ویسے پوسٹ کا عنوان تو کچھ اور ہی ہے۔لیکن جیسے ہی پوسٹ میں تھوڑا سا موضوع تبدیل ہوا تو فورا سارے "شیر"بلوں سے نکل کر دلائل کی بوچھاڑ کرنے لگے۔
کوئی ہے جو پوسٹ کے موضوع پر بات کر سکے؟
ویسے پوسٹ کا عنوان تو کچھ اور ہی ہے۔لیکن جیسے ہی پوسٹ میں تھوڑا سا موضوع تبدیل ہوا تو فورا سارے "شیر"بلوں سے نکل کر دلائل کی بوچھاڑ کرنے لگے۔
کوئی ہے جو پوسٹ کے موضوع پر بات کر سکے؟
پوسٹ کا عنوان خوارج نماتکفیری مرجئہ ابوبصیر نے امام المجاہدین مجدد جہاد شہید اسلام اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے خارجی ہونے کا مقرر کیا تھا۔اس سلسلے میں اس خارجی ایک پوسٹر محدث فورم پر اپ لوڈ کرتے ہوئے سعودی عالم صالح الفوزان کا قول نقل کیا تھا:ان سے سوال کیا گیا تھا کہ :
آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیرمخفی نہیں ہے ۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اوراس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خودکش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
شیخ کاجواب:جس کا بھی یہ فکر ہواور جو بھی اس فکر کا داعی ہواور ا س کی لوگوں کو ترغیب دے دے توخوارج میں سے ہے ،چاہےاس کانام یا اس کامقام کچھ بھی ہو۔قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کاداعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں خروج ،ان کو کافر قرار دینے او رمسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتاہو تو وہ خارجی ہے۔(فتاویٰ فی تکفیر والخروج علی ولاۃ الأمر ص ۲۵)
یہ ہے وہ پوسٹر جو جماعۃ الدعوۃ کے خوارج سے تعلق رکھنے والے خارجی ابوبصیر نے محدث فورم پر اپ لوڈ کیا۔جس سے اس کے باطن کے چھپے ہوئے خبث کا پتہ چلتا ہے۔پھر اس خارجی ابوزینب سے اس پوسٹر پر تبصرہ کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔جس کے جواب میں میں نے لکھا :
جناب ابوبصیر صاحب آل سعود کے شاہ عبداللہ نے ابھی حال میں اقوام متحدہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے دس ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔یہ شیخ فوزان اس بارے میں کیا فتویٰ دیں گے۔ کہ اقوام متحدہ کو مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے دس ملین ڈالر کی رقم فراہم کرنے والا کس زمرے میں شمار ہوگا؟؟؟اب آپ یہ پوسٹر بنائیں کہ جو شخص مسلمانوں کے خون کو حلال جانتے ہوئے ان کے قتل عام کے لئے اقوام متحدہ کو دس ملین ڈالر کی امداد فراہم کرے وہ کیا خارجیوں کے زمرے میں شامل ہوگا یا نہیں؟ابوبصیر اہل علم سے ضرور پوچھ لینا کہ ایسے شخص کا شریعت میں کیا حکم ہے۔جو کافروں کو مسلمانوں کے قتل عام کے لئے رقم فراہم کرے ۔ ان شاء اس کے بعد تفصیلی گفتگو ہوگی۔
جس پر اس جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے اس خارجی نے خبر کا حوالہ یا کوئی اخباری رپورٹ ؟؟؟؟کا ثبوت طلب کیا۔تو میں نے حوالہ بمعہ ثبوت کے پیش کیا:
جس پر جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے اس خارجی نے کوئی تبصرہ کیے بغیر صرف ارجاء اور تکفیر کے نظریات میں لتھڑے ہوئے پوسٹروں کو اپ لوڈ کرنے کے علاو ہ کچھ نہیں کیا اور جواب دینے سے پہلو تہی اختیار کی ۔اور صرف اس قدر جواب دینے پر اکتفاء کیا کہ:
انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف اقوام متحدہ کا ساتھ دیا ہے۔ جو ایک اچھی بات ہے اس میں کافر ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اب ہم قارئین کو بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ بین الاقوامی صہیونیت کی کھلی علمبردار ہے جس کا خادم سعودی عرب کا یہ بادشاہ عبداللہ ہے اور جس کے پاکستان میں حمایتی انجینئر حافظ محمد سعید اور ان کی جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان ہیں جو کہ اقوام متحدہ کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں اور اقوام متحدہ کی قائم کردہ عدالتوں سے فیصلہ کروانے کے شدت سے خواہشمند ہیں بلکہ موصوف کا تو کہنا ہے کہ ہم تو اقوام متحدہ کے بین الاقوامی قوانین کو مانتے ہیں:
صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات میں جگہ جگہ ایک سپرگورنمنٹ کا ذکر کیا گیاہے۔ مثلاً چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ''ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی سپرگورنمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضا کارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے۔''
وکٹر۔ ای۔ مارسڈن(جس نے ان دستاویزات کا ترجمہ روسی زبان سے انگیریزی میں کیا) نے ان دستاویزات کے تعارف میں اقوام متحدہ کو اسی سپر گورنمنٹ کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
اس منصوبے کو بروئے کارلاتے ہوئے اول لیگ آف نیشنز قائم کی گئی اور بعد میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر 73یہودی فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیسکو(Unesco) میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں ۔ آئی ایل او (ILO) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں ۔ ایف اے او(FAO) کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک ( World Bank) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جو یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے ذریعہ تمام بین الاقوامی امور پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اور ان کے گماشتے ہرہرشعبے میں موجود ہیں ۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگریہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کررہے ہوں تو وہ عالمی سیاسیات ، معاشیات اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر انجام دے رہے ہیں بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہونے کے بعد حیرت ہوگی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کررہی ہیں ۔ بہت سے ملکوں میں انہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناصب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کرواسکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بدنام زمانہ سی آئی اے (CIA) ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے جسے براہ راست اسرائیل سے ہدایات ملتی ہیں ۔
تعارف
48ویں انگریزی اشاعت (سن 1968ء) سے ماخوذ
صہیونی دانا بزرگوں کی دستاویزات کو مختصراً ساری دنیا پر ایک خفیہ برادری کے تسلط کا خاکہ کہا جاسکتا ہے۔ ان کی تالیف کی حقیقت خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو، ان کے شائع ہونے کے بعد ان دستاویزات پر شدید بحثوں کا سلسلہ چل نکلا۔ اس میں بہرحال کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے وہ عالمی معاشرہ جس کا قیام ان دستاویزات کا نصب العین ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ساری دنیا کو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا جائے۔
وہ کتاب جس کے ذریعہ یہ دستاویزات سب سے پہلے منظر عام پر آئیں ۔ پروفیسر سرجی نائلس(Sergei A. Nilus) نے 1905ء میں روس میں شائع کی تھی اس کتاب کا ایک نسخہ 10اگست سن 1906ء کو برٹش میوزیم میں موصول ہوا۔ پروفیس نائلس کا اس کتاب کو چھاپنے کا مقصد یہ تھا کہ اس بھیانک سازش کو بے نقاب کیا جائے۔ جو نصرانی تہذیب کو تباہ کرنے کے لئے تیار کی گئی تھی۔
اس کتاب کی اشاعت سے پہلے اگست اور ستمبر1903ء میں روسی اخبار سنامیا (Snamia) یہ دستاویزات شائع کر چکا تھا اور غالباً 1902ء اور 1903ء کی خزاں میں بھی یہ دستاویزات ایک اور روسی اخبار (Moskowskija Wiedomost)میں شائع ہوئی تھیں۔ روس کے باہر کی دنیا کو ان کا علم اس وقت ہوا جب بالشویک انقلاب کے بعد روسی تارکین وطن نائلس کی کتاب اپنے ساتھ شمالی امریکہ اور جرمنی لائے۔
کتاب کی اشاعت کے وقت تو اسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی لیکن جب بالشویک دور میں واقعات اسی طرح پیش آتے گئے جیسے کہ اس کتاب میں پیش گوئی کی گئی تھی تو یہ دستاویزات جواب تک بالکل غیر اہم اور معمولی سمجھی جارہی تھیں ،یکایک ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر گئیں ۔ بالشویک روس میں کسی کے پاس ان دستاویزات کی محض موجودگی کی سزا موت مقرر کی گئی اور یہ قانون نہ صرف روس بلکہ روس کے حواری ملکوں میں آج تک موجود ہے۔ آہنی پردے کے باہر جنوبی افریقہ میں بھی ان دستاویزات کا اپنے پاس رکھنا(گو اس کی سزا اتنی سخت نہیں ہے) قابل سزا جرم ہے۔
ان دستاویزات کی بڑھتی ہوئی شہرت کی وجہ سے انہیں جعلی ثابت کرنے کی بے شمار کوششیں کی گئیں لیکن 1933ء میں جب تک یہودیوں نے قانونی چارہ جوئی نہیں کی یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔26جون 1923ء کو سوئٹزر لینڈ کی یہودی انجمنوں کے وفاق اور برن کی یہودی آبادی نے سوئس نیشنل فرنٹ کے پانچ اراکین پر مقدمہ دائر کردیا اور عدالت سے استدعا کی کہ ان دستاویزات کو جعلی قرار دے کر ان کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔ عدالت کی روداد غیر معمولی طور پر حیران کن ثابت ہوئی۔ اس میں سوئٹزرلینڈ کے دیوانی قوانین کو دیدہ دانستہ نظر انداز کردیا گیا۔ مدعیوں کے بلائے ہوئے سولہ گواہوں کے بیانات عدالت نے سنے لیکن مدعا علیہ کے بلائے ہوئے چالیس گواہوں میں سے صرف ایک کو پیش ہونے کی اجازت مل سکی۔ جج نے بجائے اس کے کہ قانون کے مطابق عدالت کے مختصر نویس یہ کام کرتے، مدعیوں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ نجی طور پر اپنے دو مختصر نویس عدالت میں لاکر ان کے اپنے گواہوں کی شہادت کے دوران عدالت کی کارروائی قلم بند کر سکتے ہیں ۔
اس طرح کی اور اس کے علاوہ اور دوسری بدعنوانیوں کے پیش نظر یہ بات تعجب خیز نہیں کہ دو سال تک مقدمہ چلنے کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ یہ صادر کیا کہ یہ دستاویزات جعلی اور بدنیتی پر مبنی ہیں ۔ یہ فیصلہ 14مئی 1934ء کو سنایا گیا لیکن فیصلہ صادر ہونے سے قبل ہی یہودی پریس اسے باقاعدہ شائع کر چکا تھا۔
یکم نومبر1937ء کو سوئس فوجداری عدالت نے مدعیوں کی اپیل پر اس فیصلے کو یکسر پلٹ دیا۔ لیکن یہودی آج تک اسی فیصلے کا ڈھنڈورا پیٹے جارہے ہیں کہ عدالت نے ان دستاویزات کو جعلی قرار دیا تھا۔ ان دستاویزات کی تشہیر کی وجہ سے چونکہ یہودیوں کے دوسرے منصوبے بھی عوامی توجہ کا مرکز بنتے جارہے تھے اس لئے قدرتی طور پر ان کی یہی کوشش رہی کہ ان دستاویزات کو جعلی ہی سمجھا جاتا رہے۔
اسرائیلی (وزیراعظم برطانیہ) کی کتاب ''دی لائف آف جارج بٹنک '' میں جو 1852ء میں لکھی گئی تھی۔ مندرجہ ذیل حوالہ محل نظر ہے۔
''یورپ کو تباہ کرنے کی پچھلی سازش میں یہودی ہاتھ واضح طور پر کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ بغاوت، روایت، اشرافیت، مذہب اور حق ملکیت کے خلاف تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سامی تہذیب کے تمام نقوش کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے خواہ وہ موسوی شریعت کی شکل میں ہوں یا عیسیٰ کی ۔ خفیہ تنظیمیں ، مساوات کے نام پر انفرادی حق ملکیت کے خلاف اعلان جنگ کررہی ہیں ۔ ان تمام خفیہ تنظیموں کے اوپر ایک یہودی النسل سربراہ بیٹھا ہوا ہے۔ خدا کو ماننے والے بے دینوں سے تعاون کررہے ہیں ۔ جن لوگوں نے انتہائی عیاری سے دولت سمیٹی ہے اور جائیدادیں بنائی ہیں اور اشتمالیوں (کمیونسٹوں) کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہ قوم جو اپنے آپ کو خدا کی افضل ترین امت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے یورپ کی پست ترین اقوام کے ساتھ شیروشکر ہورہی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ وہ اس احسان فراموش نصرانی دنیا کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جس کا نام تک ان ہی کا دیا ہوا ہے اور جن کے مظالم وہ اب مزید برداشت نہیں کر سکتے۔''
میکس نوردو(Max Nordau) نامی ایک یہودی نے اگست 1903ء میں باسل (Basle) میں صہیونی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز پیش گوئی کی تھی۔
''مجھے یہ الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو وہ زینہ دکھاؤں جس کی سیڑھیاں صرف اوپر کی طرف اٹھتی چلی جارہی ہیں۔ ہرٹزل صہیونی کانگریس منعقد ہو چکی ہے۔ اب برطانوی یوگنڈا کی تجویز پیش کی جائے گی ، پھر جنگ عظیم ہوگی۔ اس کے بعد امن کانفرنس ہوگی جس میں انگلستان کی مدد سے فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست وجود میں آئے گی۔''
1۔ تھیوڈور ہرٹزل(Theodor Herzl) پیدائش 1860ء وفات1904ء اسٹروینگیرین یہودی لیڈر اور سیاسی صہیونیت کے بانی نے 1895ء میں ایک رسالہ شائع کیا جس میں یہودی کے خلاف عالمی تعصب اور بار بار ان کے استحصال کے پیش نظر ایک علیحدہ صہیونی ریاست کی تجویز پیش کی ۔ ہرٹلز نے 1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہریا سل میں پہلی صہیونی کانگریس منعقد کی اور اس کا صدر منتخب ہوا۔ 1899ء تک یہ کانگریس سالانہ ہوتی تھی والٹرریتھنو(Walter Rathenau) یہودی بینکار جو قیصر جرمنی کا پشت پناہ تھا۔ اس کا ایک جرمن اخبار(Weiner Frei Presse)میں 24دسمبر 1912ء میں یہ بیان شائع ہوا۔
''صرف تین سو افراد جن میں سے ہر ایک باقی دوسروں سے بخوبی واقف ہے، یورپ کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ اپنے جانشینوں کا انتخاب اپنے ساتھیوں میں سے کرتے ہیں۔''
ریتھنو کے اس قول کی تصدیق بیس سال بعد1931ء میں اس وقت ہوئی جب ژاں ازولے(Jean Izoulet) نے جو عالمی اسرائیلی اتحاد (Alliance Israelite Uninerselle) کا ایک سرگرم رکن تھا۔ اپنی کتاب ''پیرس مذاہب کا پایہ تخت'' (Parisla Capitale Des Religions) میں لکھا:
''پچھلی صدی کی تاریخ کا ماحصل یہ ہے کہ تین سو یہودی سرمایہ کار جو فری میسن لاجوں کے ماسٹر ہیں ، ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں ۔''
لندن کے ایک یہودی اخبار جیوش کرانیکل (Jewish Chronical) نے اپنی 14اپریل 1919ء کی اشاعت میں لکھا کہ:
'' بالشویک تحریک حقیقت میں کچھ اور ہے۔ ورنہ اتنے یہودی اس تحریک سے کیوں منسلک ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بالشویک تحریک کے مقاصد وہی ہیں جو صہیونیت کے ہیں ۔''
15 مارچ 1923ء کے شمارے میں جیوش ورلڈ نے لکھا:
''بنیادی طور پر صہیونیت نصاریٰ دشمنی کا نام ہے ۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے انکشافات جو یہودی حوالوں سے منظر عام پر آئے، یہودی نقطہ نظر سے کافی ضرر رساں ثابت ہوئے۔ اگر ان تحریروں کو ان صہیونی دستاویزات کی روشنی میں ، جن سے اب زیادہ سے زیادہ لوگ واقف ہوتے جارہے ہیں ، دیکھا جائے تو ایک بڑی بھیانک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔''
ان لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے جنہیں نصرانی تہذیب پر بڑھتے ہوئے حملوں سے تشویش ہورہی تھی،ہنری فورڈ سینئر (فورڈ موٹر کمپنی کے بانی) نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اختصار سے بیان کیا ہے۔
17فروری1921ء کو انہوں نے نیویارک کے اخبار''ورلڈ'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
'' ان دستاویزات کے بارے میں ، میں صرف ایک بیان دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ واقعات بجنسہ اسی طرح رونما ہورہے ہیں جیسی کہ ان دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ یہ دستاویزات سولہ سال پرانی ہیں اور اب تک واقعات من و عن اسی طرح رونما ہوئے ہیں جیسی ان دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ آج کے حالات بھی ان کے عین مطابق ہیں ۔''
دوسرے لوگ جنہیں ہنری فورڈ کی طرح اس امر کا ادراک ہوا کہ نائلس کی کتاب کے شائع ہونے کے بعد سولہ سال کے اندر ہی رونما ہونے والے واقعات نے ان دستاویزات کی اہمیت کی تصدیق کردی، انہوں نے بھی اس زمانے میں بالشویک تحریک کے اثرات کا جائزہ لیا تھا لیکن ان میں سے صرف چند افراد ہی اس خطرے کی بو سونگھ سکے ہوں گے کہ یہ تحریک بین الاقوامی حیثیت اختیار کر جائے گی۔ اب جبکہ نائلس کی کتاب میں ان دستاویزات کی اشاعت کو نصف صدی گزر چلی ہے، ان حضرات پر جو عالمی کوائف کا معروضی مشاہدہ کرتے رہے ہیں ، یہ بات بالکل واضح ہو چکی ہوگی کہ یہ خطرہ کتنا حقیقی تھا۔
ان دستاویزات میں جگہ جگہ ایک ''سپر گورنمنٹ'' کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ:
''ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی ''سپر گورنمنٹ'' کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضاکارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے۔''
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام بعینہ اسی رضاکارانہ اطاعت کے اصول کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے مثلاً یونیسکو، آئی ایل او، ڈبلو ایچ او، ایف اے او اور انسانی حقوق کا کمیشن وغیرہ قائم کئے گئے۔
پچھلے چند سالوں میں ایک بین الاقوامی تنظیم جو خود کو پارلیمانی تنظیم برائے عالمی حکومت کہلواتی ہے، قائم کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے بھی وہی اغراض و مقاصد ہیں جو اس جیسی دوسری عالمی تنظیموں کے ہیں ۔ یہ ادارہ برملا اعلان کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور میں معمولی ردوبدل کے بعد اسے فوری طور پر ایک عالمی حکومت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کافی عرصے سے ایک عالمی پولیس فورس قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر یہ قائم ہوگئی تو اقوام متحدہ کی سپر گورنمنٹ ایک انتہائی طاقتور پولیس فورس کے ذریعہ ساری دنیا پر اقتدار قائم کر سکے گی۔
1950ء کے عشرے کے آخری سالوں میں یہ پولیس فورس تقریباً قائم ہوتے ہوتے رہ گئی۔1956ء کے نہر سوئز کے بحران کے بعد اقوام متحدہ کی ایمرجنسی فورس کا قیام دراصل ایک تجرباتی منصوبہ تھا۔
اگر اقوام متحدہ کے منشور میں معمولی ردوبدل کے بعد اسے ایک سپر گورنمنٹ بنا دیا جائے تو اس کے ذیلی ادارے خود بخود وزارت تعلیم، وزارت محنت، وزارت صحت، وزارت انصاف اور وزارت خوراک و ذراعت بن جائیں گے۔
کیا یہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے کہ ان تمام امور کی ان صہیونی دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
یہ ہےوہ اقوام متحدہ جس کے بارے میں جماعۃ الدعوۃ سے تعلق رکھنے والے خارجی ابوبصیر کا کہنا ہے کہ :
انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف اقوام متحدہ کا ساتھ دیا ہے۔ جو ایک اچھی بات ہے اس میں کافر ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تو القول السدید اب تمہارا کیا خیال ہے کہ تمہارا یہ صلیبی امام جسے شاہ عبداللہ کہا جاتا ہے جس نے اقوام متحدہ کو کے قتل عام کے لئے دس کروڑ ڈالر کی ایک خطیر رقم فراہم کی یہ تمہارے نزدیک خارجی ہے یا مجاہد جو کہ اقوام متحدہ کے صہیونی جھنڈے تلے مجاہدین اسلام سے قتال میں مصروف ہے ۔جس نے صلیبیوں اور صہیونیوں کے لئے مجاہدین کے خون واموال حلال کئے .بتاؤ اے خوارج نماتکفیری مرجئوں کیا جواب ہے تمہارے پاس ؟؟؟؟؟؟