بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنا
ابھی چند سطور قبل ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے کیونکہ یہ قرآنی تعلیمات کے اور رسول اکرم 1 کی ہدایات کے برخلاف ہے ۔ لہذا اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دے تو اس کی یہ طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی ۔ اس کے چند اہم دلائل ملاحظہ فرمائیے :
اللہ تعالی کے فرمان:
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪﴾کی روشنی میں دو طلاقیں الگ الگ دینے کی جو حکمت ہم نے ذکر کی ہے یہ حکمت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو۔ورنہ اگر تینوں کو تین ہی شمار کر لیا جائے تو رجوع کا حق ختم ہو جائے گا جو سراسر نا انصافی ہے اور قرآنی حکم کے خلاف ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں جس پر انھیں شدید غم لاحق ہوا ۔ رسول اکرمﷺ نے ان سے پوچھا : تم نے اسے کیسے طلاق دی تھی ؟ انھوں نے کہا : میں نے اسے تین طلاقیں دی تھیں ۔ آپﷺ نے پوچھا : ایک ہی مجلس میں ؟ انھوں نے کہا :جی ہاں ۔ تو آپﷺ نے فرمایا : وہ تینوں ایک ہی ہیں لہذا تم اگر رجوع کرنا چاہتے ہو تو کر سکتے ہو ۔ لہذا انھوں نے رجوع کر لیا۔
[ مسند احمد : ج ۱ ص ۲۶۵ حدیث نمبر : ۲۳۸۷ ]
اس حدیث کو امام ابن تیمیہ ؒ ، امام ابن القیم ؒ اور علامہ احمدشاکر ؒ نے صحیح جبکہ محدث البانی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔
[ الفتاوی ج ۳ ص ۱۸ ، زاد المعاد ج ۵ ص ۲۶۳ ، ارواء الغلیل ج ۷ ص ۱۴۴ ]
اور حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے اور اس میں کوئی ایسی تاویل نہیں ہو سکتی جو دیگر روایات میں ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ [ فتح الباری ج ۹ ص ۳۶۲ ]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
كَانَ الطَّلاَقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَبِى بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةً فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِى أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ. فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ
’’ رسول اکرم ﷺکے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ( اکٹھی )تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر5نے کہا : لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کیلئے مہلت موجود تھی ۔ لہذا کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ! پھر انھوں نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا ۔ ‘‘ [مسلم: ۱۴۷۲]
اس حدیث سے جہاں ہمیں یہ معلوم ہو ا کہ ابتداء میں رسول اکرمﷺ کے عہد سے لیکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں تک تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا تھا ، وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا جو حکم جاری کیا تھا اس کی اصل وجہ کیا تھی ۔یعنی جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے رہے ۔ بلکہ اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی پشت پر درے بھی رسید کرتے تھے ۔
کیونکہ یہ فعل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا ۔لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انھوں نے سزا کے طور پرتین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غورو فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس اقدام کی وجوہات سے چونکہ دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آگاہ تھے اس لئے انھوں نے اس پر خاموشی اختیار کی۔
قارئین !آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیں
(فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ) ’’کیوں نہ ہم اسے ان پرنافذ کر دیں ۔‘‘
ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم رسول اللہ ﷺکا ہے بلکہ آپﷺنے اس حکم کی نسبت اپنی طرف کی۔ لہذا یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزِ عمل کو روکنے کے لئے انھوں نے کیا تھا۔ بعد میں انھوں نے اپنے اِس فیصلے پر ندامت کا اظہارکیا تھا ۔
[ اغاثۃ اللہفان ج ۱ ص ۴۹۳]