• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا قانون طلاق اور اس کا ناجائز استعمال

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق دینے کا صحیح طریقہ
طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو اُس طہر میں ایک بار طلاق دے جس میں اس نے اس سے جماع نہ کیا ہو۔ اس کے بعد وہ اپنی بیوی کو اپنے گھرسے نکالے بغیر عدت کا انتظار کرے ۔ اِس کو ’ طلاق سنی ‘ کہتے ہیں یعنی وہ طلاق جو سنت کے مطابق ہے ۔ اور یہ طلاق ’طلاق ِرجعی ‘ بھی ہے کیونکہ اس میں رجوع کا حق باقی رہتا ہے ۔
اگر اِس دوران ان کے درمیان صلح کی کوئی صورت نہیں نکلتی اورخاوند رجوع نہیں کرتا تو عدت گذرنے کے ساتھ ہی ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی ۔ اِس کو ’ طلاقِ بائن ۔ بینونہ صغری ‘بھی کہتے ہیں ۔
اِس طرح طلاق دینے سے فائدہ یہ ہو گا کہ عدت گذرنے کے بعد بھی اگر وہ دونوں پھر سے ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں ۔ ہاں اِس کیلئے انھیں نئے حق مہر کے ساتھ نیا نکاح کرانا ہو گا ۔
اور اگر کوئی شخص یہ عزم کر چکا ہو کہ بیوی کو تین طلاقیں دے کر اسے بالکل ہی فارغ کرنا ہے اوروہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو دوسرے طہر میں بھی بیوی سے صحبت کئے بغیردوسری طلاق دے ۔ یہ طلاق بھی ’طلاقِ رجعی ‘ ہوگی کیونکہ اسکے بعد بھی اسے عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل رہے گا ۔ تاہم اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو تیسرے طہر میں بھی بیوی کے قریب جائے بغیر تیسری طلاق دے دے ۔ جس کے بعد اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہو جائے گی ۔ اور اِس کو ’ طلاق ِ بائن ۔ بینونہ کبری ‘ کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے ۔
یہی طریقہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ فرمایا :

﴿الطَّلَاقُ مَرَّ‌تَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ﴾[البقرۃ:۲۲۹]
’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ ‘‘
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاق دینے سے پہلے اس کا شرعی طریقہ ایک اور انداز سے ۔۔۔۔
ہمارے پاس اگر کوئی شخص آئے اور وہ یہ کہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے تو ہم اس سے پوچھیں گے :
کیا تمھاری بیوی اِس وقت حالتِ حیض میں ہے یا حالتِ طہر میں ؟
اگر وہ یہ جواب دے کہ وہ حالتِ حیض میں ہے تو ہم کہیں گے : اس حالت میں طلاق دینا حرام ہے ۔ وہ پوچھے گا : کب طلاق دوں ؟ تو ہم کہیں گے : اس کے پاک ہونے کا انتظار کرو اور جب وہ پاک ہو جائے تو ہمارے پاس آنا ۔ جب وہ اس کے پاک ہونے کے بعد آئے گا تو ہم پوچھیں گے : کیا تم نے اس سے صحبت کی ہے ؟ اگر وہ یہ کہے کہ ہاں کی ہے تو ہم کہیں گے :جس طہر میں خاوند نے بیوی سے صحبت کر لی ہو اس میں طلاق دینا حرام ہے ۔ وہ پوچھے گا : تو میں اب کیا کروں ؟ ہم کہیں گے : جب تک اسے دوبارہ حیض نہ آئے اور وہ پاک نہ ہو تب تک انتظار کرو ۔ یا اگر حیض آنے سے پہلے اس بات پر یقین ہو جائے کہ اسے حمل ٹھہر چکا ہے تو تم طلاق دے سکتے ہو ۔
پھر جب وہ ہمارے پاس آئے اور کہے کہ اب اس کی بیوی حیض سے پاک ہو چکی ہے اور اس نے اس سے جماع بھی نہیں کیا تو ہم کہیں گے : ٹھیک ہے ۔ اب تم اسے ایک طلاق دے سکتے ہو ۔
اگر وہ یہ کہے کہ میں اسے تین طلاقیں دے کر بالکل ہی فارغ کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اس کے بعد میرے لئے حلال ہی نہ ہو ۔ تو ہم کہیں گے : نہیں ، تین طلاقیں بیک وقت دینا حرام ہے۔ وہ پوچھے گا : تب مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ ہم کہیں گے : اسے ایک ہی طلاق دو ۔
پھر وہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد اگر یہ کہے کہ میں اب اپنی بیوی کو اُس کے والدین کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں تو ہم کہیں گے : نہیں ، یہ تمھارے لئے جائز نہیں کہ تم اسے عدت کے دوران اپنے گھر سے نکال دو ۔ وہ پوچھے گا : تب وہ کہاں رہے ؟ تو ہم کہیں گے : وہ تمھارے پاس ہی رہے گی ۔ وہ پوچھے گا : کیا اسے مجھ سے پردہ کرنا پڑے گا ؟ ہم کہیں گے : نہیں ۔ وہ پوچھے گا : کیا اس کا بستر الگ ہو گا ؟ ہم کہیں گے : نہیں ، اس کا اور تمھارا بستر ایک ہی ہو گا ۔ بلکہ اس کیلئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ تمھارے لئے زیب وزینت اختیار کرے ۔ پھر اگر تمھارے اور اس کے درمیان ازدواجی تعلقات قائم ہو جائیں تو یہ طلاق سے رجوع ہو گا ۔
اگر وہ یہ کہے کہ کب تک وہ میرے گھر میں رہے گی ؟ تو ہم کہیں گے : جب تک اس کی عدت پوری نہیں ہوتی ۔ وہ پوچھے گا : اس کی عدت کتنی ہے ؟ تو ہم کہیں گے : اگر اس کو حیض نہیں آتا تو تین مہینے ۔ اور اگر اسے حیض آتا ہے تو اس کی عدت تین حیض یا تین طہر ہے ۔ اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضعِ حمل ہے ۔ عدت کے مکمل ہونے کے بعد وہ تمھارے اوپر حرام ہو جائے گی ۔ اور اب اسے کسی اور آدمی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے ۔ تاہم اگر وہ اوراس کا پہلا خاوند دوبارہ ازدواجی رشتے میں منسلک ہونا چاہیں تو نکاح جدید ومہر جدید کے ساتھ وہ اس رشتہ میں منسلک ہو سکتے ہیں ۔ یہ بہت بڑی حکمت ہے ایک ہی طلاق دینے میں ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنا
ابھی چند سطور قبل ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے کیونکہ یہ قرآنی تعلیمات کے اور رسول اکرم 1 کی ہدایات کے برخلاف ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دے تو اس کی یہ طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی ۔ اس کے چند اہم دلائل ملاحظہ فرمائیے :
اللہ تعالی کے فرمان:﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪﴾کی روشنی میں دو طلاقیں الگ الگ دینے کی جو حکمت ہم نے ذکر کی ہے یہ حکمت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو۔ورنہ اگر تینوں کو تین ہی شمار کر لیا جائے تو رجوع کا حق ختم ہو جائے گا جو سراسر نا انصافی ہے اور قرآنی حکم کے خلاف ہے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں جس پر انھیں شدید غم لاحق ہوا ۔ رسول اکرمﷺ نے ان سے پوچھا : تم نے اسے کیسے طلاق دی تھی ؟ انھوں نے کہا : میں نے اسے تین طلاقیں دی تھیں ۔ آپﷺ نے پوچھا : ایک ہی مجلس میں ؟ انھوں نے کہا :جی ہاں ۔ تو آپﷺ نے فرمایا : وہ تینوں ایک ہی ہیں لہذا تم اگر رجوع کرنا چاہتے ہو تو کر سکتے ہو ۔ لہذا انھوں نے رجوع کر لیا۔
[ مسند احمد : ج ۱ ص ۲۶۵ حدیث نمبر : ۲۳۸۷ ]
اس حدیث کو امام ابن تیمیہ ؒ ، امام ابن القیم ؒ اور علامہ احمدشاکر ؒ نے صحیح جبکہ محدث البانی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔
[ الفتاوی ج ۳ ص ۱۸ ، زاد المعاد ج ۵ ص ۲۶۳ ، ارواء الغلیل ج ۷ ص ۱۴۴ ]
اور حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے اور اس میں کوئی ایسی تاویل نہیں ہو سکتی جو دیگر روایات میں ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ [ فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۲ ]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

كَانَ الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ. فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
’’ رسول اکرم ﷺکے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ( اکٹھی )تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر5نے کہا : لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کیلئے مہلت موجود تھی ۔ لہذا کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ! پھر انھوں نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا ۔ ‘‘ [مسلم: ۱۴۷۲]
اس حدیث سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ ابتداء میں رسول اکرمﷺ کے عہد سے لیکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا تھا ، وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا جو حکم جاری کیا تھا اس کی اصل وجہ کیا تھی ۔یعنی جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے رہے ۔ بلکہ اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی پشت پر درے بھی رسید کرتے تھے ۔
[ فتح الباری :ج۱۱ص۲۷۷]
کیونکہ یہ فعل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا ۔لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انھوں نے سزا کے طور پرتین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غورو فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس اقدام کی وجوہات سے چونکہ دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آگاہ تھے اس لئے انھوں نے اس پر خاموشی اختیار کی۔
قارئین !آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیں
(فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ) ’’کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ۔‘‘
ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم رسول اللہ ﷺکا ہے بلکہ آپﷺنے اس حکم کی نسبت اپنی طرف کی۔ لہذا یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزِ عمل کو روکنے کے لئے انھوں نے کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے اپنے اِس فیصلے پر ندامت کا اظہارکیا تھا ۔
[ اغاثۃ اللہفان ج ۱ ص ۴۹۳]
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
کیا تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنااجماعی مسئلہ ہے ؟
بعض حضرات بڑے شد ومد سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب سے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیک وقت تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کیا تب سے اس حکم پر اجماع چلا آرہا ہے۔ اور اس سے سوائے اہلحدیثوں کے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا!!
یہ ایک بہت بڑی علمی خیانت اور اہلحدیث حضرات کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ ہے کیونکہ:
  1. عہد صدیقی رضی اللہ عنہ او رحضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی تو اس بات پر اجماع تھا کہ اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیاجائے! تو اس اجماع کی حیثیت کیا ہوگی ؟کیا حضرت عمررضی اللہ عنہ کے جاری کردہ ایک تعزیری حکم سے وہ اجماع باطل قرار پائے گا او رنا قابل عمل ہوگا ؟
  2. اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم ایک خلیفۂ راشد نے جاری کیا (اگرچہ یہ حکم ایک تعزیری حکم تھا ) لیکن انھیں ایک طلاق شمار کرنے کا قانون بھی تو ان سے افضل ایک خلیفۂ راشد ( حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ) ہی کے دورِ خلافت کا قانون تھا ۔پھر خود حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی اسی قانون کو دوسال تک درست قرار دیا ۔اسی طرح خلفائے راشدین میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مذہب بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شما رکرنا تھا۔ تو بتائیے آپ کے دعوائے اجماع کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟
  3. حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل تھے ۔ لہذا اجماع کا دعوی کرنا کیسے درست ما نا جائے گا !
  4. تابعینؒ و تبع تابعین ؒ میں سے عطاء ؒ،طاوسؒ اور عمر وؒ بن دینار وغیرہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے تھے۔ (فتح الباری :ج ۱۱ص۲۷۸)
  5. علمائے امت مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،حافظ ابن القیم ،حافظ ابن حجر ،امام قرطبی ،امام فخرالدین الرازی،امام شوکانی وغیرہ نے اس مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیاہے۔ توکیونکر اسے اجماعی مسئلہ تصور کر لیا جائے !
  6. ہندوستان میں اسلامک ریسرچ انسیٹیٹیوٹ احمد آباد کے زیر اہتمام نومبر ۱۹۷۳؁ء میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں چھ دیوبندی اوردو اہلحدیث علماء نے شرکت کی ۔اس میں ان میں سے سات نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر مقالے پیش کیے اور سوائے ایک کے باقی سب نے اس مسئلے کو عہد صحابہ ﷢سے ہی اختلافی مسئلہ قرار دیا اور سب نے وہی موقف اختیار کیا جو اہلحدیثوں کا ہے ۔اس سیمینار کی پوری کارروائی اور اس میں پیش کیے جانے والے مقالوں کو بعد میں ایک کتاب بعنوان ''ایک مجلس کی تین طلاق، قرآن و سنت کی روشنی میں''کی شکل میں شائع کر دیا گیا۔
  7. مشہور بریلوی عالم پیر کرم شاہ ازہری نے ''دعوت غوروفکر ''کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے احناف کو تقلید کے بندھن سے آزاد ہو کر قرآن و سنت کی روشنی میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ میں موقف ِاہلحدیث کی پُرزور حمایت اور تائیدکی ہے ۔
  8. اس وقت بھی بہت سارے اسلامی ملکوں میں یہ قانون موجود ہے کہ بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا ہے مثلا مصر ، سوڈان ، اردن ، شام ، مغرب ، عراق اور سعودی عرب وغیرہ ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
کویت کی وزارت اوقاف ومذہبی امور کا فتوی
کویت کی وزارت اوقاف ومذہبی میں فتوی کونسل سے کئی ایسے فتوے جاری ہو چکے ہیں جن میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرکے خاوندکو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بیوی سے رجوع کر لے ۔ مثلا فتوی نمبر ۴۴۴ میں ہے کہ ایک سائل نے سوال کیا :
میرا اپنی بیوی ( سامیہ ) سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تو میں نے اس سے کہا : تمھیں طلاق ہے ، طلاق ہے ، طلاق ہے ۔ اور یہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے ایسے کہا ۔ تو کیا جو کچھ میں نے کہا وہ صحیح ہے اور کیا میں اب رجوع کر سکتا ہوں ؟
کونسل نے جواب دیا :
’’ سائل نے اپنی بیوی کو جو کچھ کہا اس سے ایک ہی طلاق ’ طلاق رجعی ‘ واقع ہوئی ہے جس سے عدت کے اندر وہ رجوع کر سکتا ہے ۔اس کے بعد اسے مزید دو طلاقیں دینے کا اختیار حاصل ہو گا ۔ تاہم اسے نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرے۔ ‘‘ [ مجموعۃ الفتاوی ج ۲ ص ۹۴ ]
اسی طرح فتوی نمبر ۴۴۵ میں ہے کہ ایک سائل نے پوچھا :
میں نے اپنی بیوی کو یوں کہا: جاؤ تمھیں طلاق ہے ، طلاق ہے ، طلاق ہے ۔ پھرمیں نے اس سے رجوع کر لیا ۔ اس کے بعد دوبارہ اس سے جھگڑا ہوا تو میں نے پھر وہی کہا کہ جاؤ تمھیں طلاق ہے ، طلاق ہے ، طلاق ہے ۔ اب میں ایک بار پھر اس سے رجوع کرنا چاہتا ہوں۔
کونسل کا فتوی :
’’ پہلی اور دوسری مرتبہ اس نے جو کچھ کہا اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوئیں ۔ اس لئے عدت کے دوران اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اوراب اس کے پاس ایک ہی طلاق کا حق باقی ہے ۔ اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو اس کی بیوی اس کیلئے حلال نہیں ہو گی تا آنکہ وہ کسی اور آدمی سے بالکل صحیح شادی کرے ( حلالہ کی نیت سے نہیں ) ، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو عدت گذارنے کے بعد وہ چاہے تو اپنے پہلے خاوند کی طرف ( نئے نکاح کے ساتھ ) لوٹ سکتی ہے ۔ ‘‘ [ مجموعۃ الفتاوی ج ۲ ص ۹۵ ]
اسی طرح فتوی نمبر ۴۵۳ اور فتوی نمبر ۴۵۶ میں بھی کونسل کا یہی جواب مذکور ہے ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں سعودی علمائے کرام کے فتوے
’’طلاقِ ثلاثہ ‘‘کے مسئلے میں اکثر سعود ی علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرکے اس کے بعد خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہوگا ۔سو آئیے ان علماء کے فتوے ملاحظہ کریں ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شیخ ابن باز رحمہ اللہ
’’فتاوی المرأۃ المسلمۃ ‘‘میں شیخ صاحب کا تفصیلی فتویٰ موجود ہے جس کا اُردو ترجمہ ’’فتاوی علامہ عبد العزیز بن باز ص۲۹۵‘‘میں یوں کیا گیا ہے :
’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی جملہ میں تین طلاق دے دے مثلا یہ کہے کہ :تم کو تین طلاق ہے یا تم کو تین طلاق دے دی گئی تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ تینوں طلاقیں عورت پر واقع ہو جائیں گی اور عورت شوہر کے لئے حرام ہوجائے گی۔یہاں تک کہ اپنی مرضی سے (حلالہ کی غرض سے نہیں)کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلے اور اسے جماع کا موقع دے ۔ پھر دوسرا شوہر ( اپنی مرضی سے ) طلاق دے دے یا وہ مر جائے توپہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی۔ اس کی دلیل جمہور نے یہ پیش کی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں پر یہی حکم نافذ کیا تھا ۔
اور دوسرے لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ ایک ہی طلاق ہوگی اور عورت جب تک عدت میں ہے شوہر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ اور اگر عدت سے نکل گئی تو نکاح ِجدید کے ذریعے اس کو اپنے لئے حلال کرسکتا ہے ۔ اور دلیل میں صحیح مسلم کی یہ روایت پیش کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر فاروقرضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی تھیں۔ ‘‘ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’لوگوں نے ایسے ایک معاملے میں عجلت سے کام لیا جس میں ان کے لئے نرمی تھی، کاش ہم تینوں طلاقوں کو ان پر نافذ کردیں ‘‘ چنانچہ انھوں نے نافذ کردیا۔ مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابوصہبانے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا :’’کیا عہد رسالت ،عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی تین سالوں میں تین طلاقیں ایک طلاق نہیں مانی جاتی تھی ؟حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :ہاں کیوں نہیں ‘‘
ان کی دوسری دلیل مسند احمد کی روایت ہے جس کی سند جید ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ :’’ابورکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور اس کی وجہ سے ان کو افسوس ہوا ۔ تو رسول اللہ ﷺنے ان کی بیوی کو ان کے لئے حلال قرار دیا اور فرمایا کہ یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے۔‘‘
ان لوگوں نے اس حدیث کو اور اس سے پہلے والی حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ ایک ہی جملہ میں تین طلاقیں دی گئی تھیں تاکہ ان دونوں حدیثوں میں اور اس آیت میں کوئی تعارض نہ رہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪﴾ [البقرۃ :۲۲۹]
’’طلاق دو مرتبہ ہے‘‘اور اس آیت سے بھی تعارض نہ رہے :
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَ‌هُ ﴾[البقرۃ :۲۳۰] ’’اگر اس نے بیوی کو طلاق دے دی تو اس کے لئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (ایک صحیح قول کے مطابق )اسی کو اختیار کیاہے ۔جبکہ ایک دوسری روایت میں ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انھوں نے جمہور کا قول اختیار کیا ہے۔تین طلاقوں کو ایک طلاق ماننے والوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ،حضرت عبد الرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔
محمد بن اسحاق جوکہ سیرت نبوی کی مشہورکتاب المغازی کے مصنف ہیں وہ اور تابعین کی ایک جماعت بھی یہی کہتی ہے ۔اور متقدمین ومتاخرین علماء کی ایک جماعت ا سی کی قائل ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے ۔ اور میں بھی یہی فتوی دیتا ہوں اس لئے کہ اس میں تمام دلائل پر عمل ہوجاتا ہے اور اس میں مسلمانوں کے ساتھ رحمت وشفقت اور نرمی کا پہلو بھی ہے۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
اہم سعودی علماء کی فتو ی کونسل
حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ کے چند اہم علماء پر مشتمل تحقیقاتی کونسل کے سامنے جب یہ مسئلہ پیش ہوا اور ان علماء نے اس میں تحقیق کی تو اس کمیٹی کے پانچ اہم علماء نے جوفیصلہ لکھا اس کے ابتدائی الفاظ کچھ یوں ہیں :
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ وآلہ، وبعد: فنری أن الطلاق الثلاث بلفظ واحد طلقۃ واحدۃ
ترجمہ :
’’ حمد الٰہی او ر اللہ کے رسول اور ان کی آل پر درود و سلام کے بعد: ہمار ا موقف یہ ہے کہ ایک لفظ سے تین طلاقیں ایک طلاق ہی ہے۔‘‘[أبحاث ھیئۃ کبار العلماء :ج۱ص،۴۱۶]
پانچ علماء یہ تھے : شیخ ابن باز، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ خیاط، شیخ راشد بن حنین، شیخ محمد بن جبیر رحمہم اللہ جمیعا ۔
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
الشیخ عبد اللہ بن عقیل رحمہ اللہ
موصوف ایک سوال جو کہ ’’طلاق ثلاثہ ‘‘کے متعلق تھا کے جواب میں رقمطراز ہیں :

’’وأما سؤالک عن الراجح فی مسألة الطلاق الثلاث لکلمة أو لکلمات فقد تقرر وتکرر أننا نعتقد صحة ما رجّحہ شیخ الاسلام فیھا للوجوہ الکثیرة التی بینھا الشیخ وابن القیم ‘‘[الأجوبۃ النافعۃ عن المسائل الواقعۃ :۹۳]
’’ رہا آپ کا یہ سوال کہ ایک لفظ سے یا کئی الفاظ سے تین طلاقوں کے مسئلے میں کیا راجح ہے ؟ تو ہم پہلے بھی کئی بار اظہار کرچکے ہیں کہ ہم کئی وجوہات کی بناء پر اُس موقف کو صحیح سمجھتے ہیں جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے اور انھوں نے اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کے کئی دلائل ذکر کئے ہیں ۔‘‘
 

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شیخ عبداللہ بن عبد الرحمن البسام رحمہ اللہ
موصوف نے ’’بلوغ المرام ‘‘کی شرح توضیح الاحکام ج۵ص۱۸ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے ۔سب سے پہلے جمہور علماء کا مذہب اور ان کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ترجمہ :

’’ علماء کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ ایک لفظ یا کئی الفاظ سے دی گئی تین طلاقوں سے ایک طلاق ہی واقع ہو گی ۔اور یہ مذہب کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور اتباعِ مذاہب سے مروی ہے ۔ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ،ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، علیرضی اللہ عنہ ، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ او رزبیر بن عوامرضی اللہ عنہ اس مذہب کے قائل ہیں۔
اور تابعین میں سے طاوس، عطائ، جابر بن زید، عبد اللہ بن موسیٰ، محمد بن اسحق رحمہم اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اکثر شاگردوں نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔
اور اتباعِ مذاہب میں سے داود اور ان کے شاگردان ، اما م ابو حنیفہ کے بعض شاگرد ، امام مالک کے بعض شاگرد ،امام احمد بن حنبل کے بعض شاگرد،اسی طرح المجدعبد السلام بن تیمیہ اور ان کے پوتے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور پھر ان کے شاگرد جن میں امام ابن القیم سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنی دونوں کتابوں’’زاد المعاد‘‘ اور ’’اِغاثۃ اللہفان‘‘ میں اس مسئلے پر طویل بحث کی ہے اور مخالفین کے دلائل کا تسلی بخش جواب دیا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد شیخ بسام رحمہ اللہ نے جمہور کے دلائل کا جواب دیا ہے ۔ اور وہ جو عملِ صحابہ کو دلیل بناتے ہیں اس کے متعلق لکھتے ہیں :
ترجمہ :
’’رہا عملِ صحابہ سے استدلال تو آپ بتائیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کون پیروی کا زیا دہ حق دا رہے ؟جب کہ ہم کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی ۔ تو آپﷺکی وفات تک سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے تھے ۔ پھر عہد صدیقی میں بھی یہی حال تھا ،پھر عہد فاروقی کے ابتدائی سالوں میں بھی ایسا ہی رہا ۔ اس کے بعد تین کو تین شمار کیا جانے لگا جس کا سبب ہم بیان کرچکے ہیں۔ تو اس سے ثابت ہوا کہ خلافت ِعمر رضی اللہ عنہ سے پہلے تک جمہور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم تین کو ایک تصور کرتے تھے ۔ لہذا تین کو تین شمار کرتے ہوئے عمل صحابہ کو دلیل بنانا درست نہیں کیونکہ عہد صدیقی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جس بات پر اجماع تھا وہ اس کے خلاف ہے ۔‘‘
اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فیصلے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے الشیخ البسام رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ترجمہ :
’’جہاں تک حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ہم ان کے متعلق اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے متعلق ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایسا عمل کیا جس کا رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں وجود نہیں تھا ،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انھوں نے جب لوگوں کو دیکھا کہ وہ بکثرت تین طلاقیں اکٹھی دینے لگ گئے ہیں جوکہ حرام ہے تو انھوں نے لوگوں کو سبق سکھلانے کے لئے بطور تعزیر تین طلاقوں کو نافذ کردیا اور آپ کا یہ عمل اجتہادی تھا ۔ اوراجتہاداختلاف ِزمان ومکان کے ساتھ بدلتا رہتا ہے اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی جو تبدیل نہ ہو سکے ۔ لازم اور ناقابل تبدیل حکم وہی ہے جوکہ ابتداء ً اس مسئلے میں موجود تھا ۔‘‘
 
Top