• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟؟

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔ جہاں تک میراخیال ہے کہ اگر علماء متفقہ طور پر جہیز کےحرام ہونے کا فتویٰ صادر کردیں، تو شادی کی 90 فیصد مشکلات وپریشانیاں دور ہوجائیں۔۔ کیونکہ جتنے مسائل نکاح وغیرہ میں جہیز کی وجہ سے پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

طے شادیاں یعنی منگنیاں وغیرہ ٹوٹ رہی ہیں۔۔ جہیز کی وجہ سے
رخصتی سے پہلے ہی نکاح ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔جہیز کی وجہ سے
طلاقیں ہو رہی ہیں ۔۔۔ جہیز کی وجہ سے
زنا عام ہوتا چلا جا رہا ہے ۔۔سبب جہیز ہے
بیٹیاں دلہن کا خواب لیے بوڑھی ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ سبب جہیز ہے۔
صنف نازک ظلم کی چکی میں پِسنے پر مجبور ہے۔۔۔ جہیز کی وجہ سے

الغرض جتنا فساد ومسائل جہیز نے پیدا کر رکھے ہیں۔ اتنے مسائل کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔
لیکن
لیکن
سوال پھر وہاں سے شروع ہوگا کہ ۔۔۔ کرے گا کون ؟
بہت آسان ہے آگہی کے نام سے۔۔۔
پروگرام شروع کریں۔۔۔ اور اُن تمام مسائل پر بات قرآن وحدیث کی روشنی میں کیجئے۔۔۔
جس کے گھر میں بیٹے ہیں اللہ رب العالمین نے انہی کو بیٹی جیسی رحمت سے بھی نوازا ہوگا۔۔۔
ہمارے ہاں این جی اوز جب انسان کی فلاح کے نام پر کاروائیاں کرسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔۔۔
یونیورسٹیز، کالجز میں لیکچرز کنڈکٹ کیجئے۔۔۔ وہاں کی انتظامیہ سے اجازت نامہ حاصل کرکے۔۔۔
بہت آسان کام ہے نیت کریں بعدین توکل اللہ۔۔۔ نیکی کے کام اللہ خود مدد کرتا ہے۔۔۔
ہم کب تک علماء کی طرف دیکھیں گے۔۔۔ یہ جانتے ہوئے کے وہاں سے کوئی رسپانس نہیں ملنا۔۔۔
پورا معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے۔۔۔ مجھے شدید تکلیف ہوتی ہے جب میں وہ پروگرام دیکھتا ہوں۔۔۔
جس میں نوجوان نسل جرائم میں ملوث ہے جیسے شکنجہ، انٹیروگیشن، جرم بولتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایک انسان اپنی فیملی سے دور پردیس میں اپنی ساری عمر اور بچوں سے دوری کی قربانی دیتا ہے۔۔۔
آگے سے اس کے بچے کو اغواء کرلیا جاتا ہے اور ساری جمع پونجی تاوان میں چلی جاتی ہے۔۔۔
بےحسی، خودغرضی، اور نفسی نفسی معاشرے میں انسانیت کی جڑوں کو کھوکلا کرچکی ہے۔۔۔
جو اسباب ہیں ہماری تنزلی کے۔۔۔اللہ تعالٰی ہمارے حالوں پر رحم فرمائیں۔۔۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اسلام نے بہت خوبصورت نظام دیا ہے،بشرطیکہ اسکو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ﴿الإسراء: ٨٢﴾
یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی

دونوں فرق بیان ہیں۔۔۔
دیکھ لیں روگرانی کے اثرات پورے معاشرے پر منڈلا رہے ہیں۔۔۔
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
جزاک اللہ خیرا ۔۔۔ جہاں تک میراخیال ہے کہ اگر علماء متفقہ طور پر جہیز کےحرام ہونے کا فتویٰ صادر کردیں، تو شادی کی 90 فیصد مشکلات وپریشانیاں دور ہوجائیں۔۔ کیونکہ جتنے مسائل نکاح وغیرہ میں جہیز کی وجہ سے پیدا ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

طے شادیاں یعنی منگنیاں وغیرہ ٹوٹ رہی ہیں۔۔ جہیز کی وجہ سے
رخصتی سے پہلے ہی نکاح ٹوٹ رہے ہیں ۔۔۔۔۔جہیز کی وجہ سے
طلاقیں ہو رہی ہیں ۔۔۔ جہیز کی وجہ سے
زنا عام ہوتا چلا جا رہا ہے ۔۔سبب جہیز ہے
بیٹیاں دلہن کا خواب لیے بوڑھی ہوتی جا رہی ہیں۔۔۔ سبب جہیز ہے۔
صنف نازک ظلم کی چکی میں پِسنے پر مجبور ہے۔۔۔ جہیز کی وجہ سے

الغرض جتنا فساد ومسائل جہیز نے پیدا کر رکھے ہیں۔ اتنے مسائل کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔
لیکن
لیکن
سوال پھر وہاں سے شروع ہوگا کہ ۔۔۔ کرے گا کون ؟
صحیح بولا آپ نے اللہ ہمیں ان اعمال سے بچائیں
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
967
ری ایکشن اسکور
2,912
پوائنٹ
225
کلیم بھائی اور شداد بھائی نے بہت اچھے طریقے سے بات کی
دوسری شادی شائد اس معاشرے میں بدعا بن کر رہہ گئ ہے شداد بھائی نے ٹھیک کہا کے اب تو لوگ اپنی بیٹی کی شادی سے پہلے جنتر منتر والوں سے جادو تک کر وا لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انسان آداھا پاگل ہو جاتا ہے تو وہ دوسری شادی کیا کرے گا ۔۔۔ اس معاملے میں عورتیں ہی آگے بھڑ کر اس اسلامی روائت کو آگے بھڑا سکتی ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی ان کے باپ بھائی اور بیوی کر سکتے ہیں اسی فورم میں پچھلے دنوں ہماری ایک بہن اسلام ڈیفنڈر کا نکاح ایک شادی شدہ مرد کے ساتھ ہوا ہے اور ان کو پسند بھی ان صاحب کی پہلی بیوی نے کیا تھا ۔۔ اور جہیز یقینی طور پر اس ملک میں لعنت کی شکل اخیار کر چکا ہے اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے اور شادی میں فضولیات کو مٹانے کے لیے ہمیں خود میدان عمل میں آنا ہو گا
اللہ سبحان و تعالٰی کا شکر ہے میں نے کچھ عرصہ قبل اپنے بیٹے اور بیٹی کا نکا ح کیا تھا مسجد میں نکاح میں صرف میٹھا تھا نہ ہم نے کچھ جہیز لیا اور نہ ہی ہم نے جہیز دیا اللہ کا شکر ہے میرا بیٹا بھی خوش اور میری بیٹی بھی ۔۔۔جزاک اللہ خیرا
 

فائق راؤ

مبتدی
شمولیت
جولائی 07، 2013
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
6
اسلام علیکم
بھائی آپ کی بات سے اتفاق ہےلیکن پہلی شادی ہی نبھالیں بڑی بات ہے۔اور جو لڑکیاں اپنے اندر یہ سوچ پیدا کرلیتی ہیں کہ نہ وہ سوکن بنیں گیں اور نہ بننے دیں گیں ۔انکیسوچ کو کسےختم کریں
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
صوفیا سے لاکھ اختلاف سہی ،مگر ان لوگوں کی دین کی محنت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
آج ہم صوفیا اکرام سے اختلاف تو بہت کرتے ہیں لیکن جہاں تک میرا کم علم ہے۔ ہمارے علماءبس میٹھی سرُلگا کے تقاریر کے عادی ہو چکے ہیں اور ہم سننے کے عادی۔آج علماءروکیں بھی تو کتنی تعداد ہے جو علماء کی بات مانتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خود عمل نہیں ہے۔ جب انسان کے اندر اخلاص نہ ہو تو پھرسامعین کیا عمل کریں گے۔
لیکن صوفیااکرم کے ہاتھ پر اگر کسی نے بیعت کی تو انہوں نے بیعت ہونے والوں کو اگر روک دیا کسی غلط کام سے تو مجال ہے وہ بندہ ان کی کہی ہوئی بات کے خلاف کرے۔بات ہے اخلاص کی، عمل کی۔
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
میں بھی اسی طرف اشارہ کررہا تھا کہ سب سے پہلے جہیز کی لعنت کا اجتماعی طور پر بائیکاٹ کیا جائے۔۔۔ دوسری فضول اور غیرضروری رسومات کا بائیکاٹ کیا جائے تیسری چیز میانہ روی جس کی تعلیم اسلام ہرموقع پر دیتا ہے اس پر سختی عمل کیا جائے۔۔۔ اور یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہم ہی کو اپنے بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے جب یہ سوچ انفرادی ہوجائے گی تو معاشرہ خود با خود ہر قسم کے شر وفساد سے پاک ہوجائے گا۔۔۔
جزاک اللہ خیرا بھائی۔ آپ سنجیدہ اور وسیع النظر آدمی لگتے ہیں۔
ورنہ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ بقول ایک مصنف کے ۔۔۔


بزرگ نے فرمایا :
"شیطان، انسان کے نفس پر نیکیوں ہی کے بہانے قابو پاتا ہے اور اُس سے وہی اعمال کرواتا ہے جو اُس کے نفس کو مرغوب ہوں"۔
آج ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں ایک طرف مسلمان اخلاقی ، سیاسی اور معاشی طور پر ذلیل سے ذلیل تر ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف مکہ اور مدینہ کو دوڑ دوڑ کر آنے والوں کی تعداد میں ہر سال لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے ۔
حرم شریف میں شبِ قدر کی دُعا میں شریک ہو نے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پھر بھی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے نہ کسی مسلمان کے اخلاق یا کردار میں تبدیلی آتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے ؟
ایسا اس لئے ہے کہ آج ہمارا ہر عمل وہ ہے جو ہمارے نفس کو مرغوب ہے ۔ ایسا کوئی حکم جو اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہو لیکن اگر وہ۔۔۔
ہمارے موڈ کے خلاف ہو ،
مزاج اور اصول سے میل نہ کھا تا ہو
یا اُسے ہماری عقل اور منطق (Rationale & logic) تسلیم نہ کرتی ہو،
تو ہم اُس پر ہر گز عمل نہیں کرتے !
نہ صرف اُسے ٹال دیتے ہیں بلکہ ضمیر کی تسلی کیلئے کوئی نہ کوئی جواز بھی پیدا کر لیتے ہیں ۔بلکہ فتوے بھی ساتھ لئے پھرتے ہیں۔
پوچھئے کسی بے پردہ خاتون سے ، کہے گی پردہ آنکھوں میں اور دل میں ہونا چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی سمجھدار مسلمان سے دعوت و تبلیغ کی فرضیت کے بارے میں تو کہے گا پہلے آدمی کو خود باعمل ہونا چاہئے اُسکے بعد دوسروں کو دعوت دینی چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی جہیز کے عوض بِکنے والے بھکاری بے غیرت مرد سے ، کہے گا ہم نے ہرگز نہیں مانگا لڑکی والوں نے سب کچھ اپنی خوشی سے دیا۔
پوچھئے سود اور رشوت کے نظام کا ساتھ دینے والوں سے ۔کہیں گے یہ تو سسٹم ہے ۔
پوچھئے جھوٹ، غیبت، چغلی،بدگمانی،حسد اور فریب کرنے والوں سے، کہیں گے دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ ہم بُری نیّت سے کوئی کام نہیں کرتے۔
پوچھئے قطع رحمی یعنی رشتے داریاں کاٹنے والوں سے ، کہیں گے اگر دوسرے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔
ہر شخص یو ں تو نمازی اور با عمل ہے لیکن ہر ایک نے اپنی پسند کی عبادت کو پکڑ رکھا ہے ۔ کسی کو داڑھی پسند ہے تو کسی کو نماز ۔کسی کو نفل عمرے یا حج کرنا تو کسی کو دوسری تیسری شادی کرنا یا کسی کو خدمت خلق کا ادارہ کھولنا پسند ہے ۔لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے جس کا حکم سب سے پہلے انکی ذات پر نافذ ہوتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہیں اور وہی بہانے بناتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔

اسی فطرت کی عکاسی سورہ الحجرات (آیت:14) میں یوں کی گئی ہے :
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
ترجمہ : یہ بدّو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ان سے کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے تم یہ کہو کہ اسلام لائے ہو۔ایمان تو تمہارے دلو ں میں ابھی داخل بھی نہیں ہوا۔
اسلام لائے ۔۔۔ یعنی دوسرے لوگ جو کام کر رہے ہیں تم بھی کر رہے ہو !
دوسرے نماز پڑھتے ہیں تم بھی پڑھتے ہو دوسرے روزہ ، زکٰوة ، ختنہ، نکاح اور تدفین وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں، تم بھی چلتے ہوتاکہ مسلمان سوسائٹی میں تمہیں بھی شمار کیا جائے۔ لیکن ایمان لانا الگ چیز ہے جو ابھی تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا، صرف زبانوں پر ہے ۔اسی لئے جب اصل امتحان کا وقت آتا ہے تو تم دوسری عبادتوں کو پیش کر کے اپنے ضمیر کی تسلی کرنا چاہتے ہو جو دراصل اللہ تعالٰیٰ کو چکمہ دینا ہے ۔ ایک کمانے والے سے حلال کمائی کا سوال پہلے ہوگا بعد میں نمازوں کا ۔ ایک دولہے یا دولہے کے ماں باپ سے جوڑا جہیز اور غیر اسلامی رسومات کا سوال پہلے ہوگا ، روزوں اور زکوٰة کا بعد میں ۔
اسی طرح ایک استطاعت رکھنے والے سے نفل عمروں اور نفل حج کا سوال بعد میں ہوگا پہلے انفاق کا ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جزاک اللہ خیرا بھائی۔ آپ سنجیدہ اور وسیع النظر آدمی لگتے ہیں۔
ورنہ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ بقول ایک مصنف کے ۔۔۔
بزرگ نے فرمایا :
"شیطان، انسان کے نفس پر نیکیوں ہی کے بہانے قابو پاتا ہے اور اُس سے وہی اعمال کرواتا ہے جو اُس کے نفس کو مرغوب ہوں"۔
آج ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں ایک طرف مسلمان اخلاقی ، سیاسی اور معاشی طور پر ذلیل سے ذلیل تر ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف مکہ اور مدینہ کو دوڑ دوڑ کر آنے والوں کی تعداد میں ہر سال لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے ۔
حرم شریف میں شبِ قدر کی دُعا میں شریک ہو نے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پھر بھی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے نہ کسی مسلمان کے اخلاق یا کردار میں تبدیلی آتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے ؟
ایسا اس لئے ہے کہ آج ہمارا ہر عمل وہ ہے جو ہمارے نفس کو مرغوب ہے ۔ ایسا کوئی حکم جو اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہو لیکن اگر وہ۔۔۔
ہمارے موڈ کے خلاف ہو ،
مزاج اور اصول سے میل نہ کھا تا ہو
یا اُسے ہماری عقل اور منطق (Rationale & logic) تسلیم نہ کرتی ہو،
تو ہم اُس پر ہر گز عمل نہیں کرتے !
نہ صرف اُسے ٹال دیتے ہیں بلکہ ضمیر کی تسلی کیلئے کوئی نہ کوئی جواز بھی پیدا کر لیتے ہیں ۔بلکہ فتوے بھی ساتھ لئے پھرتے ہیں۔
پوچھئے کسی بے پردہ خاتون سے ، کہے گی پردہ آنکھوں میں اور دل میں ہونا چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی سمجھدار مسلمان سے دعوت و تبلیغ کی فرضیت کے بارے میں تو کہے گا پہلے آدمی کو خود باعمل ہونا چاہئے اُسکے بعد دوسروں کو دعوت دینی چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی جہیز کے عوض بِکنے والے بھکاری بے غیرت مرد سے ، کہے گا ہم نے ہرگز نہیں مانگا لڑکی والوں نے سب کچھ اپنی خوشی سے دیا۔
پوچھئے سود اور رشوت کے نظام کا ساتھ دینے والوں سے ۔کہیں گے یہ تو سسٹم ہے ۔
پوچھئے جھوٹ، غیبت، چغلی،بدگمانی،حسد اور فریب کرنے والوں سے، کہیں گے دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ ہم بُری نیّت سے کوئی کام نہیں کرتے۔
پوچھئے قطع رحمی یعنی رشتے داریاں کاٹنے والوں سے ، کہیں گے اگر دوسرے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔
ہر شخص یو ں تو نمازی اور با عمل ہے لیکن ہر ایک نے اپنی پسند کی عبادت کو پکڑ رکھا ہے ۔ کسی کو داڑھی پسند ہے تو کسی کو نماز ۔کسی کو نفل عمرے یا حج کرنا تو کسی کو دوسری تیسری شادی کرنا یا کسی کو خدمت خلق کا ادارہ کھولنا پسند ہے ۔لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے جس کا حکم سب سے پہلے انکی ذات پر نافذ ہوتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہیں اور وہی بہانے بناتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اسی فطرت کی عکاسی سورہ الحجرات (آیت:14) میں یوں کی گئی ہے :
قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
ترجمہ : یہ بدّو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ان سے کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے تم یہ کہو کہ اسلام لائے ہو۔ایمان تو تمہارے دلو ں میں ابھی داخل بھی نہیں ہوا۔
اسلام لائے ۔۔۔ یعنی دوسرے لوگ جو کام کر رہے ہیں تم بھی کر رہے ہو !
دوسرے نماز پڑھتے ہیں تم بھی پڑھتے ہو دوسرے روزہ ، زکٰوة ، ختنہ، نکاح اور تدفین وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں، تم بھی چلتے ہوتاکہ مسلمان سوسائٹی میں تمہیں بھی شمار کیا جائے۔ لیکن ایمان لانا الگ چیز ہے جو ابھی تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا، صرف زبانوں پر ہے ۔اسی لئے جب اصل امتحان کا وقت آتا ہے تو تم دوسری عبادتوں کو پیش کر کے اپنے ضمیر کی تسلی کرنا چاہتے ہو جو دراصل اللہ تعالٰیٰ کو چکمہ دینا ہے ۔ ایک کمانے والے سے حلال کمائی کا سوال پہلے ہوگا بعد میں نمازوں کا ۔ ایک دولہے یا دولہے کے ماں باپ سے جوڑا جہیز اور غیر اسلامی رسومات کا سوال پہلے ہوگا ، روزوں اور زکوٰة کا بعد میں ۔
اسی طرح ایک استطاعت رکھنے والے سے نفل عمروں اور نفل حج کا سوال بعد میں ہوگا پہلے انفاق کا ۔
جواب دیا جاچکا ہے۔۔۔
ہم ہی کو اپنے بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے جب یہ سوچ انفرادی ہوجائے گی تو معاشرہ خود با خود ہر قسم کے شر وفساد سے پاک ہوجائے گا۔۔۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
آج ہم صوفیا اکرام سے اختلاف تو بہت کرتے ہیں لیکن جہاں تک میرا کم علم ہے۔ ہمارے علماءبس میٹھی سرُلگا کے تقاریر کے عادی ہو چکے ہیں اور ہم سننے کے عادی۔آج علماءروکیں بھی تو کتنی تعداد ہے جو علماء کی بات مانتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خود عمل نہیں ہے۔ جب انسان کے اندر اخلاص نہ ہو تو پھرسامعین کیا عمل کریں گے۔
لیکن صوفیااکرم کے ہاتھ پر اگر کسی نے بیعت کی تو انہوں نے بیعت ہونے والوں کو اگر روک دیا کسی غلط کام سے تو مجال ہے وہ بندہ ان کی کہی ہوئی بات کے خلاف کرے۔بات ہے اخلاص کی، عمل کی۔
جی حسن بھائی اخلاص کا مل جانا بہت بڑی بات ہے ،حدیث شریف میں ملتا ہے کہ کسی کا صرف ایک بار اللہ اکبر کہنا اگر قبول جائے،تو اسکے جنت جانے کے لئے کافی ہے،اگر غور کیا جائے تو اگر ہم واقعتاً اللہ کی بڑائی کے قائل ہو جائے، تو پھر اللہ کے حکم کے مقابلے میں رسم رواج کی کیا حثیت رہتی ہے۔لیکن ہر نماز میں اذان میں ہم کہتے اللہ تو بڑا ہے مگر مسجد سے باہر تو اللہ کی بڑائی کہیں نظر نہیں آتی ، ہم جہاں بھی ہیں ہم نے اللہ کو چھوڑ کر کئی رب بنا ئے ہوئے ہیں ،مولانا لاہور یؒ فرمایاکرتے تھے،اگر اذان سن کر دکان اس اندیشے سے بند نہ کرو کہ رزق کم ہو جائے گا تو حقیقت میں اس نے اللہ کو رزاق ماننے سے انکار کر دیا ہے ،اب اسکا رب دکان ہے ،اب وہ مسجد میں آئے یا کہتا رہے کہ میرا رب اللہ ہے ۔لیکن عملی طور پر تو اس نے دکان کو اللہ حکم پر ترجیح دی ہے۔تو نتیجہ عمل پر آئے گا،کہنے پر نہیں آئےگا۔
علامہ مرحوم نے کہا تھا

بھیس بدل بدل کر آتے ہیں ہر زمانے میں​
پیر ہے آدم ہے جواں ہیں لات ومنات​
بس ہم بتوں کو تو نہیں پوجھتے مگر مٹی بتوں کو چھوڑ کر اور بڑے بت ہم نے اپنے من میں سجا کر رکھے ہیں ،اللہ ہم کو سمجھ دے ،تو فیق دے ،اور اایسے مشائخ کی صحبت دے کہ ہم تمام بتوں کو پاش پاش کر کے اللہ کو وقعہی بڑا ماننا شروع کر دے۔
صوفیا تعلیمات میں تو حید پر بہت زور دیا جاتا ہے،لا معبود الا اللہ لا مسجود الا اللہ ۔مگر کیا کیا جائے۔۔۔۔
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پاکستان میں تو ایک شادی کر لیں‌تو دوسرے کا نام لینے والے یا کرنے والے کو مُجرم بنا دیتے ہیں، آج کی عورت کے اندر اتنا حوصلہ ہی نہیں‌کہ وہ مرد کو دوسری عورت کے بارے میں سوچنے بھی دے ، مرد اگر برابری رکھ سکتا ہے تو اُسے شریعت اجازت دیتی ہے کہ وہ دو تین یا چار شادیاں کر لے۔ اسلام ڈیفینڈر سسٹر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالی ہماری اُس بہن کو ہمیشہ خوش رکھے آمین۔

مرد اگر عیاشی کے لیے شادیاں کرتا پھرتا ہے تو اُس کے لیے کیا حکم ہے شریعت میں ؟ شریعت نے اگر حکم شادی کا دیا ہے تو اُن کے حقوق پورے کرنا بھی اُن کا فرض بتایا ہے مگر آج کل کے معاشرے شادی کا لفظ مذاق بن کر رہ گیا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ مرد ایک شادی تک محدود رہ گیا کہ کیونکہ ہمارے معاشرے میں بننے والی پہلی بیوی اور سسرال والے دوسری شادی کرنے کو گندلی گالی کے طور پر سمجھتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے دینی گھرانے دیکھیں گے جو ہر بات کو شریعت کے حساب کرتے ہیں مگر اپنے مرد کو دوسری شادی کے لیبات کرتا دیکھ کر وہ شریعت بھول جاتے ہیں ایسا کیوں؟
 
Top