- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
میرے خیال میں تو یہ الفاظ کا ہی اختلاف ہے ، حقیقت ایک ہی ہے ۔ کیونکہ جو ’’ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ‘‘ کی پیروی کرنے والے ہیں وہ بھی تو ایک فرقہ ہیں ۔ بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ’’ جنتی فرقہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔اس حدیث کے چار حصے ہیں۔
لیکن اگر ”ناجی گروپ“ کو ”73 فرقوں میں سے ایک“ سے ”جوڑنے“ کی بجائے آخری فقرے سے ”جوڑا“ جائے کہ ۔ ۔ ۔ صرف وہی لوگ (یعنی لوگوں کا گروپ) جنت میں جائیں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلیں گے۔ ۔ ۔ ۔ تو اس موضوع پر قرآن و حدیث کا یہ منشا زیادہ واضح ہوسکتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ فرقے بنانا حرام ہے۔ جو فرقے بنیں گے وہ سب کے سب دوزخی ہوں گے۔ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے، جو فرقے بنا نے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلیں گے۔
- پہلے حصے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑ گئی تھی اور اس میں 72 (یعنی کثیر) فرقے بن گئے تھے۔
- دوسرے حصے میں یہ پیشنگوئی کی گئی ہے کہ میری امت میں 73 (یعنی بنی اسرائیل سے بھی زیادہ) فرقے بن جائیں گے۔
- تیسرے حصے میں یہ وعید سنائی گئی ہے کہ 72 (یعنی کے تقریباً تمام) فرقے جہنم میں جائیں گے۔ (کیونکہ قرآن نے فرقے بنانے سے سختی سے منع کیا ہے ۔ اور فرقے بننے کے بعد فرقہ پرست، قرآن و حدیث کی بجائے فرقہ کے بانیان کو فالو کرنے لگے ہیں)
- چوتھے حصے میں یہ کہا گیا ہے کہ 73 میں سے ایک فرقہ ناجی یعنی جنتی ہوگا۔
میرا سوال اپنی جگہ وہی ہے کہ کیا اس حدیث سے یہ مفہوم اخذ کرنا درست ہے ؟؟؟
یا وہی بات درست ہے جو ہر فرقہ کہتا ہے کہ ۔ ۔ ۔ اسلام میں 73 فرقے ہوں گے، جن میں سے 72 فرقے جہنمی ہوں گے اور صرف ایک فرقہ (میرا والا) جنتی ہوگا۔
@خضر حیات
@سرفراز فیضی
@ابن بشیر الحسینوی
@ابوالحسن علوی
آپ کے لیے پریشانی کا باعث دو چیزیں بن رہی ہیں :
اول : قرآن مجید نے فرقے بنانے سے منع کیا ہے ۔ لیکن حدیث میں جنت میں جانے والوں کو بھی فرقہ ہی قرار دیا گیا ہے ۔
اس تعارض کو دو طرح سے حل کیا جاسکتا ہے :
1۔
حدیث میں جنتی فرقہ سے مراد ’’ جماعت ‘‘ اور ’’ گروہ ‘‘ ہے ، اور اس سے مراد وہ ’’ فرقہ ‘‘ نہیں ہے جس کی قرآنی الفاظ ’’ و لا تفرقوا ‘‘ میں مذمت کی گئی ہے ۔
2۔
قرآن کی آیت ’’ ولا تفرقوا ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’ حق راستہ ایک ہی ہے ، لوگ اس کو مضبوطی سے تھام لیں ، اور حق کو چھوڑ کر مختلف فرقوں میں نہ بٹ جائیں ۔
گویا ایک حق رستہ چھوڑنے کو مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کا سبب ذکر کیا گیا ہے ۔
دوم : جنت میں ایک ہی فرقے نے جانا ہے ، جبکہ یہاں ہر ایک فرقہ کہتا ہے کہ میں جنتی اور میرا مخالف جہنمی ہے ۔
تو اس کا جواب یہ ہےکہ ’’ جنتی فرقے ‘‘ کا حتمی فیصلہ اللہ کی ذات نے کرنا ہے ، جو یقینا ایک ہی ہوگا ۔ اللہ کا اختیار لوگوں کے دعووں کا پابند نہیں ۔ اب ہر کوئی اپنے آپ کو وہ فرقہ سمجھ رہا ہے تو اس کی مثال آپ انتخابات کے نظام سے سمجھ سکتے ہیں ، ہر جماعت کہتی ہے کہ ہم حکومت کے زیادہ مستحق ہیں اور ہمارا مخالف اس منصب کے لائق نہیں ۔ لیکن جب وقت آتا ہے تو تو سب کو ان کے دعووں کی بنیاد پر اختیار نہیں کر لیا جاتا بلکہ کوئی ایک جماعت ہی آگے آتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔