• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس کا ذمہ دار کون ہے ؟؟؟؟

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سب سے پہلے جہیز جیسی لعنت کو ختم کیا جائے اور فضول کافرانہ رُسومات بند کر دینی چاہیے ، جس کی طرف حرب بن شداد بھائی نے بات کی ہے، بہت سی لڑکیاں اس جہیز جیسی لعنت کا شکار ہو جاتی ہیں اور گرھ بیٹھی بوڑھی ہونے لگتی ہیں اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ رشتہ ملنا مشکل ہو جاتے ہیں، اور سب سے بڑی بیماری بعض والدین میں یہ ہوتی جو ذات کے نام پر اپنی بچیوں کو گھر میں بوڑھا کر لیتے ہیں
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
ہمارے ملک میں، میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اور مذکور مسئلہ کا ذمہ دار عام عوام میں موجود جہالت ہے، اور آج کل "جدید جہالت" کا دور دورہ ہے، جس کے شکار لوگوں کو عام طور پر پڑھے لکھے جاہل کہا جاتا ہے۔ جدید جہالت کی شروعات ہوتی ہے اولاد کی تربیت سے۔ آج کل کے اکثر والدین اولاد کو بس کھلا پلا کر اور ہوم ورک کروا کر سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ اولاد کی تربیت پر کوئی فوکس نہی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو کارٹون، تھوڑا بڑا ھوا تو ڈرامے فلمیں، اور پھر جب ہاتھوں سے نکل گیا تو رون پٹن۔ اوپر سے معذرت کے ساتھ، حنفی بھایوں نے عورت کو مسجد میں آنے پر ڈرا کر رکھا ہوا ہے، جمعہ تک نہی پڑھتی اکثر عورتین۔۔۔ کیسے ہوگی وہ نبوی اصلاح، کہاں ہوگا عورتوں کے لئے "و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ"۔۔۔ عورت جو کہ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ہے، اسے گھر میں بٹھا کر، مسجد، علم، تذکیہ نفس سے دور کر کہ، انڈین ڈرامے دکھا دکھا کر، نئی نصل کایہی حال ہونا ہے پھر بھائی۔۔۔ مسلمانوں کی آنے والی نسل کو بچانا ہے، تو آج کی مسلمان عورت کو بچاو۔۔۔ اس کہ نا پختہ ذہن کو آلود ہونے سے پہلے ہی اسلام کے سانچے میں ایسا ڈھال دو کہ پھر کوئی جیو، اے ار وائے، ہم ٹی وی اس کی سوچ و فکر کو متاثر نہ کر سکے۔۔۔ اس کام کے لئے ایک مجاھدہ نے علم بلند کیا، الھدی اور النور کے نام سے اس سفر کا آغاز کیا، مگر وہی گھٹیا مسلکی تعصبات نے اس نیک کام پر بھی تنقید سے پرہیز نہ کیا۔۔۔ اس کار خیر میں میرے نزدیک حنفی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاھئے، اور مسلکی تعصب کو ایک طرف رکھ کر عورتوں کے مساجد میں آنے، خطبات و دروس سننے کو پروموٹ کرنا چاھیئے۔۔۔ اور ھمارے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ہمارے با اثر علماء کو حکومت اور اس کہ ملحقہ اداروں کو خاص حکمت و دانائی اور باقائدہ پلیننگ کے ساتھ، میڈیا پر موجود ہنود و یہود کی مکروہ سازشوں، اور بے حیا ڈراموں اور اشتھارات پر پابندی کی طرف راغب کرنا چاھیئے۔۔۔ جدید تحریک نسواں نے جہاں بہت سی قبیح برایئوں کو جنم دیا ہے، وہاں عورت کے ذہن کو بڑے مکر سے آزادی کا نام لے کر "آوارگی" کی طرف راغب کر دیا ہے۔۔۔ ہماری بیٹیاں ایک آیڈیئل دنیا میں رہ رہی ہیں۔۔۔ وہ ویسے ہی شوہر کی تلاش میں ہیں جیسا انہوں نے کسی ڈرامے میں دیکھا تھا۔۔۔ وہ ویسے ہی ماحول کی تلاش میں ہیں جیسا انھوں نے کسی فلم میں دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر اصل دنیا اس سے مختلف ہے۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آیڈیئل ماحول کی متلاشی لڑکی جب حقیقی ماحول کو دیکھتی ہے تو اس پر ری ایکٹ کرتی ہے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یا تو موجودہ رشتوں سے انکار، یا پھر شادی کے بعد بربادی کی صورت میں آتا ہے۔۔۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔۔۔ دوسری طرف۔۔۔ آج کل کے ماں باپ، خصوصا لڑکے کہ گھر والے، جہاں اپنی دو بیٹیاں پال رہے ہیں، وہاں ایک اور بیٹی، یعنی بہو کو سمبھالتے ہوئے جان جاتی ہے، اور اس امید میں بیٹھے رہتے ہیں کہ بیٹا کمایئگا تو شادی کرنی ہے۔۔۔ تاکہ خد ہی سمبھالے اپنی بیوی کو۔۔۔ اور اس انتظار میں بیٹا غلط کاموں میں پڑ جاتا ہے، اور معاشرہ کی نوجوان لڑکیاں ہاتھ پیلے کرنے سے بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔ اور اس بیروزگاری کے دور میں یہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے بارہ میں ابو بصیر بھائی نے پوسٹ کی ہے۔۔۔۔ اس کہ علاوہ جہیز، برادری سسٹم اور "لوگ کیا کہیں گے" سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔۔۔ اللہ ہمیں سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔۔۔ جزاک اللہ خیرا۔۔۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
ہمارے ملک میں، میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اور مذکور مسئلہ کا ذمہ دار عام عوام میں موجود جہالت ہے، اور آج کل "جدید جہالت" کا دور دورہ ہے، جس کے شکار لوگوں کو عام طور پر پڑھے لکھے جاہل کہا جاتا ہے۔ جدید جہالت کی شروعات ہوتی ہے اولاد کی تربیت سے۔ آج کل کے اکثر والدین اولاد کو بس کھلا پلا کر اور ہوم ورک کروا کر سمجھتے ہیں کہ فرض پورا ہو گیا۔ اولاد کی تربیت پر کوئی فوکس نہی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو کارٹون، تھوڑا بڑا ھوا تو ڈرامے فلمیں، اور پھر جب ہاتھوں سے نکل گیا تو رون پٹن۔ اوپر سے معذرت کے ساتھ، حنفی بھایوں نے عورت کو مسجد میں آنے پر ڈرا کر رکھا ہوا ہے، جمعہ تک نہی پڑھتی اکثر عورتین۔۔۔ کیسے ہوگی وہ نبوی اصلاح، کہاں ہوگا عورتوں کے لئے "و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ"۔۔۔ عورت جو کہ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ہے، اسے گھر میں بٹھا کر، مسجد، علم، تذکیہ نفس سے دور کر کہ، انڈین ڈرامے دکھا دکھا کر، نئی نصل کایہی حال ہونا ہے پھر بھائی۔۔۔ مسلمانوں کی آنے والی نسل کو بچانا ہے، تو آج کی مسلمان عورت کو بچاو۔۔۔ اس کہ نا پختہ ذہن کو آلود ہونے سے پہلے ہی اسلام کے سانچے میں ایسا ڈھال دو کہ پھر کوئی جیو، اے ار وائے، ہم ٹی وی اس کی سوچ و فکر کو متاثر نہ کر سکے۔۔۔ اس کام کے لئے ایک مجاھدہ نے علم بلند کیا، الھدی اور النور کے نام سے اس سفر کا آغاز کیا، مگر وہی گھٹیا مسلکی تعصبات نے اس نیک کام پر بھی تنقید سے پرہیز نہ کیا۔۔۔ اس کار خیر میں میرے نزدیک حنفی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاھئے، اور مسلکی تعصب کو ایک طرف رکھ کر عورتوں کے مساجد میں آنے، خطبات و دروس سننے کو پروموٹ کرنا چاھیئے۔۔۔ اور ھمارے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، ہمارے با اثر علماء کو حکومت اور اس کہ ملحقہ اداروں کو خاص حکمت و دانائی اور باقائدہ پلیننگ کے ساتھ، میڈیا پر موجود ہنود و یہود کی مکروہ سازشوں، اور بے حیا ڈراموں اور اشتھارات پر پابندی کی طرف راغب کرنا چاھیئے۔۔۔ جدید تحریک نسواں نے جہاں بہت سی قبیح برایئوں کو جنم دیا ہے، وہاں عورت کے ذہن کو بڑے مکر سے آزادی کا نام لے کر "آوارگی" کی طرف راغب کر دیا ہے۔۔۔ ہماری بیٹیاں ایک آیڈیئل دنیا میں رہ رہی ہیں۔۔۔ وہ ویسے ہی شوہر کی تلاش میں ہیں جیسا انہوں نے کسی ڈرامے میں دیکھا تھا۔۔۔ وہ ویسے ہی ماحول کی تلاش میں ہیں جیسا انھوں نے کسی فلم میں دیکھا تھا۔۔۔۔ مگر اصل دنیا اس سے مختلف ہے۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آیڈیئل ماحول کی متلاشی لڑکی جب حقیقی ماحول کو دیکھتی ہے تو اس پر ری ایکٹ کرتی ہے۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یا تو موجودہ رشتوں سے انکار، یا پھر شادی کے بعد بربادی کی صورت میں آتا ہے۔۔۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔۔۔ دوسری طرف۔۔۔ آج کل کے ماں باپ، خصوصا لڑکے کہ گھر والے، جہاں اپنی دو بیٹیاں پال رہے ہیں، وہاں ایک اور بیٹی، یعنی بہو کو سمبھالتے ہوئے جان جاتی ہے، اور اس امید میں بیٹھے رہتے ہیں کہ بیٹا کمایئگا تو شادی کرنی ہے۔۔۔ تاکہ خد ہی سمبھالے اپنی بیوی کو۔۔۔ اور اس انتظار میں بیٹا غلط کاموں میں پڑ جاتا ہے، اور معاشرہ کی نوجوان لڑکیاں ہاتھ پیلے کرنے سے بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔ اور اس بیروزگاری کے دور میں یہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے بارہ میں ابو بصیر بھائی نے پوسٹ کی ہے۔۔۔۔ اس کہ علاوہ جہیز، برادری سسٹم اور "لوگ کیا کہیں گے" سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔۔۔ اللہ ہمیں سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔۔۔ جزاک اللہ خیرا۔۔۔

زبردست ۔۔۔۔اچھا تبصرہ کیا ہے​
آج کے حالات کے مطابق​
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
تمام بھائیوں نے اچھا تبصرہ کیا ہے
لیکن ایک چیز کا ذکر نہیں ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاد۔۔۔۔قتال فی سبیل اللہ
جب جہاد ۔۔۔قتال فی سبیل اللہ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو ذلت تو ملے گی نا
ویسے بھی جس قوم پر ٹیکس لگتا ہے وہ قوم غلام ہوتی ہے
اگر جزیہ نہیں لو گے تو پھر زندہ رہنے کے لیے ٹیکس دینا پڑے گا
اللہ کا ایک نظام ہے ۔۔۔۔۔اگر مسلمان اللہ کے نظام کے مطابق نہیں چلتے تو ذلت لازمی مقدر بنے گی
جزاکم اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت اچھا تھریڈ ہے، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں!

مجھے شاکر بھائی اور دُعا بہن کی بات سے اتفاق ہے۔ یہ بہت بڑی وجوہات ہیں لڑکیوں شادیاں نہ ہونے کی۔

علاوہ ازیں بلوغت کے بعد جلد شادی سے اجتناب، شروع میں اونچے معیارات مقرر کر لینا بعد میں پچھتانا، لڑکوں لڑکیوں کی تعلیم اور لڑکوں کی جاب وغیرہ کو شادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنا بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

دین میں ہر مسئلے کا بہترین حل موجود ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کرتے اور پھر بعد میں کہتے ہیں مسلمانوں پر اتنی مشکلات کیوں آتی ہیں؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ ہر مسئلے میں بالعموم بلا استثناء تمام علمائے کرام ﷭ کو رگیدنا مناسب نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان میں علمائے سوء بھی ہوتے ہیں جو کافروں سے بھی پہلے جہنم میں جائیں گے، بلکہ جن سے جہنم کی آگ کو بھڑکایا جائے گا (والعیاذ باللہ! اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں)، یہ بھی تسلیم کہ علمائے حق میں خامیاں موجود ہیں، انبیائے کرام﷩ کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں، آج کل تو زمانہ اتنی پستی کا شکار ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ظاہر ہے کہ علماء بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہیں جو معاشرے پر اثر انداز ہونے کی بجائے معاشرے کی چکا چند سے متاثر ہیں۔

لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اگر آج حق باقی ہے، قرآن وحدیث پڑھا پڑھایا جا رہا ہے، تبلیغ ہو رہی ہے (چاہے ناقص ہی کیوں نہیں)، مسلمانوں میں دین کی رمق اور تھوڑا بہت جذبہ موجود ہے تو وہ اللہ کی توفیق سے انہیں علماء کی بدولت ہے۔ لہٰذا ہر مسئلے علماء کو بالعموم مطعون کرنے سے گریز کیا جائے۔یہ غیروں (اہل مغرب) کا اور ان کے زیر اثر میڈیا کا پروپیگنڈا ہے کہ لفظ مولوی کو گالی بنا دیا جائے، ہر بات میں علماء کو مورد الزام ٹھہرایا جائے تاکہ لوگ اپنے آپ کو ان سے چنگل سے بچا لیں۔ سوال یہ ہے کہ علماء کو چھوڑ کر، دین (جو علماء کے پاس ہی ہے) سے ناطہ توڑ کر ہمارا کیا بنے گا؟

شیخ التفسیر مولانا محمد حسین روپڑی﷫ فرمایا کرتے تھے کہ ٹھیک ہے کہ علماء میں بہت خامیاں موجود ہیں لیکن تمہیں اگر کہیں دین ملے گا تو وہ بھی انہی علماء کے قدموں میں ہی ملے گا۔

اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جب لوگوں نے ضعیف احادیث سے استدلال کرنا شروع کر دیا تو ایک گروہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ بجائے اس کے صحیح اور ضعیف حدیث میں فرق کرکے ضعیف حدیث کو کنڈم کرتے انہوں نے اصلاً حدیث کا ہی انکار شروع کر دیا اور منکرین حدیث کہلائے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
تعدّد ازواج کے متعلق ہمارے ہاں افراط وتفریط موجود ہے۔ نہ تو اسے فرض اور لازمی سمجھنا چاہئے اور نہ ہی اس کی مذمت ہونی چاہئے، اکثر انبیائے کرام﷩ اور جلیل القدر صحابہ کرام﷢ کی زیادہ شادیاں تھیں، تاریخ اس پر شاہد ہے۔
 
Top