وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
یہ بھی دیکھ لیں
پانچوں نمازوں کی پابندی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن و حدیث میں نماز پنجگانہ ادا کرنے کی بہت تاکید ہے لیکن ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اپنے مسلمان ہونے کی یہ شرط پیش کی کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا تو آپ نے یہ شرط قبول کر لی، اس طرح وہ شخص مسلمان ہوا۔ اس کے متعلق بتائیں کہ یہ حدیث کہاں اور کیسی ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن و حدیث میں نماز پنجگانہ کی پابندی پر بہت تاکید ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس شخص نے ان نمازوں کی حفاظت و پابندی کی تو وہ اس شخص کے لیے روزِ قیامت نور، دلیل اور نجات ہوں گی اور جس نے ان کی حفاظت نہ کی تو روزِ قیامت اس کے لیے نور، دلیل اور نجات نہیں ہو گی بلکہ وہ قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ (مسند امام احمد،ص169،ج2)
اس طرح حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا تاکہ دینی ماحول دیکھ کر ان کے دل گداز ہوں۔ انہوں نے اسلام لانے کے لیے یہ شرائط پیش کیں کہ وہ جہاد نہیں کریں گے، زرعی پیداوار سے عشر نہیں دیں گے نیز نماز نہیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ ہمارے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو ہم پر حاکم نہیں بنایا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے تم جہاد کے لیے نہیں جاؤ گے، نہ ہی تم سے عشر لیا جائے گا اور تم پر تمہارے علاوہ کسی دوسرے شخص کو حکمران نہیں بنایا جائے گا لیکن نماز کے متعلق چھوٹ نہیں کیونکہ جس دین میں نماز نہیں اس میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نہیں۔ (مسند امام احمد،ص218،ج4)
بہرحال نمازوں کی ادائیگی میں کچھ تخفیف تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی چھوٹ کے متعلق کوئی گنجائش نہیں۔ سوال میں جس حدیث کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی تفصیل حضرت نصر بن عاصم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لیث قبیلے کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے اسلام لانے کے لیے یہ شرط پیش کی کہ وہ صرف دو نمازیں پڑھے گا تو آپ نے اس کی شرط کو قبول کر لیا۔ (مسند امام احمد،ص363،ج5)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پانچوں نمازوں میں سے اگر دو پڑھ لی جائیں تو گزارہ ہو سکتا ہے حالانکہ مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر یہ مفہوم انتہائی محل نظر ہے، اس کے متعلق علماء حدیث نے کئی ایک توجیہات پیش کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب نمازیں دو ہی فرض تھیں، لیکن اس توجیہہ پر ہمارا دل مطمئن نہیں کیونکہ اگر دو نمازیں فرض تھیں تو اسے شرط لگانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
2۔ ممکن ہے باجماعت دو نمازیں ادا کرنے کی شرط لگائی ہو کہ صبح اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھوں گا اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے باقی ظہر، عصر اور مغرب باجماعت نہیں پڑھ سکوں گا، لیکن یہ ایک احتمال ہے حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کا یقین تھا کہ جب نماز کی لذت سے آشنا ہو گا تو خود بخود پانچوں نمازیں ادا کرنے پر مجبور ہو گا، اس لیے آپ نے اس کی شرط کو قبول کر لیا۔ اس قسم کی شرط قبول کرنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے کسی دوسرے شخص کو یہ اختیار نہیں کہ نمازوں کے متعلق یہ موقف اختیار کرے، اس توجیہ پر ہمارا دل مطمئن ہے۔ بہرحال پانچوں نمازیں ادا کرنا ضروری ہیں اور اس میں کمی و بیشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور مذکورہ حدیث کو کمی بیشی کے لیے بطور دلیل پیش کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
جلد4۔صفحہ نمبر 116
محدث فتویٰ