو اور محدثین نے بھی کثیر الخطاء ذکر کیا ہے ۔ جو میں پچھلی پوسٹ پر بیان کرحکا ہوں ،،
خیر میں آپ کو بتاتا ہوں
البخاری کی ان کتب کے حوالے سے درج ہے : "منکر الحدیث"(تہذیب الکمال ۵۲۶/۱۸، میزان الاعتدال ۲۲۸/۴، تہذیب التہذیب ۳۸۱/۱۰)
تینوں محولہ کتابوں میں یہ قول بلا سند وبلاحوالہ درج ہے جبکہ اس کے برعکس امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کو التاریخ الکبیر (ج۸ ص۴۹ ت۲۱۰۷) میں ذکر کیااور کوئی جرح نہیں کی۔امام بخاری کی کتاب الضعفاء میں مؤمل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اور صحیح بخاری میں مؤمل کی روایتیں موجود ہیں۔ (دیکھئے ح۲۷۰۰، ۷۰۸۳ فتح الباری)
حافظ مزی فرماتے ہیں:"استشھد بہ البخاری"[/ ARB]
اس سے بخاری نے بطور استشہاد روایت لی ہے۔ (تہذیب الکمال ۵۲۷/۱۸)
محمد بن طاہر المقدسی (متوفی ۵۰۷ھ) نے ایک راوی کے بارے میں لکھا ہے:
[بل استشھد بہ فی مواضع لبیین انہ ثقۃ"
بلکہ انھوں (بخاری) نے کئی جگہ اس سے بطور استشہاد روایت لی ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ وہ ثقہ ہے۔ (شروط الائمۃ الستہ ص۱۸)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام بخاری کے نزدیک ثقہ ہے ، منکر الحدیث نہیں ہے۔
مومل بن اسماعیل :ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کثرت سے خطا ہوئی ہے ۔ امام ابو حاتم اور امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب الکمال )
ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں کثرت سے خطا ہوئی ہے ۔ امام ابو حاتم اور امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے (میزان الاعتدال ، تھذیب الکمال )
آپ کا پوسٹ
ابن حبان: "ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) وقال : "ربما اخطا"
ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)

معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر "ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
ابو حاتم الرازی کا مکمل قول پڑھیے جناب ۔۔
ابو حاتم الرازی: "صدوق، شدید فی السنۃ ، کثیر الخطا، یکتب حدیثہ"

وہ سچے (اور) سنت میں سخت تھے۔ بہت غلطیاں کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جاتی ہے۔(کتاب الجرح والتعدیل ۳۴۷/۸)

امام دار قطنی: امام دار قطنی نے کثیر الخطا کہا ہے """"
یہ قول امام دارقطنی کی توثیق سے متعارض ہے امام دارقطنی کی کتاب الضعفاء والمتروکین میں مؤمل کا تذکرہ موجود نہیں ہے جو اس کی دلیل ہے کہ امام دارقطنی نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔

اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے مؤمل بن اسماعیل کی توثیق:
ابو عبداللہ مؤمل بن اسماعیل القرشی العدوی البصری نزیل مکہ کے بارے میں مفصل تحقیق درج ذیل ہے ، کتب ستہ میں مؤمل کی درج ذیل روایتیں موجود ہیں:
صحیح البخاری = (ح۲۷۰۰، اور بقول راجح ح ۷۰۸۳، تعلیقاً)
سنن الترمذی = (ح ۴۱۵، ۶۷۲، ۱۸۲۲، ۱۹۴۸، ۲۱۳۵، ۳۲۶۶، ۳۵۲۵، ۳۹۰۶، ۳۹۴۹)
سنن النسائی الصغریٰ= (ح ۴۰۹۷، ۴۵۸۹)
سنن ابن ماجہ = (ح ۲۰۱۳، ۲۹۱۹، ۳۰۱۷)
ان مذکورہ احادیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

١۔ابن حبان: "ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۸۷/۹) وقال : "ربما اخطا" ایسا راوی ابن حبان کے نزدیک ضعیف نہیں ہوتا، حافظ ابن حبان مؤمل کی حدیثیں خود صحیح ابن حبان میں لائے ہیں۔ (مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج۸ ص ۲۵۳ ح ۶۶۸۱)
ابن حبان نے کہا:
"اخبرنااحمد بن علی بن المثنیٰ قال: حدثنا ابوعبیدۃ بن فضیل ابن عیاض قال: حدثنا مؤمل بن اسماعیل قال: حدثنا سفیان قال: حدثنا علقمۃ بن یزید۔۔۔"الخ (الاحسان ۲۷۴/۹ ح ۷۴۱۷)
معلوم ہوا کہ مؤمل مذکور امام ابن حبان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے، حسن الحدیث راوی پر "ربما اخطا" والی جرح کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
٢۔ امام بخاری: "استشھد بہ فی صحیحہ"
امام بخاری سے منسوب جرح کے تحت یہ گزر چکا ہے کہ امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل سے صحیح بخاری میں تعلیقاً روایت لی ہے لہٰذا وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث (ثقہ صدوق ) ہیں۔
٣۔ترمذی : صحح لہ (۴۱۵، ۶۷۲، ۱۹۴۸) وحسن لہ (۲۱۴۶، [۳۲۶۶])
تنبیہ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ ترمذی کے نزدیک مؤمل صحیح الحدیث وحسن الحدیث ہیں۔
٤۔ ابن خزیمہ : "صحح لہ" (مثلاً دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)
٥۔ الحاکم: "صحح لہ فی المستدرک علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی" (۳۸۴/۱ ح ۱۴۱۸)
یہ روایت مؤمل بن سفیان (الثوری) کے سند سے ہے لہٰذا مؤمل مذکور حاکم اور ذہبی دنوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں۔

٦۔ حافظ ذہبی: "کان من ثقات [البصریین]" (العبر فی خبر من غبر ۲۷۴/۱ وفیات ۲۰۶ھ)
اس سے معلوم ہوا کہ ذہبی کے نزدیک مؤمل پر جرح مردود ہے کیونکہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔

٧۔احمد بن حنبل : "روی عنہ"
اما م احمد بن حنبل مؤمل سے اپنی المسند میں روایت بیان کرتے ہیں مثلاً دیکھئے (۱۶/۱ح ۹۷ وشیوخ احمد فی مقدمۃ مسند الامام احمد ۴۹/۱)

÷ابن حجر العسقلانی: "ذکر حدیث ابن خزیمۃ (وفیہ مؤمل بن اسماعیل) فی فتح الباری ۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰) ولم یتکلم فیہ"
ظفراحمد تھانوی دیوبندی نے لکھا ہے: "وکذا شیوخ احمد کلھم ثقات"
اور اسی طرح احمد کے تمام استاد ثقہ ہیں۔ (قواعد فی علوم الحدیث ص ۱۳۳، اعلاء السنن ج ۱۹ ص ۲۱۸)
حافظ ہیثمی نے فرمایا: "روی عنہ احمد وشیوخہ ثقات"
اس سے احمد نے روایت کی ہے اور ان کے استاد ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ۸۰/۱)
یعنی عام طور پر بعض راویوں کے استثنا کے ساتھ امام احمد کے سارے استاد (جمہور کے نزدیک) ثقہ ہیں ۔
ظفر احمد تھانوی نے کہا:
"ما ذکرہ الحافظ من الاحادیث الزائدۃ فی فتح الباری فھو صحیح عندہ او حسن عنہ کما صرح بہ فی مقدمتہ۔۔۔۔" (قواعد فی علوم الحدیث ص۸۹)
معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب کے بقول حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل مذکور صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہے گویا انھوں نے تقریب التہذیب کی جرح سے رجوع کرلیا ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ وصدوق یا صحیح الحدیث ، حسن الحدیث ہیں لہٰذا بعض محدثین کی جرح مردود ہے۔ جارحین میں سے امام بخاری وغیرہ کی جرح ثابت ہی نہیں ہے۔ امام ترمذی وغیرہ جمہور محدثین کے نزدیک مؤمل اگر سفیان ثوری سے روایت کرے تو وہ ثقہ و صحیح الحدیث ہے
حافظ ابن حجر کا قول: "فی حدیثہ عن الثوری ضعف" (فتح الباری ۲۳۹/۹ تحت ح ۵۱۷۲) جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ مؤمل عن سفیان: صحیح الحدیث ہے تو بعض محدثین کی جرح کو غیرسفیان پر محمول کیا جائے گا۔ آخر میں بطور خلاصہ یہ فیصلہ کن نتیجہ ہے:
مؤمل عن سفیان الثوری: صحیح الحدیث اور عن غیر سفیان الثوری: حسن الحدیث ہے۔
والحمدللہ ظفر احمد دیوبندی صاحب نے مؤمل عن سفیان کی ایک سند نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "رجالہ ثقات" اس کے راوی ثقہ ہیں۔ (اعلاء السنن ج۳ص۱۳۳تحت ح ۸۶۵)

نیز تھانوی صاحب مؤمل کی ایک دوسری روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"فالسند حسن" پس سند حسن ہے۔ (اعلاء السنن ۱۱۸/۳ تحت ح ۸۵۰)
یعنی دیوبندیوں کےنزدیک بھی مؤمل ثقہ ہے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے محدثین کرام ہیں ۔ طوالت کے خوف سے مذید ذکر نہیں کر رہا۔


سینے پر ہاتھ رکھنے کے متعلق جتنی بھی احادیث ہیں ان میں سب سے قوی مومل بن بن اسماعیل کی روایت ہے اس کی سند ہے
مؤمَّل بن إسماعيل، عن سفيان الثوري، عن عاصم بن كليب بن شهاب، عن أبيه، عن وائل بن حجر
یہ روایت مومل بن اسماعیل کی وجہ سے منکر ہے ۔(اس کے بارے میں مختلف محثین کے قول ذکر کیے جاچکے ہیں )
آپ کو میں نے اس حدیث کی تفصیل لکھ دی ہے، والحمد للہ
اس روایت کو سفيان الثوري سے وكيع بن الجراح، وعبدالرزاق، ويحيى بن آدم، وأبو نعيم الفضل بن دكين، وعبدالله بن الوليد، ومحمد بن يوسف الفريابي نے نقل کیا ہے لیکن کسی نے بھی سینے پر ہاتھ رکھنے کا ذکر نہیں کیا ہے

اس حدیث کو شعبة بن الحجاج، وسفيان بن عيينة، وعبدالله بن إديس، ومحمد بن فضيل، وعبدالواحد بن زياد، وعبدالعزيز بن مسلم، وزائدة بن قدامة، وزهير بن معاوية، وبشر بن المفضل نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے عاصم بن كليب سے روایت کی ہے اور کسی نے بھی سینے پر ہاتھ رکھنے کے الفاظ نقل نہیں کیے ۔

اس کی مذید سند کچھ یوں ہیں عبدالجبار بن وائل عن علقمة بن وائل، ومولىً لهم، كلاهما روياه عن وائل بن حجر لیکن انہوں نے بھی علی الصدر کے الفاظ بیان نہیں ہیں ۔

تو کیا ایک متکلم فیہ راوی کی وجہ اس روایت پر عمل کریں ۔ یہ کیسے ممکن ہے۔.
"علی صدرہ" کے الفاظ سماک بن حرب سے صرف سفیان ثوری نے نقل کئے ہیں اسے ابوالاحوص، شریک القاضی نے بیان نہیں کیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سفیان ثوری ثقہ حافظ ہیں اور سماع کی تصریح کررہے ہیں لہٰذا دوسرے راویوں کا "علی صدرہ" کے الفاظ ذکرنہ کرنا کوئی جرح نہیں ہے کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوا کرتا اور عدم مخالفت صریحہ کی صورت میں ثقہ وصدوق کی زیادت ہمیشہ مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ اس خاص روایت میں بتصریحات محدثین کرام وہم و خطا ثابت نہ ہو۔ نیموی حنفی نے بھی ایک ثقہ راوی (امام حمیدی) کی زیادت کو زبردست طور پر مقبول قراردیا ہے، دیکھئے آثار السنن (ص ۱۷ ح ۳۶ حاشیہ: ۲۷)

موطا امام مالک ( ۹۸۵/۲، ۹۸۶ ح ۱۹۱۵) میں عبداللہ بن دینار عن ابی صالح اسمان عب ابی ھریرۃ قال: "ان الرجل لیتکلم بالکلمۃ۔۔۔الخ ایک قول ہے۔
امام مالک ثقہ حافظ ہیں۔

عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار: "صدوق یخطئ" (حسن الحدیث) نے یہی قول: "عن عبداللہ بن دینار عن ابی صالح عب ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: ان العبد لیتکلم بالکلمۃ۔۔۔۔ الخ
مرفوعاً بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان ح ۶۴۷۸)
معلوم ہو اکہ مرفوع اور موقوف دونوں صحیح ہیں اور امام بخاری کے نزدیک بھی ثقہ وصدوق کی زیادت معتبر ہوتی ہے۔ والحمداللہ

* بعض لوگ مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) کے الفاظ "یضع ھذہ علی صدرہ" کے بارے میں تاویلات کے دفاتر کھول بیٹھتے ہیں حالانکہ امام ابن الجوزی نے اپنی سندکے ساتھ مسند احمد والی روایت میں "یضع ھذہ علی ھذہ علی صدرہ" کے الفاظ لکھے ہیں (۲۸۴/۱) اس سے مؤولین کی تمام تاویلات ھباء منثورا ہوجاتی ہیں اور "علی صدرہ" کے الفاظ صحیح اور محفوظ ثابت ہوجاتے ہیں۔

* جب یہ ثابت ہے کہ ثقہ وصدوق کی زیادت صحیح و حسن اور معتبر ہوتی ہے تو وکیع و عبدالرحمن بن مہدی کا سفیان الثوری سے "علی صدرہ" کے الفاظ بیان نہ کرنا چنداں مضر نہیں ہے، یحییٰ بن سعید القطان زبردست ثقہ وحافظ ہیں ان کا یہ الفاظ بیان کردینا عاملین بالحدیث کے لیے کافی ہے۔
آپ کے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں:
: حديث هلب الطَّائي اس میں سماک کے علاوہ ؛ فقبيصة بن هلب بھی ضعیف ہے اس کو عنه ابن المديني والنسائي نے مجھول کہا ہے ۔
اور جس نے بھی یہ حدیث سفیان الثوری یا سماک بن حرب سے رویایت کیا اس الوضع علی الصدر کے الفاض نہیں سوائے روایت کے جو يحيى بن سعيد القطان نے سفیان الثوری سے کی ہے
اور رفع الیدین کی بحث میں آپ حضرات نے سفیان الثوری کے مدلس ہونے دلائل دیے تھے تو اب ان کی روایت کردہ حدیث سے حجت کیوں ۔


[صحیح ابن خزیمہ ۲۴۳/۱ ح ۴۷۹ ، والطحاوی فی احکام القرآن۱۸۶/۱ح۳۲۹ مؤمل: نا سفیان (الثوری) عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر]
اس سند میں عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب دونوں محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں، سفیان الثوری مدلس ہیں لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
مدلس راوی کی اگر معتبر متابعت یا قوی شاہد مل جائے تو تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔
روایت مذکورہ کا قوی شاہد : مسند احمد (۲۲۶/۵ ح ۲۲۳۱۳) التحقیق فی اختلاف الحدیث لابن الجوزی (۲۸۳/۱ ح ۴۷۷) وفی نسخۃ اخری (۳۳۸/۱ ح ۴۳۴) میں
"یحیی بن سعید (القطان ) عن سفیان (الثوری) : حدثنی سماک (بن حرب) عن قبیصۃ بن ہلب عن ابیہ"
کی سند سے موجود ہے۔
ہلب الطائی رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ، یحیٰ بن سعید القطان زبردست ثقہ ہیں، سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کردی ہے۔

قبیصہ بن ہلب کے بارے میں درج ذیل تحقیق میسر ہے:


حافظ مزی نے بغیر کسی سند کے علی بن المدینی اور نسائی سے نقل کیا کہ انھوں نے کہا:
"مجہول" (تہذیب الکمال ۲۲۱/۱۵)
یہ کلام کئی وجہ سے مردود ہے:
۱۔ بلاسند ہے۔
۲۔ علی بن المدینی کی کتاب العلل اور نسائی کی کتاب الضعفاء میں یہ کلام موجود نہیں ہے۔
۳۔ جس راوی کی توثیق ثابت ہوجائے اس پر مجہول ولائعرف وغیرہ کا کلام مردود ہوتاہے۔
۴۔ یہ کلام جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔


اگر فقہاء کا قول ذکر کروں گا تو بات طویل ہوجائے گی۔ بس امام ترمذی کا قول دیکھ لیں ۔

قال الترمذي رحمه الله في "جامعه": "والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم؛ يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة، ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم".
مذکورہ قول کے بارے میں جواب اسی توثیق کے نمبر ٣ پر:
قبیصہ بن ہلب کی توثیق درج ذیل ہے:

۔ امام معتدل العجلی نے کہا: "کوفی تابعی ثقۃ" (تاریخ الثقات: ۱۳۷۹)
۲۔ ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا (۳۱۹/۵)
۳۔ ترمذی نے اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو "حسن" کہا (ح۲۵۲)
۴۔ بغوی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا۔ (شرح السنۃ ۳۱/۳ ح ۵۷۰)
۵۔ نووی نے اس کی ایک حدیث کو "باسناد صحیح" کہا۔(المجموع شرح المہذب ج۳ ص ۴۹۰ سطر ۱۵)
۶۔ ابن عبدالبر نے اس کی ایک حدیث کو "حدیث صحیح " کہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب المطبوع مع الاصابۃ ج ۳ ص ۶۱۵)
ان چھ (۶) محدثین کے مقابلے میں کسی ایک محدث سے صراحتاً قبیصہ بن ہلب پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے۔
والحمدللہ تعالیٰ

اور جناب آفتاب صاحب
آپ نے ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دیا
آفتاب
نماز میں قیام میں کہاں ہاتھ باندھنے چاہئیے ۔ کیا کوئی صحیح حدیث پیش کرسکتے ہیں ؟
انس نضر
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے۔
اور کلیم بھائی کی بات بھی آپ نے نوٹ نہیں کی ۔
کلیم حیدر
افتاب بھائی بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے انس بھائی کے اس سوال کا جواب تو دیتے جائیں۔
١ور اس موضوع پر بھی روشنی ڈالیے۔
احناف کے نزدیک زیر ناف ہاتھ باندھنے والی روایت ضعیف ہے.
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
جیسے کہ آپ نے یہاں تسلیم کیا ہے کہ آپ اندھے مقلد بہرحال نہیں ہیں۔ اور مجھے بھی یہی حسن ظن ہے آپ سے ان شاء اللہ۔
یہ بات اصولی طور پر ہی غلط ہے جب تقلید کی تعریف ہی یہی ہے کہ بے سوچے سمجھے اور آنکھ بند کرکے کسی امتی کی بات اور رائے کو تسلیم کرلینا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مقلد ہو اور اندھا نہ ہو۔ بلکہ مقلد کے ساتھ اندھے کے الفاظ استعمال کرنا بھی ضروری نہیں کیونکہ مقلد کا لفظ اندھے اور بہرے کے ہم معنی ہی ہے۔ اس لئے کسی مقلد کے بارے میں یہ حسن ظن رکھنا ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ راجا بھائی آپ نوٹ کرلیں۔ شکریہ
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
تقلید کی تعریف ہی یہی ہے کہ بے سوچے سمجھے اور آنکھ بند کرکے کسی امتی کی بات اور رائے کو تسلیم کرلینا
یہ تعریف آپ نے کہان سے لی ہے ۔ اس کا حوالہ ضرور دیں جس میں تقلید کے معنی کہ بے سوچے سمجھے اور آنکھ بند کرنا کے الفاظ بھی ہوں ۔
حوالہ کا انتظار رہے گا ۔ ورنہ آپ کی بات بےبنیاد کہلائے گی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہ تعریف آپ نے کہان سے لی ہے ۔ اس کا حوالہ ضرور دیں جس میں تقلید کے معنی کہ بے سوچے سمجھے اور آنکھ بند کرنا کے الفاظ بھی ہوں ۔
حوالہ کا انتظار رہے گا ۔ ورنہ آپ کی بات بےبنیاد کہلائے گی۔
حنفی کہلانے والے دیوبندیوں کی تسلیم شدہ اور مستند لغت ’’القاموس الوحید‘‘ میں لکھا ہے:
قلدّ۔۔۔فلاناً: تقلید کرنا، بلادلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کرکے کسی کے پیچھے چلنا (ص١٣٤٦، مطبوعہ ادارہ اسلامیات، لاہور)
التقلید: بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی (٢) نقل (٣) سپردگی (القاموس الوحید، ص ١٣٤٦)
 
Top