اس شعر پر تنقید سے پہلے اگر ان کی تصحیح کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ابراہیم بھائی آپ نے دو مختلف مصرعوں کو ملا کر ایک شعر بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں مصرعے الگ الگ اشعار کے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!
جو صاحبان اس کو غلط سمجھتے ہیں وہ غلطی کی تھوڑی وضاحت کر دیں۔
جو صاحبان اس شعر کو غلط سمجھتے ہیں ان میں ایک میں بھی ہوں، میرے خیال کے مطابق اس شعر میں مرد مومن کے نگاہ سے تقدیر بدلنے کی بات ہو رہی ہے۔
دراصل یہ صوفیت کا اثر ہے جس میں اس قسم کے من گھڑت باتیں کی جاتی ہیں، جیسے ایک صوفی کا جھوٹا واقعہ منسوب ہے جس کی کوئی سند کوئی دلیل نہیں کہ اس نے ایک فرض نماز میں جب سلام پھیرا تو دائیں طرف والے سارے حافظ قرآن اور بائیں سائیڈ والے ناظرہ قرآن پڑھنے والے ہو گئے۔
لہذا یہاں نگاہ سے مراد نظر بھی ہے اور کچھ لوگوں نے یہاں دعا بھی مراد لیا ہے۔
اگر یہاں نظر مراد لیا جائے تو سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر انسانوں میں کس کی نظر صاف ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون زیادہ اللہ سے ڈرتا ہو گا؟ کوئی نہیں۔ تو یہ نظر مکہ کے کفار و مشرکین پر کئی بار پڑیں لیکن وہ ایمان نہیں لائے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر چاہتے تھے کہ وہ ایمان لائیں۔
فَلَعَلَّكَ بَـٰخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰٓ ءَاثَـٰرِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا۟ بِهَـٰذَا ٱلْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿٦﴾۔۔۔سورۃ الکھف
ترجمہ: پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
لیکن چونکہ ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے
إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهْدِى مَن يَشَآءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ ﴿٥٦﴾۔۔۔سورۃ القصص
ترجمہ: آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے
پس میں اس شعر کو کتاب و سنت کے خلاف پاتا ہوں جس کی وجہ سے یہ غلط ہے، آپ کی نظر میں اگر اس شعر کی تشریح کچھ اور ہو اور اس بات کے صحیح ہونے کے متعلق کوئی بات ہو تو یہاں دلیل کے ساتھ شئیر کریں۔