السلام علیکم و رحمۃ اللّٰه و برکاتہ
اسی موضوع کے متعلق ایک تحریر تھی تو سوچا اسے اس میں یہانپرشیئر کردوں
عن أبي مسعود البدري -رضي اللّٰه عنه- عن النبي -صلى اللّٰه عليه وسلم- قال:
من دلَّ على خير, فله مثلُ أجرِ فاعلِه
ابو مسعود بدری رضی اللّٰه عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا کہ
’’جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیکی کا کام کرنے والے کے مثل اجر ملے گا‘‘[رواه مسلم.]
گزشتہ ہفتے دعوت و میٹنگ تھی اور پہلی مرتبہ یہ میٹنگ تھی جو بہت ہی عمدہ رہی اور بہت سی باتیں سامنے آئیں اور یہ ایک بہت ہی خیر کے کام کے لیے میٹنگ تھی، الحمدللّٰه
دعوت ایک پارک میں رکھی گئی تھی ظہر کے بعد عصر سے پہلے تک اور اس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ ہر فیملی اپنی طرف سے کھانا لائے گی اور سب مل بیٹھ کر کھائیں گے
اور یہ دعوت نکاح کے متعلق تھی
یعنی مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کے نکاح کو جلد از جلد سرانجام دینا اور اس کو فروغ دینا اور دوسروں کو اس کی ترغیب کے متعلق
فیس بک پر ایک بہت بڑا مسلم ماؤں کا گروپ ہے جس میں تقریباً 20 ہزار کے قریب مائیں شامل ہیں اور پھر اسی گروپ کی مختلف شاخیں ہیں جن میں مزید چھوٹے چھوٹے مختلف مقاصد پر گروپ بنائے گئے ہیں
اسی گروپ کی ایک شاخ نکاح کیلئے بنائی گئی اور اہلیہ کو بھی اس کی انتظامیہ میں شمولیت کیلئے کہا گیا ہے اور مجھ سے مشورہ کرنے کے بعد اہلیہ نے انکی اس بات کو قبول کرلیا
اس پہلی میٹنگ کی دعوت میں گئے اور پھر کافی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور ویبسائٹ کے نام کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی ہوا اور اس کا نام بھی تبدیل کردیا گیا
پہلے نام تھا ” جلد نکاح Early Nikah“ تو اس میں یہ بات سامنے آئی کہ کہیں کوئی اسے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ نابالغ بچوں کی شادیاں کی جارہی ہیں لہٰذا مشورے میں” آسان نکاح Easy Nikah“ کے نام پر سب لوگ متفق ہوگئے اور اس کی وجہ بھی یہ حدیث مبارکہ ہے
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ
رسول اللہ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو
Messenger of Allah ﷺ said: The best Nikah ( marriage) is the one that is most easy
( Abu Dawood 2117 )
دراصل ابتدائی تعارف ہوا تو اسی پر کچھ دینی باتیں ہورہی تھیں جن میں مَیں نے بھی کچھ حصہ لیا اور پھر دینی اعتبار سے مجھے ہی آگے کردیا گیا آپ ہی کچھ ابتدائی بات کریں اسلام کی رو سے
چھوٹی بیٹی سے تلاوت کا آغاز کیا گیا جو تقریباً 4 برس سے کم اور پھر میں نے کچھ اسی موضوع پر بات چیت کی اور کچھ سیرت اور سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم کے مختلف مبارک نکاحوں پر بات کی اور پھر حق مہر کے موضوع پر بھی بات کی اور دو اہم موضوع جس نے ہمارے دو طبقات میں نکاح کو مشکل بنا دیا ہے اس پر بات کی
عربوں میں” مَہر “ اتنا زیادہ کردیا گیا ہے کہ بیٹیاں گھروں میں بیٹھی انتظار کرتی رہتی ہیں حتی کہ بالوں میں چاندی اتر آتی ہے اور یہ فقط باتیں نہیں بلکہ مختلف ممالک کے عربوں سے اس موضوع پر بات چیت ہوتی رہتی تھی جس سے یہ معلومات ہوئیں
یہانپر فقط دو واقعات ذکر کرتا ہوں اور یہی میں نے اس میٹنگ میں بھی کیں
ایک عرب نوجوان سے نکاح کے موضوع پر بات ہوئی تو تنگ آیا وہ نوجوان بولا کہ 50 ہزار ریال” حق مہر “ دینے سے بہتر ہے کہ میں اس رقم کی گاڑی خرید لوں اور دو برس بعد بیچوں گا تو اچھی قیمت واپس مل جائے گی
اسی طرح ایک دیندار نوجوان لڑکا میرے پاس آتا تھا رپئیرنگ کیلئے تو ایک دن اسی موضوع پر بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں نے دو نئی گاڑیاں قسطوں پر لیکر نقد میں کسی کو بیچ دیں اور پھر اس رقم سے مہر ادا کیا اور باقی کے کچھ اخراجات بھی ادا کیے اور اب ماہانہ 2 ہزار ریال قسط ادا کررہا ہوں دونوں گاڑیوں کی
اگر زیادہ ” مہر “ أجر ثواب کا باعث ہوتا تو سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کا مہر زیادہ رکھتے اور صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین بھی یہی کرتے
لیکن ہمیں سیرت سے اور اسلاف کی زندگیوں سے واضح یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے مہر کو کم رکھا اور نکاح کو آسان بنایا
اسی طرح اس مہر کا مذاق بھی اس شکل میں بنایا گیا کہ جی” مہر فاطمی “ لکھ لیں یعنی” سيدة النساء في الجنة “ اور شہزادہِ جنت حسنین کی والدہ اور فاتح خیبر کی زوجہ جو بنت سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم ہیں ان جیسا لکھ لو
اور میرے جیسے مولوی نے اسے” سوا 32 روپے “ کہا جو ہمارے ہاں عام تھا حالانکہ سیدنا علی رضی اللّٰه نے 380 درہم میں اپنی” حطمی ذرع “ کو بیچا اور مہر ادا کیا اور ہمارے ہاں اس کو سوا 32 روپے سے مذاق بنایا ہوا ہے شریعت کے نام پر، اللّٰه تعالیٰ دین حق کی سمجھ عطا فرمائے، آمین
اور دوسری طرف
برصغیر پاک و ہند میں جہیز کی لعنت نے والدین کو پریشان کر رکھا ہے اور ساتھ ساتھ لڑکا اور لڑکی بھی پس رہے ہوتے ہیں اور اسی کو ہم سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں کریں تو سب کچھ وقت پر اور آسانی سے سرانجام دیا جا سکے، إن شاء اللّٰه
لیکن ہم فقط جہیز کی لعنت کا شکار نہیں بلکہ اس کے ساتھ غیر شرعی رسومات کا بھی شکار ہیں
پھر دینداری کو مقدم رکھنے اور اسکی ترغیب پر کچھ بات چیت کرتے ہوئے کچھ احادیث بیان کیں
رسول كريم صلى اللّٰه عليہ وسلم كا فرمان ہے:
الدنيا متاع ، وخير متاعها المرأة المؤمنة ، إن نظرت إليها أعجبتك ، وإن أمرتها أطاعتك ، وإن غبت عنها حفظتك في نفسها ومالك
" دنيا كا بہترين مال و متاع مومن عورت ہے، اگر تم اسے ديكھو تو تجھے اچھى لگى اور خوش كر دے، اور اگر تم اسے حكم دو تو وہ تمہارى اطاعت كرے، اور اگر تم اس كے پاس نہ ہو تو وہ اپنے نفس و عزت كى اور آپ كے مال كى حفاظت كرے "
اور يہى وہ عورت ہے جس كا نبى صلى اللّٰه عليہ وسلم نے حكم ديا جب مہاجر صحابہ نے دريافت كيا كہ ہم كونسا مال ركھيں تو آپ نے فرمايا:
" ذكر كرنے والى زبان، اور شكر كرنے والا دل، اور نيک و صالح بيوى جو تمہارے ايمان ميں آپ كى معاونت كرنے والى ہو "
اسے امام ترمذى نے سالم بن ابى جعد عن ثوبان كے طريق سے روايت كيا ہے.
پھر اسی طرح لڑکیوں اور لڑکوں کی ذمہ داری پر کچھ گفتگو کی کہ شوہر پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور بیوی پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پھر ساس سسر کا اس میں کیا کردار ہونا چاہئے؟
اسی طرح یہ بات بھی کی کہ پہلے تو خوشی خوشی لڑکی ڈھونڈی جاتی ہے اور نکاح کے چند ماہ بعد بھی لڑائی جھگڑے شروع؟
یعنی وہی لڑکی اب آپ کو اچھی نہیں لگتی؟
اسی طرح بہو کو گھر کی نوکرانی نہ سمجھا جائے کہ اپنی بیٹیاں تو آرام کریں لیکن بہو کولہو کا بیل بن کر کام پر جُتی رہے؟
اگر آپ بہو کے ساتھ بیٹی جیسا سلوک کریں تو گھر میں خوشحالی ہوگئی اور آپس میں پیار محبت بڑھے گا إن شاء اللّٰه
اسی طرح بہو بھی شوہر کے والدین کو بوجھ نہ سمجھ لے؟ بلکہ اپنی جنت کے والدین سمجھے اور ان سے حسن سلوک رکھے اپنے والدین سمجھتے ہوئے اور انکی خدمت کو أجر سمجھتے ہوئے بجا لائے تو امید ہے کہ گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی، إن شاء اللّٰه
یہانپر ” اپنی جنت “ کہنے کی وضاحت بھی کردوں کہ سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم نے شوہر کو بیوی کیلئے اسکی جنت اور جہنم کہا اور اس کیلئے درج ذیل واقعہ ہے جو کہ مسند احمد اور مستدرک حاكم ميں
حصين بن محصن رضی اللّٰه عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللّٰه عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں
تو رسول كريم صلى اللّٰه عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا: كيا تمہارا خاوند ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں،
رسول كريم صلى اللّٰه عليہ وسلم نے فرمايا:" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.
رسول كريم صلى اللّٰه عليہ وسلم نے فرمايا: " تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "
کتنی اہم بات سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمائی
اور اگر بیوی کا یہی رٹا رہے کہ والدین کی ذمہ داری شوہر کی ہے تو پھر وہ کام پر نہ جائے بلکہ والدین کی خدمت میں لگا رہے؟
جس شریعت نے پڑوسی کے اتنے حقوق بتائے کیا اس میں ساس سسر کی خدمت ہی منع ہے؟
اگر آپ کو یہی لگتا ہے یا مولوی صاحب نے یہی بتایا ہے؟
تو ساس سسر نہیں بلکہ پڑوسی ہی سمجھ کر خدمت کردیں؟ إن شاء اللّٰه آپ کا أجر ضائع نہیں ہوگا
اور کوئی یہ ہی نہ سمجھ لے کہ میں فقط شوہروں کی طرف داری ہی میں احادیث لکھ رہا ہوں
لہٰذا شوہر کیلئے بھی تنبیہ لکھ دوں کہ اس کے متعلق سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم کا کیسا عمدہ ارشاد ہے اور اس شوہر کو بہترین کہا جو اپنے گھر والوں یعنی بیوی کیلئے اچھا ہے اور دوسری جگہ ان کے ساتھ بھلائی کی وصیت بھی فرمائی
نبی صلی اللّٰه علیہ وسلم کا فرمان ہے: خواتین کے ساتھ بھلائی کی وصیت مجھ سے لے لو
بخاری: (3331) مسلم: 1468
ایسے ہی آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم کا فرمان ہے: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل خانہ کیلئے تم سب سے زیادہ بہتر [خیال رکھنے والا]ہوں
ترمذی: (3895) ابن ماجہ: (1977)
اس میٹنگ میں نکاح کیلئے 8 لڑکیوں اور 2 لڑکوں نے شمولیت کی جو کہ 18 سے 25 برس کی عمر تک کے تھے اور والدین کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعارف پیش کیا گیا
ایک ممبر نے بہت عمدہ بات کی کہ مغربی ممالک میں رہتے ہوئے ہمارے بچے اسلامی تعلیمات کے پابند بنے رہتے ہیں الحمدللّٰه لیکن والدین کو بھی انکے صبر کو آزمانے کی ضرورت نہیں
لڑکے لڑکیاں غیر مسلم لڑکے لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں کہ جو کام ہم نے جاب شروع ہونے کے بعد 25 ،30 برس کی عمر میں پہنچ کر حلال طریقے سے کرنا ہے اس سے یہ غیر مسلم لطف اندوز ہوچکے ہوتے ہیں
اس پر میں نے لقمہ دیا کہ جیسے کھانے کی بھوک ہوتی ہے اسی طرح انسان کیلئے جسمانی بھوک بھی ہوتی ہے جس کیلئے ہمیں شریعت نے حلال طریقے سے اس بھوک کو مٹانے کی ترغیب دی ہے
ایک اور انتظامیہ کے ممبر نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لڑکا ابھی تعلیم حاصل کررہا ہے تو مناسب رشتہ مل جائے تو فوری نکاح کیا جائے اور لڑکے کے والدین کو اس کا سہارا بننا چاہیے اور اسی طرح لڑکی کے والدین کو بھی معاونت کرنی چاہیے تاکہ مل جل کر ایک نئے مسلمان جوڑے کو سہارا دے سکیں
اور اسی طرح اس پراجیکٹ کی ابتداء کرنے والے صاحب نے بتایا کہ میری یہ سوچ ہے کہ اس ویبسائٹ یا کسی بھی ایسے کام کے لوگوں سے پیسے نہ لیے جائیں بلکہ مل جل کر بانٹ کر کام کرلیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ سب کو کہا گیا کہ کھانا ساتھ لائیں اور مل جل کر کھائیں گے اور بتایا کہ ویبسائٹ بھی فری تیار کی گئی ہے اور اس میں لڑکے لڑکیوں کی ممبر شپ بھی سو
فری رکھی گئی ہے اور ہم ایسے ممالک میں رہتے ہوئے مسلم کمیونٹی میں میل جول بڑھائیں اور اپنے بچے اور بچیوں کے نکاح کو آسان اور وقت پر کرنے والے بن جائیں اور میری اس کوشش سے کسی ایک مسلمان بچے یا بچی کا نکاح ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا، الحمدللّٰه
تو میں نے ان کے اس کام کو سراہتے ہوئے درج ذیل حدیث بیان کی کہ
نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا
*خير الناس أنفعهم للناس*
" لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسرے لوگوں کیلئے زیادہ نفع مند ہو " (حسن)
اور پھر میں نے انہیں مندرجہ بالا حدیث” خَيْرُ النِّكَاحِ أَيْسَرُهُ “ بھی بھیجی جسے انہوں نے ویبسائٹ پر سلائیڈ میں لکھ دیا، ماشاءاللّٰه
یہی کام پاکستان و ہند میں یا جن غیر ممالک میں ہم قیام پذیر ہیں وہاں بھی شروع ہوجائے تو امید ہے کہ بہت ہی آسانیاں ہوجائیں گی نوجوان لڑکے لڑکیوں کیلئے اور حرام کاموں سے بھی بچت ہوگی إن شاء اللّٰه
یہ اتنا آسان نہیں لیکن ابتداء کی جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ زیادہ مشکل دکھائی دے گا بلکہ إن شاء اللّٰه
اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے بھی مدد آئے گی اس خیر کے کام میں،
تو درج ذیل حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ بھی اپنے علاقے میں اپنے عزیز و اقارب میں اس کو فروغ دینے کی کوشش کریں
ابو مسعود بدری رضی اللّٰه عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا کہ
’’جس شخص نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیکی کا کام کرنے والے کے مثل اجر ملے گا‘‘
یہ ایک بہت عظیم حدیث ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کسی کو نیکی کی راہ دکھاتا ہے اسے نیکی کرنے والے کے مثل اجر ملتا ہے۔
اس میں بول کر رہنمائی کرنا بھی شامل ہے جیسے علم سکھانا اور عمل کے ذریعے رہنمائی کرنا بھی شامل ہے جس سے مراد ہے اچھا نمونہ بننا۔
اور پھر اسی طرح آپ دوسری صف کے لوگوں میں بھی شامل ہوسکتے ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچانے میں لگ جاتے ہیں چاہے اس کیلئے کوئی بھی جائز ذرائع میسر آئے اور یہ لوگ بھی خیر والے ہیں جن کیلئے سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم کا درج ذیل ارشاد ہے
نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا
*خير الناس أنفعهم للناس*
" لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسرے لوگوں کیلئے زیادہ نفع مند ہو " (حسن)
آگے بڑھیں اور اس کارخیر کو اپنے ہاں بھی نمونہ بنانے کی بھر پور کوشش کریں اور ” خیر الناس “ میں شامل ہوجائیں اور حلال کو آسان بنانے میں دوسروں کی مدد کرکے اللّٰه تعالیٰ سے أجر پانے والے بن جائیں، إن شاء اللّٰه
اس پوسٹ کو(مزید فیس بک گروپس ، واٹس ایپ گروپس ،ٹیلی گرام گروپس اور سوشل میڈیا میں ) شئیر کرکے دوسروں تک بھی پیغام پہنچائیں اور اللّٰه تعالی سے أجر کی امید رکھیں ،إن شاء اللّٰه
جزاکم اللّٰه خيراً
تحریر از
أبو حسن میاں سعید
9 صفر 1442
27 ستمبر 2020ء
اللّٰه تعالیٰ اس کاوش اور اس میں معاونت کرنے والے سبھی افراد کو أجر عظیم عطا فرمائے اور وقت پر نکاح کرنے کے اس عمل میں آسانیاں پیدا فرمائے اور ہمیں دوسروں کیلئے نفع پہنچانے والا بنائے اور سیدالاولین و الاخرین صلی اللّٰه علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
پوسٹ کا ربط