السلام علیکم
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو یقیں پیدا تو کٹ جاتیں ہیں زنجیریں
پچھلےکافی دنوں سے دل مچل رہا تھا اور خاموشی نے لبوں کو جامد کر رکھا تھا،جس کو احباب کے تبصروں نے رونق بخشی اور اللہ اللہ کرکے مسکراہٹ نصیب ہوئی۔ یعنی اداسی ختم ہوئی اور زندگی میں خوشی کا احساس ہوا۔ اور کچھ امید سی بن آئی اور ذہن نے انگڑئیاں سی لی پھر انگلیوں میں کچھ چلبلاہٹ سی ہوئیاور پھر باقاعدہ حرکت پذیر ہوگئیںاور جو حرکتیں شروع ہوئیں وہ آپ کے سامنے پیش ہیں ،اور اب آپ حضرات ہی فیصلہ کر فرمائیںگے کہ حرکت میں برکت ہوئی یا برکت میں حرکت ہوئی۔ لیجئے ملاحظہ فرمائیں:
اگر اس شعر کو ظاہری معنٰی پر محمول کیا جائے گا تو کسی کی بھی نگاہ سے تقدیر نہیں بدلا کرتی۔اور کلام کے باطنی معنٰی پر توجہ ڈالی جائے گی تو بات اس طرح نکل کر آئے گی ’’نگاہ مرد مومن ‘‘ سے مرا’’د جذبہ ایمان‘‘ بہادری ، قوت ارادے کی پختگی، یا مومن کی فراست مراد ہو سکتی ہے
حدیث پاک میں مومن کی فراست کا ذکر یوں ہے
تم مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
(ترمذی، الجامع، ابواب التفسیر، ۲: ۱۴۵)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کر دیں تو اللہ اسے ضرور پورا کرتا ہے۔
(بخاری، کتاب الصلح ، ۱ : ۳۷۲)
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’بہت سے بکھرے بالوں والے جن کو دروازوں سے دھکے دے جاتے ہیں اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کریں تو
اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا کرتا ہے‘‘
(مسلم، الجامع ، کتاب البر، ۲: ۳۲۹)
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک مجوسی رہتا تھا ایک روز اپنے گلے میں زنار پہنے اور اس کے اوپر مسلمانوں کا لباس پہن کر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور کہنے لگا
حضور ! ایک حدیث کا مطلب دریافت کرنے آیا ہوں۔ حدیث میں آتا ہے
: یعنی مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے :
اس حدیث کا مطلب کیا ہے ؟
حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ مسکرائے اور فرمایا
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تو اپنا زنار توڑ کفر چھوڑ اور کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو جا "
مجوسی نے جب یہ سنا تو فورا پکار اٹھا
’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ : صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘
اور مسلمان ہو گیا
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہٰ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
تو کیا اللہ کے نور سے بھی دیکھا جا تا ہے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتے ہیں جس کا القاء مومن کے قلب پر ہوتا ہے پھر وہ اس خدا دا فراست سے بات کو سمجھ لیتا ہے
اقبال کے ہاں عشق سے مراد ایمان ہے ایمان کا پہلا جُز حق تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار ہے عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں کا مطلب ہمت اور جذبہ صادق ہے اگر جذبہ اور ہمت تو بڑی سے بڑی مشکل آسان ہوجاتی ہے، جیسا کہ اس شعر میں اشارہ ہے ملاحظہ فرمائیں۔
دشت تو دشت رہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے!
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے!
یہ شعر حرارت ایمانی اور ہمت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اور اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں
مشکلیں امت ِمرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ھمدوش ِ سلیماں کردے
علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لئے اقبا ل دعا گو ہیں ”امت مرحوم“ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر مرد ہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جو ش و جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں
تو کہنے کا مطلب یہ ہے شاعرانہ کلام کا ظاہر کچھ ہوتا ہے اور باطن کچھ اور ہوتا ہے اگر سوچ مثبت ہے تو مثبت پہلو اجاگر ہوں گے اور اگر منفی پہلو ہیں تو منفی نتائج برآمد ہوں گے
فقط واللہ اعلم بالصواب